سیاسی

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی میں اکثریت بڑھانے کی کوششوں کا پلٹ وار کرتے ہوئے ن لیگ کی 6 وکٹیں اڑا دی ہیں۔ خبررساں ادارے ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں وزیراعظم عمران خان سے ن لیگ کے 6 اراکین اسمبلی نے ملاقات کی اور عدم اعتماد کے معاملے پر وزیراعظم کی حمایت کا اعلان کردیا۔ رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کیلئے معاملات کو حتمی شکل دینے کے مرحلے کے آتے ہی وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی چالیں چلنا شروع کردی ہیں، وزیراعظم اسی لیے آج لاہور پہنچے جہاں انہوں نے اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی اور رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم عمران خان نے لاہور دورے کے دوران اپوزیشن پر مضبوط پلٹ وار کرتے ہوئے ن لیگ کے 6 اراکین کی حمایت حاصل کی۔ ان ارکان میں جلیل شرقپوری، اشرف انصاری، فیصل نیازی،مولانا غیاث الدین، اظہر عباس چانڈیہ شامل تھے۔ اس خبر کی تصدیق ٹویٹر پر وزیراعظم آفس کے آفیشل ہینڈل سے بھی سامنے آگئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ن لیگ کے 6 اراکین نے وزیراعظم کو نہ صرف اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی بلکہ مزید لوگوں کی حمایت کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ملاقات کے موقع پروزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن عدم اعتماد پر ووٹنگ پر میرے خلاف 172 اراکین لے آتی ہے تو مجھ سے کمزور وزیراعظم کوئی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اراکین اسمبلی کو اسلام آباد پر نظریں مرکوز رکھنے کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں۔
اینکر پرسن اور سینئر صحافی کامران شاہد نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد نیازی سے معذرت کر تے ہوئے امجد نیازی کی وزیراعظم عمران خان کے لئے حمایت کی توثیق کر دی۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی کامران شاہد نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ان کی حال ہی میں پی ٹی آئی کے ایم این اے امجد نیازی سے بات ہوئی ہے، انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنی وفاداری کی تبدیلی کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کی سختی سے تردید کردی۔ کامران شاہد کا کہنا تھا کہ گفتگو کے دوران امجد نیازی نے وزیراعظم کی غیر مشروط حمایت کی توثیق کردی۔ علاوہ ازیں اینکر پرسن کامران شاہد نے گزشتہ رات کے پروگرام میں مبینہ پر وزیراعظم کو چھوڑنے والے ایم این اے کی فہرست میں مجد نیازی کا نام درج کرنے پر بھی معذرت کر لی۔ واضح رہے کہ منگل کے روز حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرواتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے ’دن گنے جا چکے ہیں‘ اور ’ان کے اپنے لوگ ان سے بیزار ہیں۔‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی سمیت 86 اراکین کے دستخط ہیں، تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے اسٹاف نے وصول کی،۔ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کروائی گئی۔ قواعد کے مطابق اسپیکر تحریکِ عدم اعتماد پر کم از کم 3 دن کے بعد اور 7 دن سے پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔
تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین گروپ میں شامل چار صوبائی وزراء کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے معاملے پر پھوٹ پڑگئی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین گروپ میں شامل چار صوبائی وزراء نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات اور ہم خیال گروپ سے علیحدگی کا اعلان کیا دوسری جانب ترین گروپ نے ان ارکان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے سیاسی طور پر متحرک ہوچکے ہیں اور آج لاہور میں مقیم ہیں، اس دورے کے دوران وزیراعظم نے وزیراعلی عثمان بزدار ، گورنر پنجاب چوہدری محمد سروس اور اراکین اسمبلی سے ملاقات کی ، اس دوران وزیراعظم کو پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکین اور اتحادیوں کی حمایت کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا ایک اجلاس طلب کیا ہے، تاہم ترین گروپ نے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم سے ملاقات سے انکار کردیا ہے۔ ان ارکان نے موقف اختیار کیا کہ عثمان بزدار کی موجودگی میں ایسے کسی بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے ، عثمان بزدار بطور وزیراعلی پنجاب منظور نہیں ہیں۔ اس معاملے میں اہم پیش رفت یہ سامنے آئی تھی جس میں ترین گروپ میں شامل پنجاب کے چار صوبائی وزراء نے بائیکاٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے وزیراعظم کا ساتھ دینے اور ملاقا ت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان وزراء میں وزیر بہبود آبادی کرنل (ر) ہاشم ڈوگر، صوبائی وزیر صمصام بخاری، صوبائی وزیر آصف نکئی اور صوبائی وزیر خالد محمود شامل ہیں۔ وزراء کی جانب سے وزیراعظم سے ملاقات کے اعلان کے بعد جہانگیر ترین گروپ نے ان وزراء سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آصف نکئی اور اختر ملک نے دور وز قبل ملاقات کی تھی مگر وہ کبھی ترین گروپ کا حصہ نہیں رہے، دیگر وزراء بھی ہم خیال گروپ کا حصہ نہیں ہیں، ترین گروپ نے وزیراعظم سے نہ ملنے کا فیصلہ جہانگیر ترین کی ہدایات پر کیا۔
