سیاسی

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کے خلاف 26 نومبر کے احتجاج پر درج مقدمات میں 22 ملزمان کی ضمانت درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔ یہ فیصلہ جج شہزاد گوندل نے دلائل مکمل ہونے کے بعد سنایا۔ پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف یہ مقدمہ تھانہ رمنا میں درج کیا گیا تھا، جس میں ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ فاضل جج نے تمام 22 ملزمان کی ضمانت درخواستیں خارج کر دیں، جس کے بعد پی ٹی آئی کارکنان کو عدالتی حراست میں رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ 24 نومبر 2024 کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پی ٹی آئی کا احتجاجی کارواں سینئر رہنما اسد قیصر، عاطف خان، شہرام ترکئی، فیصل جاوید سمیت مرکزی و صوبائی قائدین اور ارکان اسمبلی کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کے ساتھ پشاور سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا تھا۔ پی ٹی آئی کے قافلے کے پنجاب کی حدود میں داخل ہوتے ہی پولیس نے شدید شیلنگ کی، جس کے بعد وفاقی حکومت نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسلام آباد کے راستے مکمل طور پر بند کر دیے تھے۔ اس دوران جڑواں شہروں میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی تھی۔ پشاور-اسلام آباد موٹروے پر کہیں خاردار تاریں تو کہیں رکاوٹیں لگائی گئی تھیں، جب کہ خیبر پختونخوا اور کشمیر سے مری آنے والی رابطہ سڑکوں پر خندقیں کھود دی گئی تھیں۔ گھوڑا گلی کے مقام پر سڑک پر مٹی کے پہاڑ بنا دیے گئے تھے، اور اٹک میں جی ٹی روڈ مکمل طور پر بند تھی۔ 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے کارکنان ڈی چوک جانے کی کوشش میں تھے، جہاں ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہو گئی۔ اس دوران دونوں اطراف سے اسلحہ کا استعمال کیا گیا تھا۔ احتجاج کے حوالے سے تعینات پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد 3 روزہ ڈیوٹی کے دوران زخمی ہوئی تھی۔ پولیس اور پی ٹی آئی کی جانب سے ایک دوسرے پر فائرنگ کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ پی ٹی آئی نے الزام لگایا کہ پولیس نے بلا اشتعال فائرنگ کی، جب کہ پولیس کا کہنا تھا کہ کارکنان نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا۔ پی ٹی آئی کے رہنماوں نے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام سیاسی انتقام کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے کارکنان کو دبانے کے لیے عدالتی نظام کا استعمال کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ عدالتوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنماوں میں شدید مایوسی پائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے جمہوری حقوق کو کچلنے کے لیے عدالتی نظام کو استعمال کیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف قانونی جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔ اس واقعے نے ملک میں سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے، اور اب دونوں اطراف کے درمیان قانونی و سیاسی جنگ جاری رہنے کی توقع ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے اجلاس میں سینیٹر فیصل واوڈا نے حکومت پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں 50 سے 60 ارب روپے کی چوری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے مل کر ملک کے 60 ارب روپے بچائے ہیں۔ ا اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ ان کے پاس تین آپشن ہیں: یا تو سرینڈر کریں، یا کرپشن تسلیم کریں، یا پھر لڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب نے مل کر پاکستان کے 60 ارب روپے بچائے ہیں، لیکن اس حکومت کے دور میں 50 سے 60 ارب روپے کی چوری ہوئی ہے۔ اجلاس میں چیئرمین پورٹ قاسم اور قائم مقام چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ نے بھی شرکت کی۔ سینیٹر دنیش کمار نے گوادر اور کراچی پورٹ پر مستقل چیئرمین کی عدم تقرری پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ اگر قائم مقام چیئرمین ہی معاملات چلا رہے ہیں تو مستقل عہدہ ختم کر دیا جائے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ 500 ایکڑ زمین پر 9 جولائی 2024 کو دستخط کیے گئے، جہاں 365 ایکڑ زمین کی قیمت وصول کر کے 500 ایکڑ زمین دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 60 ارب روپے کی زمین پر صرف 2 فیصد ایڈوانس لیا جا رہا ہے، جو ایک سنگین معاملہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر 50 ارب روپے کی چوری کا نوٹس نہ لیا جاتا تو یہ معاملہ 72 گھنٹے میں کینسل نہ ہوتا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر کام ٹھیک تھا تو 72 گھنٹے میں اسے کیوں کینسل کیا گیا؟ انہوں نے زور دیا کہ کمیٹی نے مل کر پاکستان کے 60 ارب روپے بچائے ہیں۔ سابق وزیر نے پورٹ قاسم کے ری بٹل جاری کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اخباروں میں کہانیاں لکھ کر قوم کو گمراہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جس نے یہ کام کیا، اس نے کمیٹی کو چیٹ کرنے کی کوشش کی۔ اجلاس کے دوران سیکرٹری بحری امور نے کہا کہ یہ ایک انسانی غلطی ہو سکتی ہے، جس پر سینیٹر دنیش کمار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھوکہ دہی ہے اور اس پر تحریکِ استحقاق آنی چاہیے۔ فیصل واوڈا نے سرکاری ٹیم پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم نالائق ہے، اور 60 ارب روپے کی چوری کو محض غلطی نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایڈیشنل سیکرٹری، جو اجلاس کے دوران لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے، درحقیقت اس پورے معاملے میں شامل تھے، جس کا ثبوت دستاویزات سے ملا ہے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ وہ انہیں مزید حقائق بھی یاد دلائیں گے اور معاملے کو منافع بخش بنانے کے لیے جلد اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری اس بورڈ میں موجود تھے، اور انہیں بہت کچھ یاد دلایا جائے گا۔ چیئرمین پورٹ قاسم نے کہا کہ بورڈ نے ایس ایم آئی پی ایل کو بلایا تھا، اور یہ کیس 2006 میں شروع ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اسے ٹینڈر کیا گیا تھا، اور اس کمپنی کے علاوہ تین کمپنیوں نے حصہ لیا تھا، لیکن دو کمپنیوں نے بد واپس لے لی تھی۔ سیکرٹری بحری امور نے کہا کہ 13 سال سے اس کیس میں ہیرنگ نہیں ہوئی، جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر آپ نے غلط کام نہیں کیا تو اس کا دفاع نہ کریں۔ چیئرمین پورٹ قاسم نے بتایا کہ اس کیس میں آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کی گئی تھی۔ فیصل واوڈا نے سوال کیا کہ باقی کیسز میں آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کیوں نہیں کی گئی؟ چیئرمین پورٹ قاسم نے کہا کہ وہ دفاع نہیں کر رہے، بلکہ صحیح چیز سامنے لانا چاہتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک غیر ملکی کمپنی، جو درحقیقت مقامی ہے اور ڈیفالٹر بھی ہے، کو 60 ارب روپے کی زمین 10 لاکھ میں دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام فوجی بورڈ، ڈکٹیٹر یا چیف جسٹس بھی نہیں کر سکتے۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ بورڈ کہتا ہے کہ اس ریفائنری کے لیے انکوائری کی بھی ضرورت نہیں ہے، اور اس جگہ کو بھی تبدیل کر دیا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ریفائنری کا ڈیٹا کیوں نہیں لایا گیا، جب کہ 2018 سے 2024 تک کی سیٹلمنٹ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا۔ اجلاس کے دوران سینیٹر فیصل واوڈا نے حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اس طرح کے معاملات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کے وسائل کو بچایا جا سکے۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور اب حکومت نے معاشی سفارتکاری کو اپنی ترجیح بنایا ہے۔ وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سفارتی اور معاشی چیلنجز کو کامیابی سے عبور کیا ہے۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ 4 مارچ 2024 کو وزیراعظم شہباز شریف نے جب حلف اٹھایا تو اس سے پہلے قوم نے دیکھا کہ نواز شریف کی سربراہی میں پاکستان کی معیشت، جو دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن گئی تھی، گر کر 47ویں نمبر پر آ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں، لیکن جب حکومت سنبھالی تو بہت سے چیلنجز درپیش تھے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی چیلنجز کے ساتھ ساتھ سفارتی چیلنجز بھی تھے، اور یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے شہباز شریف کی قیادت میں سفارتی چیلنجز کو کامیابی سے عبور کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2012 میں جب پاکستان ساتویں بار سلامتی کونسل کا رکن بنا تھا، تو اس وقت صرف ایک ووٹ کے فرق سے کامیابی ملی تھی، لیکن 6 جون 2024 کو پاکستان کو 2 سال کے لیے سلامتی کونسل کا رکن منتخب کیا گیا، جس میں 182 ووٹس کے مقابلے میں صرف 5 ووٹس مخالفت میں ڈالے گئے۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان میں 27 سال بعد شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں 9 ممالک کے وزرائے اعظم، کئی ممالک کے وزرائے خارجہ اور دیگر اہم وفود نے شرکت کی۔ انہوں نے بتایا کہ اسی دوران انٹرنیشنل گرلز ایجوکیشن کے حوالے سے ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی، جس میں 4 درجن سے زائد ممالک نے حصہ لیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ حکومت نے اب معاشی سفارتکاری کو اپنی ترجیح بنایا ہے، جس کی قیادت وزیراعظم شہباز شریف خود کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی کا باب اب ختم ہو چکا ہے، اور پاکستان آج عالمی دنیا میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2013 کے مقابلے میں 2018 میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی تھی، لیکن آنے والی حکومت کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی دوبارہ واپس آئی۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اسحٰق ڈار کے مطابق، پاکستان نے شہباز شریف کی قیادت میں نہ صرف سفارتی سطح پر کامیابیاں حاصل کی ہیں، بلکہ معاشی ترقی کے لیے بھی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوششوں سے پاکستان عالمی سطح پر اپنا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اب حکومت کی توجہ معاشی سفارتکاری پر مرکوز ہے، جس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو مستحکم بنانا اور عالمی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے جو سفارتی اور معاشی کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ ملک کے مستقبل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد پاکستان میں اگلی مالیاتی قسط کے اجرا کے سلسلے میں مذاکرات کے لیے پہنچ گیا ہے۔ تاہم، حکومت پاکستان آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ بڑی شرائط کو پورا کرنے میں ابھی تک مکمل کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ذرائع کے مطابق، وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مالی سال 2023-24 کے لیے مقرر کردہ 6008 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایسے میں حکومت آئی ایم ایف سے ٹیکس ہدف میں نرمی کی درخواست کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی میں ہونے والی تاخیر پر بھی رعایت کی کوشش کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو 70 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کی تجویز پر بھی غور کر رہی ہے۔ دوسری جانب، زرعی آمدن پر ٹیکس سے متعلق قانون سازی مکمل کر لی گئی ہے، جب کہ آئی ایم ایف بجلی اور گیس کی سبسڈی میں مزید کمی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ حکومت بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی تیاری میں ہے۔ آئی ایم ایف کو پاکستان کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے قرضے کے پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ ساتھ ہی، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی سے متعلق رپورٹ بھی آئی ایم ایف کو دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کو پراپرٹی سیکٹر پر عائد کردہ ٹیکسز سے متعلق بھی آگاہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی شرط پر عملدرآمد کی رپورٹ بھی پیش کی جائے گی۔ مذاکرات کے بعد، آئی ایم ایف وفد پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی اگلی قسط جاری کرنے کے بارے میں سفارشات مرتب کرے گا۔ اس موقع پر پاکستانی معیشت کے استحکام پر تفصیلی جائزہ بھی لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف مذاکرات دو مراحل میں ہوں گے، جن میں تکنیکی اور پالیسی سطح پر بات چیت شامل ہوگی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے حوالے سے پیش رفت پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جب کہ معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے مزید اصلاحات پر بھی غور کیا جائے گا۔
فیصل آباد: وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اگر ملک پر دوبارہ کوئی 12 اکتوبر جیسا واقعہ مسلط نہیں ہوا تو پاکستان اگلے دو سال میں معاشی بحران سے نکل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں سیکیورٹی ادارے ملک کو استحکام کی طرف لے جانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ فیصل آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ منارٹی کارڈ سمیت دیگر حکومتی پروگرامز کا مقصد عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مہنگائی کے دور میں یہ پروگرامز عوام کے لیے سہارا ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مہنگائی کی شرح جو پہلے 38 سے 40 فیصد تھی، اسے حکومت نے 3 سے 4 فیصد تک کم کر دیا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت مہنگائی کی شرح کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہی ہے، اور اسے مزید کم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی انہیں پاکستان کی خدمت کا موقع ملا، انہوں نے بھرپور طریقے سے اس کا فریضہ ادا کیا۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر ملک پر دوبارہ کوئی 12 اکتوبر جیسا واقعہ مسلط نہیں ہوتا، تو پاکستان اگلے دو سال میں معاشی بحران سے نکل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں سیکیورٹی فورسز ملک کو استحکام کی طرف لے جانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر سچی بات کی جائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ریاست کے تین ستون (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب صرف میڈیا کا چوتھا ستون ہی ہے جو ملک کو آگے لے کر چل سکتا ہے۔ انہوں نے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں حکومت کی کارکردگی کے خلاف کوئی نکتہ نہیں ملتا تو وہ سرکاری اشتہارات کو ایشو بنا کر حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے، اور تمام تر مشکلات کے باوجود ملک کو معاشی استحکام کی طرف لے جانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے چینی کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عوام کو خوراک کی اشیاء مناسب قیمتوں پر فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، اور رمضان المبارک کے دوران ضروری اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول کے حوالے سے کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت چینی کی سپلائی اور قیمتوں کے کنٹرول کے حوالے سے ایک اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو چینی کی قیمتوں پر سخت کنٹرول یقینی بنانے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں چینی کی پیداوار اور اسٹاک کے حوالے سے بریفنگ دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں چینی کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ صوبائی سطح پر چینی کو مناسب قیمتوں پر فروخت کے لیے فئیر پرائس شاپس قائم کی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے اسمگلنگ کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھانے کی تاکید کی اور کہا کہ اسمگلرز کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ صوبائی چیف سیکرٹریز نے اجلاس میں بتایا کہ چینی کی غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی یقینی بنائی جائے گی، اور اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کو مکمل طور پر فعال کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ مہینوں میں چینی کی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کی گئی، جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد عام آدمی کو سستی اور معیاری خوراک فراہم کرنا ہے، اور اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر کام کریں گی۔ وزیراعظم نے رمضان المبارک کے دوران چینی اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول کے حوالے سے خصوصی حکمت عملی بنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کے دوران کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، اور عوام کو خوراک کی اشیاء مناسب قیمتوں پر فراہم کرنا یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین سمیت دیگر اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔ چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز نے وڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔
کراچی: گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کراچی میں ڈمپر اور ہیوی ٹریفک کے حادثات کے شکار خاندانوں کے لیے مالی امداد کے طور پر رہائشی پلاٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ گورنر ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے صوبائی حکومت کی جانب سے اس سنگین مسئلے پر خاموشی اور غیر فعالیت پر گہری تشویش اور بے بسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے پاس انتظامی اختیارات ہوتے تو شہر میں کوئی شخص ہیوی ٹریفک کے ہاتھوں کچلا نہ جاتا۔ کامران ٹیسوری نے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ میں ڈمپرز، ٹریلرز اور ٹرکوں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی جائے گی اور انہیں رہائشی پلاٹ دیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا، "جان کا نقصان تو کوئی پورا نہیں کر سکتا، لیکن مالی مدد ان خاندانوں کے آنسو خشک کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔" انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو خط لکھ کر ہیوی ٹریفک حادثات کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی تھی، مگر اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انہوں نے افسوس سے کہا، "میں خط لکھ سکتا ہوں، جواب مانگ سکتا ہوں، لیکن اس کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں؟ لوگوں کے بچوں کو کچلا جا رہا ہے۔" انہوں نے ڈی آئی جی ٹریفک کو بھی ہدایت دی کہ وہ خود عمل کریں، ورنہ وہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ گورنر نے اعلان کیا کہ صوبے میں منشیات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے گورنر ہاؤس میں ایک شکایتی سیل قائم کیا جائے گا۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ منشیات کے خاتمے کا اہم موقع ہے۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور انہیں منشیات کے "زہر" سے بچائیں۔ اس سلسلے میں اسکولوں اور کالجوں کو خطوط لکھے جائیں گے، جن میں اساتذہ اور طلبہ کے منشیات ٹیسٹ کی تجویز پیش کی جائے گی۔ کامران ٹیسوری نے مزید اعلان کیا کہ رمضان المبارک کے دوران گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے کھلے رہیں گے، جہاں "ات Dotchkas کے تحت "اتحاد رمضان" پروگرام کے تحت 10 لاکھ سے زائد افراد کے افطار کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس پروگرام میں افطار، عشائیہ، تراویح، نعت خوانی اور قوالی کے سیشن شامل ہوں گے۔ انہوں نے عوام اور مذہبی اقلیتوں کو بھی اس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ مزید برآں، بے گھر افراد کے لیے قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹ مختص کرنے کا منصوبہ بھی پیش کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان تمام فلاحی اقدامات کے لیے عوامی فنڈز استعمال نہیں کیے جا رہے، بلکہ یہ ذاتی عطیات اور دوستوں کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں۔ سیکیورٹی خدشات پر بات کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ وہ وزیر داخلہ اور ہوم سیکریٹری کو خط لکھیں گے اور غیر رجسٹرڈ سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ نقل و حرکت پر پابندی کا مطالبہ کریں گے۔ انہوں نے عوام کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہریوں کی فلاح کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے۔
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے امریکی میگزین "ٹائم" میں شائع ہونے والے عمران خان کے مضمون کو پاکستان کے چہرے پر کالک پھیرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس مضمون کو انتہائی قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت، عدلیہ، مسلح افواج اور دیگر اداروں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان کے مضمون میں پاکستان کی صورت حال کو "سیاہ عہد" قرار دیا گیا ہے، جو کہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مضمون پاکستان کی عالمی سطح پر شبیہ کو مجروح کرنے کی کوشش ہے۔ عرفان صدیقی نے عمران خان کے اس دعوے کو بھی جھوٹا قرار دیا کہ مذاکراتی عمل کے دوران انہیں اڈیالہ جیل سے نکال کر ہاؤس اریسٹ کی پیشکش کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو کسی بھی مرحلے پر ایسی کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔ انہوں نے عمران خان سے سوال کیا کہ وہ بتائیں کہ یہ پیشکش کس کی طرف سے، کس نے اور کب ان تک پہنچائی تھی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان کا یہ مضمون پاکستان کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی شبیہ متاثر ہوتی ہے، بلکہ ملک کے اندرونی معاملات میں بھی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی نے زور دیا کہ پاکستان کے ادارے ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی بہتری کے لیے تعمیری کردار ادا کریں، نہ کہ ملک کی شبیہ کو نقصان پہنچانے والے بیانات دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ہمیشہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے کوشاں رہے گی۔
ٹندو جام: پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیر توانائی و پبلک ہیلتھ سید ناصر حسین شاہ کی جوش خطابت میں زبان پھسل گئی۔ ٹندو جام میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فارم 45 اور فارم 47 کی بہت باتیں ہوتی ہیں، لیکن الحمدللہ پیپلز پارٹی کے جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں، وہ سب فارم 47 والے ہیں۔ تقریب کے دوران صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے ناصر حسین شاہ کی غلطی کی خوبصورتی کے ساتھ وضاحت کی۔ شرجیل میمن نے کہا کہ جس طرح ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم فارم 47 والے نہیں، ہم فارم 45 والے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اور کارکنان انتخابی عمل میں شفافیت کے قائل ہیں اور فارم 45 کے حق میں ہیں۔ فارم 45 اور فارم 47 انتخابی نتائج سے متعلق اہم دستاویزات ہیں۔ فارم 45 پولنگ اسٹیشن کے نتائج کی تفصیلات پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ فارم 47 حلقے کے مجموعی نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔ انتخابات کے دوران ان فارموں کی درستگی اور شفافیت پر اکثر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ناصر حسین شاہ کی یہ بیان بازی پیپلز پارٹی کے اندرونی معاملات اور انتخابی شفافیت پر بحث کا باعث بنی۔ شرجیل میمن کی وضاحت نے اس غلطی کو کسی حد تک کم کیا، لیکن اس واقعے نے سیاسی حلقوں میں گفتگو کا نیا باب کھول دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے واضح کیا کہ وہ انتخابی شفافیت کے قائل ہیں اور فارم 45 کی حمایت کرتے ہیں۔
