سیاسی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی ضمانتوں کو منسوخ کرنے کے لیے دائر کی گئی اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 27 فروری کو ان درخواستوں پر سماعت کرے گا، جس میں جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس گل حسن اورنگزیب شامل ہوں گے۔ پنجاب حکومت نے سانحہ 9 مئی کے مقدمات میں ملزمان کی ضمانتوں کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی کی ضمانت قبل از گرفتاری بحال کرنے اور ان کے جسمانی ریمانڈ کو کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلوں کو بھی سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، پی ٹی آئی رہنماؤں عالیہ حمزہ اور شہریار آفریدی کی ضمانتوں کی منسوخی کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواستوں پر بھی 27 فروری کو سماعت ہوگی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ان کیسز کی سماعت کرے گا۔ دوسری جانب، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے جی ایچ کیو حملہ کیس میں بریت کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ یہ کیس 28 فروری کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سنے گا، جس میں جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس گل حسن اورنگزیب شامل ہوں گے۔ شیخ رشید کی بریت کی درخواست اس سے قبل ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ سے مسترد ہو چکی ہے۔ پنجاب حکومت نے عالیہ حمزہ اور شہریار آفریدی کی ضمانتوں کو منسوخ کرنے کے لیے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ ان تمام کیسز کی سماعت کے فیصلے اگلے ہفتے متوقع ہیں۔
فیصل چوہدری نے اپنے بھائی فواد چوہدری کے الزامات کی تردید کردی ان کا کہنا تھا کہ عمران خان جیل میں موجودہ لیڈرشپ کی وجہ سے نہیں بلکہ کچھ ظالم طاقتوں کی وجہ سے ہیں عمران خان پر سب جھوٹ کیس ہیں عمران خان اگر آج باہر آنا چاہیں تو ابھی آ سکتے ہیں لیکن وہ کسی ڈیل کے زریعے کبھی نہیں آئیں گے فیصل چوہدری نے ایک اور ٹاک شو میں کہا کہ مریم نواز کسی کی کیا سگی ہوں گی وہ اپنے باپ کی سگی نہیں ہے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے باپ کو کھڈے لائن لگا دیا صرف اپنی سیاست چمکانے کے لیے یہ ان پڑھ خاندان ہے ان کے گھر میں کبھی کسی نے کتاب نہیں دیکھی ایک موقع پر فیصل چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کٹھ پتلی بن چکی ہے اور اس کے بعد فیصل چوہدری کی آواز کو بند کردیا گیا فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ عدلیہ میں مداخلت کی بات کو اب چھوڑ دیں کیونکہ ایگزیکٹو نے عدلیہ پر مکمل قبضہ کرتے ہوئے عدلیہ کو فتح کرلیا ہے، چیف جسٹس پہلے چیف جسٹس ہیں جو IMF کے وفد سے بھی ملے اور وزیر اعظم سے بھی ملے۔ ایک موقع پر فیصل چودھری نے کہا کہ میاں صاحب کی کیا اہمیت ہے؟ ابھی آپ نے عمران خان کے نام سے ٹاک شو شروع کیا، عمران خان کے نام پر ختم کریں گے۔ جس پر محمد مالک نے جواب دیا کہ وزرا بھی تقریر عمران خان سے شروع اور عمران خان پر ختم کرتے ہیں، ہم کیا کریں۔ بلال بھائی آپ کس ضابطہ کے تحت ایم این اے ہیں؟ کامران شاہد ضابطہ فوجداری، فیصل چودھری
عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خط کی باڈی لینگویج ان کے گفتگو کے انداز سے مختلف ہے جب فیصل چوہدری نے پوچھا کہ کونسا خط ہے جس کی باڈی لینگویج ہوتی ہے تو عاصمہ شیرازی لاجواب تھی عاصمہ شیرازی اس پر سوال پوچھتی رہیں کہ آپ نے اردو ادب پڑھا ہے؟ جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ ہاں پڑھا ہے اسکا اس سے کیا تعلق؟انہوں نے مزید پوچھا کہ آج آپکو ہوا کیا ہے جو خط پر اتنی بات کررہے ہیں، یہ ان سے پوچھیں کہ خط کیسے باہر پہنچا جن کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔ عاصمہ شیرازی نے عمران خان کے خطوں کو مکتوب غالب قرار دینے کی کوشش کی تو فیصل چوہدری نے کہا کہ یہ مکتوب غالب نہیں بلکہ جو شخص سیاست پر غالب ہے اس کے مکتوب ہیں۔ انہوں نے فیصل چوہدری سے سوال کیا کہ کیا آپ کوشش کر رہے ہیں پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم ہو جائے؟ جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کو ہم نے قید کیا؟ میڈیا کی آزادی ہم نے چھینی؟ انٹرنیٹ ہم نے سلو کیا؟ ہم نے ملٹری کورٹ سے سزائیں دلوائیں؟ ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ بشری بی بی صرف سیاسی عداوت کا شکار ہو رہی ہیں کہ وہ عمران خان کی بیوی ہیں باقی ان پر لگنے والے الزام 100 فیصد غلط ہیں۔ فیصل واوڈا نے کہا ک پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی نے عمران خان کے خط کی توثیق نہیں کی۔ اس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان کے خط کی توثیق پارٹیاں، کمیٹیاں کریں یا نہ کریں پاکستان کا ہر بندہ توثیق کرتا ہے۔ فیصل واوڈا نے سوال کیا کہ کیسے کرتا ہے؟ ایک موقع پر فیصل چوہدری نے فیصل واوڈا سے سوال کیا کہ آپ نے کہا تھا گورنر بدلے گا، وہ بھی نہیں بدلا۔ جس پر فیصل واوڈا نے کہا ہ کون سا گورنر؟ جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ وہ کرپشن والا؟ اس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ تاریخ نہیں دی تھی، وقت کے ساتھ ہوتا چلا جائے گا۔ ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کا مرکز عمران خان ہے اور وہ اڈیالہ جیل میں موجود ہے، تحریک انصاف کے ورکرز صرف عمران خان کو Idealize کرتے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا فوکس اس وقت عمران خان کی رہائی اور انکے کیسز ہیں،فواد نہیں
