کشیدگی کے باوجود تجارت جاری، بھارت سے درآمدات 3 سال کی بلند ترین سطح پر

2019_8$largeimg07_Wednesday_2019_213010905.jpg

پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کے باوجود دو طرفہ تجارتی سرگرمیاں پس پردہ جاری رہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025 کے دوران بھارت سے درآمدات تین سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔


ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2025 کے جولائی تا مئی کے دوران بھارت سے درآمدات 21 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جو کہ مالی سال 2024 میں 20 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اور مالی سال 2023 میں 19 کروڑ ڈالر تھیں۔ یہ اضافہ اس وقت سامنے آیا ہے جب مئی کے اوائل میں دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ مختصر فوجی تنازع بھی ہوا، لیکن اس کے باوجود صرف مئی میں بھارت سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر مالیت کی درآمدات کی گئیں۔ گزشتہ سال مئی میں یہ مقدار ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھی۔


اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کو پاکستان کی برآمدات نہ ہونے کے برابر رہیں۔ مئی 2025 میں صرف ایک ہزار ڈالر مالیت کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں، جب کہ مالی سال 2025 کے 11 ماہ میں مجموعی برآمدات صرف 5 لاکھ ڈالر تک محدود رہیں۔ اس کے برعکس مالی سال 2024 میں 34 لاکھ 40 ہزار ڈالر اور مالی سال 2023 میں 3 لاکھ 30 ہزار ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔


یہ اعداد و شمار دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی یک طرفہ نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ باضابطہ تجارتی تعلقات 2019 سے منجمد ہیں، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔


سرکاری سطح پر تجارت محدود ہونے کے باوجود متعدد تاجر درآمدات کے تسلسل پر بات کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "ممکن ہے یہ اشیا کسی تیسرے ملک سے آئی ہوں اور ان کی ادائیگیاں جنگ سے پہلے کی گئی ہوں۔"


ادھر بھارت کے معروف تجارتی تحقیقی ادارے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (جی ٹی آر آئی) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارت کی پاکستان کو غیر رسمی برآمدات کا تخمینہ سالانہ 10 ارب ڈالر تک ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تجارت زیادہ تر دبئی، کولمبو اور سنگاپور کے راستے کی جاتی ہے۔


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی صنعتیں غیر ملکی اجزاء پر انحصار کرتی ہیں اور مقامی پیداواری لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت، چین اور بنگلہ دیش سے اشیا کی درآمد کا رجحان بڑھ رہا ہے۔


ایک برآمد کنندہ کے مطابق، "بھارت سے اسمگلنگ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بلند پیداواری لاگت کی وجہ سے ملکی صنعتیں مقابلے کے قابل نہیں رہتیں۔"


واضح رہے کہ 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ باضابطہ تجارتی تعلقات معطل کر دیے تھے۔ تاہم حالیہ اعداد و شمار اور زمینی صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی انحصار اب بھی غیر رسمی ذرائع سے قائم ہے۔
 

Wake up Pak

(50k+ posts) بابائے فورم
WTF, I knew these corrupt boot-licking MFs of the fake government of PMLUN have no self-respect, integrity, or care for the sovereignty of the country.
Where are asshole Patwaris? Can they justify it?
 

abdlsy

Prime Minister (20k+ posts)
2019_8$largeimg07_Wednesday_2019_213010905.jpg

پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کے باوجود دو طرفہ تجارتی سرگرمیاں پس پردہ جاری رہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025 کے دوران بھارت سے درآمدات تین سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔


ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2025 کے جولائی تا مئی کے دوران بھارت سے درآمدات 21 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جو کہ مالی سال 2024 میں 20 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اور مالی سال 2023 میں 19 کروڑ ڈالر تھیں۔ یہ اضافہ اس وقت سامنے آیا ہے جب مئی کے اوائل میں دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ مختصر فوجی تنازع بھی ہوا، لیکن اس کے باوجود صرف مئی میں بھارت سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر مالیت کی درآمدات کی گئیں۔ گزشتہ سال مئی میں یہ مقدار ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھی۔


اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کو پاکستان کی برآمدات نہ ہونے کے برابر رہیں۔ مئی 2025 میں صرف ایک ہزار ڈالر مالیت کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں، جب کہ مالی سال 2025 کے 11 ماہ میں مجموعی برآمدات صرف 5 لاکھ ڈالر تک محدود رہیں۔ اس کے برعکس مالی سال 2024 میں 34 لاکھ 40 ہزار ڈالر اور مالی سال 2023 میں 3 لاکھ 30 ہزار ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔


یہ اعداد و شمار دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی یک طرفہ نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ باضابطہ تجارتی تعلقات 2019 سے منجمد ہیں، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔


سرکاری سطح پر تجارت محدود ہونے کے باوجود متعدد تاجر درآمدات کے تسلسل پر بات کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "ممکن ہے یہ اشیا کسی تیسرے ملک سے آئی ہوں اور ان کی ادائیگیاں جنگ سے پہلے کی گئی ہوں۔"


ادھر بھارت کے معروف تجارتی تحقیقی ادارے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (جی ٹی آر آئی) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارت کی پاکستان کو غیر رسمی برآمدات کا تخمینہ سالانہ 10 ارب ڈالر تک ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تجارت زیادہ تر دبئی، کولمبو اور سنگاپور کے راستے کی جاتی ہے۔


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی صنعتیں غیر ملکی اجزاء پر انحصار کرتی ہیں اور مقامی پیداواری لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت، چین اور بنگلہ دیش سے اشیا کی درآمد کا رجحان بڑھ رہا ہے۔


ایک برآمد کنندہ کے مطابق، "بھارت سے اسمگلنگ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بلند پیداواری لاگت کی وجہ سے ملکی صنعتیں مقابلے کے قابل نہیں رہتیں۔"


واضح رہے کہ 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ باضابطہ تجارتی تعلقات معطل کر دیے تھے۔ تاہم حالیہ اعداد و شمار اور زمینی صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی انحصار اب بھی غیر رسمی ذرائع سے قائم ہے۔
Why not teejarat, Both govts bhai bhai😂
 

Back
Top