سیاسی

افواج پاکستان میں خدمات دینے والے ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم پی ای ایس ای (پاکستان ایکس سروس مین سوسائیٹی) کی جانب سے موجودہ حکومت کے خلاف گھڑی گئی سازش کے خلاف کھڑےہونے کیلئے قوم سے اپیل کی گئی ہے اور واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں افراتفری پھیلانے والے وطن کے غدار ہیں۔ پاکستان ایکس سروس مین سوسائیٹی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ لوگ اور پارلیمنٹیرینز جو امریکہ کی ایماء پر حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ملک میں افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ سب غدار وطن ہیں۔ سابق فوجیوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ محب وطن پاکستانیوں پر لازم ھے کہ وہ انکا احتساب کریں اور شکست دیں۔ پاکستانی عوام ایک غیور قوم بن کے ابھریں اور دنیا کو بتا دیں کہ پاکستانی بکاؤ مال نہیں۔ اس سے قبل میجر جنرل (ر) جاوید اسلم طاہر نے بھی پاکستانی عوام سے یہی اپیل کی تھی۔ تاہم تنظیم کی جانب سے ایک باقاعدہ اپنا بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا ہے کہ سابق فوجی پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے جائز اور اخلاقی طور پر پابند ہیں۔ پاکستان ایکس سروس مین سوسائیٹی کا مزید کہنا ہے کہ سیاسی استحکام کا براہ راست تعلق قومی سلامتی سے ہے۔ غیر ملکی جارحیت کو ختم کرنے کے لیے موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو جاری رہنا چاہیے۔
سینئرصحافی نسیم زہرہ نے دھمکی آمیز خط کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر اسد کو کہا گیا کہ جب تک وزیراعظم عمران خان ہیں تعلقات بہتر نہیں ہونگے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں نسیم زہرہ نے بتایا کہ امریکی انڈر سیکریٹری اسٹیٹ نے پاکستانی سفیر کو ملاقات کیلئے بلایا۔ جہاں ڈاکٹر اسد کو کہا گیا جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں تعلقات بہتر نہیں ہونگے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید کو بتایا گیا کہ عمران خان کے جانے پر پاکستان کی غلطیاں معاف ہوسکتی ہیں۔ سرکاری ملاقاتوں میں ایسی غیرمعمولی اور سخت بات چیت حیران کن ہے، سب کو چاہیے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز رویے کی مذمت کریں۔ نسیم زہرہ کے علاوہ صحافی انصار عباسی نے بھی ان کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا اور کہا کہ یہ انتہائی قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد ضرور کرے لیکن امریکا کی اس بے ہودگی پر آواز بھی اُٹھائے یاد رہے کہ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان آج شام قوم سے خطاب کرینگے، گذشتہ روز انہوں نے اپنا قوم سے خطاب مؤخر کردیا تھا۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آج رات قوم سے خطاب کریں گے۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیا ہے؟ کیا ملکی دفاع ،خود مختاری،سالمیت اور استحکام کیلئے انیس سو تیئیس چوبیس کے اس سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق اب بھی ہوسکتا ہے، اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں میزبان ارشد شریف نے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے حوالے سے سوال پوچھا۔ میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ میں نے بھی اس ایکٹ کو پڑھا ہے اورجب وردی پہنی تو چونتیس سال اس پر عمل بھی کیا ہے، آج بھی کررہے ہیں،اگر سنگین نتائج کی دھکمی ایک ملک کو ملتی ہے تو اس دھمکی کو خفیہ رکھنا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ذمہ داری نہیں بنتی،وزیراعظم ہو یا کوئی بھی ریاستی حکام اس کو اس دھمکی کو بتانا ہوتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ دشمن کے عزائم کو بے نقاب کرنا وزیراعظم، آرمی چیف اور تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے،تاکہ پوری قوم اس کیلئے تیار ہوسکے، میڈیا کو بتانا اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہن سازی میڈیا کے ذریعے ہوتی ہے،بائیس کروڑعوام کو دھمکی کے حوالے سے وزیراعظم کان میں جاکر نہیں بتائیں گے۔ میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ آرمی چیف کی اس لئے ذمہ داری ہے کہ اگر دھمکی عسکری نوعیت کی ہے تو تمام افواج اپنی تیاری کریں،اگر معاشی دھمکی ہے تو پوری قوم نے معیشت کا بوجھ اٹھانا ہے،اس لئے ہر طبقے کو بتانا ضروری ہے کہ یہ مشکلات آسکتی ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ مختصر یہ کہ دشمن کی جو دھمکیاں ہیں، جو ریاست کو دی جارہی ہے جو پاکستان کے استحکام کو متاثر کرسکتی ہے،اس دھمکی کا دفاع کرنا ذمہ داری نہیں ہے،اس سے آشکار اور قوم کو آگاہ کرنا ذمہ داری ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے خفیہ دستاویز پبلک کرنے کے حوالے سے دائر درخواست پر اپنے تحریری حکم نامے میں کہ توقع ظاہر کردی کہ وزیر اعظم اپنے حلف کے عین مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی میں کوئی بھی خفیہ معلومات پبلک نہیں کریں گے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہری نعیم خان ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی تھی،جس میں وزیراعظم عمران خان، سیکرٹری قانون اور سیکریٹری خارجہ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو سیکریٹ دستاویز پبلک کرنے سے روکا جائے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم کا بیان آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کی خلاف ورزی ہے ۔ انہیں سیکریٹ دستاویز یا اس کا متن جاری کرنے سے روکا جائے،عدالت نے درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹاتے ہوئے چار صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار نے مبینہ دھمکی آمیز خط سے متعلق بڑا دعویٰ کردیا اور خط جعلی قرار دینے والوں کو چیلنج کردیا۔ وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے دھمکی آمیز خط کے حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں کہا کہ دھمکی آمیز خط حقیقت ہے اگر یہ جعلی ثابت ہوا تو میں ہمیشہ کیلیے سیاست چھوڑ دوں گا۔ عثمان ڈار نے دوران پروگرام ہی شریک دوسرے مہمان بی اے پی رہنما خالد مگسی کو پیشکش کی کہ اگر دھمکی آمیز یہ دستاویز آپ کو دکھادیں تو کیا آپ اپنا حکومت سے علیحدگی اور اپوزیشن سے اتحاد کرنے کا فیصلہ بدل لیں گے، انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ خالد مگسی کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ملک اور قوم کے مفاد میں ہوگا۔ عثمان ڈار نے مزید کہا کہ میں تو کہہ رہا ہوں کہ اگر دھمکی آمیز دستاویز غلط ثابت ہوئی تو میں ہمیشہ کیلیے سیاست چھوڑ دونگا لیکن اگر یہ خط درست ثابت ہوا تو کیا مفتاح اسماعیل سیاست چھوڑ دینگے۔ عثمان ڈار نے کہا کہ دھمکی آمیز خط ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، یہ قطری خط نہیں بلکہ تصدیق کیلئے ہم نے چیف جسٹس کو دکھانے کی آفر کی ہے، یہ دھمکی آمیز مراسلہ دوسرے ملک کی جانب سے آیا ہے اور یہ دستاویز تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے بھیجا گیا ہے۔ دستاویز میں واضح کہا گیا کہ عمران خان کو نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دستاویز میں بھی اپوزیشن کو نالائق ہی لکھا گیا، یعنی دھمکی دینے والوں کو بھی اپنے سہولت کاروں پر اعتماد نہیں ہے،عمران خان آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں اسی لیے بہت مخالفت ہے اور اپنے نظریے پر کھڑا رہنے کی ہی وہ قیمت ادا کررہے ہیں۔ کیا امریکی صدر بائیڈن رجیم چینج کی باتیں نہیں کر رہا۔ عمران خان واضح کہہ چکے ہیں کہ کبھی جھکوں گا اور نہ اپنی قوم کو جھکنے دوں گا۔ عثمان ڈار کا مزید کہنا تھا کہ پاور پلے میں اپوزیشن اچھا کھیلی اب ہماری باری ہے۔ چوکے چھکےمار رہے ہیں، ایم کیو ایم سے متعلق بھی کل تک خوشخبری مل جائیگی،عثمان ڈار نے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد پانچ یا چھ ووٹوں سے ناکام ہوجائے گی، ایم کیو پاکستان اور باقی دیگر اتحادی بھی ہمارا ساتھ دینگے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کو دھمکی آمیز خط سے یورپی یونین لاعلم ہے، سیکیورٹی ذرائع نے عالمی سازش کی تصدیق سے انکار کردیا،وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ افسر نے دھمکی آمیز خط کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ وزیر اعظم عمران خان نے جلسے میں خط دکھا کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت گرانے کی عالمی سازش ہو رہی ہے اور انہیں دھمکی آمیز خط ملا ہے،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیر اعظم عمران خان سے دھمکی آمیز خط قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سینئر تجزیہ کار ظفر ہلالی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم اس خط میں کیا ہے مگر یہ خط اگر اتنا ہی خطرناک ہوتا کہ جس پر فوری ایکشن ضروری تھا تو اس خط کے پہنچنے سے پہلے ہی یہاں اس کیلئے کام شروع ہو چکا ہوتا۔ جی این این کی نشریات میں میزبان نے ظفر ہلالی سے پوچھا کہ اتنی دیر کیوں کر دی وزیراعظم نے یہ سب بتانے میں جس پر ظفر ہلالی نے بتایا کہ پاکستانی فوج کے اتاشی اور بہت بڑی ملٹری یونٹ امریکا میں موجود ہے جس سے ہر طرح کی معلومات ہو کر گزرتی ہے۔ تجزیہ کار نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اتنی اہم معلومات اور اتنی خطرناک صورتحال ہوتی اور فوج کو پتہ ہی نہ ہوتا، ظفر ہلالی نے کہا کہ ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے کہ جب امریکا ناراض ہوتا ہے تو وہ بلا کر بتاتا ہے کہ اس کے یہ تحفظات ہیں اور اس پر بہت سختی بھی دکھاتا ہے یہ کچھ نیا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جب امریکا میں تھے تو دیکھتے تھے کہ بطور سفارتکار ان کے ساتھ امریکا کا رویہ کیسا ہوتا تھا اور اس طرح کے خطوط چلتے رہتے تھے۔ مگر میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہو کہ خط میں اتنی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کی گئی اور اس پر فوج نے کچھ نہ کیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ خط اتنا خطرناک ہوتا تو اس دستاویز کہ یہاں پہنچنے سے پہلے ہی اس مسئلے کے سدباب کیلئے یہاں کام شروع ہو چکا ہونا تھا۔ اس دھمکی آمیز خط سے متعلق انہوں نے یہ بھی کہا کہ سب جانتے ہیں لندن میں کیا ہو رہا ہے۔ ظفرہلالی نے کہا کہ کسی سے نہیں چھپا کہ نوازشریف وہاں کس سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور وہ کہاں جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتحال سے اب لوگ آگاہ ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب پرویز الٰہی پر ڈبل بوجھ آگیا ہے ایک انہیں خود وزیراعلیٰ بننا ہے اور پھر باقی لوگوں سے بارگیننگ بھی کرنی ہے۔ جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کاروں نے کہا کہ عمران خان نے پرویز الٰہی کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لئے پی ٹی آئی کے پنجاب سے جو ایم این ایز ہیں انہیں واپس لے کر آئیں. صحافیوں کا خیال ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو اس کے سنجیدہ مضمرات ہوں گے،وفاق میں تحریک عدم اعتماد پہلے سے ہی پیش ہے پرویز الٰہی کو صوبائی حکومت بنانے سے پہلے وفاق کو بچانا پڑے گا۔ جب کہ تجزیہ کار حامد میر نے کہا اصل جوڑ آصف زرداری اور عمران خان کے درمیان ہے ویسے تو اب چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ جاکر کھڑے ہوگئے ہیں مگر لڑائی تو ابھی بھی عمران خان سے ہی ہے۔ حامد میر نے کہا کہ مختلف افواہیں پھیل رہی تھیں، پہلے خبر یہ پھیلائی گئی کہ شام کوپرویز الٰہی اور زرداری کی ملاقات ہوگی اس کی زرداری ہاؤس نے تردید کی۔ پھر کہا گیا زرداری نے ن لیگ سے کہا ہے کہ آپ کی وجہ سے پرویز الٰہی چلے گئے ہیں کیوں کہ آپ نے فیصلہ نہیں کیا اس کی رانا ثناء اللہ نے تردید کردی۔ نواز شریف کی اجازت سے اور پرویز الٰہی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایادعائے خیر ہوئی پھر پرویز الٰہی نے جاکر زرداری کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کی مہربانی سے میرا کام ہوا ہے۔ حامد میر نے کہا میری پرویز الٰہی سے بات ہوئی تو پرویز الٰہی نے یہی کہا کہ مجھے عمران خان نے جو پیشکش کی ہے مسلم لیگ ن کا بھی میں شکر گزار ہوں پیپلز پارٹی کا بھی شکر گزار ہوں۔ حامد میر کا دعویٰ ہے کہ بنیادی طور پر زرداری نے ن لیگ کو قائل کیا تھا کہ آپ پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ قبول کریں اور ن لیگ اس پر راضی بھی ہو گئی۔
