سوشل میڈیا کی خبریں

اسلام آباد: پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے صدر پروفیسر رضوان تاج نے منگل کو انکشاف کیا کہ 1,061 پاکستانی ڈاکٹرز نے امریکہ میں رزیڈنسی پوزیشنز حاصل کی ہیں جو ایک سال میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، علامہ اقبال میڈیکل کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج، شفا کالج آف میڈیسن، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی (جے ایس ایم یو) اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز نے سب سے زیادہ رزیڈنسی پوزیشنز حاصل کی ہیں۔ پروفیسر تاج نے کہا کہ "ڈاکٹرز کی یہ شاندار کارکردگی پی ایم ڈی سی کے معیارات کی عکاس ہے، جس نے ملک میں میڈیکل ایجوکیشن کے مضبوط نصاب اور تربیتی پروگراموں کو یقینی بنایا ہے۔" انہوں نے ڈاکٹرز میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اسے ایک "تبدیلی کے سفر کا آغاز" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "چیک اینڈ بیلنس کے سخت نظام کے ذریعے پی ایم ڈی سی نے پاکستانی میڈیکل و ڈینٹل کالجز کو بہتر نصاب اور تربیتی پروگرام مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔" انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں رزیڈنسی کا عمل انتہائی مقابلے پر مبنی ہوتا ہے، جس میں امیدواروں کو غیر معمولی تعلیمی کارکردگی، یو ایس میڈیکل لائسنسنگ امتحان (یو ایس ایم ایل ای) پاس کرنے اور انٹرویوز سمیت تفصیلی دستاویزات جمع کروانے کے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ صرف انتہائی محنتی اور مستقل مزاج امیدوار ہی اس چیلنجنگ انتخاب میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔** پروفیسر تاج نے کہا کہ یہ کامیابی پی ایم ڈی سی کے ویژن کو مزید تقویت دے گی، جس کا مقصد عالمی معیارات کے مطابق مستقبل کے ہیلتھ کیئر پروفیشنلز تیار کرنا ہے۔ اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے اس پر تبصرہ کیا کہ ایک ہزار قابل پاکستانی امریکہ میں مستقل رہائشی ہو گئے اور ہمارے ادارے اس کو اپنی کامیابی تصور کر رہے ہیں!! کیا کوئی اس خبر کی تصدیق کرے گا اور بتائے گا کہ گذشتہ 3 سالوں سے کتنے پاکستانیوں نے سکونت ختم کر لی یا موجودہ حکومتوں کی کارکردگی اور برے حالات کی وجہ سے منتقل ہوئے؟؟ محمد عمیر نے تبصرہ کیا کہ ایک اور ریکارڈ۔۔صرف امریکہ میں ایک سال میں ایک ہزار سے زائد پاکستانی ڈاکٹرز کو ریزیڈنسی ملی۔ پی ایم ڈی سی برین ڈین کے اس پر عمل حیران و پریشان ہونے کی بجائے خوشی کا اظہار کررہا ہے۔ منیب نے کہا کہ کہاوت ہے کہ ایک بے شرم آدمی کی پیٹھ پر درخت اُگ آیا- وہ شرمندہ ہونے کی بجائے کہتا تھا کہ اب میں ہمیشہ چھاؤں میں بیٹھوں گا۔ صرف امریکہ میں ایک سال میں ایک ہزار سے زائد پاکستانی ڈاکٹرز کو ریزیڈنسی ملی۔ پی ایم ڈی سی برین ڈین کے اس عمل پر حیران و پریشان ہونے کی بجائے خوشی کا اظہار
سابق نگران وزیراطلاعات کی بشریٰ بی بی سے متعلق گھٹیا گفتگو پر شدید ردعمل۔۔ مرتضی سولنگی اپنے پیغام میں بشریٰ بی بی کا نام بگاڑتے رہے اور عمران خان کو اوباش خان کہہ کر بلاتے رہے اپنے پیغام میں مرتضی سولنگی نے کہا کہ پنکی پیرنی نامی اوباش، بدعنوان اور سزا یافتہ مجرم خاتون اس بنیاد پر اپنے لیے بہتر سہولتیں مانگ رہی ہے کہ کیونکہ اس نے ایک اور اوباش، بدعنوان اور سزا یافتہ مجرم المعروف اڈیالہ کے اُلو سے عدت میں شادی کی تھی اس لیے اسے بھی اسی طرح کی سہولتیں دی جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر برابری چاہتی ہیں تو ایک فارمولا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اوباش خان سے اضافی سہولیات واپس لیکر پنکی پیرنی کے برابر کر دی جائیں۔اس کی زبان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنا گھٹیا ہے اور اسکے والدین نے اسکی تربیت کیسی کی ہے۔ سابق نگران وزیراطلاعات کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں نے شدید ردعمل دیا، ان کا کہنا تھا کہ خود کو لبرل اور روشن خیال کہنے والے کی گفتگو گٹر سے بھی زیادہ بدبودار ہے، فرحان منہاج نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سابق نگران وزیر اطلاعات اسکی زبان اور کردار اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی مکمل ترجمانی ہے؟ زبیر علی خان نے کہا کہ یہ پاکستانی لبرلز اور روشن خیال کہلائے جانے والوں کا ایک نمائندہ ہے، اس کی گفتگو گٹر سے بھی زیادہ بدبودار ہے سہراب برکت نے مرتضیٰ سولنگی کو سٹھیایا ہوا بڈھا قرار دیا احمد جنجوعہ نے تبصرہ کیا کہ یہ بات وہ شخص بول رہا ہے جو امریکہ میں اپنی کینسر سے مرتی بیوی چھوڑ کر پاکستان آگیا ، جس نے ایک سرکاری افسر خاتون سے شادی کر لی اور اپنی بیمار بیوی کو امریکہ میں بتایا بھی نہیں ۔ جسکے اپنے لئے آصف زرداری کی بدولت ملی سرکاری نوکری ، پروٹوکول بیمار بیوی سے زیادہ اہم تھا ۔ امجد خان کا کہنا تھا کہ مرتضی سولنگی سے زیادہ گھٹیا شخص کوئی ہے پاکستان میں ؟؟ شاہد اسلم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ گھٹیا کردار جس طرح کی زبان استعمال کرتا ہے دوسری خواتین کے متعلق اگر پی ٹی آئی والے استعمال کریں تو فورا انسانی حقوق، خواتین کے حقوق کا پرچار کرنے والے دانشور اور صحافی میدان میں کود پڑتے ہیں لیکن اسے اس گھٹیا پن پہ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ایسے لوگوں کو سر عام چھتر مارنے چاہیں۔ شہبازگل نے ردعمل دیا کہ کاش آپکی تربیت اچھی کی ہوتی۔ کچھ تو حیا کرتے بے غیرت آدمی ایک عورت کے بارے یہ بات کرتے۔ خرم ااقبال کا کہنا تھا کہ کہنے کو سینئر صحافی، سابق نگران وزیر اطلاعات اور زبان محلے کے کسی اوباش جیسی، افسوس ہے ایسی صحافت پر کہ اخلاقیات کی دھجیاں اُڑا دیں
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ہیومن رائٹس سیل کے صدر اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کے خلاف مبینہ "کرپشن، ٹیکس چوری اور غیر قانونی اثاثہ جات بنانے" کے الزامات پر انکوائری شروع کر دی ہے۔ ذرائع نے روزنامہ ڈان کو بتایا کہ فرحت اللہ بابر پہلے ہی عید کی تعطیلات سے ایک دن قبل ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سیل اسلام آباد میں پیش ہو چکے ہیں تاکہ ایف آئی اے کی طرف سے جاری کردہ نوٹس کا جواب دے سکیں، جو راولپنڈی کے مورگاہ علاقے کے ایک عام شہری کی شکایت پر جاری کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے نے فرحت اللہ بابر سے کہا ہے کہ وہ عید کے بعد اپنی آمدنی اور اثاثوں سے متعلق کچھ دستاویزات پیش کریں۔ جواباً فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں شکایت کی کاپی، ایف بی آر کے نوٹسز، ٹیکس ریٹرنز، اثاثہ جات کی تفصیلات اور دیگر متعلقہ دستاویزات فراہم کی جائیں، جن کی بنیاد پر ان کے خلاف انکوائری شروع کی گئی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وہ 2013 کے بعد سے کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے، جب وہ صدر آصف علی زرداری کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ رابطہ کرنے پر فرحت اللہ بابر نے ایف آئی اے کے نوٹس موصول ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ قانونی طریقے سے اس کا جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا: "واقعات کی ترتیب اور ٹائمنگ، اور ایک نجی شکایت کی بنیاد پر اچانک انکوائری شروع کرنا انتہائی حیران کن ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا: "مجھے بالکل علم نہیں کہ اس کے پیچھے کون ہے، لیکن میں اسے شک کا فائدہ دوں گا۔" فرحت اللہ بابر کے مطابق، ایف بی آر نے انہیں 21 مارچ کو نوٹس جاری کیا تھا، اور اس سے پہلے کہ انہیں یہ نوٹس ملتا، 23 مارچ کو راولپنڈی کے ایک نجی شہری نے ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل میں شکایت درج کروائی، جس میں ان کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات لگائے گئے۔ ایف آئی اے نے یہ شکایت منظور کرتے ہوئے 25 مارچ کو فرحت اللہ بابر کو نوٹس جاری کیا کہ وہ 28 مارچ کو ان کے سامنے پیش ہوں، جو کہ عید کی تعطیلات سے ایک دن پہلے کی تاریخ تھی۔ اس پر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ باخُدا یہ پیپلز پارٹی کو ہو کیا گیا ہے؟ ایک ایسا شخص جِس کی ساری زندگی ہمارے سامنے ہے۔ بے داغ، خودار اور سچا آدمی۔اُس کے ساتھ عمر کے اِس حصہ میں یہ سلوک؟فرحت اللہ بابر کو ایف آئی اے کی جانب سے کرپشن کا نوٹس انتہائی قابلِ مذمت اور پریشان کُن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اور نوٹس اُس محکمہ سے جِس کی سربراہی محسن نقوی کے پاس ہے جو زرداری صاحب کی آنکھ کا تارا ہے؟ ڈوب مرنے کا مقام ہے پیپلز پارٹی کے لئیے۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ بات اگر یہاں تک آگئی ہےکہ فرحت اللہ بابر صاحب جیسے دیانت دارشخص پرعام شہری کے نام پرکرپشن الزام لگایا جائےتوپھر آگے کیا ہو گااس کااندازہ لگایاجاسکتاہے جنید نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فرحت اللہ بابر صاحب اپنی سیاست سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں جس سے کچھ لوگوں کو مرچیں لگی ہیں اور وہ ان کے خلاف روایتی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ حافظ اور شریف کمپنی کو شرم آنی چاہیے۔ محسن حجازی نے ردعمل دیا کہ طاقت ور سیاستدان عام آدمی پر تو مٹی ڈالیں، فرحت اللہ بابر کے کیس کا طاقتور صدر صاحب اور طاقتور وزیراعظم صاحب اور پاکستان میں تو طاقتور ڈپٹی وزیراعظم بھی ہیں، یہ مل کر پتہ لگوا لیں کہ فرحت اللہ بابر پر کیس کون ڈال کر چلا گیا۔
لاہور پولیس نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے دو مختلف مقامات پر چھاپے مار کر درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا۔ لاہور پولیس کے مطابق غالب مارکیٹ پولیس نے ایک نجی ہوٹل میں جاری ڈانس پارٹی پر چھاپہ مارا، جہاں فحش گانوں پر رقص اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف 20 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ کارروائی کے دوران پولیس نے موقع سے 4 بوتلیں شراب اور ساؤنڈ سسٹم بھی برآمد کرلیا۔ گرفتار افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب تھانہ مصطفیٰ آباد پولیس نے ڈی ایس پی صدر افضل ڈوگر کی سربراہی میں ایک فارم ہاؤس پر کارروائی کی۔ فارم ہاؤس میں جاری ڈانس پارٹی کے دوران 30 مرد اور 25 خواتین کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزمان نشے کی حالت میں بلند آواز میں موسیقی پر رقص کر رہے تھے۔ پولیس چھاپے کے دوران گرفتار نوجوانوں اور لڑکیوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر پھیلادی گئیں جس پر سوشل میڈیا صارفین خوب تنقید کررہے ہیں۔ عائشہ بھٹہ کا کہنا تھا کہ س قانون کے تحت ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی گئی ہے؟شریفوں اور زرداروں کے بچوں کو عیاشی کے لیے تمام سہولیات اور پرائیویسی میسر ہے، وہی کام عوام کرےتو اس کے حصے میں ذلت آتی ہے۔ان نوجوانوں کو وارننگ دے کرچھوڑا جا سکتا تھا لیکن ان کو ذلیل کرنا مقصود تھا احمد نے لکھا کہ مسلم لیگ ن ہمیشہ ضیاء الحق کی پیروکار رہے گی۔ وہ انتہا پسندوں کو نہیں روک سکتے لیکن انہیں پنجاب میں پارٹی کرنے والے نوجوانوں سے مسئلہ ہے۔ حیدر نقوی نے ردعمل دیا کہ ویڈیو بنانے والے پر لعنت ، گرفتار کرنے والے پر لعنت ، بے غیرتوں بے شرموں کم از کم خواتین کی ویڈیو تو نہ بناتے ۔۔ انہوں نے مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز صاحبہ آپ کے صوبے میں یہ ہورہا ہے ؟ اگر آپ نے ان پولیس والوں کو ان بچیوں کی ویڈیو بنانے پر سزا نہ دی تو پھر نوجوانوں کو متاثر کرنے کی آپ کی ساری کوشش بیکار ہے ۔ کون کس سے مل رہا ہے کون کیا زندگی گزار رہا ہے یہ سب کا ذاتی حق ہے ان کو سزا ان کے بزرگ دے سکتے ہیں پولیس نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کوئ بھی نشہ کی حالت میں نظر نہیں آرہا اور اگر ہے بھی تو اُس کی سزا کا ایک طریقہ کار ہے ۔ آئ جی پنجاب تم ذمہ دار اگر تم ان پولیس والوں کو سزا نہیں دیتے چوہدری سجاد نے کہا کہ کسی میں جرات ہے کہ ان گیسٹ ہاوسز کے مالکان شراب اور دلہ گیری کا بزنس کرنے والوں کے نام بتائے اسی طرح انکی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کریں؟نہیں ناں مرزا اشرف کا کہنا تھا کہ پکڑ لیا ٹھیک کیا انہیں سزا دیں پر میرے خیال میں ویڈیو بنا کر شئیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی عائزہ نے تبصرہ کیا کہ انکے جرم کی سزا عدالت دیگی لیکن پولیس نے کس قاعدے قانون کے تحت انکی ویڈیو بنا کر پھیلائی ہے۔
کاٹلنگ ڈرون حملے پر عطاء تارڑ اور مشتاق احمد خان کے بیانات... سپریم کورٹ سے آزاد انکوائری کا مطالبہ اسلام آباد: کاٹلنگ آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کے حوالے سے وزیر اطلاعات عطاء تارڑ اور سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ عطاء تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن میں 17 خارجی دہشت گرد ہلاک ہوئے، جبکہ مشتاق احمد خان نے الزام لگایا ہے کہ اس کارروائی میں بے گناہ شہری مارے گئے ہیں۔ عطاء تارڑ نے کہا کہ کٹلانگ آپریشن میں کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا بلکہ سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کی جگہ سے قریبی آبادیاں 6 سے 9 کلومیٹر دور تھیں اور وہاں کوئی عام شہری موجود نہیں تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی نے خارجی دہشت گردوں کی حمایت کی اور جھوٹی خبریں پھیلائیں۔ سابق سینیٹر نے عطاء تارڑ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو وہ نیشنل میڈیا پر مناظرہ کریں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آپریشن میں 2 خواتین، 2 بچے اور 5 مرد سمیت 9 بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے۔ ان کے مطابق، تمام لاشوں کے پوسٹ مارٹم ہو چکے ہیں اور تحصیل ہسپتال، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس کے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں جیلنج کرتا ہوں آپ نے بےگناہ انسان قتل کرکے جنگی جرم کیا ہے ،آپ کے پاس ثبوت ہیں، ہمت ہے تو میرے ساتھ اس ایشو پر نیشنل میڈیا پر مناظرہ کریں۔پاکستان میں قانون کی عملداری ہوتی تو پیکا ایکٹ کے تحت فیک نیوز میں آپ ،رانا ثناءاللہ اپنے وزیراعظم کی قیادت میں جیل میں ہوتے؟ سینیٹر مشتاق نےمزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانی کے کرسیوں پر بیٹھے لوگ دروغ گوئی کے کارخانے ہیں۔جو بڑی بے شرمی سے تواتر کیساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ مشتاق احمد خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اس معاملے میں نوٹس لینے اور آزاد عدالتی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو عطاء تارڑ اور دیگر حکومتی اراکین کے خلاف PECA ایکٹ کے تحت کارروائی ہوتی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ حکومت نے ڈرون حملے کی غلط خبریں پھیلا کر دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ پارٹی نے فوجی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں عمران ریاض کہہ رہے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کو جلد ہی پارٹی اور وزارت اعلیٰ خیبر پختونخوا کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی عمران خان جیل سے رہا ہوں گے، وہ اس فیصلے پر عمل کریں گے۔ عمران ریاض کے مطابق، گنڈاپور کے اپنے حامی بھی ان پر تنقید کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے تحریک انصاف کی سیاسی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ عمران ریاض کی یہ ویڈیو سیاق وسباق سے ہٹ کر تھی اور شیر افضل مروت نے علی امین گنڈاپور سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ انہیں وزارت اعلیٰ سے ہٹادیا جائے گا جسے عمران ریاض نے دہرایا تھا۔ علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین نے یہ ویڈیو شئیر کرکے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران ریاض کے بیانات پی ٹی آئی کے مخالفین کی خواہشات کے عین مطابق ہیں۔ فیصل نے علی امین کی خدمات گنواتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 9 مئی کے بعد سے گرفتار کارکنوں کے خاندانوں کی مالی مدد کی، 2,200 کارکنوں کو رہا کروایا، اور 5,500 دیگر کی رہائی کے لیے کام جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ علی امین نے اپنی ذاتی جیب سے ضمانتی مچلکے اور متاثرین کی امداد کی ادائیگی کی ہے۔ عمران ریاض نے اس پر کہا کہ فیصل امین صاحب تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھیے۔ آپکو سب لوگ کمزور اور کمپرومائزڈ نہیں ملیں گے۔ اور نہ ہی مجھ پر الزامات لگانے والے آپ پہلے شخص ہیں۔ پیسہ کس کی جیب سے جا رہا ہے اور کہاں سے آرہا ہے شائد آپ سب سے بہتر جانتے ہیں۔ ڈی چوک میں کارکنوں کے ساتھ دونوں بار کیا سلوک ہوا اور ابتک انصاف کے لیے کیا کیا گیا۔ تفصیلات سب جانتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا نام ECL میں کیوں نہیں ڈالا جاتا اور بیرونی دورے بھی جاری ہیں۔ فیصل امین نے عمران ریاض پر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 5 اکتوبر کے واقعات کے بعد علی امین کو پولیس اور رینجرز پر گولیاں چلانے کی ترغیب دی تھی۔ فیصل کے مطابق، علی امین نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ صرف سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے بعد سے عمران ریاض نے گنڈاپور برادران کے خلاف مہم شروع کر دی۔ فیصل امین نے بتایا کہ علی امین پر 9 مئی سے پہلے 53 ایف آئی آرز درج تھیں، جبکہ بعد میں مزید 102 اور وزیراعلیٰ بننے کے بعد 63 مزید ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ ان میں دہشت گردی اور قتل جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔ فیصل نے اپنے بیرونی دوروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی دعوت پر COP29 موسمیاتی کانفرنس میں بطور ماہر شریک ہوئے تھے۔ عمران ریاض نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سارا پاکستان جانتا ہے انہوں نے کبھی تشدد کی حمایت نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ پرامن احتجاج کے حق میں رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصل امین کے بیانات میں تضادات ہیں اور انہوں نے جان بوجھ کر غلط بیانی کی ہے۔ عمران ریاض نے اختتامیہ میں کہا کہ جانتا ہوں کہ ویڈیو کس نے ایڈٹ کی اور اچانک سے بہت سی توپوں رخ میری طرف کیوں ہوگیا ہے اور اسکے پیچھے کے کرداروں کو بھی جانتا ہوں۔ قصور کرسی کا ہے جس پر بیٹھ کر اکثر لوگ اوقات اور تربیت بھول جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت آپکو پچھتاوے سے محفوظ رکھے۔
صحافی وحید مراد کے اغوا پر عدیل سرفراز اور ابصار عالم کے درمیان سوشل میڈیا پر نوک جھونک اسلام آباد: سینئر صحافی وحید مراد کے مبینہ اغوا کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دو صحافیوں، عدیل سرفراز اور ابصار عالم کے درمیان شدید نوک جھونک دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب عدیل سرفراز نے ابصار عالم پر الزام لگایا کہ وہ مشکل وقت میں وحید مراد کے حق میں آواز اٹھانے میں ناکام رہے، جبکہ ابصار عالم نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدیل سرفراز پر جوابی تنقید کی۔ 26 مارچ 2025 کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-8 میں واقع چمن روڈ پر سینئر صحافی وحید مراد کو نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر اغوا کر لیا۔ جیو نیوز کے مطابق، نقاب پوش افراد جو سیاہ وردیوں میں ملبوس تھے، وحید مراد کے گھر میں داخل ہوئے اور انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ وحید مراد کی اہلیہ کے مطابق، اغوا کاروں نے انہیں افغان ہونے کا الزام لگایا۔ واقعے کے بعد، وحید مراد کی ساس نے ایڈووکیٹس ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے ذریعے ان کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں صحافی کی فوری بازیابی اور اغوا کاروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ عدیل سرفراز نے ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کی، جس میں انہوں نے ابصار عالم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب باجوہ ڈاکٹرائن کے دوران ابصار عالم خود زیر عتاب تھے، تو اس وقت وحید مراد نے اپنی ویب سائٹ "پاکستان 24" پر ابصار عالم کے کالم شائع کیے تھے۔ عدیل نے مزید کہا کہ اب جب وحید مراد پر مشکل وقت آیا ہے، تو ابصار عالم کا ایکس اکاؤنٹ "گونگا بہرا" بن گیا ہے۔ عدیل کی اس پوسٹ کو 1.9 ملین سے زائد بار دیکھا گیا اور اس پر متعدد صارفین نے ابصار عالم کے خلاف سخت تبصرے کیے، جن میں انہیں "منافق"، "بہروپیا" اور "غلیظ" جیسے القابات سے نوازا گیا۔ ابصارعالم نے اس پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ عدیل صاحب آپ کی بات درست ہے میں رمضان میں ٹوئٹر سے دور ہوں صرف اپنے پروگرام کے چند ریٹویٹ کیے ہیں۔ جو بات بھی کہنی ہو اپنے پروگرام یا پوڈکاسٹ میں کہتا ہوں۔ جس رات وحید مُراد کو اغواء کیا گیا تب سے اب تک شئڈول میں کوئی پروگرام ہوا نا پوڈکاسٹ۔ پھر بھی مُجُھے اس شرمناک واقعے کی فوری مذمت کرنی چاہئے تھی اور یہ واقعی قابل مذمت ہے اور وحید مُراد کو رہا ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعزاز سید نے مُجھ سے احمد نورانی سے بات کرنے کو کہا جو میں نے کی اور رابطے میں بھی ہوں۔ آپ کے پاس میرا فون نمبر ہے، بات بھی ہوتی ہے آپ بھی اعزاز کی طرح مُجھے کال کر سکتے تھے لیکن آپ نے مُجھ سے بات نہیں کی بلکہ اس ٹویٹ کے ذریعے آپ نے جس طرح میرے دشمنوں کو مُجھے گالیاں دینے کا موقع فراہم کیا اسُ کے لئے شکریہ ابصار عالم نے مزید کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور عدیل جیسے لوگوں کے الزامات ان کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ عدیل سرفراز نے پر کہا کہ بصد احترام سر، میرا قطعاً ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ ٹویٹر پر آپ کیخلاف کسی مہم کا آغاز کروں، آپ کے اور وحید کے تعلق کو جانتے ہوئے مجھے یہ تعجب ہوا کہ ایسے موقعے پر آپ کیوں خاموش ہیں۔ ٹویٹ کا مقصد ایک شکوے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ 48 گھنٹے گزر جانے کے باوجود آپ کو اس واقعے کا علم ہی نہیں تو کال کر دیتا ابصارعالم نے جوابی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ نے یہ شروع کر دیا؟ میں نے کب کہا کہ مُجھے اس واقعے کا علم نہیں؟ میں نے تو آپ کا اعتراض تسلیم کیا اور یہ کہا کہ رمضان میں بجائے ٹویٹر کے میں اپنے تبصرے اپنے پروگرام یا پوڈکاسٹ میں کرتا ہوں اور جس رات وحید مراد والا واقعہ ہوا اُس کے بعد شیڈول کی وجہ سے ابھی تک میرا کوئی پروگرام یا پوڈکاسٹ نہیں۔ جب ہو گا تو گونگا بھی نہیں ہوں گا لیکن اب میرے خلاف جو غلیظ اور نفرت انگیز پروپیگنڈا ہو رہا اُس کا ذمہ دار کون ہے؟ جبکہ آپ آج بھی مُجھے میرے واٹس ایپ پر میسیجز کرتے رہے؟ ابصار عالم پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین رہ چکے ہیں اور وہ 2015 سے 2017 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہیں 2021 میں ایک پارک میں چہل قدمی کے دوران گولی مار کر زخمی کیا گیا تھا، جس کا الزام انہوں نے فوج پر تنقید کرنے والوں پر لگایا تھا۔۔
تحریک انصاف کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رہنما سالار کاکڑ کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں اس کے چہرے پر سفید کپڑا ڈال کر اسے تضحیک آمیز انداز میں لایا جارہا ہے۔ دراصل سالار کاکڑ کو 26 نومبر اسلام آباد میں احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ سالار کاکڑ کو ضمانتیں ملنے کے باوجود نئے کیسز میں گرفتاری ڈال کر انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ سالار کاکڑ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس پر صارفین نے تبصرے کئے اور سوال کیا کہ سالار کاکڑ کیلئے مرکزی لیڈرشپ آواز کیوں نہیں اٹھارہی؟ اظہر مشوانی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ بلوچستان میں جو پاکستان کی بات کرے، جو وفاق کی سیاست کرے لیکن ٹاؤٹ بننے سے انکار کرے تو اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہےسالار کاکڑ کو راولپنڈی کے 9 جھوٹے مقدمات میں ضمانت ملنے پر رہا کرنے کی بجائے اسلام آباد کے کیسز میں ڈال دیا گیا ہے نورکاکڑ نے ردعمل دیا کہ کیا کبھی بیرسٹر گوہر علی، عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، وقاص اکرم، اسد قیصر یا کسی اور مرکزی لیڈر نے سالار کاکڑ کے لئے کوئی آواز اُٹھائی ہیں؟ ہم گارنٹی سے کہتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان کا سب سے توانا اواز سالار ہیں لیکن یہ لوگ محمود اچکزئی کے پیچھے لگے ہیں اپنے لوگوں کا خیال نہیں ؟ عمر انعام کا کہنا تھا کہ سالار کاکڑ دہکتے، سسکتے، بلکتے بلوچستان کے ان چند نوجوانوں میں سے ہے جو اس وقت بلوچستان کے حالات کو بہتر کرنے میں ریاست کی مدد کر سکتا ہے مگر اسے عمران خان سے وفا کے جرم میں دہشتگردوں کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔ افسوس ہم بلوچستان کھو رہے ہیں!! مغیث علی نے کہا کہ یہ پاکستان تحریکِ انصاف کا نوجوان کارکن سالار کاکڑ ہے جو 26 نومبر کے بعد سے جیل بھگت رہا ہے، ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ سحرش مان نے لکھا کہ شرمناک شرمناک۔سالار خان کاکڑ بلوچستان کا وہ شہری ہےجوریاست پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے والا ہے جو آئین پاکستان کی سربلندی چاہتاہے اسکے ساتھ یہ سلوک شرمناک ہے۔سالار کی شناخت بی ایل اےنہیں،اسکی شناخت پاکستانیت ہے۔لڑنا ہےتو بی ایل اےسے لڑئیے۔حقیقی اور پرامن عوامی نمائندے سے نہیں
گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جناح ہسپتال کا دورہ کیا اور وہاں مریضوں کی شکایات سنیں، مریضون نے دویات کی عدم فراہمی اور دیگر مسائل کی شکایات کی تو وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے ایم ایس جناح اسپتال کو بھی معطل کرنے کا حکم دیدیا۔ بعدازاں مریم نواز نے پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل کالج پروفیسر اصغر نقی کو بھی معطل کرنے کا حکم دیدیا معطل ہونے کے بعد ڈاکٹر کاشف جہانگیر نے سوشل میڈیا پر "الحمدللہ" کا پوسٹ شیئر کیا، جس پر دیگر ڈاکٹروں نے مبارکبادوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صحافی اویس حمید نے معطل ڈاکٹر کی پوسٹ شئیر کرتے ہوئے ردعمل دیا کہ سزا پر الحمداللہ۔۔۔ اِدھر مریم نواز نے جناح ہسپتال لاہور کے ایم ایس ڈاکٹر کاشف جہانگیر کو معطل کیا، اُدھر انہوں نے فیس بُک پر یہ پوسٹ شیئر کر دی۔ پوسٹ کے نیچے دوسرے ڈاکٹروں کی جانب سے مبارکبادوں کا تانتا بندھ گیا۔ اسی ایک عمل سے پنجاب میں گورننس کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ثاقب بشیر نے سوال کیا کہ پیکا تو نہیں لگے گا ؟ اس شکرانے پر ؟ محمد عمیر نے پوسٹ شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ایم ایس جناح ہسپتال ڈاکٹر کاشف جہانگیر کو چند گھنٹے قبل وزیراعلی پنجاب نے معطل کیا ،جس کے بعد ان کا "الحمدللہ" کا اسٹیٹس آیا ہے اور سب ان کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل مریم نواز نے میوہسپتال کے ایم ایس کو بھی ادویات کی عدم فراہمی پر معطل کیا تھا۔
