سوشل میڈیا کی خبریں

ڈاکٹر مراد راس اور فیض اللہ کموکا ایک پریس کانفرنس کرکے بری۔۔ماریہ میمن نے 9 مئی کے حوالے سےانتہائی اہم سوالات اُٹھا دیے ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ مراد راس اور فیض اللہ کموکا کا نام پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں میں تھا جو مبینہ طور پر 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے ، مراد راس نے چار ٹی وی شوز میں شرکت کی لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا شاید اس کی وجہ پریس کانفرنس ہو ماریہ میمن نے مزید کہا کہ آئی جی پنجاب کی پریس کانفرنس کے مطابق مراد راس صاحب کا نام بھی ملزمان لسٹ میں شامل ہے۔۔23 فون کالز کے باوجود مراد راس صاحب نہ تو گرفتار ہوئے بلکہ پریس کانفرنس کرنے بعد بطور آزاد شہری مختلف ٹیلیویژن شوز پر دکھائی دیتے ہیں۔۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا باقی ملزمان کے لئیے بھی مطلوبہ سہولت میسر ہونے کے امکانات ہیں؟ ماریہ میمن نے مزید کہا کہ فیض کموکہ صاحب بھی 54 کالز کے باوجود پریس کانفرنس کرنے کے بعد قانون کے شکنجے سے آزاد ہیں۔
میڈیا پرپی ٹی آئی ورکر کی جانب سے مبینہ طور پر پیٹرول بم بنا کر پھینکنے سے متعلق گردش کرنےوالی ویڈیو کی حقیقت سامنےآگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ چند روز سے میڈیا پر ایک ویڈیو بہت تیزی سے گردش کررہی تھی جس میں ایک پی ٹی آئی کارکن کو دوران احتجاج ہاتھ میں بوتل پکڑےدھوئیں میں لپٹی کوئی چیز پولیس کی جانب پھینکتے دیکھا جاسکتا ہے، یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے پراپیگنڈہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی کارکن نے پیٹرول بم بنا کر پولیس کی جانب پھینکا ہے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے اس پورے واقعہ کی حقیقت کا پول کھول دیا گیا ، شیئر کی گئی ویڈیو میں مبینہ طور پر پیٹرول بم پھینکنے والے واقعہ کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن پولیس کی جانب سے پھینکے گئے آنسو گیس کے شیل کو سڑک کنارے رکھی "کون" سے ڈھانپ لیتا ہے ،نوجوان کے ہاتھ میں پانی کی بوتل پکڑی ہوئی ہے جو اسے آنسو گیس کے اثرات کو زائل کرنے میں مدد دے گی۔ نوجوان اسی کون کے نیچے سے آنسو گیس کا شیل نکال کر دوبارہ پولیس کی جانب پھینکتا ہے اور اس کی گیس کو مظاہرین کے مقام پر پھیلنے سے روکتا ہے۔ تاہم میڈی پر اس واقعہ کی ادھوری ویڈیو شیئر کرکے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی گئی کہ پی ٹی آئی کے کارکن مظاہروں کےد وران پیٹرول بم بنا کر پولیس پر پھینک رہے تھے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کی جیل سے رہائی پر پنجاب پولیس کے ترجمان کا عمران خان کو جواب۔۔ جناح ہاؤس حملہ کیس، پنجاب پولیس یاسمین راشد کی بریت چیلنج کرے گی عمران خان نے ٹویٹ میں لکھا ڈاکٹر یاسمین کو لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے کیس میں اے ٹی سی نے بے گناہ قرار دے دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وسطی پنجاب کے صدر کی حیثیت سے، تحریک انصاف کا بطور جماعت اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا،لہٰذا پی ٹی آئی کے خلاف سارا کریک ڈاؤن اس بہانے کیا گیا پارٹی نے تشدد کی منصوبہ بندی کی تھی، اس بیانیے کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ اس پر پنجاب پولیس کے ترجمان کا بھی جواب سامنے آگیا اور کہا کہ پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی رہنما داکٹر یاسمین راشد کی رہائی کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پنجاب پولیس کے مطابق نو مئی کے واقعات میں ملوث یاسمین راشد سمیت دیگر افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، انسداد دہشت گردی کا حکم نامہ محض ابتدائی مرحلہ ہے، ابھی پولیس کو فرانزک بنیادوں پر کی گئی تفتیش وثبوت پیش کیا جانا باقی ہے۔ پنجاب پولیس کے مطابق مقدمات کی تفتیش کرنا پولیس کا اختیار ہے، کیس کی تفتیش مکمل ہوئے بغیر ملوث افراد کے بارے حتمی رائے قائم کرنے کا تاثر درست نہی/ ،پنجاب پولیس کا یہ بیان یاسمین راشد کی بریت کے حوالے سے عمران خان کے ٹوئٹ کے جواب میں جاری کیا گیا،یان میں مزید کہا گیا عدالتی حکم کو چیلنج کیا جائے گا، کیونکہ پولیس کو کیس میں فرانزک ثبوت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا،عدالت کے حکم کو ہائیکورٹ کے حکم کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے پولیس کیس کی تحقیقات اور عوام کے سامنے سچ لانے کا حق محفوظ رکھتی ہے،اس مرحلے پر کوئی بھی قبل از وقت مفروضہ یا اندازہ گمراہ کن ہونے کا امکان ہے،اے ٹی سی نے یاسمین کو ڈسچارج کر دیا،اے ٹی سے حکم دیا تھا اگر یاسمین راشد کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کر دیا جائے۔ اس موقع پر پنجاب پولیس کے ترجمان نے بطور ثبوت کچھ آڈیوز بھی پیش کیں۔
