سیاسی

چوہدری شجاعت کی جیل میں پرویزالہی سےملاقات کا اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔ سربراہ مسلم لیگ ق چوہدری شجاعت نے پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہی سے کیمپ جیل میں ملاقات کی۔ ملاقات میں چوہدری شجاعت حسین کا بیٹا بھی موجود تھا۔ کیمپ جیل میں ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ محکمہ داخلہ کی اجازت سے ملاقات ایڈمن بلاک میں کرائی گئی۔ صحافی نعیم اشرف بٹ کے مطابق چوہدری شجاعت نےپرویزالہی کو پی ٹی آئی چھوڑکر خاندان میں واپسی کی دعوت دی۔ ذرائع کے مطابق پرویزالہی کو کہاگیا اپ واپس اجائیں توبہترہوسکتےہیں،پرویزالہی نےپتحریک انصاف چھوڑنےسےانکار کردیا۔ اے آروائی کے ذرائع کے مطابق پرویزالہی کوبتایاگیاکیسز میں خاندان کےافراد کا عمل دخل نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے وکیل شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز خٹک ایک دو روز میں اپنی سیاسی جماعت متعارف کروا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پارٹی کے زیادہ تر اراکین پی ٹی آئی کے سابق عہدیدار، ایم این اے اور ایم پی اے ہیں۔ پارٹی کو اقتدار کی راہداریوں کی مکمل آشیرباد اور حمایت حاصل ہے۔ انکے مطابق ملاکنڈ میں پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما سمجھوتہ کر چکے ہیں اور ایک بہت ہی سینئر نام بڑا سرپرائز دینے والا ہے۔ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کی بے پناہ عزت کرتا ہوں اور کاش وہ پی ٹی آئی کے ساتھ رہتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی پارٹی مالاکنڈ ڈویژن، فاٹا کے سابق چھ اضلاع لکی مروت اور کوہاٹ سے حمایت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی والوں کو پرویز خٹک سے تعاون کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ شیر افضل مروت نے مزید کہا کہ نئی پارٹی کے معمار پشاور، ہزارہ، بنوں، کوہاٹ اور ڈی آئی خان ڈویژن سے کسی کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کو خراج تحسین۔ دوسرے مرحلے میں اس نئی پارٹی کو جے کے ٹی استحکم پارٹی میں ضم کر دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ پرویز خٹک 2013 سے 2018 تک پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ رہے اور 2018 سے 2022 تک وفاقی وزیر دفاع رہے، ان کے بھائی، بھانجے، داماد، بھائی اور خاندان کی تین خواتین 2013 سے ایم این اے اور ایم پی اے کے عہدوں پر فائز رہیں۔ مختلف تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک اپنی جماعت کا اعلان بدھ یاجمعرات کو کرسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سابق اراکین پر مشتمل نئی سیاسی جماعت کی افتتاحی تقریب میں موجود پی ٹی آئی کے متعدد سابق رہنماؤں ے آئی پی پی میں شمولیت سے انکار کردیا۔ تفصیلات کے مطابق یہ انکشاف نجی ٹی وی چینل کے پروگرام " نیا پاکستان " میں میزبان شہزا اقبال نے کیا اور کہا کہ 9 مئی کے بعد گرفتار ہونے والے اور کچھ سابق اراکین کی جانب سے استحکام پاکستان پارٹی قائم کی گئی، اس پارٹی کے قیام سے قبل جہانگیر ترین کی جانب سے دیئے گئے عشایئے اور پارٹی کی افتتاحی تقریب میں موجود رہنماؤں نے پارٹی میں شمولیت سے انکار کردیا ہے۔ شہزاد اقبال نے کہا کہ ہم نے آئی پی پی کے بہت سے رہنماؤں کو پروگرام میں آنے کی دعوت دی تو انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم نے آئی پی پی جوائن نہیں کی صرف عشایئے میں شرکت کی تھی، جب ان سے پارٹی کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے متعلق سوال پوچھا گیا تو ان رہنماؤں نے اسےاپنی مجبوری قرار دیا اور کہا کہ اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ صحافی و اینکر پرسن شہزاد اقبال نے کہا کہ ان تمام لوگوں نے اپنی مختلف مجبوریوں کا ذکر کیا مگر ایک مسئلہ ان سب کا مشترک تھا کہ یہ سب نو فلائی لسٹ میں موجودگی سے پریشان تھے اور انہیں لگتا تھا کہ آئی پی پی جوائن کرکے یہ مشکل ختم ہوسکتی ہے۔ شہزاد اقبال نے کہا کہ ایک رہنما نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر آئی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کروائی جاسکتی ہے،ایک طرف پارٹی صدر عبدالعلیم خان مزید پی ٹی آئی رہنماؤں کے آئی پی پی میں شمولیت کے دعویدار ہیں وہیں پارٹی کے ساتھ کھڑے ارکان اپنی پوزیشن کلیئر کرنے میں ناکام ہیں۔ شہزاد اقبال نے اپنے پروگرام کی یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری، عمران اسماعیل، علی زیدی اور دیگر آئی پی پی میں شامل ہوئے ہیں یا نہیں، آئی پی پی میں شمولیت کے حوالے سے متعدد رہنما انکاری ہیں
