سیاسی

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ، جسے ناکام بنانے کیلئے حکومت سر توڑ کوششیں کررہی ہے، جبکہ اپوزیشن بھی تحریک کامیاب بنانے کیلئے سرگرم ہے، مختلف چینلز پر مختلف پروگرام میں اس حوالے سے گفتگو کی جارہی ہے۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی نے رہنما جی ڈی اے فہمیدہ مرزا سے گفتگو کی اور سوال کیا کہ ان کی جماعت کس کا ساتھ دے گی، جس پر فہمیدہ مرزا نے واضح کہا کہ جی ڈی اے کو عمران خان پر مکمل اعتماد ہے اور ہم تحریک عدم اعتماد میں حکومت کی حمایت کریں گے۔ اس سے قبل حکومتی اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنما اور وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا جیونیوز کے پروگرام میں بھی عدم اعتماد میں ووٹ نہ دینے اعلان کرچکی ہیں،پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کے دوران فہمیدہ مرزا نے کہا کہ وفاقی کابینہ کا حصہ ہوں، اخلاقی طور پر درست نہیں کہ میں عدم اعتماد کو ووٹ دوں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اور اُن کے اتحادیوں کی حکومت ڈی ریل ہوئی تو ملک میں انتشار کا خدشہ ہے،میرے سندھ سے متعلق تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنا وقت پورا کرنا چاہیے،حکومت نے ہم سے کیے وعدوں پر عمل نہیں کیا تو ہمارے پاس بھی آپشن کھلے ہیں۔
اسلام آباد کے ڈی چوک پر حکومت لائے گی دس لاکھ کا ہجوم ایسے میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ن کے رہنما سردار ایاز صادق نے ڈی چوک اسلام آباد پر بیس لاکھ افراد لانے کا دعویٰ کردیا۔ جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایاز صادق نے چیلنج کیا کہ فواد چوہدری صاحب حکومت اگر ڈی چوک پر 10 لاکھ افراد لائے گی تو ہم 20 لاکھ افراد لائیں گے ،اور اہم اسی تاریخ کو بلائیں گے جس تاریخ کو آپ بلائیں گے۔ میزبان حامد میر کے سوال پر کہ اس طرح تو اسلام آباد میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی،جس پر ایاز صادق نے وضاحت دی کہ پی ٹی آئی ہمارے راستے روکےگی ہمارے لوگ ہمارے لئے راستے بنائیں گے۔ پروگرام میں شریک جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین نے کہا کہ اگر حکومت کے ایک لاکھ افراد کے مقابلے میں ہم صرف 10سے 15 رضاکار لے آئے تو وہ اُن ایک لاکھ افراد کو چلنے نہیں دیں گے،تب بھی یہ نہیں جیت سکتے،ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اس قسم کی مقابلہ بازی نہیں ہونی چاہیے، اس سے سسٹم کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد سے قبل ڈی چوک پر جلسے کا اعلان کر رکھا ہے اور وزیراعظم نے رہنماؤں کو 10 لاکھ افراد لانے کا ٹاسک دیا ہوا ہے۔
وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں۔ اگر تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی جاتی یا وزیراعظم مستعفی نہیں ہوتے تو پھر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ضرور کرائی جائے گی۔ اگر ووٹنگ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں سب کی نظریں حکومت کی اتحادی جماعتوں پر ٹکی ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین حکومت مخالف اس تحریک کی حمایت کر دیتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ قومی اسمبلی کے شعبہ قانون سازی کے مطابق اتحادی اگر صرف علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوتی تو وزیراعظم پر استعفیٰ دینا لازم نہیں، اس کے بعد صدر وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ سکتے ہیں۔ جے یو آئی فی کے بیرسٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ اگر اتحادی ہی حکومت کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وزیراعظم کو اخلاقی طور پر اب تک استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ جب کہ حکومتی جماعت کے بیرسٹر علی ظفر کے مطابق اب تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش ہو چکی ہے اپوزیشن کو اپنی اکثریت ثابت کرنا ہوگی۔ بیرسٹر علی ظفر کے مطابق صدر کسی بھی وقت کہہ تو سکتے ہیں مگر جب ریکوزیشن آ گئی ہے تو پہلے اس کا فیصلہ ہونا لازمی ہے۔ آئین کی شق 91 کی کلاز 7 کے مطابق اگر صدر کو لگے کہ وزیراعظم ایوان میں اعتماد کھو چکے ہیں تو وہ انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ مگر ایسا اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی گئی ہو۔ جب کہ پارلیمانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک جمع ہونے کے بعد 14 روز کے اندر اندر اسپیکر اجلاس بلا کر ووٹنگ کرانے کے پابندی ہیں۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن کے مطابق 22 مارچ تک اجلاس بلانا ضروری ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عامر متین نے کہا ہے کہ فرض کریں اگر پی ٹی آئی کی حکومت گر جاتی ہے تو اس کے بعد یہ ہو گا کہ نوازشریف ایک بہت بڑے جلسے میں وکٹری کا نشانے بناتے ہوئے واپس آ جائیں گے۔ عامرمتین نے کہا کہ نوازشریف کچھ دیر کیلئے عدالت بھی جائیں گے جہاں ثابت ہو جائے گا کہ وہ بہت بیمار ہیں اور اس کے بعد اپنے کیسز اور اس کے ٹرائل کیلئے وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں رہیں گے جس طرح آصف زرداری رہے ہیں اور ان کے کیسز ختم ہو جائیں گے زرداری کی طرح۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پراسیکیوشن بالکل بیٹھ جائے گی اگلا چیئرمین نیب بھی ممکنہ طور پر وہ خود لگائیں گے جو انہی کے کیسز سے نکلنے کیلئے سہولت کاری کر رہا ہو گا۔ ان سب کے کیسز ختم ہو جائیں گے اس کے بعد الیکشن ہوتے رہیں گے۔ صحافی نے مزید کہا کہ مریم نواز کیلئے یہ بہت اچھا پلان ہے کیونکہ انہوں نے ابھی 30 سے 40 سال سیاست کرنی ہے تو یہ گیم پلان اسی طرح چلتا نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساری جے آئی ٹیز اور کرپشن پر باتیں کرنے والے بیٹھ جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وجہ یہ ہے کہ اتنے سالوں میں عمران خان اپنے بیانیے پر کرپشن کے خلاف کام نہیں کر سکے اور کسی ایک شخص کو بھی اس حوالے سے سزا نہیں دی جا سکی۔ عامر متین نے کہا کہ سوائے اپنے چند بندوں کو بچانے کیلئے 3 سال میں کوئی ایک بڑا ایسا کیس نہیں جس میں تحقیقات ہوئی ہوں اور کسی کو سزا دی گئی ہو۔
تبصرہ: راشداحمد مسلم لیگ ق کے طارق بشیرچیمہ جو الیکشن 2013 اور الیکشن 2018 میں تحریک انصاف کی حمایت کی بدولت این اے 172 سے جیت چکے ہیں۔ آج کل وفاقی وزیر ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے خلاف تندوتیزبیانات دے رہے ہیں اور حکومت کو اتحادس ے نکلنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ طارق بشیرچیمہ جن کا تعلق بہاولپور سے ہے انہوں الیکشن 2018 میں 4000 ووٹوں سے فتح حاصل کی، انکے مدمقابل سابق ایم این اے چوہدری سعود مجید تھے جنہوں نے الیکشن 2008 میں پرویزالٰہی کو شکست دی تھی۔ طارق بشیرچیمہ نے این اے 172 سے106383 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ ن کے سعود مجید نے 101971 ووٹ حاصل کئے۔ الیکشن 2018 میں جب تحریک انصاف اور ق لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تو طے یہ پایا کہ تحریک انصاف این اے 172 میں طارق بشیرچیمہ کی حمایت کرے گی لیکن طارق بشیرچیمہ این اے 171 سے نہیں لڑیں گے تحریک انصاف کے نعیم الدین وڑائچ کو سپورٹ کریں گے۔ طارق بشیرچیمہ این اے 171 سے بھی آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کے نعیم الدین وڑائچ 11000 ووٹوں سے ہار گئے۔ طارق بشیرچیمہ نے این اے 171 سے 23012 ووٹ حاصل کئے تھے۔ اگر طارق بشیرچیمہ اس سیٹ سے نہ کھڑے ہوتے تو تحریک انصاف 12000 سے زائد ووٹوں سے یہ سیٹ جیت سکتی تھی۔ الیکشن 2018 ختم ہوا تو تحریک انصاف نے طارق بشیرچیمہ کو وفاقی وزیر ہاؤسنگ بنادیا ، طارق بشیرچیمہ وزارت کو انجوائے کرتے رہے لیکن جب بھی کوئی بجٹ یا حکومت پر بحران آتا تو طارق بشیرچیمہ بجائے حکومت کو سپورٹ کرنے کے حکومت کے خلاف بیانات دیدیتے۔ ایسے بہت سے مواقع آئے جب حکومت مشکل میں تھی تو طارق بشیرچیمہ ٹی وی پر آکر حکومت کو خوب لتاڑتے، ایک چینل پر طارق بشیرچیمہ حکومت پر تنقیدی نشتر برسارہے ہوتے تو دوسرے چینل پر کامل علی آغا حکومت کو آنکھیں دکھاتے جن کی جماعت کے پاس صرف 10 ووٹ تھے اور انہیں یہ سینیٹر بننے کیلئے 56 ووٹ درکار تھے اور وہ تحریک انصاف کے ووٹوں پر سینیٹر منتخب ہوگئے۔ آج کل بھی ایسی ہی صورتحال ہے، طارق بشیرچیمہ بار بار حکومتی اتحاد سے نکلنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانے کیلئے مختلف حربوں سے حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں لیکن گزشتہ روز انہیں اسد عمر کے اس بیان ق لیگ چند ضلعوں کی جماعت ہے سے بہت تکلیف پہنچی۔ طار ق بشیرچیمہ نے ایک چینل پر بیٹھ کر کہا کہ حکومت 3 سال سے ہماری بے عزتی کررہی ہے،ا س طرح مذاکرات نہیں ہوتے۔۔حکومت ہمیں اوقات یاددلانا چاہتی ہے کہ ہم ایک یا 2 ضلعوں کی پارٹی ہیں اور وزارت اعلیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اسد عمر نے جو کہا وہ حقیقت پر مبنی ہے، مسلم لیگ ق چکوال سے ایک سیٹ جیتی وہ بھی تحریک انصاف کی مدد سے، اس حلقے سے تحریک انصاف کے پاس مضبوط امیدوار تھے لیکن تحریک انصاف نے پہلے پرویزالٰہی اور پھر چوہدری شجاعت کے بیٹے چوہدری سالک کو سپورٹ کیا۔ بہاولپور سے ق لیگ نے ایک ہی سیٹ جیتی طارق بشیرچیمہ کی لیکن تحریک انصاف نے یہ قیمت نعیم الدین وڑائچ کی شکست کی صورت میں ادا کی جن کی ہار کے ذمہ دار طارق بشیرچیمہ تھے۔ منڈی بہاؤالدین اور سیالکوٹ سے ق لیگ نے صرف صوبائی اسمبلی ایک سیٹ جیتی لیکن یہاں بیوروکریسی ق لیگ کی مرضی سے لگتی ہے۔ باقی رہا گجرات تو گجرات میں ق لیگ نے 2 سیٹیں جیتیں ایک چوہدری حسین الٰہی کی اور دوسری مونس الٰہی کی، دونوں سیٹوں پر تحریک انصاف نے ق لیگ کو سپورٹ کیا ۔مونس الٰہی والی سیٹ پر پہلے چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہوئے جب انہوں نے سیٹ چھوڑی تو مونس الٰہی کھڑے ہوئے، تحریک انصاف نے مونس الٰہی کی بھی بھرپور حمایت کی اور مونس الٰہی جیت کر وفاقی وزیر بن گئے۔ ق لیگ نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں جورویہ اپنایا ہے ، تحریک انصاف کا آئندہ الیکشن میں ق لیگ کی حمایت کرنا مشکل ہے، اگر تحریک انصاف نے آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو سپورٹ نہ کیا تو ق لیگ یقینی طور پر ان پانچ سیٹوں سے بھی محروم ہوجائے گی۔ آئندہ الیکشن میں ن لیگ کا ق لیگ کو سپورٹ کرنا بہت مشکل ہے جب ن لیگ کے پاس بہاولپور میں طارق بشیرچیمہ کے مقابلے میں سعود مجید جیسامضبوط امیدوار ہو، گجرات میں چوہدریوں کے مقابلے میں نوابزادہ فیملی، چوہدری مبشرحسین جیسے مضبوط امیدوار ہوں، چکوال میں پرویزالٰہی کے مقابلے میں مضبوط تمن برادری ہو تو وہ کیونکر ق لیگ کو سپورٹ کریں گے؟
جہانگیر ترین گروپ کے مشاورتی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، ترین گروپ نے اپوزیشن اتحاد سےہاتھ ملا لیا۔ تفصیلات کے مطابق جہانگیر ترین کی زیر صدارت ترین گروپ کے مشاورتی اجلاس مِیں اکثریتی ارکان نے اپوزیشن اتحاد سے الحاق کا مطالبہ کیا ، ارکان کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت کی جہانگیر ترین کے ساتھ زیادتی کا بھی شکوہ کیا گیا ۔ ارکان کا کہنا تھا کہ حکومتی اراکین کی جانب سے ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، ایسے میں حکومت کے ساتھ نہیں چلنا چاہیے۔ اجلاس میں اراکین نے شاہ محمود قریشی کےرویے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع کے کہ دو وزراء اور ایک اہم شخصیت نےگروپ سےرابطہ کیا ہے، حکومتی شخصیات نے ناراضگی ختم کرنےکی درخواست کی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے ترین گروپ کے اراکین سےجہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، ترین گروپ کے اراکین نے مسلم لیگ ن کے وفد سے سیاسی مستقبل پرگفتگو کی۔ ترین گروپ کے اراکین کا کہنا تھا کہ وہ ذہنی طور پر حکومت سے علیحدگی کے لیے تیار ہیں، ہمیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کی یقین دہانی کرائی جائے، ملاقات کی تفصیل سے جہانگیر ترین کو آگاہ کریں گے، جہانگیر ترین جوفیصلہ کریں گے منظور ہوگا، مائنس بزدار میں ہم آپ کے ساتھ ہیں، تعاون طویل ہوناچاہیے۔ اس موقع پر حمزہ شہباز نےکہا کہ آپ کے جذبات قیادت کے سامنے رکھیں گے، پنجاب سے متعلق سب سے مل کر اور بہتر فیصلے کریں گے، دعا ہے کہ ملک کے لیے اچھا قدم ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات کےدوران حمزہ شہباز اور جہانگیرترین میں ٹیلی فونک رابطہ بھی کرایاگیا، دونوں رہنماؤں نے مائنس بُزدار فارمولے پر اتفاق کیا۔ جہانگیر ترین کے گروپ نے اعلان کیا کہ وہ صرف اس صورت میں حکومت کی حمایت کریں گے جب وہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کی شرط مان لے۔ ن لیگ کے اعلامیہ کے مطابق ناراض گروپ کے ارکان نے پنجاب کی صورتحال پر ’مایوسی کا اظہار‘ کیا اور عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتفاق کیا جبکہ ترین گروپ اراکین صوبائی اسمبلی نے وزیراعلیٰ بزدار کی حکومت کی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کرپشن اور مہنگائی عروج پر ہے
حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کے ممکنہ نظام کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں کنفوژن کا شکار ہوگئی ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومت کی معیاد اور آئندہ الیکشن سے متعلق امور پر کنفوژن فیصلہ نہیں کر پارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک طرف اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش نہیں ہوئی اور دوسری طرف اپوزیشن نے نئے انتخابات کی باتیں بھی شروع کردی ہیں۔ اس حوالے سے مسلم ن کے رہنما سعد رفیق کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ 15 ماہ میں انتخابات حل نہیں ہوسکتے اس لیے ملک میں فوری الیکشن کروانا ہوں گے۔ تاہم مسلم لیگ ن کے علاوہ پیپلزپارٹی، حکومتی اتحادی جماعتیں اسمبلی کی مدت پوری کرنے اور ان ہاؤس تبدیلی پر آمادہ ہیں،مسلم لیگ ن میں نواز شریف فوری انتخابات کے حق میں ہیں جبکہ شہباز شریف بھی اسمبلیوں کی مدت پوری کروانے کے حامی نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ق لیگ آئندہ ڈیڑھ سال کیلئے پنجاب میں اپنا وزیر اعلی لانا چاہتی ہے، لیکن اگر نظام چند ماہ کیلئے آیا اور قبل از وقت انتخابات ہوئے تو کیا ق لیگ اس تھوڑے عرصے کیلئے وزارت اعلی قبول کرے گی؟ یہ سوال ابھی غور طلب ہے۔ دوسری جانب ن لیگی رہنما اس متوقع نظام پر تحفظا ت کا بھی شکار ہیں کہ پنجاب میں ق لیگ اور مرکز میں سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی اٹھائے گی۔
سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا ہے کہ اس وقت جو صورتحال سامنے آ رہی ہے یہ سب فیصلے 2 مہینے پہلے ہی ہو چکے تھے اب تو بس ان کے اعلانات کا ہونا باقی ہے۔ حفیظ اللہ نیازی نے عمران خان کے عدم اعتماد کی تحریک کیخلاف جلسے میں 10 لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے فیصلے پر کہا یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو اس وقت ہو رہا ہے یہ بس سیاست میں رخ اختیار ہو رہا ہے جسے ڈائی کاسٹ کہا جاتا ہے۔ اس کی پہلے ڈائی کاسٹ ہو چکی ہے فیصلہ پہلے ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہبازشریف جب چوہدری برادران کے پاس گئے تھے تو اس سے پہلے سب طے تھا وہ تو بس فائنل اپنی موجودگی ظاہر کرنے گئے تھے۔ حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ پرویز الہٰی اب وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے اور ڈیڑھ سال حکومت کریں گے۔ مسلم لیگ ن کا اس بات پر اتفاق نہیں ہو پا رہا کہ اسمبلیاں کب تک تحلیل کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جو اس وقت بیانیہ ہے یہ 2 سال پہلے نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اب اتنے جارحانہ ہو جائیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ بےنظیر اور نوازشریف کو بھول جائے گی۔ وہ سخت طریقے سے جارحیت کا مظاہرہ کریں گے اور انہیں قائل کرنے اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ٍٍ اس کے جواب میں راجہ عامر عباس نے کہا ہے کہ عمران خان کے سیاسی قوت کے مظاہرے کو یہ کہہ دینا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے غلط ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تو وہ لوگ تھے جو جتھے کی صورت میں اسلام آباد آئے جن کا اعلان تھا کہ وہ پنڈی کا گھیراؤ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف وہ لوگ تھے جو لندن سے بیٹھ کر جرنیلوں کے نام لے لیکر تنقید کرتے اور برابھلا کہتے تھے وہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھے۔ آپ اتنی جلدی یہ سب کچھ بھلا دیں گے؟
بلاول بھٹو دوری جدید کے نوجوان سیاست دان ہیں اور انہیں ان کی کمزور اردو کی وجہ سے اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں پہلے اردو سیکھنے کی ضرورت ہے، تاہم انہوں نے اب اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ایک میمز پر مبنی مزاحیہ ویڈیو شیئر کی ہے جس کا کیپشن انتہائی دلچسپ ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وزیراعظم کی مختلف مواقع پر کی گئی تقاریر میں سے غلط الفاظ اور فقروں کا چناؤ کر کے اسے میمز کی مدد سے مذاحیہ بنایا گیا ہے۔ مذکورہ ویڈیو کے آغاز پر وزیراعظم کہتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو اردو سکھاؤ جس کے بعد ایک کے بعد ایک ان کے منہ سے ادا ہونے والے غلط الفاظ کو اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں وزیراعظم نے چند الفاظ غلط طریقے سے ادا کیے ہیں۔ اس ویڈیو میں حلف نامے میں خاتم النبین ﷺ، روحانیت، جرمنی اور جاپان کے بارڈر، تونسہ کا غلط نام (چونسہ) اور متعدد ایسے غلط الفاظ اور فقروں کو جوڑا گیا ہے جس سے اسے مزاحیہ بنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ویڈیو کے ساتھ بلاول بھٹو نے جو کیپشن دیا ہے وہ اسے اور بھی زیادہ منفرد بناتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وزیراعظم مجھے اردو سکھا رہے ہیں۔ یعنی ان کا اشارہ اس طرف ہے کہ ان کی اردو کو نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ ان کی اپنی اردو خراب ہے۔
حکومتی اتحادی ق لیگ کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے اپوزیشن کی جانب سے ق لیگ کو وزارت اعلی دینے پر رضامندی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تاحال ہمیں تو ایسی کوئی خبر نہیں ملی، نہ ہی پارٹی قیادت نے اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کا کوئی فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "فیس ٹو فیس" میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ کون وزارت اعلی دے رہا ہے کون نہیں دے رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے جو بھی چینل لگاتے ہیں ایک نئی خبر سامنے آ جاتی ہے، تاہم ابھی تک ق لیگ نے خود فیصلہ نہیں کیا کہ ہم نے اپوزیشن کے ساتھ جانا ہے یا نہیں، گورنمنٹ کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں رہنا تو وہ پہلے ہی کیسے ہمیں چیف منسٹری دے سکتے ہیں۔ اپوزیشن سے ملاقاتوں کے حوالے سے کئے جانے والے سوال کے جواب میں طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ اگر سب مل رہے ہیں، کوئی ہمیں ملنے آرہا ہے تو ایک دوسرے کو ملنا سیاستدانوں کا، سیاسی جماعتوں کا کام ہوتا ہے، ایک دوسرے سے مشاورت کرنا، انہی ملاقاتوں اور مشاورت کے نتیجے میں کوئی نہ کقئی فیصلہ لیا جاتا ہے۔ پروگرام اینکر نے سوال کیا کہ دونوں جانب سے عدم اعتماد پر تعاون مانگا جا رہا ہے، کیا ق لیگ خود الجھن اور تذبذب کا شکار ہے کہ کیا فیصلہ کرنا ہے کیونکہ پارٹی میں بھی دو گروپ موجود ہیں جو مختف رائے رکھتے ہیں، جس کے جواب میں ق لیگی رہنما نے پارٹی میں گروپوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے، پارٹی میں کوئی گروپ نہیں ہیں، یہاں فیصلے کا اختیار چوہدری پرویز الہی کے پاس ہے، وہ جو بھی فیصلہ کریں گے چوہدری صاحب کریں گے، جب معاملات کلیئر ہو جائیں گے جو بھی فیصلہ ہو گا سامنے آجائے گا۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اسمبلی سیشن کی تاریخ نہیں دی گئی، عدم اعتماد پر ووٹ کی تاریخ نہیں دی گئی، پورے پاکستان میں صرف ہمارے ہی فیصلے کا شدت کے ساتھ انتظار کیا جارہا ہے، اور ہم انشاءاللہ جو بھی فیصلہ لیں گے وہ موجودہ حالات کے تناظر میں بہتر فیصلہ ہو گا، جو پارٹی اور صوبے کے مفاد میں ہوگا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ اتحادی جماعتیں جہاں بھی کھڑی ہیں کم ازکم حکومت کے ساتھ نہیں کھڑیں۔ دنیا نیوز کے پروگرام"تھنک ٹینک"سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایاز امیر نے کہا کہ ق لیگ سے متعلق اشارے مل رہے ہیں کہ وہ حکومت کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہوگی، ق لیگ کے معاملات حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں،اس حوالےسے آصف علی زرداری صاحب ق لیگ کے ساتھ معاہدے میں ضامن ہوں گے۔ ایاز امیر نے کہا کہ اس سارے معاملے میں سب سے اہم رول بھی آصف علی زرداری کا ہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہےکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ نواز شریف کی بات پر کوئی یقین نہیں کرتا، ان کے مقابلے میں آصف علی زرداری کی بات پر یقین کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت اتحادیوں اور سہارا دینے والوں کی وجہ سے بنی،سب جانتے ہیں کہ سہارے ہٹ گئے ہیں اور اتحادی ساتھ نہیں ہیں تو عمران خان کے اس بحران سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟ اتحادیوں کو نوازنے کی پوزیشن میں تو ہمیشہ حکومت وقت ہوتی ہےکہ یہ عہدہ لے لو یہ فنڈز لے لو یا یہ پرمٹ لے لو، مگر یہاں تو اپوزیشن عہدے بانٹ رہی ہے۔ ایاز امیر نے کہا کہ اتحادی اگر ناراض ہیں کہ ساڑھے تین سال میں انہیں کوئی چیز نہیں ملی تو عمران خان اب اس موقع پر انہیں کیا دے سکتے ہیں،اگر عمران خان میں اتنی صلاحیت ہوتی تو ایک ماہ پہلے عمران خان چوہدریوں کو رام کرکے انہیں پنجاب کی وزارت اعلی سونپ سکتے تھے، عثمان بزدار کے تلوں میں وہ کون سا تیل ہے جو نکالنے کیلئے عمران خان کوششیں کررہے ہیں۔ ایاز امیر نے کہا کہ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے،عمران خان نے آج تک کوئی بولڈ فیصلہ نہیں کیا،وہ جب اپنی کامیابیاں گنواتے ہیں تو لوگوں کو ہنسی آجاتی ہے، اگر عمران خان اچھی سیاست کرتے تو کابینہ کا حصہ رہنے والے اتحادی مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے، اس وقت انہیں واضح طورپرساتھ کھڑے لوگوں کی ضرورت ہے،شیخ رشید جیسے لوگوں کی نہیں جنہوں نے چوہدریوں کے خلاف گرنیڈ مارا۔
حکومت کی اہم اتحادی جماعت ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے وفاقی وزیر شیخ رشید کو مانگے تانگے کی سیاست کرنے والا کہہ ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دیا، جب کہ پی ٹی آئی کا اپنا شیرازہ بکھر رہا ہو تو ہم نے اپنا فیصلہ تو کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پنجاب میں 4 حصوں میں بکھر چکی ہے، ہم نے تو کوشش کی کہ عثمان بزدار پنجاب میں ڈیلیور کرسکیں۔ تحریک انصاف کی مدد سے منتخب ہونیوالے ق لیگی سینیٹر نے مزید کہا کہ ہم معاہدے کے پابند ہیں اور پابند رہے ہیں، حکومت کا ہرمشکل میں ساتھ دیا، ان حالات میں ہم نے بھی تو سوچ و بچار کرنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے میں درج تھا کہ 2 وزارتیں وفاق اور 2 صوبے میں ملیں گی، مونس الہٰی کی وزارت سے تو ہم نے انکار کر دیا تھا۔ اپنے تحفظات حکومت کے سامنے رکھے اور کہا کہ کرپشن بڑھتی جارہی ہے، شیخ رشید کا وتیرہ رہا ہے مانگے تانگے کی سیاست کرنا۔ انہوں نے وزیر داخلہ سے متعلق کہا کہ وہ خود ایک سیٹ رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر بلیک میل کر کے وزارت داخلہ سنبھالے بیٹھے ہیں اور بات دوسروں کو کرتے ہیں کہ وہ بلیک میل کرتے ہیں۔ کامل علی آغا نے کہا کہ حکومت کا ہم نے ساتھ نہیں چھوڑا ان کا شیرازہ بکھر رہا ہے تو ہم نے بھی تو اپنا فیصلہ کرنا ہی ہے۔ یہ بات میرے علم میں نہیں کہ پرویز الہٰی کل وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کو سپورٹ کرتے رہے ہیں کیونکہ وہ عمران خان کی طرف سے مقرر ہوئے تھے۔ ہم کبھی کسی کال کا انتظار نہیں کرتے ہر بار اپنی قیادت کی طرف دیکھتے ہیں۔
