سیاسی

کراچی: گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کراچی میں ڈمپر اور ہیوی ٹریفک کے حادثات کے شکار خاندانوں کے لیے مالی امداد کے طور پر رہائشی پلاٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ گورنر ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صوبائی حکومت کی جانب سے اس سنگین مسئلے پر خاموشی اور غیر فعالیت پر گہری تشویش اور بے بسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے پاس انتظامی اختیارات ہوتے تو شہر میں کوئی شخص ہیوی ٹریفک کے ہاتھوں کچلا نہ جاتا۔ کامران ٹیسوری نے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ میں ڈمپرز، ٹریلرز اور ٹرکوں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی جائے گی اور انہیں رہائشی پلاٹ دیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا، "جان کا نقصان تو کوئی پورا نہیں کر سکتا، لیکن مالی مدد ان خاندانوں کے آنسو خشک کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔" انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو خط لکھ کر ہیوی ٹریفک حادثات کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی تھی، مگر اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے افسوس سے کہا، "میں خط لکھ سکتا ہوں، جواب مانگ سکتا ہوں، لیکن اس کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں؟ لوگوں کے بچوں کو کچلا جا رہا ہے۔" انہوں نے ڈی آئی جی ٹریفک کو بھی ہدایت دی کہ وہ خود عمل کریں، ورنہ وہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ گورنر نے اعلان کیا کہ صوبے میں منشیات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے گورنر ہاؤس میں ایک شکایتی سیل قائم کیا جائے گا۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ منشیات کے خاتمے کا اہم موقع ہے۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور انہیں منشیات کے "زہر" سے بچائیں۔ اس سلسلے میں اسکولوں اور کالجوں کو خطوط لکھے جائیں گے، جن میں اساتذہ اور طلبہ کے منشیات ٹیسٹ کی تجویز پیش کی جائے گی۔ کامران ٹیسوری نے مزید اعلان کیا کہ رمضان المبارک کے دوران گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے کھلے رہیں گے، جہاں "ات Dotchkas کے تحت "اتحاد رمضان" پروگرام کے تحت 10 لاکھ سے زائد افراد کے افطار کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس پروگرام میں افطار، عشائیہ، تراویح، نعت خوانی اور قوالی کے سیشن شامل ہوں گے۔ انہوں نے عوام اور مذہبی اقلیتوں کو بھی اس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ مزید برآں، بے گھر افراد کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹ مختص کرنے کا منصوبہ بھی پیش کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان تمام فلاحی اقدامات کے لیے عوامی فنڈز استعمال نہیں کیے جا رہے، بلکہ یہ ذاتی عطیات اور دوستوں کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں۔ سیکیورٹی خدشات پر بات کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ وہ وزیر داخلہ اور ہوم سیکریٹری کو خط لکھیں گے اور غیر رجسٹرڈ سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ نقل و حرکت پر پابندی کا مطالبہ کریں گے۔ انہوں نے عوام کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہریوں کی فلاح کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے۔
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے امریکی میگزین "ٹائم" میں شائع ہونے والے عمران خان کے مضمون کو پاکستان کے چہرے پر کالک پھیرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس مضمون کو انتہائی قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت، عدلیہ، مسلح افواج اور دیگر اداروں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان کے مضمون میں پاکستان کی صورت حال کو "سیاہ عہد" قرار دیا گیا ہے، جو کہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مضمون پاکستان کی عالمی سطح پر شبیہ کو مجروح کرنے کی کوشش ہے۔ عرفان صدیقی نے عمران خان کے اس دعوے کو بھی جھوٹا قرار دیا کہ مذاکراتی عمل کے دوران انہیں اڈیالہ جیل سے نکال کر ہاؤس اریسٹ کی پیشکش کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو کسی بھی مرحلے پر ایسی کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔ انہوں نے عمران خان سے سوال کیا کہ وہ بتائیں کہ یہ پیشکش کس کی طرف سے، کس نے اور کب ان تک پہنچائی تھی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان کا یہ مضمون پاکستان کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی شبیہ متاثر ہوتی ہے، بلکہ ملک کے اندرونی معاملات میں بھی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی نے زور دیا کہ پاکستان کے ادارے ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی بہتری کے لیے تعمیری کردار ادا کریں، نہ کہ ملک کی شبیہ کو نقصان پہنچانے والے بیانات دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ہمیشہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے کوشاں رہے گی۔
