خبریں

ہنگو میں پولیس کے مبینہ جعلی مقابلے میں بے گناہ شہری سعید الرحمان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا کمانڈر قرار دے کر قتل کر دیا گیا، جس پر صوبائی اسمبلی کے رکن شاہ ابو تراب خان نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایم پی اے شاہ ابو تراب نے آئی جی خیبرپختونخوا سے فوری طور پر اس واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا کہ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو وہ یہ معاملہ وزیراعلیٰ کے سامنے اور اسمبلی کے فلور پر اٹھائیں گے۔ گزشتہ رات ہنگو پولیس نے سعید خان کے قتل کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا، تاہم مقتول کے والد حاجی سنت خان نے پولیس کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کو کلینک سے اغوا کیا گیا تھا اور پھر ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ حاجی سنت خان نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے بے گناہ بیٹے کو جعلی مقابلے میں قتل کیا اور اس کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ سعید الرحمان کے ورثا نے پولیس کے دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو 28 جنوری 2025 کو مقامی ایس ایچ او فیاض خان نے ان کے کلینک سے اٹھایا تھا اور وہ پولیس کی تحویل میں تھا۔ ورثا کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو دہشت گرد قرار دے کر مارا جانا سراسر ظلم ہے، اور اس خبر کو ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سعید الرحمان ایک کاروباری شخص تھا اور اس کا کسی دہشت گرد گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ورثا نے وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، وزیر اعلیٰ اور دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ جعلی پولیس مقابلے میں سعید الرحمان کے قتل کا نوٹس لیا جائے اور اس میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی شاہ ابو تراب خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعید الرحمان ان کے قریبی دوست تھے، اور وہ لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔ اس سے قبل خیبرپختونخوا کے علاقے ہنگو میں سی ٹی ڈی اور پولیس کی کارروائی کے دوران پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر سعید الرحمان کو ایک دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق ہنگو کے علاقے شناوڑی میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر سی ٹی ڈی اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کیا، جس کے دوران سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے تھا اور وہ پولیس اہلکار قدرت اللہ کی شہادت میں ملوث تھا۔ پولیس کے مطابق ہلاک دہشت گرد کے قبضے سے کلاشنکوف، ہینڈ گرنیڈ اور افغانستان کے سم کارڈ برآمد ہوئے تھے۔ پولیس نے اس کے ساتھی کو گرفتار کرنے کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ ہنگو میں پولیس کے مبینہ جعلی مقابلے میں سعید الرحمان کے قتل کے بعد ورثا نے اس کو پولیس کے جھوٹے دعوے اور ماورائے عدالت قتل قرار دیا ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی شاہ ابو تراب خان نے فوری کارروائی کی بات کی ہے اور حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان میں پیشہ ور بھکاریوں کا مسئلہ اب سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس پر حکام نے اندرون و بیرون ملک سخت کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق رواں سال کے ابتدائی تین مہینوں میں 7,000 سے زائد افراد کو مختلف ایئرپورٹس پر بیرون ملک روانگی کی کوشش میں روک لیا گیا، جن میں 300 سے زائد پیشہ ور بھکاری بھی شامل ہیں۔ ایف آئی اے کے حکام کے مطابق پیشہ ور بھکاری زیادہ تر ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں پاکستانیوں کی انٹری آسان ہو، جیسے سعودی عرب، دبئی اور قطر۔ ان بھکاریوں کی تنظیمیں ان کی نقل و حرکت کو منظم کرتی ہیں اور بیرون ملک جانے کے اخراجات بھی انسانی سمگلنگ کرنے والے اٹھاتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے یہ بھی بتایا کہ مختلف ممالک سے بھیک مانگنے کے الزام میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق ملائیشیا، سعودی عرب اور امارات سے 200 سے زائد پاکستانی بھکاریوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے۔ ان بھکاریوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق سندھ اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں سے ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے کہا کہ وہ پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت کارروائیوں کو تیز کر رہی ہے، اور ان افراد کے خاندانوں کو بھی بلیک لسٹ کرنے کی تجویز زیر غور ہے تاکہ آئندہ ان کے رشتہ داروں کو بھی بیرون ملک جانے کی اجازت نہ مل سکے۔ پیشہ ور بھیکاریوں کے خلاف پاکستان میں قانون سازی کی جا رہی ہے، جس میں منظم بھیک مانگنے کو فراڈ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے سات سال تک قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ پیشہ ور بھکاریوں کے بیرون ملک جانے کا راستہ روکا جا سکے اور ملک کی بدنامی کا تدارک کیا جا سکے۔
