سیاسی

ایم کیوایم کے وسیم اختر کی شہبازشریف سے ملاقات۔۔ سوشل میڈیا پر وسیم اختر کا شریف خاندان سے متعلق غیراخلاقی زبان کا پرانا کلپ وائرل آج سے 12 سال قبل یعنی 2010 میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وسیم اختر نے شریف خاندان پر اس وقت ذاتی حملے کئے تھے جب چوہدری نثار نے الطاف حسین سے متعلق ایک بیان دیا تھا کہ وہ لندن سے باہر کس چیز کاعلاج کروارہے ہیں۔ اس پر ایم کیوایم کے لیڈران غصہ میں آگئے اور ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اخلاق کی ساری حدیں پار کرلی تھیں، نہ صرف شریف فیملی کی خواتین پر ذاتی حملے کئے بلکہ یہ تک کہہ دیا تھا کہ پنجاب کے ہر گھر میں مجرے ہوتے ہیں۔ انہوں نے شریف خاندان سے متعلق کہا تھا کہ لیڈر ان کا بال لگوارہا ہے لندن میں، ملک کے حالات تباہ ہورہے ہیں، یہ کیسے لیڈر ہیں، جب لیڈر جلاوطنی اختیار کرتے ہیں تو اپنی قوم کیلئے کتابیں لکھتے ہیں، اپنی مشکلات لکھتے ہیں،قوم کو راہ دکھاتے ہیں۔ وسیم اختر نے مزید کہا تھا کہ یہ لیڈر گنجے بال لگوارہے ہیں لندن جاکر،یہ حال ہے ان کا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ شہباز شریف سے پوچھیں کہ وہ لندن اور امریکہ جاکر کس چیز کا علاج کرواتے ہیں؟ جب اس کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اسکے کمرے سے گندی فلمیں اور سیکس کرنے کی چیزیں نکلتی ہیں، یہ لیڈران ہیں آپکے؟ یہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب میں جو حرکتیں ہورہی ہیں، کرپشن انتہاء پر ہے، جسم فروشی انتہاء پر ہے، ہر روز ہرگھر میں مجرا ہوتا ہے، اسکو نہیں روک سکتے یہ لوگ؟ یہ شریف لوگ ہیں؟ دو فیکٹریاں لیکر چلا تھا یہ گنجا، کہاں سے آیا انکے پاس پیسہ؟ پوچھیں ان سے وسیم اختر نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ذاتی حملے ہوتے ہوئے کہا کہ یہ الزام لگارہا ہے کسی شریف آدمی پہ، ہمیں پتہ ہے کہ کس کی بیٹی کیسے بھاگی تھی، کس کے ساتھ بھاگی تھی، پینڈوراباکس نہ کھولیں ہمارے پاس بھی بہت سارا مواد ہے۔او چوہدری نثار تجھے سارا پنڈی جانتا ہے تو وِگ لگاکر پھرتا ہے مسٹربین۔ انہوں نے کہا تھا کہ بال لگواکر پھررہے ہیں یہ گنجے، کیوں بال لگوانے ہیں؟ کیا لڑکیاں پھسانی ہیں؟ ویڈیو شئیر کرتے ہوئے صدیق جان نے کہا کہ شہبازشریف صاحب اور وسیم اختر صاحب کی ملاقات کے بعد اس بیان کا کیا کرنا ہے؟؟ اس پر اقرارالحسن نے تبصرہ کیا کہ کس کس کو وسیم اختر کے یہ جملے یاد ہیں کہ شہباز شریف کے گھر پر چھاپے کے دوران۔۔۔۔کرنے والی چیزیں برآمد ہوئی تھیں، لیڈر جلا وطن ہو کر کتابیں لکھتے ہیں، یہ دونوں گنجے بال لگواتے رہے۔ہمارے ملک میں سیاست ایسی بے رحم اور بے شرم کیوں ہے؟ اقرارالحسن نے مزید کہا کہ سیاست کے نام پر اس منافقت کا خاتمہ کب ہو گا؟ جس پر خاورگھمن نے جواب دیا کہ ریلیکس ہوجائیں، سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ طارق متین کا کہنا تھا کہ شہباز شریف براہ راست اپنے دائیں ہاتھ پر موجود وسیم اختر کو ڈھونڈنے لگے اور مجھے وہ لڑائی یاد آگئی جب وسیم اختر نے کہا تھا بال لگوا کر کمرے میں گندی فلمیں رکھتے ہیں یہ بھائی۔ آج وسیم اختر جھک کر جی جی کر رہے ہیں۔ رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ جتنی بڑی گالی وسیم اختر نے شریف فیملی کو دی تھی، ان کی لڑکیوں کو، ان کی بچیوں کو، یوٹیوب پر جاکر وہ کلپ دیکھ لیں، شہباز شریف میں اتنی بھی شرم ہوتی تو وسیم اختر کے ساتھ آج نظر نہ آتے، جس شخص نے آپ کی بہن بیٹیوں کو اتنی گالیاں نکالیں اس پر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اپنی رائے دی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری نے حکومت کو نہ گھبرانے کا مشورہ دے دیا۔کہتے ہیں کہ حکومت کو گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اپنی کارکردگی بہتر کرنی چاہئے۔ نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے 80 فی صد لوگ چاہتے ہوں گے کہ ہم حکومت سے باہر آجائیں۔ فیصل سبزواری سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں حکومت چھوڑنے کا سنگل ملا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ساتھ چھوڑنے کیلئے ایم کیو ایم کو ابھی تک کوئی سگنل نہیں ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدارتی نظام کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔موجودہ پارلیمانی نظام میں صوبے کا وزیراعلیٰ وزیراعظم سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس سوال پر کہ فروغ نسیم واقعی آپکے وزیر نہیں ہیں؟ کیونکہ آپ کہتے ہیں کہ عمران خان نے انہیں اپنے کوٹے پر وزیر بنایا ہے جس پر فیصل سبزواری نے کہا کہ وہ ہمارے سینیٹر ہیں اور وہ ہمارے ہی ووٹوں پر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور ق لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔تاحال ایم کیوایم تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کررہی ہے جبکہ شہبازشریف نےا نہیں حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی اپیل کی تھی۔
