سیاسی

پاکستان کی منتخب حکومت کوسازش کے ذریعے تبدیل کرنے سے متعلق پاکستان کے سفیر کے خط کے معاملے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ایک خط عوام کے سامنے لہرایاتھا جس میں ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں بیرونی سازش کے شواہدموجود تھے،بعد ازاں اس خط کو قومی سلامتی کمیٹی کے ایک اجلاس میں بھی ڈسکس کیا گیا اور بعد ازاں اس اجلاس کے اعلامیہ میں بھی بیرونی مداخلت کی مذمت کی گئی۔ اس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث تھا۔ تاہم آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں اس معاملے پر سوال کے جواب میں وضاحت دی جسے سوشل میڈیا پر توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے اور ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے عمران خان کے بیان کی تردید کی ہے۔ حالانکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی وہی بات کی جو عمران خان نے کی تھی، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اعلامیہ میں لکھا ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی، جو بات چیت غیر ملکی عہدیدار نے کی وہ ملکی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں آتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایسے معاملے پر ڈیمارش دیا جاتا ہے اور یہ ایک سفارتی عمل ہے، اعلامیہ میں شامل انہی الفاظ پر اتفاق کیا گیا اور بعد میں ڈیمارش دیا گیا ہے۔
سینئر تجزیہ کار محسن بیگ نے بڑا انکشاف کر دیا، انہوں نے کہا کہ لکھی اگلے دس روز میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو موصول ہونے والا خط گھڑا گیا تھا اور بیرون ملک کی کیبل کی لینگویج شاہ محمود قریشی نے لکھی تھی۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "فیصلہ آپ کا " میں "سازشی خط" اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی آج کی پریس کانفرنس جے حوالے سے بات کرتے ہوئے محسن بیگ نے کہا کہ جو پریس کانفرنس آج ہوئی یہ پندہ دن پہلے ہونا طے تھی، لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر اس کو ملتوی کیا گیا، شاید اس کے پیچھے یہ سوچ بھی کارفرما تھی کہ اس وقت پریس کانفرنس کرنا سٹنگ وزیراعظم کی نفی کرتی تھی جو کہ مناسب نہیں تھا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے محسن بیگ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے کہا کہ سازش ہے، انہوں نے ایسا کونسا کام کر لیا امریکہ کے خلاف کہ امریکہ نے انہیں ہٹانے کا تہیہ کر لیا، درحقیقت عمران خان جھوٹ بولتے ہیں، اور کثرت سے بولتے رہتے ہیں، اس کے علاوہ اپنے ساتھیوں کو بھی یہی ہدایت کی ہوتی کہ جھوٹ بولیں، یہ خط من گھڑت ہے، اس کی لینگویج شاہ محمود قریشی نے لکھی تھی، آئندہ چند روز میں یہ ثابت ہو جائے گا، ان کی وجہ سے پاکستانی سفیر اسد مجید بھی پریشان ہیں، جلد ان کا استعفی آنے کا بھی امکان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی پریس کانفرنس ایسی ہی واضح ہونی چاہیئے تھی، انہوں نے اڈے دینے تک کی بات مسترد کر دی کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے جانا تو تھا ہی، ضد پکڑ کے بیٹھ گئے کہ نہیں جانا، عثمان بزدار کو بٹھا دیا جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی اکثریت ناراض تھی، انہوں چاہیئے تھا کہ آرام سے مستعفی ہوتے اور گھر جاتے۔ واضح رہے کہ ک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دھمکیوں کے خلاف دن رات کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیئے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، آج کی پریس بریفنگ کا مقصد قومی سلامتی کی صورتِ حال سے آگاہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 3 ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔افواہوں کی بنیاد پر بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی صورت قابلِ قبول نہیں، یہ ملک کے مفاد کے سراسر خلاف ہے۔ پاکستان کی طرف کسی نے بھی میلی آنکھ سے دیکھا تو اس آنکھ کو نکال دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے فوجی قیادت سے رابطہ کیا تھا، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی وزیرِ اعظم ہاؤس گئے تھے تو ان کے رفقا بھی موجود تھے، ان کے ساتھ بیٹھ کر 3 آپشنز پر بات چیت ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہ کوئی آپشن دیا گیا نہ سامنے رکھا گیا، وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، فوج مستقبل میں بھی اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔ا گر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ ہم نے مداخلت کی ہے تو سامنے لائے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو جواب یہی ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے، پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جلسے جلوس جمہوریت کا حصہ ہیں۔ ایک سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ ڈی مارش صرف سازش پر نہیں دیا جاتا، اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی میں پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے معاملے پر واضح تقسیم سامنے آگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پیپلزپارٹی کی قیادت کو وفاقی کابینہ میں شمولیت کیلئے منانے کی کوششیں جاری ہیں مگر پیپلزپارٹی اس حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے میں تاحال ناکام نظر آرہی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے 2 مرکزی رہنماؤں نے شہباز شریف کی حکومت میں پیپلزپارٹی کی شمولیت کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ وفاقی کابینہ میں شمولیت کے بجائے پیپلزپارٹی کو آئینی عہدوں تک محدود رہنا چاہیے تاکہ اس حکومت کی ناکامی کی صورت میں پیپلزپارٹی کو عوامی ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ رپورٹ کے مطابق چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کی تجویز پر پارٹی میں واضح طور پر مخالفت پائی جاتی ہے جس کو دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو نے حتمی فیصلے کا اختیار شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو سونپ دیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہی ملنے کا امکان ہے جس کیلئے بالترتیب راجہ پرویز اشرف اور شازیہ مری کے ناموں پر غور جاری ہے۔ اگر پیپلزپارٹی نے کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو شیری رحمان اور نوید قمر کو بھی وزارتیں مل سکتی ہیں، ن لیگ نے پیپلزپارٹی کو وزارت خارجہ، تجارت اور وزارت مذہبی امور کے قلمدان دینے کی پیشکش کی ہے۔ اس حوالے سےحتمی فیصلے کیلئے یہ معاملہ پارٹی کی کور کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا اور کور کمیٹی کی توثیق پر پیپلزپارٹی کابینہ کا حصہ بن سکتی ہے۔
عوام مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو اتنے روز بعد لیٹر گیٹ کے معاملے پر پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم نیوز کے پروگرام"بریکنگ پوائنٹ ود مالک" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں میں بھی موجود تھا ، اس اجلاس میں شریک تمام لوگ شیر و شکر تھے اور کوئی ایسی بات تب سامنے نہیں آئی، جو کچھ بھی ہوا وہ سب کے مشورے سے ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بطور ایک سیاسی ورکر کے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اتنے روز بعد اس معاملے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو یہ پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے تھی ، انہوں نے "نیا کٹا کھول "دیا ہے، میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی ٹائمنگ کو بہت ہی غیر ضروری سمجھتا ہوں۔ شیخ رشید نے کہا کہ تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے استعفے دے دیئے ہیں،عمران خان ملک گیر جلسوں کی کال دے چکے ہیں، عید کے بعد وہ اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کرنے والے ہیں ، میں غلطی پر ہوسکتا ہوں مگر یہ ٹھیک وقت نہیں تھا ان باتوں کیلئے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ خدانخواستہ عمران خان کی جان پر کوئی حملہ ہوجاتا ہے جیسا کہ بیرونی طاقتوں کی روایت رہی ہے، ملک میں دہشت گردوں کے داخلے کی اطلاعات ہیں، کوئی بڑا نقصان ہوجاتا ہے تو بات بہت دور تک جاسکتی ہے ، میرا خیال ہے ایسی پریس کانفرنس کی ضرورت نہیں تھی، ایف آئی اے سوشل میڈیا ورکرز کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے، کتنے لوگوں کا منہ بند کریں گے آپ کتنے چھاپے ماریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے ) کو پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ورکرز کو ہراساں کرنےسے روک دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ورکرز کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائیوں کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے کی۔ اس موقع پر عدالت نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ کو ذاتی حیثیت میں کل عدالت میں تمام ریکارڈ کے ہمراہ پیش ہونے کا حکم دیا ۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم گزشتہ 3 سال سے آپ کو یہی سب کچھ نہیں سمجھاتے رہے تھے؟ جس پر وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ حکومت میں رہتے ہوئے پارٹی ہماری سنتی تو یہ سب کچھ نہ ہوتا ویسے بھی جنہوں نے یہ سب کیا وہ اب دوسری جانب جاچکے ہیں، حکومتیں غلطیاں کرتی ہیں، ماضی میں نہیں رہنا چاہتے بات تو مستقبل کی ہے۔ وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سربراہ ڈاکٹر ارسلان خالدسمیت دیگر سوشل میڈیا ورکرز کی فہرست عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں پر عدالتوں کے خلاف مہم کی تردید کرتے ہیں، اگر کوئی ملوث پایا جاتا تو اس کے خلاف قانون کےمطابق کارروائی عمل میں ضرور لائی جائے۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو ایس او پیز کی مکمل پاسدار ی کرنے اور تحریک انصاف کے ورکرز کو ہراساں کرنے سے روک دیا ہے۔
سینئر صحافی و تجزیے کار نجم سیٹھی کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کے جلسوں میں چھوٹے شہروں سے 30-25 لوگ اور بڑے شہروں میں 500-400 سے زیادہ لوگ نہیں نکل رہے. نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ایک بیانیہ بنایا جا رہا کہ نجانے کتنا لوگوں کا سمندر ان کے کہنے پر نکل کر باہر آ رہا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ان کی کال پر چھوٹے شہروں سے 30-25 لوگ اور بڑے شہروں سے 500-400 لوگ نکلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک آدھی جگہ پر ممکن ہے کہ لوگ ان کے کہنے پر نکل بھی آئے ہوں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بڑی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور اس کا حصہ کچھ صحافی دوست بھی بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے نمبر پر تو ایسا نہیں ہو رہا اور اگر ہو بھی رہا ہے تو صرف بڑے شہروں میں کچھ لوگ نکلتے ہیں۔ نجم سیٹھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان میں وہ تصاویر شامل ہیں جن کو فوٹوشاپ کی مدد سے جعلسازی کر کے بنایا گیا ہے۔ شیخ رشید نے فوٹو شاپ سے پہلے کچھ تصاویر شیئر کی تھیں اس میں نظر آ رہا تھا کہ 4000-3000 لوگ جمع ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی انکا کہنا تھا کہ اگلی بار اتنے لوگ بھی نکل آئیں تو میں ان کو مان جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ان کے ساتھ جذباتی ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ شاید کوئی واقعی سازش ہو گئی ہے اور ویسے بھی اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کر رہے۔ نجم سیٹھی کا مزید کہنا تھا کہ جب ووٹنگ ہوتی ہے تو تب پتہ چلتا ہے کہ کون کتنا مقبول ہے یا کون لیڈر ہے اور کون نہیں ہے۔
پشاورجلسے کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرنے والے اے آروائی نیوز نےسب کو پیچھے چھوڑ دیا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے منعقد کیے جانے والے پشاور جلسے کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرنے والے اے آروائی نیوز نے باقی تمام چینلز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 11بج کر 28 منٹ پر اے آروائی نیوز پشاور میں تحریک انصاف کے جلسے کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرنے والا شائد واحد چینل تھا جبکہ باقی تمام چینلز اس وقت اپنی روٹین کی پروگرامنگ نشرکررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق میڈیا چینلز کی جانب سے پشاور میں تحریک انصاف کے جلسے کی کوریج کے بائیکاٹ نے عوام کو بھی چینل سوئچ کرنے پر مجبور کردیا اور تقریبا 60 فیصد ویورشپ جلسے کی فل کوریج کرنے والے اے آروائی نیوز نے سمیٹ لی، عوام میں عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ ان اعدادوشمارسے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ نیاٹیل ٹرینڈنگ کی جانب سے جاری کردہ ریٹنگز کے مطابق 11بج کر 28 منٹ پرناظرین کی کل تعداد میں سے 60 فیصد لوگ اے آروائی نیوز دیکھ رہے تھے جبکہ 16 فیصد ویورز جیونیوز پر منیب فاروق کا پروگرام "آپس کی بات " دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح 5 فیصد لوگ دنیا نیوز ،4 فیصد لوگ ہم نیوز اور 2 فیصد لوگ بول نیوز دیکھ رہے تھے۔ آفیشل ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے جلسے کولائیو کوریج کرتے ہوئے11 بج کر 35 منٹ پر اے آروائی نے مجموعی ویورشپ کا56اعشاریہ1 فیصد کور کیا اور اس کے ناظرین کی تقریبا تعداد2ہزار107رہی جبکہ جیو نیوز14اعشاریہ11 فیصد کے ساتھ صرف 530 ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواسکی۔ جبکہ باقی تمام چینلز ڈبل ڈیجٹ کی شرح سے بھی ناظرین کو توجہ نہ کھینچ سکے، نجی ٹی وی چینل کے صحافی ثاقب الرحمان نے نیا ٹیل کی ریٹنگ کو شیئر کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ عمران خان کے ساتھ تنہا کھڑے اے آروائی نیوز کی ریٹنگ نے تباہی مچادی ہے۔ صحافی عدیل وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ اے آر وائی نیوز کی ریٹنگ نے تباہی مچا دی، عمران خان کے پشاور جلسے کی بھرپور کوریج پر عوام کا اے آر وائی کیلئے رسپانس حیران کن ہے عدیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ ریٹنگز بتا رہی ہے کہ عمران خان کے جلسوں کو نہ دکھانا خود کو چھپانے کے مترادف ہے یوٹیوب پر بھی اعدادوشمار کچھ ایسے ہی ہیں، جلسے کو یوٹیوب پر لائیو نشر کرنےو الے اے آروائی نیوز پر ویورز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی جبکہ جیو نیوز کو اس وقت صرف 26ہزار لوگ دیکھ رہے تھے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ 2022 الیکشن کا سال ہے یہ انتخاب 7 ماہ بعد ہو جائے یا 13 ماہ بعد الیکشن تو ہونا ہی ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف جس شہر میں جلسہ کرے گی، وہاں اس سے بڑا جلسہ کر کے دکھائیں گے۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ تاریخ طے کر لیں ہم تیار ہیں۔ عام انتخابات کے حوالے سے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ یہ الیکشن کا سال ہے، جس طرح سے الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہمیں 7 ماہ چاہئیں، انتخابات 7 ماہ بعد ہوں یا 13 ماہ بعد ہوں الیکشن تو ہونے ہیں۔ نئی وفاقی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے مسلم لیگ پنجاب کے صدر کا کہنا تھا کہ کابینہ ایک دو روز میں طے ہو جائے گی۔ دوسری جانب ن لیگ کے خرم دستگیر بولے معیشت اور خارجہ پالیسی کی صورتحال میں بہتری آئی تو حکومت اپنی مدت پوری کرے گی، ورنہ نومبر یا دسمبر میں انتخابات کرائے کرا دیں گے۔ یاد رہے کہ دوسری جانب تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دیکر ملک میں فوری انتخابات کرانے کا فیصلہ اور مطالبہ کیا ہے۔
سینئر صحافی اور کالم نگار روف کلاسرا نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس جب یہ آپشن تھا کہ آپ اتحادی پارٹیوں سے بات کریں تو کاسندھ ہاوس میں منحرف لوگوں کو رکھنا اور بعدازاں میڈیا کے سامنے لانا بہت بڑا بلنڈر تھا۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "ٹونائٹ ود فریحہ" میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی روف کلاسرا کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو تین حکومتیں ایسی آئی ہیں جن کے بعد ان کی قانونی حیثیت، قابلیت اور سالمیت کے حوالے سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ حکومتیں کرپشن سے آئی ہیں، دھاندلی ہوئی، دھرنوں کی وجہ سے آئے ہیں یا پھر "سیلیکٹڈ" حکومت کا ٹیگ لگا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ گزشتہ 10سال میں یہ سوچ پختہ ہو گئی ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے اس کو کوئی لے کر آتا ہے، ان کے پاس کوئی قابلیت نہیں، کوئی قانونی حیثیت نہیں، "سیلیکٹڈ" ہے۔ روف کلاسرا نے کہا کہ پہلے تو یہ تمام باتیں نظر انداز کی جاتی رہیں جیسے کہ عمران خان صاحب کو سیلیکٹڈ وزیراعظم کہتے ہیں، چلیں مان بھی لیں کے عمران خان ڈیڑھ دو کروڑ ووٹ لے کر آئے تھے لیکن انہوں نے شبہات پیدا کئے، اگر ان سب باتوں کو آئینی اور قانونی طور پر بھی دیکھاجائے تو عالمی سطح پر ایسا ہوتا ہے، حکومتی اتحاد بنتا ہے اور ٹوٹتا ہے، بھارت میں بھی ایسا بہت بار دیکھا چکے ہیں، جمہوری ممالک میں یہ سب نارمل ہے، لیکن اس کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے جس میں بہت بڑا ہاتھ پی ٹی آئی حکومت کی متحد ہ اپوزیشن جو کہ اب موجودہ حکومت ہے اس کا ہے۔ روف کلاسرا نے سابقہ متحدہ اپوزیشن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جن ابہوں نے عدم اعتماد کے لئے افراد کو حکومت سے توڑ لیا تھا تو ان کو سندھ ہاوس میں دکھانا بہت بڑا سیاسی بلنڈر تھا، جبکہ آپ کے پاس یہ آپشن تھی کہ آپ حکومتی اتحاد سے عدم اعتماد پر بات کر سکتے تھے۔