ا امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی پاکستان اور بھارت کے خلاف سنگین سفارشات، پاکستان میں حکومتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے پاکستان اور بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے بدترین سلوک پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک کے خلاف مختلف پابندیوں کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے پاکستان میں حکومتی اداروں اور سرکاری عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی ہے، جبکہ بھارت کی جاسوس ایجنسی 'را' پر سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف مبینہ سازشوں میں ملوث ہونے کی بنا پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال میں مزید بگاڑ آیا ہے۔ پاکستان میں عیسائی، ہندو، شیعہ مسلمان اور احمدی اقلیتی برادریاں توہین رسالت کے قانون کے تحت ظلم و ستم اور مقدمات کا شکار رہی ہیں، جس سے ان کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتی برادریوں کے خلاف ہجوم کے تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان واقعات میں ملوث افراد کو شاذ و نادر ہی سزا ملتی ہے۔ رپورٹ میں احمدی برادری کے خلاف جاری "تشویشناک" حملوں اور منظم ہراسانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ، پاکستانی مسیحی اور ہندو خواتین کے ساتھ جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے تجویز کیا ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی حکام اور سرکاری ایجنسیوں پر ہدفی پابندیاں عائد کرے، جن میں ان کے اثاثے منجمد کرنا اور امریکا میں داخلے پر پابندی شامل ہے۔ کمیشن نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے خلاف سخت اقدامات کرے اور توہین رسالت کے قوانین کو اصلاح کرے تاکہ مذہبی آزادی کی پامالیوں کو روکا جا سکے۔ رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے "جانبدار" اور "سیاسی طور پر محرک" قرار دیا ہے۔ بھارت نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ میں بھارت کے کثیر الثقافتی معاشرے کی حقیقت کو نظرانداز کیا گیا ہے اور اس میں غلط معلومات پیش کی گئی ہیں۔ اگرچہ کمیشن نے بھارت کے خلاف 'خاص تشویش والے ملک' کی تجویز دی ہے، لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ امریکی حکومت بھارت کی جاسوسی ایجنسی 'را' پر پابندیاں عائد کرے گی، کیونکہ امریکی حکومت کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے۔ تاہم، یو ایس سی آئی آر ایف نے سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس سے امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ رپورٹ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بین الاقوامی برادری میں مذہبی آزادی کی صورتحال کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے، اور پاکستان و بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایک ایسا دل دکھا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ایک 13 سالہ معصوم بچی کو "نکاح" کا جھوٹا ڈراما دکھا کر اغوا کر لیا گیا اور پھر 3 ماہ تک اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ پولیس کے مطابق، مرکزی ملزم نے نہ صرف خود اس بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا بلکہ اپنے 3 دوستوں کو بھی اس پر ظلم کرنے دیا۔ سرگودھا کے نواحی گاؤں 132 جنوبی کی رہائشی اس بچی کو گاؤں کے رہائشی **کامران** نامی شخص نے اغوا کیا۔ ملزم نے اس معصوم بچی کے ساتھ **فرضی نکاح** کا ڈراما کیا اور اسے لاہور لے گیا، جہاں اس نے اور اس کے 3 دوستوں نے مسلسل 3 ماہ تک اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا۔ ظالموں نے نہ صرف اس کی عصمت لوٹی بلکہ اس کی ویڈیوز بھی بنائیں تاکہ وہ کسی کو بتانے سے ڈرتی رہے۔ 3 ماہ تک ظلم سہنے کے بعد، بچی کسی طرح اپنے قیدیوں سے بھاگ نکلی اور **سلا نوالی ویگن اڈے** پر پہنچ گئی، جہاں سے اس کے والدین کو اطلاع ملی۔ والد نے فوری طور پر پولیس میں شکایت درج کروائی، جس کے بعد **سرگودھا پولیس** نے مقدمہ درج کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دیے ہیں۔ پولیس کے مطابق، مرکزی ملزم **کامران** اور اس کے ساتھی ابھی تک فرار ہیں، لیکن انہیں جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس سنگین نوعیت کے واقعے میں انصاف یقینی بنایا جائے گا۔ یہ واقعہ سن کر سماجی حلقوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ایسے درندہ صفت مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں کوئی کسی معصوم کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ اب تمام تر توجہ اس بات پر ہے کہ پولیس ملزمان کو کیسے گرفتار کرتی ہے اور عدالت انصاف کیسے کرتی ہے۔ عوام کی نظر اس مقدمے پر ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ اس بچی کو انصاف ضرور ملے گا۔
