پولیو

پاکستان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے، اور عالمی ادارے پاکستان کی انسدادِ پولیو مہم سے غیرمطمئن نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی ڈونرز بھی ناخوش نظر آرہے ہیں۔ عالمی اداروں نے پاکستان کو پولیو کی حالیہ صورتحال پر تشویش سے آگاہ کر دیا اس صورتحال میں عالمی ڈونرز اور تکنیکی شراکت داروں نے انسداد پولیو کے اقدامات مزید تیز کرنے اور موثر حکمت عملی اپنانے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر پاکستان نے اس وائرس پر جلد قابو پانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ رواں سال پاکستان میں پولیو کے 48 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، اور مختلف شہروں میں پولیو مثبت سیوریج سیمپلز بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقے کوئٹہ، کراچی اور خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ہیں۔ پاکستان اور افغانستان عالمی سطح پر پولیو وائرس کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک ہیں، اور ان دونوں ممالک کے درمیان وائرس کی دوطرفہ منتقلی بھی ہو رہی ہے، جس نے انسداد پولیو مہم کو مزید چیلنجنگ بنا دیا ہے۔ اس صورتحال پر صحافی صدیق جان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پولیو کا 48 واں کیس سامنے آ گیا دنیا میں پاکستان دوسرا ملک رہ گیا ہے جہاں پولیو سامنے آ رہا ہے نظام کی توجہ نہیں ہے تمام کمشنرز ڈپٹی کمشنرز کی توجہ تحریک انصاف کو فکس کرنے میں ہے۔
پاکستان نے پولیو کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کر لی ، تین دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران مہلک وباء سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ثمرات سامنے آنے لگے، ملک میں پہلی مرتبہ 12ماہ میں کوئی پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اس حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان انسداد پولیو مہم کے تحت ایک اہم سنگ میل عبور کر چکا ہے۔ پاکستان میں پولیو وائرس کا آخری کیس 27 جنوری 2021 کو رپورٹ ہوا تھا، ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سال گزر گیا اور کوئی نیا پولیو کیس سامنے نہیں آیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کو پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے لگاتار 3 سال تک پولیو سے پاک ہونا ضروری ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے 12 ماہ کے اس طویل وقت میں ملک کو پولیو سے پاک رکھنے کی جدوجہد کے دوران پولیو ٹیموں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اکثر پولیو ٹیموں کو نشانہ بناتے ہیں۔ پولیو ورکر سدرہ حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ زندگی یا موت خدا کے ہاتھ میں ہے، ہمیں بہرحال آنا ہے، ہم صرف اس لیے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ یہ مشکل کام ہے۔ پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کے شہید ہونے کے واقعات عام ہیں، مردان سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع شہر کوہاٹ میں کانسٹیبل کو شہید کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق 2012ء سے اب تک 70 پولیو ورکرز دہشت گرد حملوں میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، زیادہ تر واقعات خیبر پختونخواہ میں رپورٹ ہوئے۔ مردان کے ڈپٹی کمشنر حبیب اللہ عارف نے کہا کہ پولیو ٹیمیں بہت آسان ہدف ہیں، پولیو کے خلاف اس جنگ میں سیکیورٹی کا خطرہ مسلسل جڑا ہوا ہے۔ ہمارا صرف ایک نصب العین ہے کہ ہم پولیو اور دہشتگردوں کو شکست دیں گے۔ انسداد پولیو مہم 1994 سے چلائی جا رہی ہے، جس میں تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار پولیو ورکرز اپنے علاقوں میں پولیو کے ٹیکے لگانے کی سلسلہ وار مہم انجام دے رہے ہیں۔ لیکن پولیو ٹیموں کو اکثر شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ پولیو کے خاتمے کے قومی پروگرام کے سربراہ شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں انسداد پولیو مہم کو مغربی سازش تصور کیا جاتا تھا۔ مردان میں روز صبح دو خواتین اور ایک مسلح پولیس گارڈ پر مشتمل 10 ٹیمیں شہر کے مضافاتی علاقوں میں پھیل جاتی ہیں، یہ ٹیمیں چاک سے ان گھروں پر تاریخیں درج کرتی ہیں اور بچوں کی انگلیوں پر سیاہی لگاتی ہیں جن کو پہلے سے ٹیکے لگائے جاچکے ہوں۔ پیر کو ان ٹیموں کو پولیو کی مزید درجنوں خوراکیں پلائی گئیں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نائیجیریا نے 2020 میں پولیو کا باضابطہ طور پر خاتمہ کر دیا تھا، جس کے بعد دنیا میں اب پاکستان اور افغانستان ہی وہ واحد ملک ہیں جہاں اس بیماری کا خطرہ اب بھی باقی ہے۔ فضلے اور تھوک کے ذریعے پھیلنے والے اس وائرس کے ان دونوں پڑوسی ممالک میں پنپنے کی باقاعدہ تاریخ ہے۔

Back
Top