
نیویارک میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ اگر 2017 میں ان کے مشورے پر عمل کیا جاتا تو پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ 2017 تک پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا، لیکن بعد ازاں ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013 سے 2017 کے درمیان پاکستان نے معاشی استحکام کے قابل فخر اشاریے حاصل کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دور میں مہنگائی کی شرح 3.6 فیصد تک کم ہو گئی تھی، شرح سود 5 فیصد پر آ گئی تھی، اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے ملک میں امن بحال کیا گیا تھا، اور پاکستان نے پہلی بار آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ملک کی معیشت کمزور ہو کر 47 ویں نمبر پر آ گئی اور دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ 2022 میں جب پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2023 میں انہیں دوبارہ موقع ملا تو معیشت کو استحکام کی طرف لے جایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مہنگائی کی شرح کم ہو کر 6.4 فیصد ہو گئی، شرح سود 22 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد پر آ گئی، اور زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اب عالمی ادارے دوبارہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کو سراہ رہے ہیں۔
دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ 2014 میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھاری مالی وسائل فراہم کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں ملک محفوظ ہوا تھا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ سمجھوتے کیے، جس کی وجہ سے سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کیا گیا اور ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک میں حکومت کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، بلکہ بار بار تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پچھلی حکومت معیشت کو 24 ویں سے 20 ویں نمبر پر لے جاتی تو وہ اس کی تعریف کرتے، لیکن انہوں نے پاکستان کو 47 ویں معیشت بنا دیا، جس کی کوئی ستائش نہیں کی جا سکتی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو اب معاشی استحکام کی طرف لے جانے کے لیے مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے، اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