خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کوالالمپور: پاکستان ہاکی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملائیشیا میں کھیلے جانے والے ایف آئی ایچ نیشنز ہاکی کپ کے سیمی فائنل میں فرانس کو شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، سیمی فائنل کا سنسنی خیز مقابلہ مقررہ وقت تک 3-3 گول سے برابر رہا۔ فرانس نے میچ کے اختتام سے صرف تین منٹ قبل گول کر کے مقابلہ برابر کر دیا۔ تاہم، پنالٹی شوٹ آؤٹ میں پاکستان نے اعتماد اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2 کے مقابلے میں 3 گول کر کے فتح سمیٹی اور فائنل تک رسائی حاصل کر لی۔ یاد رہے کہ پاکستان کو 18 جون کو نیوزی لینڈ کے خلاف ایک سخت مقابلے میں 3 کے مقابلے میں 4 گول سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے بعد سیمی فائنل میں رسائی کا انحصار ملائیشیا اور جاپان کے درمیان ہونے والے میچ پر تھا۔ پاکستان کے لیے خوش قسمتی سے ملائیشیا نے جاپان کو 1-2 سے شکست دے دی، جس کے نتیجے میں پاکستان نے بہتر گول اوسط کی بنیاد پر سیمی فائنل میں جگہ بنائی اور اب فائنل تک پہنچ چکا ہے۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ملک کے بڑے کلبز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز منظور کرلی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔ چیئرمین ایف بی آر نے اجلاس میں بتایا کہ اسلام آباد کلب سمیت کئی بڑے کلب صرف تین ہزار افراد کی عیاشی کے لیے قائم ہیں، اور ان کلبز کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایک کلب کی زمین کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں ہے اور محدود تعداد میں لوگ ان سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کلبز کے منافع پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اجلاس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے متفقہ طور پر ملک کے بڑے کلبز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کی منظوری دے دی۔ علاوہ ازیں چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 6 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر انکم ٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 2.5 فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدن پر ایک ہزار روپے ٹیکس دینا کوئی بڑا بوجھ نہیں ہوگا۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر محسن عزیز نے تجویز دی کہ انکم ٹیکس چھوٹ کی سالانہ حد 12 لاکھ روپے ہونی چاہیے، جبکہ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ مہنگائی کے باعث آج 50 ہزار روپے کی ویلیو کم ہو کر 42 ہزار روپے رہ گئی ہے۔ اجلاس کے دوران اراکین نے آن لائن کامرس پر ٹیکس لگانے کی تجویز مسترد کردی۔
ایران کے سابق ولی عہد رضا پہلوی نے ایک اہم بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ایران فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور موجودہ حکومت کا خاتمہ قریب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے زمینی کنٹرول کھو دیا ہے اور جلد ایک نیا سیاسی دور شروع ہونے والا ہے۔ رضا پہلوی، جو ایران کے سابق بادشاہ محمد رضا پہلوی کے بیٹے ہیں، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا ہے کہ خامنہ ای کے بعد 100 دن کی عبوری حکومت قائم کی جائے گی، جس کے بعد قومی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایرانی عوام اسلامی جمہوریہ کے سقوط کے بعد کے مرحلے کے بارے میں فکرمند نہ ہوں، ہمارے پاس ایران کے مستقبل کے لیے ایک جامع منصوبہ موجود ہے۔ سابق ولی عہد کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت کے قیام کے لیے پوری تیاری مکمل ہے اور یہ عبوری انتظامات ایرانی عوام کے تعاون اور بیرونی دنیا کے اعتماد سے عمل میں آئیں گے۔ رضا پہلوی نے ایران کی افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے اپیل کی کہ وہ ایک ایسے نظام کا دفاع نہ کریں جس کا خاتمہ قریب ہے، بلکہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران رضا پہلوی کی سرگرمیاں ایک بار پھر سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بن گئی ہیں۔ ایک ویڈیو میں انہیں مقبوضہ بیت المقدس کے دورے کے دوران یہودیوں کے مقدس مقام ’دیوارِ گریہ‘ پر حاضری دیتے ہوئے دیکھا گیا، جس پر ایرانی حلقوں میں شدید ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ رضا پہلوی ماضی میں بھی ایرانی حکومت کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں، تاہم حالیہ ایام میں ان کی سرگرمیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر جب سے ایران پر بیرونی دباؤ اور اندرونی احتجاج میں شدت آئی ہے۔
دنیا بھر میں نوجوان نسل اب خبریں حاصل کرنے کے لیے روایتی ذرائع جیسے اخبارات، ریڈیو یا ٹی وی کے بجائے جدید ڈیجیٹل ذرائع، خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس، کا استعمال تیزی سے بڑھا رہی ہے۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق، آکسفورڈ یونیورسٹی کے رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف جرنلزم کی سالانہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خبروں تک رسائی کے لیے چیٹ بوٹس کا استعمال نمایاں طور پر بڑھا ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر میتالی مکھرجی کے مطابق یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ خبروں کی سرخیاں اور اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے بوٹس کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ان صحافیوں، محققین اور میڈیا اداروں کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے جو میڈیا کے بدلتے رجحانات پر نظر رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اب بھی دنیا کی اکثریت خبریں پڑھنے کو ترجیح دیتی ہے، جب کہ تقریباً ایک تہائی لوگ آن لائن ویڈیوز کے ذریعے خبریں حاصل کرتے ہیں، اور 15 فیصد افراد خبروں کو سننا پسند کرتے ہیں۔ نوجوان افراد، خاص طور پر امریکا میں، ویڈیوز اور آڈیو فارمیٹس کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ امریکا میں 35 سال سے کم عمر کے 50 فیصد سے زائد نوجوان سوشل میڈیا اور ویڈیو پلیٹ فارمز کو خبروں کے بنیادی ذرائع کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 18 سے 24 سال کے افراد میں سے 44 فیصد نے کہا کہ وہ خبریں سوشل یا ویڈیو نیٹ ورکس سے حاصل کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس جیسے ChatGPT (اوپن اے آئی)، Gemini (گوگل) اور LLaMA (میٹا) خبروں کے حصول کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مطالعے میں شامل افراد نے ان بوٹس سے حاصل ہونے والی ذاتی نوعیت کی، مختصر اور بروقت خبروں کو سراہا۔ مزید اعداد و شمار کے مطابق 27 فیصد افراد نے خبروں کا خلاصہ حاصل کرنے کے لیے اے آئی استعمال کیا، 24 فیصد نے ترجمہ کے لیے، 21 فیصد نے آرٹیکل تجاویز کے لیے، اور ہر پانچ میں سے ایک نے حالاتِ حاضرہ سے متعلق سوالات کیے۔ اگرچہ لوگ اے آئی کا استعمال پسند کر رہے ہیں، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اب بھی شفافیت، درستگی اور بھروسے سے متعلق خدشات پائے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ روایتی میڈیا سے ہٹ کر اب نوجوان طبقہ یوٹیوب، پوڈکاسٹس اور آن لائن شخصیات کی طرف زیادہ متوجہ ہے۔ امریکا میں 20 فیصد نے جوئے روگن کو خبروں یا تجزیوں کے لیے سنا یا دیکھا، جب کہ 14 فیصد نے ٹوکر کارلسن کے تبصرے سنے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آن لائن شخصیات اور سیاستدانوں کو دنیا بھر میں گمراہ کن معلومات کے سب سے بڑے ذرائع کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جب کہ امریکا میں سیاستدانوں کو اس حوالے سے سرفہرست سمجھا جاتا ہے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبار اور نیوز ویب سائٹس اب سوشل میڈیا کے مقابلے میں پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اب بھی خبروں کے لیے ایک نمایاں ذریعہ ہے۔ امریکا میں 23 فیصد افراد اب بھی ’ایکس‘ کو خبروں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے۔ آسٹریلیا اور پولینڈ جیسے ممالک میں بھی اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کرنل ناتھن میک کارمیک کو ان کے حساس مشاورتی عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ ان کی برطرفی کی وجہ اسرائیل کے حوالے سے دیے گئے متنازع بیانات ہیں، جن میں انہوں نے اسرائیلی حکومت کو ’موت کا فرقہ‘ قرار دیا اور امریکا کو اسرائیل کا پراکسی قرار دیا۔ تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، کرنل میک کارمیک جون 2024 سے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے J5 پلاننگ ڈائریکٹوریٹ میں لیونٹ اور مصر کے شعبے کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کا کام امریکی فوجی قیادت کو علاقائی شراکت داروں، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے، کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے تیار کرنا تھا۔ کرنل میک کارمیک ایک نیم گمنام سوشل میڈیا اکاؤنٹ ’نیٹ‘ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے، خصوصاً 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے واقعات کے تناظر میں۔ ان کے پوسٹس میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں، فلسطینی شہریوں پر حملوں، اور امریکی پالیسی پر شدید تنقید شامل تھی۔ اپریل 2024 میں انہوں نے لکھا: "میں نے حال ہی میں یہ سوچنا شروع کیا ہے کہ کہیں ہم خود اسرائیل کے پراکسی تو نہیں بن چکے، اور ہمیں اس کا علم ہی نہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل ہمارا بدترین اتحادی ہے، جس کے ساتھ شراکت داری ہمیں صرف مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے کروڑوں لوگوں کی دشمنی دلاتی ہے۔" مئی میں ان کی ایک اور پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ: "نیتن یاہو اور ان کے یہودی بالادستی پر یقین رکھنے والے ساتھی اس تنازع کو سیاسی و علاقائی مقاصد کے لیے طول دے رہے ہیں۔" انہوں نے اسرائیلی افواج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ردعمل اکثر "غیر متناسب طور پر فلسطینی شہریوں کو نشانہ بناتا ہے" اور اسرائیل کا مقصد "ارض اسرائیل کو نسلی طور پر فلسطینیوں سے پاک کرنا ہے۔" محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ کرنل میک کارمیک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، اور کہا کہ ان کی آرا "جوائنٹ اسٹاف یا محکمہ دفاع کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتیں۔" کرنل کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی حذف کر دیا گیا ہے اور معاملہ امریکی فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ میک کارمیک نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکا نے اسرائیل کو لبنان پر ممکنہ حملے سے متعلق خبردار کیا تھا، مگر اسرائیل نے اس وارننگ کو نظر انداز کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امریکی ادارے عام طور پر غزہ کی وزارت صحت کے جانی نقصان کے اعداد و شمار کو قابلِ اعتماد سمجھتے ہیں۔ کرنل میک کارمیک کی برطرفی امریکی معاشرے میں اسرائیل سے متعلق پالیسیوں پر گہرے ہوتے اختلافات کی علامت سمجھی جا رہی ہے۔ ایک بڑی تعداد میں امریکی شہری اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور اس پر خرچ ہونے والے وسائل پر سوالات اٹھا رہے ہیں، جنہیں وہ امریکی مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے پہلی بار کھلے الفاظ میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے کے امکان کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نیتن یاہو نے کہا: "ہم وہی کر رہے ہیں جو ہمیں کرنا چاہیے۔ میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، لیکن ہم ایران کے اعلیٰ جوہری سائنسدانوں کو پہلے ہی نشانہ بنا چکے ہیں۔ یہ لوگ گویا ہٹلر کی جوہری ٹیم کا حصہ ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایرانی سپریم لیڈر کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ تنازع کو بڑھانے کا باعث نہیں بنے گا بلکہ یہ جنگ کا خاتمہ کر دے گا۔ نیتن یاہو نے ایرانی قیادت کی جانب سے جنگ بندی اور مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کو بھی مسترد کر دیا۔ ان کے مطابق: "ایران جعلی مذاکرات کا سہارا لیتا ہے۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، اور امریکا کو بے وقوف بناتے ہیں۔ ہمارے پاس اس پر مستند انٹیلیجنس موجود ہے۔" سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’امریکا فرسٹ‘ نظریے کے تناظر میں نیتن یاہو نے کہا: "ہم صرف اپنے دشمن سے نہیں لڑ رہے بلکہ امریکا کے دشمن سے بھی۔ وہ نعرے لگاتے ہیں: ’اسرائیل مردہ باد، امریکا مردہ باد‘۔ ہم ان کے راستے میں کھڑے ہیں۔ یہ خطرہ صرف اسرائیل کا نہیں بلکہ امریکا، یورپ اور ہمارے عرب ہمسایوں کا بھی ہے۔" اسرائیلی وزیراعظم نے مغربی دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا: "اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایران کا ایجنڈا صرف اسرائیل کے خلاف ہے تو یہ سادہ غلطی نہیں بلکہ مکمل اندھا پن ہے۔"
پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے اجازت طلب کی ہے کہ ملک میں تیار ہونے والی ہر قابل ٹیکس مصنوعات پر ایک فیصد نیا خصوصی ٹیکس (سیس) عائد کیا جائے، تاکہ بھارت کی آبی جارحیت کے مقابلے میں دو بڑے آبی ذخائر — دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم — کی جلد تکمیل کو ممکن بنایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ اور وزارت آبی وسائل نے تجویز دی ہے کہ بجلی اور ادویات کے سوا تمام قابل ٹیکس اشیاء پر ایک فیصد سیس نافذ کیا جائے تاکہ اضافی مالی وسائل جمع کیے جا سکیں۔ تاہم، آئی ایم ایف نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 1000 ارب روپے کے منظور شدہ وفاقی ترقیاتی بجٹ (پی ایس ڈی پی) میں ہی گنجائش نکالے، نہ کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالے۔ صوبوں کی عدم دلچسپی، مرکز کی نئی حکمتِ عملی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب اکثر صوبوں نے ان دو اہم وفاقی منصوبوں کے لیے مالی تعاون سے انکار کر دیا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی ابتدائی لاگت 480 ارب روپے جبکہ مہمند ڈیم کی لاگت 310 ارب روپے رکھی گئی تھی، مگر اب دونوں منصوبوں کی تکمیل کے لیے کم از کم 540 ارب روپے مزید درکار ہیں۔ وزارت آبی وسائل نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ موجودہ مالیاتی رفتار پر ان ڈیمز کی تکمیل میں 15 سے 20 سال لگ سکتے ہیں، جو قومی سلامتی کے تناظر میں ناقابل قبول ہے۔ اس لیے حکومت نے ان منصوبوں کو تیز رفتار بنیادوں پر مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام پر نیا بوجھ یا پانی کی بقا؟ تجویز کے مطابق، تمام مقامی طور پر پیدا ہونے والی قابل ٹیکس اشیاء کی مجموعی مالیت پر ایک فیصد نیا سیس لگایا جائے گا۔ تاہم، بجلی اور ادویات جیسی بنیادی اشیاء، جو فی الوقت سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں، اس سے مستثنیٰ رہیں گی۔ نیا سیس ’گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس‘ (GIDC) کی طرز پر ہوگا، جسے ماضی میں ایران-پاکستان گیس پائپ لائن کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایسا سیس صرف مخصوص مقصد کے لیے علیحدہ قانون سازی کے ذریعے ہی لگایا جا سکتا ہے، اسی لیے یہ سیس فنانس بل 2025 کے ذریعے نہیں بلکہ ایک علیحدہ بل کے ذریعے نافذ کیا جائے گا — جس کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہے۔ موجودہ ترقیاتی بجٹ میں رکاوٹیں منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق نئے مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ میں درحقیقت صرف 640 ارب روپے دستیاب ہوں گے، باقی 360 ارب روپے مخصوص منصوبوں جیسے کراچی-کوئٹہ روڈ، صوبائی اسکیمز اور قبائلی علاقوں کے لیے مخصوص ہیں۔ ان حالات میں موجودہ پی ایس ڈی پی سے ڈیم منصوبوں کی تکمیل ناممکن نظر آتی ہے۔ بھارتی آبی جارحیت پر دوٹوک پیغام بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی کوششوں کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ پانی کی فراہمی بند کرنا ’جنگی اقدام‘ کے مترادف سمجھا جائے گا۔ ان خطرات کے پیش نظر پاکستان نے آبی خودکفالت کے لیے فوری اقدامات کی راہ اپنائی ہے۔ صوبائی رویے اور مالی بحران ذرائع کے مطابق حالیہ نیشنل اکنامک کونسل (NEC) اجلاس اور بعد ازاں وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونے والے اجلاسوں میں صرف خیبر پختونخوا حکومت نے ڈیمز کی مالی معاونت میں دلچسپی دکھائی، جبکہ دیگر صوبے پیچھے ہٹ گئے۔ جی آئی ڈی سی کا مسئلہ اور حکومتی ناکامی دلچسپ بات یہ ہے کہ جی آئی ڈی سی کے تحت جمع کیے گئے 400 ارب روپے سے زائد کی رقم اب تک ٹیکسٹائل اور فرٹیلائزر کمپنیاں حکومتی خزانے میں جمع نہیں کرا سکیں۔ حکومت اس رقم کو ڈیمز کی تعمیر میں استعمال کرنے کی کوشش پر بھی غور کر رہی ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس وقت نہ تو ایران سے بات کرنے کے موڈ میں ہیں اور نہ ہی کسی بھی شکل میں ایران سے رابطہ کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، امریکا محض جنگ بندی نہیں بلکہ ایران کے ساتھ جاری تنازع کا "مکمل اور حقیقی اختتام" چاہتا ہے۔ یہ بیان ٹرمپ نے جی-7 اجلاس سے واپسی پر ایئر فورس ون میں امریکی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر بھی یہی مؤقف دہرایا کہ وہ جنگ بندی سے آگے بڑھ کر اس تنازع کا مستقل حل چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو وہ جوہری معاہدہ قبول کر لینا چاہیے تھا جو اس کے سامنے پیش کیا گیا تھا، لیکن اس نے ایسا نہ کر کے موقع ضائع کر دیا۔ ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ اگر کبھی ضرورت پیش آئی تو وہ امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف یا نائب صدر جے ڈی وینس کو ایران سے ملاقات کے لیے بھیج سکتے ہیں، لیکن فی الحال ان کی انتظامیہ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران پر حملوں کی شدت میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا اور آنے والے چند دنوں میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی۔ ایک امریکی صحافی نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ ایران سے "مکمل سرینڈر" چاہتے ہیں اور جوہری مسئلے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ان کا اصل مقصد ہے۔ ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی وقتی سمجھوتے کے بجائے مکمل اختتام چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، "صرف جنگ بندی نہیں، ہم اختتام چاہتے ہیں — ایک حقیقی اختتام۔" ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل ایران پر حملے روکے گا نہیں، اور اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا سخت مؤقف دراصل ایران پر دباؤ بڑھانے کی ایک حکمت عملی ہے تاکہ تہران عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو جائے اور جوہری منصوبوں سے باز رہے۔ https://truthsocial.com/@realDonaldTrump/posts/114699621000737127
چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کو مزید بھڑکا رہے ہیں، اور ان کے حالیہ بیانات خطے میں امن کے بجائے کشیدگی کو ہوا دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے چینلز ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک غیرمعمولی بیان دیتے ہوئے تہران میں موجود تمام افراد کو فوری طور پر انخلا کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا: "ہر کسی کو فوراً تہران سے نکل جانا چاہیے!" ٹرمپ کے اس بیان نے عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی، اور خاص طور پر چین نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ بیجنگ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے کہا: "آگ کو ہوا دینا، اس پر تیل ڈالنا، دھمکیاں دینا اور دباؤ بڑھانا، یہ تمام اقدامات صورتحال کو پرامن بنانے میں مددگار نہیں ہوں گے بلکہ اس تنازع کی شدت میں مزید اضافہ اور دائرہ وسیع کریں گے۔" ترجمان نے مزید کہا کہ چین ایک ذمہ دار عالمی طاقت کے طور پر مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کا حامی ہے، اور وہ تمام متعلقہ فریقین، خصوصاً ان ممالک سے جو اسرائیل پر اثر رکھتے ہیں، اپیل کرتا ہے کہ فوری طور پر کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ گو جیاکن کا کہنا تھا: "ہم چاہتے ہیں کہ ہر ملک، خاص طور پر وہ جو تنازع کے فریقین پر اثر رکھتے ہیں، اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، تاکہ خطے کو مزید تباہ کن جنگ سے بچایا جا سکے۔" یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور خطے میں ممکنہ جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کا یہ بیان ایران پر ممکنہ حملے یا اسرائیل کی کسی بڑی عسکری کارروائی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے، جبکہ چین کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ بیجنگ مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت کے انداز سے شدید نالاں ہے۔
پنجاب حکومت کے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے ہٹ کر حکومت اور ایوانوں سے متعلق اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، صوبائی وزرا کے دفاتر، پنجاب اسمبلی اور دیگر انتظامی دفاتر کے اخراجات میں اربوں روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ اضافہ صوبائی وزرا کے دفاتر کے بجٹ میں کیا گیا ہے، جو 204 فیصد تک پہنچ گیا۔ گزشتہ سال یہ بجٹ 35 کروڑ روپے تھا، جسے اب بڑھا کر ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اس اقدام پر عوامی حلقوں میں شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں کہ کیا حکومت مالی مشکلات کے باوجود اپنے انتظامی اخراجات میں اس قدر اضافہ جواز کے ساتھ کر رہی ہے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ آفس کے بجٹ میں بھی 19 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ رواں سال اس دفتر کے لیے بجٹ ایک ارب 46 کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کی نسبت 23 کروڑ روپے زیادہ ہے۔ وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کا بجٹ بھی بڑھا دیا گیا ہے، جس میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور اب یہ 21 کروڑ 24 لاکھ روپے تک جا پہنچا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق گورنر ہاؤس کے لیے مختص بجٹ میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پچھلے سال یہ بجٹ ایک کروڑ 61 لاکھ روپے تھا، جو بڑھا کر 15 کروڑ 37 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ یعنی گورنر ہاؤس کے لیے بجٹ میں تقریباً دس گنا اضافہ کیا گیا، جسے عوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صوبے کو مالی خسارے، تعلیم و صحت کے محدود وسائل، اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اخراجات میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسمبلی کا بجٹ جو گزشتہ سال 5 ارب ایک کروڑ 72 لاکھ روپے تھا، رواں سال 7 ارب 38 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف قانون ساز ادارے کے اخراجات میں 47 فیصد اضافہ کیا گیا، جو ملکی سطح پر آئندہ مالی نظم و ضبط کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ دوسری جانب پنجاب کے انتظامی ڈھانچے میں شامل 41 کمشنر دفاتر کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ان دفاتر کے لیے مجموعی طور پر 2 کروڑ 81 لاکھ روپے کا مزید بجٹ مختص کیا گیا ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق امریکی انٹیلیجنس اداروں کی تازہ ترین تحقیق نے خطے میں جاری بیانیے کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق خفیہ اداروں کی حالیہ جائزہ رپورٹوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایران نہ صرف اس وقت جوہری بم بنانے کی سرگرمیوں میں شامل نہیں تھا، بلکہ وہ تکنیکی طور پر بھی اس قابل نہیں تھا کہ فوری طور پر ایسا ہتھیار تیار کر سکے۔ امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی ایک رپورٹ میں چار ایسے افراد کا حوالہ دیا گیا ہے جو ان خفیہ انٹیلیجنس جائزوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے مطابق ایران جوہری ہتھیار کے حوالے سے عملی طور پر سرگرم نہیں تھا اور اگر اس نے فیصلہ بھی کیا ہوتا تو اسے ایسا ہتھیار بنانے اور اسے کسی ہدف تک پہنچانے کے قابل بننے میں کم از کم تین سال کا وقت درکار ہوتا۔ یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کھلے عام یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایران جوہری بم بنانے سے صرف چند ماہ کی دوری پر تھا اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے مطابق تہران خفیہ طور پر یورینیم کو اس سطح تک افزودہ کر رہا تھا جو ہتھیار سازی کے لیے درکار ہوتی ہے۔ نیتن یاہو نے اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے 'فاکس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ "ہم نے جو انٹیلیجنس حاصل کی اور امریکا کے ساتھ شیئر کی، وہ بالکل واضح تھی کہ ایران ہتھیار سازی کے لیے درکار یورینیم کی افزودگی میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔" تاہم امریکی انٹیلیجنس کا مؤقف اس سے خاصا مختلف ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (CIA) اور دیگر انٹیلیجنس ادارے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام تکنیکی طور پر اس مقام پر نہیں تھا جہاں وہ ہتھیار سازی کے عمل کو عملی جامہ پہنا سکے۔ اگرچہ امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM)، جو مشرق وسطیٰ میں امریکی عسکری سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے، نے نسبتاً زیادہ "ہنگامی نوعیت" کی تشخیص دی ہے، تاہم اس کے باوجود یہ رائے بھی اس امر کی تصدیق نہیں کرتی کہ ایران کسی فوری بم سازی کی پوزیشن میں تھا۔ سینٹرل کمانڈ کے اندازے کے مطابق اگر ایران اچانک فیصلہ کر لیتا تو وہ تیز رفتاری سے پیش رفت کر سکتا تھا، لیکن ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں کہ تہران نے ایسا فیصلہ کر لیا ہو۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے (IAEA) کی رپورٹس کے مطابق ایران کے پاس اس وقت ہتھیار سازی کے لیے درکار افزودہ یورینیم کی مطلوبہ مقدار موجود ہے، لیکن یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایران نے ابھی تک اس یورینیم کو اسلحہ بنانے کی سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ایک امریکی اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے کی کوششوں سے اگرچہ تہران کی پیش رفت کو وقتی طور پر روکا جا سکا، لیکن اس حملے نے بمشکل ہی ایران کی ممکنہ ہتھیار سازی کی ٹائم لائن کو چند ماہ پیچھے دھکیلا ہے۔ جوہری امور کے ماہرین کے مطابق ایران کے جوہری انفراسٹرکچر، خاص طور پر فردو جیسے زیرِ زمین اور سخت دفاعی حصار میں قائم مراکز پر فیصلہ کن حملے کے لیے اسرائیل کو امریکی فوجی تعاون درکار ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل تنِ تنہا اس قابل نہیں کہ وہ اتنا شدید نقصان پہنچا سکے جو ایران کے جوہری پروگرام کو طویل المدتی طور پر مفلوج کر دے۔ ایران کا جوہری پروگرام گزشتہ کئی برسوں سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایک طرف اسرائیل مسلسل یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ ایران ایٹمی بم کے حصول کے قریب پہنچ چکا ہے، تو دوسری طرف امریکا کی نئی انٹیلیجنس رپورٹس ایران کے ارادوں اور صلاحیتوں سے متعلق ایک نسبتاً مختلف اور کم خطرناک تصویر پیش کرتی ہیں۔ انٹیلیجنس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے درمیان ان اختلافات کی بنیاد سیاسی حکمت عملی، علاقائی ترجیحات اور خطرات کے اندازے میں فرق ہو سکتا ہے۔ ایران اگرچہ 60 فیصد سے زائد یورینیم افزودہ کر چکا ہے، لیکن ہتھیار بنانے کے لیے صرف افزودگی کافی نہیں ہوتی — اس کے لیے جدید دھماکہ خیز ٹیکنالوجی، میزائل نظام، اور مناسب ٹیسٹنگ کی صلاحیت بھی درکار ہوتی ہے، جو فی الحال ایران کے پاس واضح طور پر موجود نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ خبر امریکی پالیسی سازوں، اسرائیل کے اتحادیوں اور بین الاقوامی جوہری معاہدے (JCPOA) کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہے، کیونکہ اگر ایران کی پیش رفت اتنی فوری نہیں جتنی اسرائیل ظاہر کر رہا ہے تو شاید سفارتی دروازے ابھی بھی مکمل طور پر بند نہیں ہوئے۔ ایران کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے اپنے ملک کی ایجنسیوں میں موجود فارن ایجنٹوں کو وقت پر نہیں پکڑا۔ ایران کو اس کی قیمت اپنی افواج اور ایجنسیوں کی لیڈرشپ کے قتل کی صورت میں دینی پڑی۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ایجنسیوں کے اندر موجود فارن ایجنٹوں کو ابھی پکڑ لے۔ یہ نہ ہو ہمیں بھی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے۔ جن لوگوں نے امریکہ اور یورپ کے چکر لگائے ہیں، جن کی فیملی اور پیسہ باہر پڑا ہوا ہے ان پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ یاد رکھیں حرام خور لوگ کم ہی محب وطن ہوتے ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل کے ساتھ جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے خفیہ ذرائع سے مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے۔ برطانوی اخبار دی ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق، جی-7 اجلاس کے آغاز پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ایران نے یورپی اور خلیجی ممالک کے ذریعے اسرائیل اور امریکا کو کئی پیغامات بھیجے ہیں جن کا مقصد جنگ بندی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کام انہیں پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ میں نے ایران کو معاہدے کے لیے 60 دن دیے تھے، اور 61 ویں دن کہہ دیا کہ ہمارے پاس کوئی معاہدہ نہیں، انہیں معاہدہ کرنا ہوگا۔" ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ صورتحال دونوں فریقوں کے لیے تکلیف دہ ہے، لیکن ان کے مطابق "ایران یہ جنگ نہیں جیت رہا۔ انہیں فوراً بات چیت کرنی چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔" سابق امریکی صدر کے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب حالیہ دنوں میں انہوں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے حوالے سے مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی تو امریکا اسرائیل کا ساتھ دے گا، جبکہ دوسرے موقع پر انہوں نے مذاکرات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ملاقاتیں جاری ہیں اور جلد یہ تنازع ختم ہو جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ حال ہی میں انہوں نے پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرے کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا تھا اور اسی طرح وہ ایران اور اسرائیل کا مسئلہ بھی حل کر سکتے ہیں۔ ایک صحافی کی جانب سے جب پریس کانفرنس میں چین کو جی-7 کا رکن بنانے کے امکان کا ذکر کیا گیا تو ٹرمپ نے کہا کہ یہ کوئی بری تجویز نہیں ہے۔ اسی دوران انہوں نے سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں روس کو جی-8 سے نکالنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "روس کو نکالنا ایک بڑی غلطی تھی۔ ولادیمیر پیوٹن اس فیصلے پر سخت ناراض تھے۔"
