خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

عالمی

Threads
712
Messages
3.7K
Threads
712
Messages
3.7K

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سائفر کیس میں انفارمیشن کو ٹوئسٹ کیا تو معلوم ہونا چاہیے کہ اصل انفارمیشن کیا تھی اور اسے کیسے ٹوئسٹ کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیل پر سماعت کےد وران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے سائفر کو پبلک کردیا ، دوسری جانب کہا جاتا ہے کہ سائفر دکھایا تو پبلک ہوجائے گا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمودقریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنائے گئے اس کیس میں مسلح افواج، بیرونی طاقتوں اور ممنوعہ جگہ جیسے عناصر مسنگ ہیں۔ اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ سائفر میں ایس کیا لکھا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ میں نے سائفر دیکھا نہیں ہے اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے، سائفر کا متن کہیں بھی بیان نہیں ہوا،یہ ایک طرف کہتے ہیں کہ عمران خان نے سب کچھ پبلک کردیا اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ سائفر دکھایا توسب کچھ پبلک ہوجائے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر انفارمیشن کو ٹوئسٹ کیا گیا تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اصل انفارمیشن کیا تھی اور اسے کیسے ٹوئٹس کیا گیا۔ اس موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے حامد علی شاہ نے کہا کہ جو سائفر موصول ہوا وہ کلاسیفائیڈ تھ، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص کو جس کیس میں سزا دی گئی تو یہ معلوم تو ہونا چاہیے کہ دستاویزات میں کیا کمیونیکیشن تھی؟ عمران خان نے کے وکیل نے کہا کہ شاہ محمود قریشی پر معاونت، سازش اور اشتعال انگیزی کا الزام لگایا گیا اور ان کی تقریر کی چار لائنوں پر 10 سال قید کی سزا سنادی گئی، جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ایک سیاسی تقریر ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ایک نئی سیاسی جماعت سامنے آجائے گی۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے آج نیوز کے پروگرام "روبرو" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایک، دو یا تین نئی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ تمام سیاسی جماعتیں ملک کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کرسیوں کی سیاست ہے، موجودہ سیاسی جماعتوں میں یہ سوچ نظر نہیں آتی کہ ملک کے مسائل حل کرسکیں، میں نے سیاست نہیں چھوڑی صرف الیکشن چھوڑا ہے، میں خود سیاسی جماعت بناؤں یا نا بناؤں، سیاسی جماعت تو بننی ہی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت بن رہی ہے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ جی جی بالکل بن رہی ہے، اس جماعت میں مصطفیٰ نواز کھوکھر، مفتاح اسماعیل اور دیگر لوگ شامل ہوں گے، میں بھی اس سیاسی جماعت کا حصہ ہوں گا، اگلے دو یا تین ماہ میں نئی سیاسی جماعت سامنےآجائےگی۔ نئی جماعت کے نام سے متعلق سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ نام جو بھی"وہ" رکھیں گے وہی ہوگا۔ پروگرام میں میاں نواز شریف کی خاموشی سے متعلق سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب تو میاں صاحب ہی دے سکتے ہیں، میرے خیال میں چونکہ وہ موجودہ نظام میں ایکٹیو نہیں ہیں اس لیے انہوں نے سوچا ہے کہ خود کو سیاست سے دور کرلیتا ہوں، تاہم جو بھی فیصلے ہورہے ہیں یہ سارے فیصلے میاں نواز شریف ہی کررہے ہوں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ ٹویٹر کی بندش کے حوالے اپنے ہی چند روز پرانے بیان سے پلٹ گئے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ نے کچھ روز پہلے کہا کہ ٹویٹر بند ہے ہی نہیں اور آج انہوں نے ایک سوال کےجواب میں کہا کہ جب سے ہم حکومت میں آئے ٹویٹر بند ہے، سوشل میڈیا پر عطاء تارڑ کے چند روز میں بدلتے بیانات کی ویڈیوز وائرل ہوگئی ہیں۔ 13 مارچ 2024 کو ایک پریس بریفنگ کے دوران عطاء تارڑ نے کہا کہ ٹویٹر چل رہا ہے اور ٹویٹس کا سلسلہ بھی جاری ہے، اگر بندش کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن موجود ہے تو میرے علم میں لے آئیں اس پر بات کرلیتے ہیں۔ آج 18 مارچ 2024 کو صحافی کی جانب سے ٹویٹر کی بندش کے حوالے سے دوبارہ سوال کیا گیا تو عطاء تارڑ نے جواب دیا کہ جب سے ہم حکومت میں آئے ہیں تو ٹویٹر بند تھا، اس کا کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے مگر سب کو علم ہے کہ ٹویٹر سست روی کا شکار ہے اور وی پی این کے ذریعے صارفین ٹویٹر استعمال کررہے ہیں۔ عطاء تارڑ نے کہا کہ ایک چارٹر بنانا چاہیے جس میں یہ طے کیا جائے کہ کیا ریڈ لائن ہے جو کراس نہیں ہونی چاہیے، اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان بات ہونی چاہیے، خواتین پر الزامات، گالم گلوچ، بداخلاقی اور بدتہذیبی ، یا شہداء کی قربانیوں کا مذاق اڑائے جاتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے اس لیے ایک چارٹر ہونا چاہیے جس میں ریڈ لائنز طے کی جانی چاہیے۔
پچھلے 2 ہفتوں میں افغان حکومت کو بار بار دہشت گردوں کی موجودگی بارے اطلاع دی گئی: ترجمان دفتر خارجہ دفتر خارجہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے میں خفیہ اطلاع پر دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائیاں کرنے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق سرحدی علاقوں میں پاکستان نے حافظ گل بہادر گروپ کے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی جو پاکستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر بہت سی دہشت گردانہ حملوں کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ دفتر خارجہ کے مطابق دہشت گردوں کی کارروائیوں میں سکیورٹی اہلکاروں اور سینکڑوں شہریوں کی شہادتیں ہوئیں جن میں تازہ حملہ 2 دن پہلے شمالی وزیرستان میں میرعلی کی سکیورٹی پوسٹ پر کیا گیا جس میں 7 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔ افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت نے چند گھنٹے پہلے بیان دیا تھا کہ اس کے سرحدی علاقوں میں فضائی حملوں سے 8 افراد مارے گئے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمسایہ ملک کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے تاہم حافظ گل بہادر گروپ اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کیخلاف کارروائیوں پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات کے جواب میں کی گئیں۔ افغانستان میں چھپے ہوئے دہشتگرد ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، پچھلے 2 ہفتوں میں افغان حکومت کو بار بار ان کی موجودگی بارے آگاہ کیا تھا۔ پاکستان افغانستان کو متعدد بار کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان کیخلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے، کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی متعدد بار کیا جا چکا ہے، مسائل کے حل کیلئے مشترکہ کوششیں جاری رہیں گی۔ ترجمان افغان عبوری حکومت ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں الزام لگایا تھا کہ افغان سرزمین پر پاکستانی طیاروں نے رات کو تقریباً 3 بجے شہری آبادی پر حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ ہلاک ہونے والے 8 افراد میں بچے اور خواتین شامل تھیں۔ پاکستانی طیاروں نے خوست کے ضلع سپیرا ضلع میں افغان دبائی اور پکتیکا کے برمل ضلع میں لامان کے علاقے میں بمباری کی۔ واضح رہے کہ نومنتخب صدر آصف علی زرداری نے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملے کے جواب میں کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ پاکستان کی سرزمین پر کسی نے حملہ کیا تھا جوابی حملہ کرنے میں گریز نہین کریں گے۔ شمالی وزیرستان میں حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کر لی تھی جن کے جنگجو پاک افغان سرحدی علاقوں میں کام کرتے ہیں جن میں صوبہ خوست اور پکتیکا شامل ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا بیان میں کہنا تھا کہ پاکستانی موقف ہے کہ عبداللہ شاہ کو نشانہ بنایا گیا لیکن وہ پاکستان میں ہیں، امارت اسلامیہ ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے افغانستان کی خودمختاری کیخلاف قرار دیتی ہے۔ پاکستان نے کارروائی دونوں حکومتوں کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے درمیان کیے جس کی تصدیق کالعدم تحریک طالبان نے بھی کر دی ہے۔ ترجمان افغان حکومت نے کہا کہ افغانستان پر پاکستان اپنے مسائل پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام نہ لگائے، ایسی کارروائیوں کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں جنہیں پاکستان کنٹرول نہیں کر سکتا۔
نئے وزیرخارجہ اسحاق ڈار کل اپنا پہلا غیر ملکی دورہ کریں گے، اسحاق ڈار کا پہلا غیر ملکی دورہ بیلجیئم کا ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق اسحاق ڈار بطوروزیرخارجہ کل براستہ لندن بیلجیئم کیلئے روانہ ہوں گے جہاں وہ رسلز میں ہونے والی عالمی نیوکلیئر انرجی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پہلی نیوکلیئر انرجی سمٹ برسلز میں 21 مارچ سے شروع ہوگی، اس سمٹ میں نیوکلیئر پاور کو توانائی منصوبوں کیلئے استعمال پر بات چیت ہوگی، اس سمٹ میں اہم ممالک کے وفود اور رہنما بھی شرکت کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلی نیوکلیئر انرجی سمٹ میں یورپی ممالک کے علاوہ، امریکہ برطانیہ، چین یو اے ای، آذربائیجان اور چین کے وفود شرکت کریں گے۔
خیبر یونیورسٹی نے اسٹاف ملازمین اور طلباء کے درمیان "رومانوی تعلقات" پر پابندی عائد کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پشاور کی خیبر یونیورسٹی کی جانب سے اسٹاف ممبران اور طلباء کے درمیان قریبی و رومانوی تعلقات پر پابندی عائد کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، یہ فیصلہ یونیورسٹی کیمپس میں ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا گیا۔ خیبر یونیورسٹی میں ہراسانی کے حوالے سے قائم انکوائری کمیٹی کی چیئرمین ڈاکٹر بریخنا جمیل کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی کے مطابق کیا گیا ، اسٹاف ممبران و طلباء کے درمیان ایسے تعلقات مفادات کے تصادم اور پیشہ ورانہ فیصلوں میں سمجھوتے کا سبب بنتے ہیں اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی، ان سزاؤں میں زبانی و تحریری سرزنش، عہدے سے برطرفی و معطلی، اخراج، جرمانہ، ڈگری روک دینا، تادیبی تحقیقات شروع کرنا، پیشہ ورانہ لائسنس منسوخ کرنا اور دیگر پابندیا ں شامل ہیں۔ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ڈاکٹر بریخنا کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی منظوری سے کیا گیا، تمام فیکلٹی ممبران پالیسی کو متعلقہ اداروں اور انتظامی سیکشن تک پھیلائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ اس فیصلے کے حوالے سے فیکلٹی، اسٹاف ممبران او رطلبہ بخوبی واقف ہوں۔ خیال رہے کہ خیبر یونیورسٹی میں ہراسانی کیلئے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے، پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن بھی لیے گئے جن میں گریڈ 18 کے ایک اسٹاف ممبر کو نکالنے، تحریری سرزنش کرنے، گریڈ 17 کے اسٹاف ممبر کی تنزلی اور جرمانے شامل ہیں، پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے عملے کے کئی دیگر سینئر ارکان کو حتمی وارننگ بھی جاری کی گئی ہے اور وہ اس وقت زیر نگران ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے خیبر پختونخوا میں کرپشن کے حوالے سے بیان کی وضاحت دیدی اور کہا کہ میرے بیان کو میڈیا پر غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق شیر افضل مروت نے خیبر پختونخوا ہاؤس کےباہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے ایک بیان کو نجی ٹی وی چینل پر غلط انداز میں چلایا گیا یہ کہا گیا کہ میں نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ دور میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت میں نے یہ کہا تھا کہ محمود خان اور پرویز خٹک جیسے لوگ پی ٹی آئی سے الگ ہوکر گنگا نہا کر پاک صاف ہوگئے؟ انہوں نے مزید کہا کہ کور کمیٹی نے مرکز اور صوبوں میں بھرپور احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے، کور کمیٹی کے اجلاس میں تمام غلط فہمیوں کو دور کیا گیا اب ہمارے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہے، آج خوشگوار ماحول میں اجلاس ہوا، آئندہ جو بھی فیصلے ہوں گے وہ کور کمیٹی کے ذریعے ہوں گے۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ پہلے بھی کور کمیٹی فیصلے کرتی تھی اب بھی وہی کرے گی، ہم ہر فیصلہ بانی پی ٹی آئی سے منظور کرواتے ہیں، جہاں جہاں ہم احتجاج کریں گے یہ ہمارے خلاف مقدمات ٹھوکتے ہیں تو ٹھوکیں۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط کیلئے جاری مذاکرات میں ایک دن کی توسیع ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 3 ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط کیلئے جاری اقتصادی جائزہ مذاکرات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے 1 دن کی توسیع ہو گئی ہے۔ مذاکرات میں اہم نکات طے پا گئے لیکن سٹاف سطح کا معاہدہ طے نہیں پایا، اب کل پھر سے مذاکرات ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق اقتصادی جائزہ کے اہم نکتوں پر اتفاق ہو گیا، فریقین زیرغور معاملات کو حتمی شکل دیئے جانے کے بعد میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کا مسورہ تیار کیا جائیگا۔ پاکستان اور آئی ایم کے درمیان 1.1 ارب ڈالر کی قسط کیلئے مذاکرات 14 مارچ کو شروع ہوئے تھے جو آج اختتام پذیر ہونے تھے مگر لیٹر آف انٹنٹ مسودے پر مشاورت کیلئے 1 دن کی توسیع ہو گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق قلیل مدتی قرض کی تیسری قسط کیلئے مذاکرات خوش اسلوبی سے آگے بڑھے ہیں اور معاملات طے پانے کا قوی امکان ہے۔ پاکستان نے مذاکرات کی پیشرفت میں رئیل سٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے، ہائوسنگ سوسائٹیز کی رجسٹریشن اور نان فائلرز کیلئے زمین کی خریدوفروخت پر ٹیکس عائد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ حکام کے مطابق آئی ایم ایف نے زمین کی خریداری نقد کے بجائے بینک کے ذریعے کرنے پر زور دیا جس پر انہیں یقین دلایا گیا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں رئیل سٹیٹ سیکٹر بارے اہم اقدامات کیے جائیں گے۔ حکام نے ریئل سٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس لگانے کیلئے وفاق وصوبوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور پراپرٹی ایجنٹس کی رجسٹریشن، فائلوں کی خریدوفروخت پر ٹیکس تجاویز دی گئی ہیں۔ وزارت خزانہ کے حکام مذاکرات کے مثبت نتائج کیلئے پرامید ہیں اور اب تک کوئی ڈیڈلاک بھی سامنے نہیں آیااور عملے کی سطح پر سٹاف لیول معاہدہ طے پا جائے گا اور منظوری کیلئے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں پیش ہو گا جو اگلے ماہ تک متوقع ہے۔ پاکستان کو اس سے پہلے قلیل مدتی قرض پروگرام کے تحت 2 اقساط میں 1 ارب 90 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف وفد معاہدے کی آخری قسط پر مذاکرات کیلئے 4 روز پہلے پاکستان پہنچا تھا ، پاکستان کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے عالمی اداروں کی مدد رہتی ہے جس میں آئی ایم ایف ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔ سٹیٹ بائی ارینجمنٹ کے تحت معاہدہ کی مدت اگلے مہینے 12 اپریل کو ختم ہو رہی ہے جس کے تحت پاکستان کو 9 مہینے میں مجموعی طور پر 3 ارب ڈالر قسطوں میں ملنے تھے۔
ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے ہوشیار ہوجائیں، کیونکہ حکومت نے غیر قانونی باشندوں کی ملک بدری آپریشن کا دوسرا مرحلہ شرو ع کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ خبررساں ادارے جنگ نیوز کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ نے حکومت پنجاب کو 15 اپریل سے غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کے آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ یہ احکامات وفاقی سیکرٹری داخلہ آفتاب درانی کی زیر صدارت ویڈیو لنک اجلاس کے دوران دیئے گئے، اجلاس میں ہوم سیکرٹری پنجاب نورالامین سمیت محکمہ داخلہ کے دیگر حکام نے شرکت کی۔ جنگ نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی حکومت پنجاب کو افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی)کی فہرستیں فراہم کرے گی ، ان فہرستوں کو پولیس سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا، ہر ضلعے میں ہولڈنگ سینٹرز قائم کیے جائیں گے جہاں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کو گرفتار کرکے رکھا جائے گا۔ پنجاب حکومت کو جاری ہدایات میں کہا گیا ہے کہ اے سی سی کارڈ ہولڈرز کو پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے اور اپنے ملک واپس جانے کیلئے کہا جائے گا جس کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسرے مرحلے کے اختتام کے فورا بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک سے نکالنے کے آپریشن کا تیسرا مرحلہ شروع کرنے پر بھی بریفنگ دی گئی، اس مرحلے میں افغان پروف آف ریزیڈنس رکھنے والے افراد کو ملک بدر کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ اے سی سی کارڈ ہولڈرز کا ڈیٹا وفاقی حکومت کے پاس ہونے کی وجہ سے غیر ملکیوں کے ملک بدری کے آپریشن کے پہلے مرحلے میں صوبوں کو غیر ملکیوں کو ٹریس کرنے اور ملک سے نکالنے میں مشکلات درپیش آئیں تھیں ، دوسرے مرحلے میں یہ ڈیٹا صوبوں کو منتقل کرنے سے یہ مشکلات پیش نہیں آئیں گی،افغان شہریوں کی ملک بدری کے آپریشن کے دوران اب تک 4 لاکھ سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک سے نکالا جاچکا ہے۔
اسلام آباد کی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے زمین سے مفت پانی نکالنے پر پابندی عائد کردی ہے، شہریوں کو اب بورنگ کے ذریعے پانی حاصل کرنے کیلئے ٹیکس دینا ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں زمین سے بذریعہ بورنگ مفت پانی نکالنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ شہریوں کو پانی سپلائی کیلئے لگائی جانے والے کنکشن کے قطر کے اعتبار اور موٹر کی ہارس پاور کی درجہ بندی کے تحت مختلف کیٹیگریز مقرر کی گئی ہیں جن کیلئے الگ الگ ٹیکس بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک انچ قطر کے پائپ پر نصف ہارس پاور کی موٹر لگاکر رہائشی مقصد کیلئے بورنگ کرنےو الوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا، اسی کیٹیگری کے کمرشل بور کنکشن کیلئے ماہانہ 2 ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا۔ دو انچ قطر پائپ کنکشن اور دو ہارس پاور کی موٹر والے رہائشی کنکشن کے چارجز ڈھائی ہزار ماہانہ جبکہ کمرشل کنکشن کے چارجز 4ہزا ر روپے ماہانہ مقرر کیے گئے ہیں۔ تین انچ قطر پائپ پر ساڑھے سات سے پندرہ ہارس پاور کی موٹر لگاکر رہائشی مقصد کیلئے استعمال کرنے والوں کو 10 ہزار ماہانہ جبکہ کمرشل مقصد کیلئے استعمال کرنے والوں کو 15 ہزار روپے ٹیکس دینا ہوگا، 4انچ پائپ اور 15 سے20 ہارس پاور کے گھریلو کنکشن کے چارجز 20 ہزار اور کمرشل کنکشن کے چارجز 25ہزار روپے ماہانہ ہوں گے۔ پانچ انچ پائپ اور 20 سے 30 ہارس پاور کی موٹر والے گھریلوں کنکشن کے ماہانہ چارجز 20ہزار جبکہ کمرشل کنکشن کےچارجز 25 ہزار ، 6انچ پائپ اور 40سے 50یارس پاور کی موٹر والے گھریلو کنکشن کے چارجز 50ہزار جبکہ کمرشل چارجز 75 ہزار روپے ماہانہ مقرر کیے گئے ہیں۔ جو شہری 8 انچ پائپ کا کنکشن لگا کر 70 سے 100 ہارس پاور کی موٹر کے ساتھ رہائشی استعمال کرنا چاہیں انہیں ماہانہ 1 لاکھ روپے چارجز ادا کرنے ہوں گے جبکہ کمرشل صارفین کیلئے چارجز ڈیڑح لاکھ روپے ہوں گے، 9 انچ پائپ کے ساتھ 140 سے 160 ہارس پاور کی موٹر والے گھریلو صارفین کیلئے چارجز 2لاکھ جبکہ کمرشل کنکشن کے ماہانہ چارجز 3لاکھ روپے مقرر کیے گئے ہیں۔
حکومت ایک کے بعد ایک آئی ایم ایف کے مطالبات پر رصامندی ظاہر کر رہی ہے,اس بار بان فائلرز گرفت میں آگئے,پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی یقین دہانی کروائی ہے جس کے تحت نان فائلرز پر پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا۔ تحکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور تمام ہاؤسنگ سوسائیٹیز کو رجسٹرڈ کرنے کی یقین دہانی آئی ایم ایف کو کروادی, اس کے علاوہ حکومت نے نان فائلرز کیلئے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس میں اضافہ کی تجویز دی جبکہ پراپرٹی کی خریداری پر نقد کے بجائے بینک کے ذریعے لین دن کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اقتصادی جائزہ مذاکرات کے تیسرے روز حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی یقین دہانی کرائی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کروا دی,ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے متعلق اہم اقدامات شامل ہوں گے۔ آئی ایم ایف کو تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کی رجسٹریشن کی بھی یقین دہانی کرادی ہے، رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس کیلئے وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے گی، پراپرٹی ایجنٹس کی رجسٹریشن، فائلوں کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی تجویز دیدی گئی۔نئے مالی سال کے بجٹ میں رئیل اسٹیل سیکٹر سے متعلق اہم اقدامات شامل ہوں گے۔ دوسری جانب آئی اے اور حکومتی ملکیتی اداروں کی نجکاری پر آئی ایم ایف نے پلان طلب کرلیا۔ دستاویز کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے بینکوں اور حکومت کے درمیان قرض ٹرم شیٹ پر بریفنگ دی جائیگی۔پی آئی اے کی نجکاری کیلئے کمرشل بینکوں سے 12فیصد تک شرح سود پر ٹرم شیٹ ایگریمنٹ ہوگا جبکہ کمرشل بینکوں سے قرض ٹرم شیٹ معاہدہ طے پانے پر بینکوں سے این او سی ملے گا۔دستاویز کے مطابق ڈومیسٹگ فنانسنگ، حکومتی گارنٹیز سمیت ہیلتھ اور ایجوکیشن سیکٹر کے اخراجات پر بریفنگ ہوگی۔ ٹیکس پالیسی، ایڈمنسٹریشن اور ریوینیو پر ایف بی آر کے وفد سے مذاکرات ہوں گے۔
لاہور کی ایک عدالت نے پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی کرنے والے شخص کو قید و جرمانے کی سزاسنادی ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کی فیملی کورٹ میں شوہر کی دوسری شادی کے خلاف پہلی بیوی کی درخواست پرسماعت ہوئی، دوران سماعت درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کرنے کیلئے مجھ سے باضابطہ طور پر اجازت نہیں لی۔ فیملی کورٹ کے جج عدنان لیاقت نے کیس کی سماعت میں دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے والے شخص کو 7 ماہ قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دوسری شادی کیلئے قانونی طور پر پہلی بیوی سے تحریری اجازت لینا ضروری ہے، ملزم نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کی۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شوہر نے دوسری شادی سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے تحریری اجازت نہیں لی اور ایسا کرنا مسلم فیملی لاء آرڈیننس کے سیکشن6 کی خلاف ورزی ہے، لہذا ملزم کو 7 ماہ قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ عدالت نے اپنےفیصلے میں کہا ہے کہ اگر ملزم جرمانے کی رقم ادا نہیں کرپاتا تو اس کی سزا میں مزید ایک ماہ کا اضافہ کردیا جائے گا۔
کسٹم حکام نے طورخم بارڈر پر کارروائی کرتے ہوئے بارڈر سیکیورٹی فورس کے باورچی کو 70ہزار امریکی ڈالر افغانستان اسمگل کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بارڈر سیکیورٹی فورس کے آفیشل میس کے باورچی زکریا کو کسٹم حکام نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ طورخم بارڈر کے زیروکراسنگ والے حصے پر امریکی ڈالروں سے بھرے 2 پیکٹ ایک افغان شہری کے حوالے کررہا تھا۔ کسٹم حکام نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے زکریا کو پیسوں کے پیکٹس سمیت گرفتار کرلیا جبکہ افغان شہری اپنے علاقے میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کسٹم حکام نے زکریا کے قبضے سے 70ہزار امریکی ڈالر برآمد کرکے اپنے قبضے میں لے لیے ہیں اور زکریا کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے کہ بارڈر سیکیورٹی فورس کا ایک ملازم کرنسی اسمگلنگ کے دھندے میں کیسے ملوث ہوا۔ خیال رہے کہ چند روز قبل کسٹم حکام نے اپنے ہی ایک انسپکٹر اور ایک سپاہی کو امریکی ڈالر کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
حکومت کی جانب سے سی پیک کیلئے مزید فنڈز مختص نا کرنے کی یقین دہانی کے معاملے پر ن لیگی سینیٹر مشاہد حسین سید نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے وضاحت دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں مشاہد حسین سید نے سی پیک کیلئے فنڈز مختص نا کرنے سے متعلق انگریزی خبررساں ادارے کی رپورٹ شیئر کی اور کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو یہ پریشان کن ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ سی پیک منصوبہ کب سے آئی ایم ایف اور امریکہ سے ہوکر گزرنے لگا؟ کیا پاکستان کی نئی حکومت نے آئی ایم ایف کو پاکستان کی فارن پالیسی کے حوالے سے ویٹو پاور دیدی ہے؟ ن لیگی سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں تو آئی ایم ایف نیشنل سیکیورٹی کے امور پر بھی مداخلت کرے گا، ڈیفنس بجٹ اور دیگر معاملات پر بھارت پہلے ہی سوالات اٹھا رہا ہے، اس معاملے پر باضابطہ وضاحت کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ خبررساں ادارے دی ٹریبون نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نئی حکومت نے آئی۔ایم۔ایف کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ سی پیک کیلئے مزید کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے پاورپراجیکٹس کے بقایا جات جنوری کے آخر تک 1اعشاریہ 9 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، یہ ایک خطرناک حد اور گزشتہ سال جون کے مقابلے میں 77 فیصد یعنی 214 ارب روپے زیادہ ہے، چینی قرضوں میں یہ اضافہ 2015 کے انرجی فریم ورک معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اس معاہدے میں پاکستان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ چینی سرمایہ کاروں کو گردشی قرضوں سے بچانے کیلئے خصوصی فنڈز قائم کرے گی گا، تاہم حکومت اس مد میں صرف 48 ارب روپے سالانہ مختص کررہی ہے، اس میں حکومت یہ شرط بھی عائد کرتی ہے کہ ماہانہ زیادہ سے زیادہ 4ارب روپے نکالے جائیں۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کےبجٹ میں اس 48 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے سے متعلق حکومت سے سوال کیا جس پر حکومت نے آئی ایم ایف کو جواب دیا کہ چینی پاور پلانٹس کے بقایا قرضوں کی ادائیگی کیلئے اضافی فنڈز مختص کرنے کا فی الحال کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف ان دنوں شدید ڈپریشن کا شکار ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابی نتائج ویسے نہیں آئے جیسے ان سے وعدے کیے گئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی جریدے دی اکانومسٹ میں شائع ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ ملک کے تین با ر وزیراعظم رہنے والے نواز شریف نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کے بجائے شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کی اجازت دے کر بظاہر ایک بڑی غلطی کی ہے۔ دی اکانومسٹ کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ملکی مسائل سے صرف عوام یا سیاستدان ہی پریشان نہیں ہیں، بلکہ اس بار اسٹیبلشمنٹ بھی الجھن کا شکار دکھائی دے رہی ہے، نواز شریف کی پریشانی یہ بھی ہے کہ پارٹی کو نئی زندگی دینے میں بھی کامیاب نہیں رہے، اگر ن لیگ کو انتخابات میں "مدد" نا ملتی تو ن لیگ قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں بھی ناکام رہتی۔ برطانوی جریدے نے مزید کہا ہے کہ 2022 میں عمران خان کو حکومت سے نکالنا بظاہر ان کے خلاف جاتا دکھائی دے رہا تھا، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ یہ ٹائمنگ قدرتی طور پر ان کے حق میں گئی ہے، عمران خان سے ان کے حامیوں کو دو رکھنے کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے علی امین گنڈا پور کے حوالے سے بڑا دعویٰ کردیا,انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور بطور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا مدت پوری نہیں کر سکیں گے، رمضان کے بعد ان کے لیے پریشانیاں ہیں۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا کا کہنا تھا میں ایم این اے، وفاقی وزیر اور سینیٹر رہا ہوں، سینیٹر شپ کے لیے کاغذات جمع کرائے ہیں، ہار جیت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے متعلق سوال پر سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا علی امین گنڈا پور اپنی مدت پوری نہیں کر پائیں گے، رمضان کے بعد ان کے لیے پریشانیاں شروع ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے آئینی ترمیم یا آرمی ایکٹ میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہونی چاہیے اور وہ ہو گی، 9 مئی کے واقعات میں ملوث کسی بھی شخص کو رعایت نہیں ملے گی۔ بانی پی ٹی آئی سے متعلق سوال پر فیصل واوڈا کا کہنا تھا موجودہ صورتحال میں بانی پی ٹی آئی چاند پر حکومت بنائیں تو بہتر ہے، بانی پی ٹی آئی کو میں نے سمجھایا لیکن ان کو سمجھ نہیں آیا، انہیں اب بھی سمجھ نہیں آ رہا، اگر وہ میری بات سمجھ جاتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی، اب بھی ان کے لیے مشورہ ہے کہ مولا جٹ کی سیاست چھوڑیں اور کوئی جمہوری راستہ نکالیں، بھنور سے نکالیں اپنے آپ کو بھی، پاکستان کو بھی، اداروں کو بھی اور قوم کو بھی۔ چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر فیصل واوڈا کا کہنا تھا ابھی تک تو فیورٹ ہارس پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں لیکن رہی بات انوار الحق کاکڑ صاحب کی تو ناممکن تو کوئی بھی چیز پاکستان میں نہیں ہے، جو 11 بجے حلف لے سکتا ہے وہ 11 بج کر ایک منٹ پر جیل بھی جا سکتا ہے۔ سینیٹ الیکشن کے دوران خریدو فروخت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر فیصل واوڈا کا کہنا تھا چاہے وہ عام انتخابات ہوں یا سینیٹ الیکشن، خریدو فروخت تو پاکستان میں ہوتی رہی ہے، میں نہیں کہہ سکتا کہ اس بار خرید وفروخت نہیں ہوگی۔موجودہ حکومت سے متعلق سوال پر سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا میرے خیال سے یہ حکومت دو ڈھائی سال رہے گی۔ اپنے استعفے سے متعلق سوال پر فیصل واوڈا نے کہا میں نے خود استعفیٰ دیا، کوئی مجھ سے استعفیٰ نہیں دلوا سکتا تھا، مجھے سچ بات کرنے پر پارٹی سے نکالا گیا تھا، میں پارٹی سےاس وقت نکلا جب پی ٹی آئی آسمان پر تھی، انھیں پتا ہونا چاہیے کہ میں نے اہل ہونےکے بعد استعفیٰ دیا تھا۔آصف زرداری سے اپنی ملاقات سے متعلق فیصل واوڈا کا کہنا تھا میں آصف زرداری سے ہزار دفعہ ملاقات کروں گا جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعلق سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا مریم نوازبزدار ٹو ہیں۔ دوسری خانبسینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلیے۔سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پی ٹی آئی رہنما ولید اقبال نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے جب کہ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلیے ہیں۔(ن) لیگ کے ڈاکٹر سعید الٰہی نے سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی نشست کےلیےکاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں جب کہ (ن) لیگ کے پرویز رشید کو بھی سینیٹ میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کرنسی ڈیلرز اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور برآمد کنندگان امریکی ڈالر کے مزید سستا ہونے کے خواہاں نہیں ہیں۔ خبررساں ادارے ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر اس وقت پانچ ماہ کی کم ترین سطح پر آگیا ہے، ڈالر کی قدر میں اس کمی کے حوالے سے برآمد کنندگان کو شدید تحفظات لاحق ہیں۔ دوسری جانب حکومت بھی ڈالر کی قیمت میں کمی کے باعث اس خدشے میں مبتلا ہے کہ ڈالر سستا ہونے سے درآمدات میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے امپورٹ و ایکسپورٹ کے درمیان توازن بگڑ سکتا یے۔ کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں ان فلوز زیادہ نہیں ہے تاہم مرکزی بینک یہ یقین دلاتا ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کی اضافی لیکیوڈیٹی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ روپے کے مقابلےمیں امریکی ڈالر جمعہ کو 278اعشاریہ 77 روپے کی سطح پر بند ہوا، ڈالر کی یہ سطے گزشتہ پانچ ماہ میں کم ترین ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے پی آئی اے کی نجکاری کے حکومتی فیصلے کی مخالفت کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شیریں رحمان نے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے پی آئی اے کی نجکاری کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ٹھیک کیا جاسکتا ہے، اسی طرح سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے پی آئی اے کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اداروں کی نجکاری ضرور ہوگی، اس میں سرفہرست پی آئی اے ہے، حکومت کا کام بزنس چلانا نہیں بلکہ پالیسیاں بنانا ہے، اداروں کو چلانے کیلئے نجی شعبے کو آگے آنا ہوگا، اگر ارادے پختہ ہوں تو سب کچھ ممکن ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ مئی تک پی آئی اے کی نجکاری کا ٹینڈر مکمل کرلیا جائے، اس کے علاوہ ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ بھی جلد مکمل کرلی جائے گی۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار عمران ریاض خان نے کہا ہے کہ مجھے پولیس والے کہتے تھے کہ ہم مجبور ہیں، انہوں نے کل حلف اٹھانا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار عمران ریاض خان نے اپنی گرفتاری کے حوالے سے ایک وی لاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب میں پولیس والوں سے پوچھتا تھا کہ مجھے کیوں گرفتار کیا ہے تو وہ مجھے کان میں بس یہی کہتے تھے کہ آپ کو تو علم ہے حکومت کا بہت دباؤ ہے۔ عمران ریاض نے کہا کہ پولیس والے مجھے ہر بار بس یہی کہتے تھے کہ آپ تو سمجھتے ہیں اس نے کل حلف اٹھانا ہے، یعنی یہ اتنی نواب ہے کہ اگر اس نے حلف اٹھانا ہے تو ہمیں پکڑ کر اندر کردیں گے۔ سینئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، یہ ملک ایسے نہیں چل سکتا، یہ ملک جتنا ان کا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے،اس شہر یا صوبے پر کسی دشمن کا قبضہ تو نہیں ہوا، اس صوبے میں ایک نئی حکومت بنی ہے اور یہ نئی حکومت جیسے بنی ہے وہ سب جانتے ہیں، یہ شہر ، یہ صوبہ اور یہ ملک ہمارا بھی اتنا ہی ہے جتنا حکومت میں بیٹھنے والے لوگوں کا ہے۔ عمران ریاض کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بولنے کا پورا حق ہے، اپنی بات کرنے کا حق ہے ، اگر ہم سے یہ حق چھینا جائے گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
نگران وفاقی وزرا کے صرف دورے، تنخواہوں، الاونسز، ہاؤس رینٹ وغیرہ کا بل 20 کروڑ روپے سے زیادہ کا بنا,سابق نگراں وزفاقی وزرا نے رواں مالی سال کے آٹھ ماہ میں گیارہ کروڑ نو لاکھ ستاسی ہزار تنخواہوں اور الاونسز کی مد میں وصول کئے۔ بیرون ملک سرکاری ممالک کے دوروں پر چار کروڑ انسٹھ لاکھ اناسی ہزار اخراجات آئے,ٹریولنگ الاونس کی مدد میں ایک کروڑ چھیانوے لاکھ تیس ہزار,بیرون ممالک ڈیلی الاونس کی مد میں چوراسی لاکھ روپے وصول کئے,ہاوس رینٹ کی مدد میں چوالیس لاکھ چوالیس ہزار,یوٹیلیٹی الاونس کی مدد میں اکیس لاکھ چھیاسی ہزار اور کمیونکیشن الاونس کی مدد میں آٹھ لاکھ روپے وصول کئے نگراں وفاقی کابینہ کے 16 وزراء نے حلف اٹھایا تھا, سرفرازبگٹی وزارت داخلہ ,سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی وزیرخارجہ کے منصب پر فائز تھے,ڈاکٹرعمرسیف وزیر آئی ٹی ، احمد تارڑ مواصلات کے وزیر , مرتضیٰ سولنگی کی بطور نگران وزیر اطلاعات و نشریات تقرری کی گئی تھی,شمشاد اختر کو نگران وزیر خزانہ کا قلمدان تفویض کیا گیا تھا، عائشہ رضا فاروق کو نگران وزیر صحت , انیق احمد نگران وزیر مذہبی امور جب کہ تابش گوہر نگران وزیرِ توانائی تھے۔ صنعت کار اعجاز گوہر کو نگران وزیر تجارت کا عہدہ جب کہ بریگیڈیئر (ر) مظفر رانجھا بھی نگران وفاقی کابینہ کا حصہ تھے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی وزارت دفاع کا قلمدان دیا گیا,مددعلی سندھی کو وفاقی وزارتِ تعلیم کا عہدہ, انورعلی حیدر نے نگران وفاقی وزیرکی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا، جمال شاہ، شاہد اشرف تارڑ، عمر سیف، ڈاکٹر ندیم جان، محمد سمیع اور احمد عرفان بھی حلف اٹھانے والوں میں شامل تھے۔