سوشل میڈیا کی خبریں

اسلام آباد میں مون سون کی پہلی بارش ۔۔ سرینہ انڈرپاس کی سڑک بیٹھ گئی محسن نقوی نے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے 60 دن کی ڈیڈلائن دی تھی اور ہر قسم کی رکاوٹیں دور کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایک صارف نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ شہر اقتدار میں کم عرصے میں مکمل ہونے والا جناح اسکوائر پراجیکٹ ناقص ثابت ہوا،،،،شہرِ اقتدار میں 84 دن میں 4.2 ارب کا جناح اسکوائر منصوبہ بارش میں بیٹھ گیا محمد عمیر کا کہنا تھا کہ سرینا چوک انٹرچینج کا کچھ حصہ شہباز شریف اور محسن نقوی کے حق میں بیٹھ گیا۔ فرحان منہوج نے تبصرہ کیا کہ جب سے اسلام آباد کے کرتا دھرتا محسن نقوی اینڈ کمپنی ہوئی ہے اسلام آباد میں کروڑوں لگا کر سڑک ہفتوں میں تعمیر ہوتی ہے اور پہلی ہی بارش میں احتراماً بیٹھ بھی جاتی ہے رضوان غلزئی نے طنز کیا کہ محسن نقوی کے کارنامے رنگ لا رہے ہیں۔
عمران خان سے ملاقات کی اجازت کیلئے وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور آج سپریم کورٹ گئے، مگر حیران کن طور پر انہوں نے نہ تو کوئی رجسٹرار سپریم کورٹ کے سامنے درخواست دائر کی اور نہ ہی چیف جسٹس سے رابطہ کیا بلکہ جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت میں پہنچ گئے اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے علی امین گنڈا پور کو رجسٹرار سپریم کورٹ اور چیف جسٹس یحیی آفریدی سے رجوع کرنے کرنے کا راستہ دکھا دیا اصول یہ ہوتا ہے کہ کوئی درخواست دائر کرنے کیلئے پہلے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جاتی ہے پھر رجسٹرار اس پر فیصلہ کرتا ہے، اگر اعتراضات ہوں تو اعتراضات دائر کرکے درخواست واپس کردیتا ہے ورنہ درخواست پر نمبر لگادیتا ہے اور پھر یہ درخواست اپنی باری پر سماعت کیلئے مقرر ہوتی ہے مگر علی امین گنڈاپور حیران کن طور پر جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت میں پہنچے تو اسے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے نئی ڈرامہ بازی، سؔٹنٹ قرار دیا اور کہا کہ علی امین گنڈاپور ایسے ڈرامے اپنے اوپر دباؤ ختم کرانے کیلئے کررہے ہیں۔ سعید بلوچ نے اس پر تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈا پور کا اچانک سپریم کورٹ پہنچنا اور جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت میں پیش ہو کر عمران خان سے ملاقات کی استدعا کرنا انتہائی احمقانہ عمل ہے۔ گنڈاپور بظاہر دباؤ زائل کرنے کے لیے پھرتیاں دکھا رہے ہیں لیکن اس سے آزاد ججز کو متنازعہ بھی بنا رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک وزیراعلیٰ کو عدالتی طریقہ کار کا علم نہیں؟ کیا لطیف کھوسہ صاحب جیسے سینیئر وکیل بھی لاعلم ہیں؟ وزیراعلیٰ کے نیچے ایڈووکیٹ جنرل کا پورا آفس ہے کیا وہاں سے بھی رہنمائی و معاونت نہیں کی گئی؟ آپ کو عدالت سے ریلیف چاہیے تو ایک درخواست دائر کریں نا کہ سیدھا کسی ایک جج کی عدالت میں پیش ہو کر اپنا اور جج کا بھی تماشہ بنا دیں اور انہیں متنازع کرنے کی کوشش کریں پاکستانیت نے تبصرہ کیا کہ یہ علی امین کا طریقہ واردات ہے ، ہر کام کو خراب کرنا ، غلط طریقے سے کرنا ، بے وقت کرنا ، اصل ایشو کو نقصان پہنچا نا اور دکھاوے کیلئے تماشے کرنا ، یہ پورے الیکٹوریٹ کی توہین ہے ، یہ نوجوان نسل کی ذہانت کی توہین ہے ، نوجوان۔اس جعلساز کو پہنچان چکے ہیں راجہ محسن نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کا ایک اور میڈیا اسٹنٹ ، سپریم کورٹ کے ایک جج کی عدالت میں جا پہنچے، وزیر اعلی کی قانونی ٹیم کو یقینا معلوم ہو گا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا طریقہ کیا ،سماعت کے لیے مقرر ہونے کا طریقہ کیا ہے ، پھر اس میڈیا گیم کا مقصد کیا ہو سکتا ؟ اس پر صحافی فہیم اختر نے لطیفہ شئیر کیا کہ جنگل میں جانور بیماری سے مر رہے تھے فیصلہ ہوا بندر کو ڈاکٹر بناتے ہیں،چار سال تک بندر نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ڈگری لیکر واپس آیا تو لومڑی بیمار ہوگئی،بندر کے پاس لے آئے ڈاکٹر بندر نے ایک درخت سے دوسرے پر چھلانگیں لگائیں لیکن لومڑی مرگئی،باقیوں نے کہا ڈاکٹر نے کوشش تو بہت کی ہے عارف ڈار نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپوری اس وقت ایکٹنگ میں لیلے کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔۔ سپریم کورٹ جانے کا ڈرامہ رچا رہا ۔۔۔ او بے شرم بے غیرت کیا تجھے نہیں پتہ کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اس وقت لاہور میں کورٹ کررہے ہیں ۔۔ بے غیرت غدار شرابی لیلے اب ہم روز تجھے زلیل و خوار کرینگے تم نے خان سے غداری کی ہے اور خان سے غداری کی ایک ہی سزا ہے صرف زلیل و خوار کرنا ۔۔
گزشتہ روز جمشید دستی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں جمشید دستی بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے دوران اپنی نشست سے اٹھے اور سجدہ کرنا شروع کردیا سوشل میڈیا صارفین کو اس ویڈیو کی سمجھ نہیں آئی اور ہر ایک نے اپنے اپنے مطلب اخذ کئے، کسی نے کہا کہ یہ عمرایوب کو سجدے کررہا ہے، کسی نے کہا کہ یہ بلاول کے سامنے ناک رگڑ کر معافی مانگ رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی جمشید دستی پر کافی تنقید ہوئی اور کہا کہ سجدہ صرف خدا کو کیا جاتا ہے یہ کس کو سجدہ کررہا ہے؟ کسی نے اس اقدام کو جمشید دستی کو جاہل کہا ۔ اس پر جمشید دستی کا بھی ردعمل سامنے آگیا جن کا کہنا تھا کہ "بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران قومی اسمبلی میں اللّٰہ پاک کو سجدہ دیا اور کہا اللّٰہ پاک ملک کو بلاول جیسے حکمرانوں کے شر سے محفوظ فرما، ہم ہزار بار توبہ کرتے ہیں!" واضح رہے کہ جمشید دستی ماضی میں پیپلزپارٹی میں رہ چکے ہیں اور اس وقت بھی کئی تنازعات کا شکار ہوئے، پیپلزپارٹی چھوڑنے کے بعد انہوں نے 2013 آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے اور بعد ازاں2024 کے الیکشن میں وہ کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچے جمشید دستی بھی ان افراد میں تھے جن پر 9 مئی کے بعد تحریک انصاف چھوڑنے کا دباؤ تھا، مگر انہوں نے دباؤ قبول کرنے سے انکار کیا جس پر انکے گھر پر پولیس نے کئی بار دھاوا بولا