حکومت کے خلاف متحرک اپوزیشن نے عدم اعتماد اور اس کے بعد کے معاملات کے حوالے سے مزید اہم فیصلے کرلیے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج کر متوقع نئے نظام کے حوالے سے مزید فیصلے کرلیے ہیں، ان فیصلوں میں حکومتی اتحادی جماعت ق لیگ کو بھی اپوزیشن کے ساتھ ملانے کا فارمولا طے کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اپوزیشن نے ق لیگ کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت سمیت چاروں صوبوں کے گورنرز کو بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ق لیگ کی حمایت کے بدلے میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد نہیں لائی جائے گی، نئے متوقع نظام میں ق لیگ کو وہی حصہ دیا جائے گا جو موجودہ نظام میں اس کے پاس ہے۔ اسی طرح اگر ایم کیو ایم اپوزیشن کے ساتھ چلتی ہے تو اسے سندھ حکومت اور وفاق میں حصہ دیا جائے گا، باپ کو ساتھ چلنے پر بلوچستان اسمبلی اور وفاق کی حکومت میں ساتھ ملایا جائے گا، بلوچستان میں متوقع حکومت سے متعلق فیصلہ مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل کریں گے۔ اس سے قبل متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے فورا بعد صد ر مملکت عارف علوی کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا فیصلہ بھی کیا ہے، عارف علوی کو ہٹا کر نئے صدر کے چناؤ کیلئے مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری پر مشتمل کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی زبان ایک بار پھر سے لڑکھڑا گئی جوش خطابت میں وہ کہنا کچھ اور چاہتے تھے مگر کہہ کچھ اور بیٹھے اور اس پر اپنا مذاق بنوا بیٹھے۔ لانگ مارچ کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے حکومت سے متعلق کہنا تھا کہ ٹانگیں کانپ رہی ہیں مگر کہہ دیا کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔ خطاب کے دوران اس غلطی کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر میمز اور تبصروں کی سونامی آ گئی اور کانپیں ٹانگ رہی ہیں پر صرف ٹوئٹس کرنے والے صارفین کی تعداد 45 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہی نہیں فیس بک اور انسٹاگرام پر بھی اس ٹرینڈ کے ساتھ پوسٹیں شیئر کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہیں۔ تاہم اب عوام کے ساتھ ساتھ اداکار وفنکار بھی پیچھے نہیں رہے انہوں نے بھی اس ٹرینڈ میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے اداکار احسن خان، نمرہ خان اور سلمیٰ حسن نے بھی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں احسن خان وہیل چیئر پر بیٹھ کر کانپیں ٹانگنے کی اداکاری کرتے ہیں اور دونوں خواتین اداکارائیں جیالوں کی طرح نعروں پر اداکاری کرتی ہیں۔ اداکارہ فاطمہ آفندی نے بھی ایک مزاحیہ ویڈیو بنائی جو کہ انسٹاگرام پر وائرل ہے اور کیپشن میں درج ہے کہ "میری تو کانپیں ٹانگ رہی ہیں"۔ Ca5mydaJqJN اداکارہ عائزہ اعوان بھی پیچھے نہ رہیں اور انسٹااسٹوری شیئر کرتے ہوئے مداحوں سے پوچھا کہ ہاں بھئی کس کس کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں؟ صاحبہ ریمبو نے بھی بلاول بھٹو کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ آخر کس کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں؟
وزیرخزانہ شوکت ترین نے وزیراعظم کے یورپی یونین سے متعلق دیئے گئے بیان پر اپنے تبصرے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر انہوں نے جو بات کی تھی میڈیا نے اسے غلط انداز سے بیان کیا ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ وہ ریکارڈ کی ردستگی کیلئے بتا رہے ہیں کہ میڈیا نے وزیر اعظم کے یورپی یونین کے بارے میں دیئے گئے بیان کے حوالے سے میرے الفاظ کو غلط بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان کا ویڈیو کلپ بھی شیئر کیا۔ شوکت ترین کی جانب سے شیئر کیے گئے کلپ میں سنا جائے تو وزیر خزانہ بتااتے ہیں کہ پاکستان کی برآمدات امریکا اور یورپی یونین کو سب سے زیادہ جاتی ہیں جو کہ تقریباً64 فیصد کے قریب ہیں۔ اس پر وزیراعظم نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ جب کشمیر میں یہ سب ہو رہا تھا تو تب یورپی یونین کہاں تھا۔ شوکت ترین نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ اس کو دیکھ کر ہمیں ڈرنا چاہیے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، ہماری قومی سالمیت کو ہی اگر گروی رکھ دیا جائے تو پھر بطور قوم ہمیں اپنے ہاتھ کھڑے کر دینے چاہییں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ وزیراعظم کا حق ہے کہ اگر وہ دیکھیں کہ کہیں دوہرا معیار نظر آ رہا ہے تو اس کی نشاندہی کریں۔ وزیرخزانہ نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم نے یہ بیان عوامی سطح پر دے دیا میرے خیال میں انہیں عوامی سطح پر ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ میں اس پر بات نہیں کر سکتا جو اس معاملے کا اسپرٹ تھا وہ بتا دیا ہے۔ یاد رہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کے اس بیان کے بعد مختلف میڈیا ہاؤسز اور اخبارات نے یہ خبر دی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کے یورپی یونین سے متعلق بیان پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کو عوام میں ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا، ہماری 64 فیصد برآمدات امریکا اور یورپ کو جاتی ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان نے ترین گروپ کے گزشتہ روز کے فیصلے سے علیحدگی اختیار کر لی۔علیم خان نے ترین گروپ سے علیحدگی کا فیصلہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کے مطالبے پر کیا نجی چینل جی این این کے مطابق عبدالعلیم خان کا کہنا ہے کہ عبدالعلیم خان گروپ الگ ہے، ہم نے جہانگیرترین گروپ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ علیم خان گروپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی ہمارا مطالبہ نہیں، ہم عمران خان کے ساتھ ہیں اورساتھ رہیں گے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے ہم خیال گروپ نے اس اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے جبکہ جہانگیر ترین گروپ نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دوسری جانب صمصام بخاری اور آصف نکئی نے بھی ترین گروپ کا ساتھ چھوڑدیا ہے، صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ترین گروپ کے ناراض ساتھیوں کو منانے گیا تھا، جینا مرنا کپتان کے ساتھ ہے۔
وزیراعظم اپوزیشن کی تحریک ناکام بنانے کیلئے پُرعزم، تحریک کی ناکامی کے بعد تمام حساب چکتا کرنے کا اعلان روزنامہ جنگ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پہلے بھی ان مافیاز کا مقابلہ کیا اب بھی کروں گا، تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد سب کا حساب چکتا کر دوں گا۔ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے گھبرانے والا نہیں ہوں، پنجاب میں پیدا ہونے والے حالات پر قابو پا لیں گے۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زیرِ صدارت پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، فواد چوہدری، فرخ حبیب سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں آئندہ کی حکمتِ عملی طے کر لی گئی۔ اجلاس کے دوران تحریکِ عدم اعتماد سے نمٹنے سے متعلق مشاورت ہوئی۔ سینئر رہنماؤں نے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تجاویز پیش کیں اور تحریک عدم اعتماد کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ اتحادیوں سے ہونے والی ملاقاتوں پر تفصیلی گفتگو کی گئی اور ان کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر اظہار اطمینان کیا گیا۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ تمام ارکان میرا ساتھ دیں گے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب کہ تمام سینئر رہنماؤں نے بھی اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا اس موقع پر وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکلنے والی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک نالاں رہنے والے وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا کہ اپوزیشن کے کئی ارکان ہمارا ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے، اپوزیشن کو کچھ دن خوش ہو لینے دیں یہ ان کے لیے سرپرائز ڈے بن جائے گا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے بڑا دعوی کر دیا، کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے 50 فیصد سے زائد اراکین اسمبلی، دو گورنر اور متعدد وزراء پی ٹی آئی حکومت کو چھوڑ رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "ندیم ملک لائیو" میں تحریک عدم اعتماد اور حکمران سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے اندرونی انتشار پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4 سالوں کی جو کارکردگی حکومت کی رہی ہے، اس کےبعد بھی آپ یہ بھاشن دے رہے ہیں کہ ہم نے ملک کے حالات بہتر کر دیئے ہیں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ اگر ان کے اپنےاراکین ہی انہیں چھوڑ رہے ہیں تو یہ خود ہی کیوں نہیں حکومت چھوڑ دیتے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ دو گورنر ، چند وزرا اور 50 سے زائد اراکین قومی اسمبلی تحریک انصاف کو چھوڑ رہے ہیں، اور جس طرح آج یہ دھمکیاں دے رہے تھے اس سے تو لگتا ہے کہ کام 50 فیصد سے زائد تک چلا جائے گا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا کہ جب کورونا ملک میں کسی حد تک معاشی استحکام آنے لگا، جب ملکی معیشت میں عالمی منظرنامے میں رونما ہونے والے واقعات جیسے یوکرین روس جنگ، تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اتار چڑھاو آرہا ہے تو کیا ایسے میں تمام حالات سے قطعی انجان ببنے والے اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جیسا اقدام ملک کے لئے بہتر ہو سکتا ہے کیا، یہ تو ان لوگوں کو پتا ہونا چاہیئے۔ واضح رہے کہ منگل کے روز حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرواتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کے ’دن گنے جا چکے ہیں‘ اور ’ان کے اپنے لوگ ان سے بیزار ہیں۔‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی سمیت 86 اراکین کے دستخط ہیں، تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے اسٹاف نے وصول کی، اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کروائی گئی۔ قواعد کے مطابق اسپیکر تحریکِ عدم اعتماد پر کم از کم 3 دن کے بعد اور 7 دن سے پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔
مسلم لیگ ق نے پہلی مرتبہ حکومت کےاتحادی کے طورپر نظرثانی کا اشارہ دےدیا اور کہا کہ اگر آپکے ارکان نے فلورکراسنگ کی تو حکومت کا ساتھ دینا مشکل ہوجائے گا۔ نجی چینل کے ذرائع کے طابق تحریک انصاف کے تین وزرا سے ق لیگ کے رہنماؤں کی دوسری ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔ گزشتہ روز3 وزرا سے مونس الہیٰ اور طارق بشیرچیمہ کی دوسری ملاقات ہوئی جس میں طارق بشیر چیمہ نے واضح کیا کہ اگرتحریک انصاف کے 20،15 ارکان ٹوٹ گئے تو اپوزیشن کیساتھ جانے پر مجبور ہوں گے۔ طارق بشیر چیہ نے مزید کہا کہ اتحاد کے معاملات میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومتی ارکان بکھر گئے تو نئی پالیسی بنا سکتے ہیں۔ جس پر پی ٹی آئی کے تینوں وزراٗ نے کہا کہ وہ آپ کے موقف کو تسلیم کرتےہیں اور بالکل اگر ہمارے ارکان وفاداریاں بدلتےہیں تو پھر آپ کو نہیں روکیں گے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے دوروز قبل وزیراعظم سے ون ان ون ملاقات میں بھی طارق بشیر چیمہ نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ کے اپنے ارکان ہی ساتھ چھوڑ دیں تو پھر ہمارے لیے اپوزیشن کی آفر کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ عدم اعتماد ایک آئینی راستہ ضرور ہے مگر یہ جمہوری روایات کے خلاف قدم ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام "رپورٹ کارڈ " سہیل وڑائچ سےسوال کیا گیا کہ کیا یہ وہی کھیل ہے جو صدیوں سے چلا رہا ہے ، صرف چہرے بدل گئے ہیں اور اب اپوزیشن اس کھیل کو آگے بڑھا رہی ہے کیا یہ ایک غیر جمہوری عمل ہے؟ سینئر تجزیہ کار نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک آئینی طریقہ ہے، آئین میں درج ہے کہ اگر کسی حکومت کو گھر بھیجنا ہے ، جب آپ کسی حکومت سے تنگ آجائیں یا حکومت عوام و عوامی نمائندوں کی خواہشات کے مطابق نہ چل رہی ہو تو اسے گھر بھیجنے کیلئے عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے، یہ عمل غیر آئینی یا غیر جمہوری نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہاں حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے اگر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ استعمال کیا جائے تو وہ غلط اور غیر آئینی ہے مگر عدم اعتماد ایک سیاسی عمل ہے جو ایک طرح کا انتخاب ہے جیسے وزیراعظم کے چناؤ کیلئے انتخاب ہوتا ہے ویسے ہی وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے بھی ایک انتخاب ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگر وزیراعظم یہ انتخاب جیت جاتے ہیں تووہ ملک کے وزیراعظم رہیں گے اگر ہار جاتے ہیں تو پھر ایک نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ چاہے یہ عمل آئینی و قانونی یا جمہوری ہےو مگر یہ جمہوری روایات کے خلاف عمل ہے، ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو توڑ کر حکومتوں کو گرایا جاتا ، جب نواز شریف کی حکومت کو گرایا گیا تھا تو ان کی پارٹی کو بھی توڑا گیا تھا۔ پروگرام میں شریک تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے سہیل وڑائچ سے سوال کیا کہ کیا پارٹیاں توڑ کر حکومتیں گرانا جمہوری عمل ہے؟ اگر نواز شریف کی حکومت کو گرانا ایک غلط اقدام تھا تو آج عمران خان کی پارٹی توڑنا بھی غلط ہوگا؟ اس کے جواب میں سلیم صافی نے کہا کہ کس کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ تحریک انصاف کو توڑ سکے؟ کون ہے جو تحریک انصاف جیسی مضبوط جماعت کو توڑ رہا ہے؟ ارشاد بھٹی نے جواب دیا کہ بقول عمران خان اپوزیشن ان کے لوگوں کو ٹکٹوں کا لالچ دے کر عہدوں کا لالچ دے کر توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔
تحریک عدم اعتماد: حکومت اتنی پر اعتماد کیوں ہے ؟ وجہ سامنے آگئی نجی چینل اے آروائی نے دعویٰ کیا ہے کہ کہ اپوزیشن جماعتوں کے 8ایم این ایز نے حکومت کو ساتھ دینے کی یقین دہانی کرادی ہے۔ چینل کے مطابق 2اپوزیشن رہنماؤں نے منسٹر انکلیو میں وفاقی وزراء سے کچھ دیر پہلے اہم ملاقات کی ہے جنہوں نے حکومت کو ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔۔ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے حکومت کے اپوزیشن کے مزید ارکان سے بھی رابطے جاری ہیں۔ دوسری جانب جے یو آئی ف کے ایک ایم این اے کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے اور حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرادی ہے۔ جے یو آئی ف کے اس ایم این اے کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ مذکورہ ایم این نے کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے، ایسی کسی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتا جو بیرونی ہاتھوں میں کھیلے۔
حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کیلئے آصف زرداری اور نوازشریف علیم خان اور جہانگیرترین کی طرف دیکھنے لگے۔۔ علیم خان اور جہانگیرترین گروپ سے فوری رابطوں کا فیصلہ نجی چینل سماء نیوز کے مطابق اسلام آباد میں سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان، سابق صدرآصف زرداری اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے درمیان ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق حتمی تاریخ پر اتفاق نہ ہو سکا۔ دوسری جانب آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان رات گئے ہونے والے ٹیلی فونک رابطے میں جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ سے فوری رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اہم ملاقات زرداری ہاؤس میں ہوئی۔ تینوں جماعتوں کے مابین ہونے والی اس ملاقات میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سردار ایاز صادق، سید خورشید شاہ، خواجہ سعد رفیق، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، اور مریم اورنگزیب نے بھی شرکت کی۔ اپوزیشن قائدین کو ن لیگ کی جانب سے اشتر اوصاف اور زاہد حامد جب کہ پیپلزپاٹی کی طرف سے فاروق ایچ نائیک اور بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اجلاس میں جے یو آئی (ف) کی جانب سے کامران مرتضیٰ نے بھی قانونی و آئینی مشاورت فراہم کی۔ اس بیٹھک میں حکومت کے اتحادیوں اور پاکستان تحریک انصاف کے ناراض اراکین سے ہونے والے رابطوں کی تفصیلات پر بریفنگ بھی دی گئی۔ ملاقات میں تینوں سربراہان نے نمبر گیم پر غور کیا۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کا ٹاسک تینوں جانب سے مقرر کیے گئے قانونی ماہرین کو سونپ دیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ضرور کامیاب ہوگی۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ 100 فیصد امکان ہے کہ اس حکومت سے اس ملک اور قوم کو نجات مل جائے گی۔ اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے تحریک عدم اعتماد کیلئے 48 یا 72 گھنٹے کی کوئی بات نہیں، ہم اپنے پتے مناسب وقت پر پھینکیں گے۔ جب کہ آصف زرداری نے سابق وزیراعظم نوازشریف سے رات گئے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ بات چیت میں عدم اعتماد کی تحریک کی تاریخ اور دیگر قانونی نقطوں پر بات چیت کی گئی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان علیم خان اور جہانگیر ترین گروپ سے متعلق بات چیت ہوئی۔
