
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ملکی پالیسی سازی پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سالمیت اور معیشت سے متعلق فیصلے پارلیمنٹ یا حکومتی ایوانوں میں نہیں، بلکہ بند کمروں میں ہو رہے ہیں، جہاں ماورائے حکومت اور ماورائے پارلیمان قوتیں پالیسیاں طے کر رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پورا ملک اس وقت پریشانی اور اضطراب کا شکار ہے۔ عام آدمی کے پاس نہ روزگار ہے، نہ جان و مال کا تحفظ۔ محکمے اور ادارے ملیا میٹ کیے جا رہے ہیں، جس سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس صورتحال کی فکر کون کرے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت عوام کے مفاد کے خلاف فیصلے کرتی ہے تو پارلیمنٹ کو اس پر بحث کرنی چاہیے، لیکن ایک سال سے حکومت ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملکی سالمیت کے حوالے سے پالیسیاں ایوانوں میں نہیں بنائی جا رہیں، بلکہ بند کمروں میں طے کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ریاست کی بقا اور سالمیت کے بارے میں بات کرنے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان صوبوں میں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے سوال کیا کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ حکمران ملکی معاملات سے بے خبر ہیں، جبکہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی سویلین اتھارٹی موجود نہیں ہے، اور نظریاتی سیاست کا فقدان ہے۔ ان کا الزام تھا کہ خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلے کرتی ہے، اور حکومت کو ان فیصلوں پر مہر لگانا پڑتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے عالمی قوتوں کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو سیاسی اور دفاعی طور پر غلام بنانے کے نئے طریقوں پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے فیصلے اقوام متحدہ کی کمیٹیوں میں ہوتے ہیں، اور ہماری معیشت عالمی اداروں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے عدلیہ سے ملاقاتوں پر بھی سوال اٹھایا کہ آئی ایم ایف کا عدلیہ سے کیا تعلق ہے؟
مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا کہ بلوچستان کے کچھ اضلاع اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر آزادی کا اعلان کر دیں تو اگلے ہیندن اقوام متحدہ میں قبول کر لیا جائے گا اور پاکستان کو قابض قرار دے دیا جائے گا
https://twitter.com/x/status/1891626636983808067
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ریاست کی مٹی کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے اسکے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کیا لیکن ہماری ریاست کے کرتا دہرتا اتنے نا اہل ثابت ہوئے کہ کئے کرائے کو بھی نہیں سنبھال سکے، مولانا فضل الرحمان
https://twitter.com/x/status/1891564535175102745
انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں بھی عوام کی نمائندہ نہیں رہیں، اور جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو کوئی منتخب نمائندہ ان کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے ملکی سالمیت اور بقا کے سوال کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملک کے لیے سوچنا ہوگا، ورنہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ ملک کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
انہوں نے اختتام پر کہا کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے، ورنہ عالمی قوتیں ہمیں سیاسی اور معاشی طور پر غلام بناتی رہیں گی۔
Last edited by a moderator: