خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پنجاب کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں دورانِ ڈکیتی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات نے نہ صرف عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دریائے راوی کے قریب کمالیہ کے علاقے موزہ جھلر سہگل میں 4 ڈاکوؤں نے دو بہنوں کو مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔۔ کمالیہ کے نواحی علاقے موزہ جھلر سہگل میں یہ واقعہ 10 اور 11 اپریل کی درمیانی شب پیش آیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاندان کی جانب سے تھانہ کمالیہ صدر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 376 (اجتماعی زیادتی) اور 392 (ڈکیتی) کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ شکایت کنندہ، جس کی شناخت کو قانونی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا جا رہا، نے بیان دیا ہے کہ وہ 10 اور 11 اپریل کی درمیانی شب اپنے زمیندار کے کھیت میں سو رہا تھا جب چار مسلح افراد نے اسے جگایا۔ مدعی کے مطابق، ملزمان نے اسے زبردستی اس کے گھر لے جا کر مجبور کیا کہ وہ دروازہ کھلوائے۔ جیسے ہی گھر کا دروازہ کھولا گیا، ملزمان نے مدعی، اس کی اہلیہ، بھابھی اور ایک مرد رشتہ دار کو قابو میں لے لیا اور رسیوں سے باندھ دیا۔ شکایت کنندہ کے مطابق، چاروں ملزمان اس کی بیوی اور بھابھی کو گھر سے باہر لے گئے جہاں انہوں نے مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا ارتکاب کیا۔ اس کے بعد ملزمان گھر میں موجود سات لاکھ روپے مالیت کے زیورات، نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء بھی لوٹ کر فرار ہو گئے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہے اور مجرموں کو جلد گرفتار کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ متاثرہ خواتین کا طبی معائنہ کرایا گیا ہے اور رپورٹ کا انتظار ہے۔ علاقے کے مکینوں نے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ملوث عناصر کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ متاثرہ خاندان کو انصاف مل سکے اور ایسے واقعات کی روک تھام ہو۔ یہ واقعہ اُس اندوہناک واردات سے صرف چند دن بعد پیش آیا جو فیصل آباد میں رپورٹ ہوئی تھی، جہاں ایک گھر میں ڈکیتی کے دوران خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان دونوں واقعات میں مماثلت واضح ہے: مسلح افراد گھروں میں گھس کر نہ صرف مالی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں، جو ایک سنگین اور ناقابلِ برداشت جرم ہے۔
پنجاب پولیس کے اسپیشل آپریشنز سیل نے دو سال قبل سیالکوٹ سے اغوا کی گئی چار سالہ بچی زونیرہ فاطمہ کو بین الاقوامی کارروائی کے بعد کویت سے بحفاظت بازیاب کروا لیا ہے۔ ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق یہ کامیاب کارروائی اسپیشل آپریشنز سیل کی جانب سے عمل میں لائی گئی، جس میں کویت کی مقامی انتظامیہ سے بھی تعاون حاصل کیا گیا۔ مغویہ زونیرہ فاطمہ 2023 میں سیالکوٹ سے اغوا ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق اغوا میں ملوث مرکزی ملزمان انور اقبال اور صدف اقبال کو بھی کویت سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ دونوں ملزمان بچی کے قریبی رشتہ دار ہیں، جنہوں نے جعلی دستاویزات کے ذریعے بچی کو کویت منتقل کیا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ملزمان کو پاکستان واپس لانے کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ زونیرہ فاطمہ کی بحفاظت واپسی پر اہل خانہ اور مقامی افراد نے پنجاب پولیس کی کوششوں کو سراہا ہے۔
لاہور – سروسز اسپتال لاہور میں ایک افسوسناک اور تشویشناک واقعہ پیش آیا، جس میں پولیس کے سب انسپکٹر نے دیگر اہلکاروں اور سادہ لباس میں ملبوس افراد کے ہمراہ ڈاکٹروں پر تشدد کیا۔ واقعے میں سینئر رجسٹرار سمیت دو ڈاکٹرز زخمی ہو گئے، جس کے بعد اسپتال کے عملے میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ سروسز اسپتال کی او پی ڈی میں پیش آیا، جہاں ایک مریض اور ڈاکٹروں کے درمیان معمولی تلخ کلامی ہوئی۔ مریض کے ساتھ آئے اٹینڈنٹ نے اس جھگڑے کے بعد اپنے بھائی، پولیس سب انسپکٹر کو کال کر کے موقع پر بلالیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سب انسپکٹر دیگر وردی پوش پولیس اہلکاروں اور سادہ کپڑوں میں موجود افراد کے ساتھ او پی ڈی میں داخل ہوا اور بلا جھجک ڈاکٹروں پر حملہ کر دیا۔ اسپتال کا عملہ موقع پر موجود ہونے کے باوجود بے بسی کا شکار رہا جبکہ تشدد سے دو ڈاکٹرز زخمی ہو گئے۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مریض کے اٹینڈنٹ اور ڈاکٹرز کے درمیان جھگڑا معمولی نوعیت کا تھا، جسے موقع پر ہی صلح کے ذریعے حل کر لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد پولیس اہلکاروں کا آ کر تشدد کرنا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یہ اسپتال کے تقدس کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واقعے کی ویڈیو فوٹیج موجود ہے اور اس پر قانونی کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام کو اطلاع دی جا چکی ہے۔ اسپتال کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ اس واقعے پر سخت ایکشن لیں گے اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ملک میں صحافیوں کے خلاف سائبر قوانین کے استعمال میں تیزی آ گئی ہے، اور حالیہ واقعے میں صحافی جنید ساگر قریشی کو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کے تحت ایک مبینہ جھوٹی اور اشتعال انگیز ویڈیو بیان پر مقدمے کا سامنا ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق، یہ ویڈیو واٹس ایپ پر وائرل ہوئی جسے مدعی اے ایس آئی طارق ممتاز نے دیکھا۔ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (FIR) کے مطابق، جنید ساگر نے اپنی ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ سرسید تھانے کی حدود میں ایک ڈمپر گاڑی نے خاتون کو کچل دیا، جس پر عوام نے مشتعل ہو کر پولیس پر پتھراؤ کیا، اور اس دوران ایس ایچ او سمیت دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ تاہم، پولیس کے مطابق ویڈیو کی جانچ پڑتال کے بعد یہ تمام معلومات غلط ثابت ہوئیں، نہ کوئی خاتون کے کچلے جانے کا واقعہ رپورٹ ہوا اور نہ ہی پولیس پر حملے کا کوئی ثبوت ملا۔ پولیس کے مطابق جنید صغر قریشی پر پیکا ایکٹ 2016 کی دفعہ 21 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جس کا تعلق "نفرت انگیز اور جھوٹی معلومات پھیلانے" سے ہے۔ پیکا قانون، جو 2016 میں نافذ ہوا، کو ابتدا سے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے "کالا قانون" قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت صرف سائبر کرائمز کو کنٹرول کرنے کے بجائے اسے اکثر حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے ایک متنازع ترمیمی بل بھی منظور کیا، جس کے دوران پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی اور صحافیوں نے واک آؤٹ کیا۔ جنید ساگر قریشی پہ مقدمہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں سال متعدد صحافیوں کو پیکا کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔ 20 مارچ کو صحافی فرحان ملک، جو "رفتار" میڈیا ایجنسی کے بانی اور سابق نیوز ڈائریکٹر (سماء ٹی وی) تھے، کو ریاست مخالف مواد چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر پیکا اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ چند دن بعد اردو نیوز سے وابستہ صحافی وحید مراد کو ایف آئی اے نے اسلام آباد کی عدالت میں پیش کیا۔ ان پر پیکا کی دفعات 9 (جرم کی تعریف)، 10 (سائبر دہشت گردی)، 20 (بدنیتی پر مبنی کوڈ) اور 26A (جھوٹی معلومات پھیلانے کی سزا) کے تحت مقدمہ بنایا گیا۔ کراچی میں رواں ماہ کے آغاز میں ایک پولیس افسر کو بھی صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف توہین آمیز کلمات استعمال کرنے پر پیکا کے تحت گرفتار کیا گیا۔ صحافتی حلقوں اور آزادی اظہار کے علمبرداروں نے جنید ساگر کے خلاف کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر معلومات کی تصدیق کرنا ضروری ہے، لیکن محض اختلافِ رائے یا کسی خبر کی بنیاد پر سخت قانونی کارروائی آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ پیکا کے تحت صحافیوں کے خلاف بڑھتی کارروائیاں ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہیں: کیا اس قانون کا استعمال صرف جرائم کے خلاف ہے، یا اسے ریاستی بیانیے سے اختلاف کرنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے گورنر ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج گورنر ہاؤس میں وہ تمام افراد موجود ہیں جن کے پیارے ڈمپرز کی ٹکر سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گورنر سندھ نے کہا کہ کسی کی جان کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا، نہ پیسہ، نہ پلاٹ۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ حادثات میں جان گنوانے والوں کے آنسو آج تک نہیں تھمے، اور کسی نے ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ کامران ٹیسوری نے چیف جسٹس آف پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے خط پر نوٹس لیا گیا، اور سپریم کورٹ نے ان کے پرنسپل سیکریٹری سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اب متاثرین کو ضرور انصاف ملے گا اور عدالت قانون پر مکمل عمل درآمد کروائے گی۔ گورنر سندھ نے اعلان کیا کہ وہ ڈمپرز کے حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو ایک ایک پلاٹ دیں گے، ان کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کریں گے، اور بارہ سال تک مفت تعلیم فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تھانے متاثرین کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہے، جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ان سانحات پر سیاست بند کی جائے اور متاثرہ افراد کے دکھوں کا مذاق نہ بنایا جائے۔ گورنر نے یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود اپنی گاڑیاں اور بنگلہ بیچ کر متاثرین کی مدد کریں گے۔ کامران ٹیسوری نے کہا کہ وہ لسانی فسادات کے سخت خلاف ہیں، اور کراچی میں اب تعلیم، صحت اور ہنر کی بات ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست کے نام پر مزید تباہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایک افسوسناک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی میں سڑکوں کے ساتھ کھیل کے میدان بھی غیر محفوظ ہیں، جہاں ایک ٹینکر نے گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے 4 سالہ بچے کو کچل دیا۔ گورنر سندھ نے کہا کہ آج گورنر ہاؤس میں ہر قومیت کے لوگ موجود ہیں، کراچی کی سینکڑوں ماؤں کے بیٹے سڑک حادثات کی نذر ہو چکے ہیں، اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لیکن میں ان کا بھائی ہوں، میں گورنر ہوں، اور میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔
اسلام آباد: داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت میں ایک کھرب روپے سے زائد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے اس منصوبے کی لاگت 1.74 کھرب روپے تک بڑھا دی ہے، جبکہ سی ڈی ڈبلیو پی نے مجموعی طور پر 10 ترقیاتی منصوبے پیش کیے، جن میں سے 4 کی منظوری دے دی گئی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت سی ڈی ڈبلیو پی کا اجلاس ہوا، جس میں 10 ترقیاتی منصوبوں کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ تاہم، صرف 4 منصوبوں کی منظوری دی گئی اور 6 منصوبوں کو ایکنک کو بھیج دیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے داسو منصوبے کی لاگت میں اضافے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ سی ڈی ڈبلیو پی نے 6 منصوبے ایکنک کو بھیج دیے۔ ان میں بلوچستان میں تعلیم کے معیار اور رسائی کے لیے 28 ارب روپے کا منصوبہ تجویز کیا گیا، جبکہ شیخوپورہ میں قائداعظم یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں آئی ٹی اسٹارٹ اپس، ٹریننگ، اور وی سی کے لیے 5 ارب روپے کے منصوبے کی منظوری بھی دی گئی، ساتھ ہی قومی سیمی کنڈکٹر پروگرام کے پہلے مرحلے کی بھی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے کسٹمز کمپلیکس اور ڈیجیٹل اسٹیشنز کے لیے 16 ارب روپے کا منصوبہ زیر غور آیا۔ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں سڑکوں کی بحالی کے لیے 12 ارب روپے کی تجویز دی گئی، اور کوئٹہ کے پانی کے بحران کے حل کے لیے تقریباً 10 ارب روپے کا منصوبہ ایکنک کے سپرد کر دیا گیا۔ اجلاس میں بلوچستان میں پانی کی سپلائی کے انتظام اور زرعی زمین کی آب پاشی کے لیے 17 ارب روپے کے منصوبے کو ایکنک کے حوالے کیا گیا۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ صدر آصف زرداری کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں، کیونکہ انہوں نے خود ہی نہروں کی منظوری دی ہے۔ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے معاملے پر اپنے بیان میں مشیر اطلاعات اور ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے کہا کہ صدر زرداری نے نہروں کے معاملے میں یا تو سندھ کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے یا پھر ان کی یادداشت کمزور ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کو ان دونوں باتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ دونوں کی ایک ساتھ تردید ممکن نہیں ہے۔ اگر آصف زرداری کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تو وہ اعلیٰ ترین عہدے پر کیسے براجمان ہیں؟ انہیں فوراً مستعفی ہو جانا چاہیے، کیونکہ انہیں اپنی جسمانی اور ذہنی حالت کے پیش نظر خود استعفیٰ دینا چاہیے۔ بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نہروں کے معاملے پر صرف اپنے ووٹ بینک کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نہروں کی منظوری خود آصف علی زرداری نے دی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری کی منظوری اور بلاول بھٹو کی مخالفت سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی احتجاج کا ڈراما رچ کر اپنے ووٹ بینک کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نہروں کا معاملہ سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے اٹھایا تھا۔ بلاول بھٹو کو احتجاج کرنے کے بجائے اپنے والد سے پوچھنا چاہیے کہ نہروں کی منظوری کیوں دی گئی؟
کئی برس کی قانونی جدوجہد کے بعد ممبئی بم دھماکوں کے ایک مبینہ ملزم اور پاکستانی نژاد کینیڈین تاجر طہور رانا کو جمعرات کے روز امریکہ سے خصوصی پرواز کے ذریعے انڈیا کے دارالحکومت دلی منتقل کر دیا گیا۔ اگلے ہی دن انھیں نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے ان کا 18 روزہ ریمانڈ منظور کیا۔ پیشی کے دوران عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ این آئی اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ طہور رانا سے تفتیش کے دوران ممبئی حملوں کی پوری سازش کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انڈین حکومت نے اس مقدمے کی پیروی کے لیے ممتاز قانون دان نریندر من کو خصوصی سرکاری وکیل مقرر کیا ہے، جبکہ طہور رانا یا ان کے وکلا کی جانب سے فی الحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ طہور رانا 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں ہونے والے مہلک دہشتگرد حملے میں انڈین ایجنسیوں کو مطلوب تھے۔ ان کی حوالگی کو انڈین سیکیورٹی اداروں کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ این آئی اے کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ میں جوڈیشل حراست سے انڈین حکام نے اپنی تحویل میں لیا، جہاں وہ پہلے ہی ایک اور دہشتگردی کے مقدمے میں سزا کاٹ رہے تھے۔ طہور رانا کے خلاف الزامات میں مجرمانہ سازش، انڈین حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنا اور دہشتگردی شامل ہیں۔ ان کی حوالگی کے لیے انڈیا کے خفیہ اداروں اور این آئی اے کے سینیئر اہلکار امریکہ گئے تھے۔ رواں برس فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ جیسے ہی عدالت اجازت دے گی، طہور رانا کو انڈیا کے حوالے کر دیا جائے گا۔ انھوں نے رانا کو ’دنیا کے بہت بُرے لوگوں میں سے ایک‘ قرار دیا تھا۔ رانا کی آمد سے قبل دلی کے ہوائی اڈے پر سکیورٹی انتہائی سخت کی گئی تھی اور تہاڑ جیل سے ایک مخصوص گاڑی انھیں لینے کے لیے روانہ کی گئی تھی۔ وزارت خارجہ نے بدھ کی شب ایڈوکیٹ نریندر من کو تین سال کے لیے اس مقدمے کا خصوصی وکیل مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ سنہ 2011 میں شکاگو کی ایک عدالت نے طہور رانا کو لشکر طیبہ کی معاونت کا مجرم قرار دیا تھا، تاہم ممبئی حملوں میں براہِ راست ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے بچپن کے دوست، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی، کو ممبئی میں اپنی ٹریول ایجنسی کے ذریعے کور فراہم کیا، جس کے تحت ہیڈلی نے حملوں سے قبل مقامات کی ریکی کی۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ممبئی حملوں کا ایک مرکزی منصوبہ ساز تھا، جس نے لشکر طیبہ کے لیے انڈیا میں حملے کے اہداف کی ریکی کی۔ امریکی اور پاکستانی نژاد ہیڈلی نے اپنی شناخت کو چھپاتے ہوئے کئی بار ممبئی کا دورہ کیا اور وہاں کے ہوٹلوں، ریلوے اسٹیشن، یہودی مرکز اور دیگر اہم مقامات کی ویڈیوز اور معلومات اکٹھی کیں، جو بعد میں حملہ آوروں کو فراہم کی گئیں۔ اس نے انڈیا میں موجودگی کے دوران طہور رانا کی ٹریول ایجنسی کو کور کے طور پر استعمال کیا، جس سے وہ قانونی طور پر سفر کر سکا اور شبہ سے بچا رہا۔ گرفتاری کے بعد ہیڈلی نے امریکی حکام کے ساتھ تعاون کیا، مجرمانہ الزامات قبول کیے اور طہور رانا کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر گواہی دی، جس سے رانا کے خلاف مقدمہ مضبوط ہوا۔ رانا نے اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا تھا۔ ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ ہیڈلی نے انھیں استعمال کیا اور ان کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ ہیڈلی نے 2011 میں امریکی عدالت میں رانا کے خلاف سرکاری گواہ کے طور پر گواہی دی تھی۔ انڈیا میں طہور رانا کے خلاف یہ مؤقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ’مہرہ‘ تھا، اصل منصوبہ ساز نہیں۔ انڈیا کے سابق سیکرٹری داخلہ جی کے پلئی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ رانا کا کردار محدود تھا، اور اس نے ہیڈلی کو سہولت فراہم کی۔ پلئی کا کہنا ہے کہ این آئی اے کی چارج شیٹ سے مزید شواہد سامنے آ سکتے ہیں۔ طہور رانا کی زندگی اور پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1961 میں پاکستان میں پیدا ہوئے، میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، اور فوج کے میڈیکل کور سے وابستہ رہے۔ 2001 میں کینیڈا کی شہریت حاصل کی، اور بعد ازاں امریکہ میں امیگریشن اور ٹریول ایجنسی کھولی۔ 2009 میں ایف بی آئی نے رانا اور ہیڈلی کو شکاگو میں گرفتار کیا، جب وہ ڈنمارک کے ایک اخبار پر حملے کے منصوبے کے سلسلے میں سفر کرنے والے تھے۔ ہیڈلی نے بعد میں اعتراف کیا کہ وہ لشکر طیبہ کے تربیتی کیمپس میں شرکت کر چکا تھا، اور امریکی حکومت سے تعاون کے تحت سرکاری گواہ بن گیا۔ طہور رانا کے بھائی، صحافی عباس رانا نے اس وقت بیان دیا تھا کہ ان کا بھائی ’بااصول، سچا اور محنتی‘ انسان ہے۔ انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے رانا کی حوالگی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی سفارتی کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کی کوشش ہے کہ انڈیا کی خودمختاری پر حملہ کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں ایک نئی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، جہاں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحٰق ڈار سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان دو طرفہ تعلقات، افغانستان کی صورت حال اور مستقبل میں تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ اسحٰق ڈار نے اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی جیسے اہم شعبوں میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ اعلامیے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کے ساتھ معدنی وسائل، تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں اشتراک کے لیے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اقتصادی تعاون مستقبل میں دوطرفہ تعلقات کے استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ گفتگو کے دوران اسحٰق ڈار نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملک نے خطے کے امن و استحکام کے لیے ہمیشہ ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھی پاکستان کی ان کوششوں کو سراہا اور انسداد دہشت گردی کے میدان میں مستقبل کے تعاون کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان کی موجودہ صورت حال پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس دوران افغانستان میں موجود امریکی فوجی ساز و سامان کے مسئلے پر بات چیت ہوئی، جس پر فریقین نے اس معاملے کے حل پر اتفاق کیا۔ وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اس موقع پر ایک بار پھر اعادہ کیا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو پائیدار اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے پر عزم ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں قریبی تعاون جاری رکھے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس کی جانب سے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کے اختیار پر جاری تنازعے میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ عدالت عالیہ کے دو سینئر ججز جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے اپنے تحریری آرڈر میں جسٹس بابر ستار کے مؤقف کی مکمل تائید کر دی ہے، جو اس سے قبل اسی تنازع پر مفصل عدالتی حکم جاری کر چکے ہیں۔ اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب سنگل بینچ کے مقدمات اچانک بغیر کسی واضح قانونی بنیاد کے ڈویژن بینچز کو منتقل کیے جانے لگے۔ اس صورتحال پر جسٹس محسن اختر کیانی نے شدید حیرانی کا اظہار کیا اور اپنے تحریری فیصلے میں اسے غیر معمولی اقدام قرار دیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان کی عدالت سے ایک مقدمہ منتقل کیے جانے پر تشکیل دیے گئے ڈویژن بینچ—جس میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز شامل تھے—نے اس معاملے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے برملا سوال اٹھایا کہ سنگل بینچ کا مقدمہ کس قانونی بنیاد پر ڈویژن بینچ کو بھیجا جا سکتا ہے؟ اس پر فریقین کے وکلاء نے بھی اتفاق کیا کہ وہ اس اقدام پر حیران اور پریشان ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بظاہر مقدمات کی منتقلی قائم مقام چیف جسٹس کے حکم پر ہوئی ہے، لیکن عدالت کے سامنے ایسی کوئی قانونی شق یا انتظامی حکم نامہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ایسا کیا جا سکے۔ جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ تو کمیشن بنانے کی درخواست تھی، مگر اس کے ساتھ 21 ٹیکس مقدمات بھی منتقل کر دیے گئے۔" جسٹس کیانی نے مزید کہا کہ مقدمہ سنگل بینچ کے سامنے مکمل طور پر سنا جا چکا ہے، اور اس کے باوجود اسے بغیر کسی قانونی جواز کے دوسرے بینچ کو منتقل کرنا غیر مناسب ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جسٹس بابر ستار اس معاملے پر پہلے ہی ایک مفصل عدالتی حکم جاری کر چکے ہیں، جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ مقدمات کی سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار کس طرح استعمال کیا جانا چاہیے۔ اپنے تحریری فیصلے میں جسٹس محسن اختر کیانی نے لکھا: "رجسٹرار آفس ان مقدمات کو دوبارہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے رکھے، اور چیف جسٹس، ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈر کے تحت اپنے اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ توقع ہے کہ مقدمات کی ہنگامی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں متعلقہ بینچز کے سامنے جلد مقرر کیا جائے گا۔"
امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور تاجروں کے ایک بااثر گروپ نے حالیہ دنوں اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور اسلام آباد میں ایک سینیئر سرکاری عہدیدار سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ ملاقاتیں سیاسی منظرنامے میں ایک نئی پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہیں، جنہیں پی ٹی آئی کے لیے ممکنہ ریلیف حاصل کرنے کی غیر رسمی اور پس پردہ کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ ملاقاتیں ان بیک چینل کوششوں سے علیحدہ ہیں جو ماضی قریب میں پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کے درمیان جاری تھیں، اور جن میں تاحال کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم یہ امکان موجود ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت مستقبل قریب میں دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مستقل طور پر یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کرے گی اور یہ سیاسی جماعتوں کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ باہم گفت و شنید کریں۔ اس کے باوجود، پی ٹی آئی کے بعض رہنما پس پردہ رابطے بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی — بالخصوص ڈاکٹرز اور تاجر — ایک غیر رسمی رابطہ پل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ان کے حالیہ رابطے بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک نرم مزاجی کی نئی کوشش ہیں، جو عمران خان کے لیے ممکنہ ریلیف کی راہیں ہموار کر سکتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو ریلیف ملنے کا انحصار بڑی حد تک سوشل میڈیا کی حکمت عملی اور پارٹی چیئرمین کے طرزِ بیان پر ہوگا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ اور بیرونِ ملک چیپٹرز — بالخصوص امریکا اور برطانیہ میں — فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان مہمات میں بعض اوقات جھوٹی معلومات بھی پھیلائی گئیں، جنہیں ملکی اداروں کو کمزور کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، عمران خان کی رہائی کے لیے بین الاقوامی دباؤ پیدا کرنے کی غرض سے واشنگٹن، لندن اور دیگر عالمی دارالحکومتوں سے بھی رابطے کیے گئے۔ پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت خود اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پارٹی کی حالیہ مشکلات کی ایک بڑی وجہ اس کا جارحانہ سوشل میڈیا بیانیہ ہے۔ ان رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اس رویے میں تبدیلی کے بغیر عمران خان کی رہائی اور پارٹی کی بحالی ممکن نہیں۔ پارٹی کی موجودہ حکمت عملی نہ صرف داخلی سطح پر مسائل پیدا کر رہی ہے بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات اور اقتصادی پوزیشن پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو متاثر کرنے کی کوششوں اور فوج پر عالمی پابندیاں لگوانے کی خواہشات نے پارٹی کے مؤقف کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔ اب جب کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا وفد عمران خان سے ملاقات کر چکا ہے، یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ آیا پارٹی قیادت اور اس کا سوشل میڈیا ونگ اپنے رویے میں کوئی نرمی لاتا ہے یا نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی فوج کے خلاف تنقید روک دیتی ہے اور منفی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے تو عمران خان کو ریلیف ملنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی اور اس کے ہمدردوں کے لیے سب سے اہم مقصد یہی ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کو قانونی و سیاسی ریلیف حاصل ہو۔ تاہم یہ ریلیف محض نعرے بازی اور دباؤ کی سیاست سے نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ حکمت عملی، تنقیدی لہجے میں نرمی اور اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی ترک کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
