سیاسی

آج کل کچھ چینلز کی جانب سے اور حکومت مخالف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر صحت کارڈ سے متعلق پروپیگنڈا ہورہا ہے جس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ صحت کارڈ فراڈ ہے اور اس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ اس پر نجی چینل جی این این نے ایک رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ صحت کارڈ کے ذریعے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچ رہا ہے، نجی چینل نے مریضوں اورانکے ورثاء کے تاثرات بھی شئیر کئے۔ نجی چینل کے مطابق یکم جنوری سے اب تک ایک لاکھ 36 ہزار 172 افراد نے علاج کروایا جن کے علاج پر اب تک 2 ارب 84 کروڑ 52 لاکھ سے زائد رقم خرچ ہوچکی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق یکم جنوری سے اب تک پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایک لاکھ ایک ہزار 213 مریض داخل ہوئے جن پر علاج کا خرچ 2 ارب 10 کروڑ سے زائد خرچ ہوا سرکاری ہسپتالوں میں قومی صحت کارڈ پر علاج کرانیوالے مریضوں کی تعداد 36 ہزار سے زائد مریض داخل ہوئے جن کے علاج پر 64 کروڑ 61 لاکھ سے زائد خرچ ہوئے۔ صحت کارڈ سے مستفید ہونیوالے ایک شخص نے کہا کہ مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تھا، سرکاری ہسپتال میں میرا علاج نہیں ہوا ، میں اس پرائیویٹ ہسپتال آیا تو میرے پاس ہیلتھ کارڈ نہیں تھ۔ اس کا کہنا تھا کہ میرا ہیلتھ کارڈ اسی ہسپتال میں بنا جس کی وجہ سے میرا علاج بالکل فری ہوا۔ قومی صحت کارڈ سے علاج کرانیوالے ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ یہاں پر میری انجیوگرافی اور انجیو پلاسٹی ہوئی ہے، مجھے سٹنٹ ڈلے ہیں، سب ڈاکٹرز تعاون کررہے ہیں انہوں نے میرا بہت خیال رکھا ہے۔ اس پر ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ پی ٹی آئی حکومت کا کام ہے جہاں ایک مریض پر ہزاروں، لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا تھا، اب وہ صحت کارڈ کے ذریعے انہی سہولیات کے ساتھ مفت علاج کروارہا ہے جن پر لاکھوں کا خرچ ہوتا تھا۔
گزشتہ روز حمزہ شہباز نے مہمانوں کے سامنے گاناگاکر شریف خاندان کے البم میں ایک اور گانے کا اضافہ کردیا۔ حمزہ شہباز ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ میں مہمانوں کے سامنے گفتگو کے دوران فرط جذبات پر قابو نہ پا سکے، اور بھارتی گلوکار محمد رفیع کا گانا گنگنا دیا۔ حمزہ شہباز نے محمد رفیع کا مشہور گانا ” زندگی تو بے وفا ہے اک دن ٹھکرائے گی" گایا۔گانے کے اختتام پر پر حاضرین نے تالیاں بجاکر خوب داد دی۔ یہ گانا فلم مقدر کا سکندر میں امیتابھ بچن پر فلمایا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ شریف خاندان کے کسی فرد نے آواز کا جادو جگایا ہے۔ شہباز شریف، حمزہ شہباز ، مریم نواز، جنید صفدر بھی مختلف مواقعوں پر گانا گاچکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شریف فیملی کے افراد نے زیادہ تر گانے بھارتی فلموں کے گائے۔ صرف شہباز شریف ہیں جنہوں نے پاکستانی فلم کا ایک گاناگایا۔ حمزہ شہباز اس سے قبل بھی مختلف مواقعوں پر گانا گاچکے ہیں۔ کئی سال پہلے سہیل وڑائچ نے حمزہ شہباز کا انٹرویو لیا تو انہوں نے "کھلتے ہیں گل یہاں" گایا۔ یہ گانا بھارتی فلم " شرمیلی" میں ششی کپور پر فلمایا گیا تھا اور اسے کشور کمار نے گایا تھا۔ جنید صفدر کی شادی میں بھی حمزہ شہباز نے خوب آواز کا جادوجگایا اور حمزہ شہباز نے کشور کمار کا مشہور گانا "ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے" گایا تھا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کئی بار گانا گاچکے ہیں۔ انہوں نے آج سے 12 سال قبل ایک ٹی وی شو میں مشہور پاکستانی فلم "ارمان" کا گانا"اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر" گایا۔ یہ گانا احمد رشدی نے گایا تھا۔ اسکے بعد شہباز شریف نے یہ گانا متعدد مواقعوں پر گایا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گانا شہبازشریف کے پسندیدہ ترین گانوں میں سے ایک ہے۔ صرف یہی نہیں شہباز شریف نے سلیم صافی کے ایک شو میں محمد رفیع کا گانا "میں یہ سوچ کر اسکے در سے اٹھا" گایا یہ گانا بھارتی فلم حقیقت میں فلمایا گیا تھا الیکشن 2018 سے پہلے بہاؤلنگر میں جلسہ کرتے ہوئے شہباز شریف نے "او ننھے سے فرشتے " گاکر جلسے کے شرکاء سے خوب داد وصول کی۔ یہ گانا بھارتی فلم "ایک پھول دو مالی" میں بھارتی اداکار سنجے خان پر فلمایا گیا تھا اور اسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ علاوہ ازیں شہبازشریف اکثر حبیب جالب کی نظم "میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا" بھی گنگناتے رہتے ہیں۔انہوں نے یہ نظم مختلف جلسوں اور تقریبات میں گائی اور اس نظم کا سہارا لیکر آصف زرداری کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ مریم نواز نے بھی اپنےبیٹے جنید صفدر کی شادی کی تقریب میں گانا" چرالیا ہے تم نے جو دل کو" گایا۔ یہ گانا بھارتی فلم "یادوں کی بارات" میں زینت امان پر فلمایا گیا تھا۔ مریم نواز نے جنید صفدر کی مہندی پر بھی گانا "یہ پیلا جوڑا" گایا اور ساتھ ساتھ شرکاء کو بھی اشارے سے گانے کا کہتی رہیں۔ مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر نے نہ صرف نکاح کی تقریب میں گانا گایا بلکہ شادی کی تقریب میں بھی وہ گاتے نظر آئے۔ لندن میں نکاح کے تقریب کے دوران جنید صفدر نے "کیا ہوا تیرا وعدہ گایا" تو انکی اہلیہ بھی انکے ہمراہ تھیں جبکہ مہمان جنید صفدر کے گانے پر داد دیتے رہے یہ گانا محمد رفیع نے گایا تھا اور بھارتی فلم "ہم کسی سے کم نہیں" میں ماضی کے ایک اداکار طارق خان پر فلمایا گیا تھا جو بالی وڈ اداکار عامر خان کے کزن ہیں۔ اسکے بعد جنید صفدر کی پاکستان میں شادی ہوئی تو جنید صفدر نے راحت فتح علی خان کا "تینوں سمجھاواں کی" گایا اور خوب داد سمیٹی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف نے بھی کبھی گانا گایا ہے؟ نوازشریف نے گانے کی کوئی ویڈیو تو سامنے نہیں آسکی لیکن نوازشریف بھارتی گانوں اور فلموں کے بہت شوقین ہیں۔ انکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اداکارہ طاہرہ سید اور بھارتی گلوکارہ دلشاد بیگم سے ٹیلیفون پر گانے سنتے تھے ۔ اسکا دعویٰ مختلف سیاستدان اور صحافی کرتے رہے ہیں۔ نوازشریف کے بھارتی اداکاروں سے بھی تعلقات ہیں۔ بھارتی اداکار شتروگھن سنہا کئی بار نوازشریف سے ملاقات کرنے جاتی امراء آچکے ہیں۔ جب نوازشریف وزیراعظم بننے کے بعد بھارت گئے تو انہوں نے خصوصی طور پر ہیمامالنی اور شبانہ اعظمی سے ملاقات کی۔ نوازشریف کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی دیوآنند سے بہت دوستی ہے۔ 98 میں جب واجپائی پاکستان آنا تھا تو نوازشریف نے دیو آنند سے ملاقات کی خواہش کی جس پر واجپائی دیوآنند کو اپنے ساتھ لیکر آئے تھے۔ پاکستانی لیجنڈ محمد علی تو نوازشریف دور میں ان کے مشیر رہ چکے ہیں جبکہ اداکار نسیم وکی، ناصرچنیوٹی اور دیگر سٹیج اداکار ن لیگ کے کارکن ہیں۔ ٹی وی اداکارہ کنول پنجاب اسمبلی میں ایم پی اے جبکہ ماضی کے معروف اداکار اور نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز مرحوم نوازشریف دور میں ایم این اے رہ چکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان اور سابق صدر آصف علی زرادری کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی منظرعام پر آگئی ہے۔ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی پونا گھنٹہ ون آن ون ملاقات بھی ہوئی نجی چینل کے ذرائع کے مطابق ولانا فضل الرحمان کو سابق صدر نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپنی حکمت عملی بارے آگاہ کیا، آصف علی زرادری نے حکومتی اتحادیوں سے ہونے والے رابطوں سےمتعلق مولانا فضل الرحمان کو آگاہ کیا۔ نجی چینل کے مطابق ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرادری اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان 30 منٹ ون او ون ملاقات بھی ہوئی۔ ملاقات اس معاملے پر بھی مشاورت کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب یا اسپیکر میں سے کس کے خلاف پہلے لائی جائے ۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم سے علیحدگی جبکہ سابق صدر نے شوکاز نوٹس کا بھی ہلکا پھلکا گلہ بھی کیا۔ مولانا کی جانب سے آصف زرداری کیلئے پرتکلف کھانوں کا اہتمام کیا گیا جس میں مٹن سجی، چانپیں، شنواری کڑاہی ،مچھلی اور جھینگے سمیت پرتکلف کھانوں کا ڈھیر لگایا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ مولانا صاحب آپ کمزور ہوگئے ہے، اپنا خیال رکھیں، جس پر مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ بس وقت کے ساتھ ساتھ چل رہا سب۔ ذرائع کے مطابق کہ آصف زرداری نے کہا کہ ہمارے ممبرز کی تعداد مکمل ہے، حکومتی اتحادی بھی رابطے میں ہیں، مولانا آپ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کرکے بسم اللہ کریں جس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ قوم کو جلد سرپرائز دیں گے۔ ملاقات میں کہاگیا کہ اس مرتبہ نا اہل حکومت کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے۔عوام کی امیدیں ہم سے وابستہ ہیں، حکومتی اتحادی بھی حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ ملاقات میں طے پایا کہ جلد اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت کرکے عدم اعتماد پیش کریں گے، جلد بازی نہیں کرنی ۔
مسلم لیگ نے بیرونِ ملک مقیم اپنے ارکان قومی اسمبلی کو 48 گھنٹوں میں پاکستان واپس پہنچنےکی ہدایت کردی اور پاکستان میں مقیم ایم این ایز کو بیرون ملک نہ جانے کی ہدایت کردی ہے۔ نجی چینل کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئندہ چند روز میں متوقع ہے جس کیلئے مسلم لیگ نے بیرونِ ملک مقیم اپنے ایم این ایز کو نہ صرف 48 گھنٹوں میں پاکستان واپس پہنچنےکی ہدایت کردی بلکہ بیرون ملک سفر سے بھی روک دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کے ارکان قومی اسمبلی کو آئندہ 3 روز لاہور اور اسلام آباد میں ہی قیام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کےدوران ان کی ملک میں غیر موجودگی میں تحریک عدم اعتماد لانے پرغور شروع کردیا ہے جس کی وجہ وزیراعظم کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل ہونے سے بچانا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کےایک رہنما کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے تحریک عدم اعتماد کیلئے وزیراعظم کے دورہ روس کا وقت تجویز کیا ہے تاہم پیپلزپارٹی کو عدم اعتماد کے نتیجے میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کا بھی خدشہ ہے جو پیپلزپارٹی نہیں چاہتی۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن نے دیگر ہم خیال ارکان قومی اسمبلی سے رابطے بڑھادئیے ہیں۔ کچھ ن لیگی رہنما 22 ایم این ایز ساتھ ہونیکا دعویٰ کررہے ہیں تو کچھ 50 سے زائد لیکن جاوید لطیف نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے 90 سے زائد ارکان عدم اعتماد میں ساتھ دیں گے۔ اس سے قبل لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی کیونکہ پی ٹی آئی کے ارکان بھی عدم اعتماد کی تحریک کیلئے ووٹ دیں گے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے ایم این اے ہمارے ساتھ ہیں۔