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو کہتی ہیں بلاول بھٹو نے حکومت کے خلاف بیان دیا ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلاول بھٹو کے حکومت مخالف بیان کے بعد جو کھچڑی پکائی جارہی ہے اس کا پتہ ڈھکن کھلنے کے بعد ہی چلے گا۔ انہوں نے بتایا میں ایوان میں مثبت بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اسپیکر صاحب نے مجھے کہا کہ تقریر کرکے چلی جائیں،5ارکان بیٹھے ہوتے ہیں تو بلز پاس کردیے جاتے ہیں،اس وقت افراتفری کا عالم ہے، پتہ نہیں چل رہا کون کہاں جارہا ہے۔ اپوزیشن والے کہتے ہیں آئندہ ٹکٹ ن لیگ سے لینے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتا ایسی اپوزیشن کہاں ہوتی ہے؟اس وقت تو سب کو ترقیاتی فنڈز کی فکر لگی ہوئی ہے، مجھے بھی ترقیاتی فنڈ کا کہا گیا لیکن میں نے انکار کردیا، پیپلزپارٹی کے لیے ماحول تو بنا ہوا ہے اصل مسئلہ اس وقت ن لیگ کو درپیش ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں سائرہ بانو نے کہا کہ ابھی یہ نہیں معلوم کہ آئی پی پی کس کے پلڑے میں بیٹھتی ہے، حالانکہ پاور سیکٹر کی آئی پی پی نے تو ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے اور گرشی قرضے بڑھ گئے ہیں۔
اتحادی حکومت میں پھوٹ کی وجہ آئین کی بالادستی یا قانون کی حکمرانی کیلئے نہیں اقتدار کیلئے ہے: سینئر تجزیہ کار سینئر تجزیہ کار محمد حسن رضا نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام اختلافی نوٹ میں مولانا فضل الرحمن کے بیان "آئندہ انتخابات میں یہی اتحاد حکومت بنائے گا" پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پتا نہیں کون سے اتحاد کی بات ہو رہی ہے یہ وہی اتحاد ہے جس نے ایک سال کے اندر اڑھائی کروڑ افراد بے روزگار کر دیئے، 10 کروڑ عوام کو خط غربت سے نیچے پہنچا دیا اور سیلاب زدہ افراد کیلئے بھی کچھ نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ اتحاد اقتدار میں آیا کیوں تھا؟ اتحادی حکومت کا مقصد صرف اور صرف اپنے ذاتی مقاصد اور مفادات حاصل کرنے تھے، اگر ان کا مقصد عوام کے مسائل حل کرنا ہوتا تو انتخابات کی طرف جاتے۔ اتحادی حکومت کے اندر سے آوازیں کیوں اٹھ رہی ہیں کہ انتخابات آگے بھی جا سکتے ہیں؟ حکومت کے اختتام پر خفیہ اداروں سے ان کی رہنمائی لے کر مختلف سروے کیوں کروائے جا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میرے ذرائع کے مطابق عوام ایک سروے کروایا گیا ہے جس میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر کی آپشن کے ساتھ سروے میں عوام سے رائے لی گئی۔ سروے کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کو 41 فیصد، مسلم لیگ ن کو 27 فیصد اور باقی 32 فیصد شہریوں نے کوئی رائے نہیں دی۔ تحریک انصاف کی سروے میں آپشن ہی شامل نہیں تھی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں اب پھوٹ پڑ گئی ہے جس کی وجہ آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی یا ملک وقوم کیلئے نہیں اقتدار کیلئے ہے۔ایک طرف لگتا ہے کہ پھوٹ پڑ گئی ہے، اختلافات پیدا ہو رہے ہیں لیکن انتہائی اہم بات یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کے بڑے نوازشریف اور آصف علی زرداری میں روابط جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں پھوٹ اس وقت پڑے گی جب آصف زرداری کے منصوبے کے مطابق لاہور سے ایم این اے کی ایک سیٹ جیتنے کی کوشش کی جائے گی۔ چند دن قبل آصف زرداری صاحب نے لاہور جلسے سے خطاب کرنا تھا تو خوش آمدید کے بینر تک اتار لیے گئے تھے جس کا آج تک پتہ نہیں لگا کہ وہ کس نے اتارے؟ ہمیں لڑائی میں شدت تو دکھائی دے رہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا بیٹھ کر مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔ پہلے طے ہوا کہ گورنر پنجاب پیپلزپارٹی کا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا پھر فنانس منسٹری بھی پیپلزپارٹی کو نہیں ملی اور آزادکشمیر میں بھی اختلافات سامنے آئے۔ چیئرمین پی سی بی، نادرا چیئرمین ، سندھ میں ڈویلپمنٹ، مردم شماری کے علاوہ پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ جیسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں، یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔
‏ندیم افضل چن بھی سیاست سے مایوس ہوگئے۔کہا کہ سنجیدگی سے سیاست چھوڑنے کا سوچ رہا ہوں اے آر وائی نیوز سے وابستی صحافی نعیم اشرف بٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ جمہوریت، رول آف لاء اور لوگوں کی لیے کچھ کر نہیں پار ہے۔میرے والد کی گرفتاری کی وجہ شائد پیپلزپارٹی کی میٹنگ میں میرا یہ کہنا تھاکہ نون کی بجائے پی ٹی آئی سے اتحاد کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسوقت پنجاب میں اینٹی نواز ووٹ کی اکثریت ہے۔ انہوں نے مزید کہا پکہ پیپلزپارٹی بروقت انتخابات چاہتی ہے لیکن دیگر اتحادی تاخیر چاہتےہیں۔ انکا کہنا تھا کہ محسن نقوی بےبس،تگڑےوزیراعلیٰ نہیں ہیں،بیوروکریسی کو ہدایات ہیں کہ صرف نون کاکام کرنا ہے۔ انہوں نے معنی خیز انداز میں مزید کہا کہ استحکام والےاسوقت میرےخلاف ہوگئےجب میں نےکابینہ میں ترین پرشہزاد اکبر کی مخالفت کی،اگر ابھی میں پی ٹی آئی Iمیں ہوتاتوکبھی نہ چھوڑتاجیل جاتا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پرویزالہی سےجو سلوک ہورہا ہے ایسانہیں ہوناچاہیے۔