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ سال 2024-25 کی رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں پنجاب حکومت کے مالی سال 2023-24 کے اخراجاتی کھاتوں میں 1,000 ارب روپے سے زائد کی سنگین مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں فراڈ، غلط ادائیگیاں، مالی بدانتظامی، غلط خریداری اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال جیسے معاملات نمایاں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 282 مختلف کیسز کی نشاندہی کی گئی جن میں 988 ارب روپے کی رقم صرف کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے کمرشل بینکوں میں غیر مجاز طور پر رکھنے سے متعلق ہے۔ دیگر انکشافات میں 3.1 ارب روپے کے 14 فراڈ کیسز، 25.4 ارب روپے کی زائد ادائیگیاں، 10.6 ارب روپے کی مالی بدانتظامی، اور 43 ارب روپے کی غلط خریداری شامل ہے۔ اس پر مونس الٰہی نے اپنے ایکس پیغام میں لکھا کہ آڈیٹر جنرل نے میڈم تھیف منسٹر کے ایک سالہ دور میں 10 کھرب روپے سے زیادہ کی مالی بے ضابطگیاں پکڑ لیں۔ سنگین مالی فراڈ، بوگس خریداریاں، غلط ادائیگیاں سامنے آ گئیں۔ مونس الٰہی نے اس موقع پر #MadamThiefMinister کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔ جس پر عظمیٰ بخاری نے جواب دیا کہ مونس الہی نے اپنے والد صاحب کے دور کی بے ضابطگیاں پکڑ لیں جسکا حصہ وہ خود رہے اور پھرنو ٹوں کے بیگ بھر کے بھگوڑا بن گیا اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے عظمیٰ بخاری کی تصحیح کرنیکی کوشش کی اور کہا کہ مالی سال2023-24ء کا آغاز یکم جولائی2023ء سے ہوا اورخاتمہ30جون2024ء کو ہوا جبکہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ جنوری 2023 تک تھے۔ انہوں نے عظمیٰ بخاری پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی حالت ہے جنہیں یہ نہیں معلوم کہ مالی سال کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے انہیں وزیر بنادیا گیا۔ ماجد نظامی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آنریبل منسٹر آپ کا دعوی درست نہیں ہے۔ اس آڈٹ رپورٹ میں 8 ماہ سالار اعلی کے رفیقِ خاص محترم المقام محسن نقوی کی حکومت کے ہیں اور 4 ماہ محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی حکومت کے ہیں۔ چوہدری پرویز الہی جنوری 2023 میں جا چکے تھے۔ قسمت خان نے تبصرہ کیا کہ مالی سال2023-24ء کا آغاز یکم جولائی2023ء سے ہوا اورخاتمہ30جون2024ء کو ہوا۔ اس دوران محسن نقوی نگران وزیراعلیٰ تھے،جو25فروری2024ء تک رہے۔26فروری2024ء سے مریم نوازوزیراعلیٰ بنیں۔یعنی اس عرصے میں صرف محسن نقوی اور مریم نوازنے حکومت کی۔اس مالی سال سے پرویزالہی کا کوئی لینا دینا نہیں احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الہیٰ کی حکومت جنوری 2023 میں ختم ہوئی۔ مالی سال 24-2023 کا آغاز، یکم جولائی 2023 سے ہوا تھا، جو 30 جون 2024 کو ختم ہوا۔ اس حساب سے 8 ماہ سید محسن نقوی اور 4 ماہ مریم نواز حکومت۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کو مالی سال کی الف ب کا غالباً علم نہیں۔ نادر بلوچ نے ردعمل دیا کہ یہ پنجاب کی وزیر اطلاعات کا عالم ہے کہ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ جولائی دوہزار بائیس تئیس کے دوران پنجاب کا وزیراعلیٰ کون تھا، جب حقائق سے لاعلمی اس حد تک ہو، تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتی کارکردگی کی بنیاد کیا ہوگی۔ بجائے اس کے کہ وہ بدانتظامی، کرپشن اور ناقص گورننس کے ذمہ داروں کو جوابدہ بنائیں، یہ محض الزامات کی سیاست میں مصروف ہیں۔
وفاقی وزیر اویس لغاری نے بنکوں سے قرض کا نیا نام "مالی معاہدہ" رکھ دیا ۔۔ سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے اپنے ایکس پیغام میں وزیرتوانی اویس لغاری نے کہا کہ الحمداللہ آج وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کی سمری پر بجلی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ) ختم کرنے کے لیے کمرشل بینکوں کے ساتھ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا 1275ارب روپے کا مالی معاہدمنظور کر لیا۔ اس پر صحافی ماجد نظامی نے تبصرہ کیا کہ کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا 1275 ارب روپے کا مالی معاہدہ"۔۔۔ براہ کرم ایسے خوشنما الفاظ سے عوام کو دھوکا نہ دیں۔ بتائیں کہ 2400 ارب کے گردشی قرضے میں کمی کےلئے سود پر 1275 ارب کا مزید قرض لیا ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ عوام فی یونٹ مزید کتنا جرمانہ ادا کرے گی جس سے یہ قرض واپس ہو گا۔۔۔ احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ کمرشل بینکوں سے ایک ہزار 275 ارب روپے قرض لیں گے، یہ رقم مہنگے پاور پلانٹ والی کمپنیوں کو دی جائے گی، پاکستانی 1275 ارب روپے سود سمیت واپس کریں گے، اس میں ’’الحمداللہ‘‘ والی کون سی بات ہے۔ قابل شرم بات ہے ویسے محمد عمیر نے سوال اٹھایا کہ لغاری صاحب بھاری بھرکم بلوں کے بعد اب اس قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے عوام پر فی یونٹ کتنا بوجھ پڑے گا؟ اکبر نے ردعمل دیا کہ پہلے ہم نے 1250 ارب روپے پاور کمپنیوں کے دینے تھے اب وہی پیسے ہم نے بینکوں کے دینے ہیں اس طرح گردشی قرضہ ختم ہوگیا ہے ۔۔ مالی معاہدہ عبدالقیوم نے کہا کہ ظالموں یہ عوام کی جیب سے پورا کروگے۔اللہ تم لوگوں کو پوچھے گا اتنا ظلم عوام پر ایک طرف دودوہزار یونٹ مفت اور دوسری اس مفتے کے بل بھی عوام کی جیب سے۔ فوادیوسفزئی نے تبصرہ کیا کہ اور یہ گردشی قرضہ جو بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے جمع ہوا ہے اب صارفین کے جیب سے نکالا جائیگا اگلے 6 سال میں بینکوں سے قرض لئے گئے 1275 ارب روپے بمع 663 ارب سود کے عوام سے وصول کئے جائنگے۔۔۔صارفین ہوجاو تیار ٹوٹل 1938 ارب پیمینٹ کے لئے
کچھ روز قبل حمزہ عباسی نے منصور علی خان کو انٹرویو دیا جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ نو مئی غلط تھا، لانگ مارچ نہیں ہونے چاہئیں، 2014 کا بھی لانگ مارچ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست میں حق اور باطل کے معرکے نہیں ہوتےیا صحیح اور غلط کی جنگ ، سیاست میں ایسا نہیں ہوتا، ایجی ٹیشن نہیں ہونی چاہئے،خان صاحب کی ن لیگ کے خلاف کنفنٹریشن غلط تھی۔ حمزہ عباسی نے یوٹیوبرز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یوٹیوب پر کچھ لوگ پیسوں کیلئے خان صاحب سے متعلق غیر حقیقی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ حمزہ علی عباسی کو اپنے اس بیان پر پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا، جس پر انہیں اب ایک بیان جاری کر کے وضاحت دینی پڑ گئی۔ مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ کرتے ہوئے ادکار نے لکھا کہ کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے میرے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا اور یہ تاثر دیا ہے کہ میں نے عمران خان کے خلاف کوئی بیان دیا ہے۔ حمزہ عباسی نے مکمل انٹرویو کا یوٹیوب لنک شیئر کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ سراسر غلط ہے۔ براہ مہربانی مکمل انٹرویو دیکھیں تاکہ آپ خود جان سکیں کہ میں نے اصل میں کیا کہا تھا اس کلپ میں حمزہ عباسی نے 8 فروری الیکشن، پی ٹی آئی احتجاج، 190 ملین پاؤنڈ کیس، عمران خان کی قیدو بند کی صعوبتوں پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری کو تحریک انصاف کیساتھ بالکل دھاندلی ہوئی ہے۔تحریک انصاف کو احتجاج کا پورا حق ہے لیکن احتجاج پرتشدد نہیں ہونا چاہئے۔
