سیاسی

سائفر سیدھی سیدھی دھمکی تھی ، عمران خان کو وزیر اعظم کی کرسی سے نہ ہٹایا تو تعلقات خراب ہوں گے، سابق سفیر اشرف قاضی سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے کہا ہے کہ سائفر کوئی سازش نہیں تھی بلکہ سیدھی سیدھی دھمکی تھی کہ عمران خان کو کرسی سے نا ہٹایا گیا تو تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے ایک تہلکہ خیز انٹرویو کے دوران انکشاف کیا ہے کہ میں اپنے سفارتی تجربے سے بتارہا ہوں کہ سائفر ایک بہت بڑا معاملہ تھا اس میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائفر میں امریکہ میں واضح انداز میں پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم اس شخص سے خوش نہیں ہیں، جب تک یہ شخص حکومت میں رہے گا امریکہ اور پاکستان کے درمیان مسائل رہیں گے، بلکہ آگے جاکر پاکستان کیلئے مسائل مزید بڑھیں گے، امریکہ نے پاکستان کو وارننگ دی کہ اگر عمران خان کو ہٹایا نہیں گیا تو تعلقات پر برا اثر پڑے گا۔ اشرف جہانگیر قاضی نے کہا کہ سائفر کو سازش کہنے یا نا کہنے کی بحث ہے ہی نہیں، یہ تو سیدھی سیدھی وارننگ تھی، پاکستان کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر یہ شخص جائے تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر شیر افضل خان مروت نے بڑا دعوی کردیا انہوں نے کہا وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم شہباز شریف سے ہونے والی ملاقات سے بانی پی ٹی آئی عمران خان لاعلم تھے۔ ڈان نیوز کے پروگرام ’خبر سے خبر وِد نادیہ مرزا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شیرافضل مروت نے کہا علی امین گنڈا پور کا وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کا فیصلہ اپنا تھا اور عمران خان کو بعد میں اس ملاقات سے آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور نے عمران خان کو ان عوامل کے بارے میں آگاہ کیا جس کے باعث انہیں وزیراعظم کے پاس ملاقات کے لیے جانا پڑا۔ سنی اتحاد کونسل سے قبل پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر شیر افضل مروت نے کہا خیبرپختونخوا کے لوگ پرویز خٹک سے نفرت کرتے ہیں اور وہ صوبے میں نفرت کی علامت ہیں۔ شیر افضل مروت نے مزید دعویٰ کیا پرویز خٹک نے کہا تھا کہ عمران خان سے میری ملاقات کرا دو تو میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کرا دوں گا لیکن ہم نے پرویز خٹک کی یہ آفر مسترد کر دی,پی ٹی آئی کے وکلا کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے سے متعلق سوال پر شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان ہی وکلا کو سامنے لائے ہیں اور وکلا نے پارٹی کو ایسے وقت میں سنبھالا جب پی ٹی آئی شدید مشکلات سے دوچار تھی, وکلا نے ایسے موقع پر تحریک انصاف کو سنبھالا جب احتجاج تو دور کی بات، کسی کو پارٹی پرچم تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی، ایسے میں وکلا ہی منظرعام پر تھے جنہوں نے پارٹی کو اوپر اٹھایا اور یہ صرف عمران خان کی ہدایات پر ہوا ہے۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ پارٹی میں جو شخص جتنا کام کرے گا اسے اتنی عزت ملے گی، کوئی بھی شخص پرانا نام ہونے کے سبب لیڈر نہیں بن سکتا۔ شیر افضل مروت نے سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی مہم پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے لبادے میں میرے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائی جا رہی ہے,کچھ ٹی وی اینکرز کے پروگراموں میں نہ جانے کا نوٹیفکیشن بھی سوشل میڈیا ٹیم نے جاری کیا جسے میں نہیں مانتا کیونکہ ان کی کوئی اوقات نہیں ہے، میرے باس عمران خان ہیں اور میں صرف انہیں جواب دہ ہوں۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایندھن کی درآمدی لاگت کم کرنے اور ترقی پر زیادہ خرچ کرنے کی غرض سے ٹرانسپورٹ سسٹم کو بجلی کے ذریعے چلانے پر کام کر رہا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد چینی نیوز ایجنسی شنہوا کو دیے اپنے پہلے انٹرویو میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان چین اور دیگر ممالک سے صاف توانائی کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا بھی منصوبہ رکھتا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان چین کے ترقی اور خوشحالی کے ماڈل سے غربت کے خاتمے، نوجوانوں کے روزگار کو فروغ دینے اور شہری اور دیہی علاقوں میں زرعی، صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے سیکھ سکتا ہے, چینی جدیدیت نے ترقی کے مراکز اور شعبوں کو عالمی منڈی میں مسابقانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’حالیہ سالوں میں چیلنجوں کے باوجود چین کی ترقی اب بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں بتدریج آگے بڑھ رہی ہے، جو ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد جی ڈی آئی اور گلوبل سکیورٹی انیشیٹو کی مکمل اور مضبوطی سے حمایت کرتا ہے اور اس طرح کے اقدامات سے عالمی برادریوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں,وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے درمیان بدھ کی شام ملاقات ہوئی ہے جسے علی امین گنڈا پور نے ’مثبت‘ قرار دیا,اسلام آباد میں ملاقات کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال اور امیر مقام کے ہمراہ صحافیوں سے بات کی۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملاقات میں وزیر اعظم سے کہا ہے کہ انہیں سینیٹ الیکشن سے متعلق مشاورت کے لیے عمران خان سے ملاقات کرنی ہے جس پر فی الحال پابندی عائد کی گئی ہے۔علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ان سے کہا ہے کہ وہ عمران خان سے ان کی جلد ملاقات کو ممکن بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ دو اپریل کو ہونے والے والے سینیٹ الیکشن کے تناظر میں ان کی عمران خان سے ملاقات ضروری ہے۔علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے ساتھ ان کی ملاقات بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی اور شہباز شریف نے خیبر پختونخوا کے تمام مسائل بشمول بجلی کے بقایاجات کے حل میں مدد کی پوری یقین دہانی کروائی ہے۔
