سیاسی

عدم اعتماد پر ساتھ دینے کی صورت میں ایم کیو ایم کو کیا ملے گا اس پر بات چیت مکمل ہو گئی ہے اور معاملات طے کر لیے گئے ہیں، متحدہ کے صوبائی کابینہ میں 4 وزارتیں اور 2 مشیر شامل کیے جائیں گے جب کہ وفاق میں ان کا ایک وزیر اور ایک مشیر ہوگا۔ روزنامہ جنگ کے مطابق متحدہ اپوزیشن کی حمایت کے حوالے سےایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان کئی نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔ انہیں سندھ میں چار وزارتیں اور دو مشیر دئیے جائیں گے تاہم گورنر شپ اور سندھ میں تعلیم اور صحت میں سے ایک وزارت پر ڈیڈلاک ہے۔ سابق صدر آصف زرداری اور پی پی چیئرمین بلاول نے ایم کیو ایم کے مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے دیگر ایشوز کو بھی ایم کیوایم کی توقعات کے مطابق حل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم نے بلدیات کی وزارت کیلئے اصرار کیا اس پر سندھ حکومت کو اعتراض تھا۔ تاہم پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی قیادت کو رضامند کرلیا ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سندھ کے ان شہری علاقوں میں جہاں ایم کیو ایم کے مئیر تھے، وہاں ایڈ منسٹریٹر بھی ایم کیو ایم کی مرضی سے مقرر کئے جائیں گے۔ نکات پر پیشرفت اورعمل کے لیے اقدامات اور روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے تحریری معاہدے کو عملی شکل دینے کے لئے پی پی اور ایم کیو ایم نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ ان کمیٹیوں میں ایم کیو ایم کی جانب سے خواجہ اظہار الحسن، جاوید حنیف اور کنور نوید جمیل جبکہ پی پی کی طرف سے مرتضیٰ وہاب ، سعید غنی اور جام خان شورو کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ ایم کیو ایم حتمی فیصلے کے لئے آخری دن تک انتظار کرے گی، اسی لئے ایم کیو ایم نے اپوزیشن کو تاحال کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔ تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم کے وفد نے جمعرات کو اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور چیئرمین بلاول سے زرداری ہاؤس میں ملاقات کی، ایم کیو ایم کے وفد کو زرداری ہاؤس کی گاڑیوں میں لایا گیا۔ زرداری نے ایم کیو ایم کے وفد ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عامر خان ، امین الحق اور دیگر رہنماؤں کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ملک میں وقت سے پہلے عام انتخابات کے انعقاد کا امکان ظاہر کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق انہوں نے یہ گفتگو لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کی اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک اور جمہوریت کا تسلسل قائم ہو جو اصلی اور نسلی ہوگا وہی پاکستان کے ساتھ ہوگا، اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے ساتھ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج عظیم فوج اور عدلیہ دو ر اندیش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 27 مارچ کو عمران خان اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں تاریخی جلسہ کریں گے جس میں عوام کا سمندر ہوگا،عدم اعتماد والےدن بھی اپوزیشن کو ایک بڑا سرپرائز ملے گا، مسلم لیگ ن نے ابھی تک اسلام آباد میں کسی جلسے کی اجازت نہیں مانگی، جے یو آئی کی درخواست آئی تھی تو انہیں اجازت دیدی گئی ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ ابھی میں عثمان بزدار سے ملا ہوں وہ چٹان کی طرح عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے،میں بھی چٹان کی طرح عمران خان کے ساتھ ہوں،امید ہے اتحادی دیر سے ہی سہی بہتر فیصلہ کریں گے، اپوزیشن کے پاس ہمارے لوگ ہیں تو ہمارے پاس بھی اپوزیشن کے لوگ ہیں جو عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت ایوان میں نہیں ہوں گے۔ انہوں نےبلاول بھٹو کوتنقید کا نشانہ بناتےہوئے کہا کہ بلاول کے ابھی دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے اور یہ کہہ رہے ہیں اوآئی سی اجلاس نہیں ہوگا،ن لیگ کےا ندر اپنی پسوڑی پڑی ہوئی ہے انہوں نے خود ہی ووٹ کو عزت دو کا اپنا نعرہ دفن کرلیا ہے، اپوزیشن کی بیوقوفیوں نے عمران خان کو ہیرو بنادیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 27 مارچ کے جلسے میں اپنا ترپ کا پتہ پھینکنے سے متعلق بیان کے بعد اس پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے، اسی حوالے سے سینئر صحافی و تجزیہ کار جاوید چوہدری اور محمد مالک نے بھی اپنا اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ دونوں تجزیہ کار جی این این کے پروگرام "خبرہے" میں شریک تھے اور ان سے سوال پوچھا گیا کہ وزیراعظم کے پاس ایسا کونسا ترپ کا پتا ہے جو پھینک کر وزیراعظم اپوزیشن کی عدم اعتماد کو شکست دے سکتے ہیں؟ سینئر تجزیہ کار محمد مالک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو کوئی ترپ کا پتہ نظر نہیں آرہا، پھر بھی اگر سوچیں تو یا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی اتحادی جماعت کو اپنے حمایت میں کھڑا کرکے دکھادیں یا ناراض ارکان کو منا کر لے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ تیسرا ترپ کا پتا جو اسلام آباد میں اس وقت چہ مگوئیاں ہورہی ہیں وہ یہ ہیں کہ وزیراعظم جنرل فیض حمید کو اگلے آرمی چیف تعینات کرنے کا اعلان کردیں،یہ چہ مگوئیاں اس لیے ہورہی ہیں کہ گزشتہ روز یہ سوال وزیراعظم سے بھی کیا گیا تھا اور بقول صابر شاکر کے وزیراعظم اس سوال کر اتنے قہقہے لگا کر ہنسے کہ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسی پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس جو ترپ کے پتے ہیں ان میں سے ایک بھی استعمال ہوگیا تو بازی پلٹ سکتی ہے، ایک یہ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ارکان توڑ کر سامنے لے آئیں جو تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیں، اس کے بعد عدم اعتماد کی کامیابی کھٹائی میں پڑسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا وہی کارڈ ہے جو محمد مالک صاحب نے ذکر کیا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی یا جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا اعلان کردیں، تیسرا کارڈ ذولفقار علی بھٹو کی طرز سیاست ہوسکتا ہے جیسے انہوں نے پنڈی میں جلسہ کرتے ہوئے کاغذات پھاڑے تھے اور چلے گئے تھے اس کے بعد وہ ایک لیڈر بن گئے تھے، ممکن ہے وزیراعظم بھی 27 مارچ کے جلسے میں کاغذات پھاڑیں امریکہ کو للکاریں اور اپوزیشن کو مسترد کرکے چلے جائیں۔
حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی تاحال کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے جس کی اصل وجہ پارٹی میں اس معاملے پر اختلاف رائے پایا جاناہے۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) میں تحریک اعتماد کے معاملے پر حکومت یا اپوزیشن کا ساتھ دینےکے معاملے پر 2 رائے پائی جاتی ہیں، کثیر تعداد میں پارٹی رہنماؤں نے عدم اعتماد کی تحریک میں حکومت کا ساتھ نہ چھوڑنے کی تجویز دی۔ اس حوالے سے باپ پارٹی کی وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے بھی ایک موقع پرگفتگو کے دوران حکومت کو نہ چھوڑنے کی تجویز بھی دی، تاہم باپ پارٹی کے کچھ ارکان حکومت سے ناراض ہیں اسی لیے وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت کو گھر بھیجنےکے حق میں ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق باپ پارٹی اپنا حتمی فیصلہ آخری وقت تک کرسکتی ہے کیونکہ اراکین کی رائے بھی آخری وقت تک تک تبدیل بھی ہوسکتی ہے،کیونکہ حکومت سے اختلافات اور دیگر معاملات کا جائزہ لیا جارہا ہے، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے متعلق عدالتی فیصلے کو بھی انتظار کی وجوہات میں شامل کیا جارہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اپوزیشن نےحکومت کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری کرلی ہے جس کیلئے ہوم ورک بھی کیا جارہا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تحریک کاآغاز بلوچستان اسمبلی سے ہوگا، باپ پارٹی کی اکثریت اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہے اور اپوزیشن کو عدم اعتماد میں ساتھ دینے کا یقین بھی دلا چکی ہے۔
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ سیاسی میدان سے اچھی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں، الحمد اللہ بہت جلد قوم اس سیاسی ہیجان سے آزادی کا سانس لے سکیں گے۔ سوشل میڈیا پر اپنے وی لاگ میں تبصرہ کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اچھی خبر ہے کہ سرتوڑ کوششوں کے بعد معاملات پوائنٹس آف نو ریٹرن سے واپس آرہے ہیں تاہم ابھی منزل دور ہے، ان کا کہنا تھا کہ موصول ہونےوالی معلومات کے مطابق آج ایک اہم اجلاس میں ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور سیاسی جنگ کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالات کو سدھارنے کیلئے اپوزیشن کی داد رسی کا سامان بھی تیار کرلیا گیا ہے، میرا اندازہ ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات منعقد کروائے جائیں گے اور اپوزیشن اس فیصلے کو اپنی جیت تصور کرے گی۔ کامران خان نے یہ وی لاگ شیئر کرتےہوئے کہا کہ بہت خوشی اطمینان کی خبر ہے کہ سیاسی بحران کی تاریک سرنگ کے آخر میں روشنی کی کرن پھوٹی ہے اگلے 48 گھنٹے بہت اہم ہیں ملک کو بحران سے نکالنے کی کاوش کے محور جنرل باجوہ ہیں فارمولا وہی ہے جس کا ذکر میں نے کل اور 15 مارچ کے وی لاگ میں کیا تھا، اپوزیشن کے ساتھ ممکنہ معاہدے کا ستون قبل از وقت انتخاب ہوگا۔ واضح رہے کہ کامران خان نے 23 مارچ کو جاری اپنے ویڈیو پیغام میں کہاتھا کہ 75 ویں یوم پاکستان کے موقع پر قوم کو اس وقت پاکستان بچاؤ تحریک کی ضرورت ہے ، آرمی چیف،وزیراعظم اور حکومت پاکستانی عوام کو اس جنجال سے نکال سکتے ہیں، یہ ناممکن نہیں ہے صرف ان سب لوگوں کو اپنی انا ، نفرت، مفادات اور خوف سے بالاتر ہوکر سوچنا ہوگا، راستہ تو موجود ہے۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے اور حکومت گرانے کیلئے متحدہ اپوزیشن سرگرم ہے، حکومت بھی ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے، سیاسی تجزیہ کار بھی اس حوالےسے اظہار خیال کررہے ہیں۔ جیو کے پروگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ “ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئرصحافی، تجزیہ کار ، مجیب الرحمان شامی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا سنبھلنا بہت مشکل ہوگا اب اس کے پاؤں جم نہیں پائیں گے،پاکستانی سیاست میں کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اب تک کی جو صورتحال ہے اور جس طرح مختلف طاقتوں کی طرف سے اشارے مل رہے ہیں۔ مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتیں جو اقدامات کررہی ہیں اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت جو ہے اس کا سنبھلنا بہت مشکل ہوگا اب اس کے پاؤں جم نہیں پائیں گے۔اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد سے پہلے اسمبلی تحلیل کردیتے اور الیکشن کی طرف چلے جاتے تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی اگر وہ اپوزیشن کے ساتھ نئے انتخاب پر کوئی معاملہ کرلیں تو پھرتحریک عدم اعتماد کو موخر کیا جاسکتا ہے،لیکن اس وقت جو حالات اور حکومت اپوزیشن کے درمیان جتنا فاصلہ ہے ایسا کوئی بات امکان نظر نہیں آتا،عمران خان اب اس پوزیشن میں رہیں گے کہ کسی شخص کو برطرف کرسکیں یہ مشکل ہوجائے گاان کا حکم اگر چلے گا یا چلانے کی کوشش کی جائے گی تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ سینئر صحافی تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا تھا کہ نیوٹرل کو حکومت فریق بنانا چاہتی ہے اور ماضی کی طرح اپنے حق میں ان کے ادارے کے پاور کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے وہ تو نہیں ہونے جارہا ہے،حکومت نے پہلے دباؤ ڈالنے کی دھمکیاں دینے کی اور نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی مقتدر حلقوں پر کہ ان کو نیوٹرل کے بجائے ماضی کی طرح اپنا ہم نوا بنا سکے،جب وہ نہیں ہوا تو اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہوا ہے اور وہ تو منتوں کا وہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کو ماضی کی طرح سہارا دینے اور نیوٹرل کے بجائے فریق بننے پر آمادہ نہیں ہیں،اب سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوااس سے حکومت نے ایک لحاظ سے تصادم کا بھی آغاز کردیا ہے،نیوٹرل کو حکومت فریق بنانا چاہتی ہے اور ماضی کی طرح اپنے حق میں ان کے ادارے کے پاور کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے وہ تو نہیں ہونے جارہا ہے۔ اب صرف اور صرف حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاست ہوگی ۔حکومت اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرے گی لیکن بچ نہیں پائے گی۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اتحادیوں کی بات اپوزیشن کے ساتھ طے ہوگئی ہے27 تاریخ تک اتحادیوں کا باقاعدہ اعلان ہوجائے گا۔کیا وہ یہ راز بتائیں گے کہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر کوکس طرح میرے ساتھ شامل کیا گیا۔میرے لئے دھرنے کس طرح منعقد کرایا گیا یا میرے لئے آرٹی ایس کس طرح ناکام کرایا گیا اگر وہ ایسا کریں گے تو اپنے خلاف بیان دیں گے،حکومت جانے کے بعد ان کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ سینئرصحافی، تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ جو حکومتی وزرا ہیں آپ ان سے بھی آف دی ریکارڈ بات کریں تو وہ بھی بہت زیادہ پر امید نظر نہیں آتے بلکہ مایوسی دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے،جو حکومتی حلقے ہیں انہیں بھی اس بات کا احساس ہے کہ کسی بھی لمحے کچھ ہوسکتا ہے،یہ بات سب کو پتہ ہے کہ اگر حکومت کسی معجزے کی صورت میں بچ بھی جاتی ہے تو اس کے لئے بہت دنوں تک چلنا بہت مشکل ہوگا۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ان کو شاید اب ایسا کارڈ چاہئے جیسے ووٹ کو عزت دو ، مجھے کیوں نکالااس طرح کا نعرہ انہیں ضرور چاہئے۔ جس کی بنیاد پر وہ آگے جاکراپنا رستہ بناسکیں یا اپنا نعرہ بلند کرسکیں،سول ملٹری کے اندرہی ان کو کوئی پناہ نظر آتی ہے ایک بیانیہ کے طور پر حکومت کوشش کرتی ہے اور یہ بیانیہ انہوں نے اپنے ووٹر سپورٹرز کو دینا ہے،تاکہ آگے جاکر وہ سڑکوں پر آنے کی کوئی حکمت عملی بناتے ہیں تو ان کے سامنے آسکے،حکومتی حلقوں میں یہ بات بہت واضح ہے کہ کوئی معجزہ ہی ہوسکتا ہے جو حکومت کو جانے سے بچا سکے۔ سینیئر تجزیہ کار نے کہا کہ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کی بات ہے کہ خان صاحب یہ کہیں گے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے جانا پڑا تو وہ کمزور وکٹ کے اوپر کھڑے ہیں،ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ان کو لانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے کیا کچھ کیا،یہ پریشر صرف قومی اسمبلی تک محدود نہیں ہے یہ تمام صوبائی اسمبلیوں پر بھی آرہا ہے،وہ پہلے بھی خطرناک نہیں تھے اور جتنے بھی خطرناک ہوئے تو ایک پوری سپورٹ کی وجہ سے ہوئے تھے،اس وقت وہ ایک کمزور وکٹ کے اوپر ہیں ساڑھے تین سال میں ان کی جو کارکردگی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