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی احکامات کے باوجود بانئ پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کے کیس میں اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو 4 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ جیل کو عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کرنے کا حکم دیا ہے کہ کیوں عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ وکیل کے مطابق، بانئ پی ٹی آئی کی بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کروانا 28 جنوری کے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اس معاملے کی سماعت 4 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔ واضح رہے کہ بانئ پی ٹی آئی نے اپنے وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کے ذریعے عدالت سے رجوع کیا تھا، جس میں انہوں نے بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کروانے پر احتجاج کیا تھا۔ عدالت نے پہلے ہی 28 جنوری کو بشریٰ بی بی سے ملاقات کی اجازت دے دی تھی، لیکن جیل انتظامیہ نے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ عدالت نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو 4 مارچ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت کرنے کا حکم دیا ہے کہ کیوں عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اس معاملے کو توہین عدالت کے زمرے میں لیتے ہوئے سخت کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ یہ معاملہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی اور جیل انتظامیہ کے رویے پر سوال اٹھاتا ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ عدالتی احکامات کی پاسداری کرنا ہر شہری اور ادارے کی ذمہ داری ہے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل کو اب 4 مارچ کو عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کرنی ہوگی، ورنہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد: پاکستان کے صارفین کو 5جی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے لیے مزید انتظار کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو 5جی اسپیکٹرم کی نیلامی کے سلسلے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اجلاس میں سامنے آئی، جو جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پلوشہ خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ پی ٹی اے کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 5جی کے لیے زیادہ اسپیکٹرم کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس حوالے سے کئی مشکلات درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے اسپیکٹرم کے لیے حکومت پاکستان سے پالیسی ڈائریکٹو کی ضرورت ہے۔ سنہ 2017 میں 5جی کے ٹرائل کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی۔ حکام نے بتایا کہ 5جی سے متعلق ایک ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اس پر کام کر رہی ہے۔ پی ٹی اے نے نومبر میں ایک کنسلٹنٹ کو بھی ہائر کیا تھا، جس نے اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یوفون میں ٹیلی نار کے ضم ہونے کا کیس سی سی پی میں زیر سماعت ہے، اور مارکیٹ میں موجود 3 یا 4 بڑے کھلاڑیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 5جی اسپیکٹرم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ وزارت آئی ٹی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 5جی لانچ کرنے کے بعد بھی تمام صارفین ایک ساتھ 5جی پر منتقل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 5جی اسپیکٹرم کے استعمال سے 3جی اور 4جی کی رفتار بھی تیز ہو جائے گی۔ پاکستان میں اس وقت 3 کیٹگریز کے بینڈ موجود ہیں، جو 5جی کے نفاذ کے لیے اہم ہیں۔ اجلاس میں یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) کے گزشتہ 3 سالوں کے پروجیکٹس پر بھی بریفنگ دی گئی۔ حکام نے بتایا کہ یو ایس ایف کا مینڈیٹ دیہی اور دور دراز علاقوں میں ٹیلی کام سروسز فراہم کرنا ہے۔ گزشتہ 3 سالوں میں 63 پروجیکٹس مکمل کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے ملک کے مختلف گاؤں میں ٹیلی کام سروسز فراہم کی گئی ہیں۔ پی ٹی اے کے حکام نے کہا کہ 5جی کے نفاذ کے لیے درکار اسپیکٹرم کی نیلامی کے سلسلے میں کئی قانونی اور تکنیکی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے اس معاملے پر مزید تفصیلات طلب کی ہیں اور اگلے اجلاس میں پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ صارفین کو 5جی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے حکومت اور پی ٹی اے کی جانب سے مسلسل کوششیں جاری ہیں، لیکن اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
لاہور: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزمان کی عدالت پیشی کے دوران تفتیشی افسر نے انکشاف کیا کہ ملزم ارمغان کے تشدد کا شکار ہونے والی لڑکی زوما مل گئی ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ زوما نامی لڑکی پر ملزم ارمغان نے تشدد کیا تھا، اور اب اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے دوران پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم ارمغان بہت شاطر ہے اور اس کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر ملزم کا میڈیکل ٹیسٹ ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزم کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے، کیونکہ اس سے تفتیش میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ چشم دید گواہان کے بیانات دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کرانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تفتیش کو مکمل کرنے کے لیے ملزم کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست کو تسلیم کرتے ہوئے ملزمان کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ تفتیش کے دوران ملزم کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے، تاکہ تفتیش میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ملزم ارمغان کے تشدد کی شکار لڑکی کے ملنے سے کیس میں ایک نئی موڑ آیا ہے۔ تفتیشی ادارے اب زوما کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے اور چشم دید گواہان کے بیانات ریکارڈ کرانے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ عدالت نے تفتیش کو مکمل کرنے کے لیے ملزم کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا ہے، جس کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوگی۔
اسلام آباد: وزارت خزانہ نے عید الفطر سے قبل ملک میں مہنگائی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ وزارت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، مارچ 2025 میں مہنگائی کی شرح 3 سے 4 فیصد تک بڑھ سکتی ہے، جبکہ فروری میں یہ شرح 2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ جنوری 2025 میں مہنگائی کی شرح 2.41 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جولائی 2024 سے جنوری 2025 کے درمیان مہنگائی کی اوسط شرح 6.50 فیصد رہی۔ مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران برآمدی صنعت میں ترقی دیکھی گئی، جس کے نتیجے میں مہنگائی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ تاہم، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مارچ میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پالیسی ریٹ میں کمی اور ترسیلات زر میں اضافے کے باعث معاشی استحکام آیا ہے۔ جولائی تا جنوری کے دوران ترسیلات زر میں 31.7 فیصد اضافہ ہوا، جو 20.84 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رمضان، عید الفطر اور عید الاضحی کے دوران ترسیلات زر میں مزید اضافے کی توقع ہے، جو معیشت کے لیے مثبت اشارہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مالی سال کے پہلے سات ماہ میں برآمدات میں 7.6 فیصد اضافہ ہوا، جس کا مجموعی حجم 19.17 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ اسی عرصے میں درآمدات میں 10.9 فیصد اضافہ ہوا، جو 33.31 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھا گیا، جبکہ اخراجات کی بہتر مینجمنٹ نے معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ عید الفطر کے موقع پر اشیاء کی طلب میں اضافے کے باعث مہنگائی میں عارضی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ عوام کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں معاشی استحکام کے مثبت اشارے دیکھے گئے ہیں، لیکن عید الفطر کے موقع پر مہنگائی میں اضافے کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ عوام کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
لاہور: وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ پنجاب بھر میں ہونے والے جلسوں کا مقصد عوامی رابطہ مہم کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پارٹی ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں مصروف تھی، لیکن اب عوام سے براہ راست رابطے کا وقت آ گیا ہے۔ احسن اقبال نے بتایا کہ رمضان المبارک کے بعد پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف ملک کے چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے۔ پنجاب میں ہونے والے جلسوں میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی شرکت کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جلسے پارٹی کی عوامی حمایت کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ عوام نے پی ٹی آئی کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کی عوام منفی سیاست کی حامی نہیں ہے۔ عوام نہیں چاہتی کہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست ہو اور ملک کا قیمتی وقت ضائع ہو۔ واضح رہے کہ نواز شریف نے حال ہی میں سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ انہوں نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں اہم ملاقاتیں کی ہیں، جس میں پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما زاہد خان نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی۔ زاہد خان نے یہ اعلان میاں نواز شریف سے ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر صوبائی صدر امیر مقام بھی موجود تھے۔ زاہد خان نے نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور کے پی میں پارٹی کو فعال بنانے کے لیے تجاویز پیش کیں۔ نواز شریف نے زاہد خان کا خیر مقدم کیا اور پارٹی کو منظم کرنے کا عندیہ دیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، نواز شریف کی سیکرٹری جنرل احسن اقبال، انجئینر امیر مقام، انوشہ رحمان، اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر سمیت دیگر اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں گلگت بلتستان کے انتخابات میں پارٹی کی پوزیشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خیبر پختونخوا تنظیم کے صدر نے گلگت بلتستان انتخابات کے حوالے سے بریفنگ دی۔ خیبر پختونخوا کے پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف کو صوبے کے مختلف اضلاع کا دورہ کرنے کا مشورہ دیا۔ نواز شریف نے گلگت بلتستان کے انتخابات کی تیاری کے لیے تنظیمی عہدیداروں کو ہدایات جاری کیں اور عوامی رابطہ مہم کو تیز کرنے کا حکم دیا۔ نواز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ پارٹی کو منظم کرنے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے مستعدی سے کام کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عوامی رابطہ مہم کو تیز کرنے کے فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی اگلے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ نواز شریف کی قیادت میں پارٹی ملک بھر میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
لاہور: پنجاب میں بڑھتے ہوئے منظم جرائم پر قابو پانے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کے قیام کی منظوری دے دی گئی۔ یہ نیا محکمہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم کی روک تھام اور مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کرے گا۔ اجلاس میں طے پایا کہ سی سی ڈی ڈکیتی، رہزنی، زیادتی، قتل، چوری، اور لینڈ مافیا سمیت 7 بڑے منظم جرائم کے خلاف کارروائی کرے گا۔ محکمہ ڈرون سرویلنس ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا، جس کے تحت جرم کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں سرویلنس ڈرون 5 منٹ میں واقعہ کے مقام پر پہنچ جائے گا۔ سی سی ڈی پنجاب میں جرائم اور مجرموں سے متعلق ڈیٹا مینجمنٹ کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ڈپارٹمنٹ میں تعیناتیوں کی منظوری دے دی ہے۔ سی سی ڈی کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) ہوں گے، جبکہ 3 ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی)، ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں ایس ایس پی، ایس پی، اور ہر ضلع میں ڈی ایس پی تعینات کیے جائیں گے۔ سی سی ڈی مجموعی طور پر 4,258 افسران اور اہلکاروں پر مشتمل ہوگا۔ پنجاب پولیس سے 2,258 افسران اور اہلکار فوری طور پر سی سی ڈی میں منتقل کیے جائیں گے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے سی سی ڈی کے لیے بلڈنگز، گاڑیوں، اور جدید آلات کی منظوری بھی دے دی ہے۔ ساتھ ہی، محکمے کے لیے فوری قانون سازی کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے تاکہ اسے مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لیے ضروری اختیارات حاصل ہوں۔ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سی سی ڈی کا قیام ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف جرائم کی روک تھام ممکن ہوگی، بلکہ مجرموں کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا۔ سی سی ڈی کے قیام سے پنجاب میں جرائم کی شرح میں کمی اور عوام میں تحفظ کا احساس بڑھنے کی توقع ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے عہد کیا کہ حکومت ہر سطح پر عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
