سیاسی

تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی پر کسی دوسرے فورم کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اس حوالے سے معزز عدالت کی آبزرویشن بھی موجود ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت خود یہ کہہ چکی ہے کہ اگر اسمبلی میں کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس پر اس کا اختیار نہیں مگر ماضی میں رضا ربانی اور ان جیسے دیگر سینئر لوگ بھی یہ بات کر چکے ہیں مگر اب یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ تجزیہ کار نے کہا کہ ان کے خیال میں اب آئین میں لکھ دینا چاہیے کہ اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے بندے توڑے جائیں گے تو آرٹیکل 63 اے لگے گا مگر تحریک انصاف کے لوگوں کو توڑنے پر اس قانون کو لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ اطہر کاظمی نے کہا کہ ہمارے تجزیہ کار اور سیاست پر بات کرنے والے دیگر لوگ بھی عمران خان کو سیاست دان ماننے سے انکار کرتے آئے ہیں مگر یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ایک آؤٹ اسٹینڈنگ قسم کے سیاست دان ہیں جنہوں نے باقی سب لوگوں کو دھول چٹا دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس حقیقت کو ماننے اور سمجھنے کیلئے ہمیں تعصب کی عینک اتار کر دیکھنا ہوگا۔ اطہر کاظمی نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن اور مخالفت کرنے والے لوگ یہی چاہتے تھے کہ حکومت چلی جائے اب یہ لوگ اسے دوبارہ بحال کر کے اداروں کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی مشہور و معروف کاروباری شخصیت اور اے کے ڈی گروپ کے چیئرمین عقیل کریم ڈھیڈی نے دعوی کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت نے 3 سالوں میں صرف 5ارب ڈالر قرض لیا۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "ہارڈ ٹاک پاکستان ود معید پیرزادہ" میں پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسی پر گفتگو کرتے ہوئے بزنس مین عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ 3 سال میں پی ٹی آئی نے 46 بلین ڈالر کا قرض لیا ہے، 27 بلین ڈالر کی ری-پیمنٹ کی ہے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ ری-پیمنٹ کے بعد باقی رہ گئے 19 ارب ڈالر، ساڑھے 6 ارب سود کی ادائیگی کی، ساڑھے 12 ارب ڈالر باقی رہ گئے،۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ساڑھے 12 ارب ڈالر میں سے ساڑھے 7 ارب ڈالر کے ریزرو بنائے گئے، جس کے بعد باقی 5 ارب ڈالر رقم بچتی ہے، جس کا مطلب ہے کے پی ٹی آئی حکومت نے 3 سالوں میں محض 5 ارب ڈالر نیٹ قرضہ لیا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما و سابق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے پروگرام کا ویڈیو کلپ اپنے ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے کہا ، " قرض سے متعلق حقائق"۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نگران وزیراعظم کیلئے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کا نام تجویز کیا گیا جنہیں اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے ابھی دو سال کا عرصہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ریٹائر منٹ کو 2 سال مکمل ہونے سے قبل سابق چیف جسٹس کو نگران وزیراعظم تعینات کرنے سے متعلق معاملے پر ملک میں ایک نئی آئینی و قانونی بحث چھڑ گئی ہے،مختلف قانونی ماہرین اس حوالے سے اپنی اپنی آراء پیش کررہے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس (ر) گلزار احمد کو اس وقت نگران وزیراعظم بنانا قانون کے تحت درست نہیں ہے کیونکہ قانونی اعتبار سے نگران وزیراعظم کاعہدہ آفس آف پرافٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس (ر) گلزار احمد ریٹائر ہونے کے بعد 2 سال تک کوئی آفس آف پرافٹ نہیں لے سکتے، نگران وزیراعظم چاہے تنخواہ نہ لے پھر بھی اس پر قانون کا ویسے ہی اطلاق ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے بھی اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی کا حال ہی میں ریٹائیر ہونے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کا نگران وزیر اعظم کے لئے نام پیش کرنا سپریم کورٹ پہ اثرانداز ہونے کی مذموم کوشش ہے۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ وہ ملک کے اداروں پہ اثرانداز ہونے کے لئے نہایت گھناؤنے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سابق وفاقی وزیراور تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا تھا کہ حکومت نے جسٹس(ر) گلزا احمد کا نام بطور نگران وزیراعظم کے طور پر تجویز کیا ہے، نگران وزیراعظم کے عہدے پر تعیناتی کیلئےریٹائرمنٹ کے بعد 2 سال کے عرصے سے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے۔
امریکی حکام کی جانب سے پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت سے متعلق خط کے بعد اب پاکستان میں امریکی عہدیداران کی اپوزیشن رہنماؤں اور اراکین اسمبلی سے ملاقات کے حوالے سے تفصیلات بھی منظر عام پر آگئیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکی حکام سے ملاقات کرنے والوں میں بڑی تعداد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی ہے جبکہ متعدد اراکین اسمبلی بھی امریکی عہدیداران سے ملاقاتوں میں شریک رہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ ان ملاقاتوں کا آغاز 3 مارچ کو اسلام آباد سے ہوا جہاں امریکی سیکرٹری اول ہیدر گریس ایٹن سے ن لیگ کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی، صدیق الفاروق، طارق فضل چوہدری ، سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور ن لیگ کے مرکزی جنرل سیکرٹری احسن اقبال، احمد جواد نے ملاقات کی۔ 3 مارچ کو ہی لاہور میں ن لیگی رہنما حمزہ شہباز اور رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے امریکی کونسل جنرل ولیم کے میکنیلیو سے ملاقات کی، کونسل جنرل سے اسی روز ملاقات کرنے والوں میں رکن پنجاب اسمبلی رمضان صدیق بھٹی، کنول لیاقت اور ذکیہ شاہنواز بھی شامل ہیں۔ اسی طرح7 مارچ کو امریکی کونسل جنرل مارک سٹروہ نے لاہور میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما مخدوم احمد محمود ، عبدالقادر پٹیل اور ممتاز علی سے ملاقات کی، اسی روز مارک سٹروہ نے لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رہنما علیم خان سے بھی ملاقات کی۔ 8 مارچ کو امریکی کونسل جنرل نے لاہور میں رکن پنجاب اسمبلی سمیع اللہ خان، سیدہ عظمیٰ قادری واضح رہے کہ ان ملاقاتوں کا سلسلہ رواں سال 12جنوری سے شروع ہوا تھا جب کراچی میں امریکی کونسل جنرل مارک سٹرو نے وزیراعلی سندھ سےملاقات کی ،پھر4 فروری کو رہنما پیپلزپارٹی سلیم مانڈوی والا سے ملاقات کی اور 24 فروری کو نثار کھوڑو اور بلاول بھٹو کے مشیر حارث گزدار سے بھی ملے۔
ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ثابت کرے کہ عالمی سازش ہوئی اور ایسا ہوا تو ہم اور پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ہمارا مطالبہ ہے 3 اپریل کو کئے جانے والے اقدامات پر عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ اسلام آباد میں اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اتوار کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس سے حکومت تو گئی لیکن جمہوریت کو ختم کرنے کی سازش کی بھی کی گئی۔ ایم کیو ایم رہنما نے تنبیہ کی کہ اگر پی ٹی آئی سڑکوں پر آئی تو باقی جماعتیں بھی سڑکوں پر آئیں گےتاہم ہم شرافت کی سیاست پر رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ نے ہم سے 14 نشستیں چھینیں اور ہم نے آپ کی حکومت چھین لی تاہم اب اداروں کی ذمہ داری ہے کہ جھوٹ کے خلاف فیصلہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے 3 اپریل کو کئے جانے والے اقدامات پر عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ کیونکہ عمران خان نے سیاسی شکست سے بچنے کے لئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی حرکت کی۔ سربراہ ایم کیو ایم پاکستان نے بتایا کہ اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے 3 اپریل کو کئے جانے والے اقدامات پر عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ تاکہ اس اقدام کے محرکات اور عزائم واضح ہو سکیں۔
پلان اے سامنے آ گیا، ابھی پلان بی بھی موجود ہے اور پلان سی سے کام تمام ہو جائے گا، فیصل واوڈا رہنما تحریک انصاف فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ ہمارا پاس ہر طرح کا منصوبہ موجود ہے ایک پلان اے تھا جو تھوڑا سا سامنے آ گیا ایک پلان بی اور اسی طرح ایک پلان سی بھی موجود ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے معاملہ الٹ دیا تو پھر پلان بی سامنے لے کر آئیں گے۔ فیصل واوڈا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سرے عام سڑکوں پر بولیاں لگنے لگیں اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی جائیں تو ایسی صورتحال کو کیا کہا جا سکتا ہے اس کا تو ٹی وی پر نام بھی نہیں لیا جانا چاہیے مگر ہم پُرامید ہیں کہ حالات ہمارے ہاتھ میں ہیں اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما و سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی عوام کو مزید سرپرائزز کا عندیہ دے دیا۔ پرویز خٹک نے گزشتہ روز اسمبلی تحلیل ہونے اور قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے مسترد ہونے کے بعد ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’کیا آپ سب نے سرپرائز کو انجوائے کیا؟ مزید سرپرائزز کے لیے بھی تیار رہیں۔‘ اس کے ساتھ ہی سابق وفاقی وزیر نے “BehindYouSkipper” کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا۔
سینئر تجزیہ کار و صحافی سہیل وڑائچ نے تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں اب سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں مگر مجھے نہیں لگتا کہ اب کچھ بدلنے والا ہے کیونکہ وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر دی ہے اور وزرا اور مشیر بھی نہیں رہے تو بات بہت آگے چلی گئی ہے۔ نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ سکے کے دو رخ ہیں پہلا یہ کہ سب نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف ہیں کہ کیا عمران خان کا فیصلہ واپس کر کے اسپیکر کی رولنگ ختم کی جاتی ہے۔ اس سے یہ ہوگا کہ ہم واپس اسی اسٹین پر ہوں گے جہاں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی جائے اور باقی سارا معاملہ منطقی انجام کو پہنچے جبکہ دوسری طرف عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے، نگراں وزیراعظم کیلئے مشاورت شروع ہو چکی ہے، وزیراعظم نے اپنی حکومت توڑ دی وزیر مشیر فارغ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اس سارے معاملے کو واپس موڑنا بہت مشکل ہو گا۔ اب سب کو الیکشن کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ اس میں زیادہ وقت نہیں ہے صرف 3 مہینے کا ٹائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فریق نے اپنی حکومت ختم کر دی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ اسمبلی بحال ہو اور پھر اس کے خلاف عدم اعتماد لا کر اس کی حکومت ختم کی جائے یہ مجھے مشکل لگتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ صحیح نہیں تھی کیونکہ اس طرح پوری اپوزیشن کو ایک دم غیر محب وطن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ایران کے سرکاری میڈیا پر غیر ملکی تجزیہ کاروں نے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں امریکا کی بغاوت پھیلانے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب امریکا کا پاکستان سے تسلط ختم ہو گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکا سے تعلق رکھنے والے ایک معروف صحافی ڈی بار نے ایرانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا پاکستانی پارلیمان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اس کی قومی اسمبلی میں امریکا مردہ باد کا نعرہ لگایا گیا ہے اور انہوں نے تحریک عدم اعتماد کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ ایرانی چینل پریس ٹی وی کے مطابق امریکی تجزیہ کار نے یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ غیر ملکی قوتیں ملک کے جمہوری عمل میں مداخلت کر رہی ہیں جس کا ثبوت موجود ہے اور انہی کی ایما پر یہ عدم اعتماد کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے۔ ڈی بار نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ وہ یورپی یونین میں بھی بغاوت دیکھ رہے ہیں،اگرچہ برسلز امریکا کی جیب میں ہے مگر ہنگری اختلاف کر رہا ہے اور پولینڈ کو کچھ شکوک و شبہات ہیں، حالانکہ وہ میدان بغاوت کی حکومت کو اپنے ورژن کے طور پر وارسا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ ویچی جو دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے قبضے کے دوران فرانس کا دارالحکومت تھا۔ اس سے پہلے کیوبا میں بغاوت کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اور نکاراگوا میں بغاوت کی کوشش ناکام ہوگئی۔ وہ کوریا کے نامزد جانشین کو خرید کر ایکواڈور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر اب یہ بھی قبضہ ختم ہو گیا ہے اور پاکستان بھی اب امریکا کے تسلط سے نکل رہا ہے۔ خیال رہے اپوزیشن کی جانب سے 8 مارچ کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پیش کی گئی تھی، جس پر گزشتہ روز ووٹنگ متوقع تھی۔ تاہم اسمبلی کے اجلاس کے آغاز میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تحریک کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے غیر ملکی سازش قرار دیا۔ جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد 8 مارچ 2022 کو پیش کی تھی، عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے، وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں لہٰذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین، قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف میں یہ قرارداد مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 54 کی شق 3 کے تحت تفویض کردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعہ 25 مارچ 2022 کو طلب کردہ اجلاس کو برخاست کرتا ہوں۔ ساتھ ہی انہوں نے ایوان زیریں کے اجلاس کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔
صدر عارف علوی نے نگراں وزیراعظم کی تقرری کیلئے عمران خان اور شہباز شریف کو خط لکھ دیا۔ نگراں وزیراعظم کی تعیناتی عمران خان اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوگی۔ خط کے متن میں تحریر ہے کہ آئین کے آرٹیکل 58 ون کے تحت اسمبلیاں توڑی جاچکی ہیں، عمران خان آرٹیکل 224 اے کے تحت نگراں وزیراعظم کی تقرری تک برقرار رہیں گے۔ صدر مملکت نے وزیراعظم عمران اور شہباز شریف کے نام لکھے خط میں کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے تین دن کے اندر کسی ایک نام پراتفاق نہ ہو تو دونوں شخصیات دو دونام کمیٹی کوبھیجیں گی۔ کمیٹی کے ممبران کی نامزدگی وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کریں گے، کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی بنائیں گے، کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے 8 ارکان ہوں گے۔ حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹی میں نمائندگی برابر ہوگی، کمیٹی ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہوگی۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر کل صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کردی اور وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
تجزیہ کار حبیب اکرم نے کہا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں گورنر ہاؤس میں کسی ایسے شخص کا بیٹھنا جس پر پارٹی کو مکمل اعتماد نہ ہو صحیح نہیں ہے اس لیے چوہدری سرور کو گورنر پنجاب کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار حبیب اکرم نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے اگر نکلنا تھا یا ان مسائل کو روکنا تھا تو یہ کام ایک سال پہلے کیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ حبیب اکرم نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے گورنر پنجاب چوہدری سرور کے عمران خان کے ساتھ معاملات اتنے اچھے طریقے سے نہیں چل رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اعتماد کا بہت زیادہ فقدان تھا اور شوہدری سرور اپنی نجی ملاقاتوں میں ایسے اشارے دیتے تھے کہ حکومت غلط کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق کا ان کا پس منظر بھی ایک وجہ ہے کیونکہ وہ دوسرے لوگوں سے بھی ملاقاتیں کرتے رہتے تھے۔ حبیب اکرم نے کہا کہ اس جیسے بہت سے معاملات نے حکومت اور گورنر کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں۔ حبیب اکرم نے ماضی میں وائرل ہونے والے ایک ویڈیو کلپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پروز الہٰی جہانگیر ترین کو کہتے تھے کہ جب تک چوہدری سرور بطور گورنر پنجاب میں موجود ہیں یہاں معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اب چونکہ پرویز الہٰی خود تحریک انصاف کے وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد امیدوار ہیں اس لیے ان کو ہٹانے میں ان کا بھی کردار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال ایسی ہے کہ وفاق اور پنجاب میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اب گورنر ہاؤس میں کسی ایسے شخص کا ہونا جس پر پارٹی کو مکمل اعتماد نہ ہو تو ظاہر ہے یہ پھر بہت ساری پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔
قائد حزب اختلاف اور آئندہ وزارت عظمیٰ کیلئے متحدہ اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حقیقی آزادی تب ملتی ہے جب آپ معاشی طور پر خود کفیل ہوتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق شہباز شریف نے پاکستانی قوم کو بھکاری قرار دینے والے اپنے بیان پر وضاحتیں دینا شروع کر دی ہیں، ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ خودمختاری کا تصور معاشی خودمختاری کے بغیر نامکمل ہے۔ شہباز شریف نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیغام ان کے لیے ہے جنہوں نے ان کے بیان کی غلط تشریح کی ہے، یہ ہمیشہ میرا یقین رہا ہے کہ حقیقی آزادی خود انحصاری سے حاصل ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خودمختاری کا تصور معاشی طور پر خود کفیل ہوئے بغیر نامکمل ہے جو خون، پسینہ اور آنسو بہائے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مولانا ظفر علی خان کا ایک شعر بھی لکھا اور کہا کہ مذکورہ شعر میرے جذبات کی درست ترجمانی کرتا ہے۔ وہ شعر ذیل میں ہے۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا یاد رہے کہ گزشتہ روز نجی چینل جیو پر شہبازشریف نے کہا کہ بھکاریوں کے پاس کوئی چوائس نہیں ہوتی، بھکاری اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں کرسکتے، ہمیں اپنی قوم کا پیٹ پالنا ہے، یتیموں کے سروں پر دست شفقت رکھنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کیسے کسی سے لڑ سکتے ہیں کیسے نعرے لگا سکتے ہیں ، ہم اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم نے قوم کے معمار بنانے ہیں، ہم نے لاکھوں کروڑوں بچوں بچیوں کوپڑھانا ہے۔
وفاقی وزیر قانون فوادچوہدری نے قوم کو مبارکباد دیدی ۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں انکا کہنا تھا کہ قوم کو مبارک ہو ! آج شہباز شریف کے کیس میں ضمانت منسوخی کی درخواست کو سماعت کیلئے منظور کر کے سوموار کو دلائل کیلئے مقرر کر دیا گیا ہے فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ انشاللہ سوموار کو ضمانت منسوخی پر فیصلہ آ جائے گا واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت خارج کروانے کے لیے درخواست دائر کردی۔ اور عدالت سے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی قبل از گرفتاری کا 25 مارچ کا عبوری حکم منسوخ کرنے کی استدعا کی تھی۔ حکومت نے موقف اپنایا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز عبوری ضمانت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، عدالت 25 مارچ کا عبوری ضمانت کا حکم معطل کرے۔ یاد رہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز ایف آئی اے کے 2 مختلف کیسز میں ضمانت پر ہیں۔ایف آئی اے عدالت نے 4 اپریل تک شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت منظور کی تھی اور دونوں رہنما چار اپریل تک ضمانت پر ہیں۔
پاکستان کے سابق کرکٹر وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان فائٹرہیں اوران کی جنگ ملک کے لئے ہے۔ سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان فائٹر ہیں۔ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ جس کی نمائندگی کر رہے ہیں اس کے لئے لڑنے، جیتنے اور قیادت کے لئے پی پیدا ہوئے ہیں۔ وسیم اکرم کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان اپنے نام، اقتدار یا پوزیشن کے لئے نہیں لڑ رہے بلکہ یہ ان کی تقدیر ہے۔ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ سیاسی عدم استحکام کیلئے نہ صرف اسپورٹس مین بلکہ اداکار، گلوکار صحافی اور کاروباری شخصیات سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ وزیراعظم سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہیں اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان سے خلیل الرحمان قمر اور اداکار شان ملاقات کریں گے !!!
پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے بڑا انکشاف کر دیا، کہتے ہیں کہ سنیئر صحافی اور اینکر پرسن سلیم صافی کی جان کو خطرہ لاحق ہے، اور یہ خطرہ کہیں اور سے نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان کے آفس سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کی لائیو ٹرانسمشن میں گفتگو کرتے ہوئے اینکر پرسن حامد میر نے دعوی کیا کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ سلیم صافی کی جان کو خطرہ ہے جس کے ثبوت ان کے پاس موجود ہیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، پتا نہیں ان کے پاس کوئی ثبوت موجود ہے یا نہیں لیکن میرے پاس کم از کم تین ثبوت موجود ہیں کہ سلیم صافی کی جان کو خطرہ ہے، تحریک انصاف کے کچھ کارکنان ان کی جان کے پیچھے پڑے ہیں، ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں، گالی گلوچ کی جارہی ہے اور ان کو ہدایات جہاں سے مل رہی ہیں وہ آپ سب کو علم ہے۔ حامد میر نے کہا کہ عمران خان نے پہلے بھی کئی کارڈ کھیلے، پہلے دین کے نام پر کارڈ کھیلا پھرانہوں نے بیرونی سازش کا کارڈ کھیلا اور اب وہ جان کو خطرے کا کارڈ کھیل رہے ہیں، اگر کوئی ان پر تنقید کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے جان کے خطرات پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے معروف اینکروں اور صحافیوں سمیت کوئی بھی پی ٹی آئی سے کوئی سوال کر دیں یا تنقید کر دیں یا کوئی کالم ہی ایسا لکھ دیں جو حکمران جماعت کے مفاد کے خلاف ہو تو پی ٹی آئی کا ڈیجیٹل میڈیا ونگ ان اینکروں، صحافیوں کو ٹرول کرنا شروع کر دیتے ہیں، دھمکیاں دی جاتی ہیں، گالی گلوچ کیا جاتا ہے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کا دعویٰ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وزیراعظم عمران خان اسمبلیوں سے استعفے دینے کا کارڈ استعمال کرسکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عمران خان کے اس اقدام سے نئی حکومت بحران سے دوچار ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد155 ہے۔ جب کہ ٹوٹل ارکان پارلیمنٹ کی تعداد342ہے ۔ جیو نیوز کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی کے تمام ممبران اسمبلی مستعفی ہو جائیں۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جو اگرچہ اب تعداد میں کم ہیں لیکن اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائیں تو نئی حکومت کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔ اس طرح اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخابات کا انعقاد بھی ناممکن ہی ہو گا، اور یہی مشق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی بیک وقت کی جائے گی۔ واضح رہے کہ وزیراعظم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ فوری طور پر الیکشن میں جانا ان کیلئے سودمند ثابت ہوگا۔ کیونکہ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے حالیہ نتائج ان کیلئے حوصلہ افزا ہیں۔ اب عمران خان کو انتخابی مہم کیلئے امریکہ مخالف بیانیہ مل گیا ہے۔واضح رہے کہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے منحرف ممبران اسمبلی استعفے دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان گزشتہ روز ایک معاہدہ طے ہوا ہے جس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کااعلان کیا ہے لیکن کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیوایم کیساتھ ہاتھ ہونے کا امکان ہے تفصیلات کے مطابق 2 روز قبل جو معاہدہ ہوا اس کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی جس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) جس کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی ہیں ، کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی معاہدے سے مکر جائے کیونکہ آصف زرداری نے 2008 میں نوازشریف کیساتھ معاہدہ مری کیا تھا جس کے کچھ عرصہ بعد آصف زرداری نے یہ کہہ کر معاہدہ توڑدیا تھا کہ وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں پیپلزپارٹی کے نام سے 2 جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ایک کا سربراہ آصف زرداری اور دوسری کا بلاول ہے۔ آصف زرداری جس پیپلزپارٹی کے سربراہ ہیں ، جماعت نے اسی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا ہے۔ اس پر صحافی فہیم اختر نے اہم نکتہ اٹھایا جن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں درج سیاسی جماعتوں کی فہرست کے مطابق بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کے چیرمین ہیں آصف زرداری پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر ہیں۔ فہیم اختر کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک باریک واردات ہے آپ کو اس کا احساس بعد میں ہوگا، سکرین شاٹ بھیج رہا باقی الیکشن کمیشن سے چیک کرلیں پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور ایم کیوایم کے معاہدہ پر پیپلزپارٹی کےدستخط نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم سےمعاہدہ پر عملدرآمد میں شاید مسائل آئیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عملدرآمد کرنا نہیں چاہتے سعید غنی کے اس بیان پر ہارون رشید کا کہناتھا کہ کون سے مسائل سرکار؟ آپ کو مکرنا ہے۔ موقع پاتے ہی لازمی طور پہ مکر جانا ہے۔ کراچی کماؤ پوت ہے اور سندھ کے وڈیرے لوٹ مار اور اذیت رسانی کے عادی۔ شہری ہی نہیں۔ ' دیہی سندھ میں بھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی مخدوم سمیع الحسن گیلانی کے ووٹر نے انہیں نوٹس بھجوادیا ہےجس میں ان سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ نوٹس تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 174 سے منتخب ہونے والے مخدوم سمیع الحسن گیلانی کو ان کے حلقے کے ایک ووٹر کی جانب سے بھجوایا گیا ہے۔ نوٹس بھیجنے والے ووٹرایڈووکیٹ ثاقب ریاض بھٹہ نے موقف اپنایاکہ 2018 میں مخدوسمیع الحسن گیلانی کو صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ ڈالا تھا، اگر ان کے علاوہ یہ ٹکٹ کسی اور کے پاس ہوتا تو ہم اسے ووٹ ڈالتے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ہمارے نمائندےکو ہمارے وزیراعظم کے خلاف سندھ ہاؤس میں ہونے والے اپوزیشن کے اجلاس میں شریک دیکھ شدید رنج ہوا ہے، یہ میرے ووٹ کی نمائندگی نہیں ہے، بطور ووٹرآپ مجھے جوابدہ ہیں اور میرا ووٹ آپ کسی بھی ایسے شخص کی جھولی میں نہیں ڈال سکتے جس کیلئے میں نےآپ کو ووٹ نہیں دیا۔ ثاقب ریاض بھٹہ نے مخدوم سمیع الحسن گیلانی سے مطالبہ کیا کہ مجھ سمیت اپنے حلقے کے تمام ووٹرز سے تحریری طور پر معافی مانگیں اور اپنی سیٹ سے استعفیٰ دے کر کسی بھی ٹکٹ پر الیکشن لڑیں اور جس مرضی جماعت میں شامل ہوجائیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، اگر آپ نے نوٹس موصول ہونے کے بعد یہ مطالبات پورے نہ کیے تو آپ کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا۔
سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ تیس سال بعد یہ صرف یہ یاد رکھا جائے گا کہ ایک حکمران نے اپنے اقتدار کی خاطر امریکہ سے تعلقات کو داؤ پر لگادیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق انہوں نے یہ بیان جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے دیا اور کہا کہ آج سے 30 سال بعد کسی کو عمران خان کا نام بھی یاد نہیں ہوگا،عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آتی وہ دوسروں کا برا کرتے کرتے پاکستان کے ساتھ برا کردیتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ مجھےوزیراعظم عمران خان کے غیر ذمہ دارانہ رویے شدید غصہ ہے، وزیراعظم آفس میں فائز ہونے کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں، صرف ہماری حکومت کی نہیں پورے پاکستان کی ڈرون حملوں کے حوالے سے پالیسی بالکل واضح تھی۔ وزیراعظم عمران خان کو موصول ہونےو الے دھمکی آمیز خط کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے حنا ربانی کھر نےکہا کہ جسے وزیراعظم لہرارہے تھے وہ درحقیقت ایک سفارتی کیبل ہے، ملک کا سفیر چھوٹی سے چھوٹی بات اور میسج کیلئے اپنے ملک کو سفارتی کیبل ارسال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سفارتی کیبل کو بنیاد بنا کر ایسا تاثر دینا کہ خدانخواستہ وزیراعظم کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے غلط ہے،ایک سفارتی کیبل کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا ایک خطرناک اسٹینڈ ہے،جیسے ہمارے سفیر نے ہمیں کیبل بھیجا ویسے ہی پاکستان میں موجودسفیر بھی اپنے اپنے ملکوں کو یہاں کی سیاسی صورتحال سے آگاہ رکھتے ہیں، تو یہ کہنا کہ جب سفارتی کیبل آیا تب تو تحریک عدم اعتماد پیش بھی نہیں ہوئی تھی ،بلا جواز ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کے وزیراعلی پنجاب بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں، انہیں وزیراعلی بننے کیلئے درکار ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز نے ذرائع کا حوالہ دے کر اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پرویز الہیٰ نے اپنے نمبر پورے کرلیے ہیں ، اس حوالے سے سول سیکرٹریٹ پنجاب میں اہم اجلاس ہوا جس میں راجا بشارت کا کہنا تھا کہ ناراض اراکین پرویز الہیٰ کی حمایت کرنے کیلئے رضامند ہیں ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ چوہدری پرویز الہی پی ٹی آئی کے ایک اور ناراض چھینہ گروپ سے ملاقات کے لیے ماڈل ٹاون پہنچے اور گروپ کے 14 ارکان اسمبلی سے ملاقات کی، ارکان اسمبلی میں عامر عنایت شاہانی، علی رضا خاکوانی ، اعجاز سلطان بندیشہ، احسن جہانگیر، گلریز افضل گوندل، خواجہ داؤد سلیمانی، سردار محی الدین کھوسہ، غصنفر عباس، غصنفر چھینہ، تیمور لالی، سردار شہاب الدین، فیصل فاروق چیمہ، اعجاز خان اور غلام علی اصغر شامل تھے، جب کہ پرویز الہیٰ کے ہمراہ ایم این اے طارق بشیر چیمہ، صوبائی وزرا راجہ بشارت، حافظ عمار یاسر اور چوہدری ظہیر تھے۔ چھینہ گروپ کے ارکان کا کہنا ہے تھا کہ پرویزالٰہی سے ملاقات بہت اچھی رہی، 24 گھنٹوں میں فیصلے کا اعلان کر دیں گے۔ راجہ بشارت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیراعلی بننے کیلئے جتنے ووٹوں کی ضرورت ہے وہ حاصل کرلی گئی ہے اب بس چند ناراض ارکان کو منانا رہ گیا ہے جلد وہ بھی مان جائیں گے، اس حوالے سے چوہدری پرویز الہیٰ کی رہائش گاہ پر ناراض ارکان کی اسپیکرپنجاب اسمبلی سے ایک ملاقات بھی طے ہے۔ صوبائی وزیر چوہدری ظہیر الدین نے بھی اس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے بیشتر ارکان پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ کی حمایت کررہے ہیں، ترین گروپ سے بھی رابطے میں ہیں اس معاملے میں بھی جلد مثبت پیش رفت سامنے آجائے گی۔
چین کی جانب سے پاکستان کے اندرونی سیاسی صورتحال اور بیرونی سازشوں کے حوالے سے ایک بڑا اعلان سامنے آیا ہے چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے ممالک کو سرد جنگ کا ہتھیار بننے نہیں دیں گے۔ خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کراچی کی چین میں اپنے ہم منصب سے ملاقات ہوئی جس دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور سمیت موجودہ سیاسی صورتحال طر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس موقع پر چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے دور میں پنپنے والی سوچ کو دوبارہ پروان چڑھنے نہیں دیں گے۔ چینی وزیر خارجہ نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایشیائی ممالک میں محاذ آرائی والی کیفیت کو نہ دہرایا جائے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے ملک نا ہی سرد جنگ کا حصہ بنیں گے اور نا ہی گریٹ پاور گیم کا نشانہ بنیں گے۔ واضح رہے کہ چین کی جانب سے بیان ایسے وقت میں سامنے آیا کہ پاکستان کے اندر سیاسی حکومت کی تبدیلی کے لیے زور سے زور و شور سے کوششیں کی جارہی ہیں، عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے کوششیں متحدہ اپوزیشن کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ اپوزیشن کی سازش کے پیچھے بیرونی ہاتھ کارفرما ہے، اس انکشاف کو ثابت کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے ایک دھمکی آمیز خط بھی عوام کے سامنے رکھا ہے۔

Back
Top