سیاسی

نجی ٹی وی چینل کے صحافی شہزاد حسین بٹ نے انکشاف کیا ہے کہ جہانگیر ترین اور اسحاق ڈار کے درمیان لندن میں ایک اہم ملاقات ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق انہوں نے یہ انکشاف جی این این کے پروگرام "خبرہے" میں گفتگو کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ لندن ذرائع سے جب نواز شریف اور جہانگیر ترین کی ملاقات سے متعلق تصدیق کرنا چاہی تو وہاں سے یکسر تردید سامنے آئی تھی تاہم جب ذرائع سے جہانگیر ترین اور ن لیگی رہنما اسحاق ڈار کی ملاقات سے متعلق پوچھا گیا تو ہمارے ذرائع مسکرادیئے تھے۔ لانگ مارچ کی تاریخ سے متعلق سوال کے جواب میں جی این این لاہور کے بیورو چیف شہزا حسین بٹ کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کی جانب سے دیئے گئے عشائیہ میں بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے یہ بات کی گئی تھی کہ جب تک میرا لانگ مارچ مکمل نہیں ہوجاتا عدم اعتماد تب تک نہ لائی جائے۔ شہزاد بٹ نے کہا کہ آنے والی اتوار یعنی پرسوں جب پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا اور وہاں بلاول بھٹو زرداری خطاب کرلیں گے تو اس کے اگلے روز یعنی پیر یا منگل کو اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الہیٰ کی جانب سے آج کی گفتگو کے دوران ایک بات جو کی گئی کہ" اتنی بڑی ہنڈیا چڑھی ہے تو کچھ تو نکلے گا ہی "یہ بہت اہم بات ہے۔
پی ٹی آئی بلوچستان کے سابق صدر سردار یار محمد رند نے انکشاف کیا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو ساڑھے 3 ارب روپے کی ڈیل کے بدلے وزارت اعلی کا عہدہ ملا تھا۔ سردار یار محمد رند نے یہ انکشاف جیو نیوز کے پروگرام"جرگہ" میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کے دوران کیا اور کہا کہ پہلے صرف بلوچستان کے ساحل اور وسائل ہی بکتے تھے اس بار تو یہاں حکومت بھی نیلام ہوئی ہے،عبدالقدوس بزنجو کی حکومت پیسے کے زور پر لائی گئی مگر میں اس نیلامی کاحصہ نہیں بنا۔ ڈیل اسلام آباد میں طے پائی تھی اور اس کو تکمیل تک پہنچانے میں 3 سینیٹرز اور ایک بڑی سیاسی شخصیت کا کلیدی کردار تھا۔ رہنما پاکستان تحریک انصاف سردار یار محمد رند نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے زیادہ تنگ کیا گیا تو میں اس شخصیت کا نام بھی میڈیا پر لاسکتا ہوں۔ پروگرام میں سردار یار محمد رند نے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے توانائی کے عہدے سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 2 روز پہلے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجواچکا ہوں، وفاقی وزیروں نے کبھی بھی کسی معاملے پر مجھ سے رابطہ نہیں کیا، یہاں تک کہ مجھے بلوچستان سے متعلق اجلاسوں میں بھی مجھے بلانے کی زحمت نہیں کی جاتی تھی۔
حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملے میں تیزی آگئی ہے، امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ آئندہ 48 گھنٹوں میں تحریک پیش کردی جائے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس تحریک عدم اعتماد کیلئے نمبر پورے ہیں اور آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں تحریک جمع کرادی جائے گی۔ اگر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو اپوزیشن اور حکومت کا نمبر گیم کیا ہوگا؟ اپوزیشن حکمران جماعت کے 24 ارکان کی حمایت کا دعویٰ کررہی ہے اس صورت میں حکومت اور اپوزیشن کہاں کھڑے ہوں گے؟ یہ بھی سوال اہم ہے کہ اگر ق لیگ، ایم کیوایم یا پی اے پی اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہیں تب کیا ہوگا؟ قومی اسمبلی میں اس وقت حکومتی اتحاد کےارکان کی تعداد 179 ہے جن میں تحریک انصاف کے 155، ایم کیو ایم کے 7، ق لیگ کے 5، بلوچستان عوامی پارٹی 5 کے ، جی ڈی اے 3 کے ، آزاد ارکان 2، جمہوری وطن پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ کے 1،1 ارکان شامل ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کو قومی اسمبلی میں 162 ارکان کی حمایت حاصل ہے، اس لحاظ سے حکومت کی ووٹوں کی برتری 17 ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد کچھ اس طرح سے ہےن لیگ 84، پی پی 56، متحدہ مجلس عمل 15، بی این پی مینگل 4، آزاد ارکان 2 اور اے این پی کا ایک رکن شامل ہے۔ اپوزیشن دعوٰی کررہی ہے کہ اسے تحریک انصاف کے 24 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ کچھ روز قبل آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان اور شہبازشریف کے درمیان میٹنگ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن کو 16، پیپلز پارٹی کو 6 اور جے یو آئی ف کو 2 حکومتی ارکان نے حمایت کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔ اگر اپوزیشن کے اس دعوے کو مان لیا جائے تو اس طرح وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حکومتی ارکان کی تعداد 155 اور اپوزیشن کے پاس موجود ارکان کی تعداد 186 بنتی ہے۔ اگر حکومتی ارکان اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتے اور مسلم لیگ ق، ایم کیوایم اور بی اے پی اپوزیشن کا ساتھ دیتی ہے تو انکی مجموعی تعداد 17 بنتی ہے جس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں سمیت 179 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی تو اپوزیشن کو 172 ارکان کی حمایت درکار ہوگی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو ارکان اپوزیشن کا ساتھ دیں گے وہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہل ہوسکتے ہیں اور انکی نااہلی چند دن کی بات ہوگی۔ اگر اپوزیشن حکومتی اتحادیوں کو ساتھ ملاکر تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس صورت میں اپوزیشن کو ق لیگ اور دیگر اتحادیوں کو ساتھ ملاکر حکومت بنانا ہوگی لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کس کو کیا ملے گا؟ حکومتی اتحادیوں کو کونسی وزارتیں مانگیں گے ؟ میڈیا کی خبروں کے مطابق وزارت اعظمیٰ شہبازشریف کو دی جائے گی جبکہ باقی وزارتوں میں نہ صرف پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی ف بلکہ حکومتی اتحادی بھی حصہ مانگیں گے تو سوال یہ اٹھے گا کہ کس کوکیا ملے گا؟ پی پی، ن لیگ، جے یو آئی ف تگڑی وزارتیں اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرے گی تو حکومتی اتحادیوں کیلئے ناقابل قبول ہوگا اور وہ بھی تگڑی وزارتیں مانگیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی نظریں اپنے بیٹے کیلئے وزارت اعظمیٰ اور اسپیکر شپ پر ہوگی۔ اپوزیشن اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے نہ صرف اسپیکر، چئیرمین سینٹ کو ہٹانا پڑے گا بلکہ پنجاب، خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی گرانا پڑےگا،پنجاب حکومت گرانا ناممکن نہیں خیبرپختونخوا حکومت گراناناممکن نہیں جہاں تحریک انصاف 2 تہائی اکثریت سے براجمان ہے۔ اگر اپوزیشن حکومت بنابھی لیتی ہے تو اسکے لئے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہوگا جو عالمی سطح پر تیل، گیس، خوردنی تیل اور دیگر اجناس مہنگی ہونے کی وجہ سے ہے جسے سنبھالنا اپوزیشن کیلئے انتہائی مشکل ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے جب تک نئے وزیراعظم کا فیصلہ نہیں ہوتا،موجودہ وزیراعظم ہی اپنے عہدے پر کام جاری رکھیں گے۔ اپوزیشن کیلئے ایک اور چیلنج جس کی طرف کم لوگوں کی نظر جارہی ہے وہ صدر پاکستان کا عہدہ ہیں، صدر پاکستان ڈاکٹرعارف علوی تحریک انصاف کا حصہ ہیں، گورنرز سمیت بہت سے معاملات میں انکا بہت عمل دخل ہے۔ سندھ میں گورنر عمران اسماعیل ہیں جو عمران خان کے پرانے ساتھی ہیں، کیا وہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونیکی صورت میں ردعمل کے طور پر گورنر راج لگاسکتے ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سینیئٹر دنیش کمار نے بتایا کہ ان کا اور ان کی بیوی کا بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا جس پر بیوی نے کہا ہے کہ آپ بہت بڑے سینیٹر بن گئے ہیں ایک بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوایا جا رہا۔ تفصیلات کے مطابق قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں سیاسی طور پر ایکسپوزڈ افراد کے بینک اکاؤنٹ نہ کھلنے کا معاملہ زیر غور آیا جس میں سینیٹر دنیش کمار نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ناصرف میرا بلکہ میری بیوی کا بھی بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا جا رہا ہے۔ دنیش کمار کا کہنا تھا کہ اکاؤنٹ کھلوانے کیلئے گئے تو بینک نے کہا کہ آپ نیب سے این او سی لے آئیں کہ آپ پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔ میری بیگم بینک اکاؤنٹ کھلوانے کیلئے گئی تو اس کا بھی اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کے چیئرمین کہا کہ پھر تو بیگم نے آپ کو گھر سے نکال دیا ہوگا۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ یہ ہمارے گھر میں کھانا بند کروانے کے چکر میں ہیں۔ ارکان نہ بولے تو ان کا کھانا بھی بند ہوگا کیونکہ میری بیگم نے کہا ہے آپ تو کہتے ہیں بہت بڑے سینیٹر بن گئے ہیں ایک بینک اکاؤنٹ تو کھل نہیں رہا آپ کا۔ کامل علی آغا نے کہا کہ سیاست دانوں کو ذلیل کیا جا رہا ہے۔ کسی سپریم کورٹ کے جج کو تو چھوڑیں، سیشن جج اور ایس ایچ او کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیٹ بینک نے کہا کہ اس معاملہ پر فوکل پرسن متعین کیا ہے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی طور پر ایکسپوزڈ افراد کا قانون ختم ہونا چاہیے۔ یہ صرف سٹیٹ بینک کی ہدایات ہیں جو ختم ہونی چاہیے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا بینکوں کو باقاعدہ ہدایات دی جائیں کہ وہ کسی کو بھی اکاؤنٹ کھولنے سے نہ روکیں۔ جس کے بعد کمیٹی نے سٹیٹ بینک کو تمام پیپ قوانین ختم کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں انتخاب کے وقت ہم نے حکومت کو ٹریلر دکھایا تھا، ہم سے کون کون رابطے کرتا ہے جب وقت آئے گا سارے کارڈ دکھائیں گے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ حکومت نے ملک پر جمہوری، معاشی ڈاکہ ڈالا ہے، وقت آگیا ہے حکومت کے خلاف احتجاج کریں، مہم چلائیں۔ تحریک عدم اعتماد کے لئے ق لیگ مفت میں ووٹ نہیں دے گی، اتحادیوں کو اپنی طرف لانے کے لئے بہتر پیش کش کرنی پڑے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد جو بھی سیٹ اپ آئے گا، وہ محدود مدت کے لیے ہو گا اور اس کا مینڈیٹ انتخابی اصلاحات اور شفاف انتخابات کرانا ہو گا۔ اگر عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے تو پارلیمان کا اعتماد بھی ان سےاٹھنا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ عمران خان کو ایک بار پھر پارلیمان میں شکست دیں گے، نمبر پورے ہوتے ہی عدم اعتماد کے ذریعے خان صاحب کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹائیں گے۔ ہمارے لانگ مارچ سے پہلے باقی اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد سے متعلق ایک پیج پر نہیں تھیں۔ بلاول نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت کے لیے تمام جماعتیں عدم اعتماد پرمتفق ہیں جو کہ خوش آئند ہے، ہم کافی عرصے سے عدم اعتماد پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کے کسی بھی قسم کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ حکومت کے خلاف ہم نے کوئی قدم اٹھانا ہے تو پیپلزپارٹی کوئی غیر جمہوری قدم نہیں اٹھائے گی۔ بلاول نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے لیے یہ بڑا کڑا ٹاسک ہے کہ ہم وزیراعظم کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دیں، مگر ہم ملک کے مفاد کے لیے یہ شارٹ ٹرم قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، ن لیگ سے بھی امید ہے کہ وہ لچک دکھائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نوازشریف کا پاکستان آنا ان کا اپنا فیصلہ ہے، میں اس پر کچھ نہیں کہوں گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے تو اچھی بات ہے، پیپلزپارٹی کے لوگوں کو بھی حالیہ دنوں میں ایسی کوئی کالز نہیں آئیں جو پہلے آیا کرتی تھیں۔