صحافی و تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا ہے کہ عمران خان کی ہائبرڈ حکومت تھی تو پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کون سا تکنیکی انصاف لے کر کس کے کندھے پر بیٹھ کر آئے ہیں؟ جیو نیوز کے پروگرام "رپورٹ کارڈ" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اطہر کاظمی نے ساتھی پینلسٹ ریما عمر کے تجزیے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ریما نے پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی جیت قرار دیا ہے، کیا جیت ایسی ہوتی ہے؟ کیا یہ جماعتیں الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جو ہائبرڈ حکومت تھی وہ یوگوسلاویا کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بنوائی گئی تھی، کوئی تشریح کرے کہ وہ حکومت کیسے بنی تھی اور اب پی ڈی ایم وغیرہ کس کے کندھے پر بیٹھ کر آئے ہیں، کہاں سے تکنیکی انصاف لے کر آئے ہیں،رات کو 12 بجے عدالتیں کس کی حکومت گرانے کیلئے کھولی گئی تھیں؟ اطہر کاظمی نے کہا کہ یہ ووٹ کی پرچی پر جیت کر آتے تو ہم مانتے بھی یہ کہ یہ ووٹ لے کر آئے ہیں، آج ملک میں الیکشن کرواکے دیکھ لیں،پہلے کہا جاتا تھا کہ عمران خان کو لوگ باہر نہیں نکلنے دیں گے بلکہ انہیں ہیلمٹ پہن کر باہر جانا ہوگا، اور اب جب لوگ خود خان کیلئے باہر نکل رہے ہیں تو الزام عائد کیا جارہا ہے وہ عوام کو بہلا پھسلا کر لایا جارہا ہے۔ تجزیہ کار نے کہا میں سمجھتا ہوں ایسا کہنا عوام کی ذہانت کی توہین ہے، عوام جاہل نہیں ہیں کہ کسی بھی آواز پر باہر نکل آئیں گے،جمہور کی جمہوریت میں توہین اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتی، عوام باشعور ہیں اور سب کچھ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کریں اگر اداروں سے تکنیکی انصاف لیا تو سیاسی بحث کا رخ اداروں کی طرف ہوجائے گا جو بہت بدقسمت ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے عہدیداران نے نجی خبررساں ادارے جیونیوز کی چینی کی قیمتوں سے متعلق خبر کو مسترد کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز نے آج ایک رپورٹ نشر کی جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جاتے جاتے یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی کی قیمتوں میں اضافہ کرگئی ہے جس کے بعد چینی کی فی کلو قیمت 85 روپے سے بڑھ کر 9 روپے اضافے کے بعد 94 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ اس خبر کے حوالے سےتحریک انصاف حکومت کے وفاقی وزیر حماد اظہر نے ردعمل دیتے ہوئے جعلی خبر قرار دیا اور کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا، ای آر پی سسٹم کے نفاذ کےبعد اب یوٹیلیٹی اسٹورز ہر ٹرانزیکشن کا ریکارڈ مرتب رکھنے کے اہل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی شناختی کارڈ پر یوٹیلیٹی اسٹور سے خریداری کرتے ہوئے کچھ حد بندیاں قائم کی گئی ہیں جس کے مطابق آٹا 40 کلو،گھی 5 کلو اور چینی 5 کلو خریدی جاسکتی ہے اور اس سے زائد مقدار میں خریداری کرتے ہوئے مارکیٹ کے ریٹس لاگو ہوں گے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم نے بھی اس خبر پر اپنا ردعمل دیا اور کہا کہ پہلی بار یوٹیلیٹی اسٹورز آٹو میٹڈ ہوئے ہیں جس سے اب ان کا غلط استعمال رک جائے گا،اور اب مستحق لوگوں کو صرف سبسڈائزڈ ریٹس پر سامنا ملے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک چینی کا سوال ہے تو ہول سیل مارکیٹ میں3 دن پہلے تک چینی کی قیمت 80 روپے فی کلو تھی۔