سینئر صحافی اسد طور کی والدہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا بیٹا اڈیالہ جیل میں ہے ملاقات نہیں کروائی جارہی۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی اسد طور کی والدہ کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا ہےجس میں انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اسد طور کی والدہ ہوں، میرا بیٹا دس دن ایف آئی اے کی تحویل میں رہا اور اب سات دن سے وہ اڈیالہ جیل میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں جانتی میرا بیٹا کس حال میں ہے، ہماری ملاقات نہیں کروائی جارہی، ہم ہائی کورٹ سے آرڈر بھی لے کر گئے مگر اڈیالہ جیل انتظامیہ نے ہماری ملاقات نہیں کروائی، جناب چیف جسٹس صاحب آپ اس معاملے کو دیکھیں۔ اسد طور کی والدہ نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب آپ نے ہی کہا تھا کہ اسد پر یہ کیس بنتا ہی نہیں ہے ، یہ کیس کیوں بنایا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس ایف آئی آر کو خارج کرکے میرے بیٹے کو رہا کردیا جائے، یہ ایک ماں کی پرزور پردرد اپیل ہے، چیف جسٹس صاحب قانونی دائرہ کار میں رہتےہوئے ہماری مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ 16 دن ہوگئے ہیں میں نے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا، مجھے نہیں پتا وہ کس حال میں ہے، ہماری کوئی ملاقات نہیں ہے ، کوئی چیز نہیں جانے دی گئی۔
وفاقی کابینہ کی تشکیل کےبعد بھی متعدد اہم وزارتیں اور ڈویژنز وفاقی وزراء سے محروم ہیں- 19 رکنی کابینہ کے حلف اٹھانے کے باوجود کئی اہم وزارتیں خالی ہیں تفصیلات کے مطابق 19 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا ہے مگر ایک درجن سے زائد وزراتیں خالی ہیں جن کا قلمدان وزیراعظم شبہاز شریف نے اپنے پاس رکھ لیا- کئی اہم وزارتوں اورڈویژنز کاقلمدان تاحال کسی کونہیں دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے تمام وزراء کو ایک یا ایک سے زائد وزارت یا ڈویژن کے قلمدان تفویض کئے گئے- اب بھی کل 33وفاقی وزارتوں اور 40 ڈویژنز میں سے ایک درجن سے زائد وزارتوں اور ڈویژن کے قلمدان تاحال کسی کو نہیں سونپے گئے- جو وزارتیں تاحال خالی ہیں، ان میں موسمیاتی تبدیلی، آئی ٹی، مواصلات،بین الصوبائی رابطہ،پارلیمانی امور,صحت اورنیشنل فوڈ سیکیورٹی کاقلمدان شامل ہیں جبکہ وزیراعظم شہبازشریف مذہبی امور،آبی وسائل،امورکشمیر وگلگت بلتستان،نیشنل سیکیورٹی اورتخفیف غربت وسماجی تحفظ ڈویژن کےانچارج وزیربھی خود ہیں۔ ان وزارتوں کو خالی رکھنے کا مقصد فی الحال سامنے نہیں آسکا مگر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ وزارتیں مستقبل میں پیپلزپارٹی کو دی جاسکتی ہیں جبکہ ایک آدھ ایم کیوایم کے حصے میں بھی جاسکتی ہے۔ یادرہے کہ گزشتہ دور حکومت میں شیری رحمان موسمیاتی تبدیلی کی وزیر تھیں، ایم کیوایم کے امین الحق آئی ٹی منسٹر تھے، مواصلات کی وزارت مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے کے پاس تھی۔ وزارت صحت پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل کےپاس تھی۔ وزارت مذہبی امور جے یو آئی ف کے مولانا شکور مرحوم اور بعدازاں سنینٹر طلحہ محمود کے پاس تھی ۔ جبکہ 2008 میں پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ بھی وزیر مذہبی امور رہے ہیں۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی وزارت ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کے پاس تھی ۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ جو وزارتیں خالی ہیں وہ بڑی تعداد میں پیپلزپارٹی کے حصے میں جاسکتی ہیں۔جبکہ ایک وزارت ق لیگ اور ایک ایم کیوایم کو مل سکتی ہے۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ نواز شریف پی ٹی آئی قیادت کو رام کرنے کیلئے قومی اسمبلی کے چار حلقوں کو کھولنے کی خبروں پر اضطراب کا شکار ہیں، ان حلقوں میں وہ حلقہ بھی شامل ہے جہاں سے میاں نواز شریف نے یاسمین راشد کو شکست دی۔ پبلک نیوز کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی نصرت جاوید نے کہا کہ تین چار دنوں سے کچھ سینئر صحافی یہ خبر دے رہے ہیں کہ وسیع تر قومی مفاد میں پی ٹی آئی قیادت کو رام کرنے کیلئے چار حلقے کھولنے کی باتیں کی جارہی ہیں، میاں نواز شریف اس خبر پر اضطراب کا شکار ہیں کیونکہ اس میں وہ حلقہ بھی شامل ہے جہاں سے فارم 47 کے مطابق میاں نواز شریف نے یاسمین راشد کو شکست دی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف اپنے قریبی لوگوں سے بس اتنا پوچھ کر چپ کرجاتےہیں کہ "اے کی خبر اے"، کہانی یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بجائے اس کے کہ حلقے کھلیں اور بات بڑھے، آپ خود ہی اعلان کریں اور علاج کے بہانے باہر چلے جائیں۔ پروگرام کے دوران سینئر صحافی وتجزیہ کار نصرت جاوید عباسی و اینکر عدنان حیدر کے درمیان نواز شریف کے مائنس ہونے اور ان کی ناراضگی کے حوالے سے فرق پڑنے یا نا پڑنے کے معاملے پر بھی گرما گرم بحث ہوئی۔ نصرت جاوید عباسی نے کہا کہ میاں نواز شریف کی باڈی لینگوئج دیکھ کر مجھے لگا کہ میاں صاحب کا رویہ ہے تھا کہ "بیٹھےہیں ہم تہیہ طوفان کیے ہوئے"، میرے پاس خبر ہے کہ میاں صاحب تین افراد سے پوچھ چکے ہیں کہ " اے کی خبر اے"، نواز شریف یہ محسوس کررہے ہیں کہ کوئی جان بوجھ کر ایسی خبریں پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ پروگرام کے میزبان عدنان حیدر نے کہا کہ یہ اب ارریلیونٹ بات ہوگئی ہے، اب اس سے فرق کوئی نہیں پڑتا، نواز شریف خود بھی ارریلیونٹ ہوگئے ہیں، اب شہباز شریف، آصف علی زرداری، مریم نواز ریلیونٹ ہیں ، نواز شریف کی ناراضگی سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نصرت جاوید نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مائنس نواز شریف ہوگیا، کارگل کے وقت ملک کے وزیراعظم نواز شریف کا بولنے سے فرق نہیں پڑتا، ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کے بولنے سے فرق نہیں پڑتا۔
