سیاسی

مسلم لیگ ن کے رہنماجاوید لطیف نے کہا ہےکہ آج جو بھی لوگ حکومت کا ساتھ چھوڑ ررہے ہیں ان پرطاقتور حلقوں کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اے آروائی نیوز کے پروگرام "آف دی ریکارڈ" میں خصوصی گفتگوکرتےہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ جیسے 2018 میں دوسری پارٹیوں سے لوگوں کو ایک جماعت میں شامل کروایا گیا وہ سب کو معلوم ہے،آج حکومت وقت کو چھوڑ کر لوگ اپوزیشن کے ساتھ شامل ہورہے ہیں یہ پہلی بار ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آج اس طرح لوگ توڑے اور عدم اعتماد کامیاب کروانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے ماضی میں کی گئی اور جماعتوں کو بنایا گیا تو کوئی اس کا ثبوت دے دے۔ پروگرام کے میزبان کاشف عباسی نے کہا کہ راجا ریاض نے کہا ہےکہ ہمیں ٹکٹ دیئے جارہے ہیں، رشوت دی جارہی ہے، ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے۔ جاوید لطیف نے اپنی بات کوو ہیں سے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر تو کوئی طاقتور شخص اس طرح کررہا ہے جیسے ہمارےساتھ ہواتو۔۔ ان کی بات کو کاٹتے ہوئے کاشف عباسی نے کہا کہ یہ کام اسٹیبلشمنٹ کرے تو بھی غلط ہے اور آپ پیسےلگا کر کریں تو بھی غلط ہے۔ جاویدلطیف نے اپنی بات کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کو یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں ٹکٹ دیں یا نا دیں، لیڈرشپ کا فیصلہ درست تھا یہ غلط یہ بھی عوام نے فیصلہ کرنا ہے۔ جاوید لطیف نے پروگرام میں کہا کہ اگر چیزیں نارمل چلتی رہیں تو پارٹیوں میں گروہ نہیں بنتے،چیزیں خراب ہوتی ہیں تو فون کالزآتی ہیں، فائلیں ادھر سے ادھر ہوتی ہیں، یہ بات میں نے حکومت کا حصہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے ایک بیان کا حوالہ دے کر کہی ہےجس میں پرویز الہیٰ نے کہا تھا کہ جب ہماری جماعت توڑ کر پی ٹی آئی کو بنایا جارہا تھا تو ہم نے طاقتور حلقوں سے شکایت کی تھی۔
ترین گروپ کا صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ۔۔پنجاب میں تبدیلی کے لئے مثبت اشارے ملے ہیں،عون چوہدری جیونیوز کے مطابق ترین گروپ نے پنجاب کی صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گروپ کے سرکردہ رہنما عون چوہدری نے کہا کہ ہمارا گروپ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی کے مطالبے پر قائم ہے اور گروپ پنجاب کابینہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوگا۔ ترین گروپ کے عون چوہدری کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس عثمان بزدار کی زیر صدارت ہوگا جس کے باعث کوئی رکن اجلاس میں نہیں جائے گا۔ ادھر عون چوہدری نے گروپ کے سربراہ جہانگیر ترین سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں حکومتی شخصیات سے ملاقات کے بارے میں بریفنگ دی اور پرویز خٹک کے رابطے اور ملاقات کے حوالے سے بھی آگاہ کیا۔ عون چوہدری نے جہانگیرترین کو بتایا کہ وفاقی وزیر پرویز خٹک نے ملاقات کی اورکہا ہے کہ ابھی ترین گروپ اپنے فیصلے روک لے، اس ملاقات میں پنجاب میں تبدیلی کے لئے مثبت اشارے ملے ہیں، جب کہ پنجاب کی اہم شخصیات نے بھی ترین گروپ کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ عون چوہدری کے مطابق جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ گروپ متحد رہے اور مشاورت سے فیصلے کرے۔ جب کہ جہانگیر ترین ڈاکٹرز کی اجازت کی صورت میں ایک ہفتے میں وطن واپس آسکتے ہیں۔
شریف خاندان کے مبینہ فرنٹ مین مقصود چپڑاسی کے بھائی کا لاہور کے علاقے پنڈی راجپوتاں میں انتقال ہو گیا۔ اینکر پرسن عمران ریاض خان نے دعویٰ کیا ہے کہ مقصود چپڑاسی چونکہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا ملزم ہے اس لیے وہ اپنے بھائی کے انتقال پر اس کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوا۔ عمران ریاض خان نے یہ بھی کہا ہے کہ نہ تو ملک مقصود اپنے بھائی کے جنازے میں شریک ہوا اور نہ وہ آئے جن کے اربوں روپے مقصود چپڑاسی نے اپنے اکاؤنٹس میں رکھے۔ اینکر پرسن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری پیغام میں یہ بھی کہا کہ آلہ کار بننے والے عبرت پکڑیں اور توبہ کریں۔ اللہ کسی کو آزمائش میں نہ ڈالے آمین۔ یاد رہے کہ ملک مقصود شریف گروپ کے سی او کا چپڑاسی تھا جس کی ماہانہ تنخواہ 25 ہزار روپے تھی مگر اس کے اکاؤنٹس میں 3 اعشاریہ 74 ارب روپے ڈپازٹ کیے گئے تھے۔ مقصود چپڑاسی کو مبینہ طور پر شہباز شریف کا فرنٹ مین کہا جاتا ہے، جس کا پاکستانی سیاست میں بہت تذکرہ رہا ہے کہ کس طرح 25 ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ لینے والا شخص اربوں روپے کا مالک بن گیا۔ سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے مقصود چپڑاسی کے حوالے سے متعدد انکشافات کیے تھے اور کہا تھا کہ یہ شخص شہبازشریف اور حمزہ شہباز کا فرنٹ مین رہا ہے جس نے ان کے اربوں روپے ملک سے باہر بھجوائے۔ وزیراعظم بھی اس مقصود چپڑاسی کا متعدد بار تذکرہ کر چکے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے سابق رہنما چوہدری نثار بھی موجودہ سیاسی صورتحال میں متحرک ہوگئے ہیں، ایک طرف انہوں نے اپنے حلقے میں ایک دھواں دھار خطا ب کیا تو دوسری طرف ان کی بنی گالہ میں اہم ملاقات کی بھی خبریں گردش کررہی ہیں۔ تفصیلات کےمطابق چارسال سے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے سابق ن لیگی رہنما چوہدری نثار اچانک سیاسی منظر نامے پر ابھر کر سامنے آئے ہیں، اندر کی خبریں رکھنے کا دعویٰ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کی سیاست میں واپسی کیلئے ڈیزائن تیار کرلیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے نجی ٹی وی چینل کی اینکرصدف یوسف نے کہا کہ آج بنی گالہ میں راولپنڈی کی اہم سیاسی شخصیت چوہدری نثار علی خان کی ملاقات۔ چوہدری نثارعلی خان کے ساتھ ایک اور اہم ترین، بااثر شخصیت موجود تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ چوہدری نثارعلی خان بہادر راجپوت اورفوجی خاندان سےتعلق رکھتےہیں وہ شفاف کردار اور گہری سوج بوجھ کے مالک ہیں۔ صحافی سلمان درانی نے اس معاملے پر تفصیلی ٹویٹ کی اور دعویٰ کیا کہ کل بنی گالہ میں ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں چوہدری صاحب کی اینٹری ڈیزائن ہوچکی ہے۔ چوہدری صاحب ایک دو نہیں بلکہ بیشتر ن لیگی گھوڑے اپنے ساتھ لے کر آرہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سب میں برگیڈیئر اعجاز شاہ پیش پیش ہیں، شائد یہی وجہ ہے کہ ایک ادارے کی طرف سے اعجاز شاہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جنرل فیص کو سائیڈ لائن کرنے کی پوری کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا بھی پس منظر یہی ہے۔ چوہدری نثار نےکل کی اس مبینہ ملاقات کےبعد آج اپنے حلقے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی واپسی کا اشارہ دیا اور کہا کہ میں نے چار سال سے اقتدار کا روزہ رکھا ہوا تھا اب ایسا لگ رہا ہے عنقریب اپنےحلقے کے عوام کے ساتھ اس روزے کو کھولنے کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2018 کے الیکشن کمیں صوبائی اسمبلی کی نشست پر میں نے 34 ہزار کی لیڈ سے فتح حاصل کی جبکہ مجھے قومی اسمبلی کی سیٹ سے ہروادیاگیا،تاہم میں آئندہ انتخابات میں ڈٹ کر لڑوں گا۔
حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ان کے نزدیک قومی احتساب بیورو (نیب) کو فوری طور پر ختم ہو جانا چاہیے، مگر ساتھ ہی بلدیاتی انتخاب میں اپنی جیت کے بعد الیکشن کمیشن پر فی الحال اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے کے پروگرام "اعتراض ہے" میں مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق فوری کوئی فیصلہ نہیں لیا جاسکتا جو بھی حکومت آئے گی پھر وہ متفقہ رائے سے فیصلہ کرے گی۔ مگر میرے نزدیک اسے فوری طور پر ختم ہو جانا چاہیے لیکن باقی لوگ بھی ہیں ان کی متفقہ رائے سے فیصلہ ہوگا۔ مولانا نے الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن سے فی الحال کوئی شکایت نہیں مگر الیکشن کمیشن کا صحیح کردار آگے جاکر سامنے آئے گا۔ الیکشن کمیشن میں اصلاحات کی ابھی بھی ضرورت ہے کیوں کہ ووٹر لسٹوں میں گڑبڑ ہے، عارضی پتہ ہو، مستقل پتہ ہو کوئی نیا پتہ ہو، کچھ ابھی تک پتہ نہیں ہے۔ فضل الرحمان نے الیکشن کمیشن سے متعلق یہ بھی کہا کہ جن لوگوں نے 2018 کا الیکشن کرایا تھا اس الیکشن کمیشن پر ہمیں اتفاق نہیں تھا کیوں کہ اس وقت جو افراد تھے ان پر ہمیں اعتراض تھا لیکن اب جو لوگ آئے ہیں فی الحال وہ بہتر ہیں۔ انہوں نے بیرون ملک مقیم اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق کہا کہ جو پاکستانی ملک سے باہر ہیں ان کی پوری ایک فہرست بناکر انہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی دینی چاہیے مگر انہیں مکمل سسٹم کیساتھ دو یا تین نشستیں دی جائیں جس سے ملکی مفاد متاثر نہ ہو، صرف ووٹ سے تو اعتماد نہیں ہوگا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کےلیے آئین کے تناظر میں ایسا میکنیزم بنانا چاہیے۔ مولانا کا خیال ہے کہ جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کےلیے قانون بنا ہے اس کا میکنیزم نہیں ہے یہ قانون ہنگامی طور پر بنایا گیا ہے اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وہ حکومت میں آئے تو اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے زیادہ ان کی نمائندگی کی بات کریں گے۔
وزیرتعلیم پنجاب ڈاکٹر مراد راس کی سربراہی میں حکومتی ٹیم نے ترین گروپ کے ناراض ارکان کے ساتھ ملاقات کی، ملاقات میں ترین گروپ کی جانب سے مائنس بزدار کی پہلی شرط رکھی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق حکومتی ٹیم نے ترین گروپ سے ملاقات کی اور مذاکرات کی پیشکش کی، تاہم ترین گروپ کی جانب سے اپنے حقیقی تحفظات سے آگاہ کیا گیا ہے، جبکہ حکومتی ٹیم نے انہیں وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی پیشکش کی ہے۔ ترین گروپ نے اپنے مطالبات میں کہا ہے کہ وہ پارٹی کو چھوڑنا نہیں چاہتے مگر اس کے لیے عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانا ہوگا۔ ترین گروپ کے 17 ارکان نے اس سلسلے میں اپنے تحفظات کی طویل فہرست پیش کی اور حلقوں کے مسائل، بیورو کریسی کے رویئے سمیت انتقامی کارروائیوں سے حکومتی ٹیم کو آگاہ کیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن کے مطابق ترین گروپ نے حلقوں کے حوالے سے بالکل حقیقی تحفظات سامنے رکھے۔ جب گروپ کو پیشکش کی گئی کہ اگر آپ وزیراعظم کے سامنے اپنے معاملات رکھنا چاہتے ہیں تو ملاقات کا اہتمام کروا سکتے ہیں، تو گروپ اراکین نے کہا کہ وزیراعلی کی تبدیلی پہلے نمبر پر مطالبہ ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم نے ترین گروپ کے مطالبات سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو آگاہ کر دیا ہے، حکومتی مذاکراتی ٹیم ترین گروپ سے آج شام دوبارہ ٹیلی فونک رابطہ کرسکتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ جلد ہی حکومتی ٹیم گروپ سے دوبارہ ملاقات کر سکتی ہے۔