احمد نورانی کی والدہ سے احمد نورانی کی سٹوری پر بحث کرنے اور احمد نورانی کے اغوا بھائیوں کے حق میں کوئی ٹویٹ نہ کرنے پر مطیع اللہ جان اور اسد طور کی نام لئے بغیر عمر چیمہ پر تنقید۔۔ احمد نورانی کے 2 بھائیوں کو اغوا ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں، مگر نہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ اس کیس کو ارجنٹ کیس کے طور پر لے رہی ہے اور نہ ہی صحافتی تنظیمیں مضبوط آواز اٹھارہی ہیں۔افسوسناک امریہ ہے کہ کسی اخبار یا چینل نے احمدنورانی کے بھائیوں کے اغوا کی رپورٹنگ نہیں کی۔یہاں تک کہ انکے پرانے ساتھی بھی انکے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ مطیع اللہ جان نے اپنے ایکس پیغام میں کہا کہ احمد نورانی نے جنگ گروپ کے سینئیر صحافیوں کے ہمراہ طویل عرصہ کام کیا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ماسوائے اعزاز سید کے یہ لوگ نورانی کے اغوا شدہ بھائیوں سے متعلق سوشل میڈیا پر کھل کر اپنی رائے دینے سے گریزاں ہیں ان کا کہنا تھا کہ ذرائع کیمطابق ان میں سے دو صحافی احمد نورانی کے گھر جا کر اہل خانہ کے ساتھ نورانی کی سٹوری پر ہی بحث کرتے رہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ سیاستدانوں کی اذدواجی زندگی و عدت کی مدت کا حساب کتاب رکھنے والے ایک صحافی کو اعلی عسکری قیادت کے اہل خانہ کی سرکاری دستاویز پر آویزاں تصویر کی اشاعت پر تحفظات تھے۔ مطیع اللہ جان نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نورانی کی والدہ اور ہمشیرہ رٹ درخواست دائر کرنے اور اُسکی سماعت کے لئیے آئی تو نورانی کے ان پرانے ساتھیوں میں سے کوئی بھی عدالت میں موجود نہیں تھا۔ نورانی کے سابق ادارے جنگ گروپ کے اردو روزنامہ جنگ اور انگریزی روزنامہ دی نیوز میں ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کی خبر تک نہیں چھاپی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور صحافت کا لبادہ اوڑھے یہ لوگ اتنی ٹویٹ بھی نہیں کر سکے کہ اغوا شدہ دو بھائیوں کے اغوا کاروں کو فوری گرفتار کر کہ قانون کی کٹہرے میں لایا جائے اور فوری ایف آئی آر بھی کاٹی جائے، کچھ صحافیوں نے ساتھی صحافیوں کے پیٹھ پیچھے سودے بازی اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ اسد طور نے ردعمل دیا کہ عمران خان کی شادی عدت کی مُدت سےپہلےیابعدمیں سےلےکرطلاقوں کاحساب چیئرمین پی ٹی آئی کےذاتی “مُنشی” کی طرح رکھنےوالےجزوقتی تحقیقاتی صحافی سےسابق کولیگ اورساتھ کھانےپینےوالے احمد نورانی کےبھائیوں کےاغواپر ایک ٹویٹ کی “جرات” نہ ہوئی لیکن گھر جاکر دُکھی ماں کو باتیں ضرور سُنا آیا
اسلام آباد: بینکوں سے ونڈ فال ٹیکس وصولی کی مد میں 4 ہفتوں کے دوران 34 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد رقم قومی خزانے میں جمع ہوگئی۔ اس حوالے سے وزارت قانون و انصاف کے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے بھی پنجاب میں تمام رجسٹرڈ بینکوں کی درخواستوں پر حکم امتناع ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق حکم امتناع خارج ہونے پر پنجاب کے بینکوں نے آج واجب الادا ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرادیا ہے، اعلامیے کے مطابق پنجاب کے 7 بینکوں نے مجموعی طور پر 11 ارب 48 کروڑ 36 لاکھ 58 ہزار روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی۔ عطاء تارڑ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نا پہلے کبھی سنا نا پہلے کبھی دیکھا ! سرکاری خزانے میں اربوں روپے جمع جو معمولی حالات میں بینکوں کے اضافی منافع میں جاتے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے معاشی اصلاحات کے تحت یہ قدم اٹھایا ۔ انکے مطابق بینکوں کے سٹے آرڈر خصوصی ہدایات اور انتھک محنت سے خارج ہو چکے ہیں۔ یہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی اور وزیراعظم کی کی دانشمندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ حکومت نے عوام کے حقوق کا تحفظ کر کے ایک بڑی فتح حاصل کی ہے! اس پر مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ اس میں کیا سوچ اور کمال ہے؟ پاکستان کی ٹیکس کی شرح دنیا کی سب سے زیادہ۰ پر اسٹے ویکیٹ کرانے کے بعد کم از کم 30 دن کا ادائیگی کا وقت دیا جاتا ہے۰ مگر ایف بی آر 24 گھنٹے میں اکاؤنٹ اٹیچ کر کے رقم نکال لیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کے وزیر اعظم کے فہم کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری صفر ہوچکی ہے۰ کوئ نیا کارخانہ تو دور الٹا بند ہو رہے ہیں۰ ملٹی نیشنل کمپنیاں بیچ کر جارہی ہیں۔ مزمل اسلم نے مزید کہا کہ 78 سال کی بلند ترین بے روزگاری اور غربت ہے۰ ٹیکس کا شارٹ فال 600 ارب کا ہے۰ آئ ایم ایف کا اسٹاف لیول کھٹائ پر ہے۰ یہ 1990 نہیں صبح جنگ اخبار پر پسند کے دانشور سے جھوٹی خبر چلا لی۰ اور پھر اللہ اللہ خیر سلا
گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ سنادیا جس میں شاہ محمودقریشی اور عمران خان کو بری کردیا گیا عدالت نے حکومتی وکلاء کے کراس ایگزامینشن کو غیر تجربہ کار قرار دیا اور تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ اسکو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو ثبوت بھی ناکافی تھےپراسیکیوشن ہر طرح سے اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ صحافی حسنات ملک نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ حکومت کی کوشش ناکام ہوگئی کہ وہ کوشش کر رہے تھے کہ سائفر کیس کا کیونکہ تفصیلی فیصلہ نہیں آیا تھا اسلیے وہ خواب دیکھ رہے تھے کہ یہ ریمانڈ بیک ہو جائے گا لیکن حکومت کا یہ خواب چکنا چور ہوگیا۔اس کیس کیلئے پاکستان کی جیب سے کروڑوں روپے پرائیویٹ پراسیکیوٹرز کو جاری ہوئے۔ حسنات ملک نے مزید کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود پر جو الزام لگایا گیا کروڑوں روپے پاکستان کے ضائع ہوا جس بھونڈے انداز سے یہ کیس چلایا گیا اصل سائفر کی کاپی بھی نہی دی گئی،اب 9 مئی کا کیس بھی کمزور اور جھوٹا بنایا گیا ہے کہ اس میں غلط شواہڈ ڈال کر اسکو خراب کردیا گیا۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ دوسرے الفاظ میں لکھ رہی ہے سائفر کیس میں پراسیکوشن کی نااہلی اس لیول کی تھی کہ کچھ گوہواں پر جرح پھر حتمی دلائل کے معاملے پر یکطرفہ ٹرائل کیا ناتجربہ کار وکیل سرکار کی طرف سے تعینات ہوئے عمران خان شاہ محمود قریشی کے وکلا کی بجائے ان کی طرف سے ان سرکاری وکلا نے کیس آگے چلایا رات ڈیڑھ بجے تک ۔۔۔ مطلب فئیر ٹرائل نا دینے کے باوجود وہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں اس ناکامی نے پراسیکوشن پر بہت سوالات کھڑے کئے ہیں اجمل جامی کا کہنا تھا کہ سائفر کیس کا فیصلہ آگیا ہے عمران خان سچا ثابت ہوگیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ان پر نہیں لگتا۔ ریاست فیل ہوئی ہے اپنا موقف ثابت کرنے میں۔