تحریک انصاف کے آزادامیدواروں نے اس الیکشن میں بازی مارلی اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں آگے آگے رہے یہاں تک کہ تحریک انصاف کے بعض امیدواروں نے انفرادی طور پر 2 لاکھ کے قریب بھی ووٹ لئے۔ سب سے زیادہ ووٹ عمران خان کے میانوالی حلقے سے جمال احسن خان اور حافظ آباد سے انیقہ مہدی نے لئے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اُمیدوار جمال احسن خان پاکستان بھر میں 2 لاکھ 17 ہزار چار420 ووٹ حاصل کرکے سب زیادہ ووٹ لینے والے ایم این اے بن گئے۔انہوں نے این اے 89 میانوالی سے عمران خان کی سیٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ دوسرے نمبر پر این اے 67 حافظ آباد سے تعلق رکھنے والی تحریک انصاف کی ہی انیقہ نثار مہدی رہیں انہوں نےدو لاکھ 8 ہزار 943 ووٹ حاصل کئے اور ن لیگ کی سائرہ افضل تارڑ کو شکست دی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حلقے سے انیقہ مہدی کے بھائی شوکت بھٹی الیکشن لڑتے تھے لیکن انکے کاغذات مسترد ہوئے تو انہوں نے اپنے ہی گھر کی خاتون کو میدان میں اتارا جو پردہ دار خاتون ہیں اور انکی الیکشن کمپین انکے والد اور سابق ایم این اے مہدی حسن بھٹی نے لیڈ کی۔ تیسرے نمبر پر این اے 110 جھنگ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ہی امیدوار صاحبزادہ امیر سلطان رہے جنہوں نے 199590 ووٹ حاصل کئے اور 410 ووٹوں سے 2 لاکھ کا ہدف عبور نہ کرپائے مگر انہوں نے ن لیگ کے آصف معاویہ کو بڑی لیڈ سے شکست دی۔ چوتھے نمبر پر تحریک انصاف کے عمر ایوب خان رہے جنہوں نے ایک لاکھ 92 ہزار 948 ووٹ حاصل کئے ۔ پانچویں نمبر پر عمیر نیازی رہے جنہوں نےاین اے 90 میانوالی سے 179820 ووٹ حاصل کئے ۔ اس حلقہ سے تحریک انصاف کے امجد نیازی الیکشن لڑتے ہیں، خیال تھا کہ اگر امجد نیازی کھڑا ہوتے تو وہ 2 لاکھ کا ہدف بھی عبور کرلیتے۔ چھٹے نمبر پر ن لیگ کے قائد نوازشریف رہے جنہوں نے این اے 130 لاہور سے 179310 ووٹ حاصل کئے جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے 104485 ووٹ حاصل کئے ۔ اس حلقہ پر بہت سوالات اٹھائے جارہے ہیں، تجزیہ کاروں کے مطابق نوازشریف کے اتنے ووٹ نہیں تھے انہیں جعلی فارم 47 سے جتوایا گیا ہے اور وہ یہ سیٹ ہارچکے تھے۔ ساتویں نمبر پر استحکام پاکستان پارٹی کے عون چوہدری رہے جنہوں نے 172576 ووٹ حاصل کئے مگر انکی فتح کو کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، یہاں تک کہ تحریک انصاف کے مخالف بھی عون چوہدری کی فتح پر سوالات اٹھارہے ہیں کہ اسے جعلی طریقے سے جتوایا گیا ہے انکے مدمقابل سلمان اکرم راجہ نے 159024 ووٹ حاصل کئے۔ آٹھویں نمبر پر تحریک انصاف کے صاحبزادہ محبوب سلطان رہے جنہوں نے این اے 108 جھنگ سے ن لیگ کے فیصل صالح حیات کو شکست دی تھی۔ صاحبزادہ محبوب سلطان نے 169578 ووٹ حاصل کئے تھے نویں نمبر پر منڈی بہاؤالدین سے تحریک انصاف کے حاجی امتیاز چوہدری اور دسویں نمبر پر بھی تحریک انصاف کے وزیرآباد سے محمد احمد چٹھہ رہے جنہوں نے ن لیگ کے نثارچیمہ کو شکست دی۔
نگراں سیٹ اپ میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات رہنے والے مرتضیٰ سولنگی اپنےد ور میں ایکس( ٹویٹر) بند کروانے کے حکم دینے والے سے لاعلم نکلے۔ تفصیلات کے مطابق ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں سابق نگراں وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی سے جب ان کے دور میں ایکس کی بندش کا حکم دینے والے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو مرتضیٰ سولنگی اس سے لاعلم نظر آئے۔ مرتضیٰ سولنگی نے سوال کے جواب میں کہا کہ نگراں وفاقی کابینہ میں کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حوالے سے کوئی بات زیر غور آئی نا ہی کوئی فیصلہ ہوا، ایکس کو ہم نے بند نہیں کیا تھا، یہ کیوں بند کیا گیا اس کیلئے بہتر ہے چیئرمین پی ٹی اے سے سوال کیا جائے۔ ٹویٹر بند کرنے کا حکم دینے والے شخص کے حوالے سے سوال کے جواب میں مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عین ممکن ہے کہ ایکس کو تکنیکی وجوہات کی بنا پر بند کیا گیا ہو، اسی لیے کہہ رہا ہوں بہتر ہوگا کہ ان سے سوال کیا جائے جو اس معاملے کے متعلقہ ہیں۔ اینکر نے سوال کیا کہ پاکستان میں ایکس کی بندش ہضم ہونے والی بات نہیں ہے، کیا وزارت اطلاعات ونشریات نے اس حوالے سے کوئی انکوائری نہیں کی؟ نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ نگراں وزارت اطلاعات نے اس حوالے سے کوئی انکوائری کنڈکٹ نہیں کی، کسی کو بات ہضم نہیں ہورہی تو بہتر ہے وہ ہاضمے کیلئے بہتر انتظامات کرے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس(ٹویٹر) گزشتہ کئی روز سے بند ہے، اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ایکس اور انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے حوالے سے احکامات بھی کام نہیں آئے اور ملک میں آج تک ایکس کی سروس معطل ہے۔