نوازشریف عالم اسلام کے مقبول ترین لیڈر ہیں، طیب اردگان دوسرے نمبر پر۔۔ ن لیگی کارکنوں نے اپنا سروے پیش کردیا ن لیگی کارکنوں نے ایک سروے دکھایا ہے جس میں نوازشریف کو مسلم امہ کا مقبول ترین لیڈر بناکر پیش کیا گیا ہے اور انکی مقبولیت 51 فیصد تک ہے۔ ن لیگی سپورٹرز کے اس سروے کے مطابق طیب اردگان عالم اسلام کے دوسرے مقبول ترین لیڈر ہیں جن کی مقبولیت 25 فیصد جبکہ محمد بن سلمان کی مقبولیت 19 فیصد ہے اور وہ مسلم امہ کے تیسرے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ سروے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی مقبولیت 9 فیصد دکھائی گئی ہے۔ اس سروے میں عمران خان کو 1 فیصد مقبولیت کیساتھ عالم اسلام کا لیڈر دکھایا گیا ہے۔ ن لیگی سپورٹرز کے مطابق اس سروے میں 12500 افراد نے حصہ لیا ہے۔ یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ یہ افرادصرف پاکستان سے ہیں یا نہ دنیا بھر سے ۔ دلچسپ امریہ ہے کہ اس سروے کو کسی ن لیگ کے رہنما یا ن لیگ کے آفیشل اکاؤنٹس نے اہمیت نہیں دی سوشل میڈیا صارفین نے اس خودساختہ سروے پر دلچسپ تبصرے کئے ہیں اور کہا ہے کہ پھر ڈر کس بات ہے؟ آجاؤ میدان میں، الیکشن سے کیوں بھاگ رہے ہو؟ کسی نے مشورہ دیا کہ میاں صاحب کو اگلی فلائٹ پر ہی پاکستان آجان چاہئے
قصور سے تعلق رکنے والے تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر کرنل ریٹائرڈ ہاشم ڈوگر جنہوں نے کچھ دن پہلے تحریک انصاف چھوڑدی تھی،وہ پی ٹی آئی کارکنوں کی جیل سے رہائی کے معاملے پر سامنے آگئے جس پر عطاء تارڑ نے انہیں باز آنے کا مشورہ دیا۔ کرنل ہاشم ڈوگر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ میں کوشش کروں گا کہ پورے پنجاب میں جو لوگ احتجاج میں شامل تھے مگر پر تشدد نہیں تھا ، انکے خلاف کیس بھی ختم ہوں اور جیلوں سے بھی رہا ہوں اس پر عطاء تارڑ کا ردعمل سامنے آگیا اور کرنل ہاشم ڈوگر کو باز آنے کا مشورہ دیدیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر آپ راہ راست پر آ گئے ہیں مگر لگتا یہ کہ آپ اپنی طبیعت سے مجبور، فراڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وضاحت فرما دیں کہ آپ کیسے رہا کرائیں گے شر پسندوں کو؟ ہر جگہ پر تشدد احتجاج ہوا، شامل ہونا اور تشدد نہ کرنا، بات سمجھ نہیں آئی۔ باز آ جائیں اس پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ ڈوگر صاحب آپ حکومت میں رھتے ھوئے وزیر ھوتے ھوئے کچھ نہیں کر پائے تھے اب تو ویسے آپ نے پارٹی بھی چھوڑ دی ھے ۔ لہذا برائے مہربانی اپنا منجن دوسری بس میں جا کر بیچیں انہوں نے مزید کہا کہ پلیز ہم پہ احسان مت کریں۔ آپ صوبائی وزیر تھے تو عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تک درج نہیں کراسکے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے تحلیل ہوئے نوے روز سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی انتخابات کی تاریخ بھی گزر چکی ہے، جس پر قانونی ماہرین کی جانب سے اظہار خیال کیا جارہا ہے۔ پلڈاٹ کے نمائندے احمد بلال محبوب نے ٹوئٹ میں لکھا کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کروانا آئینی تقاضا ہے، لیکن اگر ایک یا چند اسمبلیوں کی تحلیل کی بعد جزوی انتخابات ہوتے تو اس سے نگران حکومتوں سے متعلق ہماری آئینی شق A1)224) عملاً معطل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا آئینی شق 218(3) پر بھی عمل نہ ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ ہم نے تمام اسمبلیوں کے بیک وقت انتخاب کی حمایت کی، پی ٹی آئی اور حکومت کی مذاکراتی ٹیموں نے بھی اس سے اتفاق کیا اور اب سپریم کورٹ بھی اس حل کی طرف مائل نظر آتی ہے۔نئی اسمبلی شاید ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس سقم کو دور کر پائے۔ احمد بلال نے مزید کہا آئین کی تینوں شقوں 224 1A 224 ،2 اور 218(3) کو ملا کے پڑھنا ہوگا،میں اس بارے الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی درخواست کےاستدلال سے متفق ہوں۔ سلمان اکرم راجا نے جوابی ٹویٹ میں لکھا آپ کی منطق کے مطابق صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں الیکشن کی شق کبھی نا فذالعمل نہیں ہوسکتی۔ وفاقی و دیگر صوبائی اسمبلیوں کی معیاد کی تکمیل کے بعد بہ یک وقت الیکشن ہی ممکن ہیں۔ یہ منطق 90 دن کی حد کو آئین میں ایک بے معنی دھبہ بنانے کے مترادف اور آج کی تباہی کا سبب ہے۔
معروف اینکر اور صحافی عامرمتین کاکہنا ہے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ موجودہ صحافتی نمائندے اتنے کمزور،کمپرومائزڈ ہیں کہ ہم آپنی آزادی اظہار کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں عامرمتین کا کہنا تھا کہ عامرمتین کا کہنا تھا کہ صرف تاریخ اور یاد دھانی کے لیے عدلیہ تحریک اک ناکام تحریک تھی۔ پہلے دن صرف چند درجن وکیلوں نے بھی حوصلہ نہی کیا تھا۔ جب صحافی اس میں شامل ہوئے اور اس کو میڈیا پر دکھانا شروع ہوا تو یہ تحریک بنی۔ آج کالے کوٹ والے کہاں ہیں جب میڈیا کے لیے خوفناک قدغنیں آ چکیں ہیں۔ہمیں کون بچائے گا انہوں نے مزید کہا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ موجودہ صحافتی نمائندے اتنے کمزور،کمپرومائزڈ ہیں کہ ہم آپنی آزادی اظہار کی حفاظت نہیں کر سکتے۔اس سے بڑی قیامت تو مارشل لاء میں نہیں آئی مگر صحافتی آڑ میں چھپے گماشتےخاموش ہیں۔ ہمیں اپنی صفیں درست کرنی پڑیں گیں۔ ورنہ یہ ایجنٹ ہمیں سمیت آئین اور جمہوریت کو بیچ دیں گیں عامر متین نے مزید کہا کہ موجودہ بحران،آئین، جمہوریت کی بے حرمتی کے زمہ دار سپریم کورٹ بھی ہے۔بڑی کرسیوں پر بھیٹھے بونے اپنی زاتی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔بحث یہ نہی کہ کون ٹھیک ہے یا غلط۔مگر سب اس بے توقیری کے زمہ دار ہیں۔ عدالتوں کی کوئ حیثیت نہی رہئ۔انکا کوئ ڈر نہی۔لڑتے رہیں مگر لڑائ ان کے گھر بھی پہنچے گی انہوں نے کہا کہ جب عدالتیں لیٹ جائیں تو پھر کس کو الزام دیں۔ زمہ دار وہ جج بھی ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات بچانے کے لیے انصاف کے تقاضے پورے نہی کیے۔ اور وہ جج بھی جو اس کی مزاحمت کی آڑ میں جانتے بوجھتے یا معصومیت میں استعمال ہوئے۔ اب ہم آئینی اختمام کے دھانے پر آ پہنچے ہیں۔ مبارک ہو آپ کو سینئر صحافی کے مطابق جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت مارشل لا میں پیش کیا تھا۔باقی جج بھی ضیا اور مشرف کے مارشل لا میں جھکے تھے۔ موجودہ ججوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ جمہوریت-جیسی کیسی ہی سہی-میں سر نگوں ہوئے۔ شرم آتی ہے کہ ہم آپ کی آزادی کے لیے لڑتے رہے۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو کوئ بھی فتح یاب نہی ہو گا عامرمتین کا کہنا تھا کہ ہمارے ارشد شریف شہید ہو چکے جس کی تفتیش میں آپ کا کردار بہت مشکوک ہے۔ آپ نے بہت کمزوری دکھائ۔ سینکڑوں صحافی اس وقت جعلی مقدمات لڑ رہے ہیں۔ عمران ریاض کا پتہ نہی وہ زندہ ہے یا نہی۔ کئ اور ملک بدر ہو چکے۔آپ بھی بچیں گیں نہی۔شائد آپ کو بھی افتخار چوہدری کی طرح بالوں سے گھسیٹا جائے۔ انہوں نے دعا کی کہ خدا ایسا دن نہ دکھائے مگر ایسا ہو تا ہماری طرف مت دیکھیے گا کیونکہ آپ نے ہماری اور آئین کی پاسبانی نہی کی۔ بس لڑتے رہیں۔ اس مقولے کی طرح کہ میں چپ ہوا کیونکہ ……بس جب ہاتھ آپ کے گریبان پر پڑیں گے تو آپ کو بچانے کے لیے کوئ نہی رہ گیا ہو گا۔ کیونکہ آپ وقت پر کھڑے نہی ہوئے۔ عامرمتین نے کہا کہ میں کسی سیاسی پارٹی کے حق یا مخالفت میں نہی کہ رہا۔ گزارش ہے کہ جو بھی فیصلے کرنے ہیں کر دیں تا کہ ہمیں پتہ چلے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ تاریخ اور جورسپروڈنس کو چھوڑیں عام آدمی کو فیصلہ کرنے دیں۔ جو بھی کریں بس فیصلہ کر دیں۔ کیونکہ لٹکانا منافقت ہے۔ کمزوری ہے۔جواب دیں۔
تحریک انصاف اور عمران خان کے بغیر پاکستانی میڈیا۔۔ کسی بھی شو میں تحریک انصاف کے نمائندوں کو مدعو نہیں کیا گیا تفصیلات کے مطابق پیمرا کی جانب سے عمران خان اور تحریک انصاف پر پابندی لگادی گئی ہے، پیمرا کی جانب سے ہدایات جاری کی گئیں کہ ایسے افراد جو ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں، لسانی اور صوبائی تعصب ابھارتے ہیں،انکا مکمل بلیک آؤٹ کیاجائے۔ اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کی تصویر دکھانے پر اور عمران خان کا نام لینے پر پابندی لگادی گئی اور کسی بھی چینل نے تحریک انصاف کے کسی نمائندے کو اپنے ٹاک شوز میں مدعو نہیں کیا۔بعض چینلز اور اینکرز غلطی سے عمران خان کا نام لیتے رہے۔ گزشتہ روز پرائم ٹائم شوز میں صرف حکومتی نمائندے اور حکومت کے حامی صحافی نظر آئے جبکہ حکومت کے مخالف صحافیوں کو بھی جگہ نہ دی گئی۔ٹاک شوز میں دلچسپ بات یہ دیکھی گئی کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے نمائندوں کے ساتھ حکومت کے حامی صحافیوں کو بٹھایا گیا اور یکطرفہ پروگرام کئے گئے۔ ان پروگرام میں تحریک انصاف کو توڑنے ، نئی سیاسی جماعت کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال ہوتا رہا، تحریک انصاف پر تنقید کی گئی لیکن کسی پی ٹی آئی نمائندے کا موقف تک نہ لیا گیا۔ بعض چینلز پر عمران خان کا نام تو لیا گیا لیکن تنقید کے انداز میں کہ عمران خان نااہل ہوجائیں گے، تحریک انصاف اور سیاست سے مائنس ہوجائیں گے، انکا کیس فوجی عدالتوں میں چلے گا۔ تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا صارفین کا خیال ہے کہ اس طرح الیکٹرانک میڈیا کا ستیاناس ہوجائے گا کیونکہ ٹاک شوز اور چینلز عمران خان کی بدولت ہی چلتے ہیں، اگرتحریک انصاف کا نقظہ نظر پیش نہیں کیا جائے گا انہیں موقع نہیں دیا جائے گا تو الیکٹرانک میڈیا کیسے سروائیو کرے گا؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اب عمران خان کے مخالفین بھی انکا نام لیں گے تو لفظ عمران خان میوٹ کردیا جائے گا، انکی سیاست توعمران خان کا نام لینے پر ہی چلتی تھی، عمران خان کا نام لینے پر پابندی لگ گئی تو انکے پاس کہنے کو پیچھے کیا رہ جائے گا؟