سوشل میڈیا صارفین صدر آصف زرداری کے انکے آفیشل صدر پاکستان کے اکاؤنٹ سے پرانے ٹوئٹس سامنے لے آئے جس میں انہوں نے 6 نہروں کی منظوری کے حکم کی ٹویٹ کی جبکہ کچھ روز قبل انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان نہروں کی مخالفت کی تھی۔ صحافی قسمت خان نے پرانی خبر شئیر کرتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری نے مشترکہ اجلاس خطاب میں دریائے سندھ سے نکالی جانیوالی نہروں کے فیصلے کیخلاف بات کی مگر8جولائی2024کو اعلیٰ عسکری حکام کیساتھ اجلاس میں انہیں گرین پاکستان منصوبے کیلئے6 نہروں کی تعمیر پر بریفنگ ملی تو انہوں نے خود نہروں پر کام شروع کرنے کی ہدایت دی۔۔ملاحظہ فرمائیں دراصل 8 جولائی 2024 کو صدر آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت گرین پاکستان منصوبے سے متعلق اجلاس ہوا جس مٰں انہوں نے کچھی کینال منصوبے کو 1.5 سال میں مکمل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ وفاقی حکومت منصوبے کی ترجیحی بنیادوں پر بروقت تکمیل یقینی بنانے کیلئے فنڈز فراہم کرے گی اسی میٹنگ میں انہیں بریفنگ دی گئی کہ گرین پاکستان منصوبے کیلئے چھ اسٹریٹجک نہروں کی تعمیر کی جائے گی ، اسٹریٹجک نہروں میں چشمہ رائٹ بینک ، کچھی ، رینی ، گریٹر تھل ، چولستان اور تھر کینال شامل ہیں، نہروں سے ملکی قابل کاشت رقبہ ، لائیو سٹاک اور ماہی گیری کی صلاحیت بڑھانے میں مدد ملے گی صدر مملکت نے گرین پاکستان منصوبے کیلئے اسٹریٹجک نہروں پر کام شروع کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ پانی کا ضیاع روکنے کیلئے اسٹریٹجک نہروں کی کنکریٹ لائننگ کی جائے تحریک انصاف آفیشل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ زرداری کی پیپلز پارٹی ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا اپنا پرانا کھیل کھیل رہی ہے—بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے امریکا کو کہا تھا: "ہمیں ڈرون حملوں سے کوئی مسئلہ نہیں، جاری رکھو" اور پھر عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اسمبلی میں جھوٹی مذمت کرتے رہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اب سندھ کے پانی کی چوری نہروں کے منصوبوں کے ذریعے پیپلز پارٹی کی مکمل منظوری سے ہو رہی ہے، مگر سیاسی فائدے اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے کہا ہ یہ 90 کی دہائی نہیں! پیپلز پارٹی پوری طرح بے نقاب ہو چکی ہے، اور پاکستانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ سندھ کے استحصال اور تباہی کے پیچھے اصل مافیا کون ہے! احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے بطور صدر خود اجلاس کی صدارت کی، خود 6 نہروں کی منظوری بھی دی۔ اب کہتے ہیں نہریں منظور نہیں، سندھ اسمبلی مخالف قراردادیں منظور کرتی ہے۔ معاملہ کیا ہے؟ پہلے ہاں اب پولی پولی ناں فوزیہ صدیقی نے ردعمل دیا کہ پاکستانیوں اس دھوکے باز زرداری کی باتوں میں مت آنا سندھ والوں زرداری نے پہلے تم لوگوں کو بیچا اب تمہارے سندھ کا پانی بھی بیچ دیا یے انکو کوئی پرواہ نہیں یے کیونکہ یہ تو باہر بھاگ جاتے ہیں اس پر جتنی آواز اٹھاو گے تب ہی تم جیت پاو گے اور جو منصوبہ یہ لگا رہے ہیں یہ ہماری نسلوں کو بنجر کردے گا۔۔۔۔آواز اٹھاو لازمی یہ تمہارے نسلوں کے لیئے یے۔۔۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے میو اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو فارغ کرنے پر معروف اداکارہ و ماڈل عفت عمر نے مریم نواز کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کے لاہور کے میؤ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو مریضوں کی شکایات پر برطرف کرنے کے فیصلے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ایکس اکاؤنٹ پر کیا ہے۔ معروف صحافی اور سابقہ اداکارہ شمع جونیجو نے مریم نواز کی ایم ایس کو برطرف کرنیکی ویڈیو شئیر کی اور مریم نواز کی تعریف کی اور فیصلے کو درست قرار دیا لیکن عفت عمر نے مخالفت کی۔ اس پر عفت عمر نے جواب دیتے ہوئے اپنے ایکس پیغام میں لکھا کہ میرے خیال میں ایک افسر کی یوں سرِعام تذلیل کرنا درست نہیں۔ اداکارہ نے مزید لکھا کہ اس شخص کی بات سنے اور مناسب تفتیش کیے بغیر کسی کو قومی ٹیلی ویژن پر برطرف کرنا درست بات نہیں ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی 6 مارچ کو میو اسپتال کے دورے کے دوران مریضوں نے انتظامیہ کی ناکامیوں پر متعدد شکایات کی تھیں۔ ان شکایات پر مریم نواز شدید ناراض ہوئیں اور انہوں نے اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو فوری طور پر برطرف کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ ایم ایس ڈاکٹر فیصل نے برطرفی سے تین دن پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ڈاکٹر فیصل نے پنجاب حکومت سے اسپتال کے لیے فنڈز کی متعدد درخواستیں کی تھیں، لیکن فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ واقعہ انتظامیہ کے اندرونی مسائل اور حکومتی سطح پر فنڈز کی عدم دستیابی جیسے اہم معاملات کو اجاگر کرتا ہے۔ عفت عمر کی تنقید اور شمع جونیجو کی تائید کے درمیان یہ معاملہ عوامی اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس واقعے نے انتظامیہ کے طریقہ کار اور عوامی خدمت کے معیارات پر سوالات اٹھائے ہیں۔
جعفر ایکسپریس واقعے کے دوران اپنی کتاب کی مارکیٹنگ کرنا اور رعایتی قیمت آفر کرنا سینیٹر عرفان صدیقی کو مہنگا پڑگیا۔۔سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل۔۔ اپنے ایکس پیغام میں عرفان صدیقی نے کہا کہ دو سال پر محیط، پی ٹی آئی کی بے حکمت و بے ثمر داستان اب کتابی شکل میں مرتب ہو چکی ہے۔۔۔ عرفان صدیقی کی اس کتاب کی قیمت 2000 روپے ہے اور 2000 روپے پر کاٹا لگا کر قیمت 1500 کی ہے۔ امجد خان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کتاب کی قیمت 2 ہزار تھی جو اب کم کر کے 1500 روپے کر دی گئی ہے کیونکہ کسی نے اس کتاب پر تھوکنا بھی گوارا نہیں کیا عرفان صدیقی اپنی جیب سے 1500 دے کتاب تب بھی کسی نے نہیں پڑھنی ۔۔۔ صدیق جان کا کہنا تھا کہ سینکڑوں خاندانوں کے ہزاروں لوگ اس وقت اپنوں کی زندگیوں کی فکر میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں،کروڑوں پاکستانی اپنے بے گناہ نہتے شہریوں کے لیے فکر مند ہیں لیکن نوازشریف کا سب سے قریبی ساتھی اور مریم بی بی کا پیارا انکل کپڑوں کے برینڈز کی طرح سیل کا اشتہار لگا کر اپنی کتاب بیچ کر کمائی کے چکر میں ہے انہوں نے مزید کہا کہ 25 کروڑ پاکستانیوں پر ان لوگوں کو مسلط کیا گیا ہے جن کے سینے میں دل نہیں ہے ۔عرفان صدیقی صاحب یہ انسانیت نہیں درندگی ہے احمد وڑائچ نے ردعمل دیا کہ لوگ دہشتگردوں کے ہاتھوں اغوا ہیں، پیارے مشکلات میں ہیں، زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ دوسری طرف بزرگ استاد کو اپنی دکانداری کی پڑی ہے، بس کسی طرح کتاب خرید لو۔ صدیقی صاحب کچھ تو انسانیت اور احساس رہنے دیں، دکانداری بعد میں کر لیجیے گا طارق متین نے کہا کہ گویے بھی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ موقع کی مناسبت سے گانا ، کلام ، قوالی کیا پیش کرنا ہے مگر جرنیلوں کا استاد بزرگ سیاستدان اس بنیادی صلاحیت سے محروم ہے۔ یہ سانحے کے موقع پر بھی اپنی دکان چلا رہا ہے ارم زعیم نے تبصرہ کیا کہ ابھی یہ 150 پر بھی ائے گی پھر بھی کوئی نہیں لے گا۔ ایک مشورہ مانیں، اس کتاب کو سنڈے میگزینز کے ساتھ پفلٹس کی طرح لوگوں کے گھروں میں پھینک دیں۔ شاید بچوں کو برسات کے دنوں میں کشتیاں بنانے میں کام ا جائے۔ اظہر لغاری نے تبصرہ کیا کہ محترم صدیقی صاحب پندرہ سو تو دور کی بات آپکی یہ کتاب کوئی پندرہ روپے میں بھی نہیں خریدے گا بلکہ مفت میں مل جائے تو بھی نہیں پڑھے گا، ان تشویشناک حالات میں جہاں سینکڑوں یرغمالیوں کے ہزاروں اہل خانہ شدید اضطراب کا شکار ہیں وہاں آپکی بی تکی ترجیحات آپکے لئے مزید مذاق کا باعث ہیں۔ صبیح کاظمی کا کہنا تھا کہ یہ مفت بھی کسی نے نہیں پڑھنا۔۔۔کتاب بیچنے کے لیے بھی پی ٹی آی کا نام لکھنا پڑا۔۔۔ بشارت راجہ نے ردعمل دیا کہ سر مُلک میں آگ لگی ہوئی ہے اور آپ چین کی بانسری بجا رہے ہیں مطیع اللہ جان نے ردعمل دیتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ہتھکڑی اور باسی کڑھی - پریس ریلیز سے بُک ریلیز تک حکیموں اور فروٹ چارٹ فروشوں کی با حکمت اور باثمر داستان ایک نئی شکل میں ساٹھ اخباری صفحات سے زائد کاغذوں پر بھی دستیاب ہے اس نسخے کو قانون دانوں اور سمجھدار نوجوانوں سے دور رکھیں، طبیعت زیادہ خراب ہو تو ہڈیوں کے ڈاکٹر سے رجوع کریں