جہانگیر ترین 60 سے 70 فیصد پی ٹی آئی کو اپنی جماعت میں شامل کرسکتے ہیں، سلیم صافی کا جہانگیر ترین سے متعلق پرانا دعویٰ جہانگیرترین جن کے ذریعے ایک سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی بنائی گئی اور اس میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سے پارٹی چھڑوا کر شامل کروایا گیا۔۔ تحریک انصاف کے کئی درجن مضبوط ترین رہنما جہانگیرترین کی جماعت کا حصہ بن چکے تھے ، خیال تھا کہ جہانگیرترین تحریک انصاف کا خاتمہ کردیں گے لیکن الیکشن 2018 میں پیشنگوئی غلط ثابت ہوئی اور جہانگیرترین اپنی سیٹیں بھی ہارگئے اور سیاست سے آؤٹ ہوگئے جبکہ انکی جماعت کے منتخب ارکان عون چوہدری، علیم خان اور گل اصغر خان کی جیت بھی سوالیہ نشان ہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی کا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے جہانگیر ترین کے حوالے سے ماضی میں کیا گیا ایک دعویٰ سامنےآیا ہےجس میں ان کا کہنا تھا کہ 60 سے 70 فیصد پی ٹی آئی جہانگیر ترین کے پاس چلی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق سلیم صافی کی ماضی میں کی گئی گفتگو کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین عقل کے لحاظ سے عمران خان سے بہت آگے ہیں، جہانگیر ترین چینیوں کی طرح بولتے کم ہیں مگر عمل زیادہ کرتے ہیں، پی ٹی آئی کو بنانے میں اور اس میں شامل اکثریت کو لانے میں جہانگیر ترین کا اہم کردار تھا۔ سلیم صافی نے مزید کہا کہ جہانگیرترین نے سب سے زیادہ وسائل عمران خان پر خرچ کیے، اگر وہ نا ہوتے تو شائد عمران خان کبھی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جہانگیر ترین خود ہی پی ٹی آئی کو ختم کردے گا کیونکہ 60 سے 70فیصد پی ٹی آئی کے اراکین تو جہانگیر ترین کے پاس چلے جائیں گے۔ خیال رہے کہ سلیم صافی کا یہ تجزیہ 9 مئی کے بعد اور موجودہ انتخابات سے پہلے کا تھا اور یہ وہ تجزیے یا نقطہ نظر تھے جس کی وجہ سے شائد خود جہانگیر ترین بھی کسی خوش فہمی کا شکار ہوگئے تھے مگر عام انتخابات کے نتائج نے ان کی خوش فہمی اور سلیم صافی جیسےسیاسی پنڈتوں کی رائے کو یکسر بدل کررکھ دیا کیونکہ جہانگیر ترین لودھراں اور ملتان سے الیکشن ہارنے کے بعد نا صرف اپنی پارٹی بلکہ سیاست سے بھی مستعفیٰ ہوگئے ہیں۔
تحریک انصاف کی 93 کے قریب قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی 117 کے قریب نشستوں پر اب تک 7 ارکان نے وفاداریاں بدلیں ، ان میں ایک رکن قومی اسمبلی جبکہ 6 صوبائی ممبرز شامل ہیں۔ جن ممبران نے تحریک انصاف کیساتھ ہاتھ کیا، ان میں لاہور سے منتخب ہونیوالے رکن قومی اسمبلی وسیم قادر جبکہ پنجاب اسمبلی سے ساجد منان مظفرگڑھ ، علی اصغر گرمانی لیہ، غضنفر قریشی جھنگ ، سلطان باجوہ ننکانہ صاحب اور شازیہ ترین لودھراں شامل ہیں۔ خیال یہ تھا کہ تحریک انصاف کے ارکان بڑی تعداد میں ن لیگ یا پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا، کچھ ارکان کو اغوا بھی کیا گیا مگر انہوں نے بھی وفاداریاں تبدیل کرنے سے انکار کردیا۔ حماداظہر نے اپنے تفصیلی ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ تحریک انصاف کی 94 قومی + پنجاب میں 117 صوبائی (211 ٹوٹل) نشستوں میں تمام ریاستی جبر اور رشوت کے باوجود اب تک 1 قومی اور 6 صوبائی کے ممبران لوٹے بنے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس لئے رجیم کا تمام تر انحصار بھونڈی ترین فارم 47 کی جعل سازی پر ہے۔ تقریباً 80 نشستیں قومی اور 100 صوبائی پر یہ جعل سازی ہوئی جا کے تمام ثبوت موجود اور اکثریت کیس عدالتوں میں درج ہو چکے ہیں۔ حماداظہر کا کہنا تھا کہ وزیراعلی پنجاب کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار میاں اسلم اقبال ہیں اور انھوں نے آج پنجاب اسمبلی کےحوالے سےتفصیلی پریس کانفرنس کی ہے۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جلد بلایا جائے گا۔ میں ، میاں اسلم اقبال اور تمام ریجنل صدور ممبران سے رابطے میں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ یہ فارم 47 میں جعل سازی کے تمام نمونے جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے اور یہ ملک اور ریاست عوام کے پاس واپس آئے گی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کو گزرے 10 سال ہوگئے ہیں۔اس سانحہ میں 14 افراد جاں بحق اور 79 کے قریب زخمی ہوئے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران پولیس اہلکاروں نے بے گناہ اور حاملہ خواتین کے منہ پر گولیاں ماریں۔ اگرچہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں اہم کردار اس وقت کی شہبازشریف کی پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کا ہے لیکن بدنامی گلو بٹ کے حصے میں آئی جو اس سانحے کے دوران لوگوں کی گاڑیاں توڑرہا تھا۔ گلو بٹ کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں وہ انتہائی تشویشناک حالت میں ہے اور انتہائی اذیت کا شکار ہے۔ خاندان کے مطابق گلو بٹ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، گلو بٹ تین ماہ سے نہایا نہیں، واش روم بھی نہیں گئے، پیمپر لگا ہوا ہے، 2 بار برین ہیمرج ہو چکا، شوگر کا بھی مریض ہے، مقدس فاروق اعوان کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑیاں توڑنے کی ویڈیو پر سوشل میڈیا انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل ملزمان گلو بٹ کی ویڈیو کے پیچھے چھپ گئے، ان کی وجہ سے جس جس کی دل آزاری ہوئی پلیز وہ انہیں معاف کر دےکیا پتہ ان کی تکلیف کم ہو جائے صحافی شاکر محمود نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کو 10 سال ہوچکے ہیں دنیا کی عدالت نے فیصلہ نہیں کیا،، اللہ کی عدالت نے فیصلے سنانا شروع کردئیے ہیں،،ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ گلو بٹ کو نہلانا نہیں،، پانی سے دور رکھنا ہے نہیں تو موت واقع ہوسکتی ہے،، 3 ماہ سے گلو بٹ نہایا نہیں۔۔ ارم رائے نے کہا کہ آج یہ گلو بٹ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے، جانے کتنے مظالم اس نے کس کس کے کہنے پر غریبوں پے ڈھائے ہونگے۔ اب کون ہے اسکا ہمدرد کون ہے اسکا ولی وارث۔۔ ابھی زیر زمین کا حساب باقی ہے۔۔۔ نئے بننے والے گلو بٹ بھی سوچ لیں اپنا انجام۔۔