سینئراینکر پرسن تجزیہ کار وصحافی کامران خان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی موجودہ سیاسی تحریک میں ایک دم سے اتنی تیزی کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم ایک مخصوص شخصیت کی بطور آرمی چیف تقرری کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ کامران خان نے کہا کہ عمران خان کی شدید خواہش ہے کہ اس مخصوص شخصیت کی آرمی چیف کیلئے تقرری کا وہ خود اعلان کریں اور اسی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتیں اور خود ادارہ بھی مضطرب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد اس شخصیت کو بطور آرمی چیف تعینات کیا جائے جسے وہ چاہتے ہیں مگر اس حوالے سے ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ کامران خان نے کہا کہ اس شخصیت کے ساتھ آصف زرداری کے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اس لیے وہ اس معاملے پر بالکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کامران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی جنگ فوری طور پر نہ رکی تو وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن اس تحریک کو کامیاب بنا بھی لیتی ہے تو پہلے سے ہی کمزور معیشت کا مزید آئی سی یو میں آخری سانسیں لے رہی ہو گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن بالخصوص نوازشریف، مریم نواز اور شہبازشریف سمیت پوری ن لیگ کے اس شخصیت کے ساتھ شدید اختلافات کی پوری تاریخ موجود ہے۔ کامران خان نے کہا ہے کہ اگر عمران خان واقعی اس متنازع سمت میں چل رہے ہیں تو ان کے قریبی ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ انہیں قائل کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ کی متحدہ پاکستان کے ساتھ کام کرنے کی رضامندی وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کیلئے آصف زرداری نےایم کیوایم کے مطالبات مانے اور کہا کہ ایم کیو ایم کو سندھ میں اختیار دینے کو تیار ہیں، اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی واضح طور پر کہہ دیا کہ ہمیں ایم کیو ایم پاکستان کے مطالبات سے اختلاف نہیں انکے ساتھ کام کرنے کیلیے تیار ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’الیونتھ آور‘ میں میزبان وسیم بادامی سے گفتگو میں کہا کہ ایم کیوایم کےمینڈیٹ کا پہلے بھی احترام تھا اب بھی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وسیم بادامی کے ایک معصومانہ سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلاول نے جب ایم کیو ایم کی مخالفت میں بیان دیے وہ بانی ایم کیوایم کا زمانہ تھا لیکن موجودہ ایم کیو ایم پاکستان بانی ایم کیوایم سے لاتعلقی کا اظہار کرچکی ہے۔ سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے مراد علی شاہ نے کہا کہ گورنر راج کی تجویز بچکانہ ہے اس پر عمل ہی ںہیں ہوسکتا کیونکہ اٹھارویں ترمیم نے گورنر راج کے راستے بند کردیے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں ایم این ایز کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی سب نے دیکھی، ہر کسی کو حق ہے کہ اپنی مرضی سے ووٹ دے، وزیراعظم نے جلسے میں سندھ ہاؤس سےمتعلق عجیب باتیں کیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے ٹی وی پر ایم این ایز پر الزامات لگائے، گالیاں دیں، ایم این ایز نے خود کہا تھا کہ میڈیا سے بات کرنا چاہتے ہیں، ایم این ایز نے انٹرویو میں اپنے اوپر لگے الزامات کی وضاحت کی،پی ٹی آئی رہنماؤں نے الزامات سے سیاست کو گندہ کردیا، یہ لوگ اپنے ہی ایم این ایز پر الزامات لگاتے ہیں۔ پروگرام میں میزبان نے سوال پر کہ کیا یہ غیراخلاقی نہیں کہ جیتیں کسی اور پارٹی سے اور ووٹ کسی اور کو دیں؟ پر وزیراعلیٰ نے مختصر جواب دیا کہ ووٹ صورتحال دیکھ کر دیا جاتا ہے،وزیراعظم کی جانب سے جو نیوٹرل والی بات کی گئی، اس پر آج کل نیوٹرل کو گالی کےطورپرلیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ غیرآئینی وزیراعظم کوآئینی طریقےسےنکالاجارہاہے،عمران خان اعتماد کھوچکےہیں،صدر کواپنا آئینی فرض استعمال ادا کرنا چاہیے، پہلی بارملک میں جمہوریت عمل کومیچورٹی کی طرف لےجایاجارہا،کسی کو کہیں سے کوئی فون نہیں آرہے نہ مجھے کوئی فون کال آئی اور نہ ہی ممبران کو، پہلی مرتبہ جمہوری سسٹم کو نیوٹرل طریقےسےچلنےدیا جارہا ہے۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقوں کا سب کچھ ٹھیک ہونے کا تاثر دینا سیاسی نعرہ اور اپنے آپ کو حوصلہ دینے کے سوا کچھ نہیں،ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان بہت بڑی پیشرفت ہے، ایم کیوا یم پہلی اتحادی ہے جس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے سکتی ہے۔