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا فی الحال ایران اسرائیل جنگ میں براہ راست ملوث نہیں ہے، تاہم یہ ممکن ہے کہ وہ مستقبل میں اس تنازع میں شامل ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر جو حالیہ حملے کیے، وہ "انتہائی تباہ کن" تھے۔ امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا: "ہم اس (جنگ) میں شامل نہیں ہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ ہم شامل ہو جائیں۔" انہوں نے اسرائیلی حملوں کو ایران کے خلاف "شدید نوعیت کا" قرار دیا اور تسلیم کیا کہ اسرائیل کو بھی جواباً نشانہ بنایا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلی مرتبہ یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں ثالثی کی ضرورت پیش آئے، تو روس کے صدر ولادیمیر پوتن کو اس کردار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ تجویز خود پوتن نے ہفتے کے روز ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران پیش کی تھی۔ انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ایران پر اسرائیلی حملے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، تو ٹرمپ نے کہا: "ایسی کوئی چیز ہونی ہی تھی، میرے خیال میں دونوں طرف سے، لیکن کچھ نہ کچھ ہونا ضروری تھا۔ وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور وہ بات چیت کریں گے۔" انہوں نے کہا کہ اس جنگ کے نتیجے میں ایران کے ساتھ معاہدے کے امکانات بڑھے ہیں۔ "مجھے یقین ہے کہ اس سے معاہدہ ممکنہ طور پر جلد ہو سکتا ہے، شاید اس جنگ نے معاہدے کو تیز کر دیا ہو۔" جب ان سے دوبارہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکا اس تنازعے میں مزید شامل ہو گا؟ تو انہوں نے اپنے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا: "ہم اس میں شامل نہیں ہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ ہم شامل ہو جائیں۔" روس کے صدر کی ثالثی سے متعلق سوال پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس تجویز کے لیے تیار ہیں۔ "ہاں، میں اس کے لیے تیار ہوں، وہ (پوتن) بھی تیار ہیں، انہوں نے مجھے اس بارے میں فون کیا تھا، اور ہم نے اس سلسلے میں کافی طویل گفتگو کی۔" انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ تنازع حل کی طرف جا سکتا ہے اور مذاکرات کے ذریعے کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واضح خبردار کیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے سندھ کے بجٹ سے متعلق تحفظات دور نہ کیے تو پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی منظوری کے لیے ووٹ نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت ہے کہ سندھ کے مفادات پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ کراچی میں پوسٹ بجٹ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق نے پی ڈبلیو ڈی (PWD) کے خاتمے کے بعد اس کے ترقیاتی منصوبے تینوں صوبوں کو دے دیے لیکن سندھ کو ان سے محروم رکھا گیا۔ "ہم سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، جو ناقابل قبول ہے،" انہوں نے کہا۔ انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے وفاقی بجٹ کی منظوری کے لیے تین بنیادی شرائط رکھی ہیں: دیگر صوبوں کی طرح سندھ کو بھی تمام ترقیاتی اسکیمیں فراہم کی جائیں سندھ کی جامعات کے بجٹ میں کٹوتی واپس لی جائے سکھر-حیدرآباد موٹروے کے لیے مکمل فنڈز بحال کیے جائیں اور سولر پینلز پر لگایا گیا 18 فیصد ٹیکس ختم کیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے بتایا کہ سندھ کی یونیورسٹیوں کا بجٹ 4 ارب روپے سے کم کر کے 2 ارب روپے کر دیا گیا ہے جس پر صوبے نے شدید احتجاج کیا ہے۔ اسی طرح سکھر-حیدرآباد موٹروے کے لیے مختص رقم 30 ارب روپے سے کم کر کے 15 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت کے پاس صوبوں کو کنٹرول کرنے کا نہ اختیار ہے نہ صلاحیت، "وفاق سندھ کے شہری علاقوں کو نوآبادیات سمجھنا بند کرے۔" انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ وفاق نے سندھ کو 105 ارب روپے کم دینے کا اعلان بجٹ سے صرف ایک روز پہلے ایک خط کے ذریعے کیا، جس سے صوبائی بجٹ متاثر ہوا۔ اس کے باوجود سندھ حکومت نے مالی دباؤ کے تحت گریڈ 1 سے 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ مزید 36 ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر مکمل یا جزوی پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔ یہ اقدام قومی سلامتی اور امیگریشن پالیسیوں کو سخت کرنے کے سلسلے کی کڑی ہے، جس کا آغاز صدر ٹرمپ نے دوسری مدت صدارت کے بعد سے کیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، اس ماہ کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے جس کے تحت 12 ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے کی پابندی عائد کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ امریکا کو "غیر ملکی دہشت گردوں اور قومی سلامتی کے دیگر خطرات" سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسیوں میں وینزویلا کے ایک سو سے زائد شہریوں کی ملک بدری، امریکی جامعات میں غیر ملکی طلبہ کے داخلے پر پابندی اور بعض کو واپس بھیجنے کے فیصلے شامل ہیں۔ ان افراد پر جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق یا دیگر مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ایک سفارتی کیبل میں، جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے دستخط موجود ہیں، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے 36 ممالک کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں مختلف نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اگر ان ممالک نے آئندہ 60 دنوں میں مطلوبہ اصلاحات نہ کیں تو ان کے شہریوں پر امریکا میں داخلے کی مکمل یا جزوی پابندی عائد کرنے کی سفارش کی جائے گی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، کیبل میں جن نکات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ان میں ناقص سفری دستاویزات، ناقابل اعتبار پاسپورٹس، بے دخلی کے بعد شہریوں کی واپسی میں تعاون سے انکار، اور امریکی ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد غیرقانونی قیام شامل ہیں۔ مزید تشویش اس امر پر ہے کہ ان میں سے بعض ممالک کے شہری امریکا میں دہشتگردی یا یہود دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تاہم کیبل میں وضاحت کی گئی ہے کہ یہ تمام خدشات ہر ملک پر یکساں لاگو نہیں ہوتے۔ ان ممالک میں جن پر ممکنہ سفری پابندی عائد کی جا سکتی ہے، درج ذیل شامل ہیں: انگولا، انٹیگوا اور باربودا، بینن، بھوٹان، برکینا فاسو، کیپ وردے، کمبوڈیا، کیمرون، آئیوری کوسٹ، جمہوریہ کانگو، جبوتی، ڈومینیکا، ایتھوپیا، مصر، گیبون، گیمبیا، گھانا، کرغیزستان، لائبیریا، ملاوی، موریطانیہ، نائجر، نائجیریا، سینٹ کٹس اور نیوس، سینٹ لوشیا، ساؤ ٹومے اور پرنسپے، سینیگال، جنوبی سوڈان، شام، تنزانیہ، ٹونگا، ٹوالو، یوگنڈا، وانواتو، زیمبیا، اور زمبابوے۔ اس سے قبل امریکا نے جن 12 ممالک پر مکمل سفری پابندیاں عائد کی تھیں ان میں افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، اور یمن شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، سات دیگر ممالک — برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیئرالیون، ٹوگو، ترکمانستان، اور وینزویلا — پر پہلے ہی جزوی سفری پابندیاں نافذ کی جا چکی ہیں۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت کے آغاز پر سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے کی پابندی عائد کی تھی، جسے بعد ازاں کئی عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد 2018 میں امریکی سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔ صدر ٹرمپ کی نئی پالیسیوں کو ان کے حامی قومی سلامتی کے تحفظ کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ناقدین انہیں امیگریشن مخالف اور تعصب پر مبنی اقدامات قرار دیتے ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی اور ممکنہ جنگ کے خطرات کے باعث مختلف غیرملکی ایئرلائنز نے اپنے پروازوں کے لیے پاکستانی فضائی حدود کا استعمال شروع کردیا ہے۔ یہ فیصلہ خطے کی کئی فضائی حدود کی بندش کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں جاری تنازع کے باعث ایران، عراق، شام، اردن اور اسرائیل کی فضائی حدود فی الحال بند ہیں۔ اسی وجہ سے متعدد انٹرنیشنل ایئرلائنز نے متبادل راستوں کی تلاش میں پاکستانی فضائی راستوں کو اپنایا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایمریٹس سمیت کئی بڑی ایئرلائنز نے شمالی امریکا، مصر، یورپ اور دیگر ممالک کے لیے جانے والی اپنی پروازوں کے لیے پاکستان کے اوپر سے گزرنے والے روٹس کو منتخب کیا ہے۔ ان پروازوں کا نیا راستہ مغربی پاکستان سے شروع ہوتا ہے، جو آگے افغانستان، ترکمانستان، بحیرہ کیسپین، آذربائیجان اور ترکی کے ذریعے اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔
تہران: ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکا، اسرائیل کے حالیہ حملوں میں براہ راست شریک ہے اور اسے اس جارحیت پر جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق ایران کے پاس ایسے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ امریکی افواج اسرائیلی حملوں میں معاونت کر رہی ہیں۔ ایرانی خبررساں ادارے تسنیم نیوز کے مطابق، عباس عراقچی نے اتوار کے روز تہران میں تعینات غیر ملکی سفیروں سے خطاب کے دوران یہ مؤقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 13 جون سے اسرائیل کی جانب سے جوہری، عسکری اور شہری تنصیبات پر حملے کیے جا رہے ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت، امریکی حمایت کے بغیر اس طرح کی جارحیت کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ عراقچی کے مطابق، صرف شواہد ہی نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کی کھلی حمایت بھی اس شراکت داری کا ثبوت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکا اپنا مؤقف واضح کرے اور اسرائیل کی طرف سے جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملوں کی مذمت کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو امید ہے کہ واشنگٹن، اسرائیلی اقدامات سے خود کو الگ کرے گا۔ عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے اسرائیل کی جارحیت پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی ممالک خصوصاً خطے کے ممالک نے اسرائیل کی مذمت کی، لیکن بعض یورپی ممالک نے ایران کی مذمت کر کے دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا۔ وزیر خارجہ کے مطابق، ایران نے پہلی رات صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا، تاہم اسرائیل کی جانب سے تہران کی ریفائنری اور عسلویہ میں اقتصادی تنصیبات پر حملوں کے بعد ایران نے بھی جوابی طور پر اقتصادی اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اقدامات ایران کے دفاع کے حق کے تحت کیے گئے۔ عباس عراقچی نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ اس نے پارس گیس فیلڈ (عسلویہ) پر حملہ کر کے جنگ کو ایران کی سرزمین سے باہر منتقل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ خلیج فارس کا علاقہ نہایت حساس اور پیچیدہ ہے، اور یہاں کسی بھی نوعیت کی جنگ کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر پر پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران مکمل اختیار کے ساتھ اپنا دفاع جاری رکھے گا۔ اگر جارحیت رُک جائے تو ایران کا ردعمل بھی رُک جائے گا۔ ایران کا دفاعی ردعمل بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے اور ہر ریاست کو خود دفاع کا حق حاصل ہے۔ عباس عراقچی نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے ایک اہم ایرانی عہدیدار کو شہید کر کے جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ایران اپنے پُرامن جوہری پروگرام پر کاربند ہے، اور 60 فیصد سے زائد یورینیم افزودگی کا عمل جاری رہے گا۔ ان کے بقول، اسرائیلی حملے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی معاہدے یا سفارتی حل کا خواہاں نہیں۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی الزامات عائد کرتے ہوئے دو، دو افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ پیشرفت دونوں ملکوں کے درمیان جاری خفیہ جنگ کو مزید سنگین رخ دے رہی ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایرانی نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم نیوز نے اتوار کے روز اطلاع دی کہ ایران نے صوبہ البرز میں دو افراد کو گرفتار کیا ہے، جن پر اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے تعلق رکھنے کا الزام ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان افراد پر دھماکا خیز مواد اور حساس الیکٹرانک آلات تیار کرنے کا الزام ہے، جو مبینہ طور پر تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونا تھے۔ دوسری جانب، ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی شین بیٹ اور پولیس نے بھی دو اسرائیلی شہریوں کو ایران کے لیے جاسوسی کرنے کے شبے میں گرفتار کیا ہے۔ ان افراد پر الزام ہے کہ وہ ایران کی ہدایات پر حساس معلومات جمع کرنے اور ممکنہ تخریب کاری میں ملوث تھے۔ یہ گرفتاریاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب جمعے کے روز اسرائیل نے مبینہ طور پر ایران کی جوہری اور میزائل تنصیبات پر حملہ کیا، جس میں اعلیٰ فوجی کمانڈر اور سائنسدان مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے جواب میں ایران نے اسرائیلی علاقوں پر بیلسٹک میزائل داغے، جس کے باعث خطے میں کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی۔ یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں متعدد اسرائیلی شہریوں کو بھی ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ ایران میں بھی موساد سے منسلک نیٹ ورکس کی نشاندہی اور کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
پیکا ایکٹ کے تحت 10 سے 15 وکلا کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق مقدمہ ٹریفک پولیس کی مدعیت میں تھانہ کینٹ میں درج کیا گیا، جو ایک وکیل کی جانب سے قانون شکنی پر کارروائی کے بعد پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں قائم کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ٹریفک وارڈن نے ایک وکیل کو ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان کیا اور موٹرسائیکل کے کاغذات نہ دکھانے پر گاڑی ضبط کرلی۔ اس پر وکیل نے دیگر وکلا کو فون کر کے موقع پر طلب کیا، جس کے بعد 10 سے 15 وکلا موقع پر پہنچ گئے۔ پولیس کے بیان کے مطابق وکلا نے نہ صرف وارڈن سے بدتمیزی کی بلکہ اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔ واقعے کی ویڈیو وکلا کی جانب سے بنائی گئی اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی، جس کا مقصد پولیس کو بدنام کرنا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں اور ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ واقعہ پر ردعمل دیتے ہوئے مطیع اللہ جان نے کہا راولپنڈی میں پیکا ایکٹ کے تحت 14 وکلا کیخلاف درج مقدمہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کیوجہ سے درج ہوا ہے، پاکستان کی اعلیٰ ترین ان دونوں تنظیموں نے پیکا ایکٹ اور اس میں ہونے والی ترامیم کی حمایت کی اور اسکے تحت صحافیوں اور دیگر کیخلاف مقدمات درج کرنے کے لئیے حکومت کو ترغیب بھی دی تھی، ۱۴ وکلا کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ ایسے وقت میں درج ہوا ہے کہ جب حکومت نے چند دن پہلے ہی بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کیلئیے بجٹ میں کروڑوں روپوں کے فنڈز مختص کیئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایم او یو کے تحت ڈی ایچ اے کو اپنی رہائشی سکیم حوالے کر دی ہے اور پاکستان بار کونسل ایڈوکیٹ فاروق ایچ نائک جیسے پیپلز پارٹی کے جیالے کے کنٹرول میں ہے، پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں کیخلاف مقدمات درج ہوئے تو یہ وکلا تنظیمیں تماشہ دیکھ رہی تھی صرف چند غیرت مند وکلا نے صحافیوں کا ساتھ دیا تو اب وکلا خود بھی بھگتیں گے۔ نواز شریف کے دور میں پیکا قانون لایا گیا، عمران خان حکومت نے جب اسکا بے دریغ استعمال شروع کیا تو اُس وقت عابد ساقی ائڈوکیٹ کی قیادت میں بار کونسل اور صحافیوں کی پی ایف یو جے نے ایک جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی بنائی جسکے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بطور سربراہ اسلام آباد ہائی کورٹ صحافیوں اور آزادئی رائے کے آئینی حق کو بھرپور تحفظ دیا۔ اب مذکورہ دو بڑی وکلا تنظیموں کے ساتھ ہائی کورٹ بھی حکومت کی شامل باجا ہو چکی ہے، اگر ابھی بھی وکلا نے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کی اپنی قیادت اور انکی پالیسیوں کیخلاف آواز بلند نہ کی تو پھر بہت دیر ہو جائیگی اگر وکلا اور صحافی برادری نے اپنی مفاد پرست قیادت کو جوابدے نہ بنایا تو پھر بڑا نقصان ہو جائیگا۔ ۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جلد امن معاہدہ ہو سکتا ہے، دونوں ممالک کو معاہدہ کرنا چاہیے تاکہ مشرق وسطیٰ میں استحکام آئے۔ ٹرمپ نے یہ بات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک بیان میں کہی۔ ٹرمپ کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان "بہت سی ملاقاتیں اور فون کالز" ہو رہی ہیں، اور وہ پُرامید ہیں کہ دونوں فریق معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے اپنی صدارتی مدت کے دوران کیے گئے مبینہ عالمی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ویسا ہی معاہدہ ہوگا جیسا میں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کرایا تھا۔" انہوں نے کہا کہ اُس وقت انہوں نے پاکستان اور بھارت دونوں کے رہنماؤں سے بات کی، انہیں امریکہ کے ساتھ تجارت کی پیشکش کی، اور دونوں لیڈرز نے فوری فیصلہ کیا جس سے کشیدگی کم ہو گئی۔ ٹرمپ نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ "میں بہت کچھ کرتا ہوں، مگر مجھے کبھی کسی چیز کا کریڈٹ نہیں ملتا، لیکن کوئی بات نہیں، عوام سب کچھ سمجھتے ہیں۔" انہوں نے اپنی صدارت کے دوران سربیا اور کوسووو، اور مصر اور ایتھوپیا کے درمیان ہونے والے معاہدوں کا بھی ذکر کیا۔ اپنے بیان کے اختتام پر انہوں نے کہا: "مشرق وسطیٰ کو پھر سے عظیم بناؤ!" — جو اُن کے سیاسی نعرے "Make America Great Again" کا ایک علاقائی انداز ہے۔

Back
Top