استحکام پاکستان پارٹی کی تشکیل کے بعد جو رہنما سب زیادہ متحرک تھے اور بڑے بڑے دعوے کررہے تھے ان میں محمودمولوی اور خرم حمید روکھڑی شامل تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں امیدوار الیکشن میں بری طرح ہارگئے۔۔ محمودمولوی نے این اے 238 کراچی سے حصہ لیا اور محض 191 ووٹ لے پائے اور 13 ویں نمبر پر براجمان ہوئے۔ یہ وہ حلقہ ہے جہاں حلیم عادل شیخ کھڑے تھے اور انہیں ایم کیوایم کے ہاتھوں دھاندلی کے ذریعے ہروادیا گیا۔ محمودمولوی گزشتہ سال اگست میں عامرلیاقت کی وفات کے بعد انکی نشست پر تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے تھے اور انہون نے 29 ہزار 475 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ الیکشن 2018 میں بھی وہ چند ہزار ووٹوں کے معمولی مارجن سے ہارگئے تھے۔ اس طرح خرم حمید روکھڑی نے عمران خان کے آبائی حلقے این اے 89 میانوالی سے الیکشن لڑا مگر استحکام پاکستان پارٹی کی مقبولیت نہ ہونیکی وجہ سے آزادالیکشن لڑنے پر مجبور ہوئے اور انہوں نے 12444 ووٹ حاصل کئے اور چوتھے نمبر پر رہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی حلقے سے تحریک انصاف کے جمال احسن خان کھڑے تھے اور انہوں نے 2 لاکھ17 ہزار 427 ووٹ حاصل کئے تھے، اس طرح خرم حمید روکھڑی 2 لاکھ 5 ہزار ووٹوں سے ہارے
پاکستان پیپلزپارٹی کے تحریک انصاف سے بیک ڈور رابطے، کیا بات ہوئی؟ پارٹی کے تمام سیاسی فیصلے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رضامندی سے ہی ہوتے ہیں: تحریک انصاف آٹھ فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک بھر کی عوام اپنی اپنی پسندیدہ جماعتوں کے حق میں ووٹ کاسٹ کر کے اپنے نمائندے منتخب کر چکی ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں مرکزی و صوبائی حکومتیں قائم کرنے کیلئےجوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ن لیگ کی طرف سے شہبازشریف اور پی ٹی آئی کی طرف سے عمر ایوب کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کی طرف سے پی ٹی آئی سے بیک ڈور رابطوں میں مل کر حکومت بنانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنمائوں کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنمائوں سے بیک ڈور رابطے کر کے مل کر حکومت بنانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے تاہم اب تک ڈیڈلاک برقرار ہے جس کی وجہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی طرف سے مثبت جواب نہ ملنا بتایا جا رہا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سابق وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد بھی تحریک انصاف کے سینئر رہنمائوں کو اس حوالے سے پیغامات بھجوائے گئے ہیں لیکن ڈیڈلاک برقرار ہے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان دوریاں ختم کرنے کیلئے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور نومنتخب رکن قومی اسمبلی سردار لطیف کھوسہ کے ذریعے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے پیپلزپارٹی کو پیغام دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں بااختیار نہیں ہیں کیونکہ حتمی طور پر پارٹی کے تمام سیاسی فیصلے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رضامندی سے ہی ہوتے ہیں۔ رہنما تحریک انصاف اسد قیصر نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو پیپلزپارٹی کی طرف سے رابطہ کاری بارے آگاہ کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی سابق وزیراعظم عمران خان سے جمعرات کو ہونے والی ملاقات میں عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ ایسی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے جو ان انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کر رہیں تاہم پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے سے ڈیڈلاک برقرار ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما ومرکزی سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن نے 2 دن پہلے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ن کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیے جائیں۔
