سیاسی

سپریم کورٹ بار کی تاحیات نااہلی سے متعلق درخواست پر وزیراعظم کی تنقید، تجزیہ کاروں کی رائے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں میزبان نے سوال کیا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ بار نے نظرثانی کی درخواست دی جس پر وزیراعظم نے بار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیا یہ تنقید درست ہے جس پر سہیل وڑائچ نے کہا کہ وزیراعظم کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر تنقید سیاسی مخالف کی تقریر ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف بے شک ملزم ہے لیکن اس کے بھی حقوق ہیں، آئین میں گنجائش کے مطابق ہی تاحیات نااہلی سے متعلق اپیل کی جا رہی ہے، آئین و قانون کی تشریح کرنے میں عدالتوں کی مدد کرنا بار کا کام ہے. انہوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی تاریخ کے پہلے دو کیسز ہیں، تاحیات نااہلی سے متعلق آئینی تشریح کی ضرورت ہے اس کیلئے سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی ہے جو کہ درست ہے۔ تاہم ارشاد بھٹی نے کہا کہ نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں انہیں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ان کے مسائل کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، نواز شریف کو اہل قرار دے بھی دیا جائے تب بھی انہیں کئی دریا عبور کرنا پڑیں گے، ایون فیلڈ اور العزیزیہ میں سزا یافتہ ہیں وہ سزا بھگتنے کے بعد ہی اہل ہوں گے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے آثار نظر نہیں آتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ بار کے پاس اس طرح کی درخواست دینے کا مینڈیٹ ہے، نواز شریف اور جہانگیرترین تاحیات نااہلی کیخلاف نہیں گئے مگر چار پانچ سال بعد سپریم کورٹ بار کے صدر اپیل میں عدالت چلے گئے مجھے اس کے پیچھے سیاسی ایجنڈا لگتا ہے۔ سلیم صافی نے اس پر کہا کہ اس ملک میں احتساب ہو تو سب سے پہلے موجودہ چیئرمین نیب جیل میں جائے گا، سپریم کورٹ بار وہی کام کرتی ہے جو اس کے مینڈیٹ میں ہے، سپریم کورٹ بار عدالتوں اور ججوں کی تعداد نہیں بڑھا سکتی یہ حکومت کا کام ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں طاقتور وہ ہے جس پر تنقید نہیں کی جاسکتی، وہ طاقتور کم از کم سیاستدان نہیں ہیں ،جنہیں آپ گالیاں دے سکتے ہیں وہ طاقتور نہیں ہیں، دنیا بھر کا اصول ہے کہ ملزم کو اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ جب کہ حسن نثار کا کہنا تھا کہ ہمارا نظام طاقتور اور اثر ورسوخ رکھنے والوں اور دولت مندوں کو تحفظ دیتا ہے اوریہ تینوں صفات نواز شریف میں موجود ہیں۔
اس وقت ملک میں کوئی وزیراعظم نہیں، ایک اپوزیشن لیڈر ملک چلا رہا ہے : رانا ثنا اللہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سینئر سیاستدان رانا ثنا اللہ نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت وقت ملک میں کوئی وزیراعظم نہیں۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام 'ندیم ملک لائیو' میں تبصرہ کرتے ہوئے ن لیگی رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں کوئی وزیراعظم نہیں، حکومت وزیراعظم کے بغیر چل رہی ہے، ایک اپوزیشن لیڈر ہے جس کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے، ان کی کوئی پالیسی یا ان کا عمل ایسا نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے اعلی ترین عہدے کو سنبھالیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے آج بہاولپور کا دورہ کیا وہاں عوام کے ساتھ خطاب بھی کیا تو کیا بحیثیت وزیر اعظم انہیں پتا نہیں ہونا چاہئیے تھا کہ بہاولپور کی تقریبا 70 فیصد آبادی زراعت سے منسلک ہے اور وہا ں کی عوام 2 بوری یوریا کھاد کے لئے دھکے کھارہی ہے لیکن کھاد کہِیں سے مل نہیں رہی کیونکہ کھاد تو اسمگل ہو چکی ہے۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں یوریا کھاد کی مکمل پیداوار صرف تین فیکٹریاں کر رہی ہیں جو کہ سیمی گورنمنٹ ہیں، جن میں فوجی فرٹیلائزر، اینگرو فرٹیلائزر اور فاطمہ فرٹیلائزر۔ ان کے مالکان میں سے ایک تو حکومت کے اے ٹی ایم بنے ہوئے ہیں، رزاق داوٰد ان کی کابینہ میں بیٹھے ہیں، فیصل مختار اور فاروق حبیب بھی ان کے اپنے لوگ ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کی یوریا کی تمام پیداوار نکل کر بیرون ملک اسمگل ہو جائے اور حکومت کے علم میں نہ ہو۔ ن لیگی رہنما کی بات کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ رانا ثنا اللہ غلط بیانی کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں 3 یوریا فرٹیلائزر پلانٹس ہیں جن میں فوجی فرٹیلائزر، اینگرو فرٹیلائزر اور فاطمہ فرٹیلائزر شامل ہیں اور ان کے مالکان کا تعلق پی ٹی آئی حکومت سے ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ، کیونکہ میں خود کارپوریٹ لائیر رہا ہوں اور کسی نہ کسی معاملے پر ان تینوں فیکٹریوں کے مالکان نے مجھ سے کنسلٹ کیا ہوا ہے۔ سینیٹر ولید اقبال نے مزید کہا کہ اینگرو فرٹیلائزر حسین داوَد کی فیملی کی ہے، رزاق داوَد کی نہیں، فیصل اور فواد مختار کی ملکیت میں فاطمہ فرٹیلائزر ہے جبکہ آرمی ویلفئر ٹرسٹ فوجی فرٹیلائزر کو چلا رہا ہے اور ان میں سے کوئی بھی حکومت کی کابینہ میں نہیں ہے۔ رہنما ن لیگ رانا ثنا اللہ نے دعوی کیا کہ یوریا کا کاروبار کرنے والوں کو لاکھ لاکھ بوریوں کے پرمٹ دیئے گئے ہیں، جبکہ فیکٹریوں سے کھاد کی بوریاں 1 ہزار 7 سو 50 روپے فی بوری خریدی ہیں اور کسانوں کو 4، 4 ہزار میں بیچ رہے ہیں، آج کسانوں کو 4، 4 ہزار میں بھی کھاد نہیں مل رہی، وزیر اعظم چاہتے تو تینوں مالکان کو سامنے بٹھا کر کہتے کہ اس معاملے پر بات کرتے تو یہ معاملہ حل ہو سکتا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا میں وزیر شاہ محمد خان نے الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر شاہ محمد خان نے پشتو زبان میں ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تشویش ہے، ایسا ہی ایک فیصلہ 2016 میں بھی میرے خلاف دیا گیا تھا جسے ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنا پر معطل کردیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 5 سالہ نااہلی کا الیکشن کمیشن کا تازہ فیصلہ بھی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخو کے بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کے دوران بنوں کی تحصیل بکاخیل میں حملے اور توڑپھوڑ کے الزام میں تحریک انصاف کے صوبائی وزیرٹرانسپورٹ شاہ محمد کو 5 سال کیلئے نااہل کرنے کا فیصلہ جاری کیا ہے جس کے بعد شاہ محمد کی خیبر پختونخوا اسمبلی رکنیت بھی معطل کردی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے کیس میں شاہ محمد خان اور ان کے بیٹے کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے شاہ محمد سمیت تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کا بھی حکم جاری کردیا جبکہ شاہ محمد خان کے بیٹے مامون رشید کو بھی نااہل کردیا ہے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے اسے ملکی تشخص خراب کرنے کی کوشش قرار دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کے استعفے کے معاملے پر اپنی تقریر میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوسف رضا گیلانی نہ صرف کمپرومائیزڈ اور بکے ہوئے ہیں بلکہ وہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے بھی چپکے رہیں گے۔ یوسف رضا گیلانی نے شاہ محمود قریشی کی جانب سے اس شدید تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں کسی کی بات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا مگر میں ملک کے وزیر خارجہ کی جانب سے اتنی گری ہوئی گفتگو کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایوان بالا میں وفاقی وزیر کی جانب سے ایسی گفتگو سے سینیٹ کا تقدس پامال ہوا ہے،ایسی گفتگو سے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے مزید کہا کہ مجھے نہیں معلوم شاہ محمود قریشی کو مجھ پر کس چیز کاغصہ ہے، مجھے لگتا ہے شاہ محمود قریشی کو امید تھی کہ پیپلزپارٹی کی قیادت میرا استعفیٰ منظور کرلے گی، پارٹی کی جانب سے میرا استعفیٰ منظور نہ کیے جانے پر شاہ محمود قریشی کو مجھ پر غصہ ہے۔ یادرہے کہ سینیٹ اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن لیڈر کے عہدےسے استعفیٰ دینے کا اعلان کرنے والے یوسف رضا گیلانی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سب جانتے ہیں یوسف رضا گیلانی کیسے سینیٹر بنے، اس حوالے سے ان کی اور ان کے صاحبزادے کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یوسف رضاگیلانی کی جانب سے کہا گیا کہ انہیں ایجنڈے کا معلوم نہیں تھا حالانکہ انہوں نے خود اور ان کے آفس نے دلاور خان سے رابطہ کرکے انہیں اجلاس میں اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایات دیں، سینیٹر دلاور خان کہتے ہیں جب وہ اپوزیشن لیڈر کے دفتر میں پہنچے تو وہاں اندھیروں کا ڈیرہ تھا۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ایم پی اے اور صوبائی وزیر شاہ محمد کو 5 سال کیلئے نااہل کردیا۔ تفصیلات کے مطابق بنوں کی تحصیل بکاخیل میں بلدیاتی الیکشن کے دوران حملے اور توڑپھوڑ کے الزام میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے صوبائی وزیرٹرانسپورٹ شاہ محمد کو 5 سال کیلئے نااہل کردیا ہے اور شاہ محمد کو ایم پی اے کی سیٹ سے ڈی نوٹیفائی کردیا ہے۔ کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے شاہ محمد کے بیٹے مامون رشید کو بھی نااہل کردیا ہے۔ دوران سماعت الیکشن کمیشن میں ویڈیوز چلائی گئی،جس کے بعد الیکشن کمیشن نے شاہ محمد کو انکے عہدے سے فارغ کردیا دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہ علی امین گنڈا پورپراثرنہیں ہورہا اور وہ نہ ادارے کی عزت کررہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے علی امین گنڈاپور کے وکیل سے کہا کہ آپ اپنے کلائنٹ کو کہیں کہ وہ کورونا میں الیکشن مہم نہ چلائیں، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایکشن ہوگا۔
پاکستان کی 52 فیصد عوام پیپلز پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کےساتھ ڈیل ہونے کے امکان کا ظاہر کیا ہے جبکہ 75 فیصد پاکستانیوں نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کرانے کے امکان کو مسترد کردیا پلس کنسلٹنٹ کی جانب سے کیے گئے سروے میں 52 فیصد پاکستانیوں نے پیپلزپارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا امکان ظاہر کیا ہے، 26فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ڈیل ہوسکتی ہے۔ سروے کے مطابق 21فیصدلوگوں نے جے یو آئی ف اور 17 فیصد نے جماعت اسلامی کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہونے کا امکان ظاہر کیا۔ سروے میں یہ سوال بھی کیا گیا کہ کیا سابق وزیر اعظم نواز شریف کے 2022 میں پاکستان آسکتے ہیں جس پر 57فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ نوازشریف 2022 میں پاکستان نہیں آئیں گے جبکہ 12 فیصد لوگوں کو امکان ہے کہ نوازشریف وطن واپس آجائیں گے۔ یہ سوال بھی کیا گیا کہ کیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر نواز شریف کو عہدے سے ہٹانے کی سازش کاالزام درست ہے جس پر 49 فیصد پاکستانیوں نے اس الزام کو غلط قرار دیا۔ سروے کے مطابق 75فیصد پاکستانیوں نے ملک میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قبل از وقت عام انتخابات کرانے کے امکانات کو بھی مسترد کردیا ۔ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہونا چاہیے یا نہیں ؟ سروے میں اس پر پاکستانیوں کی رائے میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔52 فیصد پاکستانیوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے فیصلے کو درست قرار دیدیا۔ سروے کے مطابق ستر فیصد پاکستانیوں نے ملک کی معاشی سمت کو غلط قرار دیا جبکہ 26 فیصد شہریوں نے معاشی سمت درست قرار دی۔ 50 فیصد پاکستانی بہتری کے لیے پُرامید دکھائی دیے، 19 فیصد نے نئے سال میں مزید خرابی کا خدشہ ظاہر کردیا۔
تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب میں بڑی کامیابی مل گئی ، نواب آف بہاولپور کے صاحبزادے بہاول عباسی نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان سے نواب آف بہاولپور کے صاحبزادے بہاول عباسی نے ملاقات کی، ملاقات کے دوران وزیراعظم نے نواب بہاول عباسی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بہاول عباسی آئندہ بہاول پور سے ڈسٹرکٹ چیئرمین کے امیدوار ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواب بہاول عباسی جنوبی پنجاب کی سیاست اہم مقام رکھتے ہیں، پی ٹی آئی میں ان کی شمولیت خوش آئند ہے۔ ضلع بہاولپور کی سیاست کے مزید بڑے ناموں کی جانب سے بھی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کا امکان ہے، پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اور بھی بڑے سیاستدانوں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ واضح رہے کہ صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں میئرز اور یو سی سطح پر الیکشنز ایک ہی دن یا الگ الگ منعقد کرنے کے معاملے پر پنجاب حکومت اور اور پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں 3 روز قبل وفاقی وزیر خسرو بختیار نے یو سی اور میئرز الیکشن علیحدہ کرانے کی تجویز دی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اکٹھے انتخابات کرانے سے مسائل ہو سکتے ہیں۔
سینٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے اپنا استعفیٰ پارٹی قیادت کو جمع کرادیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ میں مخالفوں کے طنز پر نہیں اپنوں کی خاموشی پر حیران ہوں، میں نے استعفیٰ پارٹی قیادت کو بھجوادیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے حوالے سے بہت باتیں کی گئیں، اب میں اپوزیشن لیڈر نہیں رہنا چاہتا۔مخالفوں کی طنز کی پرواہ نہیں لیکن اپنوں کی خاموشی پر حیران ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کو ووٹ نہیں دینا چاہیے تھا،اتنی کیا جلدی تھی کہ آپ نے 30 منٹ کا ٹائم دیا اس پر شہباز گل نے ردعمل دیا کہ بل پاس کروانے میں آپکے تعاون کا شکریہ۔اب آپکا استعفی دینا بنتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چند دن پہلے باہر جانے کی اجازت کی شرط پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی اپنے استعفے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ یہ استعفی لینے آئے تھے اب اپنے اپنے استعفے بھی دیں گے اور لوٹ مار کا حساب بھی۔بس دیکھتے جائیں۔
پاکستان میں گزشتہ 2 برس میں آزادی صحافت کی حالت پتلی ہے، میڈیا فریڈم رپورٹ روزنامہ جنگ کے مطابق کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ برائے سال 2021 جاری کر دی جس کے مطابق 2021 میں آزادی صحافت کی صورتحال کو گزشتہ 2 سالوں سے خراب قرار دیا گیا ہے۔ میڈیا فریڈم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں میڈیا کی آزادی، آزادی اظہار رائے، معلومات تک رسائی کے حقوق کو کسی نہ کسی ہتھکنڈے کے ذریعے دبانے کی کوششوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 میں 5صحافیوں کو قتل کیا گیا جس میں اغواء کے بعد بے دردی سے قتل کئے گئے کراچی کے نوجوان سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور کمیونٹی جرنلسٹ ناظم جوکھیو بھی شامل ہیں۔ جبکہ 9سے زائد صحافی کرونا کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے اور 2صحافیوں نے بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ2020 کی طرح 2021 بھی پاکستان کے صحافیوں، میڈیا کارکنوں اور میڈیا اداروں کے لئے انتہائی نامساعد صورتحال سے دوچار رہا کیونکہ 2021 میں بھی آزادی صحافت، اظہار رائے کی آزادی کو شدید دباؤ جیسے چیلنجز درپیش رہے نہ صرف یہ بلکہ 2021 میں کورونا وبا کے سبب متعدد صحافی اور دیگر میڈیا ورکرز زندگی کی بازی ہار گئے اور میڈیا ادارے بھی مالی بحران میں کے شکار ہوئے۔ پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ2021 سی پی این ای کی پریس فریڈم اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی کی زیر نگرانی سی پی این ای سیکریٹریٹ میں قائم میڈیا مانیٹرنگ ڈیسک نے براہ راست اطلاعات اور مختلف ذرائع ابلاغ، میڈیا واچ ڈاگ اداروں، اخبارات اور نیوز ویب سائٹس کے دستیاب معلومات کی روشنی میں مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 2021 میں براہ راست اور بالواسطہ دباؤ اور مختلف حکومتی اور غیر حکومتی و ریاستی اقدامات اور عدم برداشت پر مبنی میڈیا ہاؤسز اور کارکنان صحافتی مخالف کارروائیوں کے نرغے میں رہے۔ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی پر نشانہ بناتے ہوئے کم از کم 5صحافیوں کے قتل کی واضح تصدیق ہوئی ہے جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ تعداد زیادہ ہے، جس میں کراچی کے مضافات میں اغواء کے بعد بے دردی سے قتل کیئے گئے نوجوان سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کمیونٹی جرنلسٹ ناظم جوکھیو بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں سال کے مختلف مواقع پر صحافیوں پر قاتلانہ حملوں، مقدمات اور گرفتاریوں سمیت صحافیوں کو غائب کرنے کے واقعات، نا معلوم فون کالز اور آن لائن ہراساں کرنے سمیت کئی واقعات سرفہرست رہے، ان واقعات میں صحافیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اہلخانہ بھی جسمانی حملوں اور اذیت کا شکار ہوئے۔ میڈیا کو ہر صورت کنٹرول کرنے کے نت نئے حکومتی اقدامات کے تناظر میں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) کے انتہائی متنازع اور میڈیا دشمن قانونی مسودے پر شدید حکومتی اصرار رہا، مختلف اینکرز کے ٹیلی ویژن پروگراموں کو آف ایئر کرنے انہیں ان کے اداروں سے خارج کرنے اور حقیقی و مستند اخبارات کی ایک قابل ذکر تعداد کو سرکاری میڈیا لسٹ سے خارج کرنے کی کوششوں سمیت مختلف حملے کئے گئے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میڈیا اداروں کے مسائل میں محصولات میں کمی، سرکاری اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم اورمیڈیا اداروں پر جبری پابندیوں جیسے اقدامات آزاد رائے عامہ کو روکنے کا سبب ہے، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں اور نجی مشتہرین کی جانب سے میڈیا اداروں کے واجبات کی کئی سالوں سے عدم ادائیگی کی بناء پر میڈیا ادارے شدید مالی بحران میں مبتلا رہے۔ مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ مختلف اخبارات سمیت کئی ادارے بند ہو گئے، نتیجتاً صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوئی اور چند ایک صحافیوں نے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی پر بے انتہا جسمانی تشدد اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مختلف واقعات میں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ ان کے اہلخانہ بھی جان لیوا حملوں اور اذیت کا شکار ہوئے۔ صحافی اجے لالوانی، عبدالواحد رئیسانی، شاہد زہری، ناظم جوکھیو اور محمد زادہ اگروال سمیت کم از کم 5 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے خبروں کے وائرل ہونے سے کئی صحافیوں کو اغوا، تشدد اور دھمکی آمیز فون اور آن لائن پیغامات موصول ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق 7صحافی جان لیوا حملوں سے زخمی 28صحافیوں پر جسمانی تشدد 4 صحافی اغواء، 2صحافی آن لائن ہراساں جبکہ 04 صحافیوں کے گھروں پر حملے کیے گئے، مزید برآں 11صحافیوں کو جھوٹے مقدمات ، گرفتاریوں اور نظربندی کے واقعات پیش آئے۔ سی پی این ای کی رپورٹ میں صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران جسمانی، نفسیاتی اور ڈیجیٹل تحفظ کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے 2021 کے سال کو بھی میڈیا پریکٹیشنرز کے لئے غیر محفوظ قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں صوبہ سندھ کی اسمبلی کی جانب سے "سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس و دیگر میڈیا پریکٹیشنرز بل2021" اور سندھ صوبے کے بعد قومی اسمبلی میں وفاقی حکومت کی جانب سے "جرنلسٹس پروٹیکشن بل" کی منظوری کو بھی خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔
لاہور کی بغل میں سیمنٹ اور کنکریٹ کانیا شہر بنانا تباہ کُن ہوگا،خواجہ سعد رفیق راوی اربن منصوبے کی مخالفت میں سامنے آگئے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ راوی ریوراربن فرنٹ منصوبہ نیا نہہیں ، مسلم لیگ کے دورمیں بھی یہ منصوبہ سامنےلایا گیا لیکن حکومت نےاجازت نہ دی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے لاہور کی منتخب قیادت کواعتماد میں نہیں لیا ۔ اہل لاہور اس ماحول دشمن منصوبے پرشدیدتحفظات رکھتے ہیں۔راوی اورملحقہ زرعی زمینیں لاہور کیلئے پھپھڑوں کی سی اہمیت رکھتی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ راوی نیشنل پارک ، راوی لیک جیسے ماحول دوست منصوبے کےحامی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور کی بغل میں سیمنٹ اور کنکریٹ کانیا شہر بنانا تباہ کُن ہوگا ۔لوگوں سے انکی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ چھینی گىئ ہیں۔عوام سے انکی جدی جائیدادیں چھین کر ارب پتیوں کیلئے نیا شہر بنانا کہاں کا انصاف ھے؟ خواجہ سعد رفیق نے دعویٰ کیا کہ منصوبے کو چلانے والے رئیل اسٹیٹ کاروبار سے منسلک ہیں۔ مفادات کا براہ راست تصادم واضح ہے۔ راوی اوراسکے گرد زیر تعمیرغیر قانونی رہائشی سکیمیں بند کی جانی چاہئیں۔ عدالت فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حتمی عدالتی فیصلہ آنے تک حکومت کو اس منصوبے پرکام جاری رکھنے کی اجازت انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کر دیا تھا اور پنجاب حکومت کو راوی اربن منصوبہ پر کام جاری رکھنے کی اجازت دیدی تھی۔ سپریم کو رٹ کا کہنا تھا کہ جن زمینوں کی مالکان کو ادائیگی ہوچکی ان پر کام جاری رکھا جا سکتا ہے، جن زمینوں کے مالکان کو ادائیگی نہیں ہوئی وہاں کام نہیں ہو سکتا۔
وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اسلاموفوبیا کے خلاف عمران خان کے تقاریر کی ویڈیو ریلیز کردی اور کہا عمران خان کی واحد مگر مضبوط آواز سے اسلام کےخلاف پروپیگنڈا دم توڑ رہا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو، روسی صدر پیوٹن کے عمران خان کی آواز میں آواز ملانے پر وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اسلاموفوبیا کے خلاف عمران خان کے تقریروں کے ویڈیو ریلیز کردی۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ وزیراعظم بنتے ہی عمران خان نے اسلاموفوبیا کے خلاف آواز اٹھائی، دنیا نے وہ منظر دیکھا جب اقوام متحدہ کا ایوان دین کے پیغام سے گونجا، وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو آئینہ دکھایا۔ مراد سعید کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی مہم کو بےنقاب کیا اور اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجوڑا ، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری سے دنیا کو آگاہ کیا۔ وفاقی وزیر نے بتایا عمران خان نےطیب اردوان ، مہاتیر محمد سمیت عالم اسلام کے رہنماؤں سے رابطےکیے، یہاں لوگ کہتے رہے تقریروں سے کیا ہوتا ہے، آج دنیا میں اسلاموفوبیا کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، روسی صدر کے بعد جسٹن ٹروڈو بھی اسلاموفوبیا کے خلاف بول اٹھے۔ مراد سعید کا کہنا تھا کہ آج نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام عمران خان پر فخر کرتا ہے ، اسلام کو دہشت گرد کہنے کی بجائے دہشت گردی کے شکار ہونے پرگفتگو ہو رہی ہے ، آج عمران خان کی گفتگو دنیا سنتی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا عمران خان عالم اسلام کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے، آج پورا ملک سوال کر رہا ہے ، اسلم کو دہشت گردی سے جوڑا گیا تو سیاسی مولوی اور نام نہاد لبرل کیوں خاموش تھے؟ وزیر مواصلات کا کہنا تھا کہ جن کی کرپشن کاپیسہ باہر ہو وہ ملک ودین کامقدمہ نہیں لڑ سکتے، ایسے لوگ ڈو مور کا حکم بجا لاتے ہیں، دنیا سے اقتدارمیں آنے کی درخواست کرنے والے قوموں کا مقدمہ نہیں لڑسکتے۔ وفاقی وزیر نے اپیل کی کہ پاکستانی میڈیا اپنے وزیراعظم کا اسلام کے لیے کاوش میں ساتھ دے اور عالم اسلام کا اصل بیانیہ دنیا تک پہنچائے۔
سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ سینیٹ میں اسٹیٹ بینک کے بل پاس ہونے کے معاملے پر اپوزیشن کو اپنی صفوں میں ہی غداروں کو تلاش کرنا چاہیے۔ سماء نیوز کے پروگرام" احتساب" میں میزبان عمران خان نے مظہر عباس سے سوال کیا کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے قانون سینیٹ میں بھی منظور ہوگیا ہے، تاہم پیپلزپارٹی نے اس حوالے سے الزام عائد کیا ہے کہ یہ بل دھوکے سے پاس کیا گیا اور اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا،عدالت سے انہیں کیا ملے گا؟ مظہر عباس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال پیپلزپارٹی عدالت جائے گی، اس وقت انہیں عدالت جانے کے بجائے اپنے اندر تلاش کرنا چاہیے، یوسف رضا گیلانی پر اس وقت بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں جن کی انہیں وضاحت دینا ہوگی، وہ اگر رات کے 12 بجے بھی ملتان سے روانہ ہوتے تو اجلاس میں پہنچ سکتے تھے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اس واقعہ کے علاوہ بھی ایک پورا پس منظر ہے 2018 کے بعد سے سینیٹ کا جہاں اپوزیشن اکثریت میں رہی ہے، پہلے ان کی اکثریت زیادہ تھی اب تھوڑی کم ہوئی ہے مگر پھر بھی حکومت سے نمبرز زیادہ ہیں ، مگر اس کے باوجود اپوزیشن کبھی بھی حکومت کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی، تو انہیں اپنے اندر سے جو دھوکہ مل رہا ہے اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ مظہر عباس نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں صادق سنجرانی کس کی حمایت سے سینیٹر بنے ،پھر چیئرمین سینیٹ بنے، پھر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی اور ناکام ہوئی، پھر انتخابات ہوئے اس میں یوسف رضا گیلانی کیسے سینیٹر منتخب ہوئے، پھر وہ کیوں چیئرمین سینیٹ منتخب نہیں ہوسکے اور پھر کیسے انہیں اپوزیشن لیڈر بنایا گیا، یہ ساری اقساط میں آپ کو اپوزیشن کے لوگوں کا دھوکہ ہر جگہ نظر آئے گا۔ انہوں نےکہا کہ اس بار جو ہوا ہے اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ جس وجہ سے یوسف رضا گیلانی سینیٹر بنے اور لیڈر آف اپوزیشن بنے تھے آج انہوں نے ایوان سے غیر حاضر ہوکر اپنا وہ قرض اتار دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان مسلسل عوام کی جیبیں کاٹ رہے ہیں اور مافیاز کی جیبیں بھرر ہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بخار کی گولی سے کھاد تک ہر چیز کی بلیک مارکیٹنگ ہورہی ہے، کورونا کے دنوں میں بخار کی گولی کا دکانوں سے غائب ہونا شرمناک ہے، ملک سے گیس غائب کرکے عمران خان مافیاز کی جیبیں بھررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان مہنگے فرنس آئل سے بجلی بنا کر عوام کی جیبیں کاٹ رہے ہیں، عوام کیلئے روزگار، کسان کیلئے کھاد اور مریضوں کیلئے دوائیاں غائب ہے ، اس حکومت کو شرم آنی چاہیے بلکہ عوام سے خوشحالی، کاروبار اور روزگار چھیننے والی اس حکومت کو فارغ ہونا چاہیے۔ مریم اورنگزیب نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کے نشتر برساتے ہوئے کہا کہ آٹا، چینی ، بجلی گیس، دوائیاں اور کھاد عمران مافیا عوام کی جان کھارہا ہے۔ مریماورنگ زیب کے بیان پر شہباز گل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جھوٹی چھوٹی باجی بخار کے لئے گولی، کمر درد کا کیپسول اور کرپشن کھانے کی وجہ سے بد ہضمی کا ٹیکہ بھی ہر جگہ موجود ہے۔ آپ لوگ فیصلہ کر لیں۔ کہیں ٹیکہ بھی آپ لوگوں کی جگہ ملک مقصود چڑاسی نے تو نہیں لگوانا ؟ کیا پتہ دوائی بھی آپکی جگہ اسی نے لینی ہو۔
سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود حکومت اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے بڑے ایوان میں اپوزیشن کے 57 اور حکومت کے صرف 42 ارکان کے باوجود اپوزیشن ارکان کی غیرسنجیدگی اور غیر حاضری کی وجہ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہوگیا جبکہ حکومت کے اپنے 4 ارکان کی عدم موجودگی کے باوجود اپوزیشن ارکان کی غیرحاضری نے پانسہ پلٹ دیا۔ مسلم لیگ ن اسٹیٹ بنک ترمیمی بل پاس ہونے کا ذمہ دار یوسف رضاگیلانی کو قرار دے رہی ہے جبکہ حقیقت میں مسلم لیگ ن کے اس روز 4 ارکان غائب تھے۔ مشاہدحسین سید، نزہت صادق اسمبلی سے غائب تھے جبکہ اسحاق ڈار 2018 سے ملک سے باہر ہیں۔ سماء ٹی وی کے مطابق حکومت کی اس بل کی منظوری میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف کی سینیٹر زرقا تیمور آکسیجن سلنڈر اور ڈاکٹرز کی ٹیم کے ہمراہ وہیل چیئر پر ایوان میں پہنچیں جبکہ اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کو ملتان سے آتے دیر ہوگئی۔ اسمبلی سے مسلم لیگ ن سے نزہت صادق، مشاہد حسین سید غائب تھے، نزہت صادق بیرون ملک تھیں جبکہ مشاہد حسین سید کورونا کا شکار تھے۔ علاوہ ازیں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار شفیق ترین، بی این پی مینگل کی نسیمہ احسان، بی این پی کے قاسم رانجو، پیپلز پارٹی کے سکندر مہندرو اور جے یو آئی کے سینیٹر طلحہ محمود بھی اسمبلی سے غائب تھے۔ ووٹنگ کے دوران اے این پی کے عمر فاروق کاسی آٹھ کر ایوان سے باہر چلے گئے۔ رہی سہی کسر دلاور گروپ کے آزاد ارکان نے اپنا ووٹ حکومتی پلڑے میں ڈال کر پوری کردی۔ یوں 42 کے مقابلے میں 43 ووٹوں سے بل منظور ہو گیا۔ بل پاس ہونے پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے پر الزام لگارہی ہے، مسلم لیگ ن کا الزام ہے کہ حکومتی بل یوسف رضاگیلانی نے غیرحاضر رہ کر پاس کروایا جبکہ پیپلزپارٹی کا یہ موقف ہے کہ اس دن مسلم لیگ ن کے 3 ارکان اسمبلی سے غائب تھے۔ پیپلزپارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے یو آئی ف کا رکن بھی اس دن اسمبلی سے غیرحاضر تھا۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں خود اپوزیشن نے اسٹیٹ بنک ترمیمی بل پاس کروانے میں حکومت کی مدد کی ہے۔ ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ "حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کے بیانات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے، وقت آئے اور ضرورت پڑے تو عمران خان ،شہباز شریف، نوازشریف اور مریم نواز بھی پارلیمنٹ سے غیرحاضر ہوسکتے ہیں"۔ارشاد بھٹی حفیظ اللہ نیازی نے طنز کیا کہ تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے جبکہ مظہرعباس کا کہنا تھا کہ یوسف رضاگیلانی صرف سینٹ کا الیکشن جیتا ہے اسکے بعد اپوزیشن کی ایوان میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو مسلسل شکست ہورہی ہے۔ اکثریت کے باوجود اپوزیشن اپنا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نہ لاسکی اور اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت بلز پاس کروارہی ہے۔ ایک اور تجزیہ کار کے مطابق ماضی میں اپوزیشن کے لوگ ہی صادق سنجرانی کے خلاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بناچکی ہے جبکہ ماضی میں حکومت کئی قراردادیں، ایکٹ اکثریت نہ ہونے کے باوجود پاس کرواچکی ہے۔ انکے مطابق اکثریت نہ ہونے کے باوجود صادق سنجرانی چئیرمین سینٹ اور تحریک انصاف کے مرزاآفریدی ڈپٹی چئیرمین سینٹ بنے۔ شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانیوالی اپوزیشن عوام کو بیوقوف بنارہی ہے۔ اپوزیشن اسلئے قانون پاس کروارہی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ تمام کڑوی گولیاں عمران خان ہی نگلیں تاکہ کل انکی حکومت آئے تو کڑوی گولیاں نہ نگلنا پڑیں۔ وفاقی وزير اطلاعات فواد چوہدری نے بل منظوری کے دوران ايوان سےغير حاضر رہنے پر اپوزيشن ليڈر يوسف رضا گيلانی کا شکريہ ادا کرديا کہا شکريہ تو پيپلزپارٹی کا بھی بنتا ہے جنہوں نے غير اعلانيہ طور پر حکومت کا ساتھ ديا۔ دوسری جانب یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پورے سیشن کے دوران اکثریت رکھنا مشکل ہوتا ہے۔صبح 10بجے سیشن تھا اور رات 1بجے آرڈر آف ڈے بھیجا گیا۔
اگر کسی جج نے شہباز شریف کو سزا دی تو ہم اسکا گھیراؤ کریں گے۔ رانا ثناء اللہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ طوطے کی جان شہبازشریف میں ہے، عمران خان چاہتا ہے کہ شہبازشریف کو سزا ہوجائے، کوئی جج اور عدلیہ ایسا نہیں کرے گی۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ اگر کوئی جج ایسا کرے گا، شہبازشریف کو سزا دے گاتو ہم اسکا گھیراؤ کریں گے۔ راناثناء اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کوشش ہے کہ شہبازشریف کو نااہل کردیا جائے تاکہ کوئی میرے مدمقابل نہ آسکے رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہمیں کہا ہے کہ ہم نیوٹرل ہیں، اب انہیں عمل سے یہ ثابت کرنی چاہئے تاکہ قوم انکی بات پر یقین کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گیٹ نمبر 4 شیداٹلی انکی بات کو جھٹلاتا رہتا ہے۔ اس پر فوادچوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ایسی گفتگو اور دھمکیاں اگر بغیر نوٹس اور احتساب کے نظرانداز ہو جائیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، مجھے امید ہے اعلیٰ ترین سطح پر عدلیہ اس گفتگو کا نوٹس لے گی اور اقدامات کئے جائیں گے تا کہ احتساب کا عمل بغیر خوف وخطر آگے بڑہ سکے