گزشتہ روز استعفیٰ دینے والے ڈی آئی جی عمران کشور کا پرانا کلپ وائرل۔۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد عمران کشور نے بشریٰ بی بی پر تعویذ کرنے ، پولیس سے بدتمیزی اور دیگر الزامات لگائے تھے ڈی آئی جی پنجاب پولیس عمران کشور نے پولیس سروس سے استعفیٰ دے دیا، وہ 9 مئی کے مقدمات میں جے آئی ٹی کے سربراہ تھے۔ ڈی آئی جی عمران کشور نے اپنا استعفیٰ آئی جی پنجاب کو بھجوادیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہوں جہاں میری مزید خدمات ممکن نہیں، میں نے عزت کے ساتھ خدمات سر انجام دیں۔ آئی جی پنجاب کو دیے گئے استعفیٰ کے متن میں ڈی آئی جی عمران کشور نے لکھا کہ وہ پولیس سروس آف پاکستان سے استعفیٰ دے رہے ہیں، اپنے حلف کی پاسداری غیر متزلزل عزم کے ساتھ کی اور کئی بار ذاتی قیمت چکائی، اب ایسے موڑ پر کھڑا ہوں جہاں مزید خدمات جاری نہیں رکھ سکتا۔ استعفیٰ منظرعام پر آنے کے بعد عمران کشور کا ایک کلپ وائرل ہورہا ہے جس میں وہ بشریٰ بی بی پر تعویذ کرنے کاالزام لگارہے ہیں۔یہ کلپ اس وقت کا ہے جب عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہوئی تھی۔ خیال رہے کہ عمران کشور اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے عمران خان کی گرفتاری کی۔ سولہ اگست 2023 انہوں نے کہا کہ جب گرفتاری کے احکامات ملنے پر وہ زمان پارک پہنچے تو بند دروازے کھولے نہیں گئے جس کے باعث پولیس کو دروازے توڑنے پڑے۔ انکے مطابق ایک پیالے میں رکھی پوٹلی کی راکھ میں پڑے تعویز کو چھونے لگے تو بشریٰ بی بی نے مزاحمت کی اور بولیں کہ آپ ان کو نہ چھیڑیں، یہ مقدس چیزیں ہیں۔ ڈی آئی جی عمران کشور کے مطابق بشریٰ بی بی نے پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی بھی کی، یہ بھی کہا کہ پولیس والے ہیں پیسے ڈھونڈنے آئے ہوں گے۔ مغیث علی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پولیس سروس سے آج استعفیٰ دینے والے عمران کشور صاحب، ان کا کہنا تھا "وہاں پوٹلی میں راکھ اور تعویذ ملے تھے"، بشریٰ بی بی نے بدتمیزی الگ سے کی تھی، لگتا ہے وجہ 9 مئی نہیں کچھ اور ہے شہزاداکبر نے ویڈیو کلپ ری ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس استعفی کا قصہ مختصر یہ ہے کہ اس افسر نے کھل کے ضمیر فروشی کی اور چڑیا گھر والوں نے کام کروانے کے بعد پروموشن نہیں کروائی تو دلبرداشتہ ہو کر نوکری چھوڑ دی سنا ہے انہوں نے مزید کہا کہ آئی جی کی بھی ایسی ہی حالت ہے کچھ…. بس کہتے ہیں نا پال نہیں سکتے تو بھرتی کیوں کرتے ہو ؟؟؟
گزشتہ روز بلوچستان میں بی ایل اے کے دہشتگردوں نے ایک ٹرین ہائی جیک کرلی جس میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے، اس پر سوشل میڈیا پر نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی گئی بلکہ سنگین سوالات اٹھائے گئے۔ اپنے ایکس پیغام میں خواجہ آصف نے کہا کہ اسوقت جب فوج جعفر ایکسپریس کے یرغمالیوں بچانے کی جنگ لڑ رہی ھے۔ ایسے وقت اتحاد و یک جہتی کی ضرورت ھےاس ماحول میں یہ ٹولہ فوج اور ایجنسیوں کو ٹارگٹ کر رہا ھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ دھشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوم کی جنگ ھے اسوقت ھماری افواج روزانہ جانوں کی قربانی دے کر 25کروڑ ھم وطنوں محفوظ رکھ رہے ھیں ۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس فضا میں ایک سیاسی گروہ جس کا سرغنہ چوری کے جرم میں سزا کاٹ رہا ھے۔ فوج کو دن رات ٹارگٹ کر رہا ھے۔ اس سیاسی گروہ اور سرغنہ کے لئے وطن کی سالمیت کوئ اھمیت نہیں رکھتی ۔حقیقت میں یہ ٹولہ دھشت گردوں کا پارٹنر ھے اور ان کو پاکستان میں بسانے کی سہولت کاری انہوں نے سرانجام دی ھوئ ھے۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ خیبر پختونخواہ اسوقت دھشت گردی کا مین ٹارگٹ ھے ۔ لیکن وہاں کی حکومت کا ٹارگٹ اسلام آباد ھے ۔ یہ ساری ملی بھگت سے ھو رہا ھے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے لکھا کہ تحریک انصاف نے جعفر ایکسپریس حملے پر اپنی سیاست کا گھناؤنا چہرہ دکھایا ہے۔ جب دشمن نے پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا، تحریک انصاف نے فوج پر الزام تراشی شروع کر دی۔ قوم دشمنوں کے اس ناپاک گٹھ جوڑ کو سمجھ چکی ہے۔ یہ قوم کے ساتھ غداری ہے! رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کے بعد جب قوم صدمے میں تھی، تحریک انصاف نے اپنی اصلیت دکھا دی۔ بی ایل اے کی مذمت کرنے کے بجائے فوج کے خلاف زہر اگلنا ناقابلِ برداشت ہے۔ دشمن کے حملے پر خاموشی اور فوج پر الزام تراشی — یہ ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ احسن اقبال نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے میں بے گناہ شہریوں کی شہادت پر ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مگر افسوس، تحریک انصاف کی قیادت کو نہ قوم کے درد کا احساس ہے، نہ شہداء کے لہو کی پرواہ! فوج اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنا کر آخر PTI کس دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہے؟ قوم ان ناپاک عزائم کو بخوبی پہچان چکی ہے اور انہیں معاف نہیں کرے گی۔ حکومتی وزراء کے بیانات پر صحافی شاہد میتلا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جعفر ایکسپریس سانحہء پر حکومتی وزراء کا رویہ انتہائی قابل مذمت اور قابل گرفت ہے۔انھوں نے دہشت گردوں پر کچھ نہیں کہا،عوام کو واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا نہ متاثرین کو تسلی دی لیکن تحریک انصاف کو مسلسل نشانہ بنارہے ہیں۔