پرویز خٹک جو عمران خان کی حکومت میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا رہے، انہوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر اپنی جماعت بنائی تو انکے لہجے میں سختی آگئی اور عمران خان کو فرعون، ذہنی بیمار کے القابات سے نوازتے رہے۔ اپنی الیکشن کمپین اور بیانات میں وہ بڑے بڑے بول بولتے رہے کہ کسی کا باپ بھی مجھے وزیراعلیٰ پنجاب بننے سے نہیں روک سکتا۔ میری ہی حکومت بنے گی۔ لیکن 8 فروری کو جب الیکشن ہوئے تو پرویز خٹک نے وزیراعلیٰ پنجاب کیا بننا تھا وہ اپنی بھی سیٹ نہ جیت پائے اور نہ صرف وہ بلکہ انکے داماد،بیٹے اور دیگر رشتہ دار بھی ہارگئے۔ پرویز خٹک نے 16 جنوری کو بیان دیا کہ اب پی ٹی آئی کا ذکر ماضی کی کہانیوں میں ہوگا۔عمران خان اپنے کرتوتوں کی وجہ سے انجام کو پہنچا، پوری پارٹی انتخابی دوڑ سے باہر ہوگئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبائی کی 70 اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر 26 امیدوار میدان میں اتار دیے ہیں، بغیر کسی اتحاد اور سیٹ ایڈجسمنٹ کے صوبے میں حکومت بنائیں گے۔ پرویز خٹک نے 23 جنوری کو بیان دیا کہ فروری کو خیبر پختونخوا میں بڑی تبدیلی آئے گی، اندازہ ہے کہ صوبے میں میر ی حکومت بنے گی۔ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی مقابلے میں آتا ہوں آگے جانے کا سوچتا ہوں اسی جلسے میں پرویز خٹک نے بانی پی ٹی آئی کو ذہنی بیمار کہہ دیا اور کہا کہ اسے کسی چیز کا پتہ تک نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت آرہی ہے، کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا۔ دسمبر میں پرویز خٹک نے نوشہرہ کے دو قومی اور پانچ صوبائی اسمبلی کی سیٹوں سے خود، اپنے بیٹوں اور داماد کو کھڑا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ الیکشن جیت کر دوبارہ خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ بنوں گا۔ انکا کہنا تھا کہ میری چالس سالہ خدمات ہیں، نوشہرہ میں اکیلا الیکشن میں کھڑا ہورہا ہوں دیکھتا ہوں میرا کون مقابلہ کرے گا، سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے ورکروں کو تمیز نہیں سکھائی، میں نظام ٹھیک کرنے آیا ہوں۔ سابق وزیر اعظم نے فرعون کا کردار ادا کیا اور تمام پارٹی رہنماؤں نے ہر حال میں سختی سے ان کی پیروی کی۔پی ٹی آئی کی حکومت دراصل عمران خان کا ’ون مین شو‘ تھی جو بادشاہ بننا چاہتے تھے۔
وزارت اعلیٰ پنجاب ساتویں بار اور وزارت اعظمیٰ پانچویں بار شریف خاندان کے ہی گھر میں شریف خاندان 1985 سے سیاست کررہا ہے مگر وزارت اعلیٰ پنجاب ساتویں بار اور وزارت اعظمیٰ پانچویں بار ن لیگ کے اپنے گھر میں پہنچ گئی۔ گزشتہ روز شہبازشریف کو ایک بار پھر وزیراعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا اعلان کیا گیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ شریف خاندان کے گھر کا چوتھا فرد وزیراعلیٰ پنجاب بنے گا۔ شریف خاندان میں سے پہلی بار نوازشریف 1985 میں وزیراعلیٰ پنجاب بنے وہ 1985 سے 1988 کے بعد ضیاء الحق دور میں وزیراعلیٰ بنے، اسکے بعد 1988 کے عام انتخابات کے بعد نوازشریف ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ اگر 1990 میں غلام حیدروائیں وزیراعلیٰ پنجاب تھے مگر وہ نوازشریف اور شہبازشریف کے احکامات پر ہی صوبے کے معاملات چلاتے تھے۔ اسکے بعد 1997 میں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے مگر انکی وزارت اعلیٰ کااختتام مشرف کے مارشل لاء 12 اکتوبر 1999 کو اختتام پذیر ہوا ۔ الیکشن 2008 کے بعد شہازشریف دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور 2013 تک وزیراعلیٰ رہے، 2013 کے عام انتخابات کے بعد شہبازشریف دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور 2018 تک براجمان رہے۔ سال 2022 میں رجیم چینج آپریشن ہوا تو حمزہ شہباز تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرواکر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئےمگر 18 جولائی کا الیکشن ہونے کے بعد ان سے وزارت اعظمیٰ تحریک انصاف نے چھین لی۔ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انکے والد وزیراعظم پاکستان تھے۔ اب مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بننے جارہی ہیں اور شریف خاندان کا چوتھا فرد ہوگا وہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر راج کرے گا۔ اسی طرح وزارت اعظمیٰ بھی شریف خاندان کے پاس رہی ، نوازشریف پہلی بار 1993 اور دوسری بار 1997 میں وزیراعظم بنےاسکے بعد نوازشریف جلاوطن ہوئے مگر الیکشن 2013 میں دوبارہ وزیراعظم بنے ۔ اسکے بعد نوازشریف انتخابی سیاست سے آؤٹ ہوگئے اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن گئے۔اسکی وجہ شہبازشریف کا پنجاب میں ہونا بنی وگرنہ شہبازشریف وزارت اعظمیٰ کے مضبوط امیدوار تھے۔ اسکے بعد عمران خان کو اقتدار ملا مگر رجیم چینج آپریشن کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بن گئے اور وہ 16 ماہ وزیراعظم بنے۔ اگر چہ تحریک انصاف اکثریت میں ہے مگر شہبازشریف پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی مدد سے دوبارہ وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر ورہنما مسلم لیگ ن خواجہ محمد آصف نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں انتخابات کے حوالے سے ایک سوال "نوازشریف تو ووٹ کو عزت دو کی بات کرتے تھے تو کیا یہ ایسے ہونا تھا کہ تحریک انصاف سے ووٹ حاصل کرنے والوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا تھا" کا جواب دیتے ہوئے کہا ٹیکنیکلی دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت ہی دے رہی ہے کیونکہ ن لیگ میں شامل ہونے والے لوگ آزاد حیثیت میں انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلے کا نشان نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدوار اگر اپنی مرضی سے مسلم لیگ ن میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو آ سکتے ہیں ہم تو کسی کو لے اوور نہیں کر رہے نہ ہی کسی کے پاس گئے ہیں۔ پروگرام کے میزبان شاہزیب خانزادہ کے سوال "لوگ جب عمران خان کے پاس جا رہے تھے تو مریم نوازشریف کہتی تھیں کہ لوٹوں کی جگہ باتھ روم میں ہے، اب وہ ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں" پر جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں میں اس سے بطور ایک سیاسی ورکر تو اختلاف نہیں کر سکتا! انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے اس وقت بلکہ کئی دہائیوں سے جو حالات ہیں ان کی بہتری کے لیے تو ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں لیکن بعض دفعہ ایسے حالات ہو جاتے ہیں کہ ان کے اندر رہتے ہوئے ہمیں کام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اس بات پر افسوس ہے لیکن میں آپ کی اس بات پر زیادہ بحث نہیں کروں گا۔