نیویارک میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ اگر 2017 میں ان کے مشورے پر عمل کیا جاتا تو پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ 2017 تک پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا، لیکن بعد ازاں ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013 سے 2017 کے درمیان پاکستان نے معاشی استحکام کے قابل فخر اشاریے حاصل کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور میں مہنگائی کی شرح 3.6 فیصد تک کم ہو گئی تھی، شرح سود 5 فیصد پر آ گئی تھی، اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے ملک میں امن بحال کیا گیا تھا، اور پاکستان نے پہلی بار آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ملک کی معیشت کمزور ہو کر 47 ویں نمبر پر آ گئی اور دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ 2022 میں جب پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ 2023 میں انہیں دوبارہ موقع ملا تو معیشت کو استحکام کی طرف لے جایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مہنگائی کی شرح کم ہو کر 6.4 فیصد ہو گئی، شرح سود 22 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد پر آ گئی، اور زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اب عالمی ادارے دوبارہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کو سراہ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ 2014 میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھاری مالی وسائل فراہم کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں ملک محفوظ ہوا تھا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ سمجھوتے کیے، جس کی وجہ سے سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کیا گیا اور ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک میں حکومت کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، بلکہ بار بار تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پچھلی حکومت معیشت کو 24 ویں سے 20 ویں نمبر پر لے جاتی تو وہ اس کی تعریف کرتے، لیکن انہوں نے پاکستان کو 47 ویں معیشت بنا دیا، جس کی کوئی ستائش نہیں کی جا سکتی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو اب معاشی استحکام کی طرف لے جانے کے لیے مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے، اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے تاجروں اور ہول سیلرز سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکامی کے باعث تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں سیلری کلاس نے 285 ارب روپے انکم ٹیکس جمع کرایا، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 53 فیصد زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق، تنخواہ دار طبقے نے پچھلے سال کی نسبت 100 ارب روپے زائد ٹیکس ادا کیا۔ گزشتہ مالی سال میں سیلری کلاس نے مجموعی طور پر 368 ارب روپے انکم ٹیکس جمع کرایا تھا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت گزشتہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر 75 ارب روپے کا اضافی ٹیکس بوجھ ڈالا گیا تھا، جس کے باعث ملازمین کو مزید ٹیکس ادا کرنا پڑا۔ نان کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے رواں سال 122 ارب روپے ٹیکس ادا کیا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق، نان کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے انکم ٹیکس کی مد میں 86 ارب روپے ادا کیے، جبکہ صوبائی حکومتوں کے ملازمین نے 48 ارب روپے ٹیکس جمع کرایا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 96 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت کے ملازمین نے بھی گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 29 ارب روپے زائد ٹیکس ادا کیا، جو 63 فیصد اضافے کے برابر ہے۔ حکومت کی جانب سے تاجروں اور ہول سیلرز سے ٹیکس وصول کرنے کی کمزور حکمت عملی کے باعث سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے نے ایف بی آر کی توقعات سے بھی 20 ارب روپے زیادہ ٹیکس جمع کرایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تاجروں اور ہول سیلرز سے بھی مناسب ٹیکس وصول کیا جا سکے۔ اس کے بغیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا رہے گا، جس سے معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ملکی پالیسی سازی پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت اور معیشت سے متعلق فیصلے پارلیمنٹ یا حکومتی ایوانوں میں نہیں، بلکہ بند کمروں میں ہو رہے ہیں، جہاں ماورائے حکومت اور ماورائے پارلیمان قوتیں پالیسیاں طے کر رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پورا ملک اس وقت پریشانی اور اضطراب کا شکار ہے۔ عام آدمی کے پاس نہ روزگار ہے، نہ جان و مال کا تحفظ۔ محکمے اور ادارے ملیا میٹ کیے جا رہے ہیں، جس سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس صورتحال کی فکر کون کرے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت عوام کے مفاد کے خلاف فیصلے کرتی ہے تو پارلیمنٹ کو اس پر بحث کرنی چاہیے، لیکن ایک سال سے حکومت ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملکی سالمیت کے حوالے سے پالیسیاں ایوانوں میں نہیں بنائی جا رہیں، بلکہ بند کمروں میں طے کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ریاست کی بقا اور سالمیت کے بارے میں بات کرنے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان صوبوں میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے سوال کیا کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ حکمران ملکی معاملات سے بے خبر ہیں، جبکہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی سویلین اتھارٹی موجود نہیں ہے، اور نظریاتی سیاست کا فقدان ہے۔ ان کا الزام تھا کہ خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلے کرتی ہے، اور حکومت کو ان فیصلوں پر مہر لگانا پڑتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے عالمی قوتوں کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو سیاسی اور دفاعی طور پر غلام بنانے کے نئے طریقوں پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے فیصلے اقوام متحدہ کی کمیٹیوں میں ہوتے ہیں، اور ہماری معیشت عالمی اداروں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے عدلیہ سے ملاقاتوں پر بھی سوال اٹھایا کہ آئی ایم ایف کا عدلیہ سے کیا تعلق ہے؟ مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا کہ بلوچستان کے کچھ اضلاع اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر آزادی کا اعلان کر دیں تو اگلے ہیندن اقوام متحدہ میں قبول کر لیا جائے گا اور پاکستان کو قابض قرار دے دیا جائے گا ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ریاست کی مٹی کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے اسکے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کیا لیکن ہماری ریاست کے کرتا دہرتا اتنے نا اہل ثابت ہوئے کہ کئے کرائے کو بھی نہیں سنبھال سکے، مولانا فضل الرحمان انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں بھی عوام کی نمائندہ نہیں رہیں، اور جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو کوئی منتخب نمائندہ ان کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ملکی سالمیت اور بقا کے سوال کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملک کے لیے سوچنا ہوگا، ورنہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ ملک کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے اختتام پر کہا کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے، ورنہ عالمی قوتیں ہمیں سیاسی اور معاشی طور پر غلام بناتی رہیں گی۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قائدین کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے عدلیہ پر زور دیا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور کہیں کہ "اب بہت ہو چکا"۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی عدالت کے ججوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی اور انہوں نے مسلح افواج کے سربراہان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوج کے جوانوں کی بڑی تعداد میں ہونے والی شہادتوں کی تحقیقات کریں۔ پریس کانفرنس میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان، سینیٹر شبلی فراز، اور سلمان اکرم راجا بھی موجود تھے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کو عوام نے واضح مینڈیٹ دیا تھا، لیکن 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے ان کے 74 درخواستوں میں سے کسی پر بھی کارروائی نہیں کی۔ بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کا فیصلہ وہ جج کریں جو ترمیم سے پہلے تعینات تھے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن حکومت نے راہ فرار اختیار کی۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ عمران خان، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، حسان نیازی، اور میاں محمود الرشید سمیت تمام زیر حراست افراد سیاسی قیدی ہیں اور انہیں فوری رہا کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی نہیں ہے، جس کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول خراب ہو چکا ہے۔ عمر ایوب نے حکومتی وزراء کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہنگائی کے معاملے پر ان کے ساتھ مناظرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی، گیس، آٹا، اور چینی کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی قوت خرید ختم کر دی ہے۔ انہوں نے بلوچستان کے حالات پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ صوبے کے 8 اضلاع میں پاکستان کا جھنڈا تک نہیں لہرایا جا سکتا۔ انہوں نے مسلح افواج کے سربراہان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوج کے جوانوں کی بڑی تعداد میں ہونے والی شہادتوں کی تحقیقات کریں۔ سلمان اکرم راجا نے انتخابی دھاندلی کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فارم 45 اور فارم 46 میں تضادات ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ووٹوں کی گنتی میں بے قاعدگیاں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان کی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور انتخابات کے نتائج کو لوٹ لیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے عدلیہ پر زور دیا کہ وہ انتخابی دھاندلی کے معاملات پر فوری کارروائی کرے اور عوام کے ووٹ کی حرمت کو بحال کرے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور اسے فوری طور پر تحلیل کیا جانا چاہیے۔ عمر ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور عمران خان ہی وہ واحد رہنما ہیں جو ملک کو متحد کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور فوج کو عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تاکہ ملک کو استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
صحافی منیب فاروق نے عمران خان پر طنز کیا کہ خان صاحب ایک کارٹون کا شکل بناکر اس سے گفتگو کرتے رہتے ہیں، کیا میں درست ہوں کہ وہ پاکستان کے آرمی چیف سے گفتگو کرتے ہیں؟ اس پر جاوید چوہدری نے کہا کہ جو لوگ جیل میں عمران خان سے ملتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ جیل میں خان صاحب کی انرجی میں حیران کن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، وہ عدالت آتے ہیں تو جج صاحب کو بھی چھیڑتے ہیں، وہاں لوگوں کو اور جیل عملے کو تنگ کرتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ خان صاحب کو جھلا یا بیوقوف نہ سمجھیں وہ بہت میچور ہیں اور سمجھدار حرکتیں کررہے ہیں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کسی کو زچ کیسے کیا جاسکتا ہے، وہ کیمرے کی طرف دیکھ کر کرنل صاحب کا نام لیتے ہیں کہ کرنل صاحب آپ دیکھ رہے ہیں، خان صاحب نے جس کیس کو لٹکانا ہو لٹکا دیتے ہیں جس کیس کو مختصر کرنا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ کیس ختم کرو اور مجھے سزا دہونے دو انکے مطابق انہوں نے شیرافضل مروت کو فارغ کیا ہے صرف اسلئے کہ پارٹی میں تحریک پیدا ہو اور پارٹی میں ڈیبیٹ ہو، کل کو عمرایوب اگر شیر افضل مروت کی سفارش کریں گے تو وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں گے انہوں نے اس موقع پراستاد امانت علی خان کی مثال دی کہ ان کے پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہلکی پھلکی موسیقی ہوتی تھی اور 8 بجنے کا انتظار کیا جاتا تھا۔۔اس پر جواب یہ ملتا تھا کہ یہ آٹھ بجارہے ہیں
جیو نیوز کے صحافی شہزاد اقبال کا کہنا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں کئی متنازعہ واقعات پیش آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی خاص پارٹی کی پوزیشن نہ دکھائیں، لیکن کچھ دیر کے لیے ایکسپریس چینل پر پی ٹی آئی کی برتری دکھائی گئی، جس پر سخت ردعمل آیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو "آزاد" امیدواروں کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، تاکہ دیگر آزاد امیدواروں کے ساتھ الجھن پیدا ہو۔ نیز، کراچی کے نتائج پر بات کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ شہزاد اقبال کے مطابق، انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن، اور فائز عیسیٰ کا کردار مشکوک تھا۔ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے ٹربیونلز کا رخ کیا، لیکن جب اسلام آباد ٹربیونل فیصلے کے قریب پہنچا تو قانون میں تبدیلی کر دی گئی۔ ریزرو سیٹوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور 26ویں ترمیم کے ذریعے انتخابی نتائج کو محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی۔ پوڈکاسٹ میں شہزاد اقبال نے یہ بھی بتایا کہ انہیں توقع تھی کہ پی ٹی آئی 60 سیٹیں جیتے گی، جبکہ ان کے دوستوں کا خیال تھا کہ 30-35 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ارکان خود کو انتخابات سے پہلے ہی فاتح سمجھ رہے تھے، لیکن انتخابات کے دن پی ٹی آئی کو اتنا ووٹ ملا کہ پورا نظام ہل گیا۔ انتخابی رات ریٹرننگ آفیسرز کو اغوا کر لیا گیا، جو نتائج کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ یہ بیانات انتخابی عمل میں شفافیت اور قانونی چارہ جوئی کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، اور سیاسی عدم استحکام کی عکاسی کرتے ہیں۔