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان ہونےو الا معاہدہ بھی منظر عام پر آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق آج حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے اپوزیشن کے ساتھ اپنے معاہدہ کو حتمی شکل دینےکے بعد حکومت سے علیحدگی اور عدم اعتماد میں اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ معاہدے کیے ، ن لیگ کے ساتھ ہونے والا معاہدہ منظر عام پرآگیا ہے جس پر مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف، ایم کیو ایم کے کنوینئر خالدمقبول صدیقی اور گواہ خواجہ سعد رفیق کے دستخط موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ ایم کیو ایم کا27 نکات پر مشتمل معاہدہ طےپایا ہے جس کے مطابق ایم کیو ایم کو سندھ کے شہری علاقوں کا بڑا اسٹیک ہولڈر تسلیم کیا جائے گا اور اسے تمام فیصلوں کی مشاورت میں شامل کیا جائے گا، شفاف انتخابات کے انعقاد سے قبل سندھ میں شفاف مردم شماری کروائی جائے گی، جبکہ آئی جی سندھ اور چیف سیکرٹری کی تعیناتی کیلئے بھی ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق لاپتہ افراد کی تلاش کیلئےسنجیدہ کوششیں کی جائیں گی، کیسز ہونے پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، جعلی اور جھوٹے مقدمات قانون کے مطابق ختم کیے جائیں گے، سرکاری ملازمتوں کیلئےسندھ کے کوٹہ سسٹم پر عملدرآمد کیا جائے گا، بلدیاتی نظام سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا جائے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ن لیگ سے جو مطالبات منوائے ان میں ایم کیو ایم کے تنظیمی دفاتر کھولنے کیلئے مدد اور ایم کیو ایم کی سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی کے خاتمہ بھی شامل ہے۔ ایم کیو ایم نے ن لیگ سے کراچی کے منصوبوں خصوصا کے فور اور سرکلر ریلوےکی ترجیحی بنیادوں پر تکمیل، کراچی کے تاجروں کیلئے خصوصی مراعاتی پیکج کے اعلان، ساحلی علاقوں کوعالمی سطح کے مطابق ترقی دینے کیلئے اقداما ت کرنے کا بھی مطالبہ منوایا ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے میں آزادی اظہار رائے پرپابندی اور پیکا آرڈیننس کو واپس لینے کے مطالبے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے، معاہدے کے مطابق دونوں فریقین اس کی روح کے مطابق معاہدے کی تکمیل کی پابندی کریں گے۔
مختلف چینلز یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ حکومت کی اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم (پاکستان) نے بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا، متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے، جس پر دستخط ہوگئے ہیں۔ مگر اسکا حتمی اعلان ہونا باقی ہے جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم اور اپوزیشن میں معاملات طے پاگئے ہیں صرف اعلان ہونا باقی ہے۔ گزشتہ رات ایم کیوایم اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوئے جس کے بعد پریس کانفرنس متوقع تھی لیکن ایم کیوایم نے حتمی فیصلہ رابطہ کمیٹی پر چھوڑدیا۔ اس پر بلاول، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان اور شہبازشریف کو پارلیمنٹ لاجز آنا پڑا اور ایم کیوایم سے اعلان کرنے کیلئے اصرار کرنا پڑا جسے مختلف صحافیوں نے سخت ناپسند کیا۔ اس پر اینکر عمران خان نے تبصرہ کیا کہ ایم کیو ایم کو پورٹ اینڈ شپنگ سمیت 3 وزارتیں، گورنر سندھ کا عہدہ اور شہری سندھ میں سیاسی مفادات پر مدد۔ اپوزیشن کی آفرز پر معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی۔ خان حکومت کے پاس چند گھنٹے باقی۔ کیا وہ اس سے کچھ زیادہ یا اتناآفر کر سکتے ہیں؟ صحافی فہیم اختر نے تبصرہ کیا کہ فیصلے دن کی روشنی میں ہوتے ہیں رات کی تاریکی میں تو کاروائیاں ڈالی جاتی ہیں۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم کا بڑا مطالبہ تھا 2017 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم ظاہر کی گئی،پی ٹی آئی نے نئی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا، اب وہی ایم کیو ایم 2017 کی مردم شماری کرنے والی جماعت ن لیگ کے ساتھ ملنے جارہی ہے، یہ سب کون کرا رہا ؟ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ صحافی ہارون رشید کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے ایک بار پھر کراچی کو بیچ دیا۔ نفرت سے بھری پیپلز پارٹی کو۔ کوٹہ سسٹم' کراچی سے وصول کھربوں کےٹیکس کی لوٹ مار۔ جعلی ڈومیسائل کے بل پہ بے روزگاری۔ انتہا یہ ہے کہ کوڑا اٹھانے اور نالے صاف کرنے سے گریز۔ کب تک ان بہروپیوں کو خلق خدا برداشت کرے گی؟ مبشرزیدی نے ایم کیوایم کو "متحدہ قیمتی موومنٹ" کہہ کر مخاطب کیا۔ انصار عباسی کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران پاکستانی سیاست کی جو “خوبصورتی” دیکھی اُس کا اخلاقیات سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں۔ کوئی اصول نہیں، بس اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جس کے لیے ریس اس بات کی ہے کہ کون کتنا گرتا ہے۔ افسوس کے کسی ایک کی محبت یا دوسرے کی نفرت میں ہم میڈیا والوں کا بھی یہی حال ہے ڈان لیکس کے اہم کردار سرل المیڈیا کا کہنا تھا کہ کوئی نیوٹرل نہیں ہے، تمام حمایت اپوزیشن کے ساتھ ہے جسے اجازت مل گئی ہے کہ حکومت گرادے۔ رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ عمران خان صاحب کو ایم کیو ایم کو ڈپٹی وزیراعظم کی پیشکش کرنی چاہئے، مان جائے گی۔۔ کیا ہرج ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی اور وزارت اعلی کے ممکنہ امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ نے اپوزیشن جماعتوں کےساتھ ڈیل فائنل نہ ہونے سے متعلق وجوہات کا انکشاف کردیا ہے۔ خبررساں ادارے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے چوہدری پرویز الہیٰ نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد خصوصا پنجاب میں ن لیگ سے ڈیل پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے کی بہت سے وجوہات ہیں، سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیں صرف چند ماہ کیلئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینا چاہتے تھے۔ مریم نواز کی وجہ سے ڈیل نہیں ہوئی ، مریم بی بی کو ہم پسند نہیں تھے۔ انہوں نے کہا دوران ڈیل ہمیں یہ اطلاعات ملیں کہ اپوزیشن نے ہمیں 3 سے 4ماہ کیلئےوزارت اعلی دینے کا پلان بنایا ہے، ہم نے اس کے باوجود پی ٹی آئی کے وفد کو جواب دیا کہ ہمیں اعتماد نہیں ہے تاہم پی ٹی آئی کے دوستوں نے جواب دیا کہ ہم کل اپنی آفر کے ساتھ دوبارہ آئیں گے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ فطری طور پر ہم پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں، ہم نے ہرسطح پر مشاورت کی، پارٹی ،ووٹرز اور حلقوں میں بات کی،طارق بشیر چیمہ بھی ہر مشاورت کا حصہ تھے مگر بعد میں انہیں یہ فیصلہ پسند نہیں آیا اور انہوں نے کہا کہ میں نے ساڑھے تین سال اس حکومت کے ساتھ گزارا کیا ہے اب میں مزید ان کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ پرویز الہیٰ نے کہا کہ ہم طارق بشیر چیمہ کو منانے کیلئے ابھی بھی کوششیں کررہے ہیں، ہم پنجاب کی وزارت اعلی اور عمران خان دونوں کو بچائیں گے، شہباز شریف ن لیگ کے صدر ضرور ہیں مگر وہ اپنی بھائی کے ویٹو کی پاور کو ختم نہیں کرسکتے، نواز شریف کی ہمیں وزارت اعلی دینے کی رضامندی کے باوجود ہمیں اطلاعات ملیں کہ ن لیگ میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہواہے۔ رہنما ق لیگ کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی کا پیغام نہیں ملا، بنی گالا میں عمران خان سے ملاقات کیلئے گئے تو وہاں وزیراعظم نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا جو فوری طور پر میڈیا میں رپورٹ ہوگیا، آج بھی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران میں نے ان سے ایم کیو ایم کے مطالبات کے حوالے سے بات کی جس پر وزیراعظم نے وزیر دفاع پرویز خٹک سے رپورٹ مانگی تو پرویز خٹک نے کہا کہ ایم کیو ایم آن بورڈ ہے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار ثناءبچہ نے کہا ہے کہ عمران خان سے بڑا کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے۔ ایکسپریس نیوز کےپروگرام"ٹو دی پوائنٹ" میں اینکر پرسن منصور علی خان نے ثنا ءبچہ سے سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد جو نظام آئے گا وہ کتنا طاقتور ہوگا، عمران خان اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوں یا ناکام ، عدم اعتماد کے بعدسیاسی نظام ملک کیلئے کیا کرسکے گا؟ ثناء بچہ نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک کا مسئلہ ایک حکومت کو گرا کر دوسری حکومت لانا یا ایک انفرادی شخص کو ہٹا کر اس کی جگہ کوئی دوسرا انفرادی شخص لانا نہیں ہے، اصل مسئلہ نظام کی کمزوری اور نظام کا نہ چلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے "قومی کے وسیع تر مفاد" میں اتنےفیصلے کیے ہیں کہ آج ان سے فیصلہ ہی نہیں ہورہا، اس ملک میں طاقت کی جنگ چلتی رہے گی جب تک نظام کو مضبوط نہیں کیاجائے گا، اداروں کو آئین میں اپنی اپنی وضع کردہ حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ ثناء بچہ نے کہا کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ سپریم ہے تو اسے مانیں اور وہاں فیصلے ہونے دیں، پارلیمنٹ عوام کی عدالت ہے ، وہاں موجود لوگوں کو عوام نے ہی منتخب کرکے بھیجا ہے،اگر ایوان میں موجوداراکین کی بےتوقیری کرتے ہیں تو آپ عوام کی بے توقیری کرتے ہیں، اگر کوئی اپوزیشن کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی اور کےووٹ کی بےعزتی کررہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ جب تک پارلیمنٹ کو سپریم نہیں سمجھا جائے گا اور "قوم کے وسیع ترمفاد میں" فیصلےکرنا بند نہیں کریں گے تب تک اس ملک میں یہی سب چلتا رہے گا، یہاں طاقت کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گا، کیونکہ ہرکسی کو طاقت چاہیے۔ انہوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے جس طرح اس معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے ، میرے خیال میں کوئی ان سے بڑا ڈکٹیٹر کوئی بھی نہیں ہے، وہ ہر طرح سے ایک بڑے ڈکٹیٹر ہیں،وہ بولتےبھی ایک ڈکٹیٹر کی طرح ہیں اور سوچتے بھی ایک ڈکٹیٹر کی طرح ہی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے بڑی خبر سنا دی، کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آسف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو بڑی آفر دے دی۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کی خصوصی ٹرانسمشن میں گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ آج تحریک انصاف حکومت کی جانب سے پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر نامزد کرنے والے فیصلے پر آصف علی زرداری صاحب پاکستان مسلم لیگ ن سے خاصے نالاں ہیں کیونکہ سابق وزیراعظم نواز شریف اس بات پر بضد تھے کہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز نہیں بھی ہو سکتی تو بھی کوئی ان کی فیملی سے ہی ہونا چاہیئے، جس پر زرداری صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ عارف حمید بھٹی کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین زرداری صاحب نے ایک کیو ایم کو بڑی آفر دی ہے کیوںکہ ان کے پاس 7 لوگ ہیں جو جس بھی سائیڈ پر جائیں گے ادھر کا پلہ بھاری ہوجائے گا، پی پی پی نے ایم کیو ایم کو آفر دی ہے کہ وہ کراچی اور حیدر آباد کا ایڈمنسٹریٹر لگوا لیں، وزارت بلدیات لے لیں اور گورنرشپ لے لیں، اسی طرح حکومت کی جانب سے بھی کچھ آفرز ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کون بازی لے جاتا ہے۔ مسلم لیگ ق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس 5 لوگ تھے جبکہ بی اے پی کے پاس بھی 5 ہی لوگ تھے، تاہم ق لیگ کے ساتھ مسلم لیگ ن کے 15 سے زائد لوگ ہیں جن میں سے3 قومی اسمبلی کے رکن ہیں، 2 ن لیگی ارکان کا تو بیان بھی منظرعام پر آگیا ہے، اس سب کے اثرات سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس پر بھی ہوں گے، صرف نتیجے کا انتظار ہے۔ دوسری جانب تجزیہ کار اور پروگرام اینکر سعید قاضی نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری سیاست کی نہایت زیرک شخصیت ہیں، انہوں نے جب کسی کو مبارکباد دی تو وہ بھی خاصی خطرناک ہوتی ہے۔ خصوصی ٹرانسمشن میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اور سعید قاضی نے کہا کہ جب آصف علی زرداری صاحب کوئی بات کہتے ہیں تو غور سے سننی پڑتی ہے، میں بذات خود ان کا بہت بڑا مداح ہوں، جب انہوں نے رانا ثنا اللہ کو محترم وزیر داخلہ اور شہباز شریف صاحب کو محترم وزیر اعظم کہہ کر مخاطب کیا تو یہ قبل از وقت تھا تاہم جب وہ کچھ کہتے ہیں تو اس میں کوئی بات تو ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنا تبصرہ جاری رکھتے ہوئے پرمزاح انداز میں کہا کہ سوچنا پڑتا ہے کہ زرداری صاحب 'ساڈے نال کی کرن لگے نیں'۔ ہم سب کے فیصلے آپس میں بندھے ہوئے ہیں، اگر میں کوئی فیصلہ کروں اور سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی صاحب آجائیں تو مجھے ان کا، ان کی رائے کا خیال کرنا پڑے گا، تاہم اگر بھٹی صاحب بہت ہی 'ڈاڈھے' انسان ہیں تو مجھے ان کا زیادہ خیال رکھنا پڑے گا۔ قاضی سعید کے اس دلچسپ تبصرے پر مسکراتے ہوئے سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے کہا کہ میں کیا 'ڈاڈھا' ہوں آپ نے کیا میں جیب میں چاقو دیکھ لیا ہے۔ قاضی سعید نے اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ میں اسی بات کی وضاحت کرنا چاہ رہا تھا کہ یہاں سب کے فیصلے آپس میں جڑے ہوئے ہیں، بہرحال اللہ ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے، آج ملکی سیاست میں جو بھی پیش رفت سامنے آئی ہے اس سے بہت سے لوگ خوش بھی ہوں گے، بہت سے لوگوں کو دکھ بھی ہوگا ، میرا یہی کہنا ہے ہ انسان کو اللہ کی رضا میں خوش ہونا چاہیئے۔ واضح رہے کہ آج تحریک انصاف حکومت کی جانب سے پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ بنانے کی حمایت کردی گئی، جس کے بعد ق لیگ نے تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کردیا ہے جبکہ وزیراعظم نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کردیا ہے۔
سینئر تجزیہ کارحسن نثار نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو صورتحال چل رہی ہے یہ کوئی جمہوریت نہیں ہے، یہ بہت ہی 'بیہودہ' ہے، اور یہ آج کا نہیں بلکہ پچھلے 40سال سے ایسا ہی چل رہا ہے، سب ایک کھیل ہے، ایک پتلی تماشہ ہے، سیاستدانوں کی ضمیر فروشی جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام 'رپورٹ کارڈ' میں پنجاب میں حالیہ پیشرفت کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کوئی جمہوریت نہیں ہے، معذرت کے ساتھ یہ سب 'ولگر' ہے، جوڑ توڑ، لینا دینا، خرید و فروخت، ضمیر بیچے جارہے ہیں، سب چل رہا ہے، پچھلے 40 سالوں سے یہی کچھ چلتا آرہا ہے، وہی پرانے چہرے وہی پرانے لوگ ہیں، بڑی بڑی باتیں سوچیں انتہائی چھوٹی۔ تجزیہ کار حسن نثار کا مزید کہنا تھا کہ میرے لئے یہ سب ایک کھیل ہے، ایک پتلی تماشہ ہے، جس دن سے رولا شروع ہوا ہے میں نے لاتعلقی اختیار کر لی ہے، مجھے کراہیت آتی ہے، گھن آتی ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے، 74 سال گزر گئے یہ ملک کہا ہے اور یہ لوگ کہاں کھڑے ہیں، کیا کررہے ہیں، کیا پیچ رہے ہیں ملک کے وسیع تر مفاد کے نام پر۔ اینکر علینا فاروق شیخ کی جانب سے سوال کیا گیا کہ پنجاب میں ہونے والی بڑی پیشرفت کے بعد کس کا پلڑا بھاری ہے، حکومت کا یا اپوزیشن کا، پنجاب میں ہونے والی پیشرفت کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس سے قبل چوہدری پرویز الہی کی جانب سے ایک انٹرویو میں سخت ریمارکس بھی آئے تھے اس کے جواب میں حسن نثار کا کہنا تھا کہ پلڑے تو دکاندار دیکھتا ہے کہ ہلکا ہے یا بھاری ہے، موجودہ سیاسی صورتحال کو ایکشن تھرلر فلم کے ساتھ مشابہت دیتے ہوئے کہا کہ ایکشن، تھرلر اور انٹرٹینمنٹ سے بھر پور ہفتے کے بعد اب صورتحال کچھ اپنے منطقی انجام کی طرف جارہی ہے، یہی ہمارا مقدر ہے، ہماری روشن روایات کے مطابق فلم سپر ہٹ اور عوام مسلسل سپر فلاپ ہو رہی ہے، لیکن پھر بھی ہم وہ لوگ ہیں، جو بازی گروں کو مسیحا، رہنما، لیڈر اور قائدسمجھتے ہیں، لیکن بہرحال جو بھی ہوا اس پر مجھے افسوس ہے، میں عثمان بزدار جیسے شاہکار کو بہت مس کروں گا، یہ پنجاب کی تاریخ کا بہت روشن باب تھا ۔ دوسری جانب حسن نثار کے اس سخت تجزیے پر تجزیہ کار ریما عمر کا کہنا تھا کہ یہی حسن نثار تھے جو مسلم لیگ ق کی تعریف کرتے تھے، انہیں چاہیئے کہ امید کو بھی زندہ رکھیں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے، یہ سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کیسے حکومت میں آئے، اس کا ایسا انجام تو ہونا ہی تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اسی بات کو دیکھ لیں کہ جیسی باتیں پرویز الہی نے عمران خان کو کہیں تھیں اس کے باوجود بھی انہوں نے ق لیگ کے سربراہ کو پنجاب کا وزیراعلی بنانے کا مطالبہ پورا کرنے کی حامی بھری، اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کے جو اصول تھے جن کی ہر شخص داد دیتا تھا وہ کہاں گئے اگر ان کو صرف طاقت ہی چاہیئے تو وہ باقی سیاستدانوں سے کس طرح مختلف ہیں۔ ریماعمر کا کہنا تھا کہ کیسے یہ معیار تبدیل ہو جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اقتدار میں رکھنے کے لئے اپنے اصولوں کو پس پشت ڈال کر ایسے سمجھوتے کررہے ہیں، جس ولگیریٹی کی حسن نثار صاحب بات کررہے تھے کیا وہ انہیں مسلم لیگ ق میں نظر نہیں آتی، معیار تو ایک جیسے رکھیں۔ ریماعمر کے ریمارکس پر ان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ انہوں نے ولگر والی بات میکرو لیول پر کی تھی، بھٹو کیسے اقتدار میں آیا تھا، یہ تو آپ کی پیدائش سے پہلے کا چل رہا ہے، سیاست کا یہ طریق کار تو آغاز سے ہی ایسا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما امین الحق نے کہا ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں پورا پاکستان ایم کیو ایم کی طرف دیکھ رہا ہے۔ سماء ٹی وی کے پروگرام "لائیو ود ندیم ملک" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امین الحق نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ آپس میں مشاورت کےبعد کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جائے،حکومتی اتحادی جماعتوں کے آج کے اعلانات کے بعد اب گیند ایم کیو ایم کے کورٹ میں آگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نتیجہ خیز مذاکرات کے بعد پاکستان کے عوام کے عوام کیلئے فیصلہ کریں، اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں طرف مایوسی نظر آتی ہے، ہم نے حکومت کو یہی کہا کہ پہلے آپ ہاؤس ان آرڈر کریں اپنے ناراض لوگوں کو ساتھ ملائیں پھر ہمارے پاس آئیں۔ ایک سوال کے جواب میں امین الحق نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم میک اینڈ بریک کی صلاحیت رکھتی ہے مگر ایم کیو ایم ایک جمہوریت پسند سیاسی جماعت ہے،آج بھی ہماری قیادت کی مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے ایک معنی خیز ملاقات ہوئی، ابھی حکومتی وفد نے تھوڑی دیر بعد آنا ہے، ہم ان کی باتیں سنیں گے اور اس کے بعد صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے جس کااعلان آج یا کل کسی وقت ہوسکتا ہے۔ رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ ہم ایک بہت ہی منظم سیاسی جماعت کے رکن ہیں، ایم کیو ایم جو بھی فیصلہ کرے گی وہ متفقہ ہوگا اور پوری جماعت اس پر لبیک کہے گی، ہماری جماعت میں 3-4 کے تناسب سے فیصلہ نہیں ہوگا۔
معروف صحافی و تجزیہ کار نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ اگر منحرف اراکین واپس حکومت کے ساتھ ملے تو ان کے حلقوں کے عوام ان کو بے عزت کہیں اور کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام ان کے کہیں گے کہ اُن لوگوں نے اتنا بےعزت کیا اور تم لوگ واپس حکومت کے ساتھ جا ملے ہو۔ سٹی نیوز نیٹ ورک کے پروگرام میں گفتگو کرتےہوئے تجزیہ کار و صحافی نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی جن علاقوں سے منتخب ہو کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں یعنی دیہاتوں کا کلچر یہ ہے کہ جب کوئی کسی کو عوام میں بے عزت کرے تو اگلا بندہ ڈٹ جاتا ہے نا کہ لیٹ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اگر واپس تحریک انصاف کے پاس چلے گئے تو اپنے حلقے اور عوام ان کو کہیں گے کہ تمہاری انہوں نے اتنی بے عزتی کی ہے اور تم واپس وہیں چلے گئے ہو۔ یہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہات میں اس شخص کی واہ واہ ہوتی ہے جو ڈٹ جاتا ہے اور اپنی بات پر قائم رہتا ہے اب جو لوگ منحرف ہوئے ہیں ان کے فیصلے کو لوگ سراہ رہے ہیں کہ ڈٹ گئے ہیں اور اپنی بات پر قائم ہیں۔ جبکہ ان کے تجزیے پر بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور فل ٹاس نامی ایک پلیٹ فارم نے ان کے تجزیے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی اس سازشی ذہنیت کے عادی شخص کو بتائے حلقے کے منحرف ارکان کو اس بات پر جوتے نہیں ماریں گے کہ تم خان کے پاس واپس چلے گئے ہو۔ کلپ شئیر کرنیوالے سوشل میڈیا صارف نے کہا ہے کہ اس بات پر ضرور ماریں گے کہ ہم سے بلے کے نام پر ووٹ لیا اور جا ملے ہوئے شیر، کتے بلوں سے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب سے حکومت کے سامنے وزارت اعلیٰ پنجاب کا مطالبہ کیا گیا تو حکومت نے بھی صاف صاف جواب دے دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز ق لیگ نے ایک بار پھر حکومت کے سامنے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ رکھا تھا جس پر حکومتی وفد کو ق لیگ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہمیں کلئیرکٹ بتائیں ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ معاملہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے کلئیر کریں۔ اس سوال پر تحریک انصاف کی طرف سے آنے والی مذاکراتی ٹیم نے کہا ہم لگے ہوئے ہیں ، آپ کو طے کر کے ہی بتائیں گے۔ تاہم اب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ق کو وزارت اعلیٰ نہیں دے سکتے، وزارت اعلیٰ کے علاوہ کسی بھی اور فارمولے پر بات کی جا سکتی ہے۔ اے آر وائے کے مطابق ق لیگ کو پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ ن لیگ وزارت اعلیٰ دے رہی ہے تو ضرور لے لیں۔ کل ہونے والے مذاکرات میں پنجاب سے متعلق ق لیگ نے واضح مؤقف حکومتی ٹیم کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ بطور اتحادی پہلے دن جو معاہدہ ہوا اس کو پورا نہیں کیا گیا۔ ق لیگ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت میں 2 وزارتوں کی بات کی گئی تھی مگر دوسری وزارت سوا تین سال بعد دی گئی۔ حکومت کو جب بھی مشکل پڑی ہم نے ساتھ دیا مگر حکومت نے ہمارے ساتھ اپوزیشن جیسا سلوک کیا، حالانکہ کے ہم حکومت کے اتحادی ہیں پھر بھی اپوزیشن جیسا سلوک کیوں؟ ق لیگ نے ایک سوال اٹھایا کہ بتایا جائے کسی بحران کی یا مشکل کی صورتحال کے علاوہ حکومت نے ہمارے ساتھ کب کب رابطہ کیا ہے۔