عون عباس بپی کو کچھ روز پہلے ان کے گھر سے رات کے وقت نامعلوم افراد نے اٹھایا اور بعد ازاں غیرقانونی شکار کرنے کے الزام میں گرفتاری ڈال دی گئی ،اس پر چئیرمین سینٹ یوسف رضاگیلانی نےعون عباس بپی کے پروڈکشن آرڈر جاری کردئیے جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے عون عباس بپی کو سینٹ پہنچادیا گیا۔ گزشتہ روز عون عباسی بنپی نے سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے پروڈکشن آرڈرز جاری کر کے وہ legacy قائم کی ہے جو عمران خان اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر Build کر رہے ہیں ۔ فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ فارم 47 پر جیت کر بےشرمی سے کُرسی پر بیٹھے ہار چور یوسف رضا گیلانی نے کون سی Legacy بنائی ہے؟ تو وہ فرمائشی گرفتاری اِس لیے تھی کہ یوسف رضا گیلانی کا عمران خان سے موازنہ کیا جائے؟؟؟ احمد بوباک نے سخت ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ یوسف گیلانی عمران خان کے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہے، اس کا بال بال کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ ایک بڑا مینڈیٹ چور ہے عون بپی کسی صورت بھی اس تھرڈ کلاس کرپٹ آدمی کا موازنہ عمران خان کے ساتھ نہیں کرسکتے عون بپی کو اپنے الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ارسلان بلوچ نے تبصرہ کیا کہ عون بپی کو شرم آنی چاہیے ،ایک کرپٹ چیئرمین سینٹ کو عمران خان کے ساتھ ملاتے ہوئے۔ اس سے تو اچھا تو عون بپی جیل میں ہی رہتا۔ انیس خان ترین کا کہنا تھا کہ عمران خان جیسے بندے کی لیگسی کو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ملانا انتہا درجے کی جہالت ہے۔ کمال کی بات ہے کہ سینٹر اعجاز چوہدری صاحب کے پروڈکشن آڈر یا تو جاری نہیں ہوتے اور اگر ہو جائیں تو بھی انہیں سینٹ کی کاروائی میں شامل نہیں ہونے دیا جاتا لیکن ان لیگسی والی سرکار کو ایک دن پکڑ کر لے کے جاتے ہیں اور ایک دو دن کے اندر ہی پروڈکشن آڈر پر سینٹ میں آنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ خولہ چوہدری کا کہنا تھا کہ عون بپی تو یوسف رضا گیلانی کے آگے لیٹ ہی گیا ہے۔۔۔ عمران خان کی جوتی کے برابر بھی نہیں یوسف رضا گیلانی اور یہ عمران خان سے ملا رہا ہے۔۔۔ طاہر ملک نے تبصرہ کیا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے تھے مگر انکو پیش نہیں کیا جاتا، حضرت عون عباس بپی پرسوں اٹھائے جاتے ہیں کل پروڈکشن آرڈر جاری ہوتے ہیں اور آج پیش بھی کردیا جاتا ہے اور موصوف اٹھانے میں اتنا آگے نکل گئے کہ یوسف رضا گیلانی جیسے کرپٹ آدمی کو ہمارے مرشد سے تشبیہہ دینے لگ گئے
نادرا نے ااہم عوامی اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں 70 لاکھ شہریوں کی فوتگی کا اندراج یونین کونسلز کے شہری رجسٹریشن مینجمنٹ سسٹم (CRMS) میں موجود ہے، لیکن قریبی رشتہ داروں نے نادرا میں ان کے شناختی کارڈ کی منسوخی نہیں کرائی، جو کہ ایک قانونی تقاضا ہے نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا ) کا مزید کہنا تھا کہ نادرا دستیاب موبائل نمبرز پر ائس ائن ائس بھیج رہا ہے۔ مرحوم کے قریبی رشتہ دار یعنی بیٹا/بیٹی، شریک حیات یا والدین میں سے کوئی ایک فوری طور پر کسی بھی نادرا مرکز سے بغیر کسی فیس کے متوفی کا شناختی کارڈ منسوخ کرائیں نادرا نے مزید کہا کہ اگر یہ کارروائی نہ کی گئی تو متوفی کے قریبی رشتہ داروں یعنی بیٹا/بیٹی، شریک حیات یا والدین کو اپنی شناختی دستاویزات کی نادرا میں پروسیسنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر فوتگی کا اندراج غلط ہے تو براہ کرم متعلقہ یونین کونسل سیکرٹری سے ریکارڈ کی تصحیح کروائیں۔ احمد وڑائچ نے اس پر رعمل دیا کہ بندے کا انتقال ہو گیا، اہلخانہ نے یونین کونسل میں رجسٹریشن کرا دی، ایک سسٹم میں ریکارڈ درج ہو گیا، سسٹم آن لائن ہے۔ وہاں سے ڈیٹا لے کر خود ہی شناختی کارڈ کینسل کر دو۔ شہریوں کا نادرا سنٹر بلا کر ذلیل کرنا لازم ہے؟ سعود سمیع نے کہا کہ جب ریکارڈ CRMS میں موجود ہے کہ یہ افراد فوت ہو گئے ہیں تو آپ خود ہی شناختی کارڈ منسوخ کردیں۔ رشتہ داروں نے جب یونین کونسل کی سطح پر اطلاع دے دی ہے تو یہی کافی ہونی چاہئے۔ راشد عباسی نے ردعمل دیا کہ دھرا طریقہ کار اپنانے کا کیا فائدہ؟؟؟ جب نادرا کے سسٹم میں فوتگی کا ریکارڈ درج ھو جاۓ تو خود کار نظام کے تحت شناختی کارڈ بلاک کر دیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ اندازہ کریں کسقدر بونگے لوگ ان اداروں پر مسلط ہیں اس ٹویٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ فوتگیوں کا اندراج ہے لیکن شناختی کارڈ منسوخ نہیں کیے جا رہے کیونکہ فوتگی کا اندراج نہیں
مریم نواز حکومت نے آج 60 صفحات پر مشتمل اپنی کارکردگی کی رپورٹ جاری کی ہے جسے تمام بڑےا خبارات نے جاری کیا ہے، یہ 60 صفحات دراصل 60 اشتہارات ہی ہیں جن کے اخراجات پنجاب حکومت برداشت کرے گی۔ فرحان منہاج نے ویڈیو کی شکل میں 60 صفحات شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ آج کی اخبارات میں آپکو 60 صفحات مناسب ترین قیمت میں ملیں گے اور اچھی خاصی ردی جمع ہو جائے گی علینہ شگری کا کہنا تھا کہ مریم حکومت کا ایک سال؛ 60 صفحات۔۔۔آج کے اخبارات۔۔اشتہارات ہی اشتہارات ! علینہ شگری نے مزید کہا کہ ”دبنگ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اپنی کارکردگی سے میاں صاحب کا انتخاب درست ثابت کردیا۔۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کے دفاع میں ہر قیمت پر ثابت قدم “ اس پر ریاض الحق نے تبصرہ کیا کہ یہ شاید پہلی بار ہے کہ ایک حکومت نے اخبارات میں اپنی کارکردگی سے متعلق پورا سپلیمنٹ ہی چھاپ دیا۔ اس طرح کے سپلیمنٹ ایکسپوز، سفارت خانے اور بڑی کمپنیاں چھپواتی ہیں۔ ثاقب بشیر نے کہا کہ پنجاب حکومت کے پاس پیسہ بہت ہے اور انہوں نے اشتہاروں میں بہا دیا راشد نے تبصرہ کیا کہ یہ 60 صفحات آج کے دن کا ایونٹ ہے، اسکے بعد یہ صفحات پکوڑے سموسے، آلوچھولے والوں کے پاس نظر آئیں گے ابصا کومل نے تبصرہ کیا کہ ان اخبارات کا اب سے صحافت سے کوئی تعلق نہیں، کیا ان کو پنجاب حکومت کا تشہیری پلیٹ فارم سمجھا جائے۔حکومت کی چاپلوسی کا شوق اور معاوضہ تو ختم ہو جائے گا ، مگر گنوائی ہوئی ساکھ کبھی حاصل نہیں ہو سکے گی۔ ان اخبار مالکان اور ایڈیٹرز نے صحافت کے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں۔ سحرش مان نے طنز کیا کہ گواچی عزت ہتھ نئیں اوندی پاویں لکھ اشتہار چھپائیے ماجد نظامی نے تبصرہ کیا کہ اتنے سال بیت گئے، بہت کچھ بدل گیا۔۔۔ باپ کے بعد بیٹی وزیراعلی بن گئی۔۔۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ شریف خاندان میں وقت تھم سا گیا ہے، قد آور اخباری تصاویر کا خمار ابھی دل سے نہیں نکلا اور نوے کی دہائی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ شیخ وقاص اکرم نے ردعمل دیا کہ منصوبے تحریک انصاف کے تختی مریم نواز کی ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ اب اخبار بھی خبروں سے محروم ہو گئے۔ اب عوام کے ٹیکس کے پیسے پر صرف مریم نواز کی مشہوری ہی ہمارا واحد قومی نصب العین ہے صحافی قمر میکن نے تبصرہ کیا کہ مریم نواز شریف صاحبہ اخباروں اور ٹی وی چینلز کو پیسہ دے کر عوام کی نظر میں عزت و مرتبہ خریدنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں،انہیں پتا ہونا چاہیے کہ عزت و مرتبہ خریدا نہیں بلکہ کمایا جاتا ہے۔ سعید بلوچ نے ردعمل دیا کہ گزشتہ روز بتایا تھا کہ ساٹھ صفحات آ رہے ہیں، پہلے پی ٹی آئی کے منصوبے بند کیے، پھر کچھ عرصہ بعد ان منصوبوں پر اپنی تختی لگائی اور نیا منصوبہ بنا کر لانچ کر دیا، اس نقل پر ساٹھ صفحات اور عوام کا پیسہ برباد کر دیا گیا احمد وڑائچ نے لکھا کہ عظمیٰ بخاری پارٹی اور عوام میں یکساں مقبول، میڈیا بھی معترف پنجاب حکومت کی دبنگ اور نڈر ترجمان، بے باکی کی مثال مریم نواز کے دفاع میں ہر قیمت پر ثابت قدم، مخالفین بھی معترف مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ حکومت کوئی بھی ہو صحافت بکنے کو تیار ہے

Back
Top