نجی چینل جیو نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت وفاقی وزیر اسد عمر کو آئندہ الیکشن کراچی سے لڑوانے پر غور کر رہی ہے۔ اسد عمر 2018 میں اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے تاہم اب ان کا حلقہ تبدیل کرنے پر غور ہور ہا ہے اور اسلام آباد سے زلفی بخاری ان کی جگہ تحریک انصاف کا امید وار بنانےپر بات چیت چل رہی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زلفی بخاری آج کل این اے 56 اٹک میں انتہائی متحرک ہیں جہاں سے 2018 کے تحریک انصاف کے ناراض ایم این اے میجر(ر) طاہر صادق منتخب ہوئے تھے لیکن انہوں نے این اے 56کی سیٹ چھوڑکر این اے 55کی سیٹ اپنے پاس رکھ لی تھی۔ بعدازاں تحریک انصاف کے آپسی اختلافات کی وجہ سے این اے 56سےمسلم لیگ ن کے ملک سہیل منتخب ہوئے جو الیکشن 2013 میں تحریک انصاف کے امیدوار تھے۔ زلفی بخاری کے این اے 56 میں متحرک ہونے سے یہ تاثر جارہا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں این اے 56 میں تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے کیونکہ اس حلقے میں انکی برادری کا مضبوط ووٹ بنک موجود ہے اور انکے چچاسید اعجاز بخاری بھی اٹک سے منتخب ہوئے تھے جو صوبائی وزیر ہیں۔ اگر زلفی بخاری اسلام آباد سے الیکشن لڑتے ہیں تو اس صورت میں اسد عمر کراچی کے اس حلقے سے امیدوار ہوسکتے ہیں جہاں سے صدرپاکستان عارف علوی الیکشن میں منتخب ہوتے رہےہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد عمر نے کراچی پر خصوصی توجہ دینا شروع کر دی ہے اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی حیثیت سے کراچی کیلئے وفاقی حکومت کے تمام میگاپروجیکٹس کی نگرانی کر رہے ہیں ۔گرین لائن بس پراجیکٹ بھی انہی کی نگرانی میں مکمل ہوا ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ سندھ میں وہ حکومت مسلط ہے جو کچھ بھی نہیں کرتی، کراچی میں زیادہ تر منصوبے تو وفاق کے ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس جلد مقامی اور صوبائی حکومت دونوں نہیں بچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ٹرانسپورٹ کے بہترین نظام کے لیے ترستا تھا، الحمدللہ ٹرانسپورٹ کا آغاز ہوگیا، وزیر اعلی سندھ نے ایک بار کہا کہ اسد اب منصوبہ نہیں بناسکیں گے، کراچی سرکلر ریلوے ایک جدید طرز کا منصوبہ ہے، منصوبہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں شروع ہونے جارہا ہے، کے سی آر کے لیے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کررہا ہوں۔
سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کی زبان پھسل گئی اور وہ کہہ بیٹھے کہ ’’اپوزیشن شکست کھا چکی ہے‘‘۔ اس موقع پر حکومتی ارکان نے نعرے لگائے کہ ہاں اپوزیشن شکست کھا چکی ہے۔ اس پر چئیرمین سینٹ نے ہنستے ہوئے سوال کیا کہ اپوزیشن سشکست کھاچکی ہے؟ کیا کررہے ہیں؟ جس پر مولانا عبدالغفور حیدری نے فوری تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ حکومت شکست کھا چکی ہے، اعتراف کرے۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کئے اور کہا کہ سچ آخرکار زبان پر آہی گیا، اب اپوزیشن کو مان لینا چاہئے کہ وہ شکست کھاچکی ہے۔
اپنے ویڈیوکالم میں حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت اپنی بے انتہاء نالائقی کے باوجود تین سال اور پانچ ماہ پورے کر چکی ہے۔ اس حکومت کے پشتیبانوں نے پہلی بار اکتوبر 2019 میں تقریباً فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس حکومت کو گھر چلے جانا چاہیے لیکن پھر کورونا آگیا تو تبدیلی کا عمل بہت پیچھے رہ گیا۔ حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی باتیں، اسمبلی توڑنے کی تجویز پر غور، مائنس ون ، تحریک انصاف کے اندر سے نئی قیادت پیدا ہونے کے امکانات وغیرہ محض افواہیں نہیں بلکہ وہ شرائط ہیں جو میرے خیال میں لندن اور پاکستان میں بیٹھے کچھ لوگ دوبارہ بہتر تعلقات کیلئے ایک دوسرے کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔ غالبا حبیب اکرم کا اشارہ ڈیل کی خبروں کی طرف تھا کالم نگار کا مزید کہنا تھا کہ کہ عمران خان اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ اقتدار سے نکل کر میں آپ کیلئے اور بھی خطرناک ہو جاؤں گا تو یہ یہ پیغام ہر اس شخص کیلئے ہے جو جمہوریت کی آڑ میں غیر جمہوری اور غیر سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سازش اگر آشکار ہو جائے تو پھر دم توڑ جاتی ہے مگر پاکستان میں سازش اگر کھل جائے تو قومی مفاد کی شکل اختیار کر لیتی ہےیعنی اب یہ کہا جائے گا کہ عمران خان کی وجہ سے ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس لیے انہیں اقتدار چھوڑ کر گھر چلے جانا چاہئے۔ حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سوں کو پتا ہے کہ لندن سے آنے والوں میں کون مسافر ہے اور کون قاصد۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ بلاول زرداری جب اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے اور عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے۔ حبیب اکرم نے وضاحت کی پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کے اندر تبدیلی کے بعد ایک ڈیڑھ سال کیلئے وزارت عظمیٰ کی خواہش مند ہے اور نواز شریف وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے تین مہینے بعد الیکشن کا مطالبہ نہ کریں۔ آخر میں حبیب اکرم کہتے ہیں کہ اس کھیل کے اہم ترین فریق نوازشریف کو نہیں بھولنا چاہیے کہ انہوں نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے جو اندازِ سیاست اختیار کیا تھا اس میں انتہا پسندی جھلکتی تھی، ان سے توقع یہ تھی کہ وہ اعتدال پیدا کریں گے۔ اعتدال کا مطلب آلۂ کار بننا نہیں ہوتا۔ نواز شریف صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ آلۂ کار کو کبھی عزت نہیں ملتی۔