تحریک انصاف کے وزیر علی محمد خان بھی صدارتی نظام کے حق میں بول پڑے، کہتے ہیں کہ اگر پارلیمانی نظام سے نتائج نہیں مل رہے تو صدارتی نظام پر بھی سوچ بچار کرنی چاہئے۔ سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ اپوزيشن کو صدارتی نظام پر مروڑ کيوں ہو رہا ہے اگر ہميں پارليمانی نظام کے ثمرات نہيں مل رہے تو صدارتی نظام پر سوچ بچار کريں۔سپرپاور امريکا ميں بھی صدارتی نظام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم جنرل يحیٰ، ضياالحق يا پرويزمشرف والے نظام کی بات نہيں کرتے کيونکہ وہ صدارتی نظام تھے ہی نہيں، صدارتی نظام وہ ہوتا ہے جو اليکشن کميشن سياسی جماعتوں کے درميان کراتا ہے۔ علی محمد خان نے صدارتی نظام کی حمایت ایسے وقت پر کی ہے جب انکے جماعت کے اہم رہنما صدارتی نظام کی باتوں کو افواہیں قرار دیکر مسترد کررہےہیں۔ کچھ روز قبل ں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا تھا کہ صدارتی نظام لانے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ علی محمد خان کے بیان پر اپوزیشن بھی سامنے آگئی اور پارلیمانی نظام کا بھرپور دفاع کیا۔ رہنما پیپلزپارٹی سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ مسائل حل نہیں ہورہے تو اس کی وجہ حکومت کی نا اہلی ہے پارلیمانی نظام کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ رانا ثناء اللہ نے تحریک انصاف کو مشورہ دیا کہ بجائے صدارتی نظام کی حمایت پر ایک بار آئین پر عمل کرکے دیکھ لے جبکہ پی پی رہنما شیری رحمان بھی پارلیمانی نظام کی ڈٹ کر حمایت کرتی رہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سینیٹر فیصل جاوید خان بھی ملک میں صدارتی نظام کی کرچکے ہیں۔نجی چینل کے شو میں انکا کہنا تھا کہ ملک میں اسلامی صدارتی نظام ہونا چاہیے۔
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کیلئے بھی تیار ہے، وہ سمجھتی ہے کہ اس صورت میں عمران خان کے خلاف جتنا پراپیگنڈہ ہوچکا ہوگا وہ اپوزیشن کو آئندہ انتخابات میں فائدہ پہنچا ئے گا۔ دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اپوزیشن نہیں چاہتی کہ عمران خان آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر فتح یاب ہوں، ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام بھی ہوجاتی ہے کہ تو بھی حکومت کے باقی وقت کیلئے اتنا پراپیگنڈہ ضرور ہوجائے گا کہ آئندہ الیکشن میں جیتنا مشکل ضرور ہوجائے گا۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ اپوزیشن عمران خان کا ایک جامع علاج کرنا چاہتی ہیں، ماضی کی ایک مثال موجود ہے جب محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تھی اور ناکام ہوگئی تھی مگراس کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی ناکام ہوگئی تھی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ طاقتور حلقوں یا اسٹیبلشمنٹ نے فی الحال ایسا کوئی تاثر نہیں دیا جس سے لگے کہ وہ حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں، تو ایسی صورتحال میں حکومت وقت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانا ایک مشکل کام ہوسکتا ہے، تاہم اپوزیشن پہلے اشارے کے بعد قدم اٹھانے کا سوچ رہی تھی اب انہوں نے قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اس امید پر کہ اس کے بعد اشارہ آئے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن ایسا ماحول پیدا کررہی ہے کہ اشارہ ہونا بھی ناگزیر ہوجائے اور عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان بھی روشن ہوجائے،اپوزیشن ناکامی کی صورت میں دوبارہ تحریک لانے کیلئے پرعزم ہے، یہ شکست سے گھبرا بھی نہیں رہے اور سمجھتے ہیں کہ جتنا پراپیگنڈہ حکومت کے خلاف ہوجائے گا اس کے بدلے میں شکست ہو بھی گئی تو معمولی بات ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ اپوزیشن کا اصل ہدف وزیراعظم عمران خان ہی ہیں ، طریقہ کار پر فی الحال گفتگو ہورہی ہے تاہم ہدف عمران خان ہی ہیں، پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کا عہدہ ہی سب سے اہم ہوتا ہے اس لیے سب کی نظریں بھی اس عہدے پر ہوتی ہیں، پھر وہ شہباز شریف ہوں یا پیپلزپارٹی ہو سب کی نظریں اسی عہدے پر ہیں۔ اتحادی جماعتوں سے متعلق سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وہ کسی بڑی حرکت یا اشارے پر ہی اپنی مٹھی کھولیں گے، عمران خان سے یہ تاثر کہ وہ دباؤ میں آکر اسمبلیاں توڑ دیں یا انتخابات کا اعلان کردیں غلط ہوگا کیونکہ وہ اس وقت بھی محفوظ پوزیشن میں ہیں، تحریک عدم اعتماد وفاقی سطح پر کامیاب کروانا آسان کام نہیں ہے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔
وزیراعظم عمران خان چین کا دورہ کرکے وطن واپس آچکے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے دورہ کو مسلم لیگ ن اور کچھ صحافیوں نے متنازعہ بنانے کی کوشش کی، انہوں نے کئی سوالات اٹھائے جیسے وزیراعظم عمران خان کا استقبال کرنے کیلئے چینی صدر یا وزیراعظم ائیرپورٹ پر کیوں نہیں گئے؟ ن لیگ نوازشریف کی تصاویرشئیر کرکے عمران خان سے موازنہ بھی کرتی رہی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ن لیگ جو تصاویر شئیر کررہی ہے وہ دراصل پاکستان کی ہی ہے اور نوازشریف چینی صدر کا استقبال کررہے ہیں ناں کہ چینی صدر نوازشریف کا۔ پیوٹن اور چینی صدر کی ملاقات پر ان صحافیوں نے سوال کیا کہ پیوٹن کی ملاقات ہوگئی، وزیراعظم عمران خان کی کیوں نہیں ہوئی؟ وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ہوئی تو کچھ صحافیوں نے کہا کہ تصویر جاری نہیں ہوئی، لگتا ہے کہ معاملات خراب ہیں۔ کچھ صحافیوں نے تو ویڈیو جاری ہونے پر سوال کیا کہ ویڈیو پاکستان کی طرف سے کیوں جاری ہوئی ہے؟ چین کی طرف سے کیوں جاری نہیں ہوئی؟ ان اعتراضات پر کچھ پاکستان کے سنجیدہ صحافیوں نے جواب دیا اور کہا کہ یہ صحافی دراصل وزیراعظم کی نہیں پاکستان کی بے عزتی کررہے ہیں،انہیں اس سے گریز کرنا چاہئے، کچھ نے کہا کہ یہ ڈس انفارمیشن ہے اور پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے۔ اینکر عمران خان کا اس پر کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کو کھانا ہضم نہیں ہو رہا تھاکہ وزیر اعظم کی چینی صدر کے ساتھ تصویر نہیں آئی ، ایسا کردار تو کبھی انڈین میڈیا نے ادا نہیں کیا ، جو پاکستانی میڈیا میں بیٹھے کچھ نام نہاد تجزیہ کار یہ کر رہے تھے. سینئر صحافی نے ان صحافیوں کو مشورہ دیا کہ اب تصویر آگئی ہے یہ کھانا کھالیں۔ اینکر عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پروٹوکول میں فرق ہوتا ہے۔ اگر صرف ایک ملک کاسربراہ آرہا ہوں تو اسکا پروٹوکول کچھ اور ہوگا لیکن اگر مختلف ممالک کے سربراہ کسی ملک میں آرہے ہوں تو پروٹوکول کچھ اور ہوگا۔ صحافی عدیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے 4 بڑے سفارتی چھکوں نے چھکے چھڑا دئیے ، یہاں کچھ لوگوں کو پریشانی ہے۔ ہمارے کچھ دانشوروں نے اسکا مذاق اڑایا ہے، تمسخر اڑایا ہے اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کو اگنور کیا ہے۔اس دورہ میں اتنی کامیابیاں ہوئی ہیں جو ہائی لائٹ نہیں ہوئیں۔ عدیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان اتنے غیر مقبول ہو چکے ہیں تو اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیاں اختلاف کے باوجود کیوں مل بیٹھیں ہیں ،کوئی بھی وزیر اعظم 23 سال روس کا دورہ کرے گا۔ عدیل وڑائچ کے مطابق اس دورے میں کئی معاہدے ہوئے ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا ہے جس میں چینی کمپنیاں ری لوکیٹ ہوکر پاکستان آرہی ہیں کیونکہ انہیں سی پیک روٹ استعمال کرنا ہے۔سی پیک روٹ استعمال کرنے سے انکی اشیاء کی لاگت کم ہوجائیگی۔ صحافی حبیب اکرم نے اس پر تبصرہ کیا کہ ہمارے صحافیوں اور لیگی رہنماؤں کے ٹویٹس سے غلط تاثر پیدا ہوا،یہ دورہ بائی لیٹرل نہیں ملٹی لیٹرل تھا، ملٹی لیٹرل وہ دورہ ہوتا ہے جس میں دوسرے ممالک کے سربراہان اور اہم لوگ آئے ہوتے ہیں، صرف ہمارے وزیراعظم نہیں گئے تھے، روس کے صدر اور دیگر ممالک سربراہان بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب آپ دوست ملک گئے ہوئے اپنے وزیراعظم کی ملاقاتوں پر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں تو یہ عوام کے ساتھ زیادتی اور ڈس انفارمیشن ہے حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہئے، شہبازشریف اور آصف زرداری میچور سیاستدان ہیں، کیا انہیں اس دن کا انتخاب کرنا چاہئے تھا کہ ہم حکومت گرائیں گے جب وزیراعظم دوست ملک کے دورے پر ہو اور یوم یکجہتی کشمیر ہو۔ اپنے ویڈیو لاگ میں صحافی طارق متین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے کچھ پاکستانی صحافیوں کو دورہ پڑا اور وہ چھچھورپن پر اترآئے۔ صحافی خاورگھمن کا کہنا تھا کہ یہ ہوتا ہے جب آپ خاص قسم کی عینک پہن لیتے ہیں۔ صدیق جان کا کہنا تھا کہ پہلے غریدہ فاروقی نے کہا کہ عمران خان کی چینی صدر سے ملاقات کی تصویر نہیں آئی، اس کا مطلب ہے کہ حالات کشیدہ ہیں، سب اچھا نہیں ہے،جب ویڈیو آگئی تو مرتضیٰ سولنگی نے ٹویٹ کرکے اعتراض کیا ہے کہ یہ ویڈیو چائنہ نے جاری کی، پی ٹی وی وہاں نہیں تھا ۔ صدیق جان نے مزید کہا کہ یہ سب ذہنی طور پر فارغ ہوچکے ہیں کچھ صحافیوں نے وزیراعظم عمران خان کے گراؤنڈ میں اکیلے بیٹھنے پر تبصرے کئے اور سفارتی تنہائی کا طعنہ دیا تو میرمحمدعلی خان نے پیوٹن اور عرب ملک کی اہم شخصیات کی تصاویر شئیر کرکے جواب دیا کہ کیا یہ بھی تین ارب ڈالر کے قرض کیلئے یہاں بیٹھے ہیں؟ ارشاداحمد عارف سے منسوب اکاؤنٹ نے تبصرہ کیا کہ اعلامیہ جاری ہونے کے بعد بھارتی میڈیا اور پاکستان کے بعض پسماندہ ذہن دانشوروں کو پتہ چل گیا کہ عمران خان چین سے کامران لوٹے اب وزیر اعظم کے مجوزہ دورہ ماسکو کے حوالے سے سوچ سمجھ کر بات کریں کہ دوبارہ ندامت سے دوچار نہ ہوں عمران دشمنی کا دائرہ ملک دشمنی تک نہ بڑہائیں پلیز۔ صحافی عدنان عادل کا کہنا تھا کہ پٹواری میڈیا گروپ عمران خان کے دورہ چین کے خلاف جو زہریلی مہم چلارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دورہ سے پٹواریوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی ہے۔ حالانکہ اس دورہ سے پورے پاکستان کو فائدہ ہوا ہے۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو فری ہینڈ ملنے کا انکشاف کرتے ہوئے اگلے 2 مہینوں کو اہم قرار دیدیا ہے۔ جی این این کے پروگرام"خبرہے" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عار ف حمید بھٹی نے کہا کہ میری اطلاع ہے کہ نواز شریف صاحب نے بھی شہباز شریف کو یہ کہہ کرمکمل فری ہینڈ دیدیا ہے کہ ہماری مزاحمت کی سیاست ناکام ہوچکی ہے، اسی لیے نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے بھی اپنے حالیہ انٹرویو میں شہباز شریف کو ہی وزیراعظم کا امیدوار قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آصف علی زرداری نے خود کو بہتر امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام رہے اور اس وقت شہباز شریف بہت زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں، شہباز شریف کی پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملاقات بھی ایسے ہی نہیں ہوئی، بلاول بھٹو صاحب بھی شہباز شریف کی تعریف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ وقت کا تعین تو نہیں کیا جاسکتا مگر اسکرپٹ تیار ہے اور اس وقت جو سیاسی طوفان عمران خان کے خلاف آنے کی تیاری کررہا ہے ایسا طوفان میں نے ساڑھے تین سال میں نہیں دیکھا، اس وقت حکومتی اتحادی ایم کیو ایم اور ق لیگ کی ملاقاتیں ہورہی ہیں، اے این پی نے بھی حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی بھی دیدی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت اپوزیشن کی حکمت عملی ہے کہ ہم خود اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد نہ لائیں بلکہ کوئی ایک حکومتی اتحادی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردے جس کے بعد عمران خان کو خود اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا ناگزیر ہوجائے، جس کے بعد عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہوجائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی برائے اوورسیز زلفی بخاری نے حکومت کی کمزوریوں کا اعتراف کر لیا، انہوں نے کہا کہ ہماری کمزوری ہے، ہمیں ابتدا میں جوڈیشل ریفارمز (اصلاحات) کرنا تھیں۔ تفصیلات کے مطابق زلفی بخاری نے لندن میں ایک تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ احتسابی عمل کو عدالتوں میں لے جانا مشکل موضوع ہے۔ ایک سوال کے جواب سابق معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر کی بری کارکردگی نہ ہونےکی کئی وجوہات ہیں، ممکنہ طور پر شہزاد اکبر کے پاس ٹیم اچھی نہ تھی یا وہ خود ادارے کےنظام کو بہترطریقے سے نہیں سمجھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر کو اس لئے معاون خصوصی تعینات کیا گیا تھا تاکہ وہ ملک کے لوٹے ہوئے پیسے واپس لاسکیں اور یا کم ازکم نواز شریف کو واپس لا پائیں گے۔ زلفی بخاری کا مزید کہنا تھا کہ شہزاد اکبر دونوں مقاصد میں ناکام رہے، نہ پیسہ واپس لاسکے اور نہ ہی نواز شریف کو واپس لا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شہزاداکبر کی ستائش کرنیوالوں کی بھی چھٹی ہونی چاہئے۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی کو شکست دی۔ زلفی بخاری نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں ہر کوئی مہنگائی کا شکار ہے۔ زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان موسمِ گرما میں برطانیہ کا دورہ کریں گے۔
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ اس وقت کاموں سے اہم اگر کوئی کام ہے تو وہ اس ظالم حکمران سے قوم کو نجات دلوانا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نےپارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد لندن میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی، اس موقع پر ان کے ہمراہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار ، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور دیگر پارٹی رہنما موجود تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ آج سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن اس ظالم حکمران عمران خان سے عوام کو نجات دلوانے کیلئے قدم آگے بڑھائے گی، کیونکہ یہ عین وقت کی ضرورت ہے اور میں نے سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں اس کام سے بڑھ کر کسی کام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت اگر کوئی کام اہم ہے تو وہ یہی ہے کہ اس ظالم حکمران سے عوام کی جان چھڑوائی جائے اور انشااللہ مسلم لیگ ن یہ فریضہ ادا کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے پاکستان کا پوری دنیا میں تماشا بنادیا ہے، غریبوں کے بچوں کو بھوکا ماردیا ہے ، لوگوں کو روٹی سے ترسا دیا ہے، مہنگائی و بیروزگاری نے لوگوں کی مت ماردی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ اس وقت پاکستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہوچکا ہے، ایسے حالات میں کونسا پاکستانی ہے جو عمران خان سے نجات حاصل کرنا نہیں چاہتا، اسی لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عوام کو اس ظالم حکمران سے نجات دلوائی جائے۔
بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) میں ایک بار پھر اندرونی اختلافات کے بعد صوبے میں ایک بار پھر بڑی سیاسی تبدیلی کی افواہیں گردش کرنا شروع ہوگئی ہیں۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں بڑی سیاسی تبدیلی کا شکار ہونے والی بلوچستان عوامی پارٹی میں ایک بار پھر اختلافات اور سیاستدانوں کی ملاقاتوں کی خبریں گردش کررہی ہیں، کہا جارہا ہے کہ پارٹی رہنما عہدوں کیلئے ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عہدوں کیلئے شروع ہونے والی اس رسہ کشی کے باعث پارٹی میں شدید اختلافات کی خبریں ہیں، عہدوں کیلئے جدوجہد کرنےو الے پارٹی رہنماؤں کی کراچی میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چند ماہ قبل اسی جماعت کے رہنماؤں نے پارٹی کے صدر اور وزیراعلی بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک شروع کی اور ان سے دونوں عہدے چھین لیے گئے اور ظہور احمد بلیدی کو پارٹی کا صدر مقرر کردیا گیا۔ اب ظہور احمد بلیدی کے خلاف بھی پارٹی کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور پارٹی کے ایک گروہ نے سینیٹر کہدہ بابر کو صدر بنانے کیلئے لابنگ شروع کردی ہے، اس حوالے سے آئندہ ہفتے پارٹی کا اہم اجلاس طلب کیے جانے کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ یادرہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اپنے اندر سے اپنی ہی جماعت کے وزیراعلی جام کمال کے خلاف آواز اٹھی جو تحریک عدم اعتماد کی شکل اختیار کرگئی اور اس کے نتیجے میں جام کمال کو پارٹی اور وزارت اعلی کے عہدے سےسبکدوش ہونا پڑا، پارٹی میں جام کمال کے خلاف بغاوت کرنےو الے اراکین نے اس وقت ظہور احمد بلیدی کو پارٹی کا نیا پارلیمانی لیڈر نامزد کردیا تھا۔
لکی مروت کے علاقے شاہ حسن خیل میں والی بال ایک مقبول کھیل تھا، نوجوان اس کھیل کے اتنے شوقین تھے کہ جب بھی 2 ٹیموں کے درمیان میچ ہوتا تو گراؤنڈ تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا لیکن ایک افسوسناک واقعے نے اس گاؤں سے والی بال جیسے کھیل کا تقریبا خاتمہ کردیا۔ یکم جنوری 2010 کو شاہ حسن خیل میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں والی بال میچ کے دوران خودکش کار بم دھماکے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق‘ دو سو کے قریب زخمی ہو گئے ۔ یہ واقعہ یکم جنوری کو تقریباً 5 بجے گاؤں شاہ حسن خیل میں پیش آیا جب دو مقامی ٹیموں کے مابین میچ جاری تھا کہ اچانک زور دار دھماکہ ہوا عینی شاہدین کے مطابق خودکش بمبار نے بارود سے بھری ڈبل ڈور کیبن کھیل کے میدان کے ساتھ بنی دیوار کے ساتھ ٹکرا دی مذکورہ میدان گھروں کے بیچ واقع ہے اور دھماکے سے آس پاس کے مکانات اور دوکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ میدان میں موجود 12 کھلاڑیوں میں سے صرف ایک کھلاڑی اور ریفری عبدالرحمان زندہ بچ سکے۔ عبدالر حمان کی گردن، پیشانی اور جسم کے دیگر حصوں پر زخم آئے۔ سماعت اور بینائی بری طرح متاثر ہوئی۔ ایک کھلاڑی بچ گیا وہ نیٹ مین کے طور پر کھیل رہا تھا وہ جو کھیل کے دوران نیٹ کے قریب کھڑا ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔ اس افسوس ناک واقعے کو 12 سال ہوچکے ہیں، لیکن والی بال کا کھیل آج تک اس علاقے میں دہشت کی علامت بنا ہوا تھا ۔اس کھیل پر علاقے کے لوگ جان چھڑکتے تھے وہ اسی کھیل سے بھاگنے لگے۔ بعض لوگوں کے مطابق انھیں اس کھیل سے ہی نفرت ہو گئی اور کسی کا کہنا ہے کہ اس کھیل سے ان کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ اس میدان اور اس کے قریب تباہ ہونے والے مکانات کا ملبہ آج بھی وہیں موجود ہے، اس میدان میں صرف ایک تبدیلی آئی ہے۔ جس جانب سے گاڑی میدان میں داخل ہوئی تھی اس جانب دیوار کھڑی کر دی گئی ہے ۔ لکی مروت اور اس کے قریب واقع سینکڑوں چھوٹے بڑے دیہاتوں میں والی بال سب سے پسندیدہ کھیل رہا ہے۔ یہاں سے والی بال کے کھلاڑی قومی اور محکمانہ ٹیموں میں بھی کھیل چکے ہیں۔ اس واقعے سے متاثرہ میچ ریفری عبدالرحمان کے ذہن پر آج بھی یہ واقعہ نقش ہے جس کا کہنا ہے کہ میں یہاں عصر کے وقت آتا تھا اور ریفری کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔ عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد جو منظر میں نے دیکھا وہ دیکھنے کے قابل نہیں تھا ہرطرف اندھیرا تھا۔ دھماکے کے بعد میں بے ہوش ہوگیا تھا اور جب ہوش آیا تو میرے پیشانی پر لگے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ اردگرد لاشیں اور زخمی پڑے تھے اور لوگ درد سے کراہ رہے تھے۔ عبدالرحمان کے مطابق اس واقعے میں اس نے اپنے بڑے بھائی اور 9 پڑوسیوں کو کھودیا تھا، گاؤں میں تقریبا ہر گھر میں کسی نہ کسی رشتہ دار کی موت ہوئی تھی۔ اسکے مطابق اس واقعے کا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ تقریباً 12 سالوں تک کسی نے علاقے میں اس کھیل کو کھیلنے کی مت نہیں کی اور دوسرا س واقعے میں گاوں کے اکثر نوجوان جو والی بال کھیلتے تھے جان سے چلے گئے تھے۔ ایک سماجی کارکن عبدالقدوس خان جو حال ہی میں شاہ حسن خیل کی ویلج کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں علاقے میں اس کھیل کو دوبارہ متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عبدالقدوس خان کا کہنا ہے کہ والی بال ہمارا پسندیدہ کھیل ہے ، گاؤں کے نوجوانوں کو ایک بار پھر اس کھیل کو اپنانے کے لیے قائل کیا، انکے مطابق والی بال گاؤں میں مقبول ہے کیونکہ یہاں کرکٹ اور فٹ بال کے لیے کوئی میدان نہیں ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے والی بال کیلئے سہولیات کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر اس علاقے کو سہولیات اور جدید گراؤنڈ دیا جائے تو قومی سطح کے کھلاڑی پیدا ہوں گے۔