ناراضی ظاہر کرو تو الزامات لگتے ہیں،عدم اعتماد پر ضمیر کے مطابق ووٹ دوں گا،غفاروٹو پی ٹی آئی کے ناراض رکن قومی اسمبلی غفار وٹو نے دل کی بات کہہ ڈالی، ویڈیو پیغام میں کہاکہ تین سالوں میں اپنے حلقے میں ایک کام بھی نہ کرواسکا،جب کام نہ ہونے پر کوئی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے تو ہم پر الزام لگا دیے جاتے ہیں۔ این اے 166 بہاولنگر سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی غفار وٹو نے پیغام میں کہا کہ میں 2018 میں حلقہ این اے 166 بہاولنگر سے آزاد حیثیت سے جیتا،اور الیکشن جیتنے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، کیوں کہ اس وقت پی ٹی آئی کا نعرہ تھا کرپشن مکاؤ ۔ انہوں نے کہا کہ میں حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں اپنے حلقے میں ایک کام بھی نہ کرواسکا، میرا مطالبہ تھا کہ میرے حلقے کو سی پیک اور موٹروے کے ساتھ لنک کیا جائے لیکن وہ بھی نہ ہوسکا،اور جب ہمارا کام نہ ہونے پر کوئی ناراضی کا اظہار کرتے ہیں تو ہم پر الزام لگا دیے جاتے ہیں۔ غفار وٹو کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی وزار کی جانب سے مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے کروڑوں روپے لیے اور منحرف ہوگیا، میں پیسے لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت بھیجتا ہوں، رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی جہنمی ہیں،میں سندھ ہاؤس گیا ہی نہیں اور وہ جھوٹا الزام بھی مجھ پر لگایا گیا کہ میں سندھ ہاؤس میں تھا، عدم اعتماد پر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دوں گا۔
جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ریاض مزاری نے ایک آڈیو پیغام کے ذریعے حلقے کے عوام سے رائے مانگ لی کہ وہ بتائیں ایسی صورتحال میں ان کے سیاسی رہنما کا کیا کرنا بنتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ریاض مزاری نے اپنے آڈیو پیغام میں 3 سال کے دوران حکومت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے معاملے پر شکوہ کیا اور اپنے حلقے کے لوگوں کو بتایا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ انہیں ملاقات کیلئے بھی وقت نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ پیسے لیکر حکومت کی مخالفت کرنے کا الزام غلط ہے۔ ریاض مزاری نے مزید کہا کہ ہمیں امید تھی کہ جنوبی پنجاب کے مسائل حل ہوں گے، اسی لیے جنوبی پنجاب محاذ کو تحریک انصاف کے ساتھ ضم کیا گیا تھا۔ میں سیاست صرف عزت کیلئے کرتا ہوں جو کہ موجودہ حکومت نے نہیں کی، حکومت ہمارا کوئی کام کر کے راضی نہیں، حلقے کے عوام بتائیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں بھی پیسے لیکر ووٹوں کی خریدوفروخت کی گئی اگر پیسے لیکر ووٹ بیچنا ہوتا تو میں تب یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیتا حالانکہ میرا ان سے بڑا قریبی تعلق ہے مگر میں نے ان سے معذرت کر لی تھی اور حفیظ شیخ کو پارٹی کے کہنے پر ووٹ دیا تھا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے 3 منحرف ارکان نے واپسی کیلئے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ وزیراعظم کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پرویز خٹک نے بتایا کہ اتحادی اور ترین گروپ کے منحرف ارکان میں سے 3 نے واپسی کیلئے رابطہ کیا ہے۔ وزیراعظم نے حکومتی ٹیم کو سیاسی رابطے جاری رکھنے کی ہدایت کی، اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان سےاٹارنی جنرل خالد جاوید نے ملاقات کی، جس میں مختلف قانونی امور پر بھی مشاورت کی گئی، اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت پر بھی بریفنگ دی۔ اٹارنی جنرل نے تحریک انصاف کے کارکنان کے سندھ ہاؤس واقعہ پر عدالتی تشویش سے متعلق وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے پارٹی کارکنان کو ہدایت کی ہے کہ دوبارہ اس طرح کا واقع پیش نہ آئے اور عدالت کا جو بھی حکم آئے اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف سے بغاوت کرکے سندھ ہاؤس میں پناہ لینے والے رکن قومی اسمبلی راجا ریاض اینکر عمران خان کے سخت سوالات پر گھبرا گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ تفصیلات کے مطابق سماء ٹی وی کے پروگرام "احتساب"میں اینکر عمران خان نے راجاریاض سے سوال کیا کہ آپ کی جانب سے تحریک انصاف چھوڑنے پر ایک عوامی ردعمل بھی آرہا ہے ، لوگ آپ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اورلوٹے لے کر باہر نکل رہے ہیں، اس احتجاج سے کوئی دباؤ پڑرہا ہے آپ پر کہ آپ فیصلے پر نظر ثانی کریں؟ راجا ریاض نے جواب دیا کہ کوئی دباؤ نہیں ہے، یہ پاکستان تحریک انصاف کے مقامی عہدیدار 20، 25 کارکنان کے ٹولے آرگنائز کرکے ہماری تصاویر کو آگ لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ہم ایسے ہتھکنڈوں سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔ اینکر عمران خان نے کہ آپ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا یہ نشست پی ٹی آئی کی ہے ، آپ نے تحریک انصاف چھوڑنی ہے تو آپ اس نشست سے بھی استعفیٰ دیں دوبارہ اس حلقے سے الیکشن لڑیں اور جیت کر عمران خان کی پالیسیز کی مخالفت کریں۔ راجاریاض نے کہا کہ ابھی اتنا وقت نہیں ہے مگر یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں اس نشست سے استعفیٰ دیدوں گا۔ عمران خان نے پوچھا کہ 2013 کے انتخابات میں آپ نے اس حلقے سے کتنے ووٹ حاصل کیے تھے؟ راجا ریاض بولے18ہزار ووٹ لیے تھے ۔ عمران خان نے کہا کہ 17ہزار 571 ووٹ لیے تھے آپ نے، 2018 کے انتخابات میں تحریک انصا ف کے ٹکٹ ملنےکے بعد آپ کتنے ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے؟ راجاریاض نے کہا کہ 2013 میں میں نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑا تھا جبکہ 2018 میں قومی اسمبلی کاالیکشن لڑا تھا اور میں نے 1لاکھ7 ہزار ووٹ لیے تھے۔ عمران خان نے ایک بار پھر ان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے 2013 کے ووٹوں کودوگنا بھی کرلیا جائے تو یہ30 ہزار ہوں گے جبکہ 2018 میں آپ نے1لاکھ 14 ہزار215 ووٹ حاصل کیے تھے، اس بار جو آپ کو اضافی ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے ہیں کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ ووٹ راجا ریاض کے تھے یا یہ تحریک انصاف اور بلے کے نشان کا ووٹ بینک تھا؟ تحریک انصاف کے منحرف رکن راجا ریاض نے اعتراف کیا کہ نہیں یہ میرے ذاتی ووٹ نہیں ہیں بلکہ اس میں تحریک انصاف اور عمران خان کے ووٹ شامل ہیں، ہم عمران خان کے ساتھ نیا پاکستان بنانے اور ان کی باتیں سن کر کھڑےہوئے تھے کہ ملک سے مہنگائی ختم ہوگی،نوکریاں ملیں گی کرپشن ختم ہوگی اور باہر سے اربوں ڈالر واپس آئیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ آپ کے اس فیصلے کی ٹائمنگ بہت عجیب ہے آپ پر پیسے لے کر تحریک انصاف سے منحرف ہونے کا الزام بھی ہے، راجا ریاض نے کہا کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی کے ایک پیسے کا بھی روادار نہیں ہوں، آئندہ الیکشن ن لیگ کی ٹکٹ پر لڑنے سے متعلق اسمبلی کی سیٹ سے استعفیٰ دینے کےبعد سوچوں گا۔
سندھ ہاؤس سے تحریک انصاف کے ایم این ایز کی برآمدگی سے قبل دیکھئے سابق وزیراعظم سمیت پی پی رہنما کیا غلط بیانی کرتے رہے؟ حکمران سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کو انہی کی جماعت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں استعمال کرنے کیلئے پیپلزپارٹی نے متعدد ارکان پارلیمنٹ کو سندھ ہاؤس میں رکھا ہوا ہے، اس متعلق جب پی پی رہنماؤں سے پوچھا گیا تو انہوں نے جھوٹ کہا کہ ہمارے پاس سندھ ہاؤس میں کوئی رکن قومی اسمبلی نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی، پی پی رہنما اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی اس حوالے سے انکار کیا جب کہ انہی کی جماعت کے فیصل کریم کنڈی نے یہ ضرور کہا کہ وہاں صرف پیپلزپارٹی کے ارکان کیلئے انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ بھی کہہ چکے تھے کہ وہاں کوئی رکن موجود نہیں۔ میڈیا پر خبریں نشر ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کو ان حکومتی ارکان کو مجبوراً سامنے لانا پڑا، وہاں مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب اور عطا اللہ تارڑ بھی موجود ہیں، جب حکومتی ارکان کے انٹرویوز میڈیا پر آئے تو پتہ چلا کہ یہ ارکان مبینہ طور پر حکومت کے خلاف ووٹ دینے پر رضامند ہیں اور حکومتی ہاتھوں کا کھلونا بن گئے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم بھی اپنے خطاب میں بات کی تھی کہ وہ اس طرح کی خبروں سے واقف ہیں، تاہم پی ٹی آئی کے ایم این اے راجا ریاض نے وزیراعظم کی کرپشن اور مہنگائی کیلئے بنائی گئی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے میڈیا پر آ کر چیلنج کیا کہ عمران خان پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلائیں۔ راجا ریاض نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا لیں اس میں اگر 24 ایم این اے کم نہ ہوں تو میں ذمہ دار ہوں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے ایم این ایز کے بکنے کی خبروں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے پیسے نہیں دیئے ہم نے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینا ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں جو واقعہ پیش آیا وہ کل کو ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے صحافی و اینکر کاشف عباسی نے سوال کیا کہ ضمیر اب کیوں جاگا آپ لوگ ڈھائی سال سے کیا کر رہے تھے؟ عمران خان سے اختلافات تھے تو 6 ماہ پہلے مستعفی کیوں نہیں ہوئے؟ راجا ریاض نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان نے پہلی بار پارلیمنٹ لاجز واقعے میں ارکان کو گرفتار کرایا، ہمیں مہنگائی اور کرپشن کے خلاف عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفی کمال نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کو سپورٹ کرنے کا اعلان کر دیا، کہتے ہیں کہ ہماری تمام اخلاقی سپورٹ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے ساتھ ہے۔ تفصیلات کے مطابق پی ایس پی رہنما مصطفی کمال سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں پی ٹی آئی حکومت کی حمایت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تمام پاکستانیوں کو پتا ہے کہ ملک میں حکومت گرانے اور حکومت بچانے کی گھناونی گیم چل رہی ہے۔ مصطفی کمال نے کہا کہ اگر سندھ کی بات کی جائے تو ایک کیو ایم جو کہ گزشتہ 40 سالوں سے پیپلز پارٹی سے سندھ کے حقوق لینے کی علمبردار تھی آج انہیں کے ساتھ جا بیٹھی ہے اور حکومت گرانے کی سازش کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمران خان صاحب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ آج ایم کیو ایم کا سٹنگ منسٹر جو کہ کیبنٹ منسٹر بھی ہے وہ آصف علی زرداری ، مولانا فضل ارحمان سے مل رہا ہے اور حکومت کو گرانے کے لئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کو وزیراعظم صاحب نفیس کہتے تھے، جن کے میئر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کرپٹ نہیں ہے، اور یہ لوگ اعلی اعلان حکومت کو گرانے کے منصوبوں میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ انہوں نے اپنحی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ اسی وجہ سے وزیراعظم کے لوگوں نے کسی کے ساتھ کچھ خاص رویہ نہیں رکھا ، لیکن سندھ میں پورے پاکستان میں ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باوجود اگر موجودہ حکومت کا نعم البدل ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ہی ہوں گے تو اخلاقی طور پر ہم وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ آج یہ جماعتیں اپنی کرپشن بچانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے لئے رضامند ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی پارٹیاں ہیں جنہوں نے 40 سالوں میں مہاجروں کو حق نہیں دیئے اور موجودہ صورتحال تک پہنچایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں کئی دنوں سے خاموشی سے دیکھ رہا تھا کہ آخر یہ کیا مطالبہ کریں گے، پی ایس پی کا کہنا ہے کہ اس ملک میں 3 آئینی ترامیم ، وزیراعظم وزیراعلی کی طرح لوکل گورنمنٹ کو اختیارات، این ایف سی ووٹ کی طرح پہنچے، فنانس کمشن کا اجرا اور وفاق سے ڈسٹرکٹ کو بی ایف سی ووٹ ڈائریکٹ ہو، ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں جب تک لوکل گورنمنٹ الیکٹڈ نہ ہو تب تک قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشن نہیں ہو سکتے۔ مصطفی کمال نے اپنی بات کے اختتام میں کہا کہ حکومت یہ 3 باتیں آئین میں لکھ دے بس یہی ہمارا مطالبہ ہے۔
حکومت کے اپنی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے مائنس عمران خان کی تجاویز دیناشروع کردی ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی اور ق لیگ کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان خود عہدے سے اتر جائیں تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بچ سکتی ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو حکومت کا بچنا بہت مشکل لگ رہا ہےتاہم ابھی بھی اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو بہت سے آپشنز ایسے ہیں جس سے جمہوریت اور پاکستان کے بچنے کے امکانات ہیں۔ انہوں نے مزید پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بچ سکتی ہے اس کیلئے بہت سارے آپشنز ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے، تاہم عمران خان کا وزیراعظم رہنا مجھے مشکل لگ رہا ہے، اگر ابھی بھی عمران خان چاہیں تو تحریک انصاف کی حکومت کو بچا سکتے ہیں۔ اسی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی صاحب کی بات میں وزن ہے، اگر وزیراعظم یہ جان چکےہیں کہ ان کے خلاف عدم اعتماد نے کامیاب ہونا ہے تو انہیں آخری حد تک ایڈونچرزم کرنے سےگریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ تحریک انصاف سے ہی کسی ایسے آدمی کو آگے لانے کی کوشش کرے جو اتفاق رائے سے وزیراعظم کا امیدوار بن سکتا ہو تو یہ ایک غلط فیصلہ نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف کے ناراض رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے مستعفی ہو کر دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا، کہتے ہیں کہ الیکشن آنے پر مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر الیکشن لڑوں گا۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے سندھ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ کہ پارلیمنٹ لاجز پر حملے کے خدشے کے پیش نظر وہ لوگ سندھ ہاؤس میں موجود ہیں، ہم ووٹ ڈال کر استعفیٰ دیں گے اور دوبارہ الیکشن لڑیں گے، صحیح وقت کا انتظار کررہا تھا، الیکشن آنے پر مسلم لیگ ن سے ٹکٹ لوں گا، ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو ٹکٹ مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی میں سب سے زیادہ کرپشن ہے، کئی نام لے سکتا ہوں جنہوں نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے، جہانگیر ترین سے ڈھائی سال سے جبکہ عمران خان سے بہت عرصے سے اختلافات چل رہے تھے ۔ راجہ ریاض نے کہا کہ حلفاً کہتا ہوں کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی ہے، ایک روپیہ نہیں لیا ہے، کسی سے چھپ کر نہیں بیٹھا ہوں جہاں کہیں گے چائے پینے آجاؤں گا ۔ راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رکن اسمبلی نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ عمران خان گارنٹی دیں تا کہ ارکان جو چاہیں فیصلہ کرسکیں۔وہاں موجود پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو گنا تو وہ 20 تھے تاہم باقی اور لوگ بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب نجی نیوز چینل کے اینکر کاشف عباسی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا کہ سیاست میں لوٹا کیا ہوتا ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ پتا ہے کہ ہم لوٹے نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک خاتون رکن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون رکن ایوان میں لے کر آئی تھیں لوٹا وہ ہوتا ہے۔ اس سے قبل راجہ ریاض نے عمران خان سے پارلیمانی پارٹی س بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دو درجن سے زائد ارکان ہمارے ساتھ ہیں، عمران خان اجلاس بلائیں سب پتا چل جائے گا۔ تحریک عدم اعتماد سے قبل سندھ ہاؤس میں چھپے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی سامنے آگئے جن میں خواتین بھی شامل ہیں، راجا ریاض، نواب شیرو سیر، نور عالم خان، باسط بخاری سمیت 27 ارکان کی جانب سے سندھ ہاؤس میں پناہ لی گئی ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے سندھ ہاؤس سے برآمدہونیوالے تحریک انصاف کے ایم این ایز کو قوم کے ہیروز قرار دیدیا۔ آج سندھ ہاؤس سے تحریک انصاف کے منحرف ایم این ایز منظرعام پر آگئے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ انہوں نے کروڑوں روپوں کے عوض ووٹ بیچے ہیں۔ سندھ ہاؤس سے برآمد ہونیوالے تحریک انصاف کے ایم این ایز کو خواجہ سعد رفیق نے ہیروز قرار دیا اور کہا کہ منحوس تبدیلی سےنجات کیلئےضمیر کی آواز پرلبیک کہنے والے PTIکے اراکین قومی اسمبلی قوم کے ہیرو ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی بدمعاشی کاسامنا کرنے کیلئے سب تیار حکومت اپنی مصنوعی اکثریت کھوچُکی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے مزید کہا کہ متحدہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہہ ریاستی طاقت استعمال کی گىئ تو ایسا کرنیوالے اہلکار قانون کےکٹہرے میں لاۓ جائینگے۔