حکومت کا پیکا آرڈیننس میں ترامیم کرنے پر رضامندی کا اظہار، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بڑا اعلان کر دیا گزشتہ روز پیکا آرڈیننس کے معاملے پر میں چوہدری پرویز الہٰی کی لاہور میں میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندہ وفد سے ملاقات میں انہوں نے کمیٹی کے مطالبات کی مکمل حمایت کی، ملاقات کے دوران میڈیا وفد میں پی بی اے، اے پی این ایس، سی پی این ای اور امینڈا کے عہدیداران شامل تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر 90 دن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی ڈرافٹ لے آئے تو پیکا آرڈیننس میں ترامیم کر لیں گے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "بریکنگ پوائنٹ ود مالک" میں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت تیار ہے کہ اس آرڈیننس کو وڈرا کر کے جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت مل کر اس حوالے سے ڈرافٹ تیار کر کے پارلیمان میں پیش کیا جائے۔ انہو نے مزید کہا کہ اس حوالے سے مینڈیٹ چوہدری پرویز الہی کو دے دیا ہے اب ان کے طرف سے جس طرح اس پر ورک کیا جائے گا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی پیکا قانون پر میڈیا کے وفد سے ملاقات کریں گے اور بات چیت کے بعد جس طرح سے بھی اس کا حل نکالیں گے، حکومت اس پر کام کرے گی، اگر جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت ایک متعین شدہ وقت کے دورانیے میں پیکا کے حوالے سے متفقہ ڈرافٹ لائیں چاہے اس کے لئے جتنی مرضی ملاقاتیں کرنی پڑیں، تو حکومت اس ڈرافٹ کے مطابق ترمیم کرنے کے لئے رضامند ہے۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) میں تبدیلیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ہم پیمرا میں تبدیلیاں کرنے جارہے تھے جس کے لئے آپ کو ڈرافٹ بھیجا وہ بھی تو آپ لوگ تسلیم نہیں کر رہے، ہم جو پی ایم ڈی اے کا قانون لانے والے تھے وہ بھی تو سول قانون تھا اس پر بھی تو آپ لوگوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے، اس میں تو کوئی قید نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ اس قانون میں جو ہم نے کونسل آف کمپلینٹ بنائی تھی اس میں ہم نے کہا تھا کہ 501 فیصد میڈیا کے لوگ ہوں اور 50 فیصد پارلیمنٹ کے تا کہ ایک آزاد کونسل بنائی جاسکے جس میں اگر کوئی شخص جاکر اپنی شکایت درج کروائے تو اس کا فیصلہ کونسل کرے کیونکہ عدالتیں تو فیصلے دے نہیں رہیں، نہ ہی جج مقرر کرتی ہی پرانے "ڈی فیمیشن" ہتک عزت قانون کے تحت، ہم نے اس مسئلے کے حل کے لئے کہا کہ میڈیا ٹریبیونل بنا دیتے ہیں تو اس پر بھی آپ لوگ رضامند نہیں تھے، اب پیکا قانون میں قابل ضمانت گرفتاری کو ناقابل ضمانت گرفتاری کیا ہے تو اس پر جھگڑا شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں وضاحت کی کہ ایسا نہیں ہے کہ بغیر ایف آئی آر کے بغیر پرچے کے کسی کو بھی اٹھا لیں گے، آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ گرفتار کرنے کے بعد 24 گھنٹوں میں ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے تو پیش کرنا ہی ہے، لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی "سیف گارڈ" ڈالنا چاہیئے تو میں آپ کو سپورٹ کرتا ہوں ضرور ڈالیں، کیونکہ 99 فیصد بڑے میڈیا چینلز کا تو یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کے سینئر رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے پیکا آرڈیننس میں ترمیم فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ فواد چوہدری سے اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔ رابطے کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان پیکا قانون سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پر چودھری پرویز الہٰی نے وزیر اطلاعات کو پیکا قانون پر میڈیا کو تحفظات سے آگاہ کیا۔ دوران گفتگو فواد چودھری نے کہا کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر کامل یقین رکھتی ہے، ہم موثر ریگولیشن پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت تنقید کا خیر مقدم کرتی ہے، تنقید کی آڑ میں کسی کی ذات پر حملہ کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی پیکا قانون پر میڈیا اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی کے میڈیا فریقین سے جو بھی معاملات طے ہوں گے، حکومت ان پر عملدرآمد کرے گی۔ خیال رہے کہ پیکا قانون میں ترمیم کے تحت جعلی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر اب ناصرف 5 سال تک کی قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے بلکہ اسے ناقابل ضمانت جرم بھی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو پیکا قانون کی ترمیم شدہ دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا ہے۔ اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کے لیے کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ ترمیم شدہ قانون کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ غلط خبر کسی شخص سے متعلق ہی ہو۔ اگر یہ خبر کسی ادارے، تنظیم یا کمپنی سے متعلق ہے تو بھی اس قانون کے تحت متاثرہ ادارہ یا تنظیم اس شخص کے خلاف کارروائی کی درخواست دے سکتا ہے۔ اور کچھ صورتوں میں تو غلط خبر یا معلومات کے خلاف شکایت کرنے والا کوئی تیسرا فرد بھی ہوسکتا ہے جو اس خبر سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی چوہدری برادران سے ملاقات۔۔ وزیراعظم کی بات پر قہقہے لگتے رہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے چوہدری برادران سے انکی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انکی خیریت دریافت کی۔ نجی چینل جیو نیوز کے مطابق وزیراعظم نے چوہدری شجاعت سے کہا کہ کئی لوگ آپکی صحت پوچھنے کے بہانے آپکے پاس آرہے ہیں جس پر چوہدری شجاعت نے سوال کیا کہ کون لوگ آرہے ہیں؟ آپ کن کی بات کررہے ہیں؟ اس پر وزیراعظم نے کہا کہ آپکو معلوم ہے میں جن کی بات کررہا ہوں، میں شہبازشریف کی بات کررہا ہوں جن کو آپکی 14 سال بعد یادآئی۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی بات پر چوہدری برادران اور وفاقی وزراء نے قہقہہ لگایا اور پرویزالٰہی نے کہا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ آپ مجھ سے اور میں آپ سے جدا نہیں ہوں، چھوٹی موٹی چیزیں چلتی رہتی ہیں، ہم بالکل نہیں گھبرا رہے جس پر ایک بار پھر قہقہے لگ گئے۔ ق لیگ کے ذرائع کے مطابق کہ ملاقات کے دوران تحریکِ عدم اعتماد پر وزیرِ اعظم عمران خان کا چوہدری برادران سے کوئی ڈسکشن نہیں ہوا۔تحریکِ عدم اعتماد کا ذکر نہ تو وزیرِ اعظم عمران خان نے کیا اور نہ ہی چوہدری برادران نے کیا۔ ایک اور نجی چینل سماء نے دعویٰ کیا ہے کہ چوہدری برادران نے وزیراعظم عمران خان کا آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور تحریک عدم اعتماد آنے کی صورت میں ڈٹ کر مقابلہ کرنیکی یقین دہانی کرائی۔ اس موقع پر چوہدری برادران نے مہنگائی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے، اس پر بھی کچھ سوچیں جس پر وزیراعظم نے کہا کہ اسی لئے تو گزشتہ روز عوام کیلئے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