سربراہ پی ڈی ایم اور جمیعت علما اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ کس کو کیا ملے گا اس کا فیصلہ عوام کریں گے ہم چاہتے ہیں کہ ووٹ کی امانت عوام کو واپس کی جائے تاکہ اسی کے مطابق وزیراعظم، اسپیکر اور جس نے بھی ایوان اقتدار میں آنا ہے اسی سے آئے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی نے سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مولانا فضل الرحمان سے سوال کیا کہ مسلم لیگ ن کو وزارت عظمیٰ ملے گی اور پیپلزپارٹی اسپیکر شپ لے گی مگر ان کو اس ساری جدوجہد کے بعد کیا ملے گا؟ اس کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کسی کو کچھ نہیں ملے گا، کس کو کیا ملے گا اس کا فیصلہ عوام کریں گے۔ سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ہم ابھی بھی فوراً آزادانہ الیکشن ہی چاہتے ہیں، ہم ہر چیز اس طرح نہیں بتا سکتے یہ فیصلہ وقت اور عوام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ہماری جدوجہد کا محور عدم اعتماد ہے کوئی ایسی چیز نہیں لانا چاہتے جس سے مباحثہ ہو، اس تحریک کی کامیابی کے بعد فیصلہ ہو گا کہ یہ اسمبلیاں مدت پوری کرتی ہیں یا کہ کس کو کیا ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔ مولانا نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ اس ساری پارلیمانی کوشش کے دوران اگر 23 مارچ تک یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی تو پھر چونکہ رمضان المبارک آ رہا ہے تو یہ بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایسا نہیں کہہ رہا کہ یہ انہیں دنوں میں تحریک کامیاب ہو گی لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوا تو ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی تو پھر ہم اپنا لانگ مارچ کریں گے لیکن اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا کیونکہ اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں تو ہمیں اس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو امید ہے کہ پھر وہ بعد میں کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ق کو اپوزیشن کی جانب سے وزارت اعلیٰ کی پیشکش پر ن لیگ کے ارکان اسمبلی نے شدید تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ نجی چینل اے آروائی کے مطابق مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی عابد رضا سمیت 7 ارکان اسمبلی نے ق لیگ کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ن لیگی ارکان کا کہنا ہے کہ ایسی جماعت جس کی صرف 10 سیٹیں ہیں اسے کس حیثیت سے وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی گئی ہے۔پنجاب میں ن لیگ بڑی جماعت ہے اور ق لیگ چھوٹی جماعت ہے۔ ن لیگ کے ارکان نے مطالبہ کیا کہ اگر عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب ہماری جماعت سے ہونا چاہیے۔ دوسری جانب جنگ جیو کے صحافی انصارعباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ۔ پہلے نون لیگ والے ق لیگ کو پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ دینے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن اب وہ تقریباً اس اقدام کیلئے تیار ہیں۔ انصارعباسی کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری بھی نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کو منانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ ق لیگ والوں کی شرط مان لیں۔اپوزیشن اور ق لیگ میں تقریبا مفاہمت ہوچکی ہے لیکن نوازشریف کے حتمی فیصلے کا انتظار ہے۔ واضح رہے کہ ق لیگ کو اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی گئی تھی۔ق لیگ نے حکومتی کشتی سے اترنے کیلئے پر تولنا شروع کردیئے ہیں،اس حوالےسے ق لیگ کی قیادت نے آصف علی زرداری سے گارنٹی بھی مانگ لی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتمادکےمعاملےپر جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے،ایسےمیں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے اپوزیشن کی حمایت کےبدلے میں کیے گئے مطالبات کی تفصیلات بھی منظر عام پرآگئی ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم نے اپوزیشن سے جو مطالبات کیے ہیں ان میں سر فہرست سپریم کورٹ کے بلدیاتی اختیارات سے متعلق فیصلےپر من وعن عمل درآمد ہے ،دوسرا مطالبہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایم کیو ایم کوبھی مشاورت میں شامل کرنے کا ہے۔ ایم کیو ایم نےاپوزیشن سے مطالبہ کیا کہ نئے بلدیاتی انتخابات سے پہلے سندھ کے شہری علاقوں میں جہاں جہاں ایم کیو ایم کی نمائندگی موجود ہے وہاں ایم کیو ایم کے نامزد کردہ ایڈمنسٹریٹرز تعینات کیے جائیں۔ ایم کیو ایم نے اپوزیشن سےاین ایف سی کی طرح پی ایف سی پر عمل درآمد کو ممکن بنانے کا مطالبہ بھی کیا، ایم کیو ایم کی جانب سے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو آئینی تحفظ دینے کیلئے ایم کیو ایم کے تیار کردہ بلوں پر عملدرآمد، نئی مردم شماری،خانہ شماری، شہری علاقوں کی مکمل گنتی، اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی اور سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں کو 40 فیصد کوٹے کے تحت نوکریاں دینے کے مطالبات بھی اپوزیشن کے سامنے رکھے ہیں ۔ ایم کیو ایم نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حمایت کے بدلے میں ایم کیو ایم کی سیاسی آزادی، دفاتر کی واپسی اور بحالی، قائدین و کارکنان پرقائم مقدمات کے خاتمے، لاپتا اافراد کی واپسی اور گرفتار کارکنان کی رہائی جیسے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے ان مطالبات کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، ایم کیو ایم اور ق لیگ کی حکومت سے علیحدگی کیلئے ایک دوسرے سےمشاورت کے بعد فیصلہ کرنے کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری اور وزیر مملکت فرخ حبیب پر مشتمل حکومتی کمیٹی کی چوہدری برادران سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔ نجی چینل جی این این کے ذرائع کے مطابق ملاقات میں پرویز الٰہی اور مونس الٰہی شریک ہوئے لیکن چوہدری شجاعت شریک نہیں ہوئے۔ ملاقات میں حکومتی ارکان نے چوہدری برادران سے اپوزیشن رہنماؤں سے ملنے پر شکوہ کیا جس کے جواب نے چوہدری برادران نے جوابی شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی گجرات میں ہمارے سیاسی مخالفین ارکان اسمبلی سے رابطے میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ اپوزیشن نے ہمیں پنجاب کی وزارت اعلی پیشکش کی ہمیں آپ وزارت اعلیٰ کیوں نہیں دیتے۔ جس پر حکومتی کمیٹی نے کہا کہ لیگ کو وزرات اعلی دینے پر ہمارے اراکین اسمبلی راضی نہیں، اگر ق لیگ پی ٹی آئی میں ضم ہو جائے تو آپ کے وزیر اعلی بننے پر اعتراض نہیں۔ حکومتی کمیٹی نے تجویز دی کہ دوسرا فارمولا یہ ہے ایسا وزیر اعلی لائیں جس پر آپ اور ترین گروپ متفق ہوں۔ ذرائع کے مطابق نئے وزیر اعلی پنجاب کے لیے صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کے نام پر غور کیا گیا لیکن چوہدری برادران نے حتمی جواب کے لیے اتوار تک کا وقت مانگ لیا۔ مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں وفاقی وزراء نے بتایا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو بدلنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے تمام معاملات کا اختیار فواد چوہدری کے پاس ہے تو اللہ ہی حافظ ہے۔اگر ق لیگ کے معاملات فوادچوہدری نے طے کرنے ہیں تو چوہدری صاحب کو سیاست چھوڑ دینا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاسی فیصلہ کرنا ہے، صوبے کی بہتری کے لئے فیصلہ کریں گے، ہم سے کسی نے بات نہیں کی کہ ووٹ دینا ہے یا نہیں دینا ہے، کیا کرنا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کا مسلم لیگ ن کی فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ جیو نیوز کے پروگرام’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ ان سے دونوں رہنماؤں کی مسلم لیگ ن میں ممکنہ شمولیت کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔ احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی فیصلہ سازی میں بنیادی کردار انہیں لوگوں کا ہوگا جنہوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اس پر اینکر شہزاداقبال نے سوال کیا کہ کیا آپ اس شخص سے تبدیلی لائیں گے جسے آپ قبضہ مافیا اور عمران خان کی اے ٹی ایم کہتے ہیں؟ اس پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کسی کو چورڈاکو کہنے سے ہم اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ وہ منتخب ارکان اسمبلی اور سیاسی حقیقت ہیں۔ واضح رہے کہ سابق وزیر علیم خان نے گزشتہ روز سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی ۔ملاقات نواز شریف کے گھر پر مقامی وقت کے مطابق ساڑھے 6 بجےہوئی، نوازشریف سے ملنے کیلئےعلیم خان عقبی دروازے سے داخل ہوئے۔ ذرائع کے مطابق علیم خان اور نوازشریف کی ملاقات لندن میں ہوئی جس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے بیٹے بھی موجود تھے۔ نجی چینل کے ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ علیم خان کی ملاقات میں ن لیگ پنجاب کےصدرراناثنااللہ کااہم کردارہے۔نواز شریف اور علیم خان کی ملاقات کا اہتمام مشترکہ دوستوں نے کیا۔ علیم خان نے سابق وزیراعظم کو بتایا کہ ان کے ساتھ تین سال میں کیا ہوتا رہا اوران کی اپنی جماعت پی ٹی آئی نے ان کو کس طرح نشانہ بنایا۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عبدالعلیم خان کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کا امکان ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے جنرل فیض کو شوکاز نوٹس جاری کیے جانے کی خبروں تردید کردی ۔ ایک یوٹیوبر اسد طور پر سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ نے فیض حمید کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا یہ نوٹس عمران خان سے فیض حمید کی خفیہ ملاقات پر جبکہ دوسرے زرائع کے مطابق پرویز الہی کو فون کرنے پر دیا گیا اس یوٹیوبر نے کہا کہ انہوں نے تین مختلف ذرائع سے اس معلومات کی تصدیق کی ہے اس پر صحافی انصار عباسی نے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی یہ خبر بالکل غلط اور جعلی ہے کہ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ انصار عباسی کے مطابق دی نیوز نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے ولاگ شیئر کیا تاکہ ان کی رائے معلوم کی جا سکے۔ حال ہی میں بڑے پیمانے پر جنرل فیض کیخلاف افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں لیکن کسی قسم کا ثبوت نہیں ملا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے جنرل فیض کا نام لیے بغیر پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ پشاور میں حال ہی میں تعینات ہونے والے ایک شخص نے نون لیگ کے کچھ ارکان سے رابطہ کرکے وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کی کوشش کی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس خبر کو بھی غلط قرار دیا اور کہا کہ نہ فوج سیاست میں ملوث ہے اور نہ دفاعی فورسز سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ایسا کر سکتا ہے ۔ ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ اس لئے سیاست دانوں اور میڈیا کو چاہئے کہ فوج کو اس معاملے میں نہ گھسیٹیں۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ اسد طور پر اس قسم کی افواہیں پھیلائیں، اسد طور اس سے قبل بھی اس قسم کا پروپیگنڈا کرچکے ہیں۔انہوں نے مختلف مواقعوں پر فوج اور سیاستدانوں سے متعلق مختلف افواہیں پھیلائیں جس کا نہ سر تھا نہ پیر تھا۔ اسد طور نے ایک صحافی شفاء یوسفزئی پر بھی ذاتی نوعیت کے حملے کئے ، شفاء یوسفزئی جب کیس عدالت لیکر گئیں تو این جی اوز سے وابستہ اور عورت مارچ کی حامی خواتین اسد طور کی حمایت میں سامنے آگئیں۔ کچھ ماہ قبل اسد طور پر تشدد ہوا جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ پلانٹڈ تھا ،اس پر حامد میر اسد طورکی حمایت میں سامنے آگئے اور فوج کو گالیاں دیں جس کی پاداش میں جیو نے ان کا پروگرام بند کردیا اور حامد میر کئی ماہ تک آف ائیر رہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے علیم خان کی نوازشریف سے لندن میں ملاقات کی خبر کی تصدیق کر دی ہے نجی چینل اے آروائی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لندن تو کیا پاکستان میں بھی ہونےوالی ملاقاتیں تسلیم کر رہا ہوں۔ جاوید لطیف نے انکشاف کیا کہ نہ صرف علیم خان بلکہ جہانگیرترین سمیت کئی وزرا اور رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ سابق وزیر علیم خان نے گزشتہ روز سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی ۔ملاقات نواز شریف کے گھر پر مقامی وقت کے مطابق ساڑھے 6 بجےہوئی، نوازشریف سے ملنے کیلئےعلیم خان عقبی دروازے سے داخل ہوئے۔ ذرائع کے مطابق علیم خان اور نوازشریف کی ملاقات لندن میں ہوئی جس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے بیٹے بھی موجود تھے۔ نجی چینل کے ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ علیم خان کی ملاقات میں ن لیگ پنجاب کےصدرراناثنااللہ کااہم کردارہے۔نواز شریف اور علیم خان کی ملاقات کا اہتمام مشترکہ دوستوں نے کیا علیم خان نے سابق وزیراعظم کو بتایا کہ ان کے ساتھ تین سال میں کیا ہوتا رہا اوران کی اپنی جماعت پی ٹی آئی نے ان کو کس طرح نشانہ بنایا۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عبدالعلیم خان کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کا امکان ہے۔
نواز شریف سے علیم خان کی لندن میں خفیہ ملاقات، علیم خان نوازشریف کی رہائش گاہ پر گھر کے پچھلے دروازے سےد اخل ہوئے۔ نجی ٹی وی چینلز اور خبررساں اداروں کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنما اور پنجاب کے سابق سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان نے لندن میں نوازشریف سے ایک خفیہ ملاقات کی ہے۔ ملاقات لندن کے وقت کے مطابق جمعرات کی شام ساڑھے چھ بجے کی گئی۔ رپورٹس کے مطابق علیم خان نوازشریف سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ پر گئے اور اس ملاقات کیلئے وہ گھر کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے۔ تاہم اس ملاقات میں علیم خان کے ساتھ جہانگیرترین موجود نہیں تھے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نوازشریف اور علیم خان کے مابین اس ملاقات میں مسلم لیگ پنجاب کے صدر اور سابق وزیر قانون راناثنااللہ کا اہم کردار ہے۔ تاہم اس حوالے سے اس ملاقات کے ہونے کی صورت میں انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کارکن سوال اٹھا رہے ہیں کہ علیم خان کیوں وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بنے؟ اگر بندہ نظریاتی ہوتا تو الگ پارٹی بنا لیتا لیکن نواز شریف سے نہ ملتا۔ وقار ملک نامی ایک ولاگر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے تو ماننا پڑے گا کہ عمران خان کو اپنی جیب کے کھوٹے سکوں کی خوب پہچان ہے اسی لئے جسکی جو اوقات تھی وہیں رکھے گئے۔ اینکر پرسن اجمل جامی نے کہا ہے کہ علیم خان ن لیگ کے ہمراہ چلنے کی مکمل تیاری کر چکے، ترین سے البتہ انکی ملاقات تاحال تک نہ ہونے کی اطلاع ہے، پانچ سے چھ صوبائی وزرا کو اگلی ٹکٹوں کی یقین دہانی مع دیگر ضروری کمٹمنٹس بھی آفریں کرائیں،دو نے پلو پکڑایا بقیہ نہیں مانے۔ ابھی مطلوبہ تعداد حاصل نہیں ہو سکی۔

Back
Top