نارووال: وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو آرمی چیف کو بار بار خط لکھنے کی ضرورت نہیں، اگر انہیں کوئی سیاسی تجویز یا شکایت ہے تو وہ وزیراعظم کو خط لکھیں کیونکہ وزیراعظم کا دفتر سیاسی ڈاکخانہ ہوتا ہے۔ مسلم گرلز کالج میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ آرمی چیف کی جانب سے اس معاملے کا جواب دے دیا گیا ہے، اور اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت کا وقت گزر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سیاست میں فوج کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ایک غیر ضروری عمل ہے، اور اس کے پیچھے 2018 میں اقتدار میں آنے کا خواہش ہے، جب دھاندلی کے ذریعے انہیں حکومت ملی تھی۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو اس بات کا سمجھنا چاہیے کہ فوج کے ترجمان نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی سیاسی تجربے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ایسے میں ان کا بار بار آرمی چیف کو خط لکھ کر فوج کو سیاست میں شامل کرنے کی کوشش کرنا ان کے موقف کی نفی ہے، جو وہ خود کو “سول حکمرانی کا چمپئن” کہتے ہیں۔ احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ بانی پی ٹی آئی دراصل ایک بیساکھی کی تلاش میں ہیں، تاکہ اس کے ذریعے دوبارہ اقتدار تک پہنچ سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس شخص کے خلاف شواہد موجود ہیں جس نے پاکستان کے خزانے سے 190 ملین پاؤنڈ چوری کیے ہیں، اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو ان کی حمایت کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ تحریک انصاف کی سیاست کرپشن کے خلاف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی چوری کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں اور اس معاملے کے وکلا جیسے علی ظفر اور سلمان اکرم راجہ حیرت کا باعث ہیں کہ وہ کس طرح ایسے مقدمات کے وکیل بن کر قوم کے سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کوئی بھی رہنما ایسی چوری کرے تو اسے سیاست سے ہمیشہ کے لیے باہر کر دیا جاتا ہے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے 26ویں آئینی ترمیم کے دوران غائب رہنے والے ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، عمران خان نے زین قریشی کے علاوہ تمام غائب ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکالنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی کی سینئر قیادت کو پیغام بھیجتے ہوئے کہا کہ جو لوگ 26ویں آئینی ترمیم کے دن چھپے رہے، ان کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے متعلقہ ارکان کو پارٹی سے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت بھی کی۔ ذرائع کے مطابق، 26ویں آئینی ترمیم کے دن زرقا سہروردی، سینیٹر فیصل سلیم اور زین قریشی غائب رہے تھے۔ تاہم، زین قریشی کو اس فیصلے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی نے اسلم گھمن، ریاض فتیانہ، زین قریشی، مقداد علی خان اور اورنگزیب کچھی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیے تھے۔ واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم اکتوبر 2024 میں منظور کی گئی تھی، اور پی ٹی آئی نے اس ترمیم پر حکومت کی حمایت کے شبہے میں اپنے ارکان قومی اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔ شوکاز نوٹس حاصل کرنے والوں میں زین قریشی، ریاض فتیانہ، مقداد علی خان اور اسلم گھمن شامل تھے۔ اس فیصلے کے بعد پارٹی کے اندر نظم و ضبط کے حوالے سے سخت موقف کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، جب کہ زین قریشی کو استثناء دینے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد پارٹی کے اندر کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔
پشاور: خیبر پختونخوا کی ترقی اور عوامی مسائل کے حوالے سے ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ صحافی نجم ولی خان نے سوشل میڈیا پر صوبائی مشیر خزانہ مزمل اسلم سے کچھ سخت سوالات کیے، جن کا مزمل اسلم نے بھی بھرپور انداز میں جواب دیا۔ نجم ولی خان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر مزمل اسلم نے خیبر پختونخوا کو معاشی طور پر خوشحال اور ایک جنت بنا دیا ہے، تو پھر صوبے کی مائیں بچوں کی پیدائش کے دوران سب سے زیادہ اموات کا شکار کیوں ہیں؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ صوبے کے باشندوں کے والد چھلیاں بیچنے اور ان کے بیٹوں کو جوتے پالش کرنے کے لیے پنجاب کیوں جانا پڑتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے لوگ اپنے پیاروں کے علاج کے لیے اسلام آباد اور پنجاب کے ہسپتالوں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ نجم ولی خان نے کہا کہ وہ تعصب نہیں رکھتے بلکہ چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کو روزگار اپنے ہی صوبے میں ملے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ اپنے بزرگوں کی دعاؤں اور قبروں کو چھوڑ کر دربدر بھٹکیں، کیونکہ اپنے گھر اور شہر کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔ انہوں نے مزمل اسلم سے اس معاملے پر مکالمے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ صوبے کے لوگوں کو زندگی، صحت، تعلیم اور روزگار اپنے ہی علاقوں میں میسر ہو۔ اس کے جواب میں مزمل اسلم نے کہا کہ نجم ولی خان کے سوالات حقیقت سے دور ہیں اور ان کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی ترقی کے لیے موجودہ حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں بہتری شامل ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ صوبے میں صحت کے نظام کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور نئے ہسپتالوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ موجودہ سہولیات کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے صنعتی زونز اور تربیتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں، جن سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے نجم ولی خان سے کہا کہ وہ حقائق کو تسلیم کریں اور تنقید کے بجائے تعمیری تجاویز پیش کریں تاکہ صوبے کی ترقی کو مزید تیز کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے لوگ کیا چھلی نہیں بیچتے؟ کیا سری پائے نہیں بیچتے؟ جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے پی ٹی وی میں لگے اور دماغ دیکھو زرا ان صحافی کا۔ اس بحث نے سوشل میڈیا پر ایک نئی گرما گرمی پیدا کر دی ہے، جہاں دونوں طرف کے حامی اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مکالمہ کس نتیجے پر پہنچتا ہے اور کیا واقعی خیبر پختونخوا کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات سامنے آتے ہیں یا نہیں۔
شہریار آفریدی نے شیر افضل مروت کی حمایت میں آواز بلند کردی، پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کی مذمت اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر مملکت شہریار آفریدی نے پارٹی سے نکالے گئے رہنما شیر افضل مروت کی حمایت میں کھل کر بات کی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو جو کچھ ہوا، وہ پوری قوم نے دیکھا۔ ہمارے قائد نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی ہے، اور ہم آئین و قانون کے تحفظ کے لیے ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔ شہریار آفریدی نے پنجاب میں پی ٹی آئی کارکنوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہمارے کارکنوں پر ظلم کی انتہا کی جا رہی ہے، جیلوں میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "فارم 47" والوں کی سیاست اب دم توڑ چکی ہے، اب ان کے پاس کوئی جواز باقی نہیں بچا۔ شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالے جانے کے حوالے سے شہریار آفریدی نے کہا کہ شیر افضل نے پارٹی کے لیے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ شیر افضل مروت کے معاملے پر بانی چیئرمین سے بات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "کل جب میں بانی پی ٹی آئی سے ملا، انہوں نے میرے سامنے شیر افضل مروت کو ہٹانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔" واضح رہے کہ گزشتہ روز میڈیا پر خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر شیر افضل مروت کی بنیادی رکنیت ختم کر دی ہے۔ شہریار آفریدی نے قانون کی بالادستی کے لیے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سب کو مل کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر جوڈیشل کمیشن بنانے میں کیا رکاوٹ ہے؟ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر شفافیت کا مظاہرہ کرے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور کارکنوں کے خلاف مبینہ تشدد کے واقعات نے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، جبکہ شہریار آفریدی کا موقف پارٹی کے اندر اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
سینئر سیاستدان محمد علی درانی کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی جب بھی اس حکومت سے ہاتھ ملائے گی، وہ ان کی جیب کاٹ لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری میں حکومت اپنا ہی کوئی نام ان کی اپوزیشن کے بندوں کے ذریعے شامل کروا کر اپنا کام کروا لیں گی، جس طرح پہلے بھی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو پی ٹی آئی سے ہی نامزد کروایا۔ اس لیے پی ٹی آئی کو حکومت سے کسی معاملے میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ محمد علی درانی نے مائنس فضل الرحمان اپوزیشن اتحاد کا فارمولا بھی دیدیا، ان کا کہنا تھا کہ جس نے 26ویں ترمیم کو ووٹ دیا، وہ اپوزیشن کا اتحاد نہیں، حکومت کا اتحاد ہوگا۔ محمد علی درانی نے مزید کہا کہ اس ترمیم نے عدالتی، آئینی نظام اور بنیادی حقوق کو تباہ کر دیا۔ جو 47 کی حکومت ہو اور خود کہیں نہیں، اس کو آپ ترمیم کا حق دے رہے ہیں۔ اگر مولانا غلطی مان کر معافی مانگیں، تو اپوزیشن۔ سینئر سیاستدنا کا کہنا تھا کہ اسوقت عوام کی رائے واضح ہےکہ یہ حکومت دوستونوں پر کھڑی ہےایک پیپلزپارٹی اور دوسری جےیوائی(فضل الرحمان)،جب بھی حکومت مشکل میں اتی ہےیہ دونوں اسکو سہارا دےکربچالیتےہیں محمد علی درانی نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کےادارے اسوقت وزیراعلی خیبرپختونخوا کےخلاف سازشیں کررہےہیں کیونکہ وہ علی امین کوزیراثرنہیں کرپارہے
پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے 23 ویں اجلاس میں، صوبائی حکومت نے ماہ رمضان المبارک میں مستحق گھرانوں کو رمضان پیکیج کے طور پر نقد رقم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے منتخب عوامی نمائندے اور مقامی انتظامیہ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ تمام کابینہ اراکین کو اپنے متعلقہ ڈویژنز اور اضلاع میں انتظامیہ کے ساتھ مل کر باقاعدگی سے فیلڈ وزٹس کرنا ہوں گی۔ اس سلسلے میں پہلے ہی تمام ڈویژنل کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو تحریری احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ رمضان پیکیج کے تحت صوبائی حکومت ہر مستحق گھرانے کو 10 ہزار روپے دے گی۔ 10 ہزار روپے کا یہ پیکیج صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں 5 ہزار مستحق گھرانوں کو فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ رمضان پیکیج کی تقسیم ایک صاف اور شفاف طریقہ کار کے تحت ہوگی۔
لاہور: نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین وسیم مختار نے الیکٹرک وہیکلز کے چارجنگ اسٹیشنز کے لیے بجلی کے نرخوں کی درخواست کی سماعت کے دوران سوالات اٹھائے۔ انہوں نے پوچھا کہ سرمایہ کارانہ نظام میں قیمتوں کو کیسے کنٹرول کیا جا سکے گا اور اگر کوئی چارجنگ اسٹیشن من مانی قیمت وصول کرے تو کیا کیا جائے گا؟ نیپرا کے رکن مطہر رانا نے بھی سوالات کیے کہ کسی ایک مقام پر کتنے اسٹیشنز لگ سکتے ہیں اور اس کا تعین کون کرے گا؟ کیا ہر بندہ حکومت کے پاس درخواست لے کر آئے گا؟ انہوں نے پالیسی کی مدت اور اس کے تحت مستقبل میں ٹیرف میں تبدیلی کے امکانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ پاور ڈویژن کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی عالمی معاہدوں کے تحت 2030 تک نافذ العمل ہوگی۔ ایم ڈی نیکا (نیشنل الیکٹرک پاور کمپنی) نے واضح کیا کہ چارجنگ اسٹیشنز کے لیے انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی ضروری ہوگی اور کاروبار کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ 15 جنوری کو وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے الیکٹرک گاڑیوں کی رسائی کو فروغ دینے کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کا بجلی کا ٹیرف 45 فیصد کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزارت داخلہ کا نام تبدیل کرکے وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول رکھ دیا گیا، اینٹی نارکوٹکس کنٹرول (اے این ایف) ڈویژن کو بھی وزارت داخلہ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے نام کی تبدیلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، جس میں وزارت داخلہ کا نام تبدیل کرکے وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول رکھا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں تاکید کی گئی ہے کہ آئندہ خط و کتابت وزارت داخلہ کے بجائے وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول کے نام سے کی جائے۔ اے این ایف کو بھی وزارت داخلہ کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے، اینٹی نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کو بھی وزارت داخلہ میں ضم کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن کے بعد وزارت داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول کی ویب سائٹ پر بھی نیا نام اپنا لیا گیا ہے، نئے نام کے خوبصورت لوگو میں مزار قائد، مینار پاکستان، فیصل مسجد اسلام آباد، بلوچستان کے پہاڑوں کی پرنسز آف ہوپ سمیت سبزے کا امتزاج اپنایا گیا ہے۔
کراچی میں ہیوی ٹرانسپورٹ کو آگ لگانے اور لوگوں کو اکسانے کے الزام میں چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) غلام نبی میمن نے گرفتاری کی تصدیق کی۔ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لانڈھی میں ہیوی ٹرانسپورٹ کو 'ہائی جیک' کیا گیا، پارٹی کے دفتر لے جایا گیا اور صبح 7 بجے آگ لگا دی گئی۔ ترجمان مہاجر قومی موومنٹ کے مطابق آفاق احمد کو ان کی رہائش گاہ ڈیفنس سے گرفتار کیا گیا۔ ترجمان نے بتایا کہ 10 پولیس موبائلوں نے آفاق احمد کے بنگلے کا گھیراؤ کیا، جس پر آفاق احمد نے پولیس سے کہا کہ وہ چلنے کو تیار ہیں۔ کراچی میں ہیوی ٹریفک کو روکنے کے لیے شہری سڑکوں پر آئے اور مختلف علاقوں میں 4 ٹرکوں کو آگ لگا دی گئی۔ لانڈھی اور نارتھ کراچی میں شہریوں نے بھاری گاڑیوں کو شہر میں داخل ہونے سے روکا۔ سخی حسن پر مشتعل شہریوں نے واٹر باؤزر پر حملہ کیا اور اس کے شیشے توڑے۔ وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار نے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے رپورٹ طلب کی ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ایم کیو ایم پاکستان کے مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنوری میں ٹریفک حادثات کے باعث 89 شہری ہلاک ہوئے۔ جنگ کی رپورٹ کے مطابق، آفاق احمد نے کہا تھا کہ انتظامیہ کی وضاحت گمراہ کن ہے اور ہیوی ٹریفک کے بارے میں ان کا الٹی میٹم آج ختم ہوا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دن کے وقت ہیوی ٹریفک کو سڑکوں پر نہ لایا جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ آفاق احمد نے واضح کیا کہ ہیوی ٹریفک اور ڈمپرز سے انسانی زندگیوں کا نقصان ہو رہا ہے اور انہیں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 48 گھنٹے کا الٹی میٹم منگل کی صبح ختم ہو رہا ہے، جس کے بعد کراچی کے نوجوان اپنے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کریں گے۔