ماہر معاشی امور ڈاکٹر اشفاق حسن نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے اپنے قوم سے خطاب میں جن ریلیف پروگرامز کا ذکر کیا ان کے پیچھے 2 مہینے کی محنت ہے ایسا نہیں کہ اٹھے اور تقریر کر دی۔ ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ متعدد بار میکرو اکانومی ایڈوائزری گروپ کی میٹنگز بلائی گئیں جہاں ان معاملات پر باقاعدہ ڈیبیٹ کی گئی اور پوری قوم کیلئے ایک طرح سے ریلیف پیکج دیا گیا ہے۔ ماہر معاشی امور نے کہا کہ صرف پٹرول اور بجلی کی قیمتیں ہی کم نہیں ہوئیں بلکہ اس کے علاوہ کامیاب جوان پروگرام کے تحت اسکالر شپس، وظائف، خواتین کو دی جانے والی امداد میں اضافہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ آئی ٹی سیکٹر کو مراعات دی گئی ہیں۔ اشفاق حسن نے مزید کہا کہ اس ریلیف پیکج سے آئی ایم ایف کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ بجٹ کا خسارہ اتنا ہونا چاہیے اس سے زیادہ نہیں، اس لیے اگر حکومت اپنے اس ہدف کو حاصل کر رہی ہے تو اس سے زیادہ جتنے چاہے عوام کی فلاح کیلئے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ماہر معاشی امور نے کہا کہ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ اتنا پیسا کہاں سے آئے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ احساس پروگرام کیلئے بہت بڑی رقم رکھی گئی تھی اب اس میں پیسے بچ گئے ہیں جنہیں یہاں استعمال کیا جائے گا اس کے علاوہ کورونا وبا کیلئے ملنے والے اربوں ڈالرز میں سے بچنے والے پیسوں کو یہاں استعمال کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے 268 ارب روپے کے ٹیکسز جمع کیے ہیں جو کہ ان کے مطلوبہ ہدف سے بھی زیادہ ہے لہٰذا اب اس پیسے کو بھی یہاں استعمال کر کے عوام کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دیناہے یا خلاف جانا ہے۔ چوہدری صاحب مشاورت کررہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور چوہدری برادران کی ملاقات میں تحریک عدم اعتماد پر کوئی بات ہوئی اور نہ ہی حمایت کا کوئی بیان دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چوہدری صاحب نے کہا کہ روز کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، چوہدری صاحب کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جو فیصلہ کریں گے پارٹی قبول کرے گی۔ طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ البتہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں اپوزیشن کی مزاحمت بارے گفتگو ضرور ہوئی، وزیراعظم عمران خان نے ذکر کیا کہ اپوزیشن آج کل آپ کے گھر کے چکر لگا رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان کی چوہدری برادران سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سمیت دیگر اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا ذرائع کاکہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنی حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق سے مشکل وقت میں ساتھ نہ چھوڑنے کی درخواست کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران نے ڈٹ کر وزیر اعظم کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنے کا اعلان کر دیا، چوہدری برادران نے وزیراعظم سے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ سیاست کریں گے، عدم اعتماد کی باتیں افسانہ ہیں۔ چوہدری برادران کا کہنا تھا کہ 14 سال بعد شہباز شریف کو ہمارا خیال آگیا، شہباز شریف کو بتا دیا تھا عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو عمران خان پہاڑ ہیں ہم دب جائیں گے، ایسی چال کا کیا فائدہ جس کی کامیابی کا کوئی چانس ہی نہ ہو۔
پاکستان کے معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان پرتحریک عدم اعتماد کا پریشر ہے، مہنگائی کا پریشر ہے اور اگر اب بھی وہ عوام کو ریلیف نہ دیتے تو یہ مہنگائی ان کو کھا جاتی۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "رپورٹ کارڈ" میں وزیراعظم کی جانب سے عوام کو دیئے گئے حالیہ ریلیف پر بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یقینا عزیراعظم عمران خان پر پریشر ہے اور انہوں نے اس سے ڈرتے ہوئے ہی عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا، اس کا عوام کو فائدہ ضرور ہے کیونکہ پیٹرول عوام استعمال کرتی ہے، بجلی عوام نے استعمال کرنی ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم ہر روز اس پر بات کرتے ہیں کہ ریلیف دیا جانا چاہیئے اور وزیراعظم کے اس مشکل وقت میں لوگوں کو ریلیف دیا ہے تو یہ بات خوش آئند ہے، اس کے باوجود سیاسی حالات صرف ایک پہلو پر کام کرنے سے ٹھیک نہیں ہوتے، اور بہت سے معاملات ٹھیک کرنے پڑتے ہیں، بلاشبہ ان پر تحریک عدم اعتماد کا، لانگ مارچ کا پریشر ہے، مہنگائی کا پریشر ہے، ان سے ڈرتے ہوئے ہی وزیراعظم نے ریلیف کا اعلان کیا، سینئر صحافی نےملکی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دیکھنا اب یہ ہے کہ اتحادی جماعتیں حکومت کے ساتھ رہتی ہیں یا نہیں، اور کیا پی ٹی آئی کے اندر ہی دھڑے بننا شروع ہو جائیں گے، اگر پی ٹی آئی کے اندر عام بغاوت نہیں ہوئی اور اتحادی پارٹیاں حکومت کے ساتھ رہیں تو تحریک عدم اعتماد صرف اپوزیشن تک محدود رہ جائے گا۔ دوسرے جانب معروف صحافی اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ اپوزیشن کی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ چاہتی کیا ہے، اپوزیشن کا کہنا تھا کہ مہنگائی ہے، بےروزگاری ہے، غربت ہے، وزیراعظم نے عوام کو سہولت دینے کے لئے پیکج کا اعلان کر دیا تو اپوزیشن کہتی ہے کہ مذاق ہو رہا ہے، اپوزیشن کے پاس کوئی حل ہے مہنگائی کا، پونے چار سالوں میں تو اپوزیشن کی جانب سے کوئی حل پیش نہ کیا جاسکا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پارٹیا ں ملیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ ملیں تو جمہوریت کے لئے ٹھیک ہے، مولانا اچکزئی اے این پی ملیں تو جمہوریت کے لئےبہتر ہے، اپوزیشن ق لیگ کے گھر پہنچ جائے تو جمہوریت کے لئے مفید ہے، اپوزیشن ایم کیو ایم سے رابطے استوار کرے تو جمہوریت کے لئے فائدہ مند ہے۔ مزید انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے بقول ان کے عمران خان صاحب کے "اے ٹی ایم" اور چینی چور یعنی جہانگیر خان ترین سے خفیہ ملاقاتیں کرے یو اب ان کی خیریت دریافت کرنے کے لئے پھولوں کے گلدستے بھیجے تو جمہوریت کے حسن میں مزید اضافہ ہو گا، حالانکہ پہلی مرتبہ جب جہانگیر خان ترین لندن گئے تھے تو اپوزیشن نے ہی کہا تھا کہ عمران خان نے اپنی اے ٹی ایم کو بھگا دیا، اب اگر عمران خان صاحب اپنے اتحادیوں سے رابطے کر رہے ہیں تو یہ مذاق ہے اور جمہوریت کی بہتری نہیں ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے گزشتہ روز کے خطاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کل پہلی بار وزیراعظم کا انداز "دفاعی" تھا، اس بار ان کا جوش ہمیشہ جیسا نہیں تھا، ان کی تقریر سے لگ رہا تھا جیسے الیکشن کی تقریر ہے، اور مسائل بتا کر عام کے سامنے اپنا کیس پیش کرہے تھے، بلاشبہ عوام کو دیئے جانے والا ریلیف لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد کے پریشر کا نتیجہ ہے، سیاسی دباو بھی ہے، الیکشن کی تیاری بھی ہے۔ ارشاد بھٹی نے مزید کہا کہ اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا وزیراعظم نے یہ ریلیف دینے میں دیر تو نہیں کر دی، کیا یہ حکومت بچانے کی کوشش تو نہیں ہے، یہ پیسہ آئیگا کہاں سے، مزید نوٹ چھاپیں گے، قرضہ اور لیں گے، یا ترقیاتی فنڈز اور ادھر ادھر سے پیسے نکالیں گے، کیونکہ یہ بہت بڑا ریلیف ہے، پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں کمی، بجلی کی قیمت میں کمی، قیمتیں آئندہ بجٹ تک نہیں بڑھیں گی۔ سینئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے تحت وظیفے کو 12 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار کرنا، بے روزگار گریجوایٹس کے لئے 30 ہزار کی انٹرن شپس، 26 لاکھ سکالر زشپس ، کسانوں کے لئے پیکج، اوورسیزپاکستانیوں کو سرمایہ کاری پر 5 سال کی ٹیکس چھوٹ، انڈسٹریل پیکج اور ایمنسٹی اسکیم، حالانکہ وزیر اعظم ایمنسٹی اسکیم کے سخت خلاف تھے، یہ وہی وزیراعظم ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ہم سبسڈیز نہیں دے سکتے، کوئی ریلیف نہیں دےسکتے، آئی ایم ایف کا پریشر تھاپھر بھی انہوں نے ریلیف کا اعلان کردیا۔ ریلیف پیکج کے ثمرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب چونکہ ملک نے بہت سارے قرضے لے رکھے ہیں قرضے بھی ایسے کہ ایئر پورٹس اور موٹرویز کو گروی رکھا ہوا ہے ، ان پر سود دینا بھی مشکل ہوا پڑا ہے، اوپر سے 18ویں ترمیم کہ ثمرات ہیں کہ وفاق شروع ہی خسارے سے کرتا ہے، اوپر سے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی، کرپشن اور ایرپشن، بدانتظامی، سیاسی اور اقتصادی بحران، ان سب کے بیچ میں یہ اچھا پیکج ہے، بہت بڑا ریلیف ہے، اس سے بہت سہولت ملے گی، رہی بات عدم اعتماد کی تو ابھی تک اپوزیشن کے پاس ابھی تحریک عدم اعتماد کے لئے نمبر پورے نہیں ہیں۔
حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ملاقات میں کن امور پر تبادلہ خیال ہوا،اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات لاہور میں ہوئی،جس میں سراج الحق کے ہمراہ لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید پراچہ بھی موجود تھے،ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی، اس موقع پر چوہدری پرویز الہٰی موجود نہیں تھے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری شجاعت نے سراج الحق سے پوچھا کہ تحریک عدم اعتماد میں آپ کسے ووٹ دیں گے؟جس پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ نئے الیکشن ہی عوامی مسائل کا واحدحل ہیں تاہم وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ چوہدری شجاعت نےسراج الحق کو بتایا کہ انہوں نےشہباز شریف سے 3 سوال پوچھے ہیں ،ان کے جواب کا انتظار ہے،چوہدری شجاعت نےسراج الحق سے یہ بھی کہاکہ افغانستان اور فلسطین کے حوالےسے آپ کو قیادت کرنی چاہیے،یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی سراج الحق کی آمد سے پہلےہی پنجاب اسمبلی روانہ ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے وفد کی چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ آمد کے موقع پر سالک حسین ایم این اے اور شافع حسین نے ان کا بھرپور استقبال کیا،امیرسراج الحق اور وفد کے اراکین نے چوہدری شجاعت سے ان کی خیریت دریافت کی، ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ملکی کی موجودہ سیاسی صورتحال سمیت دیگر باہمی دلچسپی کے امور خصوصاً بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تبادلہ خیال بھی کیا،چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ سیاست تو ہوتی رہتی ہے لیکن سیاست دان غریبوں کا خیال کریں، مہنگائی حد سے بڑھ گئی ہے، عوام کو مزید نہ آزمایا جائے، مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے تمام جماعتیں ایک جامع پلان بنائیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ پاکستانی عوام کو بیدار کرنے کے لیے101دھرنوں کا پروگرام شروع کر رکھا ہے،اس سے قبل بھی ن لیگی رہنما شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کرکے ان کی خیریت دریافت کی اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی کیلئے تعاون کی درخواست کی تھی۔ ملاقات میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی خبروں کا بھی تذکرہ ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں چوہدری شجاعت نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دونوں نہیں چاہتے کہ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنیں، دونوں جماعتوں کو خدشہ ہے کہ ہمارے جو لوگ ان جماعتوں میں گئے ہیں وہ واپس ق لیگ میں نہ آجائیں۔ چوہدری شجاعت نے کہا کہ دونوں جماعتوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ق لیگ دوبارہ سے بہت مضبوط نہ ہوجائے، لیکن اگر معاملہ طے ہو تو شیروانی تیار ہونے میں کونسا وقت لگتا ہے۔
لگتا ہے ایمپائر کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ کون ایماندار منتخب ہوتا ہے یا چور، ظفر ہلالی سینئر تجزیہ کار ظفر ہلالی نے کہا ہے کہ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اب ایمپائر کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ کون منتخب ہوتا ہے، ایماندار یا کرپٹ، اور کس طریقے سے منتخب ہوتا ہے ووٹ سے یا پیسوں سے، یا ہارس ٹریڈنگ کرکے کامیاب ہو ، کسی کو کچھ پرواہ نہیں ہے۔ جی این این کے پروگرام " ویو پوائنٹ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ظفر ہلالی نے کہا کہ ہماری بیچاری قوم خصوصا جو کم پڑھے لکھے لوگ ہیں انہیں یہ یقین دلادیا گیا ہے کہ مہنگائی عمران خان کی وجہ سے بڑھ ہے، اور یہ عمران خان کا ہی قصور ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری قوم کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ عمران خان چور نہیں ہے مگر نااہل ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے ، عمران خان کی حکومت جتنی بھی اہل ہوتی یہ 3 سے 4 فیصد کی مہنگائی کو کم کرسکتے تھے اس سے زیادہ کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ظفر ہلالی نے عدالتی نظام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہماری عدالتوں نے آج تک کسی بھی ایک کرپٹ سیاستدان کو نہیں پکڑا ہے، یہاں اوپن اینڈ شٹ کیسز ختم ہوجاتے ہیں، یہاں 16 واقعات ایسے ہوئے ہیں جن میں شواہد تباہ کردیئے گئے اور جلادیئے گئے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کراچی سے شروع ہونے والے پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ میں فائر بریگیڈ کے ٹرک اور پولیس موبائلز استعمال ہورہی ہیں، کوئی بتائے گا اس مارچ کے انتظامات کیلئے کتنے فنڈز مختص کیے گئے ہیں، میرے نزدیک یہ ایک بہت برا آغاز ہے، حالانکہ ایسے لانگ مارچز کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ساری صورتحال میں مسلم لیگ ق بہت ہی مشکوک انداز سے برتاؤ کررہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک کشتی سے دوسری میں چھلانگ لگانا چاہتے ہیں،بیٹا ملاقات کرتا ہے تو ایک بات کرتا ہے، والد ملتے ہیں کسی سے تو دوسری بات کرتے ہیں، اگر انہوں نے اپوزیشن کی حمایت نہیں کرنی تو صاف جواب دینے میں کتنی دیر لگتی ہے؟10 سے 20 منٹ میں آپ واضح موقف دے سکتے ہیں مگر یہاں تو دن گزر گئے مگر دھند چھٹنے میں ہی نہیں آرہی کہ ق لیگ چاہتی کیا ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے ناراض سینئرر ہنما جہانگیر خان ترین کے درمیان رابطے کی خبریں سامنے آئیں، ان خبروں میں کس حد تک صداقت ہے؟ خبررساں ادارے ڈان نیوز کی نشر کردہ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے مبینہ طور پراپوزیشن اتحاد کی تحریک عدم اعتماد کے باعث مجبورا جہانگیر ترین سے رابطہ کیا، اس رابطے کا مقصد پرانے رہنماؤں کو اپوزیشن کے ساتھ مل کر عدم اعتماد پر حمایت نہ کرنے سے روکنا تھا۔ ایک اور ادارے 24 نیوز نے بھی یہ دعویٰ کیا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سے متعلق کسی بڑے ٹاک شو یا چینل پر اس کا ذکر نہیں ہوا۔یہاں تک کہ جہانگیرترین سمیت اسکے ترجمان نے بھی اس کی تصدیق یا تردید نہیں کیا؟ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ خبر غیرتصدیق شدہ ہے اور تاحال اس خبر کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ اگر خبر تصدیق شدہ ہوتی تو مختلف ٹاک شوز میں اسکا لازمی تذکرہ ہوتا ہے اور اس خبر پر سب سے زیادہ تبصرہ ن لیگ اورانکے حامیوں کی طرف سے ہوتا جو یہ کہتے پائے جاتے کہ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کیلئے جہانگیرترین سے بھی رابطہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے جب ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس خبر کی تصدیق و تردید نہیں کرسکتا۔ جو خبریں سامنے آئیں ان میں دعویٰ کیا گیا کہ علاج کی غرض سے لندن روانہ ہونے سے قبل جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا، ٹیلی فون وزیراعظم عمران خان نے کیا او رجہانگیر ترین سے ان کی خیریت دریافت کی۔ اسی حوالے سے ایک بیان وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے دو روز قبل سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعظم عمران خان سے اپنے پرانے دوست سے رابطہ کرنے کی درخواست کی ہے مگر پی ٹی آئی کے کچھ اراکین اس خیال سے متفق نظر نہیں آتے۔ انہوں نے اپنی اس تجویز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور ق لیگ جیسے سخت سیاسی مخالفین اگر سیاسی مقصد کیلئے 14 سال بعد مل سکتے ہیں تو وزیراعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کیوں نہیں مل سکتے؟ واضح رہے کہ یہ ساری خبریں اس وقت سامنے آرہی ہیں جب اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کررہی ہیں، اپنی تحریک کامیاب بنانے اور نمبر گیم پورا کرنے کیلئے اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اتحادی اور ناراض اراکین کے ساتھ زور وشور سے رابطے کیے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جہانگیر ترین کا علاج کی غرض سے لندن جانا جہاں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف پہلے سے موجود ہیں ان دونوں کے درمیان ملاقات یا رابطے کے امکانات کو روشن کرتا ہے جس سے حکومت کیلئے یقینی طور پر پریشانی بڑھ سکتی ہے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ پارلیمانی روایات کو پامال نہیں ہونے دیں گے، عوام نے حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے۔ دنیا نیوز کے مطابق چیئرمین سینیٹر صادق سنجرانی نے وفد کے ہمراہ سابق ڈپٹی وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سینیٹر دلاور خان، سینیٹر کہدہ بابر، سینیٹر نصیب اللہ خان بازئی، سینیٹر پرنس احمد عمر احمد زئی، سینیٹر احمد خان، سینیٹر محمد عبدالقادر، صوبائی وزیر نور محمد، سینیٹر کامل علی آغا شاہ ذل اور سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی بھی موجود تھے۔ تفصیلات کے مطابق ملاقات کے دوران چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور وفد کے ارکان نے چودھری شجاعت حسین کی طبیعت سے متعلق دریافت کیا اور صحتیابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ملاقات کے دوران ملکی سیاسی صورتحال، بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی نے اپوزیشن سے ہونے والی حالیہ ملاقاتوں سے متعلق کہا کہ پارلیمانی روایات کو پامال نہیں ہونے دیں گے، عوام نے حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشاورت کا عمل اور ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں جو سیاسی عمل کا حصہ ہیں، فیصلہ سوچ سمجھ کر پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد ہو گا۔ چودھری پرویز الہٰی نے یہ بھی کہا کہ ہر جمہوری حکومت کا حق ہے اسے عوامی خدمت کیلئے دیا گیا عرصہ مکمل کرنے دیا جائے، الیکشن مقررہ وقت پر ہی اچھے لگتے ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال میں ملکی مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے، ملک میں روز بروز بدلتی سیاسی آب و ہوا پر پوری نظر ہے۔ انہوں نےمہنگائی اور موجودہ مشکل معاشی حالات سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عوام کو فوری ریلیف دینے کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں۔ جب کہ چیئر مین سینیٹ نے کہا کہ چودھری شجاعت حسین منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، ان کی حالات پر گہری نظر ہے، امید ہے موجودہ حالات میں کوئی راستہ تلاش کر لیں گے۔