مسلم لیگ ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے واضح کردیا کسی کے اشارے پر نہیں چلیں گے۔اشاروں پر چلتے تو حکومت گنواتے نہ انتخابات ہارتے جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں میزبان سارہ الیاس سے گفتگو میں جاوید لطیف نے کہا کہ ن لیگ نے اشاروں پر چلنا ہوتا تو نہ حکومت گنواتی، نہ انتخابات ہارتی اور نہ جیلیں کاٹتی۔ جاوید لطیف نے مزید کہا کہ حکومت وقت کیخلاف عوام اوراپوزیشن جماعتیں ایک صفحہ پر ہیں، پی ٹی آئی کو حکومت سے نکالنے کیلئے طریقہ کار پر ہر جماعت کی اپنی اپنی رائے ہے، بقول شیخ رشید جن کا ہاتھ حکومت کے سر پر ہے وہ ہاتھ پوری طرح ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ جاوید لطیف کاکہنا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی انتخابی اتحاد نہیں ہے،دونوں جماعتوں کا یک نکاتی ایجنڈا حکومت وقت سے جان چھڑانا ہے،حکومت کو آکسیجن دینا اب کسی جماعت کے بس میں نہیں ہے، حکومت کو مزید اقتدار میں رہنے کا موقع دینے والا بھی حکومت وقت جتنا قصوروار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی ہوں یا مشاہد حسین سید جو بھی سینیٹ اجلاس میں شریک نہیں ہوا وہ جوابدہ ہے،حکومتی ارکان اسی طرح ہانکے جائیں گے اورا نہیں ٹیلیفون کالز آئیں گی تو عدم اعتماد کیسے ممکن ہے۔ پروگرام میں پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ ، سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ اور چیئرمین پی ایس پی مصطفیٰ کمال بھی شریک تھے،حسن مرتضیٰ نے کہاکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی ملاقات شہباز شریف کی دعوت پر ہوئی ،عوامی مسائل آج اپوزیشن کو اکٹھا ہونے پر مجبور کررہے ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو اشارہ آگیا تو حکومت گرانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں، پیپلز پارٹی کو مولانا فضل الرحمٰن سے کافی شکایات ہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی لانگ مارچ الگ الگ ہی کریں گی۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ معاہدے پرعملدرآمد نہیں ہوا تو حکومت بھی یہیں ہے ہم بھی یہیں ہیں اورسڑکیں بھی یہی ہیں، معاہدے پر تنقید کرنے والوں پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، صوبوں نے اٹھارہویں ترمیم کے مطابق اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کیے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی حمایت کردی۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق ن لیگ ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارٹی سربراہ نواز شریف سے رابطہ کیا،جس میں نواز شریف نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی حمایت کی۔ ن لیگ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے نواز شریف کو آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا،نواز شریف نے شہباز شریف کو سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی۔ دوسری جانب شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بھی ٹیلیفونک گفتگو کی،شہباز شریف نے فضل الرحمان کو زرداری اور بلاول بھٹو سے بات چیت سے متعلق آگاہ کیا، انہوں نے مولانا فضل الرحمان کو بتایا کہ بالمشافہ ملاقات میں بھی انہیں اعتماد میں لیں گے۔ دونوں قائدین کی گفتگو کی روشنی میں پی ڈی ایم اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا گیا،پی ڈی ایم اجلاس بلانے کے لیے تاریخ کا اعلان مشاورت سے کیا جائے گا۔ گزشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ نون کے صدر، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف سے ملنے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔ شہباز شریف نے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز،بھتیجی مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ رہائش گاہ پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کا خیر مقدم کیا تھا،ملاقات میں حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے معاملے پر بھی بات ہوئی تھی۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں ایک وی لاگر لوگوں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس لائٹر ہے اور انڈیا کا جھنڈا ہے، اگر آپ انڈیا کا جھنڈا جلائیں گے تو میں آپکو پیسے دوں گا۔ منیب علی نامی یہ بلاگر پہلے جیب سے لائٹر نکالتا ہے اور لوگوں کے ہاتھ میں پکڑاتا ہے اور بعد میں جھنڈا نکال کر کہتا ہے کہ آپ نے اسے جلانا ہے اگر آپ جلاؤ گے تو میں آپکو پیسے دوں گا۔ اس شخص کی اس پیشکش پر لوگوں کا ردعمل انتہائی دلچسپ ہوتا ہے۔ لوگ اس شخص سے معذرت کرلیتے ہیں کہ ہم جھنڈا نہیں جلائیں گے۔ لوگوں کا موقف ہے کہ بے شک بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے لیکن یہ بھارت کا قومی پرچم ہے، ہمیں بھی دوسروں کے پرچم کا احترام کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ہمارا پرچم جلائے گا تو ہمیں تکلیف ہوگی۔ اس پر وہ شخص کہتا ہے کہ آپکو پیسے مل رہے ہیں جس پر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا کسی قوم کی عزت ہے، ہمیں عزت کرنی چاہئے، پیسہ تو آنی جانی چیز ہے۔ یہ بلاگر جس کے پاس بھی جاتا ہے وہ جھنڈا جلانے سے صاف انکار کردیتا ہےا ور کہتا ہے کہ ہمیں کسی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے، یہ بات ہمارے اصولوں کے خلاف ہے۔بلاگر لوگوں کو یہ بھی کہتا ہے کہ بھارت ہمیں آئے روز نقصان پہنچاتا رہتا ہے جس پر لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی ایسا کریں گے تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائےگا۔ بلاگر کو صرف ایک شخص ایسا ملا جس نے جھنڈا جلانے کی کوشش کی لیکن جیسے ہی جھنڈا جلانے کی کوشش کی تو بلاگر نے اس سے جھنڈا چھین لیا اور پیسے اسکو دیدئیے۔ آخر میں منیب علی کا کہنا تھا کہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستانی تمام تر اختلافات کے باوجود پڑوسی ملک کے پرچم احترام کرتے ہیں، پاکستانیوں کا یہ رویہ دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا۔