ملک میں آئندہ دو ماہ میں دہشت گردی میں اضافے کا خدشہ ہے، وزیرداخلہ شیخ رشید نے خطرے کی گھنٹی بجادی/ بی بی سی کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور معلومات اکٹھی کرنے کا نظام کافی بہتر ہے، آئندہ 2 ماہ تک ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے، دہشت گردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا۔ انٹرویو میں شیخ رشید احمد نے واضح کیا کہ وزیر اعظم عمران خان اور فوجی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں، فوجی قیادت کا فیصلہ ہے کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں فرق ہو سکتا ہے مگر ایسا نہیں کہ وہ ایک صفحے پر نہ ہوں، حکومت کی جانب سے نظر آتا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات لے جاتے وقت شاید درست تیاری نہیں کی گئی،ملک کا فائدہ اسی میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک صفحے پر ہوں، شیخ رشید نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چوروں، ڈاکوؤں، کرپٹ، بد دیانت لوگوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے عمران خان کو ووٹ ملے، احتساب عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا، مگر ہمیں وہ کامیابی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی،حکومت کی کوشش ہے کہ نواز شریف واپس آ جائیں، برطانیہ میں مقیم ملزمان اور مجرموں کو واپس لانے کے لیے معاہدے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید نے اعتراف کیا کہ نواز شریف کو ہم نے خود بھیجا، ہماری ہی غلطی ہے،نواز شریف سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوئے اور باہر چلے گئے، حکومت کی کوشش ہے کہ ان افراد کو واپس لایا جائے جو عدالتوں اور حکومت کو مطلوب ہیں، بہت سی کوششوں کے باوجود تاحال اسحاق ڈار کی واپسی ممکن نہیں بنا سکے۔ انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر کے استعفے اور وزیرِ اعظم کی ان سے ناراضگی کی وجہ نواز شریف کو واپس لانا ہی نہیں ،بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم پیسے بھی واپس نہ لا سکے،اربوں کی کرپشن ہوئی، ایک ایک ملازم کے اکاؤنٹ سے 4، 4 ارب روپے برآمد ہو رہے ہیں، شہباز شریف پر 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے لیکن ہم ان کے پیسے بھی واپس نہ لا سکے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ احتساب کے عمل میں ہر جگہ ہی بہتری کی گنجائش ہے، ہمیں کیسز اچھے تیار کرنے کی ضرورت ہے، اچھے وکیل ہوں، عمران خان میں ارادے کی کمی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ این آر او دینا غداری ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی پر زور نہیں چلتا، ان کی حکومت مثبت کردار ادا کر رہی ہے، طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں ثالث بھی رہی ہے، افغان طالبان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں، وہ ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ کارروائیوں سے باز رہے۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی منظر سے غیر موجودگی کو ایک ایسے موقع پر محسوس کیا جا رہا ہے جب عمران خان حکومت نے بیرسٹر شہزاد اکبر کو عہدے سے ہٹا کر اُن کی جگہ بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کو مشیر برائے احتساب مقرر کیا ہے۔ روزنامہ جنگ کے مطابق شہزاد اکبر نے پیر کو استعفیٰ دیا اور مبینہ طور پر انہیں عمران خان نے استعفیٰ دینے کیلئے کہا۔ میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم شہزاد اکبر سے خوش نہیں تھے کیونکہ وہ شریف فیملی کے کیسز میں وزیراعظم کیلئے اطمینان بخش کام نہیں کر رہے تھے۔ شہزاد اکبر شوگر مافیا کو بھی ٹھیک کرنے میں ناکام رہے، وزیراعظم کی اُن سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ شہزاد اکبر کے ہٹنے کے بعد کئی لوگ وزیراعظم عمران خان کے بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کو عہدہ دینے کے فیصلے پر حیران ہیں، وہ خالصتاً ایک ٹیکنوکریٹ ہیں اور ان کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں۔ یاد رہے کہ مصدق عباسی طویل عرصہ تک نیب میں کام کرتے رہے ہیں۔ نیب کے ایک افسر کے مطابق مصدق عباسی سے یہ امید رکھنا غلط ہوگا کہ وہ شہزاد اکبر کی طرز پر کام کریں گے۔ کیونکہ جس وقت مصدق عباسی نیب میں تھے اس وقت وہ بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتے تھے۔ مصدق عباسی کبھی بھی کسی کیخلاف غلط کیس بنانے کے حق میں نہیں رہے۔ انہوں نے مشرف کے دور میں یونیفارم کے ساتھ نیب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ نیب کراچی، نیب پشاور، نیب کوئٹہ کے سربراہ رہ چکے ہیں جبکہ ڈی جی کی حیثیت سے نیب کے ہیڈکوارٹرز میں کام کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے عدیل وڑائچ نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ شہزاداکبر اپنے کام کو چھوڑ کر پارٹی کے اندرونی معاملات اور سیاسی جوڑتوڑ میں لگے رہے ہیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت کرپشن کے کیسز میں شامل کوئی بھی بڑا نام جیل میں نہیں ہے۔ عدیل وڑائچ نے کہا کہ نئے آنے والے مشیر احتساب کیلئے یہ ایک چینلج ہو گیا کہ کیا وہ اس طریقے سے کام کر پائیں گے جس طرح عمران خان چاہتے ہیں کیونکہ عمران خان کا کرپشن کیسز کے حوالے سے مؤقف بہت واضح ہے۔

Back
Top