محکمہ تعلیم سندھ نے اسکولوں کے اساتذہ کے لیے نیا کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا ہے، جس میں اساتذہ کے لیے لباس اور دیگر اخلاقی اصولوں کے حوالے سے اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ ان ہدایات کے تحت خواتین اساتذہ کو زیادہ میک اپ، زیورات اور اونچی ہیلز پہننے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ مرد اساتذہ کو جینز اور ٹی شرٹ پہننے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ محکمہ تعلیم سندھ نے خواتین اساتذہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسکول میں آتے وقت روایتی لباس اختیار کریں اور گاؤن پہننا ترجیح دیں۔ اس کے علاوہ، انہیں زیادہ میک اپ کرنے اور اونچی ہیلز پہننے سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ساتھ ہی زیادہ زیورات پہننے سے بھی گریز کرنے کو کہا گیا ہے۔ مرد اساتذہ کو اسکول میں ٹی شرٹ اور جینز پہن کر آنے سے منع کیا گیا ہے، تاکہ اسکول کا ماحول رسمی اور تعلیم کے مطابق برقرار رکھا جا سکے۔ محکمہ تعلیم نے اساتذہ کے لیے ایک اور اہم ہدایت دی ہے کہ اسکول میں گٹکا، نسوار، ماوا کھانے یا سگریٹ پینے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی، اساتذہ کو طلبہ سے ذاتی نوعیت کے کام کرانے کی بھی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ یہ نئے ضوابط اساتذہ کے طرز عمل کو بہتر بنانے اور تعلیمی اداروں میں ایک مناسب ماحول قائم کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ اسکولوں کا ماحول زیادہ پیشہ ورانہ اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ہو۔
پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر قیادت ملک کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کے لیے ایک اہم کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں وفاقی اور صوبائی حکام سمیت اہم اداروں کے نمائندگان کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کا مقصد مختلف اہم امور پر قابو پانا ہے، جن میں افغان شہریوں کی وطن واپسی، اسمگلنگ کی روک تھام، تجاوزات کا خاتمہ اور سعودی عرب جانے والے پاکستانی فقیروں کا تدارک شامل ہے۔ یہ کمیٹی 15 ارکان پر مشتمل ہے، جس کی سربراہی وزیر داخلہ محسن نقوی کریں گے۔ کمیٹی میں تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہوم سیکریٹریز، حساس اداروں کے نمائندے اور سی ٹی ڈی حکام بھی شامل ہیں۔ کمیٹی افغان باشندوں کی پاکستان سے واپسی کے عمل کی نگرانی کرے گی اور غیر قانونی پیٹرول کی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائیاں کرے گی۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب میں پاکستانیوں کے بھیک مانگنے کے رجحان کو روکنے کے لیے بھی حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ کمیٹی صوبوں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کا بھی جائزہ لے گی تاکہ ٹیکس کے نظام کو مزید شفاف بنایا جا سکے۔ کمیٹی تمام معاملات میں موجود نقائص کی نشاندہی کرکے ان کے حل کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔ ایف بی آر نے غیر قانونی پیٹرول کی فروخت کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں تاکہ اس کی اسمگلنگ اور منفی اثرات پر قابو پایا جا سکے۔ کمیٹی ان اقدامات کی نگرانی کرے گی تاکہ ان پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد ہو سکے۔ یہ کمیٹی پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی، تاکہ عوام کے لیے ایک محفوظ اور ترقی یافتہ ماحول فراہم کیا جا سکے۔
صحافی فرحان ملک کے وکیل عبدالمعیز جعفری کےمطابق عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کل پورا دن حراست میں رکھنے کے بعد، ایف آئی اے نے ایک نئے ایف آئی آر کے ساتھ فرحان ملک کو ملیر کورٹ میں پیش کر کے سب کو حیران کر دیا۔ نئے ایف آئی آر کے مطابق: کل صبح جب ایف آئی اے پرانے ایف آئی آر کے تحت فرحان ملک کو پیش کرنے اور مزید ریمانڈ کے لیے درخواست دینے کی تیاری کر رہا تھا—جس کے انکار ہونے کا انہیں علم تھا—تو ایک "حسنِ اتفاق" سے انہیں کریڈٹ کارڈ فراڈ کرنے والے دو افراد مل گئے جو ایک کال سینٹر سے چلنے والی جعلی کمپنی چلاتے ہیں۔ یہ لوگ "جعلسازی والی کالز" کر کے لوگوں کے کریڈٹ کارڈ کے خفیہ تفصیلات اور پیسے چراتے ہیں۔ ان ملزموں کو صبح ہی یہ احساس ہوا کہ جس دن فرحان ملک کو عدالت میں پیش ہونا تھا، اُسی دن انہیں پتا چلا کہ ان کا پورا نیٹ ورک دراصل فرحان ملک چلا رہا ہے! لہٰذا، ایف آئی اے کو اب اس کی تفتیش کرنی ہے۔ ہم وقت پر عدالت پہنچ گئے اور اس مضحکہ خیز الزام سے اس کی بریت کی وکالت کی۔ ایف آئی اے کے وکیل نے فرحان ملک کو مزید حراست میں رکھنے کی درخواست کی کیونکہ انہیں "کچھ مواد ملا ہے جس کی تفتیش ہونی ہے۔" جج صاحب نے خوشدلی سے ایف آئی اے کو فرحان ملک کو پانچ دن کے لیے حراست میں رکھنے اور تفتیش کرنے کی اجازت دے دی۔ فرحان ملک کی عید برباد ہو گئی۔ "کامیابی" حاصل ہو گئی۔ یہ 2025 میں ریاستی طاقت کے استعمال کا 90ء کی دہائی والا "بھینس چوری" یا "بستر کے نیچے سے غیرقانونی ہتھیار برآمد" والا ورژن ہے۔ یاد رکھیں، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ پییکا میں ترمیم صحافیوں کے خلاف نہیں ہو گی۔ وہ نہیں ہوئی۔ یہ ترمیم ہر کسی کے خلاف ہوئی ہے۔ اگر آپ ان کے "مقدس راستے" سے ہٹ گئے، تو چاہے آپ صحافی ہوں، وکیل ہوں یا پروفیسر—ہم آپ پر کریڈٹ کارڈ فراڈ کا الزام لگا دیں گے تاکہ عدالتی عمل کو سزا کے طور پر استعمال کر سکیں۔