حامد میر نے کہا کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں وہ کوئی بھی نوٹیفکیشن جاری کرسکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا تو وہ اپوزیشن کو تو سرپرائز نہیں ہوگا وہ تو کسی اور کو ہوگا۔ آج اور کل کا دن بڑا اہم ہے، ان کی باڈی لینگوئج بڑی پراعتماد ہے۔ نجی ٹی وی چینل نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان واقعی کوئی سرپرائز دینا چاہتے ہیں آئین و قانون کے اندر رہ کر سرپرائز دیں تو وہ ٹھیک ہے. عمران خان کھیلوں گا نہ کھیلنے دونگا کے راستے پر ہیں پارلیمانی اجلاس بلالیں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ تجزیہ کار مظہرعباس نے کہا کہ عمران خان ضرور کوئی سرپرائز رکھتے ہیں، عمران خان کے ساتھ جو منحرفین ہیں ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو واپس نہیں جائیں گے، انہیں پتہ ہو تب بھی ہارنے کا تاثر نہیں دیں گے ، عمران خان سے بڑا امتحان اپوزیشن کا ہے ، عدم اعتماد ناکام ہوئی تو اس کیلئے بڑا دھچکا ہوگا۔ عمران خان ضرور کوئی سرپرائز رکھتے ہیں انہوں نے ایک بڑی اہم بات کی ہے کہ دیکھتے ہیں کہ اس دن استعفیٰ کون دیتا ہے یہ بات بہت سخت پیغام ہے عمران خان لڑنے والے آدمی ہیں وہ ہر طرح کی لڑائی لڑیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا حکومت جاتی ہے تو جائے اس کے کیا معنی ہوئے۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ عمران خان لوٹوں سے بھی تنگ ہیں پارٹی کے اندر بھی تنگ ہیں اور اتحادیوں سے بھی تنگ ہیں،ان کا کہنا ہے کہ سرپرائز دوں گا یہ بڑا اہم عنصر ہے تاہم بہت سی چیزیں ان کے ہاتھ میں نہیں۔ منیب فاروق نے کہا کہ تحریک انصاف کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایک نفسیاتی وار فیئر رکھنا ہوتا ہے وزیراعظم ایک دن پہلے کیا سرپرائز دے سکتے ہیں۔ اسمبلی توتحلیل نہیں کرسکتے استعفیٰ انہوں نے کہہ دیا ہے دوں گا نہیں اتحادی آج کی تاریخ میں ان سے کافی فاصلے پر جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہ رہے ہیں کہ تاثر یہی رہے کہ اپوزیشن کمزور ہے اور عمران خان غیر روایتی طور پر بڑے مضبوط سیاستدان ہیں، اس وقت وہ مانیں یا نہ مانیں لیکن ان کو جس سپورٹ کی ضرورت ہے اور درکار ہے وہ موجود نہیں ہے۔
ایم کیو ایم (متحدہ قومی موومنٹ) پاکستان نے ملک میں سیاسی بحران کے خاتمے کے لئے حکمران سیاسی پارٹی پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کو وزیراعظم تبدیل کرنے کا مشورہ دے دیا۔ نجی ٹی وی چینل جیونیوز کا دعویٰ ہے کہ بدھ کو اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی قیادت سے پی ٹی آئی کے وفد نے ملاقات کی۔ حکومتی وفد میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسد عمر شامل تھے۔ جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کے وفد میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، امین الحق، خواجہ اظہار الحسن اور جاوید حنیف شامل تھے۔ حکومتی وفد نے ایم کیو ایم کو یقین دلایا کہ ان کے تمام مسائل کو حل کیا جائے گا، موجودہ صورتحال میں حکومت مشکلات کا شکار ہے ایسے وقت میں ہمیں تنہا نہ چھوڑیں، جو وعدے کیے تھے وہ پورے کر دیں گے۔ جیوز نیوز کے مطابق حکومتی وفد نے ایم کیو ایم کو وزیراعظم کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا، ایم کیو ایم نے پہلی تجویز یہ دی کہ وزیر اعظم اپنی جگہ پی ٹی آئی سے کسی دوسرے رہنما کو وزیراعظم نامزد کر دیں تاکہ اتحادی جماعتیں کوئی مثبت فیصلہ کرسکیں۔ ایم کیو ایم نے شکوہ کیا کہ ساڑھے 3 سال سے اتحادی ہیں بتائیں کونسا وعدہ پورا کیا؟ ہمارے دفاتر اب تک بند، لاپتا افراد بھی بازیاب نہیں ہوئے۔
اسفند یار ولی کے بیٹے اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے 23 مارچ کے دن کو یوم سیاہ قرار دے دیا، انہوں نے ماضی میں لیاقت باغ راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ بات سوشل میڈیا پر کہی۔ تفصیلات کے مطابق ایمل ولی خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ" 23 مارچ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں خان عبد الولی خان کے جلسے پر حکومت وقت نے براہ راست گولیاں برسائیں اور درجنوں لاشیں گرائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت اور قوموں کی خودمختاری کی سیاست جاری رکھنے کی سزا آج تک ولی خان کے کارکنوں کو دی جاری ہے۔ ریاست کا رویہ نہیں بدلا۔ یاد رہے کہ 23 مارچ کو جہاں ایک طرف ملی جوش و جذبے کے ساتھ یوم پاکستان منایا گیا تو ایسے دن پر ایمل ولی خان کی جانب سے اسے یوم سیاہ کہنا سوشل میڈیا صارفین کو ناگوار لگا اور انہوں نے کہا کہ آپکی پارٹی پر بھٹو نے گولیاں برسائیں تھیں ریاست نے نہیں۔ فرزانہ شاہ نامی صارف نے کہا کہ 23 مارچ اے این پی کی تاریخ کا سیاہ دن ہو گا ہمارا نہیں۔ ریاست نے تو 2008 سے 2013 تک اے این پی کو خیبر پختونخوا میں حکومت دلوائی تھی۔ جس کے گھر میں بیٹھ کر آپکو سیٹیں دی گئیں وہ بھی ہمیں معلوم ہے، بھلا ہو مشرف کا۔
حمزہ شہباز نے بتا دیا کہ مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹ میں جو پیسے آئے وہ سب بزنس ٹرانزیکشنز تھیں۔ نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام میں میزبان مہر بخاری کے سوال پر اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز نے بتایا کہ مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹ میں جو پیسے آئے وہ سب کاروبار کیلئے کی گئی ٹرانزیکشنز تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میری نیب میں 200 سے زائد پیشیاں ہو چکی ہیں اور سابق وزیراعظم نوازشریف بھی 100 بار سے زائد نیب میں پیش ہو چکے ہیں مگر ایک پیسے کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ نیب کے علاوہ برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے سلیمان شہباز کے اکاؤنٹس منجمد کر دیئے اور مکمل تحقیقات کیں مگر وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ کہیں کوئی کرپشن یا دھوکہ دہی نہیں پائی گئی۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ 376 ارب روپے کے الزامات لگا کر 10 ہزار ثبوتوں کے والیم اکٹھے کرنے والا عمران نیازی کا آئن سٹائن شہزاد اکبر آج کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جب شہبازشریف سے متعلق لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا تو انہوں نے سوال اٹھایا کہ کرپشن کہاں ہے؟ جس پر عدالت نےبھی کہا کہ کرپشن تو کہیں نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف نے کہا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے نے جو باتیں کہیں وہ سب کے سامنے ہیں کہ وزیراعظم نے ان سے کہا کہ شہبازشریف کو اندر کر دو مگر انہوں نے انکار کر دیا کیونکہ ان پر کوئی الزام ہی نہیں تھا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنمااور جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں کسی کرسی کا لالچ نہیں ہے، شکست عمران نیازی کا مقدر بن چکی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ٹیکسلا میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ شکست عمران نیازی کا مقدر بن چکی ہے، پاکستان دنیا کا ایک ترقی یافتہ ملک بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج نواز شریف کی قیادت میں ہم جوجدوجہد کررہے ہیں، یہ حکومت گرانے یا بنانے کی جدوجہد نہیں ہے، یہ جدوجہد پاکستان کو ایک کامیاب ریاست بنانے کی ہے، جو ملک اپنے آئین پر چلتا ہے وہ مضبوط ہوتا ہے اور جس ملک کو آئین پر نہیں چلایا جاتا وہ ملک کمزور ہوجاتا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی پاکستان کے آئین کو میلی نگاہ سے دیکھے گا تو مسلم لیگ ن کا ہر ورکر سیسہ پلائی دیوار بن جائے گا، ووٹ کی طاقت ختم ہوتی ہے تو غریب کی طاقت ختم ہوجاتی ہے، ووٹ کی عزت کا مطلب غریب کی عزت ہے۔ دوسری جانب کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ن لیگی رہنما اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ہمارا لانگ مارچ 28 مارچ کو راولپنڈی مری روڈ پر پہنچے گا، ملکی تاریخ میں ن لیگ نے دو بار کوشش کی کہ پاکستان ترقی یافتہ ملک بن جائے لیکن سازش کے تحت ن لیگ کو روک دیا گیا، قوم سے دھوکہ کیا گیا۔ سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو چاہیے کہ اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کریں ورنہ استعفیٰ دے دیں، ہم تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنائیں گے۔
پچھترویں یوم پاکستان پر ملک و قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے سینئر تجزیہ کار کامران خان نے وزیراعظم عمران خان اور متحدہ اپوزیشن سے اپیل کی کہ اس وقت ہمیں پاکستان بچاؤ تحریک کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق یوم پاکستان کے موقع پر سینئر تجزیہ کار کامران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اوے ویڈیو پیغام جاری کیا ، جس میں انہوں نے کہا کہ دل کی گہرائیوں سے پچھترواں یوم پاکستان مبارک ہو، آج ہم عجیب و غریب صورتحال میں یوم پاکستان منا رہے ہیں، ایک طرف تو 75 ویں یوم پاکستان پر ملک میں جشن عروج پر ہے، یوم پاکستان کی مناسبت سے ہونے والی پریڈ میں 48 ممالک کے وزراء خارجہ نے شرکت کی اور مبادکبادیں بانٹیں، دوسری جانب حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک جاری ہے کہ آئندہ چند روز میں اسلامی تعاون کانفرنس کی شاندار تقریب کی میزبان عمران خان حکومت کو گھر بھیج دیا جائے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کون نہیں جانتا کہ دنیا کے کن کن ممالک کو اس تبدیلی سے دلی تسکین ملے گی، اس تبدیلی کے فوری اثرات پاکستانی عوام بھگتے گی، کئی بار خبدار کر چکا ہوں کہ عمران خان کی حکومت سے رخصتی بھی سکون اور اطمینان نہیں لائے گی، خدانخواستہ معاشی بدحالی بمعہ آئینی اور سیاسی بحران ملک کی بنیادیں ہلا دے گا۔ وزیراعظم عمران خان اور متحدہ اپوزیشن سے اپیل کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ آج ہمیں پاکستان بچاؤ تحریک چاہیے۔ عمران خان، اپوزیشن اور جنرل باجوہ مل کر پاکستان کو اس جنجال سے نکال سکتے ہیں۔ راستہ موجود ہے۔ ہر فریق کی اپنی ذمہ داری ہے مگر وہ گاڑی جو ہمیں اس راستے سے منزل تک پہنچائے گی، عمران خان نے چلانی ہے۔ اس سے قبل ایک اور ویڈیو پیغام میں کامران خان کا کہنا تھا کہ منحرف اراکین نے اعلانیہ طور پر پی ٹی آئی سے بغاوت کی۔ یہ آئین کی خلاف ورزی کا ببانگ دہل اعلان تھا۔ مگر حکومت پوری طرح چوکنی ہو گئی اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح اور تشکیل نو کیلئے صدارتی ریفرنس تیار ہو گیا اور ان تمام اراکین کی تاحیات نااہلی کا کیس اس وقت سپریم کورٹ میں ہے۔ کامران خان نے کہا مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن لیڈرشپ سے فاش غلطی سرزد ہو چکی یا ان کیلئے کسی نے کوئی جال بچھایا کیونکہ اس حکمت عملی کے برعکس یہ معاملہ خفیہ رہتا تو اور فیصلے کی آخری گھڑی یہ تمام اراکین تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈال دیتے تو حکومت اور عمران خان کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملنا تھا۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنمارانا تنویرحسین نے کہا ہے کہ ووٹنگ سے ایک روز قبل سرپرائز دینے سے متعلق وزیراعظم عمران خان کا بیان سوائےوقت حاصل کرنے کی کوشش کے اور کچھ نہیں ہے۔ ہم نیوز کے پروگرام" بریکنگ پوائنٹ ود مالک" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رانا تنویرحسین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے اس بیان کے بعد اسلام آباد اور پورے میڈیا میں اسی بیان پر بحث ہورہی ہے، اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آئین و قانون کی رو سے وزیراعظم قومی اسمبلی میں اپنےاراکین کااعتماد کھو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ وزیراعظم کوشش کررہےہیں کہ بچ جائیں اور اگر ووٹنگ تک ان کا کسی نے ہاتھ نہ پکڑا تو پھر وہ استعفیٰ دیدیں گے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ پروگرام کے میزبان نے جواب دیتےہوئے کہا کہ یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ جس قسم کے عمران خان انسان ہیں انہوں نے استعفیٰ نہیں دینا وہ آخری گیند تک لڑیں گے،ان کےمخالفین جانتے ہیں کہ عمران خان کو ہارمنوانا کتنا مشکل ہے۔ رانا تنویر نے پروگرام کے دوسرے حصے میں شہباز شریف کی جانب سے ڈیفنس مضبوط کرنے سے متعلق بیان پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت کی جتنی بار بھی حکومت آئی ہے ہم نے دفاع کو مضبوط کیا ہے، اس ادارے سے متعلق ن لیگ کا نظریہ اور سوچ بالکل واضح ہے کہ یہ ایک بہت اہم ادارہ ہے جس کا موجودہ حالات میں بہت سے ملکی معاملات میں اہم رول بھی ہے۔
معروف صحافی کامران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن قیادت سے فاش غلطی ہوئی کسی نےغلطی کروادی یا کوئی جال بچھایا گیا ہے۔ اپنے ویڈیو لاگ میں کامران خان نے کہا کہ پی ٹی آئی منحرفین ناموں کا قبل ازوقت انکشاف سندھ ہاؤس انٹرویوز نے صدارتی ریفرینس کی ممکنہ کامیابی کا بارود فراہم کردیا کامران خان کے مطابق آج عمران خان کا مستقبل تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے جڑا ہے جبکہ تحریک عدم اعتماد کا مستقبل سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے صدارتی ریفرنس فیصلے سے جڑا ہے۔ سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان اپنی پارٹی سے دغا کی سزا سیاست سے نااہلی تجویز کرچکا ہے۔سپریم کورٹ نے صرف نااہلی کی مدت کا تعین کرنا ہے، خارج ازامکان نہیں کہ سپریم کورٹ پارٹی سے دغا کرنیوالے ممبران پارلیمنٹ کیلئے سیاست سے تاحیات نااہلی کی سزا تجویز کرے۔اگر ایسا ہوا تو اپوزیشن کی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو شدید تقصان پہنچے گا۔ کامران خان نے مزید کہا کہ حکومت کو گولہ بارود خود اپوزیشن نے فراہم کیا جب سندھ حکومت کی ملکیت سندھ ہاؤس میں منحرف اراکین کو جمع کرکے پی ٹی آئی منحرفین کے انٹرویو چلانے شروع کردئیے۔ یہ آئین پاکستان سے انحراف کا بلاضرورت اعلان تھا۔اس طرح حکومت چوکنی ہوئی گئی اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کیلئے صدارتی ریفرنس تیار ہوگیا ۔ ان کے مطابق اگر یہ معاملہ خفیہ رہتا اور فیصلے کی آخری گھڑی تمام منحرف اراکین تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالتے تو نہ حکومت کو نہ عمران خان کو سنبھلنے کا موقع ملتا اور عمران خان فارغ ہوجاتے۔ کامران خان نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی 2 صورتیں ہیں کہ اگر منحرف اراکین اپوزیشن کے حق میں ووٹ ڈال لیں یا اتحادی پینترا بدل کو اپوزیشن کو جوائن کرلیں اور انہیں فون کال آجائے۔خفیہ آپریشن عدم اعتماد کامیابی کی ضمانت کا آخری فیصلہ للہ تعالیٰ کے بعد فون کال کا ہوگا۔
مشہور پاکستانی سنگر وارث بیگ نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن میں نواز شریف اور علیم خان کی ملاقات میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نےیہ دعویٰ لندن میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتےہوئے کیا اور کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما علیم خان کے درمیان ملاقات طے کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ وارث بیگ نے کہا کہ " یہ ملاقات تو اک بہانہ ہے، پیار کا سلسلہ پرانا ہے،ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے نواز شریف اور علیم خان کی ملاقات میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ، موجودہ حالات میں ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے تمام قوتوں کو ساتھ مل کر چلنے کی ضرورت ہے"۔ ایک سوال کے جواب میں وارث بیگ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور علیم خان کے درمیان ملاقات "اچھی" رہی، نوازشریف نے شدید بیرونی دباؤ کے باوجود پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنا یا ہے۔ یادرہے کہ 9 مارچ علیم خان اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان لندن میں ایک طویل ملاقات ہوئی تھی جس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پرتفصیل سے بات ہوئی۔ رپورٹس کے مطابق علیم خان نےلندن پہنچنے کے 6 گھنٹے بعد ہی نواز شریف سے ملاقات کی تھی، تین گھنٹوں پر مشتمل اس ملاقات میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز بھی شریک تھے، شریف خاندان کے ذرائع کے مطابق یہ ملاقات مشترکہ دوستوں کے تعاون سے طے پائی تھی۔
