سیاسی

صحافی منیب فاروق نے عمران خان پر طنز کیا کہ خان صاحب ایک کارٹون کا شکل بناکر اس سے گفتگو کرتے رہتے ہیں، کیا میں درست ہوں کہ وہ پاکستان کے آرمی چیف سے گفتگو کرتے ہیں؟ اس پر جاوید چوہدری نے کہا کہ جو لوگ جیل میں عمران خان سے ملتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ جیل میں خان صاحب کی انرجی میں حیران کن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، وہ عدالت آتے ہیں تو جج صاحب کو بھی چھیڑتے ہیں، وہاں لوگوں کو اور جیل عملے کو تنگ کرتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ خان صاحب کو جھلا یا بیوقوف نہ سمجھیں وہ بہت میچور ہیں اور سمجھدار حرکتیں کررہے ہیں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کسی کو زچ کیسے کیا جاسکتا ہے، وہ کیمرے کی طرف دیکھ کر کرنل صاحب کا نام لیتے ہیں کہ کرنل صاحب آپ دیکھ رہے ہیں، خان صاحب نے جس کیس کو لٹکانا ہو لٹکا دیتے ہیں جس کیس کو مختصر کرنا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ کیس ختم کرو اور مجھے سزا دہونے دو انکے مطابق انہوں نے شیرافضل مروت کو فارغ کیا ہے صرف اسلئے کہ پارٹی میں تحریک پیدا ہو اور پارٹی میں ڈیبیٹ ہو، کل کو عمرایوب اگر شیر افضل مروت کی سفارش کریں گے تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں گے انہوں نے اس موقع پراستاد امانت علی خان کی مثال دی کہ ان کے پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہلکی پھلکی موسیقی ہوتی تھی اور 8 بجنے کا انتظار کیا جاتا تھا۔۔اس پر جواب یہ ملتا تھا کہ یہ آٹھ بجارہے ہیں
جیو نیوز کے صحافی شہزاد اقبال کا کہنا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں کئی متنازعہ واقعات پیش آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی خاص پارٹی کی پوزیشن نہ دکھائیں، لیکن کچھ دیر کے لیے ایکسپریس چینل پر پی ٹی آئی کی برتری دکھائی گئی، جس پر سخت ردعمل آیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو "آزاد" امیدواروں کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، تاکہ دیگر آزاد امیدواروں کے ساتھ الجھن پیدا ہو۔ نیز، کراچی کے نتائج پر بات کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ شہزاد اقبال کے مطابق، انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن، اور فائز عیسیٰ کا کردار مشکوک تھا۔ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے ٹربیونلز کا رخ کیا، لیکن جب اسلام آباد ٹربیونل فیصلے کے قریب پہنچا تو قانون میں تبدیلی کر دی گئی۔ ریزرو سیٹوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور 26ویں ترمیم کے ذریعے انتخابی نتائج کو محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی۔ پوڈکاسٹ میں شہزاد اقبال نے یہ بھی بتایا کہ انہیں توقع تھی کہ پی ٹی آئی 60 سیٹیں جیتے گی، جبکہ ان کے دوستوں کا خیال تھا کہ 30-35 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ارکان خود کو انتخابات سے پہلے ہی فاتح سمجھ رہے تھے، لیکن انتخابات کے دن پی ٹی آئی کو اتنا ووٹ ملا کہ پورا نظام ہل گیا۔ انتخابی رات ریٹرننگ آفیسرز کو اغوا کر لیا گیا، جو نتائج کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ یہ بیانات انتخابی عمل میں شفافیت اور قانونی چارہ جوئی کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، اور سیاسی عدم استحکام کی عکاسی کرتے ہیں۔
نارووال: وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو آرمی چیف کو بار بار خط لکھنے کی ضرورت نہیں، اگر انہیں کوئی سیاسی تجویز یا شکایت ہے تو وہ وزیراعظم کو خط لکھیں کیونکہ وزیراعظم کا دفتر سیاسی ڈاکخانہ ہوتا ہے۔ مسلم گرلز کالج میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ آرمی چیف کی جانب سے اس معاملے کا جواب دے دیا گیا ہے، اور اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا وقت گزر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سیاست میں فوج کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ایک غیر ضروری عمل ہے، اور اس کے پیچھے 2018 میں اقتدار میں آنے کا خواہش ہے، جب دھاندلی کے ذریعے انہیں حکومت ملی تھی۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو اس بات کا سمجھنا چاہیے کہ فوج کے ترجمان نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی سیاسی تجربے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ایسے میں ان کا بار بار آرمی چیف کو خط لکھ کر فوج کو سیاست میں شامل کرنے کی کوشش کرنا ان کے موقف کی نفی ہے، جو وہ خود کو “سول حکمرانی کا چمپئن” کہتے ہیں۔ احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی دراصل ایک بیساکھی کی تلاش میں ہیں، تاکہ اس کے ذریعے دوبارہ اقتدار تک پہنچ سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس شخص کے خلاف شواہد موجود ہیں جس نے پاکستان کے خزانے سے 190 ملین پاؤنڈ چوری کیے ہیں، اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو ان کی حمایت کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ تحریک انصاف کی سیاست کرپشن کے خلاف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی چوری کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں اور اس معاملے کے وکلا جیسے علی ظفر اور سلمان اکرم راجہ حیرت کا باعث ہیں کہ وہ کس طرح ایسے مقدمات کے وکیل بن کر قوم کے سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کوئی بھی رہنما ایسی چوری کرے تو اسے سیاست سے ہمیشہ کے لیے باہر کر دیا جاتا ہے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے 26ویں آئینی ترمیم کے دوران غائب رہنے والے ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، عمران خان نے زین قریشی کے علاوہ تمام غائب ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکالنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کی سینئر قیادت کو پیغام بھیجتے ہوئے کہا کہ جو لوگ 26ویں آئینی ترمیم کے دن چھپے رہے، ان کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے متعلقہ ارکان کو پارٹی سے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت بھی کی۔ ذرائع کے مطابق، 26ویں آئینی ترمیم کے دن زرقا سہروردی، سینیٹر فیصل سلیم اور زین قریشی غائب رہے تھے۔ تاہم، زین قریشی کو اس فیصلے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی نے اسلم گھمن، ریاض فتیانہ، زین قریشی، مقداد علی خان اور اورنگزیب کچھی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیے تھے۔ واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم اکتوبر 2024 میں منظور کی گئی تھی، اور پی ٹی آئی نے اس ترمیم پر حکومت کی حمایت کے شبہے میں اپنے ارکان قومی اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔ شوکاز نوٹس حاصل کرنے والوں میں زین قریشی، ریاض فتیانہ، مقداد علی خان اور اسلم گھمن شامل تھے۔ اس فیصلے کے بعد پارٹی کے اندر نظم و ضبط کے حوالے سے سخت موقف کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، جب کہ زین قریشی کو استثناء دینے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد پارٹی کے اندر کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔
پشاور: خیبر پختونخوا کی ترقی اور عوامی مسائل کے حوالے سے ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ صحافی نجم ولی خان نے سوشل میڈیا پر صوبائی مشیر خزانہ مزمل اسلم سے کچھ سخت سوالات کیے، جن کا مزمل اسلم نے بھی بھرپور انداز میں جواب دیا۔ نجم ولی خان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر مزمل اسلم نے خیبر پختونخوا کو معاشی طور پر خوشحال اور ایک جنت بنا دیا ہے، تو پھر صوبے کی مائیں بچوں کی پیدائش کے دوران سب سے زیادہ اموات کا شکار کیوں ہیں؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ صوبے کے باشندوں کے والد چھلیاں بیچنے اور ان کے بیٹوں کو جوتے پالش کرنے کے لیے پنجاب کیوں جانا پڑتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے لوگ اپنے پیاروں کے علاج کے لیے اسلام آباد اور پنجاب کے ہسپتالوں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ نجم ولی خان نے کہا کہ وہ تعصب نہیں رکھتے بلکہ چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کو روزگار اپنے ہی صوبے میں ملے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ اپنے بزرگوں کی دعاؤں اور قبروں کو چھوڑ کر دربدر بھٹکیں، کیونکہ اپنے گھر اور شہر کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔ انہوں نے مزمل اسلم سے اس معاملے پر مکالمے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ صوبے کے لوگوں کو زندگی، صحت، تعلیم اور روزگار اپنے ہی علاقوں میں میسر ہو۔ اس کے جواب میں مزمل اسلم نے کہا کہ نجم ولی خان کے سوالات حقیقت سے دور ہیں اور ان کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی ترقی کے لیے موجودہ حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں بہتری شامل ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ صوبے میں صحت کے نظام کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور نئے ہسپتالوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ موجودہ سہولیات کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے صنعتی زونز اور تربیتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں، جن سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے نجم ولی خان سے کہا کہ وہ حقائق کو تسلیم کریں اور تنقید کے بجائے تعمیری تجاویز پیش کریں تاکہ صوبے کی ترقی کو مزید تیز کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے لوگ کیا چھلی نہیں بیچتے؟ کیا سری پائے نہیں بیچتے؟ جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے پی ٹی وی میں لگے اور دماغ دیکھو زرا ان صحافی کا۔ اس بحث نے سوشل میڈیا پر ایک نئی گرما گرمی پیدا کر دی ہے، جہاں دونوں طرف کے حامی اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مکالمہ کس نتیجے پر پہنچتا ہے اور کیا واقعی خیبر پختونخوا کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات سامنے آتے ہیں یا نہیں۔
شہریار آفریدی نے شیر افضل مروت کی حمایت میں آواز بلند کردی، پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کی مذمت اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر مملکت شہریار آفریدی نے پارٹی سے نکالے گئے رہنما شیر افضل مروت کی حمایت میں کھل کر بات کی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو جو کچھ ہوا، وہ پوری قوم نے دیکھا۔ ہمارے قائد نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی ہے، اور ہم آئین و قانون کے تحفظ کے لیے ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔ شہریار آفریدی نے پنجاب میں پی ٹی آئی کارکنوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہمارے کارکنوں پر ظلم کی انتہا کی جا رہی ہے، جیلوں میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "فارم 47" والوں کی سیاست اب دم توڑ چکی ہے، اب ان کے پاس کوئی جواز باقی نہیں بچا۔ شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالے جانے کے حوالے سے شہریار آفریدی نے کہا کہ شیر افضل نے پارٹی کے لیے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ شیر افضل مروت کے معاملے پر بانی چیئرمین سے بات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "کل جب میں بانی پی ٹی آئی سے ملا، انہوں نے میرے سامنے شیر افضل مروت کو ہٹانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔" واضح رہے کہ گزشتہ روز میڈیا پر خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر شیر افضل مروت کی بنیادی رکنیت ختم کر دی ہے۔ شہریار آفریدی نے قانون کی بالادستی کے لیے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سب کو مل کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر جوڈیشل کمیشن بنانے میں کیا رکاوٹ ہے؟ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر شفافیت کا مظاہرہ کرے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور کارکنوں کے خلاف مبینہ تشدد کے واقعات نے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، جبکہ شہریار آفریدی کا موقف پارٹی کے اندر اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
سینئر سیاستدان محمد علی درانی کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی جب بھی اس حکومت سے ہاتھ ملائے گی، وہ ان کی جیب کاٹ لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری میں حکومت اپنا ہی کوئی نام ان کی اپوزیشن کے بندوں کے ذریعے شامل کروا کر اپنا کام کروا لیں گی، جس طرح پہلے بھی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو پی ٹی آئی سے ہی نامزد کروایا۔ اس لیے پی ٹی آئی کو حکومت سے کسی معاملے میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ محمد علی درانی نے مائنس فضل الرحمان اپوزیشن اتحاد کا فارمولا بھی دیدیا، ان کا کہنا تھا کہ جس نے 26ویں ترمیم کو ووٹ دیا، وہ اپوزیشن کا اتحاد نہیں، حکومت کا اتحاد ہوگا۔ محمد علی درانی نے مزید کہا کہ اس ترمیم نے عدالتی، آئینی نظام اور بنیادی حقوق کو تباہ کر دیا۔ جو 47 کی حکومت ہو اور خود کہیں نہیں، اس کو آپ ترمیم کا حق دے رہے ہیں۔ اگر مولانا غلطی مان کر معافی مانگیں، تو اپوزیشن۔ سینئر سیاستدنا کا کہنا تھا کہ اسوقت عوام کی رائے واضح ہےکہ یہ حکومت دوستونوں پر کھڑی ہےایک پیپلزپارٹی اور دوسری جےیوائی(فضل الرحمان)،جب بھی حکومت مشکل میں اتی ہےیہ دونوں اسکو سہارا دےکربچالیتےہیں محمد علی درانی نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کےادارے اسوقت وزیراعلی خیبرپختونخوا کےخلاف سازشیں کررہےہیں کیونکہ وہ علی امین کوزیراثرنہیں کرپارہے
پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے 23 ویں اجلاس میں، صوبائی حکومت نے ماہ رمضان المبارک میں مستحق گھرانوں کو رمضان پیکیج کے طور پر نقد رقم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے منتخب عوامی نمائندے اور مقامی انتظامیہ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ تمام کابینہ اراکین کو اپنے متعلقہ ڈویژنز اور اضلاع میں انتظامیہ کے ساتھ مل کر باقاعدگی سے فیلڈ وزٹس کرنا ہوں گی۔ اس سلسلے میں پہلے ہی تمام ڈویژنل کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو تحریری احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ رمضان پیکیج کے تحت صوبائی حکومت ہر مستحق گھرانے کو 10 ہزار روپے دے گی۔ 10 ہزار روپے کا یہ پیکیج صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں 5 ہزار مستحق گھرانوں کو فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ رمضان پیکیج کی تقسیم ایک صاف اور شفاف طریقہ کار کے تحت ہوگی۔
لاہور: نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین وسیم مختار نے الیکٹرک وہیکلز کے چارجنگ اسٹیشنز کے لیے بجلی کے نرخوں کی درخواست کی سماعت کے دوران سوالات اٹھائے۔ انہوں نے پوچھا کہ سرمایہ کارانہ نظام میں قیمتوں کو کیسے کنٹرول کیا جا سکے گا اور اگر کوئی چارجنگ اسٹیشن من مانی قیمت وصول کرے تو کیا کیا جائے گا؟ نیپرا کے رکن مطہر رانا نے بھی سوالات کیے کہ کسی ایک مقام پر کتنے اسٹیشنز لگ سکتے ہیں اور اس کا تعین کون کرے گا؟ کیا ہر بندہ حکومت کے پاس درخواست لے کر آئے گا؟ انہوں نے پالیسی کی مدت اور اس کے تحت مستقبل میں ٹیرف میں تبدیلی کے امکانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ پاور ڈویژن کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی عالمی معاہدوں کے تحت 2030 تک نافذ العمل ہوگی۔ ایم ڈی نیکا (نیشنل الیکٹرک پاور کمپنی) نے واضح کیا کہ چارجنگ اسٹیشنز کے لیے انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی ضروری ہوگی اور کاروبار کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ 15 جنوری کو وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے الیکٹرک گاڑیوں کی رسائی کو فروغ دینے کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کا بجلی کا ٹیرف 45 فیصد کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزارت داخلہ کا نام تبدیل کرکے وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول رکھ دیا گیا، اینٹی نارکوٹکس کنٹرول (اے این ایف) ڈویژن کو بھی وزارت داخلہ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے نام کی تبدیلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، جس میں وزارت داخلہ کا نام تبدیل کرکے وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول رکھا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں تاکید کی گئی ہے کہ آئندہ خط و کتابت وزارت داخلہ کے بجائے وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول کے نام سے کی جائے۔ اے این ایف کو بھی وزارت داخلہ کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے، اینٹی نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کو بھی وزارت داخلہ میں ضم کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن کے بعد وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول کی ویب سائٹ پر بھی نیا نام اپنا لیا گیا ہے، نئے نام کے خوبصورت لوگو میں مزار قائد، مینار پاکستان، فیصل مسجد اسلام آباد، بلوچستان کے پہاڑوں کی پرنسز آف ہوپ سمیت سبزے کا امتزاج اپنایا گیا ہے۔
کراچی میں ہیوی ٹرانسپورٹ کو آگ لگانے اور لوگوں کو اکسانے کے الزام میں چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) غلام نبی میمن نے گرفتاری کی تصدیق کی۔ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لانڈھی میں ہیوی ٹرانسپورٹ کو 'ہائی جیک' کیا گیا، پارٹی کے دفتر لے جایا گیا اور صبح 7 بجے آگ لگا دی گئی۔ ترجمان مہاجر قومی موومنٹ کے مطابق آفاق احمد کو ان کی رہائش گاہ ڈیفنس سے گرفتار کیا گیا۔ ترجمان نے بتایا کہ 10 پولیس موبائلوں نے آفاق احمد کے بنگلے کا گھیراؤ کیا، جس پر آفاق احمد نے پولیس سے کہا کہ وہ چلنے کو تیار ہیں۔ کراچی میں ہیوی ٹریفک کو روکنے کے لیے شہری سڑکوں پر آئے اور مختلف علاقوں میں 4 ٹرکوں کو آگ لگا دی گئی۔ لانڈھی اور نارتھ کراچی میں شہریوں نے بھاری گاڑیوں کو شہر میں داخل ہونے سے روکا۔ سخی حسن پر مشتعل شہریوں نے واٹر باؤزر پر حملہ کیا اور اس کے شیشے توڑے۔ وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے رپورٹ طلب کی ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ایم کیو ایم پاکستان کے مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنوری میں ٹریفک حادثات کے باعث 89 شہری ہلاک ہوئے۔ جنگ کی رپورٹ کے مطابق، آفاق احمد نے کہا تھا کہ انتظامیہ کی وضاحت گمراہ کن ہے اور ہیوی ٹریفک کے بارے میں ان کا الٹی میٹم آج ختم ہوا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دن کے وقت ہیوی ٹریفک کو سڑکوں پر نہ لایا جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ آفاق احمد نے واضح کیا کہ ہیوی ٹریفک اور ڈمپرز سے انسانی زندگیوں کا نقصان ہو رہا ہے اور انہیں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 48 گھنٹے کا الٹی میٹم منگل کی صبح ختم ہو رہا ہے، جس کے بعد کراچی کے نوجوان اپنے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کریں گے۔
مشیر وزیراعظم رانا ثنا اللہ نے آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں بڑا بیان دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کے خلاف ریفرنس پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ججز ہر معاملے پر خط لکھ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں معاملات ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان کے خطوط میڈیا کو پہلے مل جاتے ہیں، جسے مس کنڈکٹ سے جوڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ججز ہر معاملے میں خط لکھتے اور بائیکاٹ کرتے ہیں، جس سے عدالتی کارروائی متاثر ہوتی ہے۔ انھوں نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی غیرجانبداری کی تعریف کی اور کہا کہ اگر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے جج کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ رانا ثنا اللہ نے آئینی عدالت کے قیام کا ذکر کیا اور کہا کہ تحریک انصاف اور جے یو آئی کے مطالبے پر آئینی بنچ بنایا گیا تھا، لیکن تحریک انصاف جلدی الیکشن پر بات نہیں کرتی۔ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے دھاندلی اور 26 نومبر کی تحقیقات کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ عمران خان کی فوج اور عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈا کی مذمت کرتے ہوئے، رانا ثنا اللہ نے مولانا فضل الرحمان کو مشترکہ اپوزیشن کا حصہ بنانے کی حمایت کی اور ان کی شخصیت کی تعریف کی۔ انہوں نے آئی ایم ایف وفد سے چیف جسٹس کی ملاقات کو معمول کی کارروائی بتایا اور کہا کہ اس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ وکلا برادری کی ناراضی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر وجہ معلوم ہو جائے تو اسے دور کیا جا سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجا کے سیاسی ایجنڈے کو نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے، رانا ثنا اللہ نے آئینی اختیارات کی وضاحت کی اور کہا کہ چیف جسٹس کے غیرجانبداری پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ انہوں نے معاشی استحکام کے لیے دو سال کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ سے نکل چکا ہے۔ جنرل باجوہ کے لاپتا افراد کے مسئلے پر قانون سازی کے مطالبے کو بھی انہوں نے ذکر کیا۔
پشاور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی ہدایت پر خیبرپختونخوا میں کرپشن کے خاتمے کے لیے پوری تیاری کر لی گئی ہے۔ مشیر احتساب مصدق عباسی نے اینٹی کرپشن فورس ایکٹ کو حتمی شکل دے دی ہے جس کے تحت اینٹی کرپشن فورس میں تین ونگز بنائے جائیں گے اور اس کی قیادت ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کریں گے۔ نئی فورس میں 10 سے زیادہ افراد کو بھرتی کیا جائے گا جنہیں 4 ماہ کی تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، پراسیکیوشن کے لیے ڈائریکٹر جنرل کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے گا۔ اینٹی کرپشن فورس کو بے نامی جائیدادوں کی تحقیقات کرنے اور عوام سے دھوکا دہی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ نئی بھرتیوں کے ذریعے فورس کو تقویت دی جائے گی جبکہ ڈیوٹیشن پر موجود عملے کو واپس بھیجا جائے گا۔ ایکٹ کے تحت، انویسٹیگیٹر کو انکوائری 6 ماہ میں مکمل کرنی ہوگی، اگر یہ وقت نہ ملے تو ایک سال کا اضافی وقت دیا جائے گا اور اس مدت میں بھی انکوائری مکمل نہ ہو سکی تو وہ بند کر دی جائے گی۔ اینٹی کرپشن ادارہ عدالتوں میں کیسز کے لیے اپنے پراسیکیوٹرز کی بھرتی کرے گا۔ شہری جو معلومات فراہم کریں گے اور جو افسران اچھی تحقیقات کریں گے، انہیں انعامات دیے جائیں گے۔ جبکہ غلط کیس بنانے والے اہلکاروں کو 3 سے 7 سال کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ مشیر احتساب خیبرپختونخوا مصدق عباسی نے بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین نے مجوزہ قانون کی منظوری دے دی ہے اور اب یہ کابینہ سے منظوری کے لیے جلد پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے وژن کے مطابق کرپشن کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور نئے قانون کے تحت ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی جہاں انہیں خیبرپختونخوا میں کرپشن کے حوالے سے بریف کیا گیا تھا۔
پشاور سے آنے والی خبر کے مطابق، جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کے کیس میں پانچ ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ ان ملزمان میں صوبائی وزیر مینا خان آفریدی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ضلعی صدر عرفان سلیم، ریجنل صدر عاصم خان، رکن صوبائی اسمبلی فضل الہٰی اور تحصیل ناظم انعام خان شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، یہ مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ دولت خان نے سن کر بریت کا فیصلہ سنایا۔ یہ واقعہ 3 نومبر 2022 کو پیش آیا جب پشاور کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ پولیس نے اس واقعہ کے بعد فضل الہٰی سمیت پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف شمالی کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا تھا، جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 341، 353 اور 437 کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، سرکاری ملازم کو نوکری سے روکنے اور حملے کی کوشش کرنے کے الزامات شامل تھے۔ یہ بھی نوٹ کیا جاتا ہے کہ ایف آئی آر میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ مقدمہ کس نے درج کیا، تاہم پی ٹی آئی کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ محمود خان اپنی جماعت کے رکن کی گرفتاری سے ناخوش تھے۔
صحافی ثاقب بشیر اور حسنات ملک نے گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن اجلاس کا احوال سامنے رکھ دیا ہے۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ برسوں کی دوستی تھی جسکا خیال نہ رکھا ہحیی آفریدی نے اور منصور علی شاہ سے خاصی تلخ کلامی ہوئی۔ اصولی دو پوائنٹس تھے کہ سب سے پہلے متنازعہ 26 ویں ترمیم کا کیس 16 ججز فل کورٹ بیٹھ کر سن لیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں سینیارٹی کا معاملہ طے کرلیا جائے لیکن یحیی آفریدی صاحب بضد تھے کہ ہم نے تو ججز لانے ہی لانے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف اسلیے ججز اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران سے ملاقات کرے گا کیونکہ پوری دنیا میں یہ بات پھیل گئی یے کہ آئین کا بنیادی سٹرکچر تبدیل کرکے عدلیہ کو ماتحت بنا دیا گیا اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا عدلیہ اتنی آزاد ہے کہ چیک اینڈ بیلنس رکھ سکے؟ انکے مطابق پوری دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو کے ما تحت ادارہ بنا دیا گیا ہے،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور منصور علی شاہ میں آج تلخ کلامی ہوئی ہے،لیکن یحییٰ آفریدی بضد تھے کہ ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم سنے بغیر پہلے 8 ججز سپریم کورٹ لانے ہیں، ثاقب بشیر نے ایک نجی چینل کے شو میں کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر اتنے بڑے پیمانے پر ڈسکشن ہورہی تھی کہ صرف آئی ایم ایف نہیں بلکہ سفارتی حلقے بھی اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ اب لگتا ہے حکومت نے سب کچھ کنٹرول کرلیا ہے۔ دوسری جانب حسنات ملک کا کہنا تھا کہ جسٹس یحیی نے جس طرح آج دیگر ججز کو Taunt کیا،ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیف جسٹس اپنے ججز کو کہے کہ تم چھٹیوں پر جاتے ہو۔اسی وجہ سے جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مبصور علی شاہ کی 40 سالہ رفاقت بھی تلخی کی نظر ہو گئی۔یحیی آفریدی اور امین الدین نے آج بھی حکومت کو سپورٹ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو کام یحیی آفریدی کر رہا ہے یہ تو جسٹس ارشاد حسن نے بھی نہیں کیا تھا ۔ اپنی 40 سالہ رفاقت اور دوستی کا بھی خیال نہیں کیا اور وہ اس نظام کا گارنٹر بن گیا ہے۔منصور علی شاہ سے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور شدید تلخ کلامی بھی کی۔۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عامر فاروق کو لانے کے لیے جمال مندوخیل اور اختر حسین تک نے پوزیشن لے لی کہ پہلے سینیارٹی کا تعین کرلیا جائے لیکن یحیی آفریدی نہیں مانا۔۔ لاہور ہائیکورٹ سے کوئی جج نہیں جاسکا انکے مطابق اسکی وجہ یہ ہے کمیٹی میں موجود ججز عالیہ نیلم کو سپریم کورٹ لانا چاہتے ہیں لیکن مریم نواز نہیں چاہتی کہ لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس عالیہ نیلم جائے اسلیے اعظم نذیر تارڑ نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ سے تقرری کا معاملہ موخر کروا دیا
آٹھ فروری الیکشن کو ایک سال مکمل ہونے پر شاہزیب خانزادہ نے 25 منٹ خصوصی سیگمنٹ کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ 8 فروری کی رات کو کیا کچھ ہوا؟ فارم 47 پر جیتنے والے امیدواروں کو کیسے فارم 47 پر ہرایا گیا؟ نوازشریف کی شکست کو کیسے فتح میں تبدیل کیا گیا؟ کیسے نتائج آنے کا سلسلہ رکا اور صبح دھڑا دھڑ نتائج آنا شروع ہوگئے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ 8 فروری2024کے متنازع ترین الیکشن کوایک سال ہوگیا۔فارم 45 پرجیتے ہوئےامیدواروں کے بجائےفارم47پرلوگ جتوائےگئے اورحکومت بنائی گئی،انتخابی دھاندلی کی شکایات پرکچھ نہیں کیاگیا۔ دیکھیےآج سے ایک سال پہلےکیسے ان انتخابات کے نتائج کو جیونیوز پرایکسپوز کیاگیاتھا شاہزیب خانزدہ کا اپنے پروگرام میں کہنا تھا کہ اس الیکشن میں دھاندلی کا نیا طریقہ متعارف کرایا گیا، فارم 45 پر جیتنے والے امیدوار الیکشن سے اگلے دن فارم 47 پر ہارنا شروع ہوگئے، فارم 47 کا آج بھی ن لیگ کے جیتنے والے امیدواروں کو طعنہ دیا جاتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن سے چند دن پہلے عمران خان کو 3 کیسز میں مضحکہ خیز انداز میں سزا سنادی گئی جبکہ دوسری طرف نوازشریف وطن واپس آئے تو انکے کیسز برق رفتاری سے ختم کئے گئے۔ انکے مطابق تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھین لیا گیا، انہیں کھل کر جلسے جلوس کی اجازت نہیں تھی، امیدواروں کو اٹھالیا جاتا تھا،جبکہ ن لیگ، پیپلزپارٹی کے پاس کھلا میدان تھا، تحریک انصاف کے اپس پاس زیادہ تر نئے چہرے تھے جبکہ ن لیگ، پی پی کے پاس منجھے ہوئے سیاستدان تھے اپنے اس پروگرام میں انہوں نے 8 فروری کی رات کو جب نتائج آرہے تھے اور تحریک انصاف والے جیت رہے تھے انہیں بھی شئیر کیا۔ایک سال قبل ہی نوازشریف شکست سے مایوس ہوکر گھر چلے گئے تھے اور صبح انکی فتح کا اعلان کیا گیا۔ الیکشن کو ایک سال گزر گیا۔ لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن "جیتنے" والے عون چوہدری کے حلقے کے پولنگ اسٹیشن 204 میں کل 393 ووٹ کاسٹ ہوئے لیکن ان میں سے عون چوہدری نے 696 ووٹ حاصل کئے۔ ڈھٹائی اور بے شرمی کی حد یہ ہے کہ فارم آج بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور شفاف الیکشن کے دعویداروں کو منہ چڑا ہے۔۔۔
پشاور: گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبائی حکومت کی جانب سے منظوری کے لیے بھیجا گیا ملازمین کی برطرفی کا قانون مسترد کر دیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، گورنر نے بل کو واپس بھیجتے ہوئے اس میں مزید ترامیم کی تجویز دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے بھرتی ہونے والے ملازمین کو بل سے خارج کیا جائے۔ گورنر فیصل کنڈی نے یہ بھی وضاحت کی کہ ملازمین کو اپیل کے حق سے محروم کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے اور ماضی میں کی گئی قانونی بھرتیوں کو کالعدم قرار دینا غیر آئینی ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا کہ بل پر نظرثانی کی جائے، ورنہ اسے عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے غیرقانونی بھرتیوں کے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔ یاد رہے کہ 26 دسمبر 2024 کو گورنر نے 'یونیورسٹیز ترمیمی بل 2024' بھی اعتراض لگا کر واپس کر دیا تھا۔ اس بل کو دسمبر 2024 میں کابینہ اور خیبر پختونخوا اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ گورنر نے اس پر اعتراض کیا تھا کہ مجوزہ ترامیم منی بل کے مطابق نہیں آتیں اور ٹیکسیشن اور فنڈز کے انتقال کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، ساتھ ہی پارلیمانی پارٹی کے ممبران کی رائے بھی نہیں لی گئی۔