گزشتہ روز ہیومین رائنٹس کمیشن کی سربراہ حنا جیلانی نے 9 مئی کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال پر پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے فوجی عدالتوں، تحریک انصاف پرپابندی اور بے گناہوں کو جیلوں میں ڈالنے کی مخالفت کی۔ ہیومین رائنٹس کمیشن کی سربراہ حنا جیلانی نے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے پاکستان کی سیاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی کوئی بھی کوشش ایک غیر متناسب اور غیر محتاط اقدام ہوگا جس سے مستقبل میں ایک بری مثال قائم ہوگی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ پریس کانفرنس کسی چینل نے نہیں دکھائی ، صرف جیو نے حناجیلانی کی سائیلنٹ کرکے پریس کانفرنس دکھائی اور عرفان قادر کی پریس کانفرنس کو سنانے کو ترجیح دی۔ اس پر ابصاکومل نے تبصرہ کیا کہ جب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایک طویل پریس کانفرنس کر رہا تھا تو میڈیا نے اسے خاموش کرایا اور حکومتی نمائندے کو دکھانے کو ترجیح دی جو سیاسی مخالف پر کرپشن کے الزامات دہرا رہا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ میڈیا اس مسئلے کا حصہ بننا چھوڑ دے۔ مغیث علی نے طنز کرتے ہوئے لکاھ کہ آج صرف جیو نیوز نےہمت دکھائی اورہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چئیرپرسن حناجیلانی کوسکرین پردکھایا،آوازنہیں سُنائی،یہ پریس کانفرنس نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں ہی تھی لیکن کسی نےنہیں دکھایا،ایچ آرسی پی نےکہا،انسانی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں،کسی جماعت پر پابندی کیخلاف ہیں۔۔!!! جس ملک میں پاکستان کے برائے نام ہیومن رائٹس کمیشن کی چئیرمین محترمہ حنا جیلانی جو کہ گذشتہ پندرہ ماہ سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر خواب غفلت سے اٹھ کر پریس کانفرنس کرنے آئی اور ان کو میڈیا پر دکھایا نہیں گیا اسی ملک میں فواد چوہدری کی پریس کانفرنس براہ راست دکھائی گئ۔ ظفراللہ کا کہنا تھا کہ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نمائندوں نے پاکستان کے موجودہ حالات پر پریس کانفرنس کی لیکن نہ تو کسی چینل کا مائک سامنے پڑا ہے، نا کسی چینل نے دکھایا۔ ریاض الحق نے لکھا کہ پریس کلبز میں یہ واحد پریس کانفرنس ہے جو لائیو نہیں ہوئی
گزشتہ روز فوادچوہدری ، عمران اسماعیل اور دیگر رہنماؤں نے شاہ محمودقریشی سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر پریس کانفرنس کی جس میں فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ 25 کروڑ عوام کو آصف زرداری اور نواز شریف کے سہارے نہیں چھوڑا جاسکتا، پاکستان میں بے یقینی کی صورتحال ہے اور اس کی براہ راست ذمہ دار پی ڈی ایم حکومت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شاہ محمود قریشی سے ملنے آئے ہیں ، تفصیلی گفتگو ہوئی ہے ، ہمیں حل نکالنا ہے ،ہم حل نکالنے کی طرف جائیں گے ، اسد عمر ،شاہ محمود ،فرخ حبیب ،حماد اظہر ،پرویز خٹک ،اسد قیصر سے گفتگو ہوئی ہے یہ مشکل وقت آیا ہے ہم اس مشکل وقت سے نکل آئیں گے ۔ اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے نتیجہ اخذ کیا کہ فوادچوہدری شاہ محمودقریشی کے پاس مائنس ون فارمولہ لیکر آئے ہیں یعنی تحریک انصاف رہے لیکن عمران خان کے بغیر۔جس پر سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ عمران خان اور تحریک انصاف لازم وملزم ہیں، عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مائنس عمران خان کی بات کرنے والے یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کے پی ٹی آئی ہی عمران خان اور عمران خان ہی پی ٹی آئی ہے، جنہوں نے پارٹی چھوڑدی ہے وہ کسی اور پارٹی میں جانے کی تیاری کریں، عمران خان کو مائنس کرکے انکی واپس کا پلان کامیاب نہیں ہوگا۔ جمشید دستی نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ جہانگیرترین کی صورت میں ایک اور مصطفیٰ کمال لانچ کرنیکی تیاری ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو پاک سرزمین پارٹی کا ہوا۔ عمرانعام کا کہنا تھا کہ بزرگ سہی کہتے تھے: ایک چپ سو سکھ!!پارٹی چھوڑنے والے فواد چوہدری، عمران اسماعیل، ابرار الحق اور دیگر جب تک چپ تھے تو عمران خان کے کارکنان بھی چپ تھے لیکن چھوڑنے والوں کی گفتگو کے بعد اب کارکنان بھی چپ نہیں رہے!!کسی کو کچھ نہ ملے سب لڑتے رہیں اس میں کس کا بھلا ہے انورلودھی نے تبصرہ کیا کہ فواد چودھری نے آج پریس کانفرنس کر کے اس حکومت کے خلاف نئی جدوجہد کرنے کی جو بات کی اگر وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مفاد میں نہ ہوتی تو وہ پریس کانفرنس کے فوراً بعد ہی گرفتار ہو جاتے۔مطلب عمران خان کو چھوڑ کر جو بھی دھڑا یا پارٹی بنے گی وہ پی ٹی آئی کے مفاد کے خلاف ہو گی ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ تحریک انصاف کو الیکشن ہرانا ناممکن ہے اس کے لئے بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی اور پارٹی پر پابندی لگانا پڑے گی ۔۔ کمپنی کا بظاہر پلان یہ ہے کہ الیکشن تحریک انصاف ہی جیتے تاکہ عوام کا غصہ بھی نکل جائے اور الیکشن کو کریڈیبلیٹی بھی مل جائے لیکن کسی طرح عمران خان مائنس ہو جائے ۔۔ لائبہ جدون کا کہنا تھا کہ مائنس عمران خان کی بات کرنے والے یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کے پی ٹی آئ ہے ہی عمران خان اپنی اوقات کے مطابق بندہ بات کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے،میرا ووٹ بینک عمران خان کی وجہ سے ہے محسن عالم نے لکھا کہ فواد چودھری نے آج گراؤنڈز بنانا شروع کر دی ہے ، ابھی سٹارٹ میں یہ پی ڈی ایم کو برا بھلا کہیں گے ، عمران خان کے خلاف نہیں بولیں گے ،جیل میں موجود کارکنان کی رہائی کی بات کریں گے ، تا کہ عوام کے دل جیتے جا سکیں ، پھر آہستہ آہستہ یہ اپنی اصلیت دکھانا شروع کریں گے ، لیکن یاد رکھیں خرم نے تبصرہ کیا کہ ہاں جی لاتعلقی عمران خان سے تھی یا تحریک انصاف سے، سیاست بھی نہیں چھوڑی اور تحریک انصاف بھی، بس(-) حافظ فرحت عباس نے لکھا کہ تحریک انصاف کا مطلب ہمارے اور عوام کے لیے صرف عمران خان ہے. عوام ایسی سازش کا سوچنے اور مہرا بننے والوں کو معاف نہیں کرے گی کامران واحد کا کہنا تھا کہ مائنس عمران خان ہو نہیں سکتا یہ کر نہیں سکتے، بظاہر پریس کانفرنس سے لگتا ہے صلح صفائی سے واپسی کے راستے ہموار کیے جا رہے ہیں۔۔۔ عمیر حسن نے لکھا کہ مائنس ون کا سوچنا بھی وقت . اس وقت تم لوگوں کی حیثیت یہ یے کہ عمران خان کی ٹکٹ کے بغیر کونسلر کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے. اس وقت پوری پاکستانی قوم کی آخری امید عمران خان ہے اور مائنس ون کے خواب دیکھنے والوں کو یہ قوم کبھی معاف نہیں کرے گی وقاص اعوان نے لکھا کہ جب پارٹی چھوڑ دی تو پھر کیسے واپس جائیں گے ۔یا تو عمران خان کی مرضی جائیں گے یا مائنس عمران ہوگا مقدس فاروق اعون نے لکھا کہ اگر فواد چوہدری نےفرخ حبیب,عاطف خان کا نام لیا ہوتا,کارکنان کو جیلوں سے نکالنے کی بات نہ کی ہوتی توصاف بات تھی نئی پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے،ابھی بہت کنفوژن ہےپریس کانفرنس کامقصد کیاہے۔ایک بات طےہے پارٹی جو مرضی بنا لو،مائنس عمران فارمولا پی ٹی آئی سپورٹرز بالکل قبول نہیں کریں گے۔۔!! احمد بیگ نے لکھا کہ عمران خان کو ہٹا کر پارٹی قیادت شاہ محمود قریشی سنبھالے اور باقی سب واپس پارٹی جوائن کرلیں ۔۔ یہ پلان لگ رہا ہے، اور جن کو اس پلان پہ عمل کیلئے ملاقاتوں کا کہا گیا ہے انکو بھی پتہ ہے "ووٹ صرف عمران خان کا ہے" ارم زعیم نے لکھا کہ فواد چوہدری اور دیگر کی پریس کانفرنس بہانہ تھیں۔مائنس عمران خان کے لیے راستہ ہموار کیا جا رہا تھا۔عمران خان کو آئین قانون کی گرانٹی اور واسطے دے کر اسمبلیاں بھی تحلیل کروائی گئیں۔یہ جتنا بھی زور لگا لیں ۔خان مائنس نہیں ہو سکتا ۔البتہ انکو اپنی اوقات جلد پتا لگ جائے گی وقاص امجد کا کہنا تھا کہ یہ جن جن کے نام لیے گئے ہیں۔۔۔ ان کی بھول ہے کے عمران خان سے الگ ہو کر کچھ ہو جائے گا۔۔17 جولائی کا الیکشن دیکھ لیں، 20 میں سے صرف 4 لوگ جیتے تھے جو عمران خان کو چھوڑ کر گئے تھے۔۔اب تو 20 میں سے ایک والی بھی صورتحال نہیں ہے۔۔ انورلودھی نے مزید کہا کہ یہ پریس کانفرنس مائنس ون فارمولا ہے... عمران خان کے علاوہ جو بھی اپوزیشن بنے گی وہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کی بی ٹیم ہی ہو گی ریحان نے لکھا کہ سارا پاکستان عمران خان کے ساتھ ہے۔ پی ٹی آئی کا وجود عمران خان کی وجہ سے ہے اور عمران خان ہے تو ہی عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ جو بھی اپنے قد سے زیادہ بڑی سازش میں مصروف ہو، محتاط ہوجائے، بہت اونچی چھلانگیں لگانے سے کہیں پتلون نیچے نہ گرجائے۔ اختر خان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم نہی چل سکی اور کچھ سیاسی لوٹے اور سیاسی بونے عمران خان کے بغیر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ فواد چوہدری کو سنا جاتا تھا اور توجہ سے۔ اب صرف دیکھا جائے گا، رحم آمیز نظروں سے ۔ہارون الرشید
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف چھوڑنے کا مذاق بن گیا، معروف شخصیات کی پارٹی چھوڑنے کی میمز وائرل اب تک تحریک انصاف کے متعدد رہنما پریس کانفرنس کرکے پارٹی چھوڑچکے ہیں۔ ان رہنماؤں کی پریس کانفرنس کا سکرپٹ ایسا جیسا ہے جس میں دو جملے مشترک ہیں، ایک میں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں اور دوسرا مجھ پر کوئی دباؤ نہیں۔ پہلے تحریک انصاف کے سپورٹرز میں پارٹی چھوڑنے پر پریشانی تھی لیکن اب پی ٹی آئی سپورٹرز ان پریس کانفرنسز کو انجوائے کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس نے بھی مقدمات ختم کروانے ہیں وہ عدالت نہ جائے بلکہ نیشنل پریس کلب جائے اور پریس کانفرنس کرکے اپنے آپکو کلئیر کرلے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے پر سوشل میڈیا صارفین کی بنائی گئی میمز بہت مقبول ہورہی ہیں، کوئی شاہ رخ خان کی تحریک انصاف چھوڑںے کی ویڈیولیکر آرہا ہے تو کوئی کرینہ کپور، لیون میسی، سنیل سیٹھی اور جوبائیڈن کی۔ جمشید دستی نے کلپ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا شاہ رخ خان نے تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ دیا فیاض شاہ نامی سوشل میڈیا صارف نے کرینہ کپور کی بنائی ہوئی ویڈیو شئیر کی جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ میں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتی ہوں اور تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتی ہوں ایک سوشل میڈیا صارف نے سنیل سیٹھی کی تحریک انصاف چھوڑنے کی بنائی وڈیو شئیر کی اسی طرح ایک سوشل میڈیا صارف نے لیو میسی کی پی ٹی آئی چھوڑنے کی ویڈیو شئیر کی جنید نامی سوشل میڈیا صارف نے جوبائیڈن کی تحریک انصاف چھوڑنے کی ویڈیو شئیر کی۔