سانگھڑ میں دودھ فروش ناظم الدین شر کو موٹر سائیکل چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ کارروائی اُس کے سوشل میڈیا پر عمران خان کے حق میں حمایت کا اظہار کرنے کے بعد کی گئی۔ ایکسپریس ٹریبیون کی خبر کے مطابق ، یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ناظم الدین شر نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے احتجاجی جلسے میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ عمران خان کے حق میں بیان دینے کے بعد اُس پر موٹر سائیکل چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ناظم الدین شر نے کہا کہ اس نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور اُسے ایماندار رہنما قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق، پی پی پی کے خلاف بیان دینے کے بعد پولیس نے اُسے صبح کے وقت کُنڈی واہ کے قریب اُس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے گاؤں سے شہر جا رہا تھا۔ اُسے بعد میں ایک غیر متعین مقام پر لے جایا گیا جس سے اُس کے خاندان میں پریشانی پیدا ہو گئی۔ اُس کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ پولیس نے اُس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی۔ تاہم، جب اس کی گرفتاری کی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلیں، تو پولیس نے موٹر سائیکل چوری کے الزام میں اُس کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ ناظم الدین شر کے والدین نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ اُن کا بیٹا کبھی بھی کسی غیر قانونی کام میں ملوث نہیں رہا۔ اُنہوں نے پولیس پر الزام لگایا کہ اُس نے ان کے بیٹے کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا ہے۔ دوسری جانب، سانگھڑ پولیس اسٹیشن پر وکلاء اور ناظم الدین شر کے خاندان کے افراد نے مزید معلومات کے لیے احتجاج کیا۔ وکلا نے اس گرفتاری کی مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ یہ واقعہ سیاسی اختلافات اور پولیس کے متنازعہ اقدامات کی ایک مثال بن گیا ہے، جہاں ایک شخص کے سیاسی بیانات کے سبب اُسے قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
لاہور شہر میں مرغی مٹن اور بیف کی قیمتوں پر قابو نہ پایا جا سکا۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں زندہ مرغی کا سرکاری ریٹ 383 روپے فی کلو ہے جبکہ 515 روپے کلو میں فروخت کی جا رہی ہے۔ مرغی کے گوشت کاسرکاری ریٹ 595 ہے جبکہ 760 روپے کلو میں فروخت کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف شہر میں مٹن کا سرکاری ریٹ 1 ہزار 6 سو مقرر ہے، جو ہزار روپے زائد یعنی 2 ہزار 6 سو روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ لاہور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ دکان دار سرکاری ریٹ لسٹ پر عمل نہیں کر رہے۔
کوئٹہ : حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) ریڈ زون میں احتجاج کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سردار اختر مینگل کے ساتھ حکومتی کمیٹی نے 2 نشستیں کی ہیں، صوبائی حکومت نے انہیں سریاب روڈ پر جگہ کی پیشکش کی لیکن بی این پی ریڈ زون میں احتجاج کرنا چاہتی ہے، اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ شاہد رند کا کہنا تھا کہ بی این پی کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے، دفعہ 144 نافذ ہے، اگر خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ لے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اب بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہےہیں، صوبائی حکومت کی کوشش یہی تھی کہ سیاسی ڈائیلاگ سے معاملے کو حل کیا جائے، دونوں اطراف کو لچک دکھانا ہوگی، اگر اختر مینگل بضد رہیں گے تو حکومت کےپاس دیگر آپشنز موجود ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سردار اختر مینگل کی قیادت میں بی این پی کا لانگ مارچ وڈھ سے شروع ہوا تھا تاہم مستونگ کے مقام پر راستے بند ہونے پر وہیں دھرنا دیا گیا تھا جو آج نویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔
پشاور کے علاقے حیات آباد میں نوجوان کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا اور قاتلہ لڑکے کی منگیتر نکلی۔ پولیس کے مطابق 27 مارچ کو حیات آباد میں مقتول ابرار کی لاش برآمد ہوئی تھی جس پر پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ پولیس نے بتایا کہ مقتول کی منگیتر اور اس کے دوست ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے، مقتول ابرار اللہ کی شادی 6 اپریل کو طے تھی۔ پولیس کے مطابق لڑکی ابرار سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لیے اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر اسے قتل کروا دیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی قیادت میں مستونگ لک پاس پر دھرنا نویں روز میں داخل ہوگیا۔ بی این پی سربراہ کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں، اور یہ رویہ افسوس ناک ہے۔ بی این پی کے قافلے کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے انتظامیہ نے مستونگ اور مختلف مقامات پر کنٹینرز لگا دیے ہیں۔ کوئٹہ میں موبائل فون اور ڈیٹا انٹرنیٹ سروسز گزشتہ 4 روز سے معطل ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
کوئٹہ میں حالیہ احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے حوالے سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اعزاز احمد گورائیہ نے اہم تفصیلات فراہم کی ہیں۔ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مشتعل افراد نے سول ہسپتال میں مارپیٹ کی، کیمرے تباہ کیے، 18 سے زائد پولز توڑے اور کئی سو کلومیٹر آپٹک فائبر کو نذرِ آتش کیا۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تھا، جسے 12 مارچ کو کلیئر کیا گیا۔ اس حملے میں ملوث 5 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جن کی لاشیں قانونی ضابطے کے تحت سول ہسپتال منتقل کی گئیں تاکہ ان کی شناخت ممکن ہو سکے۔ نادرا اور ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق کے بعد ورثا کو قانونی تقاضے پورے کر کے لاشیں دی جانی تھیں۔ اعزاز احمد گورائیہ کا کہنا تھا کہ 19 مارچ کو صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے دورے کے دوران بی وائی سی کے لوگ ہسپتال پہنچے اور لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ انہیں آگاہ کیا گیا کہ صرف قانونی ورثا عدالت کی اجازت سے لاشیں حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم، مظاہرین نے زبردستی سرد خانے کے دروازے توڑ کر لاشیں لے جانے کی کوشش کی، جس پر انتظامیہ نے کارروائی کی۔ ڈی آئی جی کے مطابق، مظاہرین نے ہسپتال، یونیورسٹی، پوسٹ آفس، اور بینک سمیت کئی عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی۔ 36 سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے تباہ کر دیے گئے، جب کہ پولیس نے پرامن طریقے سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔ ساڑھے 7 بجے اچانک خبر آئی کہ 3 لاشیں ہسپتال منتقل کی گئی ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔ تاہم، ڈی آئی جی نے سوال اٹھایا کہ جب پولیس پیچھے ہٹ چکی تھی، تو یہ لاشیں کیسے آئیں؟ وزیراعلیٰ اور آئی جی بلوچستان نے پوسٹ مارٹم کا حکم دیا، مگر بی وائی سی نے انکار کر دیا۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت 61 افراد کو جیل بھیجا گیا، جب کہ 13 افراد کو ایف آئی آر کے مطابق گرفتار کیا گیا۔ 35 افراد کو ضمانت پر رہا کیا گیا، اور بعض کم عمر مظاہرین کو والدین کی درخواست پر چھوڑ دیا گیا۔ حکام کے مطابق، احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے، لیکن سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ بلوچستان حکومت نے بی وائی سی کو احتجاج کے لیے مخصوص مقامات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کی گئی۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم شہباز شریف کو مراسلہ ارسال کرتے ہوئے پن بجلی کے خالص منافع کے بقایا جات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ مراسلے میں آئین کے آرٹیکل 161 (2) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پن بجلی گھروں سے حاصل ہونے والا منافع متعلقہ صوبوں کو ملنا چاہیے، اور اس کی شرح کا تعین مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے فیصلے کے مطابق کیا جانا ضروری ہے۔ مراسلے میں واضح کیا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 1991 میں قاضی کمیٹی میتھاڈالوجی کی منظوری دی تھی، جس کے تحت 1992 میں اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) کو چھ ارب روپے کی پہلی ادائیگی کی گئی۔ 1997 میں نیشنل فنانس کمیشن اور سپریم کورٹ نے بھی اس طریقہ کار کی توثیق کی، جبکہ 2016 میں وفاقی حکومت نے اس حوالے سے ایک عبوری طریقہ کار متعارف کرایا، جسے مشترکہ مفادات کونسل نے بھی منظور کر لیا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے مراسلے میں نشاندہی کی کہ پن بجلی کے خالص منافع کی شرح 1.10 روپے فی کلو واٹ آور مقرر کی گئی ہے، اور عبوری طریقہ کار کے تحت اس میں سالانہ 5 فیصد اضافہ بھی شامل کیا گیا۔ اس بنیاد پر واپڈا نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ادائیگیاں شروع کیں، تاہم مقررہ ادائیگیاں نہ ہونے کے سبب خیبر پختونخوا کے 75 ارب روپے کے بقایا جات جمع ہو گئے ہیں۔ مزید یہ کہ 2018 میں خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ اس معاملے کو مکمل طور پر حل کرنے کے لیے کے سی ایم فارمولے پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے مالی سال 2016-17 کے دوران خیبر پختونخوا کے 128 ارب روپے کے بقایا جات کی تصدیق کی۔ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبوں کو پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگیوں کے مسئلے کا آؤٹ آف دی باکس حل تجویز کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے تمام شراکت داروں سے تجاویز طلب کیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی تجاویز پلاننگ کمیشن کو ارسال کر دی ہیں، تاکہ اس دیرینہ مسئلے کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل تلاش کیا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کو درپیش مالی بحران کے پیش نظر اس مسئلے کے فوری حل کے لیے آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد از جلد بلایا جائے اور آئین کے تقاضوں اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے مطابق خیبر پختونخوا کے عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق دیے جائیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے اور خیبر پختونخوا کے عوام کے دیرینہ مالی حقوق کی بحالی کو یقینی بنائیں گے۔
فرانس کی عدالت نے انتہائی دائیں بازو کی رہنما مارین لی پین کو یورپی فنڈز میں خوردبرد کے الزام میں مجرم قرار دیتے ہوئے چار سال قید اور ایک لاکھ یورو جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ اس کے علاوہ، پانچ سال تک کسی عوامی عہدے پر فائز ہونے یا انتخاب لڑنے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ نیشنل ریلی (آر این) پارٹی کی سربراہ لی پین کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو 2027 کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں ایک مضبوط امیدوار سمجھی جا رہی تھیں۔ فرانسیسی عدالت کا یہ فیصلہ ان کی صدارتی دوڑ کو متاثر کر سکتا ہے، جب تک کہ ان کی اپیل کامیاب نہ ہو۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، اس عدالتی فیصلے کے فرانسیسی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ صدر ایمانوئل میکرون کی جانشینی کی دوڑ کو پیچیدہ بنا سکتا ہے اور ان کی پہلے ہی کمزور اقلیتی حکومت پر مزید دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اس سے دائیں بازو کے رہنماؤں میں عدلیہ کی غیر منتخب طاقت کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی غصے میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ برازیل کے سابق صدر جائر بولسونارو، جو خود بھی 2030 تک عہدے کے لیے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں، نے لی پین کی سزا کو "بائیں بازو کی عدالتی سرگرمی" قرار دیا ہے۔ ٹی ایف ون پر پرائم ٹائم ٹی وی انٹرویو میں مارین لی پین نے خود پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے قصور ہیں اور جلد از جلد اپیل کریں گی۔ انہوں نے اس فیصلے کو "سیاسی انتقام" قرار دیتے ہوئے کہا: "آج رات لاکھوں فرانسیسی عوام غصے میں ہیں اور ناقابل تصور حد تک ناراض ہیں، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کے ملک میں ججوں نے وہ طریقے اپنائے ہیں جو آمرانہ حکومتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔" لی پین کی پانچ سالہ سرکاری عہدے کے لیے نااہلی اپیل کے ذریعے معطل نہیں کی جا سکتی، تاہم وہ اپنی پارلیمانی نشست برقرار رکھ سکتی ہیں۔ عدالت نے انہیں چار سال قید کی سزا دی ہے، جن میں سے دو سال معطل ہیں، جبکہ دو سال گھر میں نظر بند رکھا جائے گا۔ امریکی ارب پتی اور ٹیسلا کے بانی ایلون مسک، جو ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف عدالتی کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، نے لی پین کے خلاف فیصلے پر سخت ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: "جب انتہا پسند بائیں بازو جمہوری ووٹ کے ذریعے جیت نہیں سکتے، تو وہ اپنے مخالفین کو جیل بھیجنے کے لیے قانونی نظام کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں ان کا آزمودہ طریقہ ہے۔" مسک کا یہ تبصرہ ایک عالمی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں مقبول عوامی رہنماؤں، جیسے کہ برازیل کے جائر بولسونارو، پاکستان کے عمران خان، اٹلی کے میٹیو سالوینی، امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ اور رومانیہ کے کالن جارجیسکو، کو قانونی کارروائیوں کے ذریعے سیاسی طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ عدالتی فیصلے پر لی پین کے اتحادیوں اور یورپ سمیت دنیا بھر کے دائیں بازو کے رہنماؤں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ آر این پارٹی کے صدر، جورڈن بارڈیلا نے کہا: "آج صرف مارین لی پین کو غیر منصفانہ طور پر سزا نہیں دی گئی بلکہ یہ فرانسیسی جمہوریت تھی جسے قتل کیا گیا۔" جج بینیڈکٹ ڈی پرتھوئس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لی پین نے یورپی یونین کے 40 لاکھ یورو (4.3 ملین ڈالر) کے فنڈز کا غلط استعمال کیا اور انہیں اپنی پارٹی کے عملے پر خرچ کیا۔ جج کے مطابق، لی پین اور ان کے ساتھیوں نے کوئی ندامت ظاہر نہیں کی، جس کی وجہ سے عدالت نے انہیں صدارتی انتخاب سے فوری طور پر نااہل قرار دیا۔ فرانسیسی عدلیہ کی اعلیٰ کونسل نے عدالتی فیصلے پر شدید ردعمل کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ: "استغاثہ یا سزا کے میرٹ پر سیاسی رہنماؤں کے بیانات، خاص طور پر عدالتی غور و خوض کے دوران، جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں ہیں۔" یہ معاملہ فرانس میں ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک اہم سیاسی بحث کا باعث بن گیا ہے کہ آیا انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائیاں واقعی انصاف پر مبنی ہیں یا یہ سیاسی جوڑ توڑ کا نتیجہ ہیں؟
ابوظہبی کی فیڈرل کورٹ آف اپیل کے اسٹیٹ سیکیورٹی ڈویژن نے نومبر 2024 میں اغوا اور قتل کے ایک ہائی پروفائل کیس میں ملوث چار افراد کو سزا سنا دی۔ خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، تین ملزمان کو دہشت گردی کے ارادے سے منصوبہ بند قتل کے جرم میں سزائے موت دی گئی، جبکہ چوتھے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت داخلہ نے 25 نومبر کو تین مجرموں کی شناخت ازبک شہریوں کے طور پر کی تھی، جن میں 28 سالہ اولمپی توہیرووک، 28 سالہ محمود جان عبدالرحیم اور 33 سالہ عزیز بیک کامیلووک شامل ہیں۔ قتل کا یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب زوی کوگن کے اہل خانہ نے 21 نومبر کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی۔ تین دن بعد، اماراتی حکام نے تصدیق کی کہ زوی کوگن کو قتل کر دیا گیا تھا اور ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق، مشتبہ افراد قتل کے بعد ترکی فرار ہو گئے تھے، تاہم ترکی کی انٹیلیجنس اور پولیس کے خفیہ آپریشن کے دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں، متحدہ عرب امارات کی درخواست پر ان افراد کو حوالے کر دیا گیا۔ اٹارنی جنرل کونسلر ڈاکٹر حماد سیف الشمسی نے جنوری 2025 میں ملزمان کے فوری ٹرائل کا حکم دیا تھا، جس کے بعد عدالت میں قتل اور اغوا کے شواہد پیش کیے گئے، جن میں فرانزک رپورٹس، پوسٹ مارٹم رپورٹس، گواہوں کی گواہیاں اور مجرموں کے اعترافی بیانات شامل تھے۔ عدالت نے بالآخر متفقہ طور پر تین مجرموں کو سزائے موت اور چوتھے کو عمر قید کے بعد ملک بدری کا فیصلہ سنایا۔ 28 سالہ زوی کوگن مالدووا کی شناختی دستاویزات کے تحت متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر تھا۔ وہ ابوظہبی میں اپنی اہلیہ ریوکی کے ساتھ رہ رہا تھا اور ایک کوشر گروسری اسٹور چلاتا تھا۔ وہ چاباد حسیدی تحریک کے سفیر تھے اور بعد ازاں انہیں اسرائیل میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ زوی کوگن کے قتل کے بعد چاباد برادری نے شدید ردعمل دیا اور اس واقعے کو "المناک اور اشتعال انگیز" قرار دیا۔ بین الاقوامی یہودی برادری نے عالمی رہنماؤں سے کارروائی کا مطالبہ کیا اور متحدہ عرب امارات کی کوششوں کی تعریف کی، جو اس جرم میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے قوانین کے مطابق سزائے موت کے فیصلے اپیل کے تحت آتے ہیں، اور اس پر نظرثانی کے لیے وفاقی سپریم کورٹ کے کرمنل کیسیشن چیمبر کو بھیجا جا سکتا ہے۔

Back
Top