سوشل میڈیا پر خبریں زیر گردش ہیں کہ جنرل فیض حمید ریتائرڈ زیر حراست ہیں، لیکن انصار عباسی کے مطابق ذرائع نے دعویٰ کیا ہے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید زیر حراست نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا کی کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو ان کے آبائی شہر چکوال کی رہائش گاہ میں نظر بند کر دیا گیا ہے اور 9مئی کے حملوں کے حوالے سے ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ دی نیوز نے تین مختلف ذرائع سے رابطہ کیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ جنرل فیض کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا، ان میں سے ایک ذریعے کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی گزشتہ دنوں میں جنرل فیض حمید ریٹائرڈ سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ نمائندے نے سابق آئی ایس آئی چیف سے ان کے موبائل نمبر پر بھی رابطے کی کوشش کی لیکن نمبر بند تھا،جنرل فیض حمید میڈیا اور سیاست دونوں میں بحث کا مرکز بنے ہوئے ہیں کیونکہ آئی ایس آئی میں بطور ڈی جی سی اور اس کے بعد ڈی جی کے طور پر ان کا دور تنازعات سے گھرا ہوا تھا۔ سیاسی میدان اور میڈیا میں کئی لوگوں کا الزام ہے عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے فیض حمید ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک رہے ہیں۔ کچھ کا الزام ہے کہ جنرل فیض حالیہ مہینوں میں بھی عمران خان کو مشورہ دیتے رہے ہیں۔ نو مئی کے حملوں کے پیچھے فیض عمران کے تعلق کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم یہ رپورٹس غیر مصدقہ ہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ریٹائرڈ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس بھی تھا جو موجودہ نیب چیئرمین کے تقرر سے قبل نیب کو بھیجا گیا تھا، بیورو نے ریفرنس واپس کر دیا۔ دی نیوز کی مارچ میں خبر کے مطابق نیب راولپنڈی کے دفتر کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری شروع کرنے کیلئے ایک فائل موصول ہوئی تھی جس میں جنرل فیض کے انکم ٹیکس ریکارڈ کی مکمل تفصیلات اور چکوال کے کچھ نامعلوم مقامی افراد کے دستخط کے ساتھ دو صفحات پر مشتمل ایک شکایت درج کرائی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا تھا ڈی جی نیب راولپنڈی نے فائل پر غور کیا اور اپنے اس وقت کے چیئرمین سے مشاورت کے بعد کیس کو اس ہدایت کے ساتھ واپس کردیا متعلقہ حکام کی جانب سے بیورو کو باضابطہ درخواست کی جائے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا نے چند ماہ قبل کہا تھا جنرل فیض حمید ریٹائرڈ کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے اور اس بارے میں جو بھی پیش رفت ہوئی وہ میڈیا سے شیئر کی جائے گی، وزیر داخلہ نے بتایا تھا جنرل فیض کے خلاف کون سا ادارہ تحقیقات کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا تھا سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کس بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں، رانا ثنا نے کہا تھا جنرل فیض کا کورٹ مارشل صرف ادارہ ہی کرا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملٹری ٹرائل جی ایچ کیو کراتا ہے وزارت داخلہ نہیں۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کی کمان میں تبدیلی سے ایک روز قبل بہاولپور کے کور کمانڈر اور انٹر سروس انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے استعفیٰ دے کر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ جنرل فیض حمید ان 6 سینئر ترین جرنیلوں میں شامل تھے جن کا نام جی ایچ کیو نے 2 اعلیٰ ترین فوجی عہدوں کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا تھا،کور کمانڈر بہاولپور کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جنرل فیض حمید پشاور میں اسی عہدے پر تعینات تھے۔ انہیں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے مبینہ طور پر ان دونوں رہنماؤں کو سزا دلوانے میں کردار ادا کرنے اور پی ٹی آئی کے تحت بننے والے گزشتہ سیٹ اَپ کی حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
استحکام پاکستان پارٹی کی اکثریت بڑی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کی خواہشمند صحافی نعیم اشرف بٹ کا کہنا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کی اکثریت بڑی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ کی خواہشمندہے اور پارٹی کے اکثررہنما ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ نعیم اشرف بٹ کے مطابق جہانگیرترین اکثریتی رائے لیکر لندن گئے ہیں اور امکان ہے کہ ان کی لندن میں نوازشریف سے ملاقات ہو۔ انکا مزید کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں آئی پی پی کے رہنما مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ جبکہ سنٹرل پنجاب میں ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ ن لیگ کا مفاہمتی گروپ جو شہبازشریف کے قریبی لوگوں پر مشتمل ہے، وہ چار سے 5 سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ چاہتا ہے جبکہ مریم نواز گروپ ایک سیٹ پر بھی ایڈجسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں صحافی کے مطابق پیپلزپارٹی بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حق میں نہیں، وہ کہتی ہے کہ ہماری پارٹی میں شمولیت اختیارکریں۔ پیپلزپارٹی تحریک انصاف چھوڑنے والوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں پیپلزپارٹی کی قیادت کئی نسلوں سے فوج کا سیاسی کردار ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ کام ایک رات میں یا فوجی تنصیبات پر حملوں سے نہیں ہوگا، یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے سویلین اداروں کو اپنا مضبوط مقام بنانا ہوگا۔ الجزیرہ کو انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا عراق اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلقات ہیں، عراق کےساتھ معاشی اور تجارتی شعبوں میں تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان سمیت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہورہی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ہے، چین اور پاکستان کے تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں، چین اور پاکستان کے درمیان اہم شراکت داری ہے، سی پیک منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطےکےلیےگیم چینجرثابت ہوگا۔ بلاول بھٹو نے کہا روس سے دو طرفہ اقتصادی تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہیں۔ملکی سیاسی صورتحال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کا اصل مسئلہ یہ ہے فوج ان کی مددکیوں نہیں کررہی؟ چیئرمین پی ٹی آئی کے فوج سے مسائل اس وقت ہوئےجب فوج نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا۔ وزیر خارجہ نے کہا جمہوری ادارے مضبوط ہو کر ہی فوج کا سیاسی کردار ختم کر سکیں گے۔ملک میں جمہوریت کے سوال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت ایک عبوری دور میں ہے اور جمہوریت کی جانب سے پیش قدمی کر رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے کہا ہے کہ مجھے اکتوبر میں الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے اگر اسمبلی اور حکومت کی توسیع کا معاملہ آیا تو میں حمایت کروں گا۔ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے اے آر وائی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے اکتوبر میں الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے، آئینی طور پر حکومت کو 6 ماہ تک توسیع کی گنجائش ہے، اگر اسمبلی اور حکومت کی توسیع کا معاملہ آیا تو میں حمایت کروں گا۔ راجا ریاض نے کہا کہ جو بند جیل سے گھر چلا جائے اس کا مطلب ہے کہ اس نے کمٹمنٹ کی ہے اور جو کمٹنٹ نہیں کرتا اس اس کی دوبارہ جیل میں واپسی ہو جاتی ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تو بہت پہلے ہی چیئرمین پی ٹی آئی کو پہچان گئے تھے، انہوں نے جو بُزدارکو وزیراعلیٰ لگایا، فرح گوگی اور دم درود پر چلے اس نے ملک کی کیا خدمت کرنی ہے۔ کچھ لوگ چیئرمین پی ٹی آئی کو غلط مشورے دیتے تھے اب سب سے پہلے وہی لوگ انہیں چھوڑ گئے۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ جہانگیر ترین بھائی ہیں لیکن انکی جماعت میں میرا جانے کا کوئی امکان نہیں، میرا ذہن بنا ہوا ہے کہ میں نے کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ ن لیگ نے جو بھی بات ہمارے ساتھ کی وہ پوری کرنے کو تیار ہیں،موجودہ حکومت سے اس لیے فرینڈلی ہوں کیونکہ موجودہ بحران کا ذمے دار پی ٹی آئی کو سمجھتا ہوں۔ اس سے پہلے راجا ریاض نے کہا تھا چیئرمین تحریک انصاف نے خود کش حملہ کرکے اپنی پارٹی تباہ کردی، عثمان بزدار اور فرح گوگی کی کرپشن کے ثبوت دیئے تو میرے ہی کمیٹی میٹنگ میں بیٹھنے پر پابندی لگ گئی۔ راجا ریاض نے کہا تھا کہ 3 سال پہلے چیئرمین پی ٹی آئی سے اختلاف کیا اور جہانگیر ترین کا ساتھ دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو ثبوت دیے کہ عثمان بزدار اور فرح گوگی کرپشن کر رہے ہیں،عثمان بزدار اور فرح گوگی کے خلاف جو کچھ چیئرمین پی ٹی آئی سے کہا وہ سچ ثابت ہو رہا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے مجھ پر کمیٹی کی میٹنگ میں بیٹھنے پر پابندی لگا دی۔
نو مئی کے واقعات کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر میڈیا پر دکھانے پر پابندی کے بعد سوشل میڈیا کا سہارا لیا جارہاہے، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت کی طرف سے 9 مئی کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا مؤقف زیادہ تر مقامی ٹی وی چینلز پر نظر نہیں آ رہا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کی طرف سے مقامی ٹی وی چینلز کو باضابطہ طور پر کوئی ایسی ہدایات نہیں دی گئیں کہ عمران خان یا ان کی جماعت کی خبر نشر کرنے پر پابندی ہو گی تاہم 31 مئی کو پیمرا نے پاکستانی نیوز چینلز کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا،جس میں کہا گیا تھا کہ وہ نفرت انگیز بیانیے کو ترویج دینے والوں کو وقت دینے سے گریز کریں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس صورت میں سوال یہ ہے کیا ایسی کوئی خفیہ ہدایات موجود ہیں کہ عمران خان کا نام نشر نہ کیا جائے،پاکستانی ٹی وی چینلز میں کام کرنے والے متعدد رپورٹرز اور بیورو چیفس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آن ریکارڈ اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا۔ دو چینلز کے عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ان کے مالکان کو متنبہ کیا گیا عمران خان کا نام یا تصویر نشر نہ کی جائے اور اگر ضروری ہو تو انھیں تحریکِ انصاف کا سربراہ کہا جائے،اس کی مثال اے آر وائی کے ایک پروگرام کے دوران دیکھنے کو ملی جب اینکر کاشف عباسی نے عمران خان کا نام لیا اور پھر وہ فوراً ہی معذرت کرتے اور انھیں تحریکِ انصاف کے سربراہ کہتے دکھائی دیے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی نجی ٹی وی چینل آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کسی بھی جمہوری نظام میں کسی سیاستدان کی آواز کو دبانا خوش آئند نہیں ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ فرزانہ علی کے نزدیک اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس کے ذمہ دار بھی پاکستان میں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں خود ہیں، ہم نے دیکھا کہ جب سابق وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت تھی تو اس میں ن لیگ کی آواز کو دبایا گیا، اب اگر عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے تو اس میں زیادہ تر قصور سیاستدانوں ہی کا ہے، ایسا کرنے سے ملک میں جمہوری نظام کا فائدہ نہیں ہو رہا۔ شاہ زیب جیلانی کہتے ہیں حال ہی میں 9 مئی کے واقعات کے بعد ماحول تیزی سے بدل رہا ہے،مثال کے طور پر ہم سے یہ ایک فرمائش کی گئی آپ عمران خان کا نام نہیں لیں گے، تو ہم اس کے بہانے تلاش کرتے ہیں پھر یہ کیسے کیا جائے۔ کیا ان کو سابق وزیراعظم کہیں، قاسم کے ابا کہیں یا سابق کرکٹر کہیں، آخر کار وہ سابق وزیراعظم ہیں ان کے نام کے بغیر سیاست پر بحث کیسے ممکن ہے،اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے حوالے سے کوئی پراجیکٹ بنا رکھا ہے تو وہ اس کے لیے میڈیا پر بھی دباؤ بڑھائیں گے۔
پی ٹی آئی کے سابق رہنما محمود مولوی کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور علی زیدی نے جہانگیر ترین گروپ جوائن کرلیا ہے۔شاہ محمودقریشی بھی جلد فیصلہ کرلیں گے۔ نجی چینل اے آروائی سے گفتگو کرتے ہوئے محمودمولوی کا کہنا تھا کہ عمران اسماعیل اور علی زیدی نے تقریر کرکے جہانگیرترین گروپ جوائن کرلیا جبکہ فوادچوہدری بھی حصہ بن گئے ہیں۔ محمود مولوی نے کہا کہ شاہ محمود قریشی بھی ایک دو دن میں کوئی فیصلہ کرلیں گے، پرویز خٹک بھی کے پی میں ہیں ان سے بات چیت چل رہی ہے۔ محمود مولوی نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ تحریک انصاف کی قیادت چھوڑدیں اور کسی اور کو قیادت کرنے دیں۔ محمود مولوی نے کہا کہ یہ سب قدر آور سیاست دان ہیں جو ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا وہ فیصلہ کریں گے، یہ لوگ چیئرمین پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرتے ہیں تو حیرانی نہیں ہوگی، وقت کا تقاضا ہے اور انسان اس کے مطابق ہی فیصلے کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک اور عوام کے مفاد میں چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی سے الگ ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا کہ 9 مئی کے پُرتشدد واقعات کے ذمہ داروں کے غیر ملکی ایجنسیوں سے رابطے تھے، نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا 9 مئی کے واقعات کا ماسٹرمائنڈ چیئرمین پی ٹی آئی ہے، اس کی پُرتشدد واقعات سے متعلق گفتگو موجود ہے، یہ ایسی گفتگو ہے کہ عدالت بھی شاید کہے کہ ثبوت کو ان کیمرا ریکارڈ کیا جائے۔ رانا ثنا نے مزید کہا اس شخص نے زمان پارک میں بیٹھ کر سازش تیار کی، یہ کوئی ہجوم نہیں تھے بلکہ چند لوگ تھے جنہیں باقاعدہ تربیت دی گئی تھی، ملک کے سلامتی اداروں پر حملہ کرنا سرکشی ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے پوچھنا چاہیے کہ 9 مئی کے آرکیٹیکٹ آپ نہیں تو پھر کون ہے؟ پورے ایک سال زمان پارک میں منصوبہ بندی کے ثبوت موجود ہیں،ایک شخص اشاروں میں اس طرح کے ردعمل کی باتیں کرتا رہا ہے، وہ کہتا تھا کہ اس کا گرفتار ہونا ریڈ لائن ہے۔ گزشتہ ماہ فیصل آباد میں ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا تھا چیئرمین پی ٹی آئی نفرت کی آگ میں اندھا ہوگیا تھا، وہ امریکا جا کر کہتا تھا میں نواز شریف کی جیل چیک کروں گا، اس نے نوجوانوں کے ذہنوں میں گند اور نفرت بھر دی۔ رانا ثنا نے مزید کہا چیئرمین پی ٹی آئی مذاکرات کی بات کر رہا ہے لیکن 9 مئی کی کھل کر مذمت نہیں کی، اس نے منصوبہ بنایا کہ کسی ورکر کے گھر چھاپہ پڑوائیں اور اس دوران کچھ لوگ ماریں، انہوں نے ریپ کا منصوبہ بنایا تاکہ عوام کو جذباتی کیا جائے، رپورٹ ملی ایسا منصوبہ رات ہی کر سکتے ہیں اس لیے میں نے پریس کانفرنس کی۔ ان کا کہنا تھا اب مذاکرات کی بات کرتا ہے اور پہلے کہتا تھا کہ مر جاؤں گا لیکن ان سے بات نہیں کروں گا، مذاکرات سیاستدانوں سے ہوتے ہیں ان جیسے لوگوں سے نہیں، اس فتنے نے ہمارے خلاف سزائے موت کے کیسز بنائے، مجھے ایک ماہ حراست میں رکھنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا، ان کے لوگ 8 دن قید میں رہ کر کہتے ہیں پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ملک دشمن عناصر اور ان کے حامی، انتشار پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، بے بنیاد الزامات کا مقصد مسلح افواج کو بدنام کر کے مذموم سیاسی مفادات کاحصول ہے، ناقابل تردید شواہد کو جھٹلایا اور بگاڑا نہیں جا سکتا ، فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں واضح کردیا گیا ہے کہ سانحہ نو مئی کے منصوبہ سازوں کے خلاف قانون کی گرفت مضبوط کی جائے گی ۔۔ حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