ٹندو جام: پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیر توانائی و پبلک ہیلتھ سید ناصر حسین شاہ کی جوش خطابت میں زبان پھسل گئی۔ ٹندو جام میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فارم 45 اور فارم 47 کی بہت باتیں ہوتی ہیں، لیکن الحمدللہ پیپلز پارٹی کے جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں، وہ سب فارم 47 والے ہیں۔ تقریب کے دوران صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے ناصر حسین شاہ کی غلطی کی خوبصورتی کے ساتھ وضاحت کی۔ شرجیل میمن نے کہا کہ جس طرح ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم فارم 47 والے نہیں، ہم فارم 45 والے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اور کارکنان انتخابی عمل میں شفافیت کے قائل ہیں اور فارم 45 کے حق میں ہیں۔ فارم 45 اور فارم 47 انتخابی نتائج سے متعلق اہم دستاویزات ہیں۔ فارم 45 پولنگ اسٹیشن کے نتائج کی تفصیلات پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ فارم 47 حلقے کے مجموعی نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔ انتخابات کے دوران ان فارموں کی درستگی اور شفافیت پر اکثر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ناصر حسین شاہ کی یہ بیان بازی پیپلز پارٹی کے اندرونی معاملات اور انتخابی شفافیت پر بحث کا باعث بنی۔ شرجیل میمن کی وضاحت نے اس غلطی کو کسی حد تک کم کیا، لیکن اس واقعے نے سیاسی حلقوں میں گفتگو کا نیا باب کھول دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے واضح کیا کہ وہ انتخابی شفافیت کے قائل ہیں اور فارم 45 کی حمایت کرتے ہیں۔
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی احکامات کے باوجود بانئ پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کے کیس میں اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو 4 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ جیل کو عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کرنے کا حکم دیا ہے کہ کیوں عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ وکیل کے مطابق، بانئ پی ٹی آئی کی بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کروانا 28 جنوری کے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اس معاملے کی سماعت 4 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔ واضح رہے کہ بانئ پی ٹی آئی نے اپنے وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کے ذریعے عدالت سے رجوع کیا تھا، جس میں انہوں نے بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کروانے پر احتجاج کیا تھا۔ عدالت نے پہلے ہی 28 جنوری کو بشریٰ بی بی سے ملاقات کی اجازت دے دی تھی، لیکن جیل انتظامیہ نے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ عدالت نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو 4 مارچ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت کرنے کا حکم دیا ہے کہ کیوں عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اس معاملے کو توہین عدالت کے زمرے میں لیتے ہوئے سخت کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ یہ معاملہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی اور جیل انتظامیہ کے رویے پر سوال اٹھاتا ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ عدالتی احکامات کی پاسداری کرنا ہر شہری اور ادارے کی ذمہ داری ہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل کو اب 4 مارچ کو عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کرنی ہوگی، ورنہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد: پاکستان کے صارفین کو 5جی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے لیے مزید انتظار کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو 5جی اسپیکٹرم کی نیلامی کے سلسلے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اجلاس میں سامنے آئی، جو جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پلوشہ خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ پی ٹی اے کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 5جی کے لیے زیادہ اسپیکٹرم کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس حوالے سے کئی مشکلات درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے اسپیکٹرم کے لیے حکومت پاکستان سے پالیسی ڈائریکٹو کی ضرورت ہے۔ سنہ 2017 میں 5جی کے ٹرائل کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی۔ حکام نے بتایا کہ 5جی سے متعلق ایک ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اس پر کام کر رہی ہے۔ پی ٹی اے نے نومبر میں ایک کنسلٹنٹ کو بھی ہائر کیا تھا، جس نے اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یوفون میں ٹیلی نار کے ضم ہونے کا کیس سی سی پی میں زیر سماعت ہے، اور مارکیٹ میں موجود 3 یا 4 بڑے کھلاڑیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 5جی اسپیکٹرم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ وزارت آئی ٹی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 5جی لانچ کرنے کے بعد بھی تمام صارفین ایک ساتھ 5جی پر منتقل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 5جی اسپیکٹرم کے استعمال سے 3جی اور 4جی کی رفتار بھی تیز ہو جائے گی۔ پاکستان میں اس وقت 3 کیٹگریز کے بینڈ موجود ہیں، جو 5جی کے نفاذ کے لیے اہم ہیں۔ اجلاس میں یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) کے گزشتہ 3 سالوں کے پروجیکٹس پر بھی بریفنگ دی گئی۔ حکام نے بتایا کہ یو ایس ایف کا مینڈیٹ دیہی اور دور دراز علاقوں میں ٹیلی کام سروسز فراہم کرنا ہے۔ گزشتہ 3 سالوں میں 63 پروجیکٹس مکمل کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے ملک کے مختلف گاؤں میں ٹیلی کام سروسز فراہم کی گئی ہیں۔ پی ٹی اے کے حکام نے کہا کہ 5جی کے نفاذ کے لیے درکار اسپیکٹرم کی نیلامی کے سلسلے میں کئی قانونی اور تکنیکی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے اس معاملے پر مزید تفصیلات طلب کی ہیں اور اگلے اجلاس میں پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ صارفین کو 5جی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے حکومت اور پی ٹی اے کی جانب سے مسلسل کوششیں جاری ہیں، لیکن اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