اپوزیشن حکومت کو ہر صورت گھر بھیجنے پر ڈٹ گئی، اسمبلیوں سے استعفوں کی آپشن، تحریک عدم اعتماد سے بات نہ بننے پر اپوزیشن نے حکومت گرانے کیلئے نئے طریقہ کار پر غور شروع کردیا۔ نجی چینل 92 نیوز کے مطابق اپوزیشن نے حکومتی ارکان کو پارلیمنٹ سے مستعفی کرانے پر غور شروع کردیا۔اپوزیشن نے تحریک انصاف کے 15 کے قریب ارکان کو پارلیمنٹ سے مستعفی کرانے پر غور شروع کردیا۔ جس کے لئے اپوزیشن نے قانونی ماہرین سےصلاح مشورے شروع کردئیے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کے 10 سے 15 ارکان استعفے دیدیں تو حکومت کے پاس سادہ اکثریت نہیں رہے گی۔وزیراعظم اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک ایوان میں اسے اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ استعفوں کے بعد وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے گایوں تحریک عدم اعتماد کے بغیر ہی ٹارگٹ پورا ہوجائے گا۔ قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومتی ارکان حکومت کا ساتھ نہ چھوڑیں اور اتحادی ساتھ چھوڑدیں تو بھی اپوزیشن اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی۔ اسکے باوجود جو اہم نقطہ سامنے آرہا ہے کہ اسپیکر استعفے کب قبول کرتا ہے کیونکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اسپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ استعفے کتنے عرصے میں قبول کرتا ہے۔ یادرہے کہ جب 2014 میں تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے استعفے دئیے تھے تو اسپیکر نے فوری طور پر منظور نہیں کئے تھے بلکہ حکومتی ارکان کو ایک ایک کرکے بلاتے تھے۔ اسپیکر نے سیاسی بحران سے بچنے کیلئے استعفوں کو لمبے عرصے تک ٹالے رکھا تھا اور بالآخر ایک سال بعد تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفے واپس لیکر پارلیمنٹ میں آگئی تھی۔ اسی طرح پی پی دور میں اس وقت کےوزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اسمبلی سے استعفیٰ دیدیا تھا اور کئی ماہ تک شاہ محمودقریشی کا استعفیٰ زیرالتواء رکھا گیا تھا۔
حمزہ شہباز مہمانوں کے سامنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور گانا گانا شروع کردیا۔۔ حاضرین کی حمزہ شہباز کو داد نجی چینل کے مطابق پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ میں مہمانوں کے سامنے گفتگو کے دوران فرط جذبات پر قابو نہ پا سکے، اور بھارتی گلوکار محمد رفیع کا گانا گنگنا دیا۔ حمزہ شہباز کی گانا گاتے ہوئے ویڈیو بھی وائرل ہوگئی، جس میں حاضرین ان کی ویڈیو بنارہے ہیں۔ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ حمزہ شہباز مہمانوں کے سامنے گانا گارہے ہیں اور حاضرین محظوظ ہورہے ہیں۔ حمزہ شہباز نے محمد رفیع کا مشہور گانا ” زندگی تو بے وفا ہے اک دن ٹھکرائے گی" گایا۔گانے کے اختتام پر پر حاضرین نے تالیاں بجاکر خوب داد دی محمد رفیع کا یہ گانا مشہورزمانہ بھارتی فلم "مقدر کا سکندر" میں امیتابھ بچن پر فلمایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حمزہ شہباز کی جنید صفدر کی شادی پر گانا گانے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں حمزہ شہباز نے کشور کمار کا مشہور گانا "ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے" گایا تھا۔ جنید صفدر کی شادی پر نہ صرف حمزہ شہباز بلکہ مریم نواز نے بھی آواز کا جادو جگایا تھا جبکہ جنید صفدر نے بھی گانا گایا تھا۔ اس سے قبل شہباز شریف بھی متعدد مواقعوں، جلسوں اور ٹی وی شوز میں گانا گاچکے ہیں۔
سوئس اکاؤنٹس میں 30ہزار کلائنٹس کے کھربوں کے نئے اثاثے، 1400پاکستانی شامل ہیں۔اس لیک کو ’’سوئس سیکریٹس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ صحافی عمرچیمہ نجی چینل کے صحافی عمرچیمہ کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک سے لیک ہونے والی معلومات میں 128؍ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن میں سیاستدان، جرائم پیشہ عناصر، کاروباری حضرات اور دیگر شامل ہیں۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن پر مختلف جرائم کی پاداش میں فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔ ایسے اکاؤنٹس بھی ہیں جو 1940 کی دہائی کی ہے لیکن اکثر اکاؤنٹس 2000 کے بعد کھولے گئے تھے۔ عمرچیمہ کے مطابق لیک ہونے والی تفصیلات میں 18؍ ہزار بینک اکائونٹس اور 30؍ ہزار کھاتہ داروں کی تفصیلات شامل ہیں جن کے دنیا کے سب سے بڑے نجی بینک ’’کریڈٹ سوئیز‘‘ میں 100؍ ارب ڈالرز (17؍ کھرب 535؍ ارب پاکستانی روپے) تک کے اثاثے موجود ہیں۔ اس لیک کو ’’سوئس سیکریٹس‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سوئس بینک کا اتنا ڈیٹا لیک ہو کر میڈیا تک پہنچا ہے۔یہ ڈیٹا جرمن اخبار سوُدوچے زائتونگ کو فراہم کیا جس نے ان لیکس پر کام کیا۔جس بنک کا ڈیٹا لیک ہوا ہے یہ بینک سوئٹزرلینڈ کا دوسرا سب سے بڑا بینک ہے۔ ان لیکس پر 39؍ ممالک سے تعلق رکھنے والے 48؍ میڈیا ہائوسز کے 160؍ سے زائد صحافیوں نے مل کر کریڈٹ سوئیز سے لیک ہونے والی معلومات کا جائزہ لیا ہے۔ صحافی کے مطابق ڈیٹا میں کئی پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں جن کی تعداد 1400 کے قریب ہیں اور انکے کریڈٹ سوئیزبنک میں 600؍ کے قریب اکائونٹس ہیں ان میں ایسے اکاؤنٹس بھی ہیں جو اب بندہوچکے ہیں لیکن ماضی میں فعال تھے۔ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو ماضی میں یا حال میں نیب کی تحقیقات کا سامنا کر چکے یا کر رہے ہیں۔ عمرچیمہ کے مطابق ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں کہ جن لوگوں کیخلاف نیب کی تحقیقات جاری تھیں اور انہوں نے اسی دوران بینک میں اکائونٹس کھولے اور نیب کو پتہ تک نہ چلا۔ کئی ایسی سیاسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے اُس وقت سوئس بینکوں میں اکائونٹس کھولے جب وہ عہدوں پر تھے اور انہوں نے ان اثاثہ جات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں میں ذکر تک نہیں کیا۔ عمرچیمہ کے مطابق ایک سیاستدان ایسا بھی ہے جب اسکا سیاسی کیرئیر عروج پر تھا تو اسکے سوئس اکاؤنٹس میں بھاری رقوم جمع ہوتی رہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں اہم ترین سیاسی عہدے پر موجود ایک شخص کا بینک میں اکاؤنٹ ہے، اور یہ بینک کا امیر ترین کلائنٹ ہے۔ ڈیٹا دیکھ کر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بنک کے کچھ کلائنٹس کیخلاف پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات جاری ہیں۔ ان لیکس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ تحقیقات کرنے والے اداروں اور الیکشن کمیشن کو اثاثہ جات کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ کئی ایسے پاکستانی بھی ہیں جنہوں نے سوئس بینک میں اپنے پراکسیز کے نام پر اکائونٹس کھلوائے ہیں۔ بنک میں پاکستانیوں کی کتنی رقم موجود ہے؟ عمرچیمہ کے مطابق بینک میں اوسطاً ہر پاکستانی کے اکاؤنٹ میں84 کروڑ موجود ہیں جبکہ لیک ہونے والے ڈیٹا میں تمام کھاتہ داروں کے اکائونٹس میں ایک ارب 42؍ کروڑ 75؍ لاکھ 95؍ ہزار روپے سے زائد رقم موجود ہے۔ ان اکاؤنٹس میں میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور مصر کے سابق طاقتور صدر حسنی مبارک کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’رپورٹ کارڈ‘ میں میزبان علینہ فاروق شیخ نے سوال پوچھا کہ کیا حکومت اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو گی؟ مظہر عباس نے کہا کہ اسٹیٹس کو کیخلاف سیاست کا نعرہ لگاتے کر آنے والے عمران خان خود بھی اسٹیٹس کو کی سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹس کو کے کھلاڑیوں کے بل بوتے پر ہی حکومت بنے تو پھر وہی لوگ بارگین کا حصہ بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گھبراہٹ واضح ہے کیونکہ اسی پریشر میں انہوں نے مونس الٰہی کو وزارت دی اسی کے پریشر میں چوہدری برادران سے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مظہر عباس نے کہا کہ حالانکہ ایم کی ایم کے ارکان اسمبلی کے پاس دو وزارتیں ہیں مگر وہ فروغ نسیم کی وزارت کو تسلیم نہیں کرتے اور ایک مزید وزارت مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے مگر اس وقت نظر آ رہا ہے کہ وہ خود گھبرا رہے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ حکومت کے 24 اتحادیوں میں سے 8 ارکان اسمبلی پہلے ہی وزیر ہیں، حکومت کو بچانے کے لیے باقی تمام 16 ارکان اسمبلی کو وزیر مملکت بنانے کی تجویز بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کچھ بھی کر لے جو گھنگھور گھٹائیں اقتدار پر چھا چکی ہے وہ برس کر رہیں گی۔ اطہر کاظمی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اگر اتنی ہی پراعتماد ہے تو تحریک کیوں نہیں لاتے، کس چیز نے ان کو روک رکھا ہے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کہتی کچھ ہے کرتی کچھ ہے ابھی بھی انہوں نے لانگ مارچ کی 2 الگ تاریخیں دے رکھی ہیں۔ اطہر کاظمی نے کہا کہ میرے خیال میں اب اگر اپوزیشن کسی چیز پر اکٹھی ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ سارے مل کر عمران خان کو بددعائیں دیں اس کے علاوہ ان کے ہاتھ میں اور کچھ نہیں ہے۔
مسلم ن لیگ کے ایم این اے جاوید لطیف نے وفاقی وزیر مراد سعید سے معافی مانگ لی۔مراد سعید کو اپنے بیٹوں کی طرح قراردیدیا نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ مراد سعید میرے بیٹوں کی طرح ہیں ان کی بہنیں میری بہنوں کی طرح ہیں میں ان سے معافی مانگتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا غلط تھا، عمران خان نے یہ کلچرکو دوبارہ شروع کیا، کسی طور پر بھی کسی کی فیملی کے بارے میں نازیبا زبان اسعتمال نہیں کرنی چاہیے۔ جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ مراد سعید پارلیمنٹ میں جس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں یہ سب جانتے ہیں لیکن میں نے اس وقت جو الفاظ استعمال کیے تھے تب بھی شرمندہ تھا اور اب بھی معذرت کرتا ہوں۔ تحریک عدم اعتماد کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد دنوں میں آئے گی، فون کالز کا استعمال نہ ہوا تو پی ٹی آئی سے بہت لوگ ہمارے ساتھ ہوں گے۔ واضح رہے کہ جاوید لطیف نے کچھ سال قبل وفاقی وزیر مراد سعید اور انکی بہنوں سے متعلق نازیبا زبان استعمال کی تھی جس پر جاوید لطیف اور مرادسعید میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ گزشتہ روز بھی مراد سعید نے اپنی پریس کانفرنس میں اسکا تذکرہ کیا تھا۔
اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی چال ناکام بنانے کیلئے حکومت بھی میدان میں آگئی اور کئی اہم فیصلے کرلئے۔ حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے متوقع تحریک عدم اعتماد کے خلاف حکمت عملی طے کرلی اور اپنی اتحادی جماعتوں کو ساتھ رکھنے کیلئے اہم فیصلے کرلئے ہیں۔ جس کے لئے حکومت نے اتحادی جماعتوں کے گلے شکوے اور تحفظات فوری دور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے حکومت نے وفاقی اور صوبائی کابینہ میں توسیع کرکے اتحادیوں کو راضی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لئے اتحادی جماعتوں کے ارکان کو وزیر مملکت کا عہدہ دیا جائے گا، اتحادی جماعتوں سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومت بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیوایم اور جی ڈی اے کو وزارتیں دے گی جبکہ انکے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے ترقیاتی فنڈز بھی دے گی۔ اس بارے وزیر اعظم نے قریبی رفقاء سے مشاورت مکمل کرلی ہے جبکہ تحریک انصاف کے ناراض اراکین کو بھی ساتھ رکھنے کیلئے انکے تحفظات دور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ہماری لڑائی کرپشن اور کرپٹ خاندانوں کے خلاف ہے۔اتحادیوں اور ناراض اراکین کے تحفظات دور کئے جائیں گے واضح رہے کہ بی اے پی، ایم کیو ایم و دیگر اتحادیوں نے حکومت سے وزارت کا مطالبہ کر رکھا تھا۔گزشتہ روز ق لیگ کے مشاورتی اجلاس میں فیصلے کرنے کا اختیار پرویزالٰہی کو دیدیا گیا ہے۔ ق لیگ کے مشارورتی اجلاس میں ق لیگی اراکین ملک میں جاری مہنگائی پر پھٹ پڑے اورپرویزالٰہی سےا پناکردار اداکرنیکا مطالبہ کیا۔ ق لیگی اراکین کاکہنا تھا ک آج پنجاب میں حالات پرویزالٰہی دور سے بہت بدتر ہوگئے تھے۔ پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ کا دور ایک شاندار دور تھا۔
ترین گروپ کے لیڈر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ اصول کی بنیاد پر بنا ہے،جب جہانگیرترین کے ساتھ زیادتی ہورہی تھی تو وہ لوگ جو جہانگیرترین کے زیادہ قریب نہ تھے جہانگیرترین کیساتھ کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ نجی چینل کے شو میں اسحاق خاکوانی نے عندیہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق فیصلہ جہانگیرترین کریں گے اور انہوں نے اس گروپ کی اہمیت بھی بتائی کہ یہ کیوں بنا اور اسکا مقصد کیاہے۔ اسحاق خاکوانی کے مطابق اس گروپ میں وزیر، پارلیمانی سیکرٹریز اور ایم این ایز، ایم پی ایز بھی شامل ہیں اور ہم حکومت کے خلاف نہیں جہانگیر ترین کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف ہیں۔ انکے مطابق یہ لوگ حکومت کے خلاف نہیں تھے بلکہ حکومت کے ایک اصول کے خلاف تھے لیکن کچھ صحافیوں نے اسے تحریک انصاف مخالف گروپ بنادیا۔ہم تحریک انصاف میں اس لئے شامل ہوئے تھے کہ انصاف پر مشتمل اور ایماندار معاشرہ قائم کریں گے۔ جہانگیر ترین گروپ کا ساتھ کتنے لو گ دے رہے ہیں؟ اس سوال پر اسحاق خاکوانی کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ ایک ہوں یا زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، ہمارے کچھ ایم این ایز ملک سے باہر تھے جو میٹنگ میں آنہیں سکے۔ محسن بیگ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ محسن بیگ ایک شریف آدمی میں اور وہ عمران خان کے قریبی ساتھی تھے، وہ پی ٹی آئی کا خیرخواہ ہے۔محسن بیگ کا گرفتار ہونا میرے لئے حیران کن ہے۔
لاہور: مسلم لیگ ق کے اراکین اسمبلی اور رہنماؤں نے تحریک عدم اعتماد سمیت تمام فیصلوں کا اختیار چوہدری پرویز الہیٰ کو دے دیا۔ ق لیگ کی پارلیمانی کمیٹی کا مشاورتی اجلاس اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں بلایا گیا۔ نجی چینل کے مطابق طارق بشیر چیمہ کی زیرصدارت پاکستان مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں چودھری پرویزالٰہی نے اپوزیشن رہنماؤں سے حالیہ ملاقاتوں پر پارٹی ارکان کو اعتماد میں لیا، اس پر تمام ارکان اسمبلی نے چودھری پرویزالٰہی کو فیصلوں کا اختیار دے دیا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر مونس الہٰی، سالک حسین ، حسین الہٰی اور ق لیگ کے سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان شریک ہوئے۔ مسلم لیگ ق کے اراکین اسمبلی نے پیٹرول، گیس اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے قیمتوں میں حالیہ اضافہ فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا جبکہ امن و امان کی ابتر صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اراکین کا کہنا تھا کہ عام آدمی کو ریلیف نہ دیا گیا تو حالات کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔اراکین نے مطالبہ کیا کہ حکومت عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے اور مہنگائی، ملکی امن وامان کے حالات کو کنٹرول میں لائے۔ اس موقع پر اراکین اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے فیصلوں کا اختیار چوہدری پرویزالٰہی کو دیدیا۔
دو روز قبل جہانگیر ترین گروپ کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی جس میں ارکان نے ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہونے کی تجویز دی ذرائع کے مطابق جہانگیرترین گروپ کی اکثریت نے کھل کر سیاسی میدان میں آنے فیصلہ کیا اور حکومت مخالف کھل کر لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ ترین گروپ نے عدم اعتماد کی تحریک باضابطہ پیش ہونے پر اپنا لائحہ عمل لانے کا فیصلہ کر لیا، جبکہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے تک ترین گروپ نے سیاسی کارڈز خفیہ رکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ ترین گروپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے پر ترین گروپ اپوزیشن کاساتھ دے سکتا ہے۔لوگ بھی مہنگائی کی وجہ سے تحریک انصاف سے تنگ ہیں۔ترین گروپ کے انتخابی حلقوں میں تحریکِ انصاف کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں مضبوط شخصیات پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینا پسند نہیں کریں گی۔ ارکان کا مؤقف تھا کہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، اراکین اسمبلی کو حلقوں میں سخت عوامی ردِعمل کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ترین گروپ تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ ن کاساتھ دے سکتا ہے؟ کچھ عرصہ قبل جہانگیرترین کی پارٹی کے رہنماؤں نے جہانگیرترین کو اپنا علیحدہ فارورڈبلاک بنانے کی تجویز دی، ترین گروپ کے کچھ رہنماؤں نے عمران خان، عثمان بزدار کے خلاف سخت زبان استعمال کی تو اس پر تحریک انصاف کے سپورٹرز کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا، وہ لوگ جو جہانگیرترین کیساتھ تھے، انہوں نے بھی جہانگیرترین پر تنقید شروع کردی جس کی جہانگیرترین کو وضاحتیں دینا پڑیں اور کچھ ارکان ترین گروپ کاساتھ چھوڑگئے۔ اسکے بعد جہانگیرترین کو عدالت سے ریلیف ملا تو ترین گروپ اچانک ہی منظر سے غائب ہوگیا لیکن جب دوبارہ تحریک عدم اعتماد کی باتیں شروع ہوئیں تو یہ گروپ ایک بار پھر منظرعام پر آگیا۔ جہانگیرترین گروپ کے زیادہ تر ارکان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں، اگر وہ تحریک انصاف کے خلاف جاتے ہیں تو وہ نااہل ہوسکتے ہیں اور اپنی اسمبلی کی سیٹ سے ہاتھ دھوسکتے ہیں۔ دوسرا جہانگیرترین اگر مسلم لیگ ن کا ساتھ دیتا ہے تو ن لیگ کے اس بیانئے کہ تحریک انصاف چینی چور آٹا چور ہے کو بہت بڑا دھچکا لگے گا اور لیگی مخالفین کو کہنے کاموقع ملے گا کہ جس شخص پر یہ الزام تھےوہ تو آپکے ساتھ ہی مل گیا ہے۔ تیسرا جہانگیرترین کی اپنی ساکھ متاثر ہوگی، تحریک انصاف میں انہیں پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا سمجھاجائے گا۔ ترین گروپ میں شامل بعض ارکان ایسے ہیں جو ترین گروپ کی طرف سے کھڑاہوکر یا آزادکھڑا ہوکر نہیں جیت سکتے ان میں ایک مثال راجہ ریاض اور نورعالم خان کی ہے۔ کئی ارکان ایسے ہیں جو اگر پارٹی چھوڑدیتے ہیں اور ن لیگ میں شامل ہوتے ہیں تو یا تو انکے متبادل تحریک انصاف کے پاس موجود ہیں یا بعض ن لیگی رہنما ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ترین گروپ کی طرف سے یہ خبریں آتی رہیں گی کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں ن لیگ کا ساتھ دے گا تاکہ وہ بارگیننگ کی پوزیشن میں رہے لیکن وہ ساتھ دے گا نہیں۔ غالبا ترین گروپ پانچ سال پورے ہونے کے بعد یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے کس گروپ میں جانا ہے یا آزادحیثیت برقراررکھنی ہے۔ ترین گروپ کے کئی ارکان کو تحریک انصاف توڑنے میں کامیاب رہی ہے جن میں نذیرچوہان، خرم لغاری شامل ہیں، بعض ترقیاتی فنڈز کیلئے یا اپنی سیٹ بچانے کیلئے تحریک انصاف سے دوبارہ رجوع کرسکتے ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کے بعد انہیں کچھ نہیں ملے گا، ن لیگ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں نئے الیکشن چاہتی ہے جبکہ یہ ارکان پانچ سال تک اپنی سیٹ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کو یہ گوارا ہی نہیں کہ آنے والے وقت میں مستقل طورپر اقتدار کا ایک نیا دعویدار ان کیلئے مصیبت بنا رہے۔ عمران خان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ حبیب اکرم اپنے کالم میں حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے اپنے خلاف تمام تر کمپین اور پروپیگنڈا کے باوجود تہیہ کرلیا تھا کہ 5 سال پورے کرنے ہیں اسکے لئے انہوں نے یوسف رضاگیلانی کی نااہلی بھی برداشت کی، افتخارچوہدری کو بھی بحال کیا لیکن جمہوریت کے دعویدار عمران خان حکومت کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں؟ حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوئے اور ہمیں خارجہ محاذ پربھی کئی پریشانیوں کا سامنا ہے لیکن ملک کے حالات تو الا ماشااللہ ہر دور میں یہی رہے ہیں۔ ہم نے من حیث القوم اپنی معیشت کو کشکول سے جوڑ رکھا ہے۔ انکے مطابق اپنے اپنے دور میں سبھی آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ آصف زرداری حکومت میں آئے تو انہوں نے دنیا بھر سے مانگنے کیلئے فرینڈز آف پاکستان کا فورم تشکیل دیا۔ نواز شریف نےسعودی عرب سے ایک ارب ڈالرمانگا اور پھر چین آگیا۔ عمران خان آئے توپھر وہی سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور اب چین۔ ۔ حبیب اکرم نے مزید کہا کہ پی پی کے دور حکومت میں بھی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا جس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس دور میں بھی عالمی سطح پرہر چیزکی قیمتیں بڑھی ہیں اوران قیمتوں کی ذمہ داری بھی خان صاحب پر نہیں ڈالی جاسکتی لیکن نواز شریف کے دور حکومت میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں مناسب رہیں اور ان کے لیے معیشت چلانا نسبتاً آسان رہا‘ مگر انہوں نے تجارتی خسارے کو اتنا بڑھا دیاکہ اب یہ آنے والے کئی سالوں تک پاکستان کیلئے وبال جان بنا رہے گا۔ حبیب اکرم کے مطابق ہاں تحریک انصاف کو کورونا وبا کا سامنا ضرور کرنا پڑا جواس سے پہلے پاکستان میں کسی حکومت نے نہیں کیا۔ دنیا میں کئی جگہ کارکردگی کی باقاعدہ تعریف بھی ہو رہی ہے۔ گویا معاشی حوالے سے عمران خان چاہے وہ کچھ نہ کر سکے ہوں جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا‘ پھر بھی کورونا اور تیل کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ وہ جو کچھ کرسکتے تھے‘ انہوں نے کیا۔ ان کے مطابق عمران خان نے پہلے آنیوالوں سے اچھا نہیں کیا توبرا بھی نہیں کیا؛ اس حکومت کو جانچا جائے تو یہ ویسی ہی حکومت ہے جیسی اس سے پہلے آتی رہی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ مجموعی طورپر کارکردگی کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت نہیں گرائی جارہی بلکہ اس کے علاوہ کوئی سبب ہے جو نواز شریف اور آصف زرداری کو عمران خان کے خلاف متحد ہونے پرمجبور کررہا ہے۔ ہاں‘ حکومت گرانے کیلئے بہانہ کارکردگی کوضرور بنایا جارہا ہے۔ حبیب اکرم کے مطابق چونکہ آئندہ موسم خزاں میں بھی ہماری ہیئت مقتدرہ میں تبدیلی کافیصلہ ہونا ہے اس لیے وہ سب اکٹھے ہوچکے ہیں جو پارلیمنٹ کی مدت پوری کرنے کے فضائل و برکات درست طور پر ہمیں سمجھاتے رہے ہیں۔ انکےمطابق دوسری چیز جواپوزیشن میں اتحاد کا باعث ہے‘ وہ تحریک انصاف کا نیا پن ہے۔ سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کو یہ گوارا ہی نہیں کہ آنے والے وقت میں مستقل طورپر اقتدار کا ایک نیا دعویدار ان کیلئے مصیبت بنا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان بھی ایک سیاسی قوت ہیں۔ یہ قوت عدم اعتماد یا اسمبلی ٹوٹنے سے ختم نہیں ہوگی۔ اب اسے برداشت ہی کرنا پڑے گا۔