سابقہ صدر پاکستان زرداری نے حامد میر کو فون کر کے بلایا حامد میر پہنچے تو صدر زرداری ایک گن ہاتھ میں پکڑ کر سٹیل کے بنکر میں چھپے بیٹھے تھے۔ اس وقت انکا ہاتھ ٹریگر پر تھا۔ حامدمیر کے مطابق آصف زرداری جس وقت صدر پاکستان تھے تو انہوں نے فون کرکے حامدمیر کوبلایا،وہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور پھر تیسرے کمرے اور اس سے بیڈروم پہنچے جہاں سٹیل کے بنکر میں آصف زرداری چھپے ہوئے تھے اور نکے ہاتھ میں رائفل تھی اور انگلی ٹریگر پر تھی۔ حامدمیر کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے کہا کہ یہ مجھے ماردیں گے اور کہیں گے کہ اس نے خودکشی کرلی تم گواہ رہنا میں لڑتے لڑتے شہید ہوجاؤں گا۔ حامدمیر کے مطابق یہ وہ دن تھے جب میڈیا پر خبریں چل رہی تھیں کہ آصف زرداری کی زبان بندی کردی گئی ہے اور اسکے بعد جنرل کیانی نے مداخلت کرکے انہیں دبئی بھجوایا۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور احمد نے کہا ہے کہ جنرل قمر باجوہ نے پیپلزپارٹی کے وفد سے کہا تھا کہ 18ویں ترمیم کا خمازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا جسے ہم بھگت رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کی الیکشن کے حوالے سے خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا ایک وفد جی ایچ کیو گیا تھا جہاں جنرل باجوہ نے سب کے سامنے کہا تھا کہ" آپ لوگوں نے جو 18ویں ترمیم منظور کی ہے یہ شیخ مجیب کے 6 نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم تو آج تک بھگت رہے ہیں، یہاں آئی جے آئی بن رہی ہے،ملک کو آگے بڑھنے دیں، پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے دیں، بلے کا نشان ان کا حق ہے، میں ہارتا ہوں ہارنے دیں، یہ صرف پی ٹی آئی کے ساتھ ظلم نہیں ہورہا، اسی الیکشن میں ہمارے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ چوہدری منظور احمد نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے چاہتی ہے کہ جمہوریت آگے بڑھے،ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہیے جس میں میں یا میرے جیسے لوگ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے کیونکہ اب یہ صرف پیسے والوں کا کام رہ گیا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں نوازشریف کی الیکشن سے پہلے نااہلی بارے سوال کے جواب میں کہا کہ نوازشریف کے ساتھ بھی اگر زیادتی ہوئی ہے تو وہ نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا میں ایسے جواب دوں گا کہ نوازشریف نے کبھی کسی عدالت میں یہ شکوہ نہیں کیا کہ قانون کے مطابق کارروائی نہیں ہو رہی، ان کے کسی گواہ کا کراس ایگزامینیشن کا رائٹ ختم نہیں کیا گیا، 342 کی سٹیٹمنٹ دینے کیلئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں وقت نہیں ملا۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو سزا دینے سے پہلے 6 ہفتے کا وقت دیا تھا کہ آپ کے پاس جو اربوں کی پراپرٹی ہے اس کے ثبوت جمع کروا دیں جس میں وہ ناکام ہو گئے۔ دوسری طرف ٹرائل کورٹ میں انہی جج صاحب نے فیصلہ کیا لیکن نوازشریف کو وقت دیا گیا تھا جس میں کراس ایگزامینیشن ہوا، ان کی 342 کی سٹیٹ ریکارڈ ہوئی ، کلوزنگ بھی ہوئے لیکن نوازشریف گواہ پیش نہیں کر سکے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان کے کیس میں قانون کے مطابق عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ ہوا اور فیصلہ آنے کے بعد وہ جیل میں چلے گئے لیکن ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ میں نوازشریف کا کیس یہ تھا کہ وہ نااہل ہوئے یا نہیں تاہم ریفرنس نیب نے خود فائل کیا جس پر عدالت نے مانیٹرنگ جج کو اپوائنٹ کیا۔ نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کی طرف سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کے بیان کو تروڑ مروڑ پیش کرتے ہوئے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لکھا کہ: بیرسٹر گوہر خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ زیادتی ہوئی جو کہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ بیرسٹر گوہر کا بیان غلط انداز میں پیش کرنے پر تحریک انصاف کی طرف سے شدید تنقید کی گئی۔ سربراہ پی ٹی آئی مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ صبغت اللہ ورک نے بیرسٹر گوہر کا بیان شیئر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا: چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی گفتگو میں یہ جملہ کہاں بولا ہے جسے نکال کر ہم نیوز ڈیجیٹل میں بیٹھے سائنسدانوں نے عوام کو بیچنے کی نہایت سستی سی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ :ہم نیوز انتظامیہ سے پہلے بھی التماس کی کہ اپنی صفوں میں موجود ان سائنسدانوں سےانکے عزائم و اہداف کے بارے میں پوچھ لیجئے اور اگر ان کی سماعتوں میں کسی قسم کا نقص ہے تو اس کا بندوبست کریں! بصورت دیگر اگر صحافت پیشِ نظر ہے تو وہی کچھ بیان کیجئے جو کہا جاتا ہے! صبغت اللہ نے لکھا: جب جب آپ نے خود سے انجینئرنگ کرنے کی کوشش کی ہے، آپ پکڑے بھی گئے ہیں اور ادارے کا نام بھی خراب ہوا ہے۔یہ حرکت بہرحال نہایت بھونڈی اور قابلِ مذمت ہے! ہم آپ سے شفاف صحافت سے بڑھ کر کچھ بھی توقع نہیں رکھتے، یہ تو نری کِذب فروشی ہے، احساس کیجئے!