گزشتہ روز مہر بانو قریشی اور شیر افضل مروت منصور علی خان کے پروگرام میں شریک تھے جہاں شیر افضل مروت اور مہربانو قریشی میں کافی تلخ کلامی ہوئی۔۔ شیر افضل مروت نے مہربانو قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بھائی نے اپنا ضمیر بیچا، شرم آنی چاہیے خان کے نام پر ووٹ لینے والے ن کے بغل میں بیٹھے ہیں۔ اس پر مہربانو قریشی نے شیر افضل مروت کو سخت جواب دیا اور کہا کہ تمیز کے دائرے میں رہیں آپ کو شرم آنی چاہیے ، میرے والد 600 دن سے جیل برداشت کررہے ہیں، آپ فارورڈ بلاک کو لیڈ کرنے کے لیے بے چین ہیں انہوں نے شیر افضل مروت سے مزید کہا کہ مروت صاحب آپ کو شرم آنی چاہیے کہ آپ نے عمران خان کے نام پر ووٹ لیا اور آج آپ بدزبانی کررہے ہیں، بشری بی بی اور علیمہ خانم پر بکواس کررہے ہیں جو باتیں شیر افضل مروت مہربانو قریشی کے سامنے نہ کرسکے ، اسکے لئے ایکس اکاؤنٹ کا سہارا لیا اور کہا کہ کیا کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ مہر بانو قریشی نے بلا جواز مجھ پر حملہ کیا؟ اس کے بھائی زین قریشی کو پی ٹی آئی کی جانب سے وجہ بتاؤ نوٹس جاری ہو چکا ہے، مگر افسوس کہ مہر بانو اپنی غلطیوں یا اپنے بھائی کے غیر مناسب رویے کا دفاع کرنے کے بجائے، مسلسل دوسروں پر الزام تراشی کر رہی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وہ 26ویں آئینی ترمیم سے قبل اپنی بھابھی کے مبینہ اغوا کے واقعے میں بھی شامل رہی ہیں۔ ایسے میں جب وہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر دوسروں کو اخلاقیات کا درس دیتی ہیں، تو یہ نہایت مایوس کن اور تضاد سے بھرپور رویہ محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ، مخصوص گروہ جیسے بوبک اور دیگر افراد، جنہوں نے 26ویں ترمیم کے موقع پر اپنے ضمیر کا سودا کیا، وہ ہمیشہ پی ٹی آئی کے دامن پر بدنما داغ رہیں گے۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ کچھ لوگ خان صاحب اور پی ٹی آئی کے اصولوں کے دفاع کے بجائے، انہی عناصر کا ساتھ دے رہے ہیں جنہوں نے پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ زین قریشی کہاں ہیں اور وہ اسمبلی اور میڈیا سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟ کیا کوئی اس کی معقول وضاحت پیش کر سکتا ہے؟ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی کے توہین آمیز رویے کا جواب دینے میں صنفی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی کی بدکلامی مجھے خوفزدہ کر سکتی تو میں کب کا خاموش ہو چکا ہوتا۔ آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ جو لوگ اخلاقیات سے عاری ہیں، وہ نہ صرف پارٹی بلکہ معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ اس قسم کے رویے اور افراد ہماری پارٹی کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں اور ان کی موجودگی پی ٹی آئی کے لیے باعث شرمندگی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں درجنوں بچوں کے گردے نکال لیے گئے اور یہ واقعہ اعضا کی چوری کا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر متعدد صارفین نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں کئی بچے چارپائیوں پر لیٹے ہوئے نظر آرہے تھے اور ان کے پیٹ کے نچلے حصے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ پوسٹ میں کہا گیا کہ یہ بچے اعضا کی چوری، خاص طور پر گردے نکالنے کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک پوسٹ میں لکھا گیا: ’’انتہائی افسوسناک واقعہ… صادق آباد، پنجاب میں پتھری کی سرجری کے بہانے 25 افراد کے گردے نکال لیے گئے۔ اگر مریم نواز کو فرسٹ مل جائے تو اس طرف بھی دھیان دیں‘‘ متعدد سوشل میڈیا صارفین نے یہ ویڈیو شئیر کی مگر یہ خبر 31 مئی یعنی 16 دن پہلے کی ہے جس کی ویڈیوز کچھ دن پہلے وائرل ہوئی تھیں۔ ایکسپریس نیوز نے جب ان وائرل ویڈیوز کی حقیقت کا پتہ چلانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ توحید میڈیکل کمپلیکس (صادق آباد، ضلع رحیم یار خان) میں درجنوں بچوں کو پیٹ درد کی شکایت پر لایا گیا، جہاں ڈاکٹرز نے غلط تشخیص کرتے ہوئے ان کی اپینڈکس کی غیر ضروری سرجری کردی۔ تحقیقات کے بعد اسپتال کو سیل کردیا گیا اور کیس کو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کو مزید کارروائی کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس طرح یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ اصل میں یہ ویڈیو ان بچوں کی ہے جن پر صادق آباد کے ایک نجی اسپتال میں غلط تشخیص کی بنیاد پر غیر ضروری اپینڈکس کی سرجری کی گئی تھی۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے جلسے سے خطاب کیا اور کہا کہ اب ہم پر امن نہیں رہے گے، ڈنڈا مارو گے تو ڈنڈا ماریں گے، اس بار ہتھیاروں کے ساتھ اڈیالا جیل جائیں گے، ایک گولی کے بدلے دو گولی چلائیں گے انہوں نے مزید کہا کہ اگر گولی ماری تو ایک کے بدلے دو گولیاں ماریں گے ۔ ماریں گے نہیں بلکہ ٹھوکیں گے۔ علی امین گنڈاپور کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا، سوشل میڈیا صارفین نے سوال اٹھایا کہ علی امین گنڈاپور کس ایجنڈے پر ہیں؟ کیا وہ ایسی باتیں کرکے تحریک انصاف پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں؟ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق علی امین گنڈاپور ایسی باتیں اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر کر رہے ہیں، یہ عمران خان کی پالیسی ہی نہیں ہے۔ رائے ثاقب کھرل نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ علی امین گنڈاپور صاحب ہتھیار ساتھ لانے اور ٹھوکنے کی باتیں کر رہے ہیں، کیا کبھی عمران خان صاحب یا تحریک انصاف نے مسلح جدوجہد کا کوئی زکر کیا؟ یہ چل کیا رہا ہے بھائی! سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ 11 مئی 2023 کے روز جب عمران خان کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تو عمران خان نے روسٹرم پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ انہوں نے اپنی 26 سالہ سیاسی جدوجہد میں کبھی بھی پرتشدد احتجاج کا پرچار نہیں کیا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے عمران خان نئی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی بات کر رہے ہیں اور بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلام آباد نہیں آئیں گے کیونکہ یہاں گولیاں چلائی جاتی ہیں بلکہ اب احتجاج ملک بھر میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں تک پھیلایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب علی امین گنڈاپور بار بار بندوق کے ساتھ اسلام آباد آنے اور اڈیالہ جانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک گولی کے بدلے دو گولیاں مارنے کی بات کرتے ہیں۔ بظاہر ایسے لگتا ہے جیسے علی امین گنڈاپور کوئی پرتشدد کاروائی کر کے عمران خان اور پی ٹی آئی پر مکمل پابندی لگوانے کے لیے گراؤنڈ تیار کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اس بارے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے سادات یونس نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈا پور کے گولی چلانے اور بندوق لیکر آنے والے بیانات کوئی تحریک انصاف کو فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ یہ عمران خان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جا رہا! رانا عمران سلیم نے ردعمل دیا کہ گنڈاپور صاحب کا دماغ خراب ھو گیا ہے۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے جس نے کبھی مسلح جدو جہد کی بات نہی کی نا عمران خان کے منہ سے ہم نے سنا ہے کبھی مسلح جدو جہد کا۔ گنڈاپور صاحب فائدے کی بجائے نقصان کررہے ہیں۔ میر محمد علی خان نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور ہواس کھو چکے ہیں آپ ؟ آپ کو کس نے اجازت دی کہ آپ اعلان کریں کہ ہم اس مرتبہ اسلحہ لیکر آئینگے اسلام آباد۔ عمران خان نے ہمیشہ پُر امن احتجاج کی بات کی ہے۔ ہمیشہ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آپ کیا دوسری طرف کھیل رہے ہیذن وکٹ کے کہ پی ٹی آئ پر اسلحہ کی بُنیاد پر ہمیشہ کے لیئے پابندی لگے جاۓ۔ میر محمد علی خان نے مزید کہا کہ سوچے بغیر بولنے کا یہی اثر ہوتا ہے مگر اس دھمکی کا اثر عمران اور اُس کی پارٹی اور کارکنان پر ہوگا۔ نادان دوست سے دانا دُشمن بہتر ہوتا ہے۔ قمر میکن نے لکھا کہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والوں نے وکٹیں اکھاڑنا شروع کر دی ہیں۔ فاصلہ رکھیں ورنہ نقصان ہو جائے گا۔ پاکستانیت نے تبصرہ کیا کہ علی امین نے آج پھر یہ بات دہرائی ہے کہ ہم ہتھیاروں کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے ایک گولی کے جواب میں دو گولیاں ماریں گے ، کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کہ یہ شخص اسٹیبلشمنٹ کا دیا ہوا سکرپٹ دہرا رہا ہے ، یا تو بری طرح بلیک میل ہو رہا ہے یا بک چکا ہے ، اس شخص پہ اعتبار کرنا مہلک ہے صحافی عمران ریاض نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور نے تحریک انصاف کی شکل کو بگاڑنا شروع کردیا ہے، یہ تحریک انصاف کو ڈیمیج کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اسے سمجھیں یہ باریک واردات ہے انہوں نے مزید کہا کہ جو علی امین گنڈاپور کام کررہے ہیں یہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو سُوٹ کرے گا۔ کیونکہ عمران مخالفوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ تحریک انصاف دہشتگرد جماعت ہے اور ان کا وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ ہم ماریں گے نہیں ٹھوکیں گے صحافی عمران ریاض نے تحریک انصاف کو مشورہ دیا کہ وہ اس بیان سے اعلان لاتعلقی اختیار کریں۔
وفاقی بجٹ میں ای کامرس کاروبار سے منسلک افراد پر 18فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کر دی گئی۔ آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیسز کی تیزی سے ترقی نے ٹیکس قوانین پاسداری کرنے والے روایتی کاروباروں کیلئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ معیاتی مسابقتی فضا پیدا کرنے اور ٹیکس قوانین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ای کامرس پلیٹ فارم کی طرف سے ترسیل کرنے والے کوریئر اور لاجسٹکس خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے ان ای کامرس پلیٹ فارم سے سلیز ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں گے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ہماری "ڈیجیٹل اکانومی" پر بڑا حملہ! آن لائن کاروبار، ای کامرس پلیٹ فارمز، ڈیجیٹل ادائیگیوں، CoD ٹرانزیکشنز، آئن لائن خریداری پر ٹیکس عائد! اسکے بلکل برعکس ہونا چاہیے تھا انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کے سامنے رکاوٹوں کے بجائے انہیں مواقع ملنے چاہئیں- ہماری 70% آبادی کی عمر 40 سال سے کم ہے اور وہ سوشل میڈیا سے لے کر ڈیجیٹل اثر و رسوخ، ایکٹیوزم سے انٹرپرینیورشپ تک دنیا بھر میں ڈیجیٹل طور پر جڑے ہوئے ہیں، و انہوں نے کہا کہ ہ ڈیجیٹل مستقبل کی تشکیل کر رہے ہیں وہ نئے تناظر اور نئے آئیڈیاز لانے کے لیے بالکل تیار ہیں، اور ہاں وہ ابھرتے ہوئے ٹولز اور ڈیجیٹل تجربات میں ماہر ہیں۔ نوجوانوں پر اس ٹیکس کو واپس لیا جائے! رانا عمران سلیم نے تبصرہ کیا کہ بجٹ میں بینطیر انکم سپورٹ کے لئے بجٹ میں 700 ارب سے زیادہ روپے رکھے گئے ہیں اور دوسری جانب گھر بیٹھ کر ای کامرس اور سوشل میڈیا سے باعزت روزگار کمانے والے نواجوان اورعورتوں پر18فیصد ٹیکس لگا کر ڈیجیٹل اکانومی کاگلاگھونٹ دیاگیاکیا۔کیابینظیرسپورٹ کوکم کرکےادھرریلیف نہی دے سکتےتھے احمد وڑائچ نے ردعملد یا کہ جو بچے بچیاں خواتین گھر بیٹھ کر عزت سے کام کاروبار کر رہے ہیں ان کی تباہی کیلئے 18٪ ٹیکس لگا دیا، دوسری طرف بینظیر پروگرام کیلئے 700 ارب رکھ دیے، بجائے اس کے کہ قوم کو کام پر لگائیں، بھیک پر لگا رہے ہیں فید کا کہنا تھا کہ ڈھائی ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ کے لیے ہیں مگر ای کامرس پر اٹھارہ فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ یعنی ای کامرس سٹارٹ اپ لینے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اور غریب کو بھیک کی جانب راغب کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے اسے خودکش حملہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ حکومت کا بجٹ میں ای کامرس پر خودکش حملہ،ایف بی آر کے ساتھ رجسٹریشن کے بغیر کوئی وینڈر ای کامرس پلیٹ فارم پر دکان نہیں کھول سکتا ہے ۔ محسن حجازی نے تبصرہ کیا کہ سیلز ٹیکس میں حرج نہیں اگر یکساں اطلاق ہو۔ اب چونکہ آن لائن شاپنگ کی ویب سائٹوں نے ہر آرڈر اور خریداری پر ڈیٹابیس رکھی ہوتی ہے جو ہر لمحہ اپ ڈیٹ ہوتی ہے تو ای کامرس پر 18 فیصد ٹیکس ٹھوک دیا ہے باقی میں محنت لگتی ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ صرف فوج ہی میاں صاحب کی تابع فرمان و مطیع ہے ایف بی آر تھوڑی ہے وقاص عباسی نے تبصرہ کیا کہ اس حکومت نے قسم کھائی ہے کوئی بھی کام نہیں چلنے دینا جو ملکی بہتری کے لئے کام کر رہا ہو آن لائن والے چیزیں گھروں میں بناتے ہیں جو ٹیکس فری بنتی ہے۔ شاکر محمود اعوان نے تبصرہ کیا کہ حکومت کا ای کامرس کاروبار سے منسلک افراد پر خود کش حملہ۔ 18 فیصد ٹیکس لگا دیا۔ دنیا آن لائن کاروبارز کو سہولت دے رہی ہے ہمارے ہاں اس کاروبار کو تباہ کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کچھ روز قبل ایک عید شو میں شیخ رشید کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں۔ شیخ رشید دراصل اپنی مرحوم والدہ کو یاد کرکے رو رہے تھے مگر سینٹر افنان اللہ خان نے اس کا غلط مطلب نکالا اور کہا کہ شیخ رشید کا انجام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے پاکستان کی سیاست میں بہت گند ڈالا تھا اور اس کے ساتھ یہی ہونا تھا۔ ہر ٹاؤٹ اور پالشیے کا انجام یہی ہوتا ہے اور بھی لوگ عبرت پکڑیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس پر سخت ردعمل دیا اور سینیٹر افنان کو کھری کھری سنادیں، کچھ نے طنز کیا کہ اس وقت سب سے زیادہ ٹاؤٹ اور پالشئے ان کی اپنی جماعت میں ہیں اور وہ انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ عبرت پکڑیں وسیم اعجاز جنجوعہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سینیٹر صاحب وقت کا پہیہ رکا نہیں ہے ۔۔ آج جو مناظر دیکھ کر آپ خوش ہو رہے ہیں کل ویسے ہی مناظر دیکھ کر کوئی اور خوش ہو گا خرم اقبال نے تبصرہ کیا کہ کیا سنگدلی ہے، شیخ رشید اپنی والدہ کو یاد کر کے روئے، اِن کی بے شرمی دیکھیں، کسی کو ماں کی یاد آنے پر روتا دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ انجام دیکھ کر خوش ہونا اور اسی انجام کی طرف گامزن ہونا دو مختلف باتیں ہیں احسن واحد نے کہا کہ اگر دماغ کام کر رہا ہوتا تو شاید انکو پتہ ہوتا کہ شیخ رشید اپنی والدہ کو یاد کر کے روئے ۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپکو عبرت پکڑنے چاہیے شیخ رشید سے ۔۔ جیسے آج آپ نکا مذاق کر رہے ہیں کل آپ بھی اسی رویے کا شکار ہونگے اور پھر بقول آپکے والد کے ۔۔ آپ روئیں گے تو کوئی چپ کروانے والا نہیں ہوگا احمد وڑائچ نے ردعمل دیا کہ شیخ رشید مرحوم والدہ کے ذکر پر جذباتی ہوئے، انسان ہیں ہو جاتے ہیں، پتہ نہیں آپ کے ہاں ماؤں کو لے کر کیا رواج ہے۔ دوسرا لوگوں نے کیا عبرت پکڑنی ہے، ایک شخص جیل میں قید خاتون کی نشست چوری کر کے اسمبلی بیٹھا ہے۔ ٹاؤٹ پن اور پالش کا سبق گھر پڑھائیں زبیر علی خان نے طنز کیا کہ سینیٹر افنان کا اپنی پارٹی کے نام اہم پیغام ارباب حسن نے لکھا کہ اچھی بات ہے کہ سب ٹاؤٹ اور پاليشيے کا يہی انجام ہو - انشااللہ جلد ن ليگ کا بھی يہی حال ہو نا ہے فرحان منہاج نے تبصرہ کیا کہ اسکی مثال وہ کفن چور باپ کی ہے جو بیٹوں کو نصیحت کرکے گیا تھا کہ مجھے لوگ زیادہ برا نہ سمجھیں ۔ اس کے باپ نے بھی یہی نصیحت اسکو کی تھی اور یہ پورا عمل کررہا ہے زیادہ بدزبان اور بداخلاق اور گھٹیا پن دیکھا کر ایک صارف نے کہا کہ یعنی نواز شریف اور شہباز شریف کا حشر بھی ایسا ہی ہو گا عدیل راجہ نے طنز کیا کہ شہباز شریف صاحب کو یہ ٹویٹ ضرور پڑھنا چاہیے! سبی کاظمی نے لکھا کہ اس سے برا انجام تو نواز شریف کے خاندان کا بھی ہوچکا ہے شیخ رشید چاہتا تو 140 بکسے لے کر سعودیہ چلا جاتا لیکن اس نے اسی ملک میں رہ کر مقابلہ کیا ہے۔
گزشتہ دنوں عمران خان نے جیل سے بیان دیا کہ مجھے دو سال پہلے کہا گیا کہ تین سال کے لیے پیچھے ہٹ جاؤں اور موجودہ نظام کو چلنے دوں، لیکن میں کسی یزید کے کہنے پر تین سال تو کیا تین منٹ بھی خاموش نہیں رہوں گا۔۔ اپنے متعدد بیان میں عمران خان نے دہرایا کہ وہ یزید کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ جس پر اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے حامی کافی سیخ پا نظر آئے۔ حال ہی میں تمغہ امتیاز حاصل کرنیوالے اور اسٹیبلشمنٹ کے قریبی سمجھے جونیوالے صحافی عامرلیاس رانا نے کہا کہ عمران خان نے پانچ جون کو اپنی سزا کی معطلی کی کوئی بھی صورت خود ہی کھو دی انہوں نے مزید کہا کہ جن سے براہ راست مذاکرات کی خواہش تھی انہیں یزید وقت ایک بار پھر قرار دے دیا یہ راج نیتی نہیں ہے اب مزید وقت آپ کا وہیں منتظر ہے جہاں آپ موجود ہیں اس پر سوشل میڈیا صارفین نے تبصرہ کیا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی آئین اور قانون نہیں ہے۔ طاقتور جو چاہے کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بیان ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ عمران خان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں اور انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رضی طاہر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحافی نما دلال کہنا چاہ رہا ہے کہ سزا و جزا کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ کسی طاقتور کی منشا و مرضی پر ہوتا ہے۔۔۔ یہی تو یزیدیت ہے جس کاذکر جیل میں قید آزاد انسان کررہا ہے۔ صحافی شاہد اسلم کا کہنا ھا کہ عدالتیں وغیرہ کیا حیثیت رکھتی ہیں پھر عامر صاحب نے بتادیا۔ عمران خان کس جرم میں قید ہے وہ پوری پاکستانی قوم جانتی ہے باقی سب کہانیاں ہیں احتشام راجپوت نے تبصرہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرو گے تو تمہاری سزا معطل نہیں ہوگی،اس کا مطلب ہے پاکستان میں آئین و قانون نہیں ہے بلکہ آمریت ہے۔ شاذب نقوی نے ردعمل دیا کہ وہ جب تک اندر ہے تب تک ہی تم لوگوں کو سکون ہے۔ وہ باہر جب بھی آۓ گا تم لوگوں کا سکون وغیرہ سب چھن جاۓ گا۔ پھر دلالی بھی بےمول ہو جاۓ گی علی حمزہ نے تبصرہ کیا کہ مطلب ججز انصاف اور قانون دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے؟ ٹویٹس دیکھ کر فیصلہ کرینگے تو بند کردو یہ عدالتیں ججز کو گھر بھیج دو انکو مراعات دینا بند کردو قوم کا پیسا ان فضولیات پر نا ضائع کرو سمیع الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ بھی صحافی ہیں کھلم کھلا اقرار کرتے ہیں کہ آئین قانون کوئی چیز نہیں ہے طاقت جو چاہے کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں ثمینہ پاشا نے ردعمل دیا کہ اندازہ لگائیں اس ملک میں قانون کا ، عدالت کا۔۔ کیسز کی حیثیت کا عقیل ملک نے لکھا کہ جعلی مقدمات کا اقرار۔۔۔ عطاء اللہ خان نے جواب دیا کہ مطلب آئین کے مطابق فیصلے نہیں ہونگے بلکہ بادشاہ سلامت کے موڈ اور مرضی کے مطابق عدالتی فیصلے ہونگے سبی کاظمی نے ردعمل دیا کہ عمران خان نواز شریف نہیں ہے۔یزید وقت کہنا بالکل درست ہے۔
آج یوم تکبیر ہے اور آج سے ٹھیک 27 سال پہلے پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا تھا اور پاکستان باقاعدہ ایٹمی طاقت بن گیا۔۔ اس وقت نوازشریف برسراقتدار تھے ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا جس کی سربراہی معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کئی صدور اور وزرائے اعظم آئے مگر پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رہا اور اسکے روح رواں ڈاکٹر عبدالقدیر خان رہے۔ آج حیران کن طور پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویر حکومتی اشتہارات سے غائب تھی جس پر سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں نے حیرت کا اظہار کیا اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سینیٹر مشتاق نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آج یوم تکبیر پر اس سرکاری اشتہار میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کانام اور ان کی تصویر کیوں نہیں ہے؟؟؟کیا اپنے قوم کے محسن ،نیوکلیئر و میزائل ٹیکنالوجی کے بانی کیساتھ کوئی اس طرح کا رویہ رکھتا ہے؟؟کیا حکومت اب بھی امریکی خوف سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کےنام اور تصویر سے دور بھاگتی ہے؟؟ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظرانداز، بدنام کرنے کی پالیسی پرویز مشرف کی پالیسی تھی ،پرویز مشرف آج تاریخ کے کوڑے دان میں نفرت کی علامت ہے، لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج پاکستان اور امت مسلمہ کے ہر فرد کے دل میں محبت و احترام کیساتھ زندہ ہے۔ سینیٹر مشتاق نے سوال اٹھایا کہ کیا شہباز حکومت پرویز مشرف کی پالیسی پر عمل پیرا ہے؟؟؟ قومی خزانے ،عوام کے ٹیکس سے ذاتی تشہیر کے اشتہارات میں اپنی جعلی کارناموں کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن قوم کا حقیقی محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان نظرانداز ہے،محسن پاکستان کے ساتھ حکومت کا یہ رویہ افسوسناک ہے۔ شفاء یوسفزئی نے ردعمل دیا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو ایٹمی دھماکوں کے پیچھے کام کرنے والی اہم ترین شخصیت تھی انکی تصویر آج کے سرکاری اشتہار سے غائب ثمینہ پاشا نے تبصرہ کیا کہ خاک میں مل گئے نگینے لوگ ۔۔۔ حکمران بن گئے کمینے لوگ۔۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم آپ کی احسان مند ہیں۔ موقع کوئی بھی ہو ن لیگ اپنی “عزت افزائی” کا بندو بست کر ہی لیتی ہے ہاشمیات نے سوال کیا کہ اس اشتہار میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کہاں ہیں؟ احمد بوباک کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے سرکاری سطح پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کو مائنس کر دیا ہے۔ یہ وزارت اطلاعات کی طرف سے تمام اخبارات کو اشتہار دیا گیا ہے خرم نے لکھا کہ اشتہارات میں مُحسن پاکستان کو بھول گئے۔۔ سردار مسرور عباسی نے تبصرہ کیا کہ یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ سرکاری اشتہارات میں پاکستان کے عظیم محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ قوم کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے محسن کو فراموش کرنا دراصل پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کی شان تھے، ہیں اور رہیں گے لطیف شاہ نے کہا کہ اربوں روپے کے اشتہارات میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو جگہ نہ ملی۔ ثاقب بشیر نے ردعمل دیا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان مرحوم کی تصویر لازم تھی پتہ نہیں کس سیانے کے مشورے سے موجود نہیں
گزشتہ دنوں عمران خان نے بیاد یا کہ جس مُلک میں جنگل کا قانون ہو اُس مُلک میں فیلڈ مارشل نہیں بادشاہ کا خطاب دینا چاہیے کیونکہ جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔ اس پر اسٹیبلشمنٹ کے حامی کئی صحافی اور سیاستدان سیخ پا ہوگئے اور کہا کہ عمران خان کو اب اس بیان پر کوئی معافی نہیں ملے گی،اگر اسٹیبلشمنٹ نے کوئی ریلیف دینا بھی ہوا تو وہ بھی نہیں دیں گے۔ ایک سوال پر سینیٹر فیصل ووڈا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو بتا دیا جائے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر بادشاہ ہی ہیں، اور بادشاہت کی قید میں زندان بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ فیصل واوڈا کے اس بیان کو سوشل میڈیا صارفین نے غرور اور تکبر قرار دیا اور کہا کہ کئی تاج، کئی تخت، وقت کی ٹھوکر بنے… انہوں نے مزید کہا کہ سدا بادشاہی رب کی ہے، انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔ فرعون، نمرود، اور ان جیسے ہزاروں مٹی تلے دفن ہو گئے۔ سحرش منیر نے سورہ مائدہ کا حوالہ دیا کہ اللہ تعالٰی سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے ۔سورہ المومنون اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔ زبیر علی خان نے ردعمل دیا کہ تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا ۔۔ اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا ام یحیٰ نے تبصرہ کیا کہ کئی تاج، کئی تخت، وقت کی ٹھوکر بنے… فرعون، نمرود، اور ان جیسے ہزاروں مٹی تلے دفن ہو گئے۔ سدا بادشاہی صرف اُس رب کی ہے جو نہ سوتا ہے، نہ ہارتا ہے۔ اپنے " بادشا" کو یہ بھی بتا دو قید خانہ ہو یا محل… جسے اللہ پر یقین ہو، وہ ہر حال میں غالب ہے۔ اور یاد رکھو عزت وہی جو رب دے، تعریف وہی جو خلقِ خدا کرے ظلم کے دن گنے جا چکے ہیں۔انشاء اللہ عمر نے کہا کہ جب بادشاہ ہوگا درباری تو ہوں گے ۔۔ محمود کا کہنا تھا کہ بادشاہی صرف اللہ کی ہے باقی سب خاک ہے۔ سبی کاظمی نے تبصرہ کیا کہ بادشاہت خاندانی ہوتی ہے فیصل واپڈا کو یہ نہیں پتہ شاہد۔ نوکری کبھی بادشاہت نہیں ہوتی۔ یا دلوں کا بادشاہ عوامی لیڈر ہوتا ہے اور سب سے بڑا بادشاہ الله ہے جس کی قید قبر بھی ہے وہ بھی یاد رکھیں جہاں بڑے بڑے بادشاہوں کی بادشاہی نکل جاتی ہے۔ غضنفر اقبال نے فیصل واوڈا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم بہت گھاٹے میں ہو تکبر اللہ کو پسند نہیں عنقریب تم کو پہچان ہو جائے گئ اس لئے رب سے ڈرو اور معافی کی طلب کرو ورنہ خدا کو خدائی دعوے بلکل پسند نہیں حسین نے کہا کہ فرعون و نمرود کا بھی یہی کہنا تھا مبشر حسین نے تبصرہ کیا کہ قبرستان بھرے پڑے ہیں بڑے بڑے جھوٹے خداوں سے، فرعونوں سے، نمرودوں سے، اکڑ کے چلنے والے سہارے کے ساتھ بھی نہیں چل سکے ۔ دنیاوی طاقت نے تمہیں خدا بھولا دیا ہے لیکن یاد رکھو اس کی پکڑ بہت سخت ہے
گزشتہ روز نجم سیٹھی نے ایک خبر دی کہ عمران خان سے بات چیت شروع ہوگئی ہے، تحریک انصاف کیلئے اچھی خبریں آئیں گی، جون تک عمران خان کی رہائی کا امکان، عید سے پہلے بڑے رہنما رہا ہوں گے، انہوں نے مزید کہا کہ 6 مئی کو عمران خان کے ساتھ جیل میں ہونے والی ملاقات کے بعد ٹویٹر کھولا گیا۔ عمران خان کو باقاعدہ ایسے بریفنگ دی گئی جیسے کسی وزیراعظم کو دیتے ہیں۔ ان خبروں کو پی ٹی آئی سپورٹرز اور بعض صحافیوں نے ٹرک کی بتی قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی پر فرد جرم کی تاریخ مقرر ہونے اور علیمہ خان کی درخواست مسترد ہونے سے پتہ چل گیا کہ کونسی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی تحریک انصاف احتجاج کی کال دینے کا پلان بناتی ہے تو مذاکرات کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ہم یہ پچھلے سال سے سن رہے ہیں کہ عمران خان یہ عید گھر پر گزاریں گے، کئی عیدیں گزر گئیں اور ایک بار پھر لالی پاپ دیا جارہا ہے کہ عمران خان گھر پر عید گزاریں گے۔ فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ علیمہ خان کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہے۔ انہوں نے نمل یونیورسٹی کے فنڈ ریزنگ پروگرام میں برطانیہ جانا تھا اُس کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی لیکن اِس کے باوجود یہاں کچھ بیوقوفوں کو "ٹھنڈی ہوائیں" چلتی نظر آ رہی ہیں اور وہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ عمران خان عید پر گھر ہو گا۔ شہر بانو نے طنز کیا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا جس نے ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگایا ہو حیدر سعید نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ جب بھی ہماری کوئی تحریک چلنے لگتی ہے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے ہمیں دوبارہ سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا ہے جب تو خان صاحب خود باہر نکل کر "میرے پاکستانیوں" نہیں بول دیتے ہم نے کسی کی بات پہ یقین نہیں کرنا یہ ہماری تک تحریک کو ناکام کرنے کی سازش ہے پہلے بھی اسی طرح ہماری تحریکوں کو ناکام کیا گیا ہے مقدس فاروق اعوان کا کہنا تھا کہ سنا ہے 24 مئی کو 9 مئی کے ملزمان پر فرد جرم عائد ہونے والی ہے ٹرک کی بتی کدھر ہے؟ پیچھے لگنا ہے عمران ریاض نے کہا کہ جیسے ہی عوامی تحریک کی بات ہوتی ہے تو اسی وقت میڈیا ہاوسز سے مذاکرات کی خبریں چلوا دی جاتی ہیں لیکن اب قوم سمجھ چکی ہے کہ مذاکرات صرف ٹرک کی بتی ہے۔ عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی احمد خان نیازی نے تبصرہ کیا کہ ٹاوٹ میڈیا اور لیڈرشپ سب جھوٹ بول رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ ڈیل مانگ رہی ہے جبکہ عمران خان اپنے لیے صاف شفاف ٹرائل اور تازہ الیکشن اس سے دوسری بات کوئی نہیں ہے۔ اِس میں پتا نہیں کیا مذاکرات ہیں جوپچھلے دو سال سے ختم نہیں ہو رہے۔ انہوں نے مزید کہا ک سیدھی سادھی بات ہے کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں۔ یہ ہم کب سے سُن رہے ہیں خان عید سے پہلے آ رہا ہے خان عید کے بعد آ رہا ہے خان رمضان سے پہلے آ رہا ہے خان حج پر آ رہا ہے۔ یاد رکھیں جب جب پی ٹی آئی کے ورکرز اور عوام احتجاج کی تیاری کرتے ہیں تو یہ ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے۔ احمد نیازی کا کہنا تھا کہ ایک بات یاد رکھیں عمران خان پُر امن احتجاج سے ہی نکلے گا ورنہ یہی ڈرامہ لگا رہے گا اور عوام بیوقوف بنتی رہے گی۔ تحریک کی سب پلاننگ ہو گئی ہے کچھ دن میں عوام سڑکوں پر ہو گی عمران خان کی رہائ کے لیے۔ سب تیار ہو جائیں۔ شفیع یاسین زئی نے لکھا کہ علیمہ خان نے کلیئر اور واضح کہہ دیا ہے کہ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہا مذاکرات کا چورن اب نہیں بکے گا! سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ علیمہ خان کی راولپنڈی کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ اور فنڈ ریزنگ کے لیے بیرون ملک جانے کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے اور کچھ نادان کہتے ہیں پی ٹی آئی کے لیے ٹھنڈی ہوائیں چلنے والی ہیں وصی کا کہنا تھا کہ قوم کو پھر سے ٹھنڈی ہواؤں کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔۔۔ لیکن ٹھنڈی ہوائیں تب ہی آئیں گی جب پوری قوم اپنے لیڈر کیلئے باہر نکلے گی۔۔۔ ایک صارف نے لکھا کہ ٹھنڈی ہوائیں اور مذاکرات = نئی پھٹیچر پیکنگ میں پرانا چورن بس فری ریفریشمنٹ کے ساتھ
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں انہیں ٹک ٹاکر اور حکیم شہزاد لوہا پاڑ کو ایوارڈ دیتے دیکھا جا سکتا ہے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے پاکستان سویٹ ہوم اسلام آباد میں منعقدہ ’سوشل میڈیا چینج میکرز ایوارڈز‘ کی تقریب میں بحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ تقریب میں پاکستان سویٹ ہوم کے بانی زمرد خان، سوشل میڈیا انفلونسرز، یتیم بچوں سمیت پاکستان کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان سوشل میڈیا اسٹارز نے شرکت کی۔ گورنر خیبر پختونخوا نے تقریب میں نوجوان وی لاگرز اور سوشل میڈیا انفلونسرز میں پاکستان سویٹ ہوم کی جانب سے ایوارڈ تقسیم کیے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس پر خوب تنقید کی اور کہا کہ اسکی ایسی کونسی اچیومنٹ ہے جس پر ایوارڈ دیا جارہا ہے؟ کسی نے طنز کیا کہ لگتا ہے کہ کشتہ کام کرگیا۔ بشارت راجہ نے سوال کیا کہ حکیم شہزاد لوہا پاڑ کو ایوارڈ سے نوازا گیا مگر یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ لوہا پاڑ کو ایوارڈ کس صلے میں دیا گیا؟ خواجہ عثمانئ نے تبصرہ کیا کہ حکیم شہزاد انتہائی گھٹیا غلیظ بدزبان ٹک ٹاکر ہے،۔گورنر خیبر پختونخوا نے حکیم شہزاد لوہا پاڑ کو کن خدمات کے اعتراف میں میڈل پہنایا؟ فحاشی پھیلانے کے اعتراف میں؟ کوئی حال نہیں جب بندر کے ہاتھ ماچس لگ جائے تو پھر یہی سب دیکھنے کو ملتا ہے۔ شہروز نے طنز کیا کہ لگدا دوائی کم کر گئی اے ۔گورنر خیبر پختون خواہ فیصل کریم کنڈی اعلیٰ خدمات پر حکیم شہزاد لوہا پاڑ کو کامیابی کے جھنڈے گاڑنے پر میڈل ســـے نواز رہـــے ہيـــــــں زاہدہ راؤ نے حکیم شہزاد کو ایوارڈ دینے پر اسے مسخرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے حکیم شہزاد لوہا پاڑ کو میڈل سے نواز ایسے مسخروں کو کس بات پر نوازا جا رہا ہے وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ جے ایف 17 تھنڈر کا لوہا حکیم لوہا پاڑ سے پاس ہوکر فیکٹری میں گیا تھا حکیم لوہا پاڑ کی انہی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مظہر عباس نے لکھا کہ یقیناً "حکیم لوہا پاڑ" کا نسخہ کامیاب قرار پایا ہو گا تبھی تو گولڈ. یڈل سے نوازا گیا ہے... ورنہ ایسے اعزازات بلاوجہ تھوڑی نہ دئیے جاتے ہیں.. فیاض شاہ کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی ٹک ٹاکر بیوہ دانیہ شاہ سے شادی کرنے کے علاوہ اِس حکیم شہزاد لوہا پاڑ نے کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جو پختونخوا کا گورنر فیصل کریم کنڈی اس کو میڈل دے رہا؟
عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان کا انٹرویو کرنیوالے صحافی ماریو نوفل کا کہنا تھا کہ چوبیس گھنٹوں میں 2 کروڑ ویوز: دنیا دیکھ رہی ہے | پاکستان جواب دے رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک دن میں، میرا انٹرویو قاسم اور سلیمان کے ساتھ — جو ان کا اپنے قید والد وزیرِاعظم عمران خان کے بارے میں پہلا انٹرویو تھا — ایکس پر 2 کروڑ سے زائد بار دیکھا گیا (جس میں کلپس اور لائیو اسٹریم شامل ہیں)۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر اس کا فوری اثر ہوا: سیکڑوں مضامین، قومی ٹی وی پر کوریج، اور شعور کی ایک ایسی لہر جو نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ ماریو نوفل کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انٹرویو کے نشر ہونے کے چند گھنٹوں بعد، پاکستانی ہائی کورٹ نے پہلی بار عمران خان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست سننے پر رضامندی ظاہر کی۔ ماریو نے مزید کہا کہ میں پاکستانی حکومت اور دنیا کی تمام حکومتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سیاست سے بالاتر ہو کر آزادی اظہار اور جمہوریت کو ترجیح دیں۔ دوسری جانب ایکس اینالسٹ عاشر باجوہ نے عمران خان کے بیٹوں کے انٹرویو کے اعدادوشمار کا تفصیلی تجزیہ کیا، اور بتایا کہ یہ انٹرویو کس کس نے شئیر کیا اور کتنے ویوز ملے؟ عاشر باجوہ نے کہا کہ مختلف اکاؤنٹس میں صرف 45 کے قریب ایکس پوسٹس میں اس انٹرویو کے ویوز 2 کروڑ سے زیادہ ہو چکے ، صرف ماریو کی کی گئی کل کی پوسٹس کے ویوز ڈیڑھ کروڑ ویوز ہیں۔
گزشتہ روز تحریک انصاف کی رہنما کنول شوذب کا ایک کلپ وائرل ہوا تھا جس میں انہوں نے علیمہ خان پر تنقید کی علیمہ خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہماری فیملی ہے، بہت افسوس ہوا جب علیمہ خان نے کہا کہ کون گوہر؟ اگر آپ کی تنظیم کے عہدوں کی عزت نہیں ہو گی تو کون کرے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ بیرسٹر گوہر کو منشی کہتے ہیں، میں تو علیمہ خان سے لڑوں گی، یا تو آپ اناؤنس کریں کہ سیاست میں آ گئی ہیں، آپ خان صاحب کی فیملی ہیں تو پارٹی کو برباد مت کریں، کنول شوزب نے علیمہ خان کے خلاف میدان میں بعد ازاں کنول شوذب پر پی ٹی آئی حلقوں کی جانب سے تنقید ہوئی تو کنول شوذب کو وضاحت دینا پڑی اور اپنا کلپ سیاق وسباق سے ہٹ کر قرار دیدیا ان کا کہناتھا کہ یہ وومن ونگ کی انٹرنل میٹنگ سے ریکارڈ کیا گیا سیاق و سباق سے ہٹ کر کلپ ہے جسے جان بوجھ کر اس وقت لیک کیا گیاہے۔ علیمہ آپا ہماری بڑی ہیں اور کسی بات پر اگر ہمیں اختلاف ہو تو ہم ان سے اپنا اظہار کھل کر کرتے ہیں ہم جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں ڈکٹیٹرشپ کی نہیں کلپ شئیر کرنیوالے کو مخاطب کرتے ہوئے کنول شوذب نے کہا کہ آپکو گالیاں دینے کی آزادی ہے تو ہمیں اپنی جائز بات کہنے کی پوری آزادی ہے پارٹی میں انہوں نے مزید کہا کہ اختلاف خان صاحب سے بھی ہو تو ان سے کھل کر اظہار کرتے ہیں اور وہ اس کو تحمل سے سنتے ہیں اور اسکا تدارک کرتےںہیں۔ اگر علیمہ آپا کی بات کو اٹھا کر غلط کوٹ کرکے کوئ بھی ایرے غیرے پارٹی کے عہدیداران کو گالیاں دیں گے تو ہمارا حق ہے کہ ہم آپس میں گلہ کریں کہ ایسا موقع کسی کو نہ دیں۔ کنول شوذب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئ کو ہم نے خون سے سینچا ہےاور اسکا دفاع اسکا ڈسپلن چلانا ہمارے لیڈر کا حکم ہے۔ جس پر پارٹی عہدیدار عمل کررہے ہیں کرتے رہیں گے۔ لہزا اس پر گالی گلوچ کرکے اور غداری کے فتویٰ دے کر ٹائم ضائع کرنے کی بجائے خان صاحب کی رہائ کے لئے مہم چلائیں شاباش مزید ٹوئیٹ کریں ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر مسلم لیگ کے صدر نواز شریف نے پیغام جاری کیا ہے۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر نواز شریف نے کہا کہ اللّہ ربّ العزت کا شکر ہے کہ اس نے پاکستان کو سر بلند کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر، چیف آف ائیر سٹاف ائیر چیف مارشل ظہیر سندھو اور افواجِ پاکستان کو شاباش اور مبارکباد دیتا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور امن کو ترجیح دیتا ہے مگر اپنا دفاع کرنا بھی جانتا ہے۔ نوازشریف کے اس بیان پر سوشل میڈیاصارفین نے خوب طنز کئے اور کہا کہ جو شخص مودی کے خلاف نہ بول سکا، اس نے آج چپ کا روزہ توڑا تو تب بھی مودی کا نام نہ لیا۔ کسی نے کہا کہ جو مکا لڑائی کے بعد یا آجائے اسے اپنے منہ پر مارلینا چاہئے تو کسی نے کہا کہ اس سے بہتر تھا کہ چپ ہی رہتے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ نہ کسی شہید کو خراج تحسین نہ کسی غازی کو سلام اور نہ ہی مودی کی مذمت ۔۔۔ کیا بدقسمتی ہے ۔ اس سے بہتر تھا موصوف چپ ہی رہتے۔ جو فوجی جوانوں اور معصوم پاکستانیوں کے قاتل کے بارے لب کشائی نہ کرسکے جو قرآن و مساجد شہید کرنے والے دشمن کے بارے لب کشائی نہ کرسکے ایسے شخص کے کردار پر تھو فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا شکریہ ایک تو جنگ بندی کرا دی دوسرا قائد کے چپ کے روزے کی روزہ کشائ کرا دی؛) مودی کی محبت میں شریف نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ اویس منگل والا نے طنز کیا کہ ارے مبارک ہو. جناب نے بھی آخرکار ٹویٹ کردیا. حضور والا شکر ہے کہ آپ کچھ بولے اور ہمارا انتظار ختم ہوا. ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ اب سیز فائر ہوتے ہی نواز شریف صاحب بھی ہوش میں آ گئے ہیں اور ابھی بھی مودی کا نام نہیں لیا جا رہا میاں صاحب سے۔ جب ملک کو حوصلہ دینے کی ضرورت تھی، اس وقت نواز شریف کیوں نہ بولنے کی جرات کر سکے؟ شہربانو نے لکھا کہ مبارک ہو سبجیکٹ کو ہوش آگیا اور مودی کی مزممت بھی نہیں کرنی پڑی صابر شاکر کا کہنا تھا کہ مودی کے بھائی کو صرف امید نہیں تھی بلکہ یقین تھا کہ مودی جیتے گا اور فوج کو بھی لمبے عرصے تک مصروف رکھے گا لیکن پاکستان کے شاہینوں نے سارا پروگرام واڑدیا محمد حسین زمان نے تبصرہ کیا کہ مسلہ یہ ہے کہ اگر آج یہاں پی ٹی آئی کی حکومت تو عمران خان ایسی ٹویٹ کرتے تو ہمارے مُلک کی سیاسی پارٹیاں اور یہاں کے صحافی اُسے پتہ نہیں کیا ڈرپوک اور غدار ڈیکلئیر کر چُکے ہوتے آج میاں صاحب کی اس ٹویٹ پر کیا کہیں گے ؟ حافظ فرحت عباس نے ردعمل دیا کہ جو مکا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پے ہی مار لینا چاہیے ! اتنے دن بعد بھی زحمت نہیں کرنی تھی ۔ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے خرم اقبال نے طنز کیا کہ نوازشریف نے آج سُکھ کا سانس لیا۔۔!! طارق متین نے لکھا کہ بھارت ، بھارت کی دہشت گردی اور میڈ ڈاگ مودی کے خلاف باؤ جی ایک لفظ نہ بول سکے۔ بیرسٹر ابوذرسلمان نیازی نے لکھا کہ یہ بتانا بھول گئے کہ پاکستان کس کے خلاف لڑ رہا تھا؟پاکستان پر حملہ کس نے کیا؟ معصوم شہریوں کو کس نے مارا؟ بچوں کو کس نے مارا؟ مساجد کو کس نے تباہ کیا؟ اور سب سے اہم گجرات کے قصاب کا نام بھول گئے جس نے پاکستان پر حملے کا حکم دیا تھا۔ وقار ملک نے تبصرہ کیا کہ شریف خاندان بہت شاطر ہے کبھی عالمی طاقتوں کو ناراض نہیں کرتا 2019 میں عمران خان نے مودی کیخلاف سخت ترین سٹینڈ لیا تو ہی عالمی طاقتوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب اسکی حکومت قبول نہیں شریف خاندان ان سب معاملات میں بہت گھاک ہے وہ جانتا ہے حکومت عوام سے نہیں طاقتور کی خوشنودی سے ملتی ہے فہیم اختر کا کہنا تھا کہ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے پر جڑ دینا چاہیے۔۔۔ فارسی کہاوت کا اردو ترجمہ
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو درست قرار دے دیا جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ سپر یم کورٹ نے حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کر لیں۔ حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں 2-5 کے تناسب سے منظور ہوئیں، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کالعدم قرار دی گئیں شقیں بحال کردیں۔ عدیل راجہ نے ردعمل دیا کہ آج کے دن یہ فیصلہ جاری کرنا اس قوم کو توڑنے کے متراف ہے!! امین الدین نے آج یہ کام کیا ہے! پی ٹی آئی رہنما عرفان سلیم نے تبصرہ کیا کہ سویلین کا ملٹری ٹرائل منظور کر کے ریاست نے اپنی ترجیحات کا اظہار کر دیا۔ترجیح پاکستان تحریک انصاف کو فکس کرنا ہے ہندوستان کو نہیں۔ وقار ملک کا کہنا تھا کہ بہت ہی خطرناک فیصلہ ایک ایسے وقت کا سوچ سمجھ کے انتخاب کیا گیا جس دن فوج پہ تنقید حرام قرار دی جارہی ہے سویلین کا ملٹری ٹرائل جائز قرار دے دیا گیا تباہ کن فیصلہ قومی یکجہتی واڑ کے رکھ دی گئی! فرحان منہاج نے لکھا کہ ایک حملہ بھارت نے کیا اور دوسرا حملہ سویلین پر سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کردیا صحافی عمران ریاض نے تبصرہ کیا کہ یہ فیصلہ نہیں ظلم ہے۔ پوری مہذب دنیا میں کہیں بھی سویلینز کا فوجی ٹرائل نہیں ہوتا۔ پہلے 9 مئی کے بہانے ایک سیاسی جماعت اور اسکی لیڈرشپ کو کچلا گیا اور اب اس مکروہ اور انسانیت سوز عمل کو عدالتی تحفظ بھی دے دیا گیا۔ شرم آنی چاہیئے شاکر محمود اعوان کا کہنا تھا کہ دوبارہ ٹوئیٹر پر پابندی لگادیں اچھا ہے نہیں تو یکجہتی پوری دنیا دیکھے گی انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کا فیصلہ۔۔۔دشمن سے بعد میں نمٹ لیں گے پہلے پی ٹی آئی سے نمٹ لیا جائے۔۔ نجم الحسن باجوہ نے لکھا کہ ریاست نے بھارت کی بجائے عمران خان سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ملٹری کورٹس فیصلہ علی ملک نے ردعمل دیا کہ انڈیا کے کل رات والے حملے سے بڑا حملہ اس وقت سپریم کورٹ نے پاکستان پر کر دیا ہے، اس حملے کا تو مقابلہ کر لیا جائے گا لیکن سپریم کورٹ کے حملے میں ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ نہ کچھ سیکھنا اور نہ ہی انہوں نے سدھرنا ہے وسیم ملک نے تبصرہ کیا کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتیں بحال کرتے ہوئے سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دے دی، اور یہ فیصلہ اس دن ہوا جب ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ ایک 9 مئی ہوا تھا وہ بھی بڑا unfortunate واقعہ تھا نہیں ہونا چاہیے تھا اور ایک آج سپریم کورٹ نے 7 مئی کر دیا ہے یہ بھی بنتا نہیں تھا جو کر دیا گیا تاریخ ہمیشہ کے لئے یاد رکھے گی

Back
Top