لاہور: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزمان کی عدالت پیشی کے دوران تفتیشی افسر نے انکشاف کیا کہ ملزم ارمغان کے تشدد کا شکار ہونے والی لڑکی زوما مل گئی ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ زوما نامی لڑکی پر ملزم ارمغان نے تشدد کیا تھا، اور اب اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے دوران پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم ارمغان بہت شاطر ہے اور اس کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر ملزم کا میڈیکل ٹیسٹ ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزم کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے، کیونکہ اس سے تفتیش میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ چشم دید گواہان کے بیانات دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کرانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تفتیش کو مکمل کرنے کے لیے ملزم کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست کو تسلیم کرتے ہوئے ملزمان کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ تفتیش کے دوران ملزم کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے، تاکہ تفتیش میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ملزم ارمغان کے تشدد کی شکار لڑکی کے ملنے سے کیس میں ایک نئی موڑ آیا ہے۔ تفتیشی ادارے اب زوما کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے اور چشم دید گواہان کے بیانات ریکارڈ کرانے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ عدالت نے تفتیش کو مکمل کرنے کے لیے ملزم کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا ہے، جس کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوگی۔
اسلام آباد: وزارت خزانہ نے عید الفطر سے قبل ملک میں مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ وزارت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، مارچ 2025 میں مہنگائی کی شرح 3 سے 4 فیصد تک بڑھ سکتی ہے، جبکہ فروری میں یہ شرح 2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ جنوری 2025 میں مہنگائی کی شرح 2.41 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جولائی 2024 سے جنوری 2025 کے درمیان مہنگائی کی اوسط شرح 6.50 فیصد رہی۔ مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران برآمدی صنعت میں ترقی دیکھی گئی، جس کے نتیجے میں مہنگائی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ تاہم، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مارچ میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پالیسی ریٹ میں کمی اور ترسیلات زر میں اضافے کے باعث معاشی استحکام آیا ہے۔ جولائی تا جنوری کے دوران ترسیلات زر میں 31.7 فیصد اضافہ ہوا، جو 20.84 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رمضان، عید الفطر اور عید الاضحی کے دوران ترسیلات زر میں مزید اضافے کی توقع ہے، جو معیشت کے لیے مثبت اشارہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مالی سال کے پہلے سات ماہ میں برآمدات میں 7.6 فیصد اضافہ ہوا، جس کا مجموعی حجم 19.17 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ اسی عرصے میں درآمدات میں 10.9 فیصد اضافہ ہوا، جو 33.31 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھا گیا، جبکہ اخراجات کی بہتر مینجمنٹ نے معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ عید الفطر کے موقع پر اشیاء کی طلب میں اضافے کے باعث مہنگائی میں عارضی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ عوام کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں معاشی استحکام کے مثبت اشارے دیکھے گئے ہیں، لیکن عید الفطر کے موقع پر مہنگائی میں اضافے کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ عوام کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
لاہور: وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ پنجاب بھر میں ہونے والے جلسوں کا مقصد عوامی رابطہ مہم کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پارٹی ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں مصروف تھی، لیکن اب عوام سے براہ راست رابطے کا وقت آ گیا ہے۔ احسن اقبال نے بتایا کہ رمضان المبارک کے بعد پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف ملک کے چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے۔ پنجاب میں ہونے والے جلسوں میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی شرکت کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جلسے پارٹی کی عوامی حمایت کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ عوام نے پی ٹی آئی کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کی عوام منفی سیاست کی حامی نہیں ہے۔ عوام نہیں چاہتی کہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست ہو اور ملک کا قیمتی وقت ضائع ہو۔ واضح رہے کہ نواز شریف نے حال ہی میں سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں اہم ملاقاتیں کی ہیں، جس میں پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما زاہد خان نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی۔ زاہد خان نے یہ اعلان میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر صوبائی صدر امیر مقام بھی موجود تھے۔ زاہد خان نے نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور کے پی میں پارٹی کو فعال بنانے کے لیے تجاویز پیش کیں۔ نواز شریف نے زاہد خان کا خیر مقدم کیا اور پارٹی کو منظم کرنے کا عندیہ دیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، نواز شریف کی سیکرٹری جنرل احسن اقبال، انجئینر امیر مقام، انوشہ رحمان، اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر سمیت دیگر اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں پارٹی کی پوزیشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خیبر پختونخوا تنظیم کے صدر نے گلگت بلتستان انتخابات کے حوالے سے بریفنگ دی۔ خیبر پختونخوا کے پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف کو صوبے کے مختلف اضلاع کا دورہ کرنے کا مشورہ دیا۔ نواز شریف نے گلگت بلتستان کے انتخابات کی تیاری کے لیے تنظیمی عہدیداروں کو ہدایات جاری کیں اور عوامی رابطہ مہم کو تیز کرنے کا حکم دیا۔ نواز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ پارٹی کو منظم کرنے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے مستعدی سے کام کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عوامی رابطہ مہم کو تیز کرنے کے فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی اگلے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ نواز شریف کی قیادت میں پارٹی ملک بھر میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
لاہور: پنجاب میں بڑھتے ہوئے منظم جرائم پر قابو پانے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کے قیام کی منظوری دے دی گئی۔ یہ نیا محکمہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم کی روک تھام اور مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کرے گا۔ اجلاس میں طے پایا کہ سی سی ڈی ڈکیتی، رہزنی، زیادتی، قتل، چوری، اور لینڈ مافیا سمیت 7 بڑے منظم جرائم کے خلاف کارروائی کرے گا۔ محکمہ ڈرون سرویلنس ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا، جس کے تحت جرم کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں سرویلنس ڈرون 5 منٹ میں واقعہ کے مقام پر پہنچ جائے گا۔ سی سی ڈی پنجاب میں جرائم اور مجرموں سے متعلق ڈیٹا مینجمنٹ کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ڈپارٹمنٹ میں تعیناتیوں کی منظوری دے دی ہے۔ سی سی ڈی کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) ہوں گے، جبکہ 3 ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی)، ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں ایس ایس پی، ایس پی، اور ہر ضلع میں ڈی ایس پی تعینات کیے جائیں گے۔ سی سی ڈی مجموعی طور پر 4,258 افسران اور اہلکاروں پر مشتمل ہوگا۔ پنجاب پولیس سے 2,258 افسران اور اہلکار فوری طور پر سی سی ڈی میں منتقل کیے جائیں گے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے سی سی ڈی کے لیے بلڈنگز، گاڑیوں، اور جدید آلات کی منظوری بھی دے دی ہے۔ ساتھ ہی، محکمے کے لیے فوری قانون سازی کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے تاکہ اسے مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لیے ضروری اختیارات حاصل ہوں۔ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سی سی ڈی کا قیام ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف جرائم کی روک تھام ممکن ہوگی، بلکہ مجرموں کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا۔ سی سی ڈی کے قیام سے پنجاب میں جرائم کی شرح میں کمی اور عوام میں تحفظ کا احساس بڑھنے کی توقع ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے عہد کیا کہ حکومت ہر سطح پر عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
فیصل آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائمز ونگ نے جڑانوالہ کے رہائشی ملک مبین نامی ملزم کو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر غلط پوسٹس شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق، ملزم نے اپنی فیس بک آئی ڈی کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب اور ادارے کے خلاف گستاخانہ اور جارحانہ مواد پوسٹ کیا تھا، جس کی شکایت پر ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سینیئر سول جج کریمنل ڈویژن نے ملزم کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ ایف آئی اے کے مطابق، ملزم سے مزید تفتیش کی جائے گی اور اس کے خلاف سائبر کرائمز کے تحت قانونی کارروائی جاری رہے گی۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ نے حالیہ عرصے میں سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے جرائم، خاص طور پر معزز شخصیات کے خلاف غلط معلومات اور جارحانہ مواد پوسٹ کرنے کے واقعات کے خلاف سخت کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس واقعے میں بھی ملزم کے خلاف سائبر قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ملزم ملک مبین سے تفتیش کے دوران اس کے موبائل فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ڈیٹا ریکوری کی جائے گی، تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ملزم نے کسی اور کو بھی ایسے مواد پوسٹ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ سائبر کرائمز کے خلاف کارروائی میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ایف آئی اے کے حکام نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ معزز شخصیات اور اداروں کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلانا یا جارحانہ مواد شیئر کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ معاشرتی امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا صارفین میں تشویش پائی جا رہی ہے، جبکہ حکام نے واضح کیا ہے کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ایسی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بجلی کی سبسڈی، پاک-ایران بارڈر پر تجارتی مسائل، اور دیگر اہم معاملات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ اجلاس کے دوران سینیٹرز نے وزارت خزانہ کے حکام سے سوالات کیے اور ملک کے اقتصادی مسائل پر سخت تنقید کی۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے اجلاس میں کہا کہ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ بیرونی ممالک کے لوگ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اپنے گھر کو کیسے سنبھالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان روزانہ 2.2 ملین ڈالرز کا نقصان اٹھا رہا ہے، جو کہ ہمارے نظام میں موجود خامیوں کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام نے بجلی کی سبسڈی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سبسڈی کو صرف بی آئی ایس پی کے مستحقین تک محدود کرنے کی تجویز پر کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں وزارت خزانہ، پاور ڈویژن، اور متعلقہ کمپنیاں مل کر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، سینیٹر انوشے رحمان نے کہا کہ بجلی پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس سے پورا ملک بھکاری بننے پر مجبور ہو رہا ہے۔ **پاک-ایران بارڈر پر تجارتی بحران:** اجلاس میں پاک-ایران بارڈر پر 600 ٹرکوں کے روکے جانے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ایرانی سفارتکاروں نے بتایا کہ پاکستان نے ایرانی ٹرکوں پر بینک گارنٹی کی شرط عائد کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے روزانہ 2.2 ملین ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایرانی سفارتکار نے کہا کہ 6 ماہ قبل تک 600 ٹرک روزانہ بارڈر پر آتے تھے، لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر 400 ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان 1987 کے معاہدے کے تحت بینک گارنٹی کی شرط تھی، لیکن 2008 کے معاہدے میں اس شرط کو ختم کر دیا گیا تھا۔ سینیٹر فاروق نائیک نے کہا کہ ایرانی سفارتکاروں کی بریفنگ نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں ہر کوئی صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس معاملے کو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اٹھایا جائے۔ **بارٹر ٹریڈ معاہدہ بند:** سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر ٹریڈ معاہدہ کسٹمز کے پیچیدہ قوانین کی وجہ سے بند ہو چکا ہے۔ کسٹمز حکام نے بتایا کہ بارٹر ٹریڈ کے لیے بینک گارنٹی کی شرط نہیں ہے، لیکن دو طرفہ تجارت کے لیے یہ شرط عائد کی گئی ہے۔ **کمیٹی کا فیصلہ:** سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت میں درپیش مسائل کے حل کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ کمیٹی کا ڈرامہ بند کیا جائے اور ان قابل افراد کو طلب کیا جائے جنہوں نے یہ پالیسیاں بنائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزرا کی کرسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں، اور یہ صورتحال ملک کے لیے خطرناک ہے۔ اجلاس کے اختتام پر سینیٹرز نے زور دیا کہ پاکستان کو اپنے اقتصادی اور تجارتی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ بیرونی ممالک کے سامنے ہماری شرمندگی بڑھتی رہے گی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری سے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی وفد اور تنظیمی رہنماؤں کی ملاقات کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پنجاب کے پیپلز پارٹی اراکین اور رہنماؤں نے گورنر ہاؤس لاہور میں صدر زرداری کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیے۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے صدر زرداری کو بتایا کہ انتظامی معاملات میں پارٹی کے اراکین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ترقیاتی فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ وفد کے اراکین نے اپنے حلقوں کے مسائل بھی صدر کے سامنے رکھے، جن میں بنیادی سہولیات کی کمی اور عوامی مسائل کے حل میں تاخیر جیسے معاملات شامل تھے۔ صدر آصف علی زرداری نے وفد کی شکایات سننے کے بعد کہا کہ اتحادی حکومت کے ساتھ چلنا پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تحریری معائدے کے نکات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ صدر زرداری نے وفد سے کہا کہ وہ آنے والے بجٹ تک مسائل کے حل کا انتظار کریں۔ ذرائع کے مطابق، صدر زرداری نے پارٹی رہنماؤں کو یقین دلایا کہ وہ پیپلز پارٹی کے مفادات کا خیال رکھیں گے اور اتحادی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں کچھ معاملات میں مجبوریاں بھی ہیں۔ ملاقات کے بعد صدر آصف علی زرداری گورنر ہاؤس لاہور سے روانہ ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس ملاقات کو مثبت قرار دیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب حکومتی سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ پارٹی کے اراکین اور عوام کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ یہ ملاقات پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر زرداری کی ہدایات کے بعد آنے والے بجٹ میں پیپلز پارٹی کے مطالبات کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے، اور کیا پارٹی کے اراکین کو انتظامی معاملات میں زیادہ نمائندگی دی جاتی ہے۔
لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے ٹیم کو بہتر بنانے کے لیے ایک سال کے لیے معطل کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہو تو اسے ایک سال کے لیے معطل کر دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھی کرکٹ ٹیم تنقید سے نہیں، بلکہ اچھے فیصلوں سے بنتی ہے۔ گورنر سندھ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ ناقص کارکردگی پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم کو بہتر بنانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ٹیم کو معطل کر کے اس کی بنیادی سطح پر اصلاحات کی جانی چاہئیں، تاکہ مستقبل میں بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ دوسری جانب، گورنر سندھ نے پاک افواج پر تنقید کرنے والوں کو بھی نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پاک افواج پر تنقید کرنے والے افراد ملک دوست نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک افواج ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے انتھک محنت کر رہی ہیں، اور ان پر تنقید کرنا درست نہیں ہے۔ گورنر کامران ٹیسوری نے اپنے برطانیہ کے دورے کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے یہ دورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں، تاکہ ملک کی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا، اور وہ شفافیت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ گورنر سندھ کے یہ بیان کرکٹ کے شائقین اور تجزیہ کاروں کے درمیان بحث کا باعث بن گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹیم کو معطل کرنا ایک سخت اقدام ہوگا، جبکہ دوسرے اسے ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) گورنر سندھ کے اس مشورے پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے۔