سابق وفاقی وزیر و رہنما تحریک انصاف حماداظہر نے دعویٰ کیا ہے کہ دیکھ رہا ہوں آئندہ چند ہفتے میں عام انتخابات کا اعلان ہو جائےگا،اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے حماداظہر نے کہا کہ کیاہم کٹھ پتلی حکومت کےسامنےبیٹھ کرتقریریں کریں؟ نہیں! ہم عوام میں نکلے ہیں اوراب عوام فیصلہ کریں گے آگے کیا ہونا ہے۔ حماداظہر نے کہا کہ کل عام عوام نکلے ہوئے تھے اوران کی آنکھوں میں غصہ تھا عوام چاہتےہیں پاکستان اب بیرونی ایجنڈوں پرنہیں چلے گا امپورٹڈحکومت خود کہےگی الیکشن کرالیں چند ہفتےانتظار کریں۔ انہوں نے کہا کہ 11جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں نہ نظریہ اورسوچ ملتی ہے ہم نےتازہ مینڈیٹ کامطالبہ کیا ہے، اسمبلی میں85 نشستوں والی پارٹی کو وزیراعظم کا عہدہ دیدیا گیا ان لوگوں کو پتہ ہےابھی عوام میں گئے تو ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت ملک میں فوری عام انتخابات چاہتی ہے جو آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، تاکہ لوگ صاف شفاف الیکشن کے ذریعے جسے چاہیں اپنا وزیراعظم منتخب کر سکیں۔ فواد چوہدری بھی کہتے ہیں کہ ٹکراؤ سے بچنے کا واحد طریقہ انتخابات ہیں،ن لیگ حکومت سوشل میڈیا اور سیاسی مخالفین کیخلاف کریک ڈاؤن کے خواب چھوڑے، چوں چوں کا مربہ حکومت چند ہفتوں کیلیے ہے، ملک کا سیاسی بحران سنگین ہو رہا ہے۔
سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کو چلنے دینا چاہیے تھا، تحرک عدم اعتماد لانا اس وقت کی اپوزیشن کی جانب سے غلط مووتھی۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "فیصلہ آپ کا"میں اینکر نے تجزیہ کار مظہر عباس سے سوال کیا کہ جب ٰعمران خان صاحب اپوزیشن میں تھے انہوں نے دھرنادیا، سیویلین نافرمانی کی گئی، بل پھاڑے گئے، تو کیا اب بھی امکان ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے ایسے ہی اقدامات اٹھائے جاِئیں گے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ جب سے عدم اعتماد کی تحریک آئی اس وقت کی اپوزیشن کا یہ غلط اقدام تھا، انہیں چاہیئے تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی مدت پوری کر لینے دیتے، معاشی صورتحال ایسی ہے کہ ایک سال میں یہ لوگ بھی معاشی صورتحال سنبھال نہیں پائیں گے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ جب الیکشن میں سال ڈیڑھ سال کا وقت رہ گیا تھا ایسے وقت میں تحریک عدم اعتماد کا لانا سراسر غلط اقدام تھا۔ اینکر عاصمہ شیرازی نے ان کی بات پر نقظہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ تو آئینی اختیار تھا جو اس وقت کی اپوزیشن نے استعمال کیا، انہوں نے دھرنا نہیں دیا آئینی حق استعمال کیا جس پر مظہر عباس نے جواب دیا کہ ملکی تاریخ کے 75 سالوں میں کسی ایک وزیراعظم نے بھی اپنی مدت پوری نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں جو تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے جو بحران چل رہا تھا اس نے ملک کو معاشی طور پر پیچھے دھکیلا ہے، اور اب آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم مزید کوئی توقع نہیں رکھتے تو آپ نے سسٹم کو کیوں نہیں چلنے دیا، عمران خان کی شہرت کم ہو رہی تھی، لوگ مہنگائی تلے دبتے جارہے تھے، تو آپ کو چلنے دینا چاہیئَے تھا حکومت اپنے انجام کو خود پہنچتی۔ اینکر نے ایک اور نقطہ اٹھایا کہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر اب بھی یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو کوئی بھی ملک کا وزیراعظم بننے کو تیار نہ ہوتا کیونکہ صورتحال شدید خراب ہو جانی تھی جس کے جواب میں مظہر عباس نے کہا کہ صرف اس مسئلے کی بنیاد پر حکومت کا ایک سال کم کرنے سے کیا حل نکلے گا۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو نیا قائد ایوان منتخب کرلیا جس کے بعد شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ خیال رہےکہ نئے قائد ایوان کے لیے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف اور تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی وزیراعظم کے امیدوار تھے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد شہباز شریف واحد امیدوار رہ گئے۔ شہباز شریف کو ایوان میں 174 ووٹ ملے جس کے بعد وہ پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں، شہباز شریف آج رات ہی وزیر اعظم پاکستان کا حلف لیں گے۔