تحریک انصاف کے سابق ایم این اے فیض الحسن شاہ نے الیکشن کے دوران ہی تحریک انصاف چھوڑدی تھی، پہلے انکے بھائی کو لاپتہ کیا گیا تھا اور بعدازاں انہیں بھی گرفتار کرکے پارٹی چھڑوادی گئی۔ فیض الحسن شاہ کے پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد انکے بھتیجے سید وجاہت حسنین شاہ نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنیکا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ایک بار پھر گجرات کی سادات فیملی پر برا وقت آگیا انکے خاندان کے مزید افراد لاپتہ ہوگئے۔ سابق ایم این اے اور حلقہ این اے 65 کے امیدوار سید فیض الحسن شاہ کے بیٹے سید مہدی شاہ کھاریاں سے لاپتہ ،خاندانی ذرائع نے سید مہدی شاہ کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کر دی ۔ یاد رہے کہ فیض الحسن شاہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھےجبکہ 9 مئی واقعات کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ان کے بھتیجے وجاہت حسنین اسی حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امید وار ہیں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے امیدوار وجاہت حسنین شاہ کے کزن اور سابق ایم این اے فیض الحسن شاہ کے بھتیجے سید علی رضا شاہ کو بھی نامعلوم افراد نے اٹھا لیا۔ علی رضا کو آنکھوں کی بیماری ہے اور وہ دیکھ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بے شک ائیر چیف مارشل ظہیر سدھو کے بھائی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار نصیر سدھو کی جیت کو ہر صورت ممکن بنایا جائے۔ لیکن اگر بات کسی نابینا کو اغوا کرنے تک آ گئی ہے تو پھر آنکھوں والوں کو ویسے ہی ان کی جیت کا نوٹیفکیشن جاری کر دینا چاہئے
سابق رکن قومی اسمبلی اور این اے30 سے انتخابات میں حصہ لینے والی پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار نے عمران خان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش کے حوالے سے ہوشربا انکشاف کردیئے ہیں۔ سینئر صحافی واینکر پرسن معید پیرزادہ نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار کا انٹرویو کیا اور دوران انٹرویو ان سے غیر ملکی سفیر کی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔ شاندانہ گلزار نے کہا مجھے ٹریڈ اینڈ کامرس پر بات کرنے کے لیے ایک سفیر کی رہائش گاہ پر بلایا گیا اور مجھے گاڑی اندر لے جانے سے روک دیا گیا، ملاقات میں مجھ سے عمران خان سے حوالے سے پوچھا گیاجس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا باس ہے، پالیسیوں پر ہمارا اختلاف بھی ہوجاتا ہے مگر اچھا آدمی ہے بات سنتا ہے۔ شاندانہ گلزار نے کہا کہ مجھ سے پاکستان کے معاشی حالات کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ مستقبل بہت روشن ہے، ہماری ایکسپورٹس میں کورونا کے باوجود اضافہ ہوا ہے، ہم 6 فیصد کی شرح سے ترقی کررہے ہیں۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اس دوران مجھ سے عمران خان کے متبادل کے بارے پوچھا گیا اور کہا گیا کہ کچھ طاقتو ر حلقے یہ چاہتے ہیں کہ آپ پارٹی چھوڑ کر بلاول یا مریم کی پارٹی جوائن کرلیں،میرے لئے یہ جملہ حیران کن تھا ۔ مجھے غصہ بھی آیا کہ کسی ملک کا سفیر ایسے کیسے بات کرسکتا ہے، میں نے کہا کہ ایسی گفتگو سے پرہیز کریں، تو مجھے دو حساس نام لے کر کہا گیا تھا کہ یہ لوگ بھی عمران خان سے خفا ہیں، میں نے جواب دیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ شاندانہ گلزار نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ مریم کی تعلیم مجھ سے کم ہے اور بلاول کا تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ کم ہے، میں کبھی ان کی پارٹی میں نہیں جاؤں گی، جس کے بعد مجھ سے مولانا فضل الرحمان کے بارے میں پوچھا گیا اور کہا گیا کہ وہ بھی پٹھان ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مں نے اس بارے عمران خان،اسد قیصر اور اسد عمر کو بتایا،غیر ملکی افراد کی میٹنگز صرف میرے ساتھ نہیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہوئیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ڈائریکٹ ایمبسی نے رابطہ کیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں ن لیگ کا اکثریتی جماعت بن کر سامنے آنا مشکل ہے اسی لیے نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ آنے والی مخلوط حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے۔ اپنے تازہ ترین وی لاگ میں کامران خان نے کہا کہ کسی کو شبہ نہیں ہے کہ انتخابات 2024 فکسڈ ہیں، چند روز قبل تک یہ امکان تھا کہ میاں نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنیں گے، مگر اس دوران ہونے والی پیش رفتوں کے بعد تیزی سے کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ انتخابات کے بعد وفاقی میں حکومت بنانے کیلئے ن لیگ کو ہر صورت ایم کیو ایم، آئی پی پی اور آزاد امیدواروں کی کمزور بے ساکھیوں پر کھڑا ہونا پڑے گا، نواز شریف اس کمزور اور ایس آئی ایف سی کے سہارے پر کھڑی حکومت کو اپنے کاندھے پر سوار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کامران خان نے کہا کہ نواز شریف کا ذہن بن گیا ہے کہ ایسی کمزور حکومت کی سربراہی شہباز شریف کو سونپ دی جائے، اس فیصلے کو اسٹیبلشمنٹ اور ایس آئی ایف سی کی جانب سے بھی بخوشی قبول کیا جائے گا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ نواز شریف اتنی بڑی قربانی کی ایک سیاسی قیمت بھی وصو ل کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی سیاسی وارث مریم نواز شریف کے پنجاب کی وزیراعلی بننے کی راہ ہموار کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے میں پیپلزپارٹی کی خاموش حمایت بھی کلیدی کردار ادا کرے گی کیونکہ پیپلزپارٹی نے نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے اور اس کے بدلے صدر مملکت کے عہدے کا مطالبہ کردیا ہے، صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی یہ جوڑی اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول ہوگی۔