قومی احتساب بیورو (نیب) پشاور نے بی آر ٹی پشاور منصوبے سے متعلق مبینہ کرپشن کے متعدد کیسز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور موجودہ وزیراعظم کے مشیر پرویز خٹک، موجودہ چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ، اور دیگر اہم عہدیداروں کے خلاف تحقیقات ختم کر دی گئی ہیں۔ تاہم، کچھ دیگر افراد کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ نیب نے احسن رفیق اور مامون الرشید کے خلاف معاملہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (سیکپ) کو ریفر کر دیا۔ ٹرانس پشاور کے سابق سی ای او فیاض احمد، صفدر شبیر، وقاص صالحین، محمد عمران، اور LMKR کے سی ای او عاطف رئیس کو بھی تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔ نیب چیئرمین نے ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ (EBM) میں قانونی ماہرین کی رائے کے بعد کیسز بند کرنے کی منظوری دی۔ نیب کے خط (نمبر 1/34/1153/IW-I/NAB(KP) کے مطابق، جن شخصیات کے خلاف تحقیقات بند کی گئی ہیں، ان میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک، سابق چیف سیکریٹری عابد سعید، موجودہ چیف سیکریٹری اور سابق سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ شہاب علی شاہ دیگر اہم افراد بشمول عمران لطیف، عامر لطیف، سید مسعود حسین شاہ، شیخ میاں محمد یونس، محمد ایوب شیخ، اور چینی کنٹریکٹرز ژانگ چینگ، ژیاؤ ہواپنگ، اور گاؤ جیان ہیں۔ نیب نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تفصیلی قانونی جائزے اور شواہد کی کمی کی بنیاد پر یہ کیسز بند کیے گئے ہیں۔ تاہم، کچھ معاملات کو مزید کارروائی کے لیے متعلقہ اداروں کو بھیج دیا گیا ہے۔
کراچی کی رہائشی خاتون کا لاہور سمیت پنجاب بھر میں 400 سے زائد افراد کیساتھ انویسٹمنٹ کے نام پر 4 ارب کا فراڈ کراچی کی رہائشی خاتون فاطمہ سلیم نے کراچی کے بعد لاہور سمیت پنجاب بھر میں 400 سے زائد افراد کیساتھ انویسٹمنٹ کے نام پر چار ارب کا فراڈ کرلیا۔ خاتون اپنے مبینہ شوہر سہیل عدنان اور بیٹے عمر عمران کے ہمراہ روپوش ہوگئی۔ فراڈ بحریہ کوزین کمپنی کے نام پر کیا گیا۔ خاتون نے دفتر کے ملازموں تک کو نہ بخشا۔ https://www.instagram.com/newsonepakistan/reel/DHo0VFDBag-/ خاتون نے ایک ہی کمپنی کے افسران سے 63 کروڑ کا فراڈ کیا جبکہ دیگر افراد سے تقریباً چار ارب روپے کا فراڈ کیا، مذکورہ خاتون 65ایف آئی ار درج ہونے کے باوجودساتھیوں سمیت دو ماہ گزرنے کے باوجود گرفتار نہ ہو سکی۔ رونامہ جنگ کے مطابق دستاویزات کے مطابق بفرزون نارتھ کراچی کی رہائشی سلیم فاطمہ نامی خاتون کیخلاف 2020ء میں ایف آئی AHTC کراچی میں ایک فراڈ کا مقدمہ درج ہوا مگر وہ فرار ہو کر لاہور بھاگ گئی۔ لاہور میں رہتے ہوئے اس نے پچھلے فراڈ کے پیسوں اور دیگر پیسے جمع کر کے 2024 میں پانچ آئؤٹ لیٹس اور ایک بیوٹی پارلر بھی کھولا۔ پھر لوگوں کو بھاری منافع دینے کی لالچ میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی۔ اسکی ترغیب پر 300 سے زائد لوگ جن میں ریٹائرڈ افسران، ایک ہی کمپنی کے حاضر سروس اعلی افسران نے 10 لاکھ سے لیکر ایک کروڑ تک کی سرمایہ کاری کی اور غائب ہو گئی۔
لندن/اسلام آباد: برطانیہ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) سمیت دیگر پاکستانی ایئرلائنز پر عائد پابندیوں کو فی الحال برقرار رکھا ہے۔ برطانوی وزارت نقل و حمل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایئرلائنز اب بھی یورپی یونین کی ایئر سیفٹی فہرست میں شامل ہیں اور پابندی ہٹانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ برطانیہ اور پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹیز کے درمیان اس معاملے پر مسلسل رابطہ جاری ہے۔ تاہم، پاکستانی حکومتی ذرائع کے مطابق، برطانوی ایئر سیفٹی اتھارٹی نے ایک بار پھر اپنا فیصلہ ملتوی کر دیا ہے۔ اصل میں آڈٹ کے بعد 20 مارچ کو فیصلہ ہونا تھا، لیکن اب اسے 25 مارچ تک کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، پی آئی اے کے ایک جہاز کا ٹائر گرنے کے واقعے نے اس معاملے میں تاخیر پیدا کی ہے۔ ورلڈ ایئر سیفٹی اور ایئربس اس حادثے کی تفتیش کر رہے ہیں، اور پابندی کا فیصلہ تحقیقات مکمل ہونے تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی 2020 میں برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستانی پائلٹوں کے جعلی لائسنس اسکینڈل کے بعد پاکستانی ایئرلائنز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستانی حکام نے ایئر سیفٹی کے معیارات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، لیکن ابھی تک پابندی مکمل طور پر نہیں ہٹائی جا سکی۔ حکومت پاکستان کو امید ہے کہ جلد ہی تمام ضروری معیارات پورے ہونے کے بعد پابندی اٹھا لی جائے گی، جس سے پی آئی اے کو یورپ اور برطانیہ کے اہم راستوں پر دوبارہ پروازیں شروع کرنے میں مدد ملے گی۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناء اللہ نے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل کے ٹوئٹ کے جواب میں کہا کہ حکومت ان کے تحفظات کو حل کرنے کے لیے تیار ہے اور وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کے لیے تیار ہیں۔ اختر مینگل نے اپنے ٹوئٹ میں وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، جو بیٹیوں کی گرفتاری اور ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کے خلاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مارچ ان کے قومی وقار، غیرت اور وجود کا سوال ہے، اور وہ اس میں تمام بلوچ بھائیوں، بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس مارچ میں ان کے ساتھ شامل ہوں۔ رانا ثناء اللہ نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد دہشتگردوں کی لاشوں پر جھگڑے کی اطلاعات مل رہی ہیں، لیکن اس پر کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کو سلجھانے کے لیے حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے اور مسئلے کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے احتجاج کی قیادت کرنے والے افراد کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے تاکہ حالات بہتر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے مسئلے پر بات کی جانی چاہیے اور کرپشن کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ الیکشن متنازع ہوں، لیکن نواز شریف ہمیشہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ کوئی بات کرنے کو تیار ہو۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے لاپتا افراد کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بازیاب کیا جائے اور جن افراد کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے، انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس قسم کی طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ پیچیدہ ہے اور اسے حل کرنے کے لیے تین فریقوں کو ساتھ بیٹھنا پڑے گا، تاہم کسی بھی فریق کو ساتھ بیٹھنے کی رضا مندی نہیں ہے۔ آخر میں، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے نکل سکتا ہے، اور انہوں نے عبدالمالک بلوچ کے مسئلے کو وزیراعظم تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے اور دریائے سندھ کی سکڑتی ہوئی حالت اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی شدید کمی کے باعث انسانی زندگی اور آبی حیات شدید متاثر ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ دریائے سندھ، جو پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے، پانی کی کمی کے باعث ان دنوں صحرائے تھر کی مانند نظر آ رہا ہے۔ ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی کمی اور اس کے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دریا خشک ہو کر سکڑ چکا ہے، جس سے آبی حیات اور انسانی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ٹھٹھہ سجاول پل کے مقام پر دریائے سندھ کے کناروں پر ریت کے ٹیلے پھیل گئے ہیں، اور پورا علاقہ خشک سالی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ زرعی پانی فراہم کرنے والی نہریں سوکھ چکی ہیں اور کاشتکار پانی کی بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی کی کمی نہ صرف ماحولیاتی بحران کا سبب بن رہی ہے بلکہ سندھ کے کئی اضلاع میں زرعی زمینوں پر بھی اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی نے سجاول، ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع کی زرعی زمینوں کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 50 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کی نذر ہو چکی ہے۔ اس سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر حکومت، ماہرین اور متعلقہ اداروں کو مشترکہ طور پر مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکے اور متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
راولپنڈی کی مقامی عدالت نے توہین رسالت اور پیکا قوانین کے تحت 5 افراد کو سزائیں سنا دی ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج محمد طارق ایوب نے توہین رسالت کے مقدمے میں پانچ ملزمان کو سزائے موت، عمر قید اور مجموعی طور پر 100 سال قید کی سزا سنائی۔ ڈان نیوز کے مطابق ملزمان محمد ارسلان، علی عباس، فیصل ریحان، زنیر سکندر اور خرم افضال کو مختلف دفعات کے تحت سزائیں سنائی گئیں۔ ان پر دفعہ 295 سی (توہین رسالت)، 295 بی (توہین قرآن)، 295 اے (دین کے خلاف توہین) اور دفعہ 298 اے (مذہبی عقائد کی توہین) کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق، ملزمان کو دفعہ 295 سی کے تحت سزائے موت، دفعہ 295 بی کے تحت عمر قید، دفعہ 295 اے کے تحت 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ مزید برآں، ملزمان کو دفعہ 298 اے کے تحت تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا بھی دی گئی۔ پیکا آرڈیننس کے تحت ملزمان کو سات سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ اس فیصلے نے توہین رسالت اور مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کے معاملات میں عدالت کی سخت کارروائی کو ظاہر کیا ہے، اور یہ سزائیں ملک میں اس نوعیت کے مقدمات کی پیروی میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ ٹھیکیداروں کو ترقیاتی کاموں کے لیے بغیر لیب رپورٹس کے 11 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے مالی سال 2022-23 اور 2023-24 کے آڈٹ اعتراضات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران پی اے سی نے چینی کی قیمتوں اور برآمدات کے حوالے سے وزارت تجارت کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ وزارت تجارت اور صنعت سے چینی کی قیمتوں، برآمدات اور درآمدات کی رپورٹ طلب کی گئی تھی، لیکن وہ فراہم نہیں کی گئی۔ اس پر پی اے سی نے تین وفاقی سیکریٹریز کو طلب کیا، جن میں سیکرٹری صنعت، سیکرٹری تحفظ خوراک اور سیکرٹری تجارت شامل ہیں۔ ہاؤسنگ اینڈ ورکس سے متعلق آڈٹ اعتراضات پر بات کرتے ہوئے، گرانٹ کی رقم کی تاخیر اور لیپس ہونے کے معاملے پر سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے وضاحت دی کہ "ہمارے پاس فائنل ریلیز تاخیر سے آئی"۔ وزارت خزانہ کی جانب سے رقم کی تاخیر سے جاری ہونے پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا۔ ممبر کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ "یہ تو تماشہ ہوگیا کہ 26 جون کو پیسے دیے جائیں گے۔" چیئرمین کمیٹی نے خزانہ حکام سے استفسار کیا کہ آیا آپ نے لیپس کے لیے پیسے بھیجے تھے؟ نوید قمر نے کہا کہ "سیکرٹری فنانس اور سیکرٹری پلاننگ کو بلا کر پوچھیں کہ طریقہ کار کو ٹھیک کریں"۔ پی اے سی نے پاک پی ڈبلیو ڈی (پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ) سے متعلق بھی سوالات اٹھائے۔ سیکرٹری ہاؤسنگ نے بتایا کہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا فیصلہ کابینہ نے کیا تھا، مگر اس پر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ نوید قمر نے سوال کیا کہ "کیا پی ڈبلیو ڈی ابھی تک فعال ہے؟" سیکرٹری ہاؤسنگ نے جواب دیا کہ "پی ڈبلیو ڈی کی اسکیمیں صوبوں، محکموں اور سی ڈی اے کے حوالے کی جاچکی ہیں۔" جنید اکبر خان نے کہا کہ "اتنا کرپٹ ترین ادارہ شاید ہی کہیں اور ہو گا۔ اتنی زیادہ کرپشن ایک ادارے میں کیوں ہوتی ہے؟" آڈیٹر جنرل نے کہا کہ "کسی محکمے کا مکمل پرفارمنس آڈٹ نہیں ہوا"۔ اجلاس کے دوران ملک بھر میں 952 ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں میں طے شدہ معیار کے مطابق کام نہ ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔ رپورٹ کے مطابق یہ ایک ملی بھگت کا کیس لگتا ہے جس میں اربوں روپے جاری کر دیے گئے، لیکن رپورٹس کا بروقت جائزہ نہیں لیا گیا۔ سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو کمیٹی اراکین نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ کام مکمل نہ ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اجلاس کے دوران پی اے سی نے ہدایت کی کہ ایک ماہ میں اس آڈٹ اعتراض کا جواب جمع کروایا جائے، اور متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کر کے کمیٹی کو رپورٹ دی جائے۔
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ) نے چار مبینہ سہولت کاروں کو حراست میں لے لیا ہے، جن سے تفتیش جاری ہے۔ سی ٹی ڈی کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد سے ابتدائی تفتیش کی جارہی ہے، اور پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے کہا ہے کہ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر تحقیقات کی جا رہی ہیں، اور ملزمان تک جلد پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سی ٹی ڈی حکام نے مزید بتایا کہ حملہ آوروں کے زیر استعمال اسلحہ اور کمیونیکیشن آلات قبضے میں لے کر فارنزک تحقیقات کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ حملہ آوروں کی شناخت کے لیے نادرا کو ان کے فنگر پرنٹس بھی فراہم کر دیے گئے ہیں۔ سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک حملہ آوروں کے جسمانی اعضا بھی فارنزک سائنس ایجنسی کو بھیجے گئے ہیں تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں۔ مشکاف کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملے میں 26 مسافر جاں بحق ہوئے، جبکہ 40 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کے دوران ریلوے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس کے انجن سمیت پانچ بوگیاں تباہ ہو گئیں تھیں، اور ریلوے ٹریک کا 382 فٹ کا حصہ بھی نقصان سے دوچار ہوا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے دوران افغانستان سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے رابطے کا سراغ ملا ہے، اور یہ حملہ بیرون ملک بیٹھی دہشت گرد قیادت نے کرایا تھا۔ دفتر خارجہ نے ایک بار پھر افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کو کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال سے روکے۔
پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک ایڈیشنل جج نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی ماریہ بی بی کو قتل کرنے کے الزام میں اس کے والد عبدالستار اور بھائی فیصل کو سزائے موت سنا دی اور دونوں پر ایک، ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ ماریہ بی بی کو 17 مارچ 2024 کو اس کے والد عبدالستار اور بھائی فیصل نے چک 477-جے بی میں قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد 28 مارچ کو قبرکشائی کر کے ماریہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، جس سے قتل کی حقیقت سامنے آئی۔ مقدمے کے مرکزی ملزم فیصل نے پولیس کی حراست میں میڈیا کے ذریعے ریکارڈ کروائے گئے بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے اپنی بہن کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور اپنے ناجائز تعلقات کو چھپانے کے لیے اس کا گلا دبا کر قتل کر دیا۔ تاہم، ڈی این اے رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ ماریہ کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ حاملہ تھی، جیسا کہ ابتدائی طور پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ پولیس نے بعد ازاں مقدمے میں ایف آئی آر درج کی اور چالان میں بتایا کہ ماریہ کو اس کے والد اور بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا تھا۔ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 34، 201 اور 302 کے تحت درج کی گئی تھی، جس کے بعد مقدمے میں دفعہ 311 (غیرت کے نام پر قتل) بھی شامل کر دی گئی تھی۔ فیصل کے بھائی شہباز اور اس کی اہلیہ سمیرہ کو قتل چھپانے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا۔ شہباز نے پولیس کو بتایا کہ ماریہ نے قتل سے ایک روز قبل اطلاع دی تھی کہ فیصل اور ان کے والد نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے اپنی دوسری بہن کوثر کے ساتھ فون پر بات کرنے کے بہانے قتل کی خفیہ ویڈیو بنائی تھی۔ آج ایڈیشنل سیشن جج عبدالحفیظ بھٹہ نے کیس کی سماعت کی اور فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں شہباز اور سمیرہ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا، جبکہ عبدالستار اور فیصل کو قتل کا مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے انہیں ماریہ کے قانونی ورثاء کو ایک ایک کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اگر یہ جرمانہ نہ ادا کیا گیا تو انہیں مزید 6 ماہ قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فیصلے کے بعد کیس کا ریکارڈ لاہور ہائی کورٹ کو بھیجا جائے گا تاکہ سزائے موت کی تصدیق کی جا سکے۔ مجرموں کو 30 دن کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹرجنل پنجاب سید فرہاد علی شاہ کی جانب سے مقدمے کو ہائی پروفائل قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کیس کی تفتیش کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور مقدمے کی مؤثر پیروی کے لیے خصوصی پراسیکیوٹر تعینات کیا تھا۔ پراسیکیوٹرجنل پنجاب کا کہنا تھا کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانا پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے، جسے پنجاب کے پراسیکیوٹرز بھرپور طریقے سے نبھا رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی کارروائی کے دوران فیکٹ فوکس کی آرمی چیف کی فیملی سے متعلق رپورٹ کا بھی تذکرہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے احمد نورانی کی فیملی عتاب کا شکار ہے۔ وکیل سجاد اکرب عباسی نے کہا کہ فیکٹ فوکس کو ریاست مخالف سرگرمیوں پر کالعدم قرار دیا گیا ہے، ی پی ٹی اے کی رپورٹ پر فیکٹ فوکس کو کالعدم قرار دیا گیا، فیک نیوز پھیلانے اور ریاست مخالف مواد دینے پر فیکٹ فوکس کو کالعدم قرار دیا گیا جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ کہ جو لینگویج پی ٹی اے لیٹر میں استعمال کی گئی ہے اسے پڑھ کر لگ رہا ہے کہ فیکٹ فوکس سچ بول رہا ہے۔حضرت علی کا قول ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے انہوں نے زور دیا کہ جن ممالک کا دفاع کمزور ہو یا عوام اپنی مسلح افواج کے ساتھ نہ ہوں، انہیں توڑنا آسان ہوتا ہے۔ عدالت میں وکیل نے کہا کہ "ٹرینڈ آ گیا ہے کہ فوج کے خلاف وی لاگ بنا کر 5 کروڑ روپے کمائے جا رہے ہیں۔" جسٹس نے سوال کیا: "ہم اس نہج پر کیوں آ گئے؟" وکیل نے جواب دیا: "یہ بیانیہ لوگوں کو پسند ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں عوام اپنی افواج کے ساتھ نہیں ہوتے، وہاں دشمن کے لیے راستہ کھلا ہوتا ہے۔
کراچی: پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے احتجاجی اراکین کو منتشر کرتے ہوئے سمی دین بلوچ سمیت 6 کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا کے مطابق کمشنر کراچی کی جانب سے عوامی اجتماعات یا احتجاج پر پابندی کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے باوجود بی وائی سی اور دیگر گروہوں نے ریڈ زون میں احتجاج کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے بی وائی سی کے احتجاجی اجتماع کو منتشر کر دیا اور سمی دین بلوچ سمیت تقریباً 6 مظاہرین کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کر کے ویمن پولیس اسٹیشن میں بند کر دیا۔ ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مظاہرے کے دوران خواتین اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئی، جہاں مرد و خواتین دونوں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے احتجاجی کیمپ کے دوران کوئٹہ میں اپنے رہنماؤں کی غیر قانونی حراست کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا، جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں۔ کراچی پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاج کے پیش نظر، پولیس نے پریس کلب کے اطراف کی سڑکیں بند کر دیں اور شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ ٹریفک پولیس نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم 'ایکس' پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ دین محمد وفائی روڈ سے فوارہ چوک تک سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اور متبادل ٹریفک راستے فراہم کیے گئے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے ایک جوابی احتجاج بھی کیا گیا جس میں پلے کارڈز پر 'را سے تعلق: بی ایل اے اور بی وائی سی' جیسے نعرے درج تھے، جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' اور کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا ذکر کیا گیا تھا۔ اسی دوران، سندھ حکومت نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے 5 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ اس کے تحت جلسے، جلوس، دھرنوں اور پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی ہوگی۔ یہ پابندی 24 مارچ سے 28 مارچ تک نافذ رہے گی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس تمام صورتحال کے دوران، بلوچستان کے رہنماؤں نے اس احتجاج کے دوران ہونے والی گرفتاریوں اور پولیس کے اقدامات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، جس سے بلوچستان میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں پاکستان نرسنگ کونسل کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ نرسنگ کونسل انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہے اور جعلی ڈگریوں پر نرسز کو بیرون ملک بھیجا جا رہا ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین مہیش کمار میلانی کی زیرصدارت ہوا، جس میں نرسنگ کونسل کی بےضابطگیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں آغا رفیع اللہ نے الزام عائد کیا کہ نرسنگ کونسل غیر قانونی طریقے سے جعلی ڈگریوں پر نرسز کو مختلف ممالک میں بھیج رہی ہے، جن کی شناخت اور تعلیم میں جعلسازی کی جاتی ہے۔ کمیٹی کی رکن شازیہ صوبیہ نے بھی اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دبئی، قطر اور سعودی عرب سے تین نرسنگ گروپ جعلی ڈگریوں پر واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ معاملہ نہ صرف نرسنگ کے شعبے کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ عالیہ کامران نے مزید انکشاف کیا کہ نرسنگ کونسل کی جانب سے کمیٹی کے ممبران کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور عدالت سے اسٹے آرڈر حاصل کیا گیا ہے، جس کے باعث کمیٹی اس پر مکمل تحقیقات کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اجلاس میں وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے نرسنگ کونسل کے رویے کی مذمت کی اور آغا رفیع اللہ کے خلاف استعمال ہونے والی نازیبا زبان پر معذرت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور نرسنگ کونسل کی بےضابطگیوں کی مکمل تحقیقات کرائیں گے۔ وزیر صحت نے کمیٹی کو بتایا کہ فرزانہ ذوالفقار کی جعلی ڈگری کے معاملے پر ایچ ای سی کو خط لکھا جا چکا ہے اور وہ اس پر مسلسل کمیٹی کو آگاہ رکھتے رہیں گے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس نرسنگ کونسل کے معاملات پر ہی منعقد کیا جائے گا اور اس کے خلاف ممکنہ کارروائی پر غور کیا جائے گا۔
پشاور: طورخم بارڈر پر اسمگلنگ میں ملوث 50 افغان بچوں کو قبائلی جرگے کے ذریعے افغانستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، یہ بچے یومیہ 700 سے زائد افغان بچوں میں شامل تھے جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ قبائلی جرگے نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ان گرفتار بچوں کو رہا کیا اور انہیں براستہ طورخم افغانستان واپس جانے کی اجازت دی۔ ان افغان بچوں کی اکثریت نادانستہ طور پر منشیات اور تخریب کاری کے مواد کی اسمگلنگ میں ملوث تھی۔ پولیس حکام کے مطابق، یہ بچے غیر قانونی طور پر پاکستانی سرحد کو پار کرکے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ جرگہ کے ارکان نے کہا کہ بچوں کو ایسے غیر قانونی کاموں میں ملوث کرنا نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی جرم بھی ہے، اور والدین کو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی ضرورت ہے۔ جرگے کے ممبر علی شینواری نے اس موقع پر کہا کہ بچوں کو اس عمر میں جیل میں قید کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان حکام کے حوالے کیے گئے 50 بچوں میں 17 بچیاں بھی شامل ہیں۔ جرگہ نے فرنٹیئر کور نارتھ اور پولیس کی تعاون پر شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس کارروائی میں مدد فراہم کی۔

Back
Top