پیپلزپارٹی کے ڈیرہ اسماعیل خان سے ایم پی اے احمد کنڈی کو علی امین گنڈاپور کو چیلنج مہنگا پڑگیا؟ کیا اب استعفیٰ دیں گے؟ تفصیلات کےمطابق ڈیرہ اسماعیل خان سٹی مئیر کی الیکشن کمپین کے دوران پی پی ایم اے احمد کنڈی نے علی امین گنڈاپور کو چیلنج دیا کہ اگر میں اپنے حلقے اور یونین کونسل سے الیکشن ہارگیا تو میں استعفیٰ دوں گا اور اگر تم ہارگئے تو تم استعفیٰ دینا۔ احمد کنڈی نے علی امین گنڈاپور سے کہا تھا کہ میرا چیلنج قبول کرو میں تمہارے گھر آکر اپنا حق لوں گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ احمد کنڈی نے اپنے دوستوں کو گواہ بنایا تھا جبکہ احمد کنڈی کے اپنے ہی حلقے سے پیپلزپارٹی کو شکست ہوئی۔ خیال رہے کہ مئیر شپ کے امیدوار فیصل کریم کنڈی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہارگئے تھے اور احمد کریم کنڈی کو اپنے حلقے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی اپنے ہی آبائی گاؤں سے ہارگئے۔یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار عمرامین گنڈاپور کو 1015 جبکہ فیصل کریم کنڈی کو 743 ووٹ پڑے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تحریک انصاف کے امیدوار عمرامین گنڈاپور کو 63 ہزار 753 ووٹ جبکہ پیپلزپارٹی کے فیصل کریم کنڈی کو 32788 ووٹ پڑے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر مولانا فضل الرحمان اور تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین میں 2 روز قبل ملاقات کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ نجی چینل جیو نیوز اور آے آروائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی چوہدری برادران سے ملاقات کے بعد جہانگیر ترین سے ملاقات ہوئی، اس ملاقات کا اہتمام دونوں رہنماؤں کے کچھ مشترکہ دوستوں نے کیا۔ رپورٹ کے مطابق آدھے گھنٹے کی اس مختصر ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نےجہانگیر ترین سے ملکی مجموعی سیاسی صورتحال پر بات کی اور ان سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیلئے تعاون کی درخواست بھی کی۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین نے مولانا کو انکار کر دیا ہے۔ میڈیا پر چلنے والی ان خبروں پر جہانگیرترین اور مولانا فضل الرحمان کے ترجمانوں کا بھی ردعمل سامنے آگیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما اکرم خان درانی نے مولانا فضل الرحمان کی جہانگیر ترین سے ملاقات کی خبروں کی تردید کر دی۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی نے کہا کہ ابھی جہانگیر ترین سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، پی ڈی ایم کی کمیٹی ان سے رابطہ کرے گی۔ نجی چینل کے صحافی فہیم اختر کے مطابق جہانگیرترین نے 92 نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات نہیں ہوئی،ملاقات سے متعلق خبریں جھوٹی ہیں جبکہ جے یو آئی ف کے ترجمان کے مطابق جہانگیر ترین سے ملاقات نہیں ہوئی،مولانا فضل الرحمن ملتان میں موجود ہیں۔ سماء سے تعلق رکھنےو الے رپورٹر عدیل احسن کے مطابق خبر ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے موجودہ سیاسی صورت حال اور مستقبل کے معاملات پر جہانگیر ترین اور ان کے دوستوں کا تعاون طلب کیا ہے مگر جہانگیر ترین اور مولانا کے قریبی ساتھیوں نے اس ملاقات کی کھلے الفاظ میں تردید کی ہے
میرے سینے میں بہت سے رازدفن ہیں، میں خان صاحب کی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی،فردوس عاشق اعوان نجی ٹی وی چینل سماء کو خصوصی انٹرویو میں معاشی عدم استحکام کے بعد سیاسی بحران کی پیشگوئی کردی اور ساتھ ساتھ تحریک انصاف میں اندرونی لڑائیوں اور سازشوں کا پردہ بھی چاک کیا۔ فردوس عاشق اعوان نے وزیراعظم عمران خان کے اردگرد موجود ٹولے کو ناتجربہ کار اور مفاد پرست کہہ دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کو خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے، مرکز اور پنجاب میں سازشیں کرنے والا گینگ ایک ہی تھا، کچھ لوگوں نے پارٹی مفادات کو ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھادیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کے ارد گرد ٹولے ناتجربہ کار اور مفاد پرست ہے، مرکز اور پنجاب میں سازشیں کرنے والا گینگ ایک ہی تھا، میرے سینے میں بہت سے رازدفن ہیں، میں خان صاحب کی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی۔ دیگر جماعتوں کے رابطے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ دکان میں سودا پڑا ہو تو کوئی نہ کوئی خریدار تو آتا ہی ہے، پاکستان تحریک انصاف کو خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے۔ عدم اعتماد تحریک سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی پھرتیاں میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوششں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزراء میں پرفارمنس ایوارڈز کی تقسیم کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ میڈل اور ٹرافیاں تو میچ ختم ہونے پر ملتی ہیں، میچ کے دوران نہیں۔