ملک کے معروف وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ صدرمملکت عارف علوی استعفیٰ نہیں دیں گے اور انہیں آرٹیکل 47کے تحت صرف دو تہائی اکثریت کی مدد سے مواخذہ کر کے ہٹایا جا سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر قانون دان اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن صدر مملکت عارف علوی کو نہیں ہٹا سکتی کیونکہ صدر کا مواخذہ کرنے کیلئے انہیں دو تہائی اکثریت چاہیے ہو گی جو کہ ان کے پاس نہیں ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر جاری اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان استعفی نہی دیں گے اور آئین کے آرٹیکل 47 کے تحت صدر کا صرف دو تہائی سے مواخذہ ہو سکتا ہے اور وہ بھی صرف ذہنی اور جسمانی وجوہات کی بنا پر اور یوں مولانا فضل الرحمان صرف خوب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 47 کے تحت صدر کو صرف جسمانی یا ذہنی معذوری کی بنیاد کر عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر مملکت کو آئین کی خلاف ورزی یا سنگین بدتمیزی کے الزام میں اس کا مواخذہ کیا جا سکتا ہے۔ اظہر صدیق کے ٹوئٹ پر دیگر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔
کامران خان نے کچھ گھنٹوں میں سوشل میڈیا کا جائزہ لیکر کہا ہے کہ ناقابل یقین طور پر 30 لاکھ پاکستانی عمران خان کی حمایت کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ عام پاکستانیوں اور اداروں کے جذبات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن کامران خان نے کہا ہے کہ آج صبح تک مختلف ٹاپ ٹرینڈز میں 20 لاکھ ٹوئٹس تھیں جن سے عمران خان کی حمایت کا تاثر تھا۔ انہوں نے اسے عمران خان کے زوال کی کہانی کا دوسرا رخ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ٹوئٹس پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے سوشل میڈیا کا جائزہ لیکر کہا کہ آج عمران خان بلاول اور فضل الرحمان سے زیادہ نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے 174 اراکین، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے عمران خان کو اقتدار سے رخصت توکردیا مگر گزشتہ چند گھنٹوں میں ناقابل یقین 30 لاکھ سے زائد پاکستانی عمران خان کی حمایت اور اس تبدیلی کے خلاف ٹوئٹر پراحتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گویا عام پاکستانیوں اور اداروں کے جذبات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو پرانے پاکستان کی واپسی پر ناخوش دکھائی دیں، ان کا کہنا ہے کہ پرانا پاکستان نئے پاکستان سے بہتر نہیں تھا۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا تھا "ویلکم بیک ٹو پرانا پاکستان"۔ بھٹو خاندان ہی کی فرد فاطمہ بھٹو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ کی اور لکھا کہ میں ہمیشہ سے عمران خان کی سیاست کی ناقد رہی ہوں اور اکثر لکھا ہے کہ عمران خان اپنی موقع پرستی اور مصلحت پسندی سے ملکی اداروں کو نقصان پہنچائیں گے۔ فاطمہ بھٹو نے یہ بھی لکھا کہ وہ یہ بات ان کے دور اقتدار یا مدت کے حوالے سے بالکل بھی احساس کے بغیر کہتی ہیں کہ "پرانا" پاکستان خراب تھا کوئی بھی نیک نیتی سے پُرانے پاکستان کی واپسی کا جشن نہیں منا سکتا۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے خبردار کردیا، کہا ملکی سیاست میں خوفناک ،ہیبت ناک سائے منڈلارہے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ عدالتی مارشل لا کے ذریعے ایگزیکٹو کے اختیارات کو ایک بار پھر چھین لیا گیا،جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے آرمی چیف کی مبینہ برطرفی روکنے کی پٹیشن سننے کیلیے رات گئے عدالت کھولنے کا حکم دیا۔ شیریں مزاری نے مزید لکھا کہ اختیارات کی آئینی تقسیم اب ایک طاقتور سائے کی نیچے دفن ہے۔ شیری مزاری نے کہا ارسلان خالد کے گھر پر چھاپا بھی اسکی مثال ہے، تنقید پر عدم برداشت کا نظرآنا حیران کن نہیں ہے، تاہم کسی بغاوت کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر تنقید اکثر بے ساختہ ہی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ شب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کی برطرفی کے حوالے سے خبریں چل رہی تھیں،وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو برطرف کرنے کی خبروں کی تردید کردی تھی۔ باخبر ذرائع نے آرمی چیف کو برطرف کرنے کی خبروں کی تردید کی ہے جبکہ ذرائع کے مطابق خود وزیراعظم عمران خان نے بھی آرمی چیف کو برطرف کرنے کی تردید کی ہے۔ دوسری جانب اینکر پرسن سلیم صافی نے ٹویٹ کیا تھا کہ ایک دفعہ عدم اعتماد کامعاملہ کسی کنارے لگنےدیں توانشااللہ پہلاکام ارسلان،اظہر،غزالی اورجبران وغیرہ کوعدالت کےکٹہرےمیں کھڑاکر کےنشان عبرت بنانےکاکروں گا۔
عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر سابق وزیراعظم کی سابق اہلیہ جمائما کے بھائی بین اسمتھ بھی حمایت میں میدان میں آگئے، بین گولڈ اسمتھ نے ٹویٹ کیا کہ وہ صرف اپنے ملک کیلئے اچھا کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ بین گولڈ اسمتھ نے مزید لکھا کہ میرے بہنوئی عمران خان ایک اچھے اور معزز انسان ہیں، اپنے ملک کیلئے اچھا کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں ، بطور وزیر اعظم ان کا ریکارڈ غیر معمولی ہے۔ انہوں نے عمران خان کی ماحول دوست پالیسیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ عمران کی قیادت میں پاکستان نے ماحولیاتی بحالی کے حوالے سے بہت کام کیا۔ جمائما کے چھوٹے بھائی نے بھی عمران خان کی برطرفی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے افسوسناک قراردیا ان کا کہنا تھا کہ رات جو کچھ ہوا دیکھ کر افسوس ہوا، عمران خان ایک اچھے اور شاندارانسان ہیں اور کرپٹ نہیں ہیں۔ زیک گولڈسمتھ نے امید ظاہر کی کہ اب عمران خان آئندہ الیکشن میں بھاری اکثریت کیساتھ واپس آئیں گے۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے پاکستان کی سیاسی صورتحال اور عمران خان کی برطرفی پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر بھی عمران خان کی حمایت میں ٹوئٹس کئے جارہے ہیں،صارفین کہتے ہیں کہ انشااللہ ڈیڑھ سال بعد عمران خان دوبارہ پاکستان کےوزیراعظم ہوں گے،پوراپاکستان ان کےساتھ ہے،تحریک کی کامیابی کوامریکا کی کامیابی ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے بی بی سی اردو کی خبر کو جھوٹ کا پلندہ اور بے بنیاد قرار دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق عامہ آئی ایس پی آر نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندا قرار دے دیا اور کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقاتوں سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی خبر مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندا ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بی بی سی نے روایتی پروپیگنڈا کرتے ہوئے متعلقہ حقائق نظر انداز کیے گئے، خبر میں ضروری سورسز اور صحافتی اخلاقیات نظر انداز کی گئیں۔ ان کا مزید کہہنا تھا کہ خبر منظم ڈس انفارمیشن ہے، معاملہ جلد ادارے سے اٹھایا جائے گا۔ واضح رہے کہ بی بی سی ماضی میں بھی حقائق کے برعکس خبریں دے چکا ہے، بی بی سی کو ماضی میں بھی متعدد خبروں پر عالمی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں کئی بار جرمانے بھی ادا کرنے پڑے ہیں۔ گزشتہ رات حامد میر سمیت کئی صحافیوں نے یہ خبریں پھیلائی تھیں کہ عمران خان جاتے جاتے آرمی چیف کو برطرف کرگئے ہیں لیکن بعدازاں عمران خان اور دیگر صحافیوں نے اس خبر کی تردید کردی۔ اس سے قبل غریدہ فاروقی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ہفتے کی رات ایک اھم ترین شخصیت کی برطرفی پر دستخط کر دیے تھے!!! وہ سمجھ رہے تھے کہ ہیلی کاپٹر پر اُنکا نومقررکردہ عہدیدار آئیگا لیکن جن کی وہ توقع نہیں کر رہے تھے، وہ آ گئے!!
انگریزی اخبار سے منسلک معروف صحافی انصار عباسی نے گزشتہ روز ایک دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان اپنے لیے این آر او چاہ رہے ہیں تاہم جب انہیں سنگین حالات میں بھی عمران خان کے ڈٹے رہنے کا احساس ہوا تو اپنے اس دعوے کی نفی کر دی۔ انصار عباسی نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر کہا تھا کہ انہیں اپوزیشن میں سے کسی نے بتایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کچھ غیر سیاسی شخصیات کے ذریعے این آر او مانگ رہے ہیں۔ تاہم انصار عباسی نے جب یہ بات کہی تھی اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا تھا کہ اس دعوے کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی انصار عباسی نے اسی وقت کہا تھا کہ ابھی یہ نہیں معلوم کہ یہ بات سچی ہے یا جھوٹی ہے۔ ایک اور ٹوئٹ میں انصار عباسی نے اپنی اسی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے متعلق این آر او مانگنے کی خبر جھوٹی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز حامد میر نے نجی چینل کے شو میں دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان اپوزیشن سے این آراومانگ رہے ہیں، وہ اسی صورت میں استعفیٰ دینے کو تیار ہوں گے اگر انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ ان پر اور انکے ساتھیوں پر کرپشن کے مقدمات نہیں بنیں گے اور انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

Back
Top