سپریم کورٹ بار کی تاحیات نااہلی سے متعلق درخواست پر وزیراعظم کی تنقید، تجزیہ کاروں کی رائے
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں میزبان نے سوال کیا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ بار نے نظرثانی کی درخواست دی جس پر وزیراعظم نے بار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیا یہ تنقید درست ہے جس پر سہیل وڑائچ نے کہا کہ وزیراعظم کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر تنقید سیاسی مخالف کی تقریر ہے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف بے شک ملزم ہے لیکن اس کے بھی حقوق ہیں، آئین میں گنجائش کے مطابق ہی تاحیات نااہلی سے متعلق اپیل کی جا رہی ہے، آئین و قانون کی تشریح کرنے میں عدالتوں کی مدد کرنا بار کا کام ہے.
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی تاریخ کے پہلے دو کیسز ہیں، تاحیات نااہلی سے متعلق آئینی تشریح کی ضرورت ہے اس کیلئے سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی ہے جو کہ درست ہے۔
تاہم ارشاد بھٹی نے کہا کہ نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں انہیں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ان کے مسائل کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، نواز شریف کو اہل قرار دے بھی دیا جائے تب بھی انہیں کئی دریا عبور کرنا پڑیں گے، ایون فیلڈ اور العزیزیہ میں سزا یافتہ ہیں وہ سزا بھگتنے کے بعد ہی اہل ہوں گے۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے آثار نظر نہیں آتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ بار کے پاس اس طرح کی درخواست دینے کا مینڈیٹ ہے، نواز شریف اور جہانگیرترین تاحیات نااہلی کیخلاف نہیں گئے مگر چار پانچ سال بعد سپریم کورٹ بار کے صدر اپیل میں عدالت چلے گئے مجھے اس کے پیچھے سیاسی ایجنڈا لگتا ہے۔
سلیم صافی نے اس پر کہا کہ اس ملک میں احتساب ہو تو سب سے پہلے موجودہ چیئرمین نیب جیل میں جائے گا، سپریم کورٹ بار وہی کام کرتی ہے جو اس کے مینڈیٹ میں ہے، سپریم کورٹ بار عدالتوں اور ججوں کی تعداد نہیں بڑھا سکتی یہ حکومت کا کام ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں طاقتور وہ ہے جس پر تنقید نہیں کی جاسکتی، وہ طاقتور کم از کم سیاستدان نہیں ہیں ،جنہیں آپ گالیاں دے سکتے ہیں وہ طاقتور نہیں ہیں، دنیا بھر کا اصول ہے کہ ملزم کو اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔
جب کہ حسن نثار کا کہنا تھا کہ ہمارا نظام طاقتور اور اثر ورسوخ رکھنے والوں اور دولت مندوں کو تحفظ دیتا ہے اوریہ تینوں صفات نواز شریف میں موجود ہیں۔