اسلام آباد: بشریٰ بی بی کے 26 نومبر سے متعلق مقدمات میں جمع کروایا گیا تحریری جواب سامنے آگیا ہے۔ اس بیان میں بشریٰ بی بی نے اپنی ساری زندگی کو قانون و آئین کے مطابق گزارنے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہیں بدنیتی سے اور بغیر کسی قانونی جواز کے مقدمات میں ملوث کیا گیا ہے۔ بیان میں انہوں نے خود کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق خاتون اول کے طور پر متعارف کروایا اور کہا کہ انہیں ان کے شوہر کے سیاسی مخالفین کی ایماء پر ناحق ملوث کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کے شوہر کو ذہنی اذیت دینا اور سیاسی انتقام لینا ہے۔ بشریٰ بی بی نے یہ بھی بتایا کہ ان کے شوہر نے اپنی زندگی قانون و آئین کی بالادستی کے لیے وقف کی ہے اور کبھی بھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ ان کے بیان میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے شوہر کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا ہے، جن میں توشہ خانہ، عدت اور القادر ٹرسٹ کیسز شامل ہیں۔ بیان میں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی غیر آئینی یا غیر قانونی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا اور انہیں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ملوث کیا گیا ہے۔ انہوں نے 19 نومبر 2024 کے مبینہ بیان سے تعلق کی نفی کی اور کہا کہ وہ بیان آئین و قانون کے مطابق تھا اور اس کے بعد بھی ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے اور اپنے شوہر کے لیے آئینی و قانونی حقوق کی بات کی ہے۔
اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ، رضا ربانی نے آئی ایم ایف کے تکنیکی مشن کے ویزے منسوخ کر کے واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ کوئی بھی خودمختار ملک کسی غیر ملکی ادارے کو اپنے عدالتی نظام کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ربانی نے وزیر خزانہ پر زور دیا کہ انہیں اس طرح کی شرائط پر دستخط کرنے کے بعد استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ آئی ایم ایف معاہدے کو پارلیمنٹ اور عوام سے کیوں خفیہ رکھا گیا۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کا تین رکنی مشن گزشتہ روز پاکستان پہنچا ہے، جس کا مقصد ملک میں ناقص گورننس اور کرپشن کا جائزہ لینا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق، یہ مشن مالیاتی گورننس، مالیاتی شعبہ کی نگرانی، مارکیٹ اصلاحات، قانون کی حکمرانی، اینٹی منی لانڈرنگ اور انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت سفارشات دے گا، جس سے حکومت کو شفافیت بڑھانے اور ادارہ جاتی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ آئی ایم ایف کا یہ مشن مارچ تک پاکستان میں رہ کر مختلف شعبوں میں پیشرفت کا جائزہ لے گا۔
لاہور: چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود نے کہا ہے کہ ہاکی کو بحال کرنے کے لیے سیاسی بجائے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان کے ٹیلنٹ کو دیکھ کر بھارت کو بھی ایک دن پاکستان آکر کھیلنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ لاہور میں کرکٹ کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ہاکی میلے کی تیاریاں جاری ہیں جس میں جرمن اور ہالینڈ کے معروف ہاکی کلبز 11 فروری کو لاہور پہنچیں گے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر وزیراعظم یوتھ پروگرام کی ٹیم بھی ایکشن میں ہے۔ لاہور کے جوہر ٹاؤن ہاکی اسٹیڈیم میں ٹیم کے انتخاب کے لیے ٹرائلز ہوئے جہاں رانا مشہود نے نگرانی کی۔ ان ٹرائلز میں چاروں صوبوں سے 250 سے زائد نوجوان کھلاڑیوں نے شرکت کی، جن میں اسلام آباد اور گلگت کے کھلاڑی بھی شامل تھے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا مشہود نے بتایا کہ وزیراعظم کے وژن کے تحت نوجوانوں کو ہر شعبے میں آگے لایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، "نوجوانوں کو انتشار کے بجائے آگے بڑھنے کا موقع دینے سے ملک ترقی کرے گا۔ سیاسی نہیں بلکہ عملی طور پر قومی کھیل کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔" رانا مشہود نے مزید کہا کہ لاہور میں انٹرنیشنل ہاکی کھلاڑیوں کی آمد پر بہت خوشی ہے اور ہاکی کے نوجوان کھلاڑیوں کو غیر ملکیوں سے کھیلنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ اس میں خواجہ جنید فوکل پرسن اور پرویز سنڈھیلا یورپین ہاکی کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

Back
Top