گزشتہ دنوں ہارٹ اٹیک کے باعث ہسپتال منتقل ہونیوالے سلیم سرور جوڑا کو دوبارہ پولیس نے گرفتار کرلیا۔۔ ڈاکٹرز کے بارباراصرار پر پولیس گرفتار کرنے کیلئے بضد رہی اور گرفتار کرکے لے گئی اپنے ٹوئٹر پیغام میں چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ ”جبری علیحدگیوں“ کیلئے کس بےشرمی سے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے، یہ مناظر خود اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کرنے سے تحریک انصاف کیلئے ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں اور اس کے ووٹ بنک میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان فسطائی حربوں سے پاکستان کے عوام اور اداروں کے مابین خلیج بھی بڑھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ کچھ روز قبل سلیم سرور جوڑا کو پولیس نے ہسپتال سے گرفتار کیا تھا، سلیم سرور جوڑا ہارٹ اٹیک کے باعث ہسپتال مکمل ہوئے تھے لیکن جیسے ہی انکا علاج مکمل ہوا تو پولیس دوبارہ ہسپتال آگئی اور سلیم سرور جوڑا کو گرفتار کرکے لے گئی۔ اپنی گرفتاری کے موقع پر سلیم سرور جوڑا نے کہا تھا کہ مجھے گولی مار دو لیکن میں نے پریس کانفرنس نہیں کرنی-جن لوگوں کے حوالے مجھے بعد میں کرنا ہے ، ابھی سے ان کو دیدو ، بہادر بنو
پی ٹی آئی چھوڑنے اور رہائی کے بعد سابق پی ٹی آئی رہنما علی زیدی کا ٹوئٹر پیغام سامنے آگیا۔ پی ٹی آئی رہنما علی زیدی نے کچھ روز قبل تحریک انصاف اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔وہ جیکب آباد جیل میں قید تھے اور تحریک انصاف چھوڑنے کے اعلان کے بعد انہیں رہا کردیا گیا ہے۔ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد اپنے ٹوئٹر پیغام میں علی زیدی نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول شئیر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جو تم اپنے دل میں چھپاتے ہو، وہ تمہاری آنکھوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ علی زیدی نے گرفتاری کے بعد متعدد بارکہا تھا کہ وہ تحریک انصاف نہیں چھوڑرہےاور کہا کہ ان سے پی ٹی آئی صرف موت ہی چھڑواسکتی ہے لیکن کچھ ہی روز بعد علی زیدی نے پارٹی چھوڑنے کااعلان کردیا۔
پولیس کی جانب سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ میاں مدثر چودھری کو بھی شرپسند قرار دے کر ان کے بڑے بھائی کو اٹھا لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نے خصوصی رپورٹ میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ میاں مدثر کو شر پسند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میاں مدثر عام پی ٹی آئی سپورٹرز کو ورغلا کر شرپسندی کیلئے اکساتا ہے اور انہیں وسائل بھی فراہم کرتا ہے۔ پولیس کے مطابق میاں مدثر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موومنٹ کے بارے میں مطلوب ملزمان کو معلومات فراہم کرتا ہے، اور شرپسند عناصر کو محفوظ مقامات اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے، مذکورہ شخص پولیس اور دیگر اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد بھی شیئر کرتا ہے، لہذا اس شخص کو گرفتار کرکے اس سے سوشل میڈیا مواد ہٹوایا جائے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر میاں مدثرنے اپنی دو تصاویر شیئر کیں جن میں سے ایک عمران خان کے ساتھ تھی اور ایک سابق ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور کے ساتھ تھی۔ مدثر میاں نے اپنی عمران خان کی تصویر کو شرپسند اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ تصویر کو محب وطن قرار دیا۔ خیال رہے کہ مدثر میاں ایک سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں جو سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کے دور میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے ساتھ ففتھ جنریشن وار بھی لڑتے رہے ہیں ، جب سابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سے ملاقات کی تھی تو مدثر نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ تصویر بھی بنوائی تھی۔ دوسری جانب پولیس نے میاں مدثر پر پرچہ کاٹنے کے بعد ان کے بڑے بھائی میاں وقاص کو اٹھا لیا ہے۔
پولیس کی زیرحراست خواتین کو کیسے ٹریٹ کیا جارہا ہے؟ ویڈیو سامنے آگئی پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے ایک ویڈیو شئیر کی ہے جس میں پولیس پی ٹی آئی کی گرفتار خاتون عدالت لیکر جارہی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ گرفتار خاتون کے چہرے پر شاپر چڑھایا ہوا ہے اور اسے عدالت لیکر جایا جارہا ہے۔ فرخ حبیب نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ کس انداز سے خواتین کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے یہ کوئی دہشت گرد نہیں انہوں نے کسی معصوم کی کان نہیں لی ابھی ان پر الزامات ثابت ہونا باقی ہی لیکن غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے انکے ساتھ حماداظہر کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے خواتین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بلیک میل، ہراساں کرنا، دھمکیاں، غیر قانونی گرفتاریاں اور شاید اس سے بھی زیادہ۔ لیکن خواتین بھی ان گھٹیا ہتھکنڈوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ صحافی عمران بھٹی کا کہنا تھا کہ پولیس کہتی ہم خواتین کی تذلیل نہیں کر رہے شاید پولیس کی زبان میں تذلیل کسی اور کام کو سمجھا جاتا ہوگا