وزیر توانائی پنجاب اختر ملک نے کہا ہے کہ عمران خان ہمارے لیڈر ہیں، ہم ان کیساتھ ہیں وہ جو فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہے، تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "آف دی ریکارڈ" میں بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہونے والے وزیر توانائی پنجاب اختر ملک نے دعوی کیا کہ پارٹی منشورپراقتدارمیں آئے، پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کریں گے عمران خان ہمارےلیڈرہیں اوران کےنظریےکیساتھ ہیں عمران خان ہمارےلیڈرہیں جو بھی فیصلہ کریں گےقبول کریں گے۔ اختر ملک نے بتایا کہ وہ علیم خان کی رہائشگاہ پر ہونے والےاہم اجلاس میں شریک تھے جس میں انہوں نے مشورہ دیا تحفظات ہیں تو ان پر بات کرنے کے لئے پارٹی پلیٹ فارم موجود ہے،علیم خان کی جانب سےدعوت پر اجلاس میں شرکت کی، رپی ٹی آئی کے دوست اکٹھے ہوئےتھے۔ انہوں نے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ مشورہ دیا ہے کہ وزیراعظم سمیت تمام لوگ تحفظات دور کر سکتے ہیں، ہم پارٹی کے پابند ہیں اور پارٹی کی جانب سے گئے جانے والے فیصلوں کا احترام کریں گے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پارٹی نے کبھی جہانگیرترین گروپ سےملنےپر روکانہیں، ہم سب اکٹھےہیں، جہانگیرترین اورعلیم خان کو کبھی الگ نہیں سمجھا ۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ جہانگیرترین کا آج بھی کہنا ہے کہ وہ پارٹی میں تھےاور رہیں گے، جو بھی کوتحفظات ہیں وہ پارٹی سطح پردورکیےجائیں گے پارٹی منشورپراقتدارمیں آئے، پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کریں گے عمران خان جو بھی فیصلہ کریں گےقبول کریں گے۔ دوسری جانب جہانگیر ترین اور علیم خان کے درمیان ہونے والے مشاورتی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس کے شرکا نے مؤقف اپنایا کہ عثمان بزدار قبول نہیں، اس سے کم پربات نہیں ہوگی، عثمان بزدار کی طرز حکمرانی نے پارٹی کا امیج تباہ کردیا، مزید خاموش نہیں رہیں گے، آئندہ 48 گھنٹےاہم ہیں۔ ذرائع کے مطابق گروپ کے ارکان کی اکثریت نے اہم فیصلوں کا اختیار قیادت کو سونپ دیا، جہانگیرترین اور علیم خان پی ٹی آئی کے دیگراراکین سے بھی رابطے کریں گے، ارکان کی تعداد 50 سے زائد ہونے پر پاور شو کیا جائے گا۔ آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا جس کے مطابق دونوں گروپ پہلے اپنے 25 ،25 ارکان پنجاب اسمبلی شو کریں گے پھر مشترکہ دوستوں کے ذریعے وزیراعظم سے رابطہ کیا جائےگا، تاہم ابھی وزیر اعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔
مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کا پی ٹی آئی رہنما علیم خان سے رابطہ ۔۔ کیا عبدالعلیم خان وزیراعلیٰ پنجاب بننے جارہے ہیں؟ تفصیلات کے مطابق علیم خان نے صرف 3 دن میں 40 سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی، ارکان میں دس صوبائی وزراء بھی شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ علیم خان کی آج ترین گروپ سے ہونے والی ملاقات میں پارٹی میں تمام گروپس بشمول ترین گروپ کو اکٹھا کر کے مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا، اور جب تک سیاسی منظر نامہ واضح نہیں ہوتا تمام ارکان کے ناموں کو پوشیدہ رکھا جائے گا، جب کہ علیم خان اور جہانگیر خان ترین آج سے مشترکہ سیاسی حکمت عملی اپنائیں گے۔ علیم خان کے ملکیتی چینل سماء ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کا علیم خان سے رابطہ ہوا ہے اور ان سے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بات ہوئی۔ میڈیا پر چلنےو الی ان خبروں پر خاورگھمن کا کہنا تھا کہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرا تک نون لیگ نے ق لیگ میں سے گروپ بنا کر چیف منسڑشپ حاصل کی۔ خاورگھمن کا کہنا تھا کہ اب اطلاعات ہیں کہ علیم خان کی وزیر اعلی بننے کی خواہش کو پورا کرنے کے حوالے سے ن قیادت سوچ رہی ہے چاہے تھوڑے عرصے کے لیے ہو کیوں نہیں۔ خیال رہے کہ 2018 کے بعد عبدالعلیم خان وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے خواہشمند تھے لیکن وزیراعظم عمران خان نے علیم خان کی جگہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنادیا۔ جس کے بعد یہ دعوے کئے جاتے رہے کہ عثمان بزدار کے خلاف خبروں کے پیچھے علیم خان کا ہاتھ ہے اور وہی مختلف صحافیوں کے ذریعے عثمان بزدار کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے۔
ندیم افضل چن کے بعد تحریک انصاف کو مزید دھچکے لگنے کی توقع۔۔ پی ٹی آئی رہنما یارمحمد رند کی آصف زرداری سے ملاقات۔۔ منظور وٹو کی بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت متوقع نجی چینل کے سماء کے صحافی زاہد گشکوری نے خبردی ہے کہ یار محمد رند نے پیپلزپارٹی کے رہنما آصف زرداری سے ملاقات کی ہے جس میں تحریک عدم اعتماد پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس پر سماء کے صھافی عدیل احسن نے تبصرہ کیا کہ سردار یار محمد رند کے پاس بلوچستان سے 7 ایم پی ایز اور 3 اراکین قومی اسمبلی بھی ہیں۔ عدم اعتماد تحریک سنسنی خیز مراحل میں داخل ہوتے ہوئے جس پر زاہدگشکوری کا کہنا تھا کہ میرے ذرائع کے مطابق یار محمد رند کےساتھ 3 نہیں 7 ایم این ایز ہیں۔ دوسری جانب میاں منظور وٹو ایک بار پھر پیپلزپارٹی میں پرتولنے لگے۔آصف زرداری نے منظور وٹو کو پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت دیدی اس پر میاں منظور وٹو نے پی پی قيادت سے سوچنےکيليے وقت مانگ کر کہا کہ ساتھيوں سے مشاورت کے بعد حتمی جواب دوں گا۔ نجی چینل سماء سے گفتگو میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹو کا کہنا تھا کہ پيپلز پارٹی سے ديرينہ تعلق رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے براہ راست پارٹی میں دوبارہ شامل ہونے کے دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے بعد پی پی قیادت سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ خیال رہے کہ الیکشن 2018 میں کے عام انتخابات میں اوکاڑہ سے میاں منظور وٹو آزاد جبکہ ان کے بیٹے خرم جہانگیر وٹو اور صاحبزادی روبینہ شاہین وٹو پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر صوبائی نشست پر میدان میں آئے مگر الیکشن نہ جیت س
وزیراعلی پنجاب کی پالیسیوں اور کارکردگی سے ناراض ایک نئے گروپ کی جہانگیر خان ترین سے ملاقات کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایک طرف جہاں اپوزیشن حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانےکی تیاریوں میں مصروف ہے وہیں دوسری جانب پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیلئے ایک نئی پریشانی نے سر اٹھالیا ہے۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے چند اراکین پر مشتمل ایک نیا گروپ سامنے آیا ہے جنہوں نے وزیراعلی عثمان بزدار کی پالیسیوں اور کارکردگی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے، ان ارکان نے صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت گرا نے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کرنے پر غور بھی شروع کردیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تقریبا 2درجن ارکان پر مشتمل اس گروپ کی جانب سے تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین سے ملاقات کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ ناراض اراکین پر مشتمل اس نئے گروپ کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار صوبے کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں لہذا اب ہمیں کوئی قدم اٹھانا ہوگا، اگر حکومت نے مسائل پر توجہ نہ دی تو پھر نوبت عدم اعتماد تک بھی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین سے مسلسل رابطے کیے جارہے ہیں، لندن میں مقیم جہانگیر خان ترین خود تو پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں مگر پارلیمنٹ کے درجنوں اراکین ان کے ناراض گروپ کا حصہ ہیں جن کی حمایت کیلئے اپوزیشن تگ ودو کررہی ہے۔
سینئر تجزیہ کار حبیب اکرم نے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت اس وقت شدید خطرے میں ہے، اور خطرے کا یہ لیول سرخ رنگ سے بھی اوپر چلا گیا ہے اور ان کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ دنیا نیوز کے پروگرام اختلافی نوٹ میں گفتگو کرتے ہوئے حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ آج کی عمران خان کی تقریر سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کے پاس ایسی انفارمیشن ہے کہ ان کے پاؤں کے نیچے سے حکومت کا قالین کھینچتا چلا جارہا ہے،انہوں نے تقریر میں بھی کہا کہ ہمیں روس جانے کی سزا دی جارہی ہے۔ حبیب اکرم نے کہا کہ جب سے "ایبسیلوٹلی ناٹ" کہا گیا تب سے عمران خان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا، جب وزیراعظم یہ خود کہیں کہ خارجہ امور میری حکومت کے گرائے جانے میں اہم کردار اداکررہے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ 1999 سے ہماری سیاست کے مرکز ثقل پاکستان سے باہر کیوں چلے گئے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے؟ ہم نے مذاق بنادیا ہے، کیا ہم اتنے چھوٹے لوگ ہیں جو بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں کہ ہم اس حد تک گر جائیں گے کہ دنیا کی کسی بیرونی طاقت کے اشارے پر ایسے کام کریں گے، اگر واقعی یہ تاثر درست ہے تو ہمیں شرم تو کرنی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں خود دستور میں طے کیے گئے تمام اصول توڑے جارہے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ فلور کراسنگ نہیں ہوگی،آج آپ خریداری کرتے نظر آرہے ہیں، آج آپ میثاق جمہوریت بھول گئے کہ ملک کے نظام کو آگے بڑھنا چاہیے، میں بحیثیت پاکستانی یہ کہنا چاہوں گا کہ مجھے اس بات پر یقین نہیں ہے کہ اس تحریک کے ڈانڈے ملک کی سرحدوں سے باہر نہیں ملتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہم جتنے بھی بڑے اکابر ہیں، یا جتنے بڑے عہدے پر بھی ہیں ہم پاکستان سے بڑے نہیں ہیں، حکومت کی الٹی گنتی گننے والے قوم کو عوام کو اندھا نہ سمجھیں، یہ ساری چیزیں ایک دن کھل کر سامنے آئیں گی۔