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل ووڈا نے بڑا انکشاف کر دیا، کہتے ہیں کہ مائنس عمران خان کے پیچھے دو وزیر اور ایک آدھا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "خبر ہے" میں تحریک عدم اعتماد اور منحرف ارکان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ایک نہیں ہے ڈھائی لوگ ہیں جو مائنس عمران خان کے فارمولے کے پیچھے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دو پورے اور ایک آدھا ہے لیکن ان کو اپنے گھر کے بھی ووٹ نہیں ملیں گے، ان کی میں نے کیبنٹ میں بھی نشاندہی کی ہے اور جب میں ان کے بارے میں ٹی وی پر بات کرنا شروع کرتا ہوں، یہ لوگ عمران خان صاحب کی تعریف شروع کر دیتے ہیں۔ فیصل واوڈا نے دعوی کرتے ہوئے کہا کہ اب تو وقت قریب ہے، میرے جیسے لوگ جن ﷲ پاک نے عزت رزق سے نوازا ہے ہم انہیں گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے، کوئی مائنس عمران خان فارمولہ نہیں ہے، عمران خان پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی ہی عمران خان ہے۔ سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے سوال کیا کہ کیا ان ڈھائی افراد میں سے ایک سندھ اور کے پی کے میں سے بھی ہوسکتا ہے جس کے جواب میں فیصل ووڈا کا کہنا تھا کہ بھٹی صاحب آپ کا تجربہ میرے والد صاحب جتنا ہے، آپ کو سب کچھ پتا ہے، نام لینے کی ضرورت نہیں، جب ایسا کچھ ہو گا، میں گریبان پکڑوں گا، آپ کو خودبخود پتا چل جائے گا۔ واضح رہے کہ اس وقت ملکی سیاست میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد شروع کر دی گئی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی میں سے چند منحرف ارکان نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا ارادہ کیا ہے، جن میں سے چند اس وقت اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں موجود ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی منحرف ہونے والی رکن قومی اسمبلی وجیہہ قمر نے قرآن پاک پر حلف اٹھاتے ہوئے وضاحت کر دی کہ پیسے لینے کا الزام جھوٹا اور بہتان ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وجیہہ قمر کا کہنا تھاکہ چند دنوں سے صبرو تحمل کا مظاہرہ کررہی ہوں، انہوں نے حالیہ سندھ ہاؤس پر حملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو ہم آج کل اپنی اخلاقیات کا نمونہ پیش کررہے ہیں، کیا ریاست مدینہ یہ درس دیتی ہے؟ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کیا صرف تقریریں کرنے اور ہاتھ میں تسبیح پکڑنے سے ریاست مدینہ بن جاتی ہے، عوام کو پاگل بنانے کیلئے ایک ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ارکان کے گھروں پر حملے کیے گئے اور باپ دادا تک بات کی گئی، صرف سلیکٹڈ احتساب کیا گیا اور مخالفین کو نشانہ بنایا گیا۔ رکن قومی اسمبلی نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی نے پیسے دینے کا وعدہ نہیں کیا اور پیسے لینے کا الزام جھوٹا اور بہتان ہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنے متعلق بات کرسکتی ہوں تو کیا عمران خان کرسکتے ہیں؟ ان کے ارد گرد لوگ کرپشن میں ملوث نہیں؟ یہ کہہ سکتے ہیں جو گھڑی سعودیہ سے تحفہ ملی وہ انہوں نے بازار میں نہیں بیچ دی؟‘ رکن قومی اسمبلی نے پارٹی سے علیحدگی کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تو میں نے پارٹی چھوڑی نہیں، پارٹی کا حصہ ہوں اور یہ حالات ہیں، امید ہے عدلیہ ہمارے حق میں فیصلہ دے گی، ڈی سیٹ کرنے کی دھمکی سے ہماری آواز نہیں دبائی جاسکتی۔ وجیہہ قمر نے اپنی بات کے اختتام میں کہا کہ اپنے حلقے کیلئے کام کررہی تھی تو کہا گیا یہاں سے الیکٹیبل کو ٹکٹ دیں گے، مخصوص نشست دے کر مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا گیا، وزیراعظم کو دو مرتبہ اپنے تحفظات کا بتایا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مخصوص نشست دے کر مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ، میں نے اپنے حلقے میں بہت کام کیا ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ موجود اتحادیوں میں سے اگر کسی کو حکومت سے اختلاف ہے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوکر حکومت کو ختم کر دیں۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کے اتحادیوں کو اگر حکومت سے کوئی مسئلہ ہے تو وہ علیحدہ ہو جائیں جب حکومت کی اکثریت ختم ہو گی تو حکومت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان جن ارکان کے ووٹوں سے حکومت میں آئے ہیں انہی کے ووٹوں سے تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اگر بڑی تعداد میں ارکان مستعفی ہوجائیں تب بھی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ جب کہ پروگرام میں شامل مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے ارکان استعفے بھی دینے کو تیار تھے مگر ہم نے ہی انہیں روکا تھا کہ وہ ابھی رک جائیں اور پہلے اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔ رانا ثنااللہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی خراب صورتحال میں پارٹی کی مخالفت کر کے خود اقتدار میں آتا ہے تو وہ غلط ہے مگر یہاں تو منحرف ہونے والے ایک ظالم اور جابر حکمران کے خلاف کھڑے ہیں اور ڈٹ کر اپنی بات کہہ رہے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں کسی نے بتایا ہے کہ چودھری نثار27 مارچ کو ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں شرکت کریں گے اور انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بھی بنائے جانے کا امکان ہے۔ ہارون الرشید نے کہا کہ ممکن ہے وہ اپنے ساتھ کئی لوگوں کولیکر آئیں لیکن اگر ایسا نہیں بھی ہوتا وہ 4،5 لوگوں کو ہی لے آتے ہیں تو اس کے ساتھ بھی بہت فرق پڑے گا اور بازی پلٹنے کی بات کی جا رہی ہے ایسا تو مجھے نہیں لگتا مگر ان کا آنا اہم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ملاقات ہو چکی ہے اور معاملات فائنل ہیں۔ دوسری جانب ایک اور سینئر صحافی شاہین صہبائی نے بھی خبر دی ہے کہ 4 سال بعد چودھری نثارکہتے ہیں روزہ کھولنےکا وقت آ گیا۔ وہ خان کے خلاف تو ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ خان انکا روزہ کھول سکتے ہیں پنجاب کا سی ایم بنا کر۔ کچھ لوگ کہ رہے ہیں ملاقات بھی ہو چکی۔ آخری اوور میں بھی گیم پلٹ سکتی ہے۔ گیم آخری بال تک اوور نہیں ہوتی، انتظار تو کرنا پڑیگا۔ جب کہ خود چودھری نثار بھی ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ چار سال سے اقتدار کا روزہ رکھا ہوا ہے اب لگ رہا ہے بہت جلد اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ روزہ کھولوں گا۔ اپنے حلقے میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ بڑے عہدوں کی جتنی آفر مجھے ہوتی ہے کسی کو نہیں ہوتی لوگ تو اقتدار کیلئے جوتیاں تک اٹھانے کو تیار ہوتے ہیں. انہوں نے کہا کہ چار سال سے اقتدار کا روزہ رکھا ہواہے اب لگ رہا ہے بہت جلد اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ روزہ کھولوں گا۔ سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حلقے کے عوام کو میرے لئے ووٹ مانگنے پر کبھی شرمندگی نہیں ہو گی میں نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا نہ مجھےکوئی دو نمبر کہے گا۔
سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی کا کہنا ہے کہ اگر یہی کسی اور سندھ کے کچھ ایم این اے یا ایم پی اےہوتے اور پنجاب ہاوس میں ہوتے تو پھر بلاول بھٹو زرداری کا غصے سےبھرپور بیان آجاتا، مسلم لینگ ن کے ایم این اے ہوتے اور کے پی ہاوس میں ہوتے تو مریم نواز کے ٹوئٹ دیکھتے آج سارے خاموش ہیں سینئر تجزیہ کار حسن نثار کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کو واپس بلانا ایسا ہے جیسے بچوں سمیت آشنا کے ساتھ بھاگی ہوئی خاتون کو واپس بلانا۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "رپورٹ کارڈ "میں بات کرتے ہوئے ارشاد بھٹی نے آرٹیکل 63 اے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس شق کو نکال دیں، پورے 5 سال ضمیر جاگنا چاہیئے، 4 سال بعد کیوں ضمیر جاگے۔ اینکر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سندھ ہاوس کے واقعہ کے بعد وزیراعظم نے کہا کہ میں معاف کرتا ہوں واپس آجاو تو کیا یہ ٹھیک ہے، اس کے جواب میں ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے، شاید پارٹی چیئرمین ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں رحم آگیا ہو، یا عدم اعتماد سے پہلے اقتدار بچانے کے لئے یہ ایک سیاسی اقدام ہو، نہیں بلانا چاہیئے تھا۔ اسی سوال کے جواب میں تجزیہ کار اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر ایسے لوگوں کو پارٹی میں شامل نہیں کیا جانا چاہیئے لیکین یہاں بات سمجھنے والی یہ ہے کیہ یہ جو لوگ آئے تھے یہ اپنے گھروں سے تو ووٹ لے کر نہیں آئے، ان کو تو وزیراعظم کے نام پر ووٹ ملے ہیں، لاکھوں ووٹ بیٹ کو ملے تھے اور یہ ووٹ وزیراعظم کے لئے حلقے کی عوام کی امانت ہیں۔ اطہر کاظمی کے مطابق اس تناظر میں تو زبردستی بھی ووٹ ڈلوانا پڑے تو ڈلوانا چاہیئے، کیونکہ یہ ووٹ تو وزیراعظم صاحب کا ہے یہ ہوتے کون ہیں چند پیسے لے کر یا پھر اگلے الیکشن کا ٹکٹ لے کر اس ووٹ کو شہباز شریف یا آصف علی زرداری کے جھولی میں ڈالنے والے۔ دوسرے جانب اسی سوال پر سینئر تجزیہ کار حسن نثار نے اظہار خیا ل کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سمیت آشنا کے ساتھ فرار ہونے والی کچھ دنوں کے بعد لوٹ آئے تو اس کا کیا اعتبار ہے، یہ جمہوریت کا حسن ہے لیکن میں حسن پرست نہیں ہوں۔ تجزیہ کار ریما کا کہنا تھا کہ جب 2018 کے الیکن میں بہت سارے امیدواروں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، تب عمران خان صاحب اس کے بہت خلاف تھے تاہم انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن بھی تو جیتنا ہے، اس کا مطلب ہے کہ امیدواران کے اپنے بھی ووٹ ہوتے ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو لوگ آئین اور قانون کی بات کر رہے ہیں وہ سندھ ہاوس کے واقعہ کو گلیمرائز نہیں کر رہے، اگر کچھ ہو رہا ہے تو آپ قانونی اور آئینی طریق کار اپنائیں، آپ خود سے قانون اور آئین ایجاد نہ کریں، آپ ثبوت لائیں کہ لوگوں نے ضمیر بیچے ہیں پیسہ لیا ہے کیونکہ صرف الزام کی بنا پر سپریم کورٹ میں کچھ نہیں ہو گا، یہ سیاسی بیان ہے کہ میرے ووٹ خریدے لیکن سپریم کورٹ ثبوت مانگتا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کر دیا۔ ریفرنس اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس کے مسودے میں سپریم کورٹ سے چار سوالوں کی تشریح مانگی گئی ہے۔ مسودے میں سوال کیے گئے ہیں کہ آرٹیکل 63 اے کی کونسی تشریح قابل قبول، کیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روکا جاسکتا؟؟پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ شمارنہیں ہوگا، کیا ایسا ووٹ ڈالنے والا تاحیات نااہل ہوگا؟؟ کیا منحرف ارکان کا ووٹ شمارہوگا یا نہیں؟؟پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والا رکن صادق اور امین نہیں رہے گا تو کیا ایسا رکن تاحیات نااہل ہوگا؟ فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے مزید کیا اقدامات ہو سکتے ہیں؟آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔

Back
Top