فیصل آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائمز ونگ نے جڑانوالہ کے رہائشی ملک مبین نامی ملزم کو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر غلط پوسٹس شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق، ملزم نے اپنی فیس بک آئی ڈی کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب اور ادارے کے خلاف گستاخانہ اور جارحانہ مواد پوسٹ کیا تھا، جس کی شکایت پر ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سینیئر سول جج کریمنل ڈویژن نے ملزم کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ ایف آئی اے کے مطابق، ملزم سے مزید تفتیش کی جائے گی اور اس کے خلاف سائبر کرائمز کے تحت قانونی کارروائی جاری رہے گی۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ نے حالیہ عرصے میں سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے جرائم، خاص طور پر معزز شخصیات کے خلاف غلط معلومات اور جارحانہ مواد پوسٹ کرنے کے واقعات کے خلاف سخت کارروائی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس واقعے میں بھی ملزم کے خلاف سائبر قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ملزم ملک مبین سے تفتیش کے دوران اس کے موبائل فون اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ڈیٹا ریکوری کی جائے گی، تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ملزم نے کسی اور کو بھی ایسے مواد پوسٹ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ سائبر کرائمز کے خلاف کارروائی میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ایف آئی اے کے حکام نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ معزز شخصیات اور اداروں کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلانا یا جارحانہ مواد شیئر کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ معاشرتی امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا صارفین میں تشویش پائی جا رہی ہے، جبکہ حکام نے واضح کیا ہے کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ایسی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بجلی کی سبسڈی، پاک-ایران بارڈر پر تجارتی مسائل، اور دیگر اہم معاملات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ اجلاس کے دوران سینیٹرز نے وزارت خزانہ کے حکام سے سوالات کیے اور ملک کے اقتصادی مسائل پر سخت تنقید کی۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے اجلاس میں کہا کہ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ بیرونی ممالک کے لوگ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اپنے گھر کو کیسے سنبھالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان روزانہ 2.2 ملین ڈالرز کا نقصان اٹھا رہا ہے، جو کہ ہمارے نظام میں موجود خامیوں کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام نے بجلی کی سبسڈی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سبسڈی کو صرف بی آئی ایس پی کے مستحقین تک محدود کرنے کی تجویز پر کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں وزارت خزانہ، پاور ڈویژن، اور متعلقہ کمپنیاں مل کر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، سینیٹر انوشے رحمان نے کہا کہ بجلی پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس سے پورا ملک بھکاری بننے پر مجبور ہو رہا ہے۔ **پاک-ایران بارڈر پر تجارتی بحران:** اجلاس میں پاک-ایران بارڈر پر 600 ٹرکوں کے روکے جانے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ایرانی سفارتکاروں نے بتایا کہ پاکستان نے ایرانی ٹرکوں پر بینک گارنٹی کی شرط عائد کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے روزانہ 2.2 ملین ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایرانی سفارتکار نے کہا کہ 6 ماہ قبل تک 600 ٹرک روزانہ بارڈر پر آتے تھے، لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر 400 ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان 1987 کے معاہدے کے تحت بینک گارنٹی کی شرط تھی، لیکن 2008 کے معاہدے میں اس شرط کو ختم کر دیا گیا تھا۔ سینیٹر فاروق نائیک نے کہا کہ ایرانی سفارتکاروں کی بریفنگ نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں ہر کوئی صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس معاملے کو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اٹھایا جائے۔ **بارٹر ٹریڈ معاہدہ بند:** سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر ٹریڈ معاہدہ کسٹمز کے پیچیدہ قوانین کی وجہ سے بند ہو چکا ہے۔ کسٹمز حکام نے بتایا کہ بارٹر ٹریڈ کے لیے بینک گارنٹی کی شرط نہیں ہے، لیکن دو طرفہ تجارت کے لیے یہ شرط عائد کی گئی ہے۔ **کمیٹی کا فیصلہ:** سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت میں درپیش مسائل کے حل کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ کمیٹی کا ڈرامہ بند کیا جائے اور ان قابل افراد کو طلب کیا جائے جنہوں نے یہ پالیسیاں بنائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزرا کی کرسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں، اور یہ صورتحال ملک کے لیے خطرناک ہے۔ اجلاس کے اختتام پر سینیٹرز نے زور دیا کہ پاکستان کو اپنے اقتصادی اور تجارتی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ بیرونی ممالک کے سامنے ہماری شرمندگی بڑھتی رہے گی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری سے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی وفد اور تنظیمی رہنماؤں کی ملاقات کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پنجاب کے پیپلز پارٹی اراکین اور رہنماؤں نے گورنر ہاؤس لاہور میں صدر زرداری کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیے۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے صدر زرداری کو بتایا کہ انتظامی معاملات میں پارٹی کے اراکین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ترقیاتی فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ وفد کے اراکین نے اپنے حلقوں کے مسائل بھی صدر کے سامنے رکھے، جن میں بنیادی سہولیات کی کمی اور عوامی مسائل کے حل میں تاخیر جیسے معاملات شامل تھے۔ صدر آصف علی زرداری نے وفد کی شکایات سننے کے بعد کہا کہ اتحادی حکومت کے ساتھ چلنا پیپلز پارٹی کی مجبوری ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تحریری معائدے کے نکات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔ صدر زرداری نے وفد سے کہا کہ وہ آنے والے بجٹ تک مسائل کے حل کا انتظار کریں۔ ذرائع کے مطابق، صدر زرداری نے پارٹی رہنماؤں کو یقین دلایا کہ وہ پیپلز پارٹی کے مفادات کا خیال رکھیں گے اور اتحادی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں کچھ معاملات میں مجبوریاں بھی ہیں۔ ملاقات کے بعد صدر آصف علی زرداری گورنر ہاؤس لاہور سے روانہ ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس ملاقات کو مثبت قرار دیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب حکومتی سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ پارٹی کے اراکین اور عوام کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ یہ ملاقات پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر زرداری کی ہدایات کے بعد آنے والے بجٹ میں پیپلز پارٹی کے مطالبات کو کس حد تک شامل کیا جاتا ہے، اور کیا پارٹی کے اراکین کو انتظامی معاملات میں زیادہ نمائندگی دی جاتی ہے۔
لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے ٹیم کو بہتر بنانے کے لیے ایک سال کے لیے معطل کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہو تو اسے ایک سال کے لیے معطل کر دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھی کرکٹ ٹیم تنقید سے نہیں، بلکہ اچھے فیصلوں سے بنتی ہے۔ گورنر سندھ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ ناقص کارکردگی پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم کو بہتر بنانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ٹیم کو معطل کر کے اس کی بنیادی سطح پر اصلاحات کی جانی چاہئیں، تاکہ مستقبل میں بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ دوسری جانب، گورنر سندھ نے پاک افواج پر تنقید کرنے والوں کو بھی نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پاک افواج پر تنقید کرنے والے افراد ملک دوست نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک افواج ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے انتھک محنت کر رہی ہیں، اور ان پر تنقید کرنا درست نہیں ہے۔ گورنر کامران ٹیسوری نے اپنے برطانیہ کے دورے کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے یہ دورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں، تاکہ ملک کی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا، اور وہ شفافیت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ گورنر سندھ کے یہ بیان کرکٹ کے شائقین اور تجزیہ کاروں کے درمیان بحث کا باعث بن گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹیم کو معطل کرنا ایک سخت اقدام ہوگا، جبکہ دوسرے اسے ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) گورنر سندھ کے اس مشورے پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے۔
سپریم کورٹ میں سویلینز (شہریوں) کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، جس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل پیش کیے۔ سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا، لیکن سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے اس کے لیے قانون سازی کی۔ جسٹس امین الدین خان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، جو ہماری حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کا ٹرائل غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورٹ مارشل میں موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، لیکن نہ تو جج کی کوئی معیاد ہوتی ہے، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جا سکتی ہے۔ ہائیکورٹ میں رٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ محدود ہوتا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے بھارت میں کلبھوشن یادیو کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں خصوصی قانون سازی کے ذریعے کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا تھا، جو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب ممکن ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وکیلوں کو صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دینے چاہئیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے خطوط کے تنازع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل خطوں کا تنازع بھی چل رہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے وکیل عزیر بھنڈاری سے پوچھا کہ اگر جیل میں کاغذ کا ٹکڑا لے جانے کی اجازت نہیں ہے، تو خط کہاں سے آ جاتے ہیں؟ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے پر بھی بحث ہوئی، جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو زیر بحث لایا گیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کی تھی۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ زیر بحث ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کو انصاف کے بنیادی تقاضوں سے محروم رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے بنیادی حقوق مجروح ہوتے ہیں۔ سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے مزید سماعت کے لیے تاریخ طے کی، جس کے بعد معاملہ آگے بڑھے گا۔ یہ کیس ملک میں شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف قانونی جنگ کی ایک اہم کڑی ہے، جس کے نتائج ملکی عدالتی نظام پر دوررس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

Back
Top