سپریم کورٹ میں سویلینز (شہریوں) کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، جس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل پیش کیے۔ سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا، لیکن سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے اس کے لیے قانون سازی کی۔ جسٹس امین الدین خان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، جو ہماری حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کا ٹرائل غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورٹ مارشل میں موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، لیکن نہ تو جج کی کوئی معیاد ہوتی ہے، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جا سکتی ہے۔ ہائیکورٹ میں رٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ محدود ہوتا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے بھارت میں کلبھوشن یادیو کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں خصوصی قانون سازی کے ذریعے کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا تھا، جو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب ممکن ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وکیلوں کو صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دینے چاہئیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے خطوط کے تنازع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل خطوں کا تنازع بھی چل رہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے وکیل عزیر بھنڈاری سے پوچھا کہ اگر جیل میں کاغذ کا ٹکڑا لے جانے کی اجازت نہیں ہے، تو خط کہاں سے آ جاتے ہیں؟ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے پر بھی بحث ہوئی، جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو زیر بحث لایا گیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کی تھی۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ زیر بحث ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کو انصاف کے بنیادی تقاضوں سے محروم رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے بنیادی حقوق مجروح ہوتے ہیں۔ سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے مزید سماعت کے لیے تاریخ طے کی، جس کے بعد معاملہ آگے بڑھے گا۔ یہ کیس ملک میں شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف قانونی جنگ کی ایک اہم کڑی ہے، جس کے نتائج ملکی عدالتی نظام پر دوررس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کے ڈیرے سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے، جس پر قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق، کمرے سے تقریباً 40 سال کی عمر کے ایک شخص کی بوسیدہ حالت میں لاش ملی ہے، جسے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ تاہم، مقتول کی شناخت اب تک نہیں ہو سکی ہے۔ تفصیلات کے مطابق، میاں اسلم اقبال کے ڈیرے کا یہ کوارٹر سی آئی اے پولیس کے کانسٹیبل ارشد نے کرائے پر لیا تھا۔ پولیس کے اندازے کے مطابق، کانسٹیبل ارشد نے کوارٹر میں ایک ٹارچر سیل بنا رکھا تھا، جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔ واقعے کے بعد سے کانسٹیبل ارشد لاپتہ ہے، اور اسے تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پولیس نے لاش کو شواہد اکٹھے کرنے کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا ہے۔ شناخت کے لیے لاش کے فنگر پرنٹس بھی لیے گئے ہیں۔ تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ مقتول کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے، لیکن اس کی شناخت اور قتل کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے۔ واقعے کے بعد سے میاں اسلم اقبال کے ڈیرے پر پولیس کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کانسٹیبل ارشد کی حرکات اور اس کے ممکنہ تعلقات کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کو مزید گہرائی سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ سیاسی حلقوں میں بھی زیر بحث آیا ہے، جہاں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس معاملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ واقعے کی تہہ تک پہنچنے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہے۔
نارووال: وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے غریب عوام کے 64 ارب روپے پر ڈاکا ڈالا ہے۔ نارووال میں ایک سڑک کے افتتاح کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے دوران ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا گیا، اور انہوں نے قوم کو تقسیم کر کے جگ ہنسائی کروائی۔ احسن اقبال نے کہا کہ "عمران خان نے پاکستان کے غریب عوام کے 64 ارب روپے پر ڈاکا ڈالا۔ پی ٹی آئی والے کس منہ کے ساتھ اپنے لیڈر کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں؟" انہوں نے مزید کہا کہ "جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت چھینی جاتی ہے، پاکستان پر تباہی اور بربادی کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ عمران خان کو ملک کی چابیاں دے کر کرسی پر بٹھا دیا گیا، اور وہ خود کہتے تھے کہ انہیں اب پتہ چلا ہے کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے۔" وفاقی وزیر نے کہا کہ "پاکستان کسی ڈرائیونگ اسکول کی گاڑی نہیں تھی کہ کسی کو وزیراعظم بننے کی تربیت کا موقع دیا جائے۔ عمران خان نے چار سالوں میں ملک کی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ انہوں نے قوم کو تقسیم کر کے ہر طرف جگ ہنسائی کروائی۔" احسن اقبال نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "یہ دوسروں کو چور ڈاکو کہتے تھے اور رسیدیں مانگتے تھے، لیکن جب ان کی رسیدیں دکھانے کی باری آئی تو پتہ چلا کہ انہوں نے پاکستان کے خزانے پر 64 ارب روپے کا ڈاکا ڈالا ہے۔" انہوں نے زور دے کر کہا کہ "عمران خان کا یہ جرم نہ امریکہ معاف کر سکتا ہے، نہ برطانیہ، اور نہ ہی پاکستان کے عوام۔" وفاقی وزیر نے کہا کہ "اگر کوئی لیڈر امریکا یا برطانیہ میں 64 ارب روپے کا ڈاکا ڈالے تو وہ اپنی قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔" انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "شیخ رشید کا بیان یاد ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ ہماری حکومت چلی گئی، ورنہ لوگوں نے ہمیں بڑے پتھر مارنے تھے۔" احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے دوران ملک کو جو نقصان پہنچا، اس کی تلافی کرنے کے لیے موجودہ حکومت کوشاں ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑے ہوں، تاکہ ملک کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ یہ بیان سیاسی حلقوں میں تازہ بحث کا باعث بنا ہے، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اس پر ردعمل کا انتظار ہے۔
لاہور: پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری سید حسن مرتضی نے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مریم نواز کی کارکردگی صرف ٹک ٹاک بنانے کی حد تک محدود ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کا اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہی ہوگا، اور انہوں نے کہا، "روک سکتے ہو تو روک لو۔" حسن مرتضی نے کہا کہ مریم نواز کی پالیسیوں نے پنجاب کے تاجروں، کسانوں اور مزدور طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ لاہور میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر کے باقی پنجاب کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، "لاہور کے علاوہ پنجاب کے باقی اضلاع کے ساتھ سوتیلے جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ مریم نواز نے پنجاب کے تاجروں کے کاروبار تباہ کر دیے ہیں، اور کسانوں اور مزدوروں کی حالت ابتر ہو چکی ہے۔" پی پی پی رہنما نے گورنر پنجاب کے کردار پر بھی بات کی اور کہا کہ گورنر صوبے کے آئینی سربراہ ہیں، اور ان کا فرض ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی کوتاہیوں کی نشاندہی کریں۔ انہوں نے کہا، "صحت اور تعلیم کے شعبے میں حکومت سندھ کی کاوشوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے، جبکہ پنجاب میں ان شعبوں کی حالت دگرگوں ہے۔" حسن مرتضی نے کہا کہ پیپلزپارٹی عوامی طاقت کی بنیاد پر اقتدار میں آتی ہے، نہ کہ محض دعووں کی بنیاد پر۔ انہوں نے کہا، "صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے تشخص کو عالمی سطح پر بحال کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری ہی پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے، اور اگر کوئی روک سکتا ہے تو روک کر دکھائے۔" انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عوامی مسائل کو ترجیح دی ہے، اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پارٹی ملک کو استحکام اور ترقی کی طرف لے جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "پیپلزپارٹی کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے، اور ہم اس مشن پر پوری طرح گامزن ہیں۔" پیپلزپارٹی کے اس بیان نے سیاسی حلقوں میں تازہ بحث چھیڑ دی ہے، جبکہ پنجاب کی موجودہ حکومت پر تنقید بھی تیز ہو گئی ہے۔ مریم نواز کی پالیسیوں اور کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اور بلاول بھٹو زرداری کے وزیراعظم بننے کے امکانات پر بھی توجہ مرکوز ہو گئی ہے۔
اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا کہ اگر آرمی چیف کو بدلہ لینا ہوتا تو وہ ملک میں مارشل لا لگا کر حساب برابر کر دیتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان پر فائرنگ ان کے اپنے بھروسے کے لوگوں نے کی تھی، اور یہ واقعہ مارشل لا کا ایک پہلو تھا۔ ٹی وی پروگرام ’روبرو‘ کے میزبان شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ "عمران خان پر فائرنگ ان کے اپنے بھروسے کے لوگوں نے کی تھی، جس کا مقصد انہیں نشانہ بنانا تھا، لیکن اللہ نے ان کی جان بچائی۔" انہوں نے مزید کہا کہ "عمران خان پر گولیاں چلانا مارشل لا کا ہی ایک پہلو تھا۔" فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے آنے سے پہلے ملک میں مارشل لا لگنے کی پوری تیاری ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا، "اگر آرمی چیف کو عمران خان سے بدلہ لینا ہوتا تو وہ صرف تین ماہ کے لیے مارشل لا لگا دیتے۔" سینیٹر واوڈا نے پورٹ قاسم کی زمین کے معاملے پر بھی بات کی اور کہا کہ "500 ایکڑ زمین 10 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی گئی، جبکہ اس زمین کی مارکیٹ ویلیو 10 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔" انہوں نے کہا کہ یہ زمین کراچی کے لوگوں کو دی گئی ہے، اور میری ٹائم کی وزارت پاکستان کا قرضہ اتار سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ "ڈمپرز کا مسئلہ بھی فوج کو حل کرنا چاہیے۔ کسی کا ڈمپر جلانے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ ڈرائیورز کی اسکریننگ کر کے لائسنس دینا چاہیے، اور ڈمپرز کی اسپیڈ 40 کلومیٹر تک محدود کر دی جائے تو 75 فیصد حادثات کم ہو جائیں گے۔" سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ "سندھ اور پنجاب کے ترجمانوں کے بیانات محض سیاسی تھیٹر ہیں۔ پی ٹی آئی چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ عید کے بعد کچھ بڑا نہیں ہوگا، نہ دھرنا ہوگا اور نہ ہی کوئی گرینڈ الائنس بنے گا۔ سب اچھے بچوں کی طرح کام کریں گے۔" انہوں نے کہا کہ "پی ٹی آئی اور ن لیگ کی حکومت ملک کی ضمانت ہے، لیکن کے پی میں اس وقت کرپشن کا بازار گرم ہے۔" فیصل واوڈا نے شیر افضل مروت کے معاملے پر بھی بات کی اور کہا کہ "شیر افضل مروت جیسے لوگوں کو پی ٹی آئی میں نہیں چلنے دیا جائے گا۔ گوہر خان بھی اب نظر نہیں آ رہے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ "شہباز شریف کی حکومت گنڈا پور کو بچانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، اور اگلے 30 سے 45 دنوں میں ملک کے لیے اچھی خبریں آئیں گی۔" آخر میں، فیصل واوڈا نے کہا کہ "پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنے گا، جس میں پارٹی کے پرانے لوگ شامل ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف کے پاس اب اسٹریٹ پاور نہیں ہے، اور صدر زرداری ایک زیرک سیاستدان ہیں۔"