معروف گلوکار اور پی ٹی آئی رہنما ابرارالحق نے تحریک انصاف چھوڑدی، تحریک انصاف چھوڑتے ہوئے ابرارالحق شدید دکھ، رنج کے عالم میں نظر آئے اور انہوں نے روتے ہوئے نظم پڑھ کر تحریک انصاف کو الوداع کہا۔ اسکے اگلے ہی روز لوگوں نے ایک اور منظردیکھا جب ابرارالحق لندن میں علیم خان کے ہاؤسنگ پراجیکٹ کے زیراہتمام ایک کنسرٹ میں گاتے ہوئے نظر آئے جس پر وہ شدید تنقید کا نشانہ بنے۔ سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ اگر ابرارالحق نے یہی کرنا تھا تو کم از کم ایک دو ہفتے کا بریک ہی لے لیتے، اگر اگلے دن کنسرٹ ہی کرنا تھا تو ایک دن پہلے رونے دھونے کا ڈرامہ کرنیکی کیا ضرورت تھی۔ صحافی طارق متین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابرار الحق لاھور میں رونے کے بعد علیم خان کے فنکشن مین جا کر شرکت کی۔ ایک دن بعد افسوس، پشیمانی، رونا دھونا سب غائب تھا۔میں پریشان ہوں کہ ایک دن بعد کیسے باہر جاکر آہوں آہوں کرلیتے ہیں۔ مقدس فاروق اعوان نے تبصرہ کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اس وقت جیلوں میں ہیں جو باہر ہیں وہ بھی گھٹن زدہ ماحول اور دیگر بہن بھائیوں کے لیے فکر مند ہیں، ابرار الحق کم از کم ہفتے دو کا تو بریک لے لیتے، پیسے آنے جانے والی چیز ہے،آزادی کے گانے بنانے والےاپنے گانوں پر جھومنے والوں کے لیے تھوڑی ہمدردی تو دکھاتے عدیل کا کہنا تھا کہ ابھی ابرار الحق کا ناچتے گاتے ہوے ایک کلپ دیکھا بےشرمی کی انتہا ہے ویسے! ادھر پوری قوم کی نیندیں حرام ہوئی وی ہیں، اور یہ کل بیٹھا مگھرمچھ کے آنسو بہا رہا تھا اور آج لندن میں کھڑا ٹھمکے لگا رہا ہے جمیل فاروقی نے لکھا کہ شاید ابرارالحق کو اندازہ نہیں تھا کہ لوگ چاہے لندن کے ہوں یا لاہور کے ، دل گرفتگی اور مگرمچھ کے آنسوؤں کے درمیان فرق کرنا بخوبی جانتے ہیں بلال بشیر نے تبصرہ کیا کہ ابرار الحق آپکا انجام جواد احمد سے بھی زیادہ بھیانک ہو گا ابھی تو ابتدائے عشق ہے روتا ہے آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا عمرجٹ نے لکھا کہ کیسے منافق ہیں یار کل تک جو ابرالحق قابل نفرت تھا آج اس ابرارلحق کی عزت و تکریم کے لیکچر دے رہے ہیں۔پی ٹی آئی میں تھا تو ابرارلحق دنیا کا گھٹیا ترین گویا تھا آج پی ٹی آئی چھوڑ کے لندن اپنی پارٹی کے لیے گانے پہنچا تو مقدس ہوگیا۔۔او منافقو کتھے کھلو وی جاو۔۔
ن لیگی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے عوام میں اپنے بیانیے کو فروغ دینے کیلئے پنجابی اسٹیج ڈرامے کی مدد لینے کا اچھوتا آئیڈیا، سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک چھوٹا سا کلپ وائرل ہوا جس میں پنجابی اسٹیج کے اداکار عمران خان مخالف اور نواز شریف کی حمایت میں اداکاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں، ڈرامے میں دو بھائیوں کو عمران خان اور نواز شریف کی حمایت میں لڑتے ہوئی دکھایا گیا ہے ، بڑے بھائی کی جذباتی باتوں کے بعد عمران خان کی حمایت کرنے والا چھوٹا بھائی عمران خان کی تصویر پھینک کر نواز شریف کی تصویر کو گلے سے لگالیتا ہے۔ ڈرامے میں دونوں بھائیوں کی ماں اور بہن بھی موجود ہیں جو عمران خان کی مخالفت میں نوجوان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتی دکھائی گئی ہیں۔اداکاروں کی اوورایکٹنگ اور"اخیر ہدایت کاری" پر سوشل میڈیا پر خوب مذاق بننا شروع ہوگیا ہے ۔ یہ اچھوتا آئیڈیا عوام میں عمران خان کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور "عظیم لیڈر" نواز شریف کی محبت کو اجاگر کرنے کیلئے اپنایا گیا تھا تاہم سوشل میڈیا پر اس عمل پر ن لیگ کا ہی مذاق بن گیا۔ سینئر صحافی و بلاگر صدیق جان نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ نے ٹک ٹاک پر پی ٹی آئی کوٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ صحافی و اینکر پرسن اکبر باجوہ نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ یہ کس جینئس کا پلان ہے، اسے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ عرفان ملک نے مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کوبرا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ کوئی تو ڈھنگ کا کام کرلیا کرو۔ کلیم نامی صارف نے "پشپا " کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ڈائریکشن کی اخیر کردی، بالخصوص جب چھت سے منظر کو فلمایا گیا تو ضمیر ایک دم جاگ گیا، آج سے میں بھی "صدیوں بعد پیدا ہونے والے لیڈر" کی سپورٹ شروع کررہا ہوں۔ فرحت نے اوور ایکٹنگ پر اداکاروں کی اجرت میں سے ایک ایک قیمے والا نان مائنس کرنے کا مطالبہ کردیا۔ بوٹااردوگان نامی صارف نے عمران خان کے اپنے مخالفین سے متعلق پڑھا لکھا نا ہونے اور تعلیم حاصل نا کرنے کی خواہش والا بیان شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان لوگوں کو 50 سال کیلئے ملک اسی لیے دیا کہ"وطن کا کاروبار" چلے۔