موجودہ سیاسی گہما گہمی میں جہاں سڑکوں، چوراہوں میں کارکنان متحرک اور ان کا پارہ ہائی ہے وہیں حکومت اور اپوزیشن کے کارکنان سوشل میڈیا کے محاذ پر بھی کی بورڈ سنبھالے بیٹھے ہیں اور پل پل اپنے قائدین سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے اور مخالفین پر طنز وتنقید کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مختلف ٹرینڈز کی مدد سے ٹوئٹس کی جا رہی ہیں جن میں سب سے اوپر حکومت کی جانب سے "جاگ اٹھا ہے سارا پاکستان اور چلو چلو عمران کے ساتھ ٹرینڈز ٹاپ پر ہیں۔ یہی نہیں اس کے علاوہ بھی iamImrankhan، OneManArmyPMIK، امربالمعروف، 27مارچ جلسہ اور اسی طرح کے بیشتر ٹرینڈز چل رہے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن کی جانب سے بھی جاری مہنگائی مکاؤ مارچ کا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے جب کہ اس کے علاوہ PMLN، Zardari، HopeofNationMaulana، kashmirHighway، NawazSharif، MaryamNawaz ودیگر ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں۔ حکومت کی حامی سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے کیے گئے ٹوئٹس میں حکومت کی حمایت پر مبنی چند ٹوئٹس یہ ہیں۔ جب کہ حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد کی جانب سے سوشل میڈیا بریگیڈ بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہے۔ ان کے ٹوئٹس یہ ہیں۔
میڈیا میں سابق وزیر اطلاعات و معاون ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے متعلق خبریں دی جا رہی ہیں کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے تاہم اس حوالے سے فردوس عاشق اعوان نے خبروں کی تردید کر کے انہیں فیک نیوز قرار دیا ہے۔ جیو نیوز کے مطابق تحریک انصاف کی سینئر رہنما اور وزیراعظم عمران خان کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے لندن میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ مذکورہ خبر رساں ادارے کا دعویٰ ہے کہ اس نے مختلف معتبر ذرائع سے تصدیق کی ہے کہ فردوس عاشق نے لندن میں (ن) لیگ کی قیادت کو پیغام بھیجا کہ اگر انہیں پارٹی میں مناسب مقام دیا جائے تو وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا یہ پیغام گلوکار وارث بیگ نے پہنچایا جنہوں نے لندن پہنچنے کے بعد نواز شریف، اسحاق ڈار ودیگر سے ملاقاتیں کی۔ اس حوالے سے پی ایم ایل این کی قیادت نے کوئی جواب نہیں دیا کہ آیا فردوس عاشق اعوان کو پارٹی میں قبول کیا جائے گا یا نہیں اس میٹنگ میں تقریباً 10 منٹ تک اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ لیگی قیادت نے وارث بیگ سے کہا کہ فردوس عاشق کو مسلم لیگ ن کی پنجاب قیادت سے اپنی تجویز پر بات کرنی چاہئے۔ تاہم یہ واضح کیا گیا کہ سیالکوٹ کی نشست پر جماعت کے پاس امیدوار موجود ہے اور جیتنے والا سیاسی کارکن بہت مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ جیو نیوز کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وارث بیگ نے اس ملاقات اور پیغام پہنچانے کے معاملے کی تردید نہیں کی مگر انہوں نے اس پر مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فردوس عاشق اعوان کو30 سال سے جانتے ہیں اور وہ ان کیلئے بہن جیسی ہیں۔ دوسری جانب اس خبر کی تصدیق کیلئے جیو نیوز نے فردوس عاشق سے رابطہ کیا تو انہوں نے اسے فیک نیوز کہہ کر خبروں کو رد کر دیا۔ وہ گزشتہ سال اگست میں وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کے عہدے سے مستعفی ہوئی تھیں۔
پاک فوج کے سابق جوان اور سابق فوجی افسران وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں سامنے آگئے۔۔ ایک طرف جہاں پاکستان کی تمام اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کے خلاف صف آراء ہے اور لانگ مارچ کررہی ہے وہیں سابق فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین سوسائٹی وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں سامنے آچکی ہے اور مختلف پیغامات کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کی حمایت کا اعلان کررہی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف سابق فوجی افسران نے وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں ویڈیو پیغامات بھی جاری کئے۔پیغامات جاری کرنیوالوں میں سابق جنرلز، بریگیڈئیرز، کرنلز، میجر اور دیگر رینک کے افراد شامل ہیں۔ بعض حلقوں کے مطابق یہ پیغامات یہ نشاندہی کررہے ہیں کہ پاک فوج کے جوانوں کا موڈ کیا ہے اور وہ کس طرف کھڑی ہے تجزیہ کاروں کے مطابق سابق فوجیوں کی جانب سے اس قسم کی حمایت کبھی کسی سویلین حکمران کو دیکھنے کو ملی، انکے مطابق اسکی ممکنہ وجہ وزیراعظم عمران خان کا ابسلوٹلی ناٹ کہنا، یورپی یونین کو انکار ہے، وہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی بحران کے پیچھے امریکہ، بھارت اور دیگر غیرملکی قوتیں ہیں۔ سابق فوجی افسران نے وزیراعظم عمران خان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایماندار لیڈر ہیں جو اسلام کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے آزادانہ خارجہ پالیسی کو استعمال کیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں ایک ایماندار لیڈر کیساتھ ہونا چاہتا ہوں اور آپ بھی ایک ایماندار شخص کے پیچھے جائیں۔ ایک بزرگ سابق فوجی نے اپنے جذبات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ جو لٹیرے اسلام آباد آرہے ہیں، عمران خان کو ہٹاکر خود آنا چاہتے ہیں، ہم نے انہیں آزمایا ہوا ہے، میں قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ ان لیٹروں کو بھگایا جائے اور عوام کو اپیل کرتا ہوں کہ وہ نکلیں پاکستان کی خاطر اور ایک ایماندار لیڈر کی خاطر۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق سابق فوجیوں کو خدشہ ہے کہ جو اس وقت ہورہا ہے، اگر عمران خان کو ہٹا بھی دیا جائے تب بھی سیاسی بحران کاخاتمہ نہیں ہوگا بلکہ مزید بڑھے گا۔