سینئر لیگی رہنما قیصر احمد شیخ نے حکومت کو معاشی ٹیم تبدیل کرنے کا مشورہ دے دیا، انہوں ن کہا ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ہیں، آئی ایم ایف راضی نہیں ہیں،اسحاق ڈار کسی سے مشورہ نہیں کرتے، ایک سال سے وہ مجھ سے نہیں ملے، ایک سال سے نیشل بینک کا صدر ہی نہیں ہے، صورتحال تو اتنی خراب ہے،بورڈ کے میمبر ہی نہیں ہیں۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ قیصر احمد شیخ نے مزید کہا ہم لڑائی کرتے رہے تو معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی اسلئے حکومت کو چاہئے کہ اپنی معاشی ٹیم تبدیل کرے، ساری چیزیں اپنے ہاتھ میں رکھیں گے تو خود ٹھیک نہیں ہوگا، پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی ہے اور اس میں بھی کم ہونے کے رجحان نہیں ہے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ قیصر احمد شیخ نے کہا سیاسی جماعتوں پر پابندی نہیں لگنی چاہئے، سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہونی چاہئیں، یہ سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر شیخ اپنے ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر برس پڑے تھے،قیصر شیخ نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ملک کے معاشی معاملات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ نیشنل بینک اور زرعی ترقیاتی بینک کے صدور ایک سال سے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا تھا وزیر خزانہ اجلاس میں شرکت نہیں کرتے حکومتی بل پاس نہیں کرنا چاہیے۔ چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ اسحاق ڈار قائمہ کمیٹی میں پیش نہ ہوئے تو میں چیئرمین شپ سے مستعفی ہو جاؤں گا۔ اس موقع پر رکن کمیٹی علی پرویز ملک اور وجیہہ قمر نے بھی چیئرمین کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ کو آج اجلاس میں شرکت کرنا چاہیے تھا۔ علی پرویز نے یہ بھی کہا کہ اس وقت ملک کے حالات دیکھیں اور بل پر فوکس کریں۔
دی نیوز کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے درمیان خوش گوار نہ رہی، دونوں کے درمیان ملاقات کے حوالے سے کہا جارہا ہے منگل کی شام انصاف کا پرچم تھام کر جیل سے رہا ہونے والے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات تلخی کے ساتھ ختم ہوئی،جس کے بعد شاہ محمود قریشی اپنی بیمار اہلیہ کی تیماردار ی کے لئے کراچی روانہ ہوگئے۔ دی نیوز ذرائع کے مطابق مخدوم شاہ محمود قریشی کے ملتان میں ایک انتہائی قریبی دوست کے مطابق مخدوم شاہ محمود قریشی نے پارٹی چیئر مین کو کہا آپ وقتی طور پر پیچھے ہٹ جائیں، بیرون ملک چلے جائیں یا اگر بیرون ملک نہیں جانا تو یہاں ہی رہیں مگر لب کشائی بند کردیں، ہمیں معاملات طے کر لینے دیں، معافی تلافی ہو لینے دیں، جب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تو آپ واپس تحریک انصاف کو سنبھال لیجئے گا مشکل وقت ہے اور جذبات کے بجائے دانشمندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں میں تلخی بھی ہوئی اورسخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، شاہ محمود قریشی ملتان کے جس حلقہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے،اس حلقہ سے تعلق رکھنے والے ان کے فنانسر اور سپورٹر ابھی تک رہا نہی ہو پائے۔ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو کہا جو ریٹائرڈ لوگ آپ کو گمراہ کررہے ہیں ان حالات میں وہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے جس پر عمران خان نے شاہ محمود قریشی سے برہمی کا اظہار کیا ۔ ملاقات کے بعد شاہ محمود قریشی میڈیا سے گفتگو کئے بغیر زمان پارک سے کراچی کے لئے روانہ ہوگئے، ان تمام باتوں کی تصدیق کے لئے جب مخدوم شاہ محمود قریشی سے رابطہ کی کوشش کی گئی تو ان کے تمام نمبر بند تھے۔ دریں اثناء شاہ محمود قریشی سےملاقات میں تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور بیشتر پرانی باتیں دہرائیں اور کہا کہ ان ظالموں نے میرے خلاف کئی کیس کردیئے ہیں ہمارے 10ہزار لوگ اندر کردیئے ہیں ۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا آخری دم تک لڑوں گا اور پیچھے نہیں ہٹوں گا، آج جمعرات کو اسلام آباد جارہا ہوں ، میں اس کیلئے تیار ہوں کہ یہ مجھے پھر سے پکڑ لیں گے۔ دوسری جانب جہانگیر ترین نے علیم خان کے گھر عشائیے پر نئی جماعت کا باضابطہ اعلان کردیا،عبدالعلیم خان نے اپنی رہائش گاہ پر جہانگیر ترین اور ان کے گروپ کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں ملک بھر سے سو کے قریب رہنماؤں نے شرکت کی۔ سندھ سے عمران اسماعیل، علی زیدی، محمود مولوی، جے پرکاش، فاٹا سے جی جی جمال، کے پی کے سے اجمل وزیر عشائیے میں شریک ہوئے،پنجاب سے مراد راس، فیاض چوہان، فردوس عاشق اعوان، نعمان لنگرٹیال اور نوریز شکور شریک ہوئے،سیاسی رہنماؤں نے جہانگیر ترین پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین نے علیم خان کے گھر عشائیہ میں نئی جماعت کا اعلان کیا،ترین گروپ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کل پریس کانفرنس میں اپنی پارٹی اور منشور کا اعلان کرینگے۔