اپوزیشن کی وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوششیں دم توڑنے لگی ہیں۔نجی چینل کا دعویٰ نجی چینل اے آروائی نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن کی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوششیں دم توڑنے لگی ہیں۔اپوزیشن مختلف سیاسی جماعتوں سے مل رہی ہے لیکن اسے مکمل کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ نجی چینل کے ذرائع کے مطابق متحدہ اپوزیشن کو مسلم لیگ ق کے بعد جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے بھی مایوسی کا سامنا ہے کیونکہ جہانگیر ترین کی جانب سے اپوزیشن کو عدم اعتماد پر کوئی واضح جواب نہیں آیا ترین گروپ نے فوری طور پر اپوزیشن کو کسی قسم کی یاد دہانی کرانے سے معذرت کرلی تھی اور "دیکھو اور انتظار کرو” کی پالیسی پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہانگیرترین سے واضح جواب نہ ملنے کے بعد اپوزیشن نے مختلف راکین اسمبلی سے رابطے شروع کردئیے ہیں جبکہ کچھ روز قبل اپوزیشن تحریک انصاف کے 24 اراکین کا ساتھ ہونے کا دعویٰ بھی کرچکی ہے۔ ترین گروپ میں شامل اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کے بعد نااہل نہ ہوجائیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنماٹی وی چینلز پر بیٹھ کر متضاد دعوے کررہے ہیں، کوئی 22 اراکین کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کررہا ہے تو کوئی 25 اور کسی کا دعویٰ ہے کہ 50 فیصد حکومتی اراکین اپوزیشن کاساتھ دیں گے، اپوزیشن کے متضاد دعوؤں کو بھی شک کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ مسلم لیگ ن تحریک عدم اعتماد کے علاوہ دیگر آپشنز پر بھی غور کررہی ہے جن میں تحریک انصاف کے ایم این ایز سے استعفے دلواکر عمران خان کی سادہ اکثریت ختم کرواکر انہیں ووٹ لینے پر مجبور کرنا ہے لیکن اس میں بھی کئی قانونی موشگافیاں ہیں ۔بعض ماہرین قانون کے مطابق اس سے بھی عمران خان حکومت قائم رہے گی اور یہ عمران خان کی صوابدید ہے کہ وہ ووٹ لیتے ہیں یا نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں کنفیوژن اور ڈیڈلاک بھی تحریک عدم اعتماد کی تاخیر کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی فوری انتخاب نہیں چاہتی اور اسمبلیوں کی مدت پوری چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن فوری انتخابات کے حق میں ہے۔ دوسری جانب 2 فاقی وزراء نے دعویٰ کیا ہے کہ جہانگیرترین ہمارے ہیں اور وہ حکومت گرانے کیلئے اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیں گے جبکہ 2 وزراء کی جہانگیرترین سے رابطے کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ واضح رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ‘ تحریک عدم اعتماد’ لانے کا اعلان کیا جاچکا ہے، جس کے باعث اپوزیشن نے جہانگیر ترین سے بھی رابطہ کیا ہے اسکے علاوہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی ایم کیوایم سے بھی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔
حکومتی اتحادی جماعت ایم کیوایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد میں بارڈر لائن پر کھڑے ہیں اور کسی بھی وقت بھی یہ لائن کراس ہو سکتی ہے ان کا مزید کہنا تھا یہ بارڈر لائن ہم کراس نہیں کریں گے، تحریک انصاف کرے گی۔ اگر تحریک انصاف کچھ ایسا کرتی ہے جس کے بعد ہمارا تحریک انصاف کیساتھ رہنے جواز نہیں بنتا۔ خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ اگر تحریک انصاف ایسا نہیں کرتی تو ہم ساتھ رہیں گے، ہم نے دھوکہ دینے کی قسم نہیں کھارکھی۔ہماری وجہ سے حکومت نہیں بچی، جمہوریت نہیں بچی۔ خالد مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وزیراعظم اسمبلیاں برخواست کر کے انتخابات کا اعلان کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات اس سے زیادہ مشکل ہیں جتنا ہم بات کر سکتے ہیں۔۔ تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن سنجیدگی سے آئے گی تو بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔ ایم کیوایم رہنما کا کہنا تھا کہ نائن زیرو سے متعلق ہمارا تحریک انصاف کیساتھ ایم او یو سائن ہوا تھا، آفس ہمارا ایشو نہیں، ہم نے آفس کے بغیر جینا سیکھ لیا ہے، ہمارا ایشو یہ تھا کہ ہمیں گنا نہیں تھا۔ کراچی میں ہم نے 8 لاکھ ووٹ لئے اور تحریک انصاف نے ایک لاکھ زیادہ مگر سیٹیں تحریک انصاف کی زیادہ تھیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف نے پنجا ب میں عدم اعتماد کے بعد چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیراعلی پنجاب بنانے کی تجویز دیدی ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر راضی نہیں ہے، ن لیگ کو خدشہ ہے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی صورت میں پرویز الٰہی ن لیگ کو نقصان پہنچاسکتے ہیں کیونکہ ن لیگ کئی ارکان ایسے ہیں جو ماضی میں مسلم لیگ ق کا حصہ رہے ہیں اور انکے پرویزالٰہی سے آج بھی تعلقات ہیں۔ خبررساں ادارے جنگ کی نشر کردہ رپورٹ کے مطابق جے یو آئی ف اور پیپلزپارٹی نے یہ تجویز دے کر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ کو اس حوالے سے قائل کرنے کی کوشش بھی کی۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے دی گئی تجویز بھی کہا گیا ہے کہ پنجاب میں ق لیگ کو وزارت اعلی کا عہدہ دینے کے بدلے میں وفاق میں ق لیگ اپوزیشن کا ساتھ دے گی، ن لیگ نے اس تجویز کے حوالے سے پارٹی قائد میاں نواز شریف کو حتمی فیصلے کا اختیار دیدیا ہے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جمیعت علمائے اسلام کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات اور اس تجویز پر مشاورت کے بعد مولانا فضل الرحمان چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر پہنچے جہاں انہوں نے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ کو اس ساری صورتحال پر اعتماد میں لیا اور دیگر آپشنز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ واضح رہے کہ اس وقت اپوزیشن کی تمام جماعتیں سر جوڑ کر حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے عدم اعتماد کی تحریک لانے کیلئے کوششیں کررہی ہیں ، اس حوالے سے ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پنجاب اور وفاق میں حکومتوں کے قیام پر مشاورت جاری ہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد پرویز الہیٰ کو وزارت اعلی اور وفاق میں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی تجویز دے رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے عدم اعتماد کے فورا بعد ملک میں کیئر ٹیکر سیٹ قائم کرکے عام انتخابات کروانے اور نئی حکومت کی تشکیل پر زور دیا جارہا ہے ۔