حال ہی میں مسلم لیگ ن نے اپنی ایک پریس ریلیز کے ذریعے الزام لگایا تھا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر پشاور میں تعینات ایک شخص اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی سے رابطہ کر رہا ہے تاکہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام کرائی جا سکے۔ ن لیگ کا اشارہ کورکمانڈرپشاور جنرل فیض حمید کی جانب تھا جو پہلے ڈی جی آئی ایس آئی تھے اور مسلم لیگ ن ماضی میں بھی ان پر الزامات لگاچکی ہے۔ اپنی پریس ریلیز میں مسلم لیگ ن نے دھمکی دی تھی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پارٹی کے پاس اُس شخص کا نام سامنے لانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اس پر پاک فوج کے ترجمان کا بھی ردعمل سامنے آگیا ہے۔ جنگ جیو کے صحافی انصار عباسی کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پشاور میں حال ہی میں تعینات کیے جانے والے ایک شخص کی جانب سے اپوزیشن ارکان سے رابطہ کرکے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کرانے کے متعلق باتیں صرف افواہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارہ کسی سیاست میں ملوث ہے اور نہ ہی پاک فوج کا کوئی شخص ایسا اقدام کر سکتا ہے جس کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی گزشتہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی باتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ ادارے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ادارے کا کوئی شخص وہ کام نہیں کر سکتا جس کے متعلق افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اپنی گزشتہ پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر سے جب نواز شریف سے ڈیل کا سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسی افواہیں پھیلانے والوں سے پوچھیں کہ اس ڈیل کی تفصیلات کیا ہیں اور وہ کس بنیاد یا شواہد کی بنیاد پر ڈیل کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو یہ بات کررہا ہے، اُن سے پوچھیں کہ ڈیل کون کر رہا ہے، ڈیل کے ثبوت اور تفصیلات کیا ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسائل نہیں ہیں، کئی مرتبہ بتاچکے ہیں پاک فوج کا ادارہ حکومت پاکستان کے ماتحت ہیں اور حکومت کی ہدایت کے مطابق ہی کام کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافیوں سے بھی اپیل کی تھی کہ ایسے مباحثوں سے اسٹیبلشمنٹ کو دور رکھا کریں اور اس پر بحث نہ کریں۔ خیال رہے کہ کچھ روز قبل مولانا فضل الرحمان نے کچھ صحافیوں کی موجودگی میں دعویٰ کیا تھا کہ ادارہ نیوٹرل ہو چکا ہے۔ مولانا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ادارے نے اُس شخص کے انفرادی اقدام کا نوٹس لیا ہے جس کا حوالہ نون لیگ نے اپنی پریس ریلیز میں دیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ چین اور روس کیمپ میں جانا ، امریکہ و یورپ سے دوری و لاتعلقی زمین حقائق کے خلاف ایک غصیلا فیصلہ ہے جو قوم کو بہت بھاری پڑےگا۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پرایک ویڈیو میں اپنا تجزیہ دیتے ہوئے سینئر اینکر پرسن کامران خان کا کہنا تھاکہ یہ کیسی متوازن خارجہ پالیسی ہے کہ یوکرین پر حملے والے دن وزیراعظم عمران خان روسی صدرپیوٹن کی میزبانی انجوائے کرتے نظر آئے مگر گلاسگو میں ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی برطانوی وزیراعظم کی دعوت مسترد کردیتے ہیں۔ کامران خان نے مزید کہا کہ وزیراعظم چینی صدر سے 20 منٹ کی ملاقات کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں مگر بائیڈن کی ڈیموکریسی سمٹ میں شرکت کی دعوت رد کرتے ہیں، پاکستان اور مغربی دنیا کے درمیان خلیج خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے چین اور یوکرین حملے کے دوران روس کے دورے سے تصدیق ہوگئی ہے کہ پاکستان امریکہ مخالف چین روس بلاک کا حصہ بننے جارہا ہے، مگر یاد رکھیں پاکستان کا اس بلاک کا حصہ بننا ایک خطرناک اور سراسر نقصان کا سودا ہوگا۔ کامران خان نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ پاکستان کا امریکہ مخالف چین روس بلاک میں شامل ہونا قوم کوبھاری پڑے گا، یہ عمران خان کا غلط فیصلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری تمام ایکسپورٹس ہمارا بہترین آئ ٹی مستقبل طالبعلموں کی اعلی تعلیم حتیٰ کہ کروڑوں مفت کورونا ویکسین کی فراہمی امریکہ برطانیہ سے منسلک ہیں چین روس کا ان تمام معملات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

Back
Top