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے تصدیق کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں سیاسی نظام میں شامل رہنے اور بائیکاٹ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ڈسٹرکٹ کورٹس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ وہ 26 نومبر کی کمپلینٹ کے سلسلے میں عدالت میں پیش ہوئے تھے، جہاں الیکشن کی مصروفیات کے باعث مقدمے کی سماعت 15 تاریخ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ ایک صحافی کے سوال پر کہ کیا چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کو سسٹم میں رہنے کا مشورہ دیا ہے، بیرسٹر گوہر نے جواب دیا، "آپ کی بات بالکل درست ہے۔" انہوں نے بتایا کہ ان کی چیف جسٹس سے کل ملاقات ہوئی تھی، جس میں انہوں نے عدالتی رویے اور حکومت کے خلاف اپنے موقف کے حوالے سے گزارشات پیش کیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا، "حکومت کے خلاف ہماری چارج شیٹ بہت لمبی ہے۔ ہم عدلیہ سے زیادہ خوش نہیں ہیں، لیکن ہم نے اپنی شکایات واضح کی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ یہ سلوک جمہوریت اور قانون کے لیے درست نہیں ہے۔" بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کا وفد کراچی گیا ہوا ہے اور تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہم آئین کی بالادستی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں تاکہ ووٹوں کی چوری روکی جا سکے۔ سیاسی جماعتوں کا اپنا منشور ہوتا ہے، اور ہر فیصلے کے لیے اندرونی عمل درکار ہوتا ہے، جس میں وقت لگتا ہے۔" پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ انہوں نے حکومت کے ساتھ کھلے دل سے مذاکرات کی کوشش کی تھی، لیکن حکومت نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ انہوں نے شیر افضل مروت کے معاملے کو پارٹی کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پارٹی اپنا اندرونی عمل طے کرتی ہے۔ بیرسٹر گوہر نے 9 مئی کے واقعات کے بعد پارٹی چھوڑنے والوں کے بارے میں کہا کہ اس معاملے پر عمران خان خود فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے اکبر ایس بابر کے حوالے سے کہا کہ وہ خود کو پارٹی کا حصہ سمجھتے ہیں، لیکن یہ ہر فرد کی اپنی ذہنی کیفیت پر منحصر ہے۔ بیرسٹر گوہر نے زور دے کر کہا کہ پی ٹی آئی کے اندرونی معاملات بالکل ٹھیک ہیں اور پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک موجود نہیں ہے۔ انہوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان خطوط میں سنجیدہ معاملات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، تاکہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا نہ ہو۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف واضح ہے اور وہ ملک میں قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ بیان سیاسی حلقوں میں بحث کا باعث بنا ہے، جبکہ پارٹی کے اندرونی معاملات پر بھی توجہ مرکوز ہو گئی ہے۔
نوشہرہ: سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "پاکستان کا سب سے بڑا جھوٹا شخص بانی پی ٹی آئی ہے۔" انہوں نے کہا کہ "ہم سے کوئی غلطی نہیں ہوئی، غلطی اس قوم سے ہوئی ہے۔" پرویز خٹک نے مانکی شریف، نوشہرہ میں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں، بلکہ ان کی پارٹی اس ملک کے عوام ہیں۔ پرویز خٹک نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ "پی ٹی آئی کے ایک سالہ دور حکومت میں کون سے کام ہوئے ہیں؟" انہوں نے کہا کہ عوام بہت تکلیف میں ہیں اور نوجوانوں کو روزگار کی شدید ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے پورے ملک میں عزت دی جاتی ہے، میں وہ شخصیت ہوں جس کے ساتھ قوم کھڑی ہے۔" سابق وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ وہ جلد ہی ایک کتاب لکھنے جا رہے ہیں، جس میں ملک میں ہونے والے واقعات اور حقائق کو بے نقاب کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ "میں اس کتاب میں وہ سب کچھ لکھوں گا جو اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے، اور تمام حقائق عوام کے سامنے لاؤں گا۔" پرویز خٹک نے نوشہرہ میں اپنی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ضلع نوشہرہ میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا، زرعی زمینوں کے لیے ٹیوب ویل کا نظام قائم کیا، اور گاؤں گاؤں میں اسپتال، مساجد، اسکولز اور سڑکیں بنائیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کی حکومت نے عوامی خدمت کو اولین ترجیح دی۔ اس کے علاوہ، پرویز خٹک نے جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ابھی تک کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اختلافات ختم کر رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن کو اعتماد میں لے چکے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی ملاقات محض ایک معمول کی ملاقات تھی، اور وہ فی الحال آزاد حیثیت سے جلسے کر رہے ہیں۔ پرویز خٹک کے اس بیان نے سیاسی حلقوں میں گہم گہمی پیدا کر دی ہے، جبکہ عوام ان کی کتاب کے منظر عام پر آنے کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔

Back
Top