لاہور: عوام دوست پارٹی کے چیئرمین چودھری جہانزیب نے جہانگیرترین پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے میری پارٹی کا نام چرالیا ہے۔ جہانگیرترین آج کل اپنی پارٹی کا نام تجویز کررہے ہیں ۔ انکے ساتھیوں نے "پاکستان انصاف پارٹی" اور "عوام دوست پارٹی" نام تجویز کئے ہیں جس پر عوام دوست پارٹی کا دعویدار چوہدری جہانزیب سامنے آگیا ہے۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین گروپ عوام دوست پارٹی کے نام سے پارٹی قائم کرنے پر غور کررہے ہیں جبکہ یہ پارٹی پچھلے کئی سالوں سے کام کررہی ہے۔ چوہدری جہانزیب کے مطابق انہیں رات بھر فون آتے رہے اور میں نے ساتھیوں اور کارکنوں سے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہم پہلے سے الیکشن کمیشن میں ہیں، ہمارا پیپرورک چل رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نظام ہمیں بھی کھینچنے کی کوشش کرے گا لیکن ہمارا ویژن نظام کی تبدیلی ہے ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم نظام کی تبدیلی کیلئے کام کررہے ہیں۔ چوہدری جہانزیب کا کہنا تھا کہ ہمارامنشور قائداعظم کے چودہ نکات کی طرح 14 نکات پر مشتمل ہیں، ہم ایک سوشل ویلفئیر پارٹی ہیں۔
یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جن لوگوں نے صرف پارٹی عہدے چھوڑے ہیں انکی پارٹی میں کیا حیثیت ہوگی؟ اس حوالے سے آن لائن اخبار کے صحافی وقاص خان نے واضح کردیا۔ اس وقت پی ٹی آئی سے جانے والے 2 طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں دوسرے وہ جو عہدے چھوڑ رہے ہیں۔ پرویز خٹک اور اسد عمر وہ شخصیات ہیں جنہوں نے پارٹی تو نہیں چھوڑی لیکن عہدے چھوڑے ہیں جبکہ فوادچوہدری، شیریں مزاری، علی زیدی، عمران اسماعیل اور دیگر نے تحریک انصاف کو ہی چھوڑدیا ہے۔ عمران خان نے پارٹی میٹنگ میں واضح کر دیا کہ کوئی پارٹی چھوڑے یا عہدے، ان کی نظر میں وہ ایک ہی بات ہے ۔ وقاص خان کے مطابق پی ٹی آئی کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی قیادت کی عمران خان سے آن لائن میٹنگ ہوئی ہے جس میں ان سے سوال پوچھا گیا کہ اسد عمر کی پارٹی میں اس وقت کیا پوزیشن ہے؟ جس پر عمران خان نے واضح طور پر یہ جواب دیا کہ کوئی پارٹی چھوڑے یا عہدے، ان کی نظر میں سب برابر ہیں۔ وقاص خان کے مطابق عمران خان نے میٹنگ میں پارٹی رہنماؤں سے کہا کہ عہدے صرف انہی لوگوں کو ملیں گے جو مشکل وقت میں پارٹی اور میرے ساتھ کھڑے رہے۔ ان حالات میں جس نے بھی پارٹی چھوڑی یا اپنے عہدوں سے دستبردار ہوا ہے ان دونوں میں میرے نزدیک کچھ فرق نہیں ہے۔ پی ٹی آئی رہنما کے مطابق عمران خان نے ان تمام افراد کی ہمت کو سراہا جو اس مشکل وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ بھی کہا کہ مستقبل میں ایسے ہی افراد کو پارٹی میں اہم ذمہ داریاں اور الیکشن کے ٹکٹس دئیےجائیں گے۔ خیال رہے کہ اسد عمر، پرویز خٹک نے نومئی کے بعد کسی بھی موقع پر عمران خان کا دفاع نہیں کیا اور نہ ہی عمران خان کے حق میں بیان جاری کیا ہے۔ فوادچوہدری بھی تحریک انصاف چھوڑنے سے قبل عمران خان کا دفاع کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما دوست محمد کھوسہ کہتے ہیں جہانگیر ترین گروپ کے ارکان کے علاوہ ن لیگ سے ناراض ارکان اسمبلی بھی پی پی سے رابطے میں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما دوست محمد کھوسہ نے اے آر وائی نیوز کو انٹرویو میں کہا صرف جہانگیر ترین گروپ کے ارکان ہی نہیں بلکہ ن لیگ سے ناراض ارکان اسمبلی بھی پی پی سے رابطے میں ہیں اور ن لیگ کے 8 سے 10 ایم این ایز نے ہمارے ساتھ رابطے کیے ہیں۔ دوست محمد نے بتایا ن لیگ سے رابطہ کرنے والوں میں کچھ موجودہ ایم این ایز اور کچھ سابق ہیں، بے اعتبار لوگوں کے سوا شاید ہی کوئی ایسا ہو جو رابطے میں نہ ہو، آئندہ چند دنوں میں آپ کے سامنے یہ تمام بڑے نام آ جائیں گے۔ پی پی رہنما کا جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے کہا ترین گروپ والے مار کھا چکے اور اب وہ مزید کسی مِس ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے، ق لیگ دیکھ لیں کس طرح ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور اب کیا حالت ہے، ق لیگ کی طرح انکا بھی یہی حال ہوگا کیونکہ ان کا مستقبل نہیں۔ دوست محمد نے انکشاف کیا ن لیگ کے ایک گروپ نے وزیراعظم شہباز شریف سے شیر کے نشان پر الیکشن نہ لڑنے کی درخواست کی۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ عوام میں ہماری پذیرائی نہیں اس لیے ہمیں آزاد لڑنے کی اجازت دیں، ان کی اس بات پر ن لیگ کی اعلی قیادت نے کافی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا رابطہ کرنے والوں میں جنوبی پنجاب کے علاوہ دیگر علاقوں کے لوگ بھی ہیں، کچھ نےشمولیت کی ہے لیکن ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ دوسری جانب جہانگیر ترین نے پارٹی کے نام کے حوالے سے مشاورت کا سلسلہ تیز کردیا، ذرائع کے مطابق عوام دوست پارٹی اور پاکستان انصاف پارٹی کے ناموں پر غورکیا جارہا ہے، جہانگیر ترین نے لیگل ٹیم کو پارٹی رجسٹریشن کے لئے فوری اقدامات کا ٹاسک دے دیا، آئندہ چندروزمیں پارٹی کا اعلان متوقع، جہانگیر ترین آج مختلف اہم شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔
تحریک انصاف کی متبادل جماعت: جہانگیرترین کو تاحال کوئی بڑی کامیابی نہ مل سکی۔ نومئی کے بعد جب تحریک انصاف کے رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنا شروع کی تو جہانگیر ترین اچانک متحرک ہوگئے اور نئی سیاسی جماعت بنانے کیلئے کوششیں شروع کردیں اس کے لئے جہانگیرترین نے جوڑتوڑ شروع کردی لیکن جہانگیرترین کو تاحال کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ متحرک ہونے کے بعد جہانگیرترین نے کئی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں علیم خان، فردوس عاشق اعوان، منظور وٹو ، سردار تنویرالیاس ،زرگل خان شامل ہیں جبکہ تحریک انصاف کے منحرف اراکین جو پہلے سے ہی جہانگیرترین گروپ کا حصہ تھے وہ بھی ملاقاتیں کرتے رہے۔ فردوس عاشق اعوان اور منظور وٹو 2008 کے بعد سے مسلسل الیکشن ہاررہے ہیں جبکہ ان کا ووٹ بنک بھی کم ہوتا جارہا ہے، سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کا کوئی حلقہ نہیں ہے ، زرگل خان مانسہرہ سے الیکشن لڑتے ہیں لیکن مسلسل ہاررہے ہیں۔ جہانگیرترین گروپ کے منحرف اراکین 17 جولائی 2022 کو ن لیگ کا ٹکٹ اور جہانگیرترین کی حمایت کے باوجود ہارگئے تھے، یہاں تک کہ جہانگیرترین اپنے حلقے سے بھی اپنے گروپ کے دو ارکان کو نہ جتواسکے۔ ترین گروپ میں سعیداکبرنوانی، زواروڑائچ، طاہررندھاوا، قیصر مگسی ، اجمل چیمہ شکست سے دوچار ہوئے۔ علیم خان بھرپور حمایت کے باوجود ن لیگ کے امیدوار کو نہ جتواسکے۔ ایکسپریس نیوز کے صحافی رضوان غلیزئی کے مطابق ذمہ دار ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کا مشن اسلام آباد اور مشن لاہور بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والا کوئی بھی اہم رہنماء جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہے۔ جہانگیر ترین نے جن جن رہنماؤں سے رابطے کیے، سب کا تقریباً ایک ہی جواب تھا کہ عمران خان کے بغیر انتخابی سیاست ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختصر یہ کہ “یہ کمپنی نہیں چلے گی”۔ صحافی حبیب اکرم نے جہانگیرترین کو ملبہ جمع کرنیوالے سے تشبیہہ دی ، ان کا اس پر کہنا تھا کہ پیپلزُپارٹی اور جہانگیر ترین تحریک انصاف کے ملبے سے محل بنانے کے شوق میں کہاں تک جائیں گے؟حبیب اکرم تحریک انصاف چھوڑنے والے بہت سے رہنما ایسے ہیں جو ماضی میں جہانگیرترین کے سخت ناقد رہے ہیں۔فوادچوہدری اور ڈاکٹر مراد راس اپنا اپنا علیحدہ گروپ بناکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر جہانگیرترین گروپ میں کچھ رہنما شامل ہوتے بھی ہیں تو انکی ترجیح تحریک انصاف ہی ہوگی کیونکہ انکی نظر عمران خان کے ذاتی ووٹ بنک پر ہے۔ اگر کل کلاں حالات نے پلٹا کھایاتو وہ تحریک انصاف میں دوبارہ شامل ہوسکتے ہیں یا اپنے کسی بھائی، بیٹے ، بیٹی کو شامل کرواکر انکے ذریعے سیاست جاری رکھیں گے۔بعض صحافیوں کے مطابق کچھ رہنما تحریک انصاف میں واپسی کے پرتول رہے ہیں ۔ جہانگیر ترین کا سب سے ڑا ا "ڈرابیک" ذاتی ووٹ نہ ہونا ہے، 2022میں جہانگیرترین کے حلقے سے جہانگیرترین گروپ کا مخالف پیر عامر شاہ جیت گیا تھا جبکہ الیکشن 2018 سے قبل جہانگیرترین کے صاحبزادے علی ترین پیر عامرشاہ کے والد پیر اقبال شاہ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگئے تھے۔ ابھی تک جہانگیرترین گروپ میں دو صرف ہی پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے شامل ہوچکے ہیں جن میں ایک پیر سعید الحسن شاہ ہیں جو 2018 میں ناروال سے آزاد حیثیت سے جیتے تھے جبکہ دوسرے مظفر گڑھ سے نیاز گشکوری جنہیں تحریک انصاف نے ٹکٹ نہیں دیا۔ پیر سعید الحسن شاہ کے تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد تحریک انصاف کے پاس اویس قاسم متبادل چوائس ہیں جو پیر سعیدالحسن شاہ سے 7ہزار ووٹوں سے ہارگئے تھے۔
فوادچوہدری کے پرانے کلپس وائرل ہورہے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے بغیر کونسلر بھی منتخب نہیں ہو سکتا۔ فوادچوہدری کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ مائنس ون فارمولے کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں اور عمران خان کے بغیر والی تحریک انصاف میں شامل ہوکر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز فوادچوہدری کی اڈیالہ جیل میں ملاقات پر بہت چہ میگوئیاں ہیں۔ فوادچوہدری گزشتہ روز سے تنقید کی زد میں ہیں۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں فوادچوہدری نے عمران خان کا نام تک نہیں لیا اور صرف تحریک انصاف کی بات کرتے رہے،یہی فوادچوہدری ماضی میں فوادچوہدری عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے ایک کلپ میں فوادچوہدری کہتے ہیں کہ اس وقت 70 سے 75 فیصد ووٹ عمران خان کا اور 20 سے 25 فیصد امیدوار کا ہے۔میرے پاس اگر تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ ہوتا تو میں کونسلر بھی نہ بن پاتا۔ ایک کلپ میں فوادچوہدری کہتے ہیں کہ طارق بشیر چیمہ اور چوہدری سالک عمران خان کے بغیر نہیں جیت سکتے تھے، اگر ان میں جرات ہے تو استعفیٰ دیں اور عمران خان کی حمایت کے بغیر الیکشن جیت کر دکھائیں اسی طرح ایک کلپ میں فوادچوہدری کہتے ہیں کہ نجیب ہارون کو ان کے گھر والے ووٹ نہیں دے گے اگر عمران خان انکو پارٹی ٹکٹ نہ دے مائنس عمران خان کی بات کرنے والے یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کے پی ٹی آئ ہے ہی عمران خان اپنی اوقات کے مطابق بندہ بات کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے، میرا ووٹ بینک عمران خان کی وجہ سے ہے

Back
Top