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کیلئے قومی اسمبلی ہال دستیاب نہیں ، ہال اور لابیز میں تزئین وآرائش کا کام جاری نجی چینل کے مطابق قومی اسمبلی کا سیشن کرانے کیلئے قومی اسمبلی کا ہال فوری طور پر دستیاب نہیں ہے کیونکہ قومی اسمبلی کے ہال اور لابیز میں تزئین وآرائش کا کام جاری ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کیخلاف جلد ہی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک نہیں لا پائیں گی قومی اسمبلی ہال میں 23؍ مارچ کو او آئی سی کا اجلاس ہوگا۔ ہال پر کام کچھ روز قبل شروع ہوا تھا اور رواں ماہ میں مکمل نہیں ہو سکتا جس کا مطلب ہے ک اپوزیشن رواں ماہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کرپائے گی۔ اس پر صحافی نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا ہال کسی بھی سیشن کیلئے دستیاب نہیں ہوگا۔ آفیشلز کے مطابق یہ اوآئی سی اجلاس کیلئے تیار کیا جارہا ہے۔ نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی ہال 16 مارچ سے پہلے دستیاب نہیں ہوگا اور اسکا کنٹرول وزارت خارجہ کو دیا جائے گا، اسلئے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا۔نسیم زہرہ نے اسے ایک حکومت کا پلان قرار دیا۔ انصارعباسی کے مطابق جب اسپیکر قومی اسمبلی سےرابطہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے متعلقہ حکام کوہدایت کی ہے کہ 5 مارچ تک کام مکمل کرلیں۔ اسپیکر اسد قیصر کے مطابق قومی اسمبلی ہال کو او آئی سی کے آئندہ اجلاس کیلئے تیار کیا جا رہا ہے جو 23؍ مارچ کو منعقد ہوگا۔ یہ پاکستان کیلئے ایک شاندار موقع ہوگا۔ انصارعباسی کے مطابق جب اُن سے پوچھا گیا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں آئندہ دنوں میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں تو کیا ہوگا تو اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ وہ سیکریٹریٹ سے پوچھیں گے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ قومی اسمبلی اور اس کی لابیوں کی عدم دستیابی کی صورت میں کہیں اور سیشن منقعد کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
گزشتہ روز وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ بلاول ہاؤس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی اہم بیٹھک ہوئی مگر حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حکمتِ عملی پر متفق نہ ہوسکیں۔ نجی چینل کے مطابق حکومت کے خلاف داؤ پیچ لڑانے والی اپوزیشن کی کہانی میں نیا ٹوئسٹ آگیا اور اپوزیشن نے تحریک انصاف کے ناراض اراکین کے استعفوں سے امیدیں لگالیں۔ گزشتہ روز ہونیوالے اجلاس میں ن لیگ نے حکومت کے ارکان کے مستعفی ہونے کی تجویز دی ۔ ن لیگ نے موقف اپنایا کہ بجائے اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لائے ، ہم تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے دلوادیں تو عمران خان سادہ اکثریت کھو بیٹھیں گے اور ہم وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔پیپلزپارٹی کا موقف تھا کہ اپوزیشن کی ساکھ داؤ پر لگی ہے، ہمیں سوچ سمجھ کر قدم پھونکنا ہوں گے۔ پیپلزپارٹی نے موقف اپنایا کہ ہمیں وزیراعظم سے پہلے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہئے، پی پی کا کہنا تھا کہ اسپیکر کو ہٹائے بغیر تحریک عدم اعتمادلائی گئی تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پی پی کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کا معاملہ ہوا تو پھر بھی اسپیکر اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اسلئے سب سے پہلے اسپیکر کو ہٹانا ضروری ہے۔ اس پر مسلم لیگ نے پیپلزپارٹی کی تجویز پی ڈی ایم کے سربراہ کے سامنے رکھنے کی یقین دہانی کرادی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کئی رہنماؤں کی عدم موجودگی کے باعث مشاورت مکمل نہ ہو سکی
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے درمیان لاہور میں بلاول ہاؤس میں ملاقات ہوئی، ملاقات میں حکومت کے خلاف عد م اعتماد سمیت اہم سیاسی امور پر گفتگو کی گئی۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی سربراہی میں ن لیگ کی سربراہی میں ن لیگی وفد لاہور بلاول ہاؤس پہنچا جہاں سابق صدر آصف علی زرداری نے دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔ دونوں جماعتوں اور جمعیت علمائے اسلام کے چند رہنماؤں کی موجودگی میں ہونے والی اس ملاقات میں عدم اعتماد اورحکومت کو گھر بھیجنے کی حکمت عملی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ۔ اعلامیہ کے مطابق ملاقات کے دوران عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق فیصلہ کن اور اہم ترین مشاورت کی گئی، معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے آج کی ملاقات میں مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور شہباز شریف کی ایک مشترکہ ملاقات بھی طے کرلی گئی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق پی ڈی ایم سربراہ اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان یہ ملاقات کل دوپہر شہبازشریف کی رہائش گاہ پر منعقد کی جائے گی۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات کے دوران کہا گیا کہ اس وقت مہنگائی کی آگ عوام کے گھروں کو جلا رہی ہے، عوام کو اس ظلم سے بچانے کیلئے حکومت کو گھر بھیجنا ہوگا، عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے تندہی سے کام کرتے ہوئے نتائج دیں گے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ آمریت اور فسطائیت کو پیکا ترمیمی آرڈیننس بنادیا گیا ہے، ہم اظہار رائے کی آزادی چھیننے اور میڈیا پر پابندیاں لگانے والی اس حکومت سے اقتدار چھین لیں گے، ملک میں بدامنی اور لاقانونیت کی صورتحال باعث تشویش ہے، موجودہ حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت اور بنیادی ضروریات پورا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

Back
Top