فواد چوہدری نے پارٹی کیا چھوڑی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی تصویر بھی ہٹادی، سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا اپنا ٹوئٹر کوور تبدیل کردیا، انہوں نے امریکی مصنف کے ایک قول کی تصویر اپنے ٹوئٹر کوور میں لگائی۔ امریکی مصنف کا قول یہ ہے ‘استقامت اپنا انجن بننے دیں اور اپنے ایندھن کی امید کریں۔ اس سے پہلے فواد چوہدری نے سابق وزیراعظم عمران خان کی تصویر اپنے ٹوئٹر کوور پر لگا رکھی تھی،فواد چوہدری کے ٹوئٹر بائیو میں اب تک پاکستان تحریک انصاف لکھا ہوا ہے،فواد چوہدری کی طرف سے 24 مئی کو بذریعہ ٹویٹ تحریک انصاف اور عمران خان سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کرنے کا پیغام جاری کیا تھا۔ فواد چوہدری اور جہانگیر ترین کے ٹیلی فونک رابطے کے حوالے سے بھی خبریں گردش کررہی ہیں، جس پر فواد چوہدری نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ سیاست سے بریک لے رہا ہوں، فی الحال سیاست کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ سابق رکن پنجاب اسمبلی ملک خرم علی نے بھی پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کردیا، پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا جو پی ٹی آئی ہم نے جوائن کی تھی یہ وہ نہیں ہے، نو مئی کے واقعات پر افسوس ہوا، اداروں کو کمزور کرنے والوں کے ساتھ نہیں چل سکتے، ہمارے لئے سب سے اہم پاکستان کے ادارے ہیں، سیاست چلانی ہے تو سب سے پہلے پاکستان کو مضبوط کرنا ہوگا۔
اسلام آباد پولیس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پیغام دیا کہ اطلاعات کے مطابق محکموں کو بدنام کرنے کی منظم مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ہر عہدے کے افسران کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ اداروں کی بدنامی کی جاسکے۔ اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ تمام خواتین قابل احترام ہیں لیکن کچھ کو اس مہم میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ایسے مذموم ہتھکنڈے غیر ملکی انٹیلیجنس ادارے ماضی میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ تمام افسران کو ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی بھی ایسی چال سے بچنے کے لیے معاملات کو شفاف رکھیں۔تمام دفاتر، تھانہ جات اور حوالات میں کیمرے ٹھیک رکھیں۔ اسلام آباد پولیس کے اس ٹویٹ پر سوالات اٹھنے لگے۔ صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ رات بارہ بجے وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس اب اسلام آباد پولیس کی غیر معمولی پریس ریلیز ۔۔ ؟ وسیم عباسی نے تبصرہ کیا کہ پہلے وزیر داخلہ اور اب اسلام آباد پولیس کئ غیر معمولی پریس ریکیز۔۔ آخر ہوا کیا ہے؟؟ فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ اس ٹویٹ کا مطلب چوری اور سینہ سینہ زوری ہے چور کی داڑھی میں تنکا ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ملک میں کچھ نہ کچھ عجیب چل رہا ہے رات 12 کانفرنس اور پولیس اپنے افیسرز کو وارن کر رہی ہے اسلام الدین ساجد نے لکھا کہ اگر پولیس نے کچھ غلط نہیں کیا تو خوف کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ٹویٹ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی ؟؟ وی لاگر سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ اللّٰہ خیر کرے وزیر داخلہ کے بعد اسلام آباد پولیس کی انتہائی مشکوک اور غیر معمولی پریس جاری ہو گئی ہے، لگتا ہے جو بلنڈر اس مکس اچار حکومت اور ریاستی اداروں سے سرزد ہوا ہے وہ معمولی ہرگز نہیں ہے جس کی اتنی شدومد سے پیش بندی کی جا رہی ہے سائرہ بانو نے لکھا کہ محکموں کو بدنام۔۔؟ پہلے کونسی نیک نامی سمیٹی ہوئ ہے وسیم اعجاز نے تبصرہ کیا کہ رانا ثنا اللہ کی رات گئے ایمرجنسی پریس کانفرنس اور اب اسلام آباد پولیس کا اپنے اہلکاروں کو آفیشل کمیونیکشن کی بجائے سوشل میڈیا پر ہدایت نامہ ان افواہوں کو تقویت دے رہیں ہیں کہ حکومت / پولیس سے کوئی بڑا کانٹ ہو گیا ہے جس کو کور آپ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتارنہ کیا جائے کیونکہ یہ ن لیگ میں شامل ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر کا مبینہ خط سوشل میڈیا پر وائرل مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے اور وزیراعظم شہبازشریف کے مشیر عبدالغفار ڈوگر کا ایک مبینہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے فلاں فلاں کارکن اپنی جماعت چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوگئے ہیں انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔ ان پی ٹی آئی کارکنوں میں ملک اشفاق راں، ملک مشتاق راں، ساجدحسین، شوکت حسین، بلال اکرم، شمس الحق شامل ہیں۔ مبینہ خط کے مطابق عبدالغفار ڈوگر کا کہنا ہے کہ میں تصدیق کرتا ہوں کہ حامل ھذا پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ میں جاچکے ہیں لٰہذا انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔

Sponsored Link