مشیر وزیراعظم رانا ثنا اللہ نے آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں بڑا بیان دیتے ہوئے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کے خلاف ریفرنس پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ججز ہر معاملے پر خط لکھ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں معاملات ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ منیزے جہانگیر کے ساتھ خصوصی گفتگو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان کے خطوط میڈیا کو پہلے مل جاتے ہیں، جسے مس کنڈکٹ سے جوڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ججز ہر معاملے میں خط لکھتے اور بائیکاٹ کرتے ہیں، جس سے عدالتی کارروائی متاثر ہوتی ہے۔ انھوں نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی غیرجانبداری کی تعریف کی اور کہا کہ اگر انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے جج کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ رانا ثنا اللہ نے آئینی عدالت کے قیام کا ذکر کیا اور کہا کہ تحریک انصاف اور جے یو آئی کے مطالبے پر آئینی بنچ بنایا گیا تھا، لیکن تحریک انصاف جلدی الیکشن پر بات نہیں کرتی۔ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے دھاندلی اور 26 نومبر کی تحقیقات کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ عمران خان کی فوج اور عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈا کی مذمت کرتے ہوئے، رانا ثنا اللہ نے مولانا فضل الرحمان کو مشترکہ اپوزیشن کا حصہ بنانے کی حمایت کی اور ان کی شخصیت کی تعریف کی۔ انہوں نے آئی ایم ایف وفد سے چیف جسٹس کی ملاقات کو معمول کی کارروائی بتایا اور کہا کہ اس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ وکلا برادری کی ناراضی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر وجہ معلوم ہو جائے تو اسے دور کیا جا سکتا ہے۔ سلمان اکرم راجا کے سیاسی ایجنڈے کو نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے، رانا ثنا اللہ نے آئینی اختیارات کی وضاحت کی اور کہا کہ چیف جسٹس کے غیرجانبداری پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ انہوں نے معاشی استحکام کے لیے دو سال کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ سے نکل چکا ہے۔ جنرل باجوہ کے لاپتا افراد کے مسئلے پر قانون سازی کے مطالبے کو بھی انہوں نے ذکر کیا۔
پشاور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی ہدایت پر خیبرپختونخوا میں کرپشن کے خاتمے کے لیے پوری تیاری کر لی گئی ہے۔ مشیر احتساب مصدق عباسی نے اینٹی کرپشن فورس ایکٹ کو حتمی شکل دے دی ہے جس کے تحت اینٹی کرپشن فورس میں تین ونگز بنائے جائیں گے اور اس کی قیادت ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کریں گے۔ نئی فورس میں 10 سے زیادہ افراد کو بھرتی کیا جائے گا جنہیں 4 ماہ کی تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، پراسیکیوشن کے لیے ڈائریکٹر جنرل کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے گا۔ اینٹی کرپشن فورس کو بے نامی جائیدادوں کی تحقیقات کرنے اور عوام سے دھوکا دہی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ نئی بھرتیوں کے ذریعے فورس کو تقویت دی جائے گی جبکہ ڈیوٹیشن پر موجود عملے کو واپس بھیجا جائے گا۔ ایکٹ کے تحت، انویسٹیگیٹر کو انکوائری 6 ماہ میں مکمل کرنی ہوگی، اگر یہ وقت نہ ملے تو ایک سال کا اضافی وقت دیا جائے گا اور اس مدت میں بھی انکوائری مکمل نہ ہو سکی تو وہ بند کر دی جائے گی۔ اینٹی کرپشن ادارہ عدالتوں میں کیسز کے لیے اپنے پراسیکیوٹرز کی بھرتی کرے گا۔ شہری جو معلومات فراہم کریں گے اور جو افسران اچھی تحقیقات کریں گے، انہیں انعامات دیے جائیں گے۔ جبکہ غلط کیس بنانے والے اہلکاروں کو 3 سے 7 سال کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ مشیر احتساب خیبرپختونخوا مصدق عباسی نے بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین نے مجوزہ قانون کی منظوری دے دی ہے اور اب یہ کابینہ سے منظوری کے لیے جلد پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے وژن کے مطابق کرپشن کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور نئے قانون کے تحت ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی تھی جہاں انہیں خیبرپختونخوا میں کرپشن کے حوالے سے بریف کیا گیا تھا۔

Back
Top