سیاسی

نیب نےاب تک 539 ارب روپے کی ریکوری کی یا 821 ارب کی؟ چئیرمین نیب اور ڈی جی نیب کے اعدادوشمار میں ابہام پیدا ہوگیا لیکن چئیرمین نیب کے مطابق 539 ارب روپے کی ریکوری گزشتہ 4 سالوں میں کی گئی روزنامہ جنگ کے مطابق نیب نے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی قیادت میں گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ کی شاندار کارکردگی رپورٹ جاری کر دی۔ نیب نے چار سال سے زائد عرصہ میں 539 ارب روپے وصول کئے۔ تفصیلات کے مطابق نیب کو اب تک 50 لاکھ ایک ہزار 729 شکایات موصول ہوئیں اور 49لاکھ 8ہزار 256 کو نمٹا دیا گیا۔ نیب میں 1353 ارب کے 1237 ریفرنس ابھی بھی زیر سماعت ہیں. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیب نے بدعنوان عناصر سے بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر 539 ارب وصول کئے ہیں۔ جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں قابل ذکر کامیابی ہے. نیب کو اب تک 50لاکھ 1ہزار 729 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 49لاکھ 8ہزار 256 شکایات کو نمٹا دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب نے 16ہزار 307 کی تحقیقات کی اجازت دی جن میں سے 15ہزار 475 کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں۔ نیب نے 10ہزار 365 انکوائریاں شروع کیں جن میں سے 9ہزار 299 انکوائریاں مکمل ہوچکی ہیں. چیئرمین قومی احتساب بیورو نے 4ہزار 707 تحقیقات کی اجازت دی جن میں سے 4ہزار 373 تحقیقات مکمل کی گئی ہیں، نیب نے مختلف احتساب عدالتوں میں 3 ہزار 776 ریفرنس دائر کئے. اس وقت مختلف احتساب عدالتوں میں 1237 ریفرنس زیر سماعت ہیں جن کی مالیت تقریباََ 1353 ارب روپے ہے، قومی احتساب بیورو کو سب سے زیادہ شکایات جعلی ہاؤسنگ اور کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بارے میں موصول ہوئی ہیں۔ دوسری جانب نیب کے ڈائریکٹر جنرل حسنین احمد کا کہنا ہے کہ نیب نے اب تک 821 ارب 57 کروڑ روپے کی ریکوری کی ہے۔ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے 17 ارب 49 کروڑ روپے کی ریکوری کی گئی۔ ڈی جی نیب کا کہنا تھا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے 99 ہزار 595 متاثرین کو رقم واپس کی گئی۔ فراڈ اسکیموں کے ذریعے لوٹی گئی 7 ارب 44 کروڑ روپے کی رقم ریکورکی گئی، فراڈ اسکیموں کے متاثرین کی تعداد 66 ہزار 390 ہے۔ بریفنگ دیتے ہوئے انہوں بتایا کہ نیب نے 500 ارب روپے کی ان ڈائریکٹ ریکوری کی جبکہ 76 ارب روپے کی براہ راست ریکوری کی گئی۔اسی طرح پلی بارگین کے نتیجے میں 50 ارب روپے کی وصولیاں کی گئیں ۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے اپوزیشن کو ایک بار پھر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع دے دیا، رپورٹ کے حوالے سے سینیئر تجزیہ کار بھی اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں، جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں سینیئر تجزیہ کار حسن نثار سے بھی گفتگو کی گئی، کہ ماضی عمران خان خود اس رپورٹ کو مستند قرار دیتے آئے ہیں تو کیا اب حکومت کے گھبرانے کا وقت آگیا۔ حسن نثار نے کہا کہ کرپشن تو ہمارے یہاں پاکستان کے ساتھ پیدا ہوئی، پھر یہ انداز زندگی بن گئی، اور اب بدانتظامی، بڑھتی آبادی اور دیگر مسائل نے صورتحال کو ضرب لگادی، جیسے جیسے غربت بڑھے گی،آبادی بڑھے گی، بھوک بڑھے گی،مہنگائی بڑھے گی، روپے کی قدر گرے گی، ویسے ویسے کرپشن بڑھتی چلی جائے گی۔ سینیئر تجزیہ کار نے کہا کہ وہ انسان جو پانچ لاکھ لوٹ رہا تھا جب خرچا بڑھ گیا تو اب اس کی ضرورت دس لاکھ کی ہوگئی، آنے والے دنوں میں کرپشن کوئی بھی نہیں سنبھال سکے گا، آبادی بڑھے گی کرپشن بڑھے گی، ملک قرضوں میں غرق ہے آبادی بڑھتی جارہی ہے، اس پر جھوٹ بولا جاتا ہے، اعداد وشمار غلط بتائے جاتے ہیں۔ حسن نثار نے کہا کہ یہ ہماری قومی انداز ہے کہ اگر میرے لئے کوئی انکشاف ہوگا کوئی حقیقت سامنے آئے گی تو میں اسے تسلیم کرنے اور معذرت کرنے کے بجائے جوابی الزامات لگاؤں گا،یہ ہمارا کلچر بن چکا ہے، عمران خان بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد اسی لئے کہہ رہے کہ اپوزیشن واویلا مچارہی ہے۔ حسن نثار نے کہا کہ ہم زندہ قوم ہیں صرف شاعری تک باقی تو سب ڈھکوسلا ہے، ہمارا طرز زندگی کرپشن ہی ہے، آپ سچا الزام لگاؤ میں دس جھوٹے الزام لگادوں گا،انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا اپنا اخلاقی وجود کوئی نہیں ہے، بندہ شفاف ہو تو اس کاتنقید کرنا بنتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عدم اعتماد کی تحریک کو حساس معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب ہماری تیاری پوری ہو گی تو عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دیں گے۔ جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہمارے ارکان کی قومی اسمبلی میں تعداد162 ہے اور عدم اعتماد کیلئے ہمیں 172 لوگوں کی ضرور ہے تو پی ڈی ایم کا یہ اعلان کہ عدم اعتماد کیلئے تیاری کی ضرورت ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ جب ہمارے پاس عددی اکثریت موجود ہو گی تو ہم تحریک لے آئیں گے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کا پہلے نہیں بتایا جاتا کہ کب آئے گی بلکہ جب عددی اکثریت حاصل ہو جائے تو پھر قدم اٹھایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک حساس معاملہ ہے، جب ہماری تیاری پوری ہو گی تو عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کر دیں گے، آج عوام کی مشکلات اور مہنگائی کا حل صرف نئے انتخابات میں ہے۔ انہوں نےیہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی اپنا اور پی ڈی ایم اپنا لانگ مارچ کرے گی، دو لانگ مارچ ہونے سے حکومت پر زیادہ دباؤ پڑے گا۔ جب عوام مشکل میں ہو تو ہم نے اقتدار میں آکر کیا کرنا ہے، ایوانوں میں آکر کیا کرنا ہے، جب ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہو تو کسی کا ہاتھ گلے پر ہو یا سر پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ جو لوگ ہمارے ساتھ عدم اعتماد میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کا یہی مطالبہ ہے کہ ان پر کہیں سے کوئی دباؤ نہ ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ عین وقت پر انہیں کوئی فون کال آ جائے تو طاقت کا توازن بدل جائے اس لیے انہیں سیکیورٹی ایشوز ہیں اور وہ اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ شیخ رشید کی جانب سے عمران خان کے سر پر ہاتھ سے متعلق سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی ہاتھ کی ضرورت نہیں ہے، آئین میں غیر آئینی مداخلت نہ ہو یہ نظام ایک دن بھی نہیں چل سکتا، جب غیر آئینی مداخلت ختم ہو جائے گی تو عدم اعتماد بھی ہو جائے گا۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا سروے کتنا مستند؟ کیا ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے چند سو لوگوں کی رائے کو جواز بناکر پورے ملک کو کرپٹ قراردیا؟ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 180 ممالک کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس جاری کر دی جس کے مطابق پاکستان میں کرپشن مزید بڑھ گئی ہے اور کرپشن رینکنگ میں 16 درجے اوپر چلا گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں اس اضافے کے بعد پاکستان دنیا میں 140 ویں نمبر پر آ گیا، 2020ء میں اس کا نمبر 124 واں تھا۔ اس سروے پر ایک طرف تو اپوزیشن رہنماؤں اور حکومت مخالف صحافیوں کی تنقید جاری ہے اور وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا سربراہ ن لیگ کے بہت قریب ہے اور نوازشریف دور میں وزیراعظم ہاؤس میں اہم عہدے پر تھا اور بعدازاں سربیا میں اہم ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔ کیا واقعی پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے؟ اسکا فیصلہ کتنے لوگوں نے کیا؟ سماء نیوز کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھنے کافیصلہ 1600 لوگوں نے کیا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ہر صوبے سے 400 لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جنہوں نے پورے ملک کو کرپٹ قرار دیا۔ یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی رائے شامل نہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اقرار کیا کہ اسکےپاس مالی وسائل نہیں ہے جبکہ ماضی میں بھی کئے گئے سروے چند سولوگوں کی آراء پر مبنی تھے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر سے استعفی لینے کی وجوہات سامنے آگئیں ہیں۔ نجی چینل کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مشیر احتساب شہزاد اکبر کے استعفے کی وجہ وزیر اعظم کی ناراضگی بنی، کچھ روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے شہزاد اکبر سے عدالتوں میں مقدمات کی تفصیلات مانگی تھی، دستاویزات ملنے کے بعد وزیر اعظم ان سے ناراض ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق شہزاد اکبر نے جو تفصیلات وزیر اعظم کو فراہم کیں وہ نا مکمل تھیں، وزیر اعظم کو دی جانے والی بریفنگ اور دستاویزات میں واضح فرق پایا گیا تھا۔ نجی چینل کے ذرائع نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم کو بتائی گئی مقدمات کی ٹائم لائنز میں فرق تھا۔جس کے بعد وزیراعظم آفس کی جانب سے شہزاد اکبر سے استعفی طلب کیا گیا۔ سماء ٹی وی کے مطابق شہزاداکبر کا ایسٹ ریکوری یونٹ کوئی رقم برآمد نہ کرسکا، شہزاداکبر نے 20 کے قریب غیرملکی دورے کئے جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔وزیراعظم شریف خاندان کے مقدمات میں نتائج چاہتےتھے لیکن کچھ پیشرفت نہیں ہورہی تھی۔ایسٹ ریکوری یونٹ کوئی رقم برآمد نہ کرسکا۔ سماء ٹی وی کے ذرائع کے مطابق ایک بجے وزارت داخلہ میں اہم اجلاس تھا جس میں شہزاداکبر دیر سے شریک ہوئے ۔ مشیرداخلہ کا سٹاف کہتا رہا کہ 5 منٹ میں آئیں گے لیکن نہیں آئے، 2 بجے وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دو روز قبل وزیر اعظم نے شہزاد اکبر پر اظہار ناراضگی کیا، تاہم وزیر اعظم آفس کی جانب سے آج شہزاد اکبر سے استعفیٰ دینے کا کہا گیا، جس کی شہزاد اکبر نے تعمیل کی اور استعفیٰ دے دیا، جسے فوراً منظور کر لیا گیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما عطااللہ تارڑ نے وزیراعظم عمران خان کو لاہور مینار پاکستان آنے کا چیلنج کردیا ہے۔ سماء نیوز کے پروگرام"لائیو ود ندیم ملک" میں میزبان ندیم ملک نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے دوران سڑکوں پر نکلنے سے متعلق بیان پر سوال کیا گیا۔ سوال کے جواب میں مسلم لیگ ن کے رہنما عطااللہ تارڑ نے کہا کہ عمران خان ایک بے بس آدمی ہے ، اس وقت ہر چیز اپنی حد تک پہنچ چکی ہے، ملک کے حالات آپ کے سامنے ہیں، عمران خان کے پاس سیاسی آپشنز ہیں نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اللہ کی ذات سے ڈر کر کہتا ہوں کہ آجائیں لاہور میں مینارپاکستان آجائیں اور لوگ جمع کریں، کس نعرے کے تحت لوگوں کو اکھٹا کریں گے؟ عطااللہ تارڑ نے کہا کہ یہ جو تقریریں ہیں، گالم گلوچ ہے یہ کون لوگ ہیں؟ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم بن کر، نوکری کی درخواست قبول کرکے پاکستانیوں اور پاکستان پر احسان عظیم کیا ہے، عمران خان کی نظر میں وہ تو سپر اسٹار تھے جو مغرب کو اور ہر دنیا کے ملک کو سب سے اچھے سے جانتا ہے۔ ن لیگی رہنما نے کہا کہ ایسا شخص اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کیلئے کھڑا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا بھی مجھ پر حق ہے، میں ان لوگوں کا محسن ہوں، عمرا ن خان سوچتے ہیں کہ ان لوگوں کی پوری زندگی کا انحصار مجھ پر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا آدمی ہے کوئی قریبی عزیز فوت ہوجائے یہ اس کے اہلخانہ کو دفتر بلا کر تعزیت کرتا ہے، نعیم الحق جس نے پوری زندگی اس پارٹی کو دیدی اس کی تعزیت کیلئے گھر جانا گوارا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے اہلخانہ کو دفتر بلاکر تعزیت کی گئی۔
پاکستان مسلم لیگ(ق) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت نے وزیر اعظم عمران خان کو اپنے مشیروں اور ترجمانوں کے غلط مشوروں پر محتاط رہنے کا مشورہ دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق چودھری شجاعت حسین نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو خبردار کر رہا ہوں کہ وہ اپنے مشیروں اور سیاسی ترجمانوں کی غلط مشوروں سے محتاط رہیں،جب بھی کوئی مشیر وزیراعظم کو مشورہ دیتاہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوتی ہے، وہ اپنی سوچ کے مطابق چیزوں کو اچھالتے ہیں جس کی وجہ سے عمران خان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ق لیگ کے سربراہ نے مزید کہا کہ عمران خان کا یہ بیان کسی دشمن نما دوست نے دیا ہوگا جس میں انہوں نے کہا کہ مجھے اسمبلی میں بولنے نہیں دیا جاتا، میڈیا میں آ کر بولتا ہوں، اگر مجھے ہٹایا گیا توپہلے سے زیادہ خطرناک بن جاؤں گا، وزیراعظم کو اسمبلی میں بولنے نہیں دیا جاتا تو وہاں بیٹھے مراعات یافتہ ارکان کیا گونگے بہرے ہیں جو دوسروں کو عمران خان کے خلاف بولنے دیتے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم کسی قسم کے بیان کو درستگی کیلئے کہیں تو وہ ان پڑھ مشیر فوراً عمران خان کے کان میں کہتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ کوئی نرم رویہ اختیار نہ کریں، اصل بات مشیروں کو پتہ ہوتی ہے لیکن وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کس طرح وزیراعظم کو اپنے مطلب کے مطابق گائیڈ کریں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی چوہدری شجاعت حسین نے متعدد مرتبہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے مشیروں اور ساتھیوں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ملک سے غداری سے متعلق بیان پر اپوزیشن کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی جانب سے ردعمل آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے عمران خان کے اس بیان کو عوام سے نوکری میں توسیع کی درخواست قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی نوکری نوٹس پیریڈ پر چل رہی ہے تو انہیں شہباز شریف کی یاد تو آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کا بیان ایک ہارے ہوئے،نالائق اور چور ثابت ہونےوالے شخص کے جذبات کا اظہار تھا، عمران خان صاحب اب گھبرانے کا نہیں گھر جانے کا وقت ہے، چار سال میں عوام کیلئے کچھ کیا ہوتا تو آج نواز شریف اور شہباز شریف نہ کرنا پڑتا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف ہمیشہ مسکراتا رہے گا اور عمران خان ہمیشہ روتا رہے گا، شہباز شریف نے قوم کی دعائیں لیں جبکہ عمران خان نے بددعائیں لی ہیں، عمران روئیں، چیخیں، پیٹیں جو مرضی کریں ان کے گھر جانے کا وقت ہوگیا ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ عمران نیازی پہلے فرمایا کرتے تھے کہ حکومت میں آگیا تو کسی کو نہیں چھوڑوں گا اب فرماتے ہیں کہ اگر حکومت سے نکالا گیا تو کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہ شخص گذشتہ 25 برسوں سے ایسی ہی بہکی بہکی گفتگو کر رہا ہے پتہ نہیں کون لوگ ہیں جو اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ خواجہ آصف نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سُکیا ں بڑھکاں،عدلیہ بحالی تحریک میں گھر پولیس آئی تھی تو ننگے پاؤں 8فٹ اونچی دیوار پھلانگ کے بھاگ گیا تھا۔ آپ کے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ چھٹ جائےگی انکے DNA میں مزاحمت نہیں یہ مہربانوں کی بدولت آپکے حمایتی ہیں۔ تمھارے ساتھ ہے کون؟‌ آس پاس تو دیکھو دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کی ترجما ن شازیہ مری نے بھی وزیراعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان آج اقتدار سے باہر آئیں ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے کوئی نہیں ہوگا، عمران خان صاحب نے آج ٹی وی چینل پر فرمائشی پروگرام کی میزبانی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین سال میں صرف عمران خان خود غربت کی لکیر سے اوپر آئے ہیں، اقتدار سے باہر آنے کے بعد عمران خان کو غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے ستائے عوام کا سامنا کرنا ہوگا، انہوں نے مخالفین کی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک کیا خود بھی اس کیلئے تیار رہیں۔ شازیہ مری نےکہا کہ ہم انتقام کی سیاست نہیں کرتے مگر ملک کا حشر نشر کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے، 27 فروری کو عوام حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، اکبر ایس بابر اور احمد جواد نے عمران خان کی اصلیت بے نقاب کردی ہے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ ن کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے پر ردعمل دیدیا ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں مریم نواز نے کہا کہ آپ کی دھمکیاں کہ اقتدار سے نکالا گیا تو مزید خطرناک ہو جاؤں گا گیدڑ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ جس دن آپ اقتدار سے نکلے عوام شکرانے کے نفل پڑھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ نواز شریف نہیں ہیں جس کے پیچھے عوام کھڑی تھی نا ہی آپ بیچارے اور مظلوم ہیں۔ آپ سازشی ہیں اور مکافات عمل کا شکار ہوئے ہیں،اب رونے دھونے اور ڈرامہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سامان اٹھائیں اور چلتے بنیں،آپ عبرت ناک شکست کھا چکے ہیں۔ ن لیگی رہنما نے کہا کہ آج عمران خان نے جو کچھ کہا وہ ناکامی اور ناامیدی سے بھرپور تھا، اب عمران اور پی ٹی آئی پر کسی کو بھروسہ نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناگزیر آدمی تھا، اب یہ تاریخ بن چکا ہے اور تاریخ بھی ایسی کہ جو ہمیں آنے والے وقتوں میں سبق دے گی کہ عوامی طاقت کے بجائے سازش اور سازش پر انحصار کرنے والوں سے بچا جائے۔ ن لیگی رہنما نے کہا کہ عمران خان کی امیدیں اب نااہلی اور نااہلی کا شکار لوگوں کی امید بن چکی ہیں، اب پاکستان اور یہاں کے لوگ انتظار میں ہیں کہ کب ان کی جانیں اس شخص سے بچائی جائیں جس نے ان کی زندگیوں کے 4 سال برباد کرکے انہیں تباہی کے دھانے پر کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اپنی شکست تسلیم کرچکے ہیں، 4 سال حکومت میں گزارنے کے بعد بھی وہ رورہے ہیں، یہ جن مافیاز کی بات کرتے ہیں وہ ان اکے دائیں اور بائیں موجود ہیں جنہوں نے220 ملین لوٹا اور عمران خان کے گھر کے کچن کا خرچہ اٹھایا۔ مریم نواز شریف نے مزید کہا کہ آپ نے شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے خلاف جو مقدمات بنائے وہ جھوٹے اور من گھڑت تھے اور ان کا انجام یہی ہونا تھا۔ اب آپ کی حقیقت دنیا کے سامنے آ گئی ہے تو عدلیہ پر الزام نہ لگائیں۔ آپ کے پاس صرف آپ کا انتقام اور انتقام ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آج عوام سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مجرموں کو این آر او دیا گیا تو اسی دن میں ملک سے غداری کروں گا، اگر میں حکومت سے نکل گیا تو آپ کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔
نجی ٹی وی چینل جیو کے پروگرام "رپورٹ کارڈ" میں سوال پوچھا گیا کہ اگر نواز شریف کو غلط باہر بھیجا گیا تو ذمہ دار کون ہے؟ اس کے جواب میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کی ذمہ دار حکومت اور عدالت دونوں ہیں۔ اسد عمر نے نواز شریف کو باہر بھیجنے سے متعلق جھوٹ بولا عمران خان کی باتوں کی اب کوئی ساکھ یا حیثیت نہیں ہے۔ تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے کی ذمہ دار حکومت اور عدالت ہیں، نواز شریف کی لمحہ بہ لمحہ میڈیکل رپورٹیں حکومت کی چھتر چھایا میں تیار ہوئیں۔ عمران خان نے فیصل سلطان کو بھیجا جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے لمحہ بہ لمحہ نگرانی کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کابینہ کے ساڑھے 6 گھنٹے کے اجلاس کے بعد حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا، عدالت نے نواز شریف کی زندگی کی گارنٹی مانگی اور 50 روپے والے اسٹامپ پیپر پر باہر جانے کی اجازت دے دی۔ سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا اسد عمر نے نواز شریف کو باہر بھیجنے سے متعلق جھوٹ بولا عمران خان کی باتوں کی اب کوئی ساکھ یا حیثیت نہیں ہے، نواز شریف کو باہر بھیجنے کے معاملہ میں عدالت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اطہر کاظمی نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی سنگین صحت سے متعلق جو تصویر پیش کی اس کے بعد حکومت نے میڈیکل بورڈز بنائے، نواز شریف نے لندن جانے کے بعد ایک رات بھی کسی اسپتال میں نہیں گزاری، نواز شریف انہی جائیدادوں میں بیٹھ کر ہمارے نظام کو منہ چڑا رہے ہیں جن جائیدادوں کی وجہ سے انہیں سزا ہوئی۔ جب کہ بےنظیر شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے کی ذمہ داری 100 فیصد وزیراعظم کی ہے، اسد عمر بھی یہی کہتے ہیں کہ نوازشریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ وزیراعظم نے کیا لیکن غلطی ان کی نہیں ہے کیونکہ انہیں نوازشریف کی غلط میڈیکل رپورٹس دی گئیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس صحیح قرار دیں کیا وہ دونوں جھوٹ بول رہے تھے؟
معروف صحافی نجم سیٹھی نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایس آئی چیف کے معاملے پر تحریک انصاف کے لوگ معافیاں مانگتے پھررہےہیں لیکن وہ معاف نہیں کررہے ۔ آن لائن ویب سائٹ پر تجزیہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سٹیبلشمنٹ کے ایک دو ٹاپ لوگوں کیساتھ عمران خان کی جو تعلقات رہ گئے تھے وہ بھی انہوں نے آئی ایس آئی چیف کے معاملے پر خراب کر لئے ہیں۔ نجم سیٹھی نے دعویٰ کیا کہ اب معافیاں مانگتے پھرتے ہیں کہ ہم معذرت کرلیئے ہیں لیکن انہوں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں، وہ آپکو پہچان گئے ہیں۔ انہوں نے 24 نیوز سے گفتگو کرتے بھی دعویٰ کیا کہ چاروں بڑے اسٹیک ہولڈرز عمران خان کی تبدیلی پر متفق ہوگئے ہیں اور وزیراعظم کا کھیل جلد ختم ہونے کا امکان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر بلاول کا اشارہ اہم تھا۔مجھے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی ملاقاتیں ہوتی نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ صرف نیوٹرل رہے تو عمران خان کا کھیل ختم ۔ نجم سیٹھی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگلے وزیراعظم کا فیصلہ ہوگیا ہے اور عمران خان کی نیندیں حرام ہوجانی چاہئیں۔ واضح رہے کہ نجم سیٹھی مختلف مواقعوں پر مختلف دعوے کرتے رہے ہیں اور انکے بارے میں مختلف تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ خواہش کو خبر بناکر پیش کرتے ہیں، انہوں نے اب تک کون کونسی پیشنگوئیاں کیں جو اب تک پوری نہیں ہوئیں، ملاحظہ کیجئے
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ کہا گیانوازشریف اوربےنظیرکومیں نےوزیراعظم بنایا،میری گفتگو سے ایک فقرہ لیکر اسے سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتےہوئے چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ میری آف دی ریکارڈگفتگو سے ایک فقرہ لیکر ہیڈ لائن چلائی گئیں کہ نوازشریف اوربےنظیرکومیں نےوزیراعظم بنایا،میری گفتگو سے ایک فقرہ لیکر اسے سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی شخص کسی کو اکیلے نہیں بناسکتا، یہ ایک مشترکہ جدوجہد ہوتی ہے۔ میں نے ڈکٹٹیر کے خلاف نے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا، انہیں کامیاب کرنے کے لیے ان کا بہت ساتھ دیا انہیں وطن واپسی میں مدد کی، میں بے نظیر بھٹو کو اپنی بہن سمجھتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف جب لندن میں تھے تو ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں ہوتی تھیں، 2013کی انتخابی مہم میں انکی کمپین چلائی اور نوازشریف کو کامیاب کرانے کیلئے مدد کی۔ پھر میں تحریک انصاف میں آیا تو انکے ساتھ یونین کونسل لیول پر محنت کی۔ انہوں نے کہا کہ جب سے ن لیگ کو چھوڑا ہے شریف فیملی سے کوئی رابطہ نہیں لیکن ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنماؤں سے اچھے تعلقات ہیں۔میری تمام جماعتوں سےا چھے تعلقات ہیں۔ نورعالم سے متعلق سوال پر ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ہمیشہ سے ہی مفاہمت کا حامی رہا ہوں، پارٹی میں کھل کر اپنی رائے دیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ پارٹی میں ہونے والی بحث کو میڈیا میں نہیں لانا چاہیے۔جو مسائل ہیں انہیں پارٹی کے اندر ہی ڈسکس ہونا چایئے۔ آئندہ الیکشن سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن سارے ہی مشکل ہوتے ہیں، 2018 کا الیکشن بھی مشکل تھا اور آنے والا 2023 کا الیکشن بھی مشکل ہوگا،ہمارے پاس ڈیڑھ سال ہے ہم بھرپور طریقے سے الیکشن کی تیاری کریں گے۔ ان نے کہا کہ ملک میں مہنگائی ہے اور غریب آدمی پس رہا ہے لیکن احساس پروگرام سے غریبوں کو ریلیف دیا گیا ہے۔صحت کارڈ کی سہولت سے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے۔ہماری حکومت نے صحت کارڈ کی شکل میں بڑا کام کیا ہے۔ چوہدری سرور نے وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ عثمان بزدار کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور کو صحافیوں کو کھانا کھلانا مہنگا پڑگیا؟ کیا واقعی چوہدری سرور نے کہا کہ میں نے عمران خان، بے نظیر، نوازشریف کو وزیراعظم بنوایا؟ اینکر عمران خان حقائق سامنے لے آئے گزشتہ روز گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نےدعوی کیا کہ بینظیربھٹو شہید، نواز شریف اور عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔ تفصیلات کے مطابق چوہدری محمد سرور نے گورنر ہاؤس لاہور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا نظام ناکام نہیں ہوا لوگ ناکام ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے ملک میں انوسٹی گیشن کا نظام ٹھیک نہیں ہو گا تب تک کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا، جب ریاست کمزور ہوجائے اور لوگ مضبوط ہو جائیں تو ملک کے ایسے حالات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کنٹونمنٹ الیکشن اور خانیوال کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے پہلے سے پارٹی کو بتادیا تھا ہم ہاریں گے،،پنجاب میں پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے ووٹ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ ان کے ذرائع کے مطابق آرمی چیف ایکسٹینشن لینے کی خواہش نہیں رکھتے، اگر پارٹی کل کو مجھ سے پوچھے تو رائے دوں گا، حالات کو بہتر کرنے کے لئے وقت چاہیے ہوتا ہے، ہمیں بھی پھر مزید پانچ سال دے دیئے جائیں۔ اینکر عمران خان نے آف دی ریکارڈگفتگو منظرعام پر لانے پر کہا کہ چوہدری سرور نے صحافیوں کو کھانے پر مدعو کیا اور انہیں کہا کہ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو ہے، چوہدری سرور نے جو باتیں کیں وہ صحافیوں نے باہر آکر لیک کردیں۔ سینئر صحافی کے مطابق چوہدری سرور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ برطانیہ میں رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں بھی صحافتی اقدار کا خیال رکھا جائے گا لیکن صحافیوں نے صحافتی اقدار کا خیال نہیں رکھا اور ٹی وی چینلز کو ٹکرز بھیجنا شروع کردئیے۔ اینکر عمران خان نے مزید کہا کہ میرے پاس آف دی ریکارڈ ایسی ایسی خبریں ہیں کہ اگر میں انکو آن ریکارڈ لیکر آؤں تو لوگوں میں لڑائی ہوجائے۔ مجھے ن لیگ کے لوگوں نے بہت سی چیزیں بتائی تھیں لیکن جو آف دی ریکارڈ ہے وہ آف دی ریکارڈ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آزادی صحافت کا احترام کریں لیکن دوسروں کی آزادی کی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اینکر عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے چوہدری سرور سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اگر آپ برطانیہ میں آف دی ریکارڈبات کرتے اور اخباروں میں چھپ جاتاتو کیا ہوتا جس پر چوہدری سرور نے کہا کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انکے ساتھ کیا ہوتا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے احمد جواد کی پارٹی رکنیت قیادت کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرنے پر ختم کر دی۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی نے سابق مرکزی سیکریٹری اطلاعات احمد جواد کی پارٹی رکنیت ختم کردی، پی ٹی آئی کی قائم کمیٹی نظم و احتساب نےقیادت کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے پر احمد جواد کی پارٹی رکنیت ختم کر دی۔ پی ٹی آئی کے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ احمد جواد کو صفائی کا موقع دی گیا تھا، انہیں 12 اور 19 جنوری کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے تھے تاہم احمد جواد نے صفائی پیش کرنے کے بجائے الزامات کی نئی فہرست بھجوادی۔ قائمہ کمیٹی نظم و احتساب کی 2 رکنی ذیلی کمیٹی نےشواہد اور احمد جواد کے تحریری جواب کی روشنی میں پارٹی رکنیت ختم کرنےکافیصلہ کیا ، اس ضمن میں پارٹی کی جانب سے تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر مراد سعید نے پارلیمنٹ میں خطاب میں کہا کہ خیبرپختونخواہ جیلوں میں 12 ہزار 326 قیدی، پنجاب میں 52 ہزار قیدی ہیں، ان میں سے اکثریت مرغی چور، انڈے چور اور چھوٹے الزامات میں قید ہیں،سپریم کورٹ سے سزا یافتہ ہوں تو آپ پر ایوان میں بات ہوگی ، اس نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے مفادات کے ٹکراؤ کو روکنا ہوگا۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں وفاقی وزیر کو بطورمہمان بلایا گیا اور پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر گفتگو کی، میزبان ارشد شریف نے سوال کیا کہ فوجداری نظام کو ٹھیک کرنے کیلئے کیا اصلاحات کیں؟ جس پر وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے کہا کہ عمران خان نے جب ذمہ داری سنبھالی تو ہم پر قرضوں کا انبار تھا۔ مراد سعید نے کہا کہ تعلیمی اور صحت کا نظام تباہ تھا، قرضے اور سود کی ادائیگی میں پھنسے ہیں، اس وقت عمران خان کی حکومت سابق حکومت کے قرضے اور سود کی مد میں قیمتوں کی ادائیگی میں ہے، ہم کتنے ارب ڈالر ہر سال واپس کررہے ہیں،یہ سوال ہم سے پوچھا جاتا ہے،لیکن اصل بحث ملک کے مسائل پر بات ہو،خارجہ پالیسی اور معیشت پر بات ہو۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ہم سے جتنا ہورہا ہے ہم کررہے ہیں، چیلنجز سے نمٹ رہے ہیں،عوامی پارلیمانی نظام ہے،اس میں عوام کا ووٹ لے کر پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں،لیکن ایوان میں عوامی مسائل پر کوئی بات نہیں ہوتی،بلکہ پیپلزپارٹی کا نمائندہ زرداری کیس اور دیگر رہنماؤں کے گرفتاری پر بات کرتا ہے، چوروں کی بات کی جاتی ہے۔ مراد سعید نے کہا ایوان میں اپوزیشن سے کوئی اٹھ جائے تو وہ شہباز شریف نوازشریف کی بات کرتا ہے،ہمیں چور لیکچر دیتے ہیں،ہمیں شرم آتی ہے سننے میں،نواز شریف کو پانچ عدلیہ کے اعلیٰ جج کہہ چکے ہیں یہ صادق اور امین نہیں ہیں،لندن کی جائیدادیں بھی پاکستانی قوم کے پیسوں سے بنیں،غریب کے شناختی کارڈ پر اکاؤنٹ بناکراربوں کی ڈیلنگ ہوتی ہے،ان غریبوں کو کچھ پتا تک نہیں ہوتا۔ وفاقی وزیر نے کہا شہباز شریف سے سوال کرو تو کہتے بیٹے سے پوچھا جائے جائیداد کے بارے میں،لیکن جب یہ لوگ پارلیمنٹ آتے ہیں تو ہمیں لیکچر دیتے ہیں،ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا،تم چور ہوتم ڈاکو ہو تم نے غریب لوٹا ملک کو لوٹا،پھر ہم سے آکر روزانہ سوال کرتے ہو،ہم چوروں کو سننے پارلیمنٹ نہیں آتے،میں زرداری یا کسی چور کے لیکچر سننے نہیں قوم کیلئے پارلیمنٹ آیا ہوں۔
پارٹی کی کسی اہم شخصیت کی اسٹیبلشمنٹ کے کسی فرد سے ملاقات نہیں ہوئی، شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ن لیگ کی کسی اہم شخصیت کی اسٹیبلشمنٹ کی کسی طاقتور شخصیت سے ملاقات نہیں ہوئی، نواز شریف کا فیصلہ ہے ملک کو فوری اور شفاف الیکشن کی ضرورت ہے. انہوں نے کہا کہ ملک کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے سر سے ہاتھ ہٹ جائیں، جب تک یہ ہاتھ رہیں گے ملک میں سیاسی نظام نہیں چل سکتا، اسٹیٹ بینک کے بل کیلئے عددی برتری ٹیلیفون کالز کے ذریعہ پوری کی گئی. خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں ادارے غیرجانبدار رہے، کیا ادارے قومی سطح پر بھی غیرجانبدار ہیں یہ بات بحث طلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی فون کالز کے ذریعے عددی اکثریت پوری کی گئی ہے. سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس کیلئے ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے مگر فون کال پر ان سے ووٹ دلایا گیا. ان کا کہنا تھا یہ کوئی ایک شخص نہیں بلکہ کئی لوگ ہیں. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ اگر یہ غیر آئینی مداخلت نہ ہو تو حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی. پروگرام میں وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی حسان خاور بھی شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کی حکومت شور کم مچاتی اور کام زیادہ کرتی ہے، پنجاب حکومت کی ساڑھے تین سال کی کارکردگی اب لوگوں کی رائے میں سامنے آرہی ہے۔
ملک میں اس وقت صدارتی نظام حکومت سے متعلق ایک مہم چل رہی ہے جس پر سینئر تجزیہ کاروں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام"ٹو دی پوائنٹ" میں اینکر پرسن منصور علی خان نے کہا کہ اس ملک میں ایک بار صدارتی نظام آیا جب مارشل لاء کا دور تھا، کسی سویلین دور حکومت میں اس نظام کو نہیں آزمایا گیا، اگر کسی شخص نے اس نظام کا غلط فائدہ اٹھایا تو نظام کے بجائے شخصیت کا مسئلہ ہے۔ پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پارلیمانی نظام کو چلنے نہیں دیا جاتا اور صدارتی نظام سے متعلق کوئی کھل کر بات نہیں کرتا، اگر عمران خان ماضی میں صدارتی نظام کے حامی تھے تو انہوں نے پارلیمانی نظام کی سیاست میں حصہ کیوں لیا؟ اگر اب بھی وہ سمجھتے ہیں کہ صدارتی نظام بہتر ہے تو وہ ترمیم کریں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف صاحب نے 1997 میں ایک ترمیم کرنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے، دو خاندانوں کو ملک کے بگاڑ کا ذمہ دار کہا جاتا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں خاندان گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں، تو بنیادی ذمہ دار کون ہوا ، اور کیا گارنٹی ہے کہ صدارتی نظام بھی گیٹ نمبر 4 کی پیداوار نہیں ہوگا؟ سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے اس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ نظام اور اس نظام کو چلانے والی ساری جماعتیں فیل ہوچکی ہیں، مجھے جمہوریت چاہیے مگر آڈٹ لیس، شاہی خاندانوں کی سیاسی جماعتوں والی ، پرفارمنس لیس اور یوٹرن والی جمہوریت نہیں چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کی خرابی ہے یا اس کو چلانے والوں کی مجھے نہیں پتا مگر 1970 میں بھٹو نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تھا آج بھی بلاول کا نعرہ یہی ہے ، سندھ میں لوگوں کو اس جمہوریت نے روٹی کپڑا اور مکان تک نہیں دیا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ميری تبديلی کی خبروں ميں صداقت نہيں ہے، وزيراعظم نے مجھ سے ناراضگی کا اظہار نہيں کيا۔ نجی نیوز چینل کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں گفتگو کرتے ہوئے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ منی لانڈرنگ کیسز پر بریفنگ کا مقصد ایسے کیسز کی اہمیت اجاگر کرنا ہوتا ہے مگر چالان عدالت میں جمع ہونے کے بعد فیصلہ عدالت کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ سماعت روزانہ کی بنياد پر ہونی چاہيے، حکومت نے روزانہ سماعت کی درخواست دی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر 2 سے 3 ہفتوں کی تاریخیں کیوں ملتی ہے۔ پاکستان کے ہر شہری کا سوال ہے کہ ایک کیس 10،10 سال کیوں چلتا ہے، اس نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ شہزاد اکبر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اگر احتساب کے عمل پر ناخوشی کا اظہار کیا بھی ہے تو وہ متعلقہ اداروں سے ہی ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم نے آج بھی اس حوالے سے وزارت قانون کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی ہے، وزارت قانون نے ایک مجوزہ مسودہ پیش کردیا ہے جسے منظوری کےلیے پہلے کابینہ اور پھر پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مشیراحتساب کا کہنا تھا کہ سیاسی لوگ کرپشن کیسز کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، عدالتی کیسز او سیاست کا معاملہ الگ الگ ہے ان سب باتوں سے کرپشن کیسز کے ثبوت ختم نہیں ہونگے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے کیسز عدالت میں چل رہے ہیں اور یہ ضروی بھی نہیں کہ پی ڈی ایم کا امیدوار ن لیگ سے ہو بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب تو ن ليگ ميں 4اميدواروں کی بات ہورہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے میاں نواز شریف اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان روابط سے متعلق سوال پر دوٹوک جواب دیدیا۔ جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹالک میں میزبان منیب فاروق نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے یہ سوال پوچھا کہ کیا آج اس وقت میاں محمد نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی قسم کے روابط موجود ہیں؟ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے اور میرا نہیں خیال کہ ایسے کوئی رابطے موجود ہیں، رابطے کی وجہ نہیں ہے اس وقت کوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ملک میں ایک مخلوط ہائبرڈ نظام رائج ہو تو اس میں اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی ہے تو پھر رابطے بھی ہوتے ہیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ میاں صاحب کہ اس وقت ایسے کوئی رابطے ہیں جس سے ڈیل کی کوئی بات کا امکان ہو۔ عبوری نظام اور اس میں چار ن لیگی رہنماؤں کے ممکنہ وزیراعظم کے ناموں کی تجویز سے متعلق سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ یہ بات کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوسکتی کیونکہ مسلم لیگ ن کسی بھی عبوری نظام کاحصہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ اس وقت ملکی مسائل کا ایک ہی حل ہے وہ فوری و شفاف انتخابات ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم۔۔ حامد میر کے بھائی کا ملوث ہونے کا انکشاف پبلک نیوز کے صھافی صدیق جان کے مطابق اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی غلیظ مہم کے حوالے سے انکشافات سے بھرپور رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے رکھ دی صدیق جان کے مطابق مہم چلانے کے پیچھے حامد میر کا بھائی عامر میر نکلا۔یہ الزامات حامد میر کےبھائی کےیوٹیوب چینل اورلاہور کےایک اور یوٹیوبر کی طرف سےلگائےگئے، رپورٹ دیکھ کر ججز نے گھٹیا مہم پر اظہارِ ناپسندیدگی کیا اس موقع پر عدالت میں دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف جو کہنا ہے کہیں، وزیراعظم پر جتنی تنقید کوئی کر سکتا ہے کرے، لیکن ان کی اہلیہ کے خلاف جس طرح کی گفتگو کی گئی وہ شرمناک ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے حوالے سے جو گھٹیا الزامات لگائے گئے وہ کسی طور پر بھی آزادی اظہارِ رائے میں نہیں آتے. اور اس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دئیے کہ جس انگلینڈ کی آزادی اظہارِ رائے پر بات کرتے ہوئے ہم مرے جارہے ہوتے ہیں، وہاں بھی ایسی باتیں نہیں ہوسکتیں، جیسی یہاں پر ہوتی ہیں، وہاں ایسی باتوں پر کیسز میں جائیدادیں تک فروخت ہوجاتی ہیں۔ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے مزید کہا کہ الزام لگایا گیا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کا انتخاب جادو ٹونے سے کیا گیا، یہ کہاں کی صحافت اور آزادی اظہارِ رائے ہے؟؟ اس پر ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہآج سپریم کورٹ میں شواہد کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ حامد میر کے بھائی، عامر میر نے عمران خان کی اہلیہ کے خلاف غلیظ زبان سے بھرپور کیمپین کا آغاز کیا۔عورت مارچ کی حامی خواتین صحافیوں کے گروپ کو عمران خان کی اہلیہ کے خلاف یہ غلیظ زبان قابل اعتراض کیوں نہیں لگ رہی؟

Back
Top