اپوزیشن عمران خان حکومت کیسے گرائے گی؟ اپوزیشن رکن نے پلان لیک کردیا۔ صحافی انصارعباسی کے مطابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپوزیشن رہنمائوں کو بڑی توقعات ہیں کہ معاملات ’’منصوبے‘‘ کے مطابق ہی طے پائیں گے، اس منصوبے کو خفیہ رکھا جارہا ہے اور صرف چند لوگوں کو ہی اس کا علم ہے۔ انصار عباسی کے ذرائع کے مطابق اپوزیشن کو امید ہے کہ تحریک انصاف کے 20سے 30 الیکٹیبلز اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جبکہ حکومتی اتحادیوں بشمول ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ جاری رابطے پلان کا حصہ ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے 30 الیکٹیبلز اپوزیشن کی امیدوں پر پوُرا اترے تو یہ لوگ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انکے مطابق اگر اپوزیشن کی کسی اہم شخصیت کی جہانگیرترین سے ملاقات ہوتی ہے تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہئے ۔عمران خان کا متبادل وزیراعظم کون ہوگا، اسکا نام پیش کردیا گیا ہے۔ انصارعباسی کے مطابق آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں، تحریک عدم اعتماد آئندہ چند ہفتوں میں آنے کی امید ہے۔توقع ہے کہ رواں ماہ کے آخر تک پیش کر دی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کے درمیان رابطوں کا کوئی ثمر نہیں ملا لیکن اسکے باوجود اپوزیشن کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم ضرورت پڑنے پر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ پر امید شخصیات ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی اپنی حالیہ بات چیت سے مایوس ہیں اور نہ ہی ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ انصار عباسی کے ذرائع کے مطابق جس شخص نے معلومات پہنچائی ہیں ، اسے اپوزیشن کے اس منصوبے کا علم ہے لیکن اسے یقین نہیں کہ اہم اپوزیشن رہنمائوں کو دی جانے والی امیدوں میں دم ہے یا نہیں، اور یہ بھی کہ کہیں یہ امیدیں کسی بڑے کھیل کا حصہ تو نہیں۔ انکے مطابق صورتحال پلان کے مطابق تبدیل نہ ہوئی تو امکان ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان ہٹانے کا اپوزیشن کا جوش و جذبہ مارچ کی آمد کے ساتھ ماند پڑ سکتا ہے۔
تجزیہ کار سعد رسول نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی کسی جماعت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں ہے، ساڑھے تین سال میں ان کا کوئی بیان دکھا دیں جو سٹرکچرل ریفارمز سے متعلق ہو۔ دنیا نیوز کے پروگرام اختلافی نوٹ میں میزبان ام رباب نے سوال کیا کہ اگر حکومت عدم اعتماد کامیاب کرواکے حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو کیا ان کے پاس مسائل کے حل کیلئے کوئی پلان ہے؟ سعد رسول نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز صاحبہ، بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمان کا کوئی بیان دکھا دیں جس میں انہوں نے مسائل کو حل کرنے کی کوئی پالیسی پیش کی ہو؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے کورونا کے دنوں میں گوجرانوالہ اور لاہور میں لوگوں کو اکھٹا کرکے جلسے منعقد کیے۔ انہوں نے کہا کہ جب ساری دنیا میں پبلک ہیلتھ کیئر سسٹم پر بحث ہورہی تھی تب پاکستان میں این سی او سی جیسا ادارہ قائم کیا گیا جس نے دنیا میں بہترین کارکردگی کا لوہا منوایا، پوری دنیا میں ہر سیاستدان اس موضوع پر بات کررہا تھا اگر کسی نے اس معاملے پر بات نہیں کی تو وہ پاکستان اور ہندوستان کے سیاستدان تھے، جن کے پاس صرف سیاست تھی۔ سعد رسول نے کہا کہ ہمارے صحت کا نظام وہ لوگ ٹھیک کیسے کریں گے جو آج تک کتے کے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں کرسکے، پولیس کا نظام وہ لوگ کیسے ٹھیک کرسکتے ہیں جنہوں نے ماڈل ٹاؤن میں قتل عام کیا، اپوزیشن کے پاس پالیسی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا عمران خان صاحب پر تنقید اپنی جگہ مگر کچھ معاملات میں انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ہم کورونا سے بہتر انداز میں نمٹنے میں کامیاب رہے، یہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی بات کرتے ہیں کیا ان کے ادوار میں ڈالر مہنگانہیں ہوا، بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت جب 2008 میں آئی تو ڈالر 60 روپے کا تھا، کیا 2013 میں ڈالر 30 روپے کا ہوگیا تھا؟
کسی کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ شریف وہی کریں گے جس کا وعدہ کر رہے ہیں؟ ظفرہلالی نجی ٹی وی چینل کے پرورگرام میں میزبان ثمیمنہ پاشا کے سوال پر سینئر تجزیہ کار ظفرہلالی نے کہا کہ کون بھول سکتا ہے کہ ماضی میں کس طرح شریف برادارن اپنی کابینہ کے لوگوں کو چھوڑ کر سعودی عرب بھاگے، انہوں نے14 سال تک واپس مڑکر بھی اپنے ساتھیوں کو نہیں دیکھا۔ ظفر ہلالی نے کہا کہ کیا وجہ ہے شہباز شریف نفرت دکھاتے تھے پرویز الہی کیلئے اور چودھری پرویز الہٰی بھی شہباز شریف سے بڑے خفا تھے۔ انہوں نے ان کے والد کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا تھا ان کو یاد ہے، لیکن اب ان کے پاس سب بھول کے آئے ، یہ آخری موقع ہے ، تحریک عدم انہوں نے شروع کرنی ہی ہے ، شہباز شریف پر کیس شروع ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کار نے اس صورتحال کو ایک انگریزی کے محاورے سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسی صورتحال ہے جسے the last throw of the dice کہا جاتا ہے۔ یہ ان کو کرنا ہی ہو گا کیونکہ ان کا کیس شروع ہو رہا ہے۔ یہ ان کا آخری چانس ہے اگر اس بار بھی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے تو 2023 تک کچھ نہیں ہوگا۔ سینئر تجزیہ کار نے ماضی کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ وہ یقین کر لے کہ شریف جو کہہ رہے ہیں وہ وہی کریں گے انہوں نے پہلے بھی تو یہی کیا تھا پرویز الہی کے ساتھ وزارت اعلیٰ کا وعدہ کیا اور بعد میں شہبازشریف کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شریف خاندان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا کریں گے وہ خود ایک آرمی چیف کو مقرر کرتے ہیں اور پھر اسی کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں۔ جو صدر ان کو بناتا ہے وہ بعد میں اسی کو گالی دیتے ہیں۔

Back
Top