اپوزیشن کی 2 بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی یہ تفصیلات منظر عام پر آگئیں ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں اس ملاقات کی اندرونی کہانی سے متعلق تفصیلات سامنے آئی ہیں جن کے مطابق اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان عدم اعتماد کے معاملے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے، پیپلزپارٹی پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز دے رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن اس کی مخالفت کرتے ہوئے وفاق سے عدم اعتماد کی تحریک کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔ اس موقع پر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے حکومت کو گھر بھیجنے کا بہترین راستہ تحریک عدم اعتماد ہی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اگر ماضی میں پیپلزپارٹی کی تجویز پر عمل کیا جاتاتو عمران خان آج اقتدار سے باہر ہوتے، اگر حکومت کو گھر بھیجنے کی آئینی کوشش ناکام ہوتی ہے تو اسمبلیوں سے استعفوں یا لانگ مارچ پر متحد ہوکر موقف اپنائیں گے۔ پیپلزپارٹی کی تجویز پر مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں اس معاملے پر ن لیگ میں تقسیم موجود ہے، آپ کی تجویز قابل عمل ہے تاہم مشاورت کیلئے وقت دیا جائے، نواز شریف کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرسکیں گے۔ دوسری جانب اجلاس میں آئندہ انتخابات میں مل کر سیاسی حکمت عملی تیار کرنے کی تجویز پیپلزپارٹی کےشریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے سامنے آئی جسے ن لیگی قیادت نے قبول کیا اور اتفاق کیا کہ آئندہ انتخابات میں مل کر سیاسی حکمت عملی بنائی جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں سابق صدر آصف زرداری اپنا کھانا ساتھ لے کر گئے۔ نجی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ نون کے صدر، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف سے ملنے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچے جہاں ان کاپرتپاک استقبال کیا گیا۔ ملاقات میں کورونا پروٹوکول کی پابندی کی گئی اور کورونا پروٹوکولز کے تحت پی پی اور ن لیگی رہنماؤں نے ایک دوسرے سے گلے ملنے یا مصافحہ کرنے سے گریز کیا، شہباز شریف نے کہنیاں ملا کر آصف علی زرداری کا استقبال کیا۔ آصف زرداری کی صحت کے پیش نظر وہ ظہرانے میں اپنا کھانا ساتھ لے کر گئے۔ ان کے لئے ان کا سٹاف الگ سے کھانا لے کر آیا، جس میں کی ادویات بھی شامل تھیں۔ذرائع کے مطابق آصف زرداری کے کھانے کیلئے اپنے ساتھ دال لیکر گئے۔ دوسری جانب نجی چینل کے مطابق شہباز شریف نے آصف علی زرداری کی پسندیدہ ڈِش بھنڈی پکوائی ہے، جبکہ دیگر مہمانوں کی افغانی پلاؤ، فش سوپ، مٹن بریانی، سندھی بریانی شامل تھی۔ جبکہ پالک پنیر، فش کباب ، چائنز پراؤن سوپ بھی دسترخوان کی زینت بنے اور آخر میں مہمانوں کی تواضع کشمیری چائے سے کی گئی۔ آصف زرداری کیلئے خصوصی پرہیزی کھانے تیار کروائے گئے جن میں بھنڈی اور دال مکھنی بھی شامل تھی۔
اسلام آباد: معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ کہ فضل الرحمان کا ایم کیوایم سے ملنے کا مطلب پیپلزپارٹی سے خیرنہیں ملی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ فضل الرحمان کا ایم کیوایم سے ملنے کا مطلب پیپلزپارٹی سے خیرنہیں ملی۔ انہوں نے بیان میں کہا ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ چکی، فضل الرحمان اب کرچیاں اکٹھی کرتے پھر رہے ہیں۔ انہیں یاد رہے کہ جب مارکیٹ میں ایک دفعہ لوگوں کو کھوٹے سکے کا پتہ چل جائے پھر وہ کہیں بھی نہیں چلتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فضل صاحب! تو ہر جگہ سے مسترد ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ملک میں جو ہو رہا ہے خدا جانے وہ کس کے مفاد میں ہو رہا ہے، معلوم نہیں مستقبل میں پاکستان کو آزاد ریاست کہا بھی جائے گا یا نہیں؟۔ ایم کیو ایم رہنماؤں نے امیر جے یو آئی سے سندھ کے بلدیاتی قانون سے متعلق مشاورت کی تھی۔
نوازشریف پاکستان آئیں گے نہیں انہیں لایا جائے گا، فیصل جاوید خان۔۔ نوازشریف چند ہفتوں میں پاکستان میں ہوں گے،جاوید لطیف نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو "جیو پاکستان" میں تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر فیصل جاوید خان نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے وطن واپس آنے پر خوشی ہو گی۔ وہ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ ہیں، ان کے جھوٹوں کی فہرست موجود ہے۔ حکومتی سینیٹر نے کہا کہ نوازشریف نے ہمارے دھرنے پر جھوٹ بولا کہ ہم نے فوج کو ثالثی کا نہیں کہا۔ نواز شریف کا ایک اور جھوٹ کہ میری لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی پراپرٹی نہیں وہ بھی سامنے آ گیا، ان کے خلاف کرپشن کیس عدالتوں میں ہیں۔ سینیٹر فیصل جاوید خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا وطن واپس آنا ضروری ہے، ان کی منزل جیل ہے، وہ خود سے نہیں آئیں گے، انہیں لایا جائے گا۔ سارا کام عمران خان نے نہیں کرنا، نواز شریف کے پاس لندن فلیٹس کے پیسے کہاں سے آئے آج بھی دکھا دیں، حکومت نواز شریف کی واپسی کے لیے جو ممکن ہوا وہ کرے گی۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے کہا کہ انتخابات پتہ نہیں کب ہوں، نواز شریف ہفتوں میں واپس آ رہے ہیں، آئندہ چند ہفتوں میں وہ پاکستان میں ہوں گے۔ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ پاکستان میں حکمرانوں کی موجودگی میں بنیں۔ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کی تیاری کے وقت عمران خان ہی وزیرِ اعظم تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسد عمر نے کچھ دن پہلے ہی کہا تھا کہ نواز شریف کو بھیجنے کا فیصلہ عمران خان کا تھا۔
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ جب تک اپوزیشن کی جماعتیں اکھٹی نہیں ہوں گی عوام ان کو سنجیدہ نہیں لے گی۔ جیو نیوز کے پروگرام "رپورٹ کارڈ " میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے بہت سی باتیں کی، بہت سی باتیں بلاول بھٹو کی صحیح ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں، 2 تہائی اکثریت حاصل کرنے والے نواز شریف نے پارلیمنٹ کو وہ عزت نہیں بخشی جو یوسف رضا گیلانی اور خورشید شاہ نے پارلیمنٹ کو دی۔ سہیل وڑائچ کے مطابق پیپلزپارٹی نے شروع سے ہی استعفوں کے بجائے اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے سے متعلق زور دیا تھا اور بالآخر تمام سیاسی جماعتیں اس موقف پر قائل ہوگئی ہیں ، ابھی بھی پیپلزپارٹی تو کھل کر اس بات کررہی ہے مگر ن لیگ کاکوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا ابھی بھی اگر یہ تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر جدوجہد نہیں کریں گی تو عوام ان کی حکومت کو گرانے کی کوششوں کی سیرئس نہیں لے گی، بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ن لیگ سے غیر رسمی ملاقاتیں تو ہوتی رہتی ہیں ۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے لانگ مارچ کی تاریخیں ابھی بھی الگ الگ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ایک موقف پر قائل نہیں ہیں، عدم اعتماد کے معاملے پر بھی اپوزیشن کی ابھی تک کوئی ایک بھی نشست نہیں ہوئی ہے، تاہم اگر یہ اکھٹے ہوجائیں توان کی طاقت بھی بنے گی اور لوگ بھی انہیں سیرئس لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ بھی عدم اعتماد پر اتفاق کرتی ہے ۔ اس پر پروگرام کی میزبان نے کہا کہ جب پیپلزپارٹی ن لیگ تیار ہیں تو مطلب لڑکا لڑکی راضی ہیں تو مسئلہ کیا ہے جس پر سہیل وڑائچ نے کہا کہ ابھی قاضی نہیں ہے کوئی، جب تک قاضی نہیں آئے گا میاں بیوی راضی نہیں ہوں گے۔
عزیزآباد سے جب رکن قومی اسمبلی منتخب ہوا تو یہ جیت جعلی تھی، ایم کیوایم نے ٹھپے لگوا کر جتوایا تھا، نبیل گبول پیپلزپارٹی کے رہنما نبیل گبول نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت میرا غلط فیصلہ تھا اور کراچی کے علاقے عزیزآباد سے رکن قومی اسمبلی کی نشت پر میری جیت جعلی تھی، ایم کیو ایم نے ٹھپے لگا کر مجھے جتوایا تھا۔ انہوں نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو غلط فیصلے پر نکالا گیا جب کہ شہبازشریف بہترین اداکار ہیں، مریم نواز سے بلاول بھٹو بہتر سیاستدان ہیں۔ میزبان نے نبیل گبول کو یاد دلایا کہ انہوں نے کچھ سال قبل جیو کے ایک پروگرام میں ریحام خان کو شادی کی پیشکش کی تھی، جس کے فوری بعد انہوں نے عمران خان سے شادی کرلی۔ میزبان کے سوال پر نبیل گبول نے پروگرام میں شریک مہمان اداکارہ آمنہ الیاس سے پوچھا کہ انہیں فرسٹ لیڈی بننا ہے یا پھر انہیں کسی بڑے عہدے پر جانا ہے؟ جس پر اداکارہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہ مسکراتی رہیں۔ نبیل گبول نے آمنہ الیاس کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ عین ممکن ہے کہ اگر وہ انہیں شادی کی پیش کش کریں تو کوئی اور اداکارہ کو پیشکش کرکے انہیں بیاہ کر لے جائے۔ نبیل گبول نے یہ بھی کہا کہ بلاول بھٹو زرداری پہلے شادی کریں گے، اس کے بعد وہ وزیر اعظم بنیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں معلوم ہے کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی ہدایت پر سندھ حکومت نے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارا گل کو جناح اسپتال کراچی میں ہاؤس جاب دے دی۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی پی نے وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈاکٹر سارا گل کو فوری طور پر سرکاری طور پر ہاؤس جاب دلانے کے احکامات دیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر سارا گل نے جے پی ایم سی (جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول سے ملاقات کی اور اپنا ہاؤس جاب آرڈر وصول کر لیا۔ ساراگل کو خصوصی طور پر ہاؤس جاب ملنے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے انہیں مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ان کی حکومت خواجہ سراؤں کو ہر شعبے میں آگے لانے کیلئے کوشاں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ ہم خواجہ سراؤں کو ہر شعبے میں وہ عزت اور احترام دلوائیں گے جس کے وہ حقدار ہیں۔

Back
Top