حکومتی ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردی گئی نجی چینل کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو اہم تفصیلات پیش کردی گئی ہیں پیش کردہ رپورٹ میں قومی اسمبلی کے تمام ارکان خصوصاً پی ٹی آئی ممبران کے حوالے سے بھی تفصیلات شامل ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کو تفصیلات پیش کرنے پر کئی سنیئر رہنما ہکے بکے رہ گئے ، ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں تحریک انصاف کے ایک درجن کے قریب ارکان اسمبلی کے نام شامل ہیں، اس رپورٹ میں معاملات طے کرنیکی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن حکومتی ارکان نے اپوزیشن سے رابطے بڑھائیں ان میں خواتین ایم این ایز بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے ممبران ایسے ہیں جو پہلی بار ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔ سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کو بھی سندھ ہاؤس میں سندھ پولیس کی موجودگی کے حوالے سے بھی بریف کیا گیا جبکہ جہازوں میں پیسے بھر کر اسلام آباد لانے سے متعلق بھی بتایا گیا ہے۔ اس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کی بالکل اجازت نہیں دی جائے گی، سندھ ہاؤس میں جو سرگرمیاں ہورہی ہیں، وفاقی حکومت کے ماتحت خفیہ ایجنسیوں کو اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ سب ایک ساز کے تحت کیا جارہا ہے، عوام ہمارے ساتھ ہیں، تحریک عدم اعتماد کسی صورت کامیاب نہیں ہوگی، عوامی طاقت سے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنائیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ کے بعد حکومت نے بھی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لئے اپنی حکمت عملی کو تیز کردیا ہے، اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے دباؤ کو کسی صورت خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ ایکسپریس نیوز کے ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے ناراض ارکان سے گلہ کیا گیا کہ آپ نے اپنا سیاسی کیریئر داؤ پر لگا دیا، لوگ بھی معاف نہیں کریں گے۔ جبکہ ناراض ارکان کی جانب سے جواب دیا گیا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا لوگ جلد بھول جاتے ہیں، آئندہ کی صورتحال دیکھ کر فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 21 مارچ کو بلایا جائے جبکہ پارٹی رہنماؤں کی جانبب سے وزیراعظم کو پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس بلا کر ارکان کی حاضری کا پتہ چل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے منحرف ارکان سے رابطوں کا ٹاسک پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی کو دے دیا۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ ہم کسی حکومتی رکن کے سر پر بندوق رکھ کر ووٹ نہیں لے رہے، حکومتی اراکین خود اس حکومت سے بیزار ہیں اور آئندہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا نہیں چاہتے،ہم کسی کے سر پر بندوق رکھ کر ووٹ نہیں لے رہے، حکومتی اراکین خود حکومت سے بیزار ہیں، حکومت مسلسل انہیں دھمکیاں دے رہی ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام"آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ" میں میزبان نے مصطفیٰ نوازسےسوال پوچھا کہ وزیراعظم الزام لگارہے ہیں کہ اسلام آباد میں واقع سندھ ہاؤس اس وقت جوڑ توڑ کی سیاست کا گڑھ بناہوا ہے،حکومتی اراکین کو وہاں چھپا کر رکھا جارہا ہے اور پیسوں کی بوریاں چل رہی ہیں۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نےجواب دیا کہ وزیراعظم صاحب نےپہلی بار الزام نہیں لگایا انہوں نے ہمیشہ الزامات کی سیاست ہی کی ہے، اس وقت حکومت کے اپنے پاؤں زمین پر نہیں ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ ان کے اپنے اراکین کارکردگی کی معاملے پر ان سے نالاں ہیں اور اسی وجہ سے وہ آئندہ الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر نہیں لڑنا چاہتے۔ میزبان نے سوال کیا کہ اگر حکومتی اراکین ناراض ہیں حکومت سے تو آپ نے انہیں چھپا کر سندھ ہاؤس میں کیوں رکھا ہوا ہے؟ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سندھ ہاؤس میں کسی کو چھپا کر نہیں رکھا گیا وہاں ہمارے اپنے ارکان ضرور موجود ہیں، وفاقی وزراء نے جیسے ڈی چوک میں 10 لاکھ لوگ جمع کرنےکا اعلان کیا اور جیسے دھمکیاں دیں اس کے بعد ماحول کو تلخ کیے جانے کی کوشش کی جارہی ہیں ایسے میں ہمیں حق ہے کہ ہم اپنے اراکین کے تحفظ کیلئے اقدامات کریں۔ رہنماپیپلزپارٹی نے کہا کہ اسلام آباد میں کون سے سیف ہاؤس ہیں جہاں ہم نے ان کے لوگوں کو چھپانا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو اپنے لوگوں پر اعتماد نہیں ہے ان کے اپنے اتحادی ان کے ساتھ نہیں کھڑے،ان کے ارکان میں سے ایک کثیر تعداد ہے جو حکومت کو ووٹ نہیں دینا چاہتی اور اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر رکن اسمبلی کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنا ووٹ کا حق استعمال کرے، حکومت اپنےلوگوں سےیہ حق ہی چھین رہی ہے ، کسی کے سر پر بندوق پر رکھ کر ہم کسی سے ووٹ نہیں لے سکتے، یہ حکومتی ارکان اپنی مرضی اور منشاء سے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں گے اور ووٹنگ کے دن یہ حکومتی بینچز پر بیٹھنے کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھیں گے اور علی العلان حکومت کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔
حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے باعث اسلام آباد سیاسی کشیدگی کا مرکز بن گیا ہے، دوسری جانب سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے حکومت سے متعلق ایک بڑا دعویٰ بھی کردیا ہے۔ خبررساں ادارے جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتےہوئے حامد میر نے دعویٰ کیا کہ ایک حکومتی وزیر نے انہیں خود کہا ہے کہ وہ بہت برا پھنس گئے ہیں ہمارے لیے کوئی راستہ نکالیں۔ حامد میر نے کہا کہ اس حکومتی وزیر نے گزشتہ رات مجھے ملنے کی دعوت دی اور خفیہ طریقے سے ایک خفیہ مقام پر بلایا گیا ، ان کے شدید اصرار پر میں ان سے ملنے بھی گیا تب انہوں نے یہ بات کی اور ساتھ ہی منع کیا کہ میں یہ بات کسی کو نہ بتاؤں، اسی طرح حکومتی اتحادی جماعت کے رہنما کے اصرار پرمیں جب ان سے ملا تو انہوں نے بھی بہت ساری باتیں کی مگر کسی کو بتانے کا منع کیا۔ حامد میر نے کہا کہ اس وقت پیپلزپارٹی اور ن لیگی کیمپوں میں خاموشی ہے، میڈیا پر حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے جو بھی باتیں آرہی ہیں وہ نامکمل ہیں اور صرف 20 فیصد چیزیں میڈیا پررپورٹ ہورہی ہیں، تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ حکومتی اتحادی وزیراعظم کے ادھر ادھر چکر کاٹنے پرخوش ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ اس وقت سیاسی میدان میں ایک دوسرے کو شکست دینے کیلئے گمراہ کرنےکاہتھیار استعمال ہورہا ہے اور میڈیااس ہتھیار میں استعمال ہورہا ہے، شروع میں اپوزیشن اور حکومت دونوں اوور کانفیڈنس کا شکار تھیں۔ جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کی ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات اور ڈی چوک اسلام آباد میں کارکنان کو جمع کرنے کے ارادے کشیدگی کو مزید ہوا دے رہے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دارالحکومت میں معاملہ خانہ جنگی کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ حامدمیرنے کہاکہ اسلام آباد کی اپنی آبادی 20 لاکھ نہیں ہے اور اگر یہاں ایک پارٹی نے فیض آباد چوک اور دوسری نے ڈی چوک میں دھرنے دے دیئے تو پھر ہمارا کیا ہوگا، اس وقت میڈیا کراس فائر کی زد میں آیا ہوا ہے دونوں جانب سے یہ خواہش ہے میڈیا پر ان کا بیانیہ فروغ پائے۔
کیا اپوزیشن کا ساتھ دیکر بھی چوہدری برادران وزارت اعلیٰ لے پائیں گے؟ حمزہ شہباز کے ترجمان نے نیا پینڈوراباکس کھول دیا نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے مطابق حمزہ شہباز کے ترجمان نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کے ترجمان عمران گورائیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق شہباز حمزہ شہباز کے ترجمان عمران گورائیہ نے ایک صحافی کے سوال پر کہا کہ اگلے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز ہوں گے۔ میڈیا رپورٹس میں دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ن لیگ پرویزالٰہی کووزیراعلیٰ بنوانے کاخواب دکھا رہی ہے جب کہ اصل امیدوار حمزہ شہباز ہیں۔ گزشتہ روز حمزہ شہبازکی ترین گروپ سے ملاقات ہوئی تھی، جس میں ملکی سیاسی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا گیا ، ذرائع مسلم لیگ ن نے کہا تھا کہ ترین گروپ نےفون کر کے ملنے کی خواہش کی، پہلے ترین گروپ کا مؤقف سنیں گے پھر بات آگے بڑھے گی۔ جبکہ اب دعوے کیے جا رہے ہیں کہ حمزہ شہباز ترین ہاؤس اپنے لیے لابنگ کرنے آئے تھے۔ ملاقات میں ترین گروپ نے کہا کہ ذہنی طور پر حکومت سےعلیحدگی کے لیے تیار ہیں، ہمیں آئندہ ٹکٹوں کی یقین دہانی کرائی جائے، مائنس بزدار پر ہم ن لیگ کیساتھ ہیں۔ دعویٰ یہ کیا جارہا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوں گے، اس سلسلے میں مختلف ٹی وی چینلز نے خبریں بھی چلائیں لیکن حمزہ شہباز کے ترجمان نے صورتحال یکسر تبدیل کردی۔ صحافی عامرمتین کے مطابق پرویزالٰہی کو اگر وزارت اعلیٰ نہ ملی تو وہ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے رہیں گے، ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ان 5 سیٹوں سے بھی محروم ہوجائیں۔ بعض تجزیہ کار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ن لیگ کی پرویزالٰہی کو وزارت اعلیٰ کی آفر کی خبر خود ق لیگ چلوارہی ہے۔ ترین گروپ کا کہنا تھا کہ تعاون طویل مدت ہونا چاہیے، مسائل کے باعث حلقوں میں جانا مشکل ہے، جس پر حمزہ شہباز نے کہا کہ آپ کےجذبات قیادت کے سامنے رکھیں گے اور پنجاب سے متعلق سب سے مل کر بہتر فیصلے کریں گے۔ اے آر وائے کے مطابق عون چوہدری نے حمزہ شہباز کی جہانگیرترین سے بات بھی کرائی اور دونوں رہنماؤں نے سیاسی فیصلے مل کر کرنے پر اتفاق کیا۔

Back
Top