حکومتی اتحادی جماعت 'گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس" کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے جی ڈی اے نے حکومت کےساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بیان جی این این کے پروگرام" ویوپوائنٹ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے دیا اور کہا کہ موجودہ حکومت نے کچھ وعدےپورے کیے ہیں اور بہت سے نہیں کیے مگر پھر بھی ہم مشکل کے اس وقت میں حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں بات میری ذات کی نہیں ہے، ہمیں ملک کیلئے فیصلہ کرنا ہے، کیا ہماری آنکھیں بند ہیں ہمیں نظر نہیں آرہا کہ افغانستان میں کیا صورتحال ہے، کچھ عرصہ قبل بھارت سے ایک میزائل پاکستان کے اندر گرایا گیا، جو او آئی سی کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی جس میں کشمیر کا مسئلہ ایک بھرپور انداز میں پیش کیا گیا،یہ ساری باتیں ہماری ذات سے اوپر کی ہیں لہذا ہمیں بھی اپنی ذات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر یہ سازشیں ہوتی ہیں، بہت سی قوتیں ایسی ہیں جو چاہتی ہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیاجائے، ہم نے بہت سے سوچنے کے بعد فیصلہ کیا ہے، کیونکہ پاکستان ہے یہاں استحکام ہے تو پھر باقی سب باتیں اس کے بعد آتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جی ڈی اے نےو اضح طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں، ہمارے مطالبات بھی جو ہیں وہ سندھ میں وفاقی حکومت کے کردار سے متعلق تھے جو ماضی میں نہیں مانے گئے اور اب ان مطالبات پروفاقی حکومت نے ہمیں یقین دہانی کروائی ہے۔ فہمیدہ مرزا نے کہا کہ اگر مستقبل میں پھر ان وعدوں کو پورا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا تو ہمارے پاس تمام آپشنز کھلے ہیں ہم کسی بھی اسٹیج پر حکومت کو چھوڑ سکتے ہیں، لیکن اس وقت ہم نے حکومت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا اپوزیشن کے لوگوں کی جانب سے کافی رابطے ہوئے ہیں مگر چونکہ میں اور پیر پگارا صاحب اس معاملے میں اپنا واضح موقف رکھتے تھے اس لیے ہمارے اپوزیشن کے ساتھ راستے نہیں جڑ سکے۔
سینئر صحافی ارشد شریف نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت نے پاکستان مسلم لیگ ن کے دور سے زائد ٹیکس اکٹھا کیا ، برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی ارشد شریف نے نجی نیوز چینل کی لائیو ٹرانسمشن میں پی ٹی آئی ان ن لیگ کی حکومتوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے کسی حکومت نے ایسے اقدامات نہیں کئے، کسی نے غریب عوام کے بارے میں نہیں سوچا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پہلی بارغریب عوام کے لئے احساس پروگرام شروع کیا گیا، صحت کارڈ شروع کیا، جس کے تحت غریب لوگوں کو اسپتالوں میں دھکے نہیں کھانا پڑتے اور باآسانی 10 لاکھ روپے تک کا علاج کروا سکتے ہیں، صحت سہولت کارڈ اور احساس پروگرام کے تحت متوسط طبقے کے لوگ مفت علاج کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ارشد شریف نے تحریک انصاف حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی حکومت ہے جس میں ریکارڈ ٹیکس جمع ہوئے ہیں اور ملک کی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، وزیراعظم عمران خان کی کامیاب معاشی پالیسیوں کی بدولت آج ن لیگ کے دور سے زائد ترقی کی ہے۔ ارشد شریف نے کہا کہ میڈیا آپکو عمران خان کی اچیومنٹ نہیں بتائے گا، سارے چور ڈاکو جو خفیہ ملاقاتیں کررہے ہیں، انہیں ہلاشیری دیتے ہیں کہ آجاؤ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اسحاق ڈار بجٹ بنارہا ہے اسکا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں تو ڈیل ہوئی ہے۔ انہوں نے دبے الفاظ میں انکشاف بھی کیا کہ کس کی کس جگہ کس سے خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ ارشدشریف نے مزید کہا کہ شہباز شریف کے میڈیا نے انٹرویو کئے کسی نے پوچھنے کی ہمت کی کہ مقصودچپڑاسی کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے کہاں سے آئے؟ واضح رہے کہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف 27 مارچ کو اسلام آباد میں تاریخی جلسہ کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ جلسے میں شرکت کے لئے ملک بھر سے کارکنوں کے قافلے اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک سے بھی لوگ جلسہ میں شرکت کیلئے آ رہے ہیں، عوام نے فیصلہ کر لیا ہے جو 27 مارچ کو گراؤنڈ میں نظر آئے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی عوام کو 27 مارچ کے جلسے میں شرکت کی دعوت دے رکھی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ملک کا مستقبل بچانے کیلئے نکلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام گھروں سے نکل کر اپوزیشن کی سیاسی قبر کھود دے گی۔ اپوزیشن کا سیاسی جنازہ نکلے گا۔اپوزیشن کے سیاسی جنازے پر نیا پاکستان کھڑا ہو گا۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے نائب صدور مریم نواز اور حمزہ شہباز کی قیادت میں مہنگائی مکاؤ لانگ مارچ ماڈل ٹاؤن لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگیا جبکہ مہنگائی مارچ کے لیے اپوزیشن کے قافلے 28 مارچ کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اپنے اپنے حلقوں سے ریلیوں کی صورت میں تین مختلف مقامات پر پہنچیں گے۔ 27 مارچ کو مہنگائی مکاؤ مارچ گوجرانولہ سے اسلام آباد روانہ ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے مہنگائی مکاؤ مارچ میں بھرپور شرکت کی عوامی دعوت دی ہے۔ ترجمان مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا اختیار ولی خان کے مطابق لانگ مارچ کے لیے مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کا قافلہ 28 مارچ کو پشاور سے روانہ ہوگا۔

Back
Top