سیاسی

سوشل میڈیا پر وائرل کلپ میں فہد مصطفیٰ کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ کراچی کے لوگوں کو ٹیکس دینا ہی نہیں چاہئے، انہوں نے وزیراعظم عمران خان پر کراچی کی تباہی کا الزام لگایا حالانکہ سندھ میں 13 سال سے پیپلزپارٹی برسراقتدار رہی۔ جیتو پاکستان کے میزبان نے کہا کہ عمران خان صاحب اگر سن رہے ہیں تو بتائیں کہ ہم کس بات کا ٹیکس دیں؟ ہم تباہ ہورہے ہیں، ہم برباد ہورہے ہیں،آپ روز روز نئے ٹیکس لے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ٹیکے لگ رہے ہیں، کبھی بجلی میں، کبھی گیس میں، ہم تباہ ہوگئے ہیں۔گیس آرہی ہے لیکن گیس کے بل آرہے ہیں اسلئے ہم خوش نہیں ہیں۔ بعد میں فہد مصطفیٰ کہتے ہیں کہ کراچی والوں زور سے تالیاں بجاؤ، ہم اپنی بربادی پہ تالیاں بجارہے ہیں، فہد مصطفیٰ نے مزید کہا کہ ہمارا کتنا بڑا دل ہے، آپ ہمارے شہر سےکھاتے جائیں، مزے کرتے جائیں، انجوائے کرتے جائیں، آپ ہمارے گھر صاف کریں، ہم اپنے دل ضرور صاف کریں گے۔ میزبان نے کہا کہ آج کراچی کی ٹوٹی سڑکیں دیکھ کر میرا دل رویا ہے کہ ہم آگے کی نہیں تباہ ہونے کی طرف جارہے ہیں۔ فہدمصطفیٰ نےو زیراعظم کو طعنہ دیا کہ آپ سے تو اچھا کام ہونہیں رہا، ہم کررہےہیں، ہم خوشیاں بانٹ رہے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ کراچی میں پچھلے 13 سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، ایم کیوایم کراچی میں لمبے عرصے تک بلاشرکت غیرے حکومت کرتی رہی، کراچی کا مئیر ایم کیوایم کا رہا اور آپ الزام عمران خان پر دھررہے ہیں، کیا آپ میں ہمت نہیں ہے کہ پی پی اور ایم کیوایم سے سوال کریں؟ کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا ک فہدمصطفیٰ کو کراچی کنگز کے ہارنے کا صدمہ ہے جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ فہدمصطفٰی کے والد پیپلزپارٹی کے پرانے جیالے تھے اور انکی فیملی پی پی سے وابستہ ہے اسلئے وہ 13 سال سے برسراقتدار حکومت پر تنقید کرنےکی بجائے عمران خان کوہدف تنقید بنارہے ہیں۔
کیا عدم اعتماد کے بڑے کھیل کا حصہ ہے؟ امریکہ کو فوجی اڈے دینےسے انکار پر عمران خان کے خلاف اعلان جنگ شروع ہوگیا؟ ہارون رشید کا سوال گزشتہ روز اینکر غریدہ فاروقی کے پروگرام میں مراد سعید کی ذات پر حملے کئے گئے اور وزیراعظم عمران خان کےذاتی معاملات پر ایک بار پھر افواہوں کا بازار گرم کرنیکی کوشش کی گئی جبکہ تحریک عدم اعتماد پر ہارون رشید نے سوال اٹھایا کہ کیا امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار پر عمران خان کے خلاف اعلان جنگ شروع کردیا گیا ہے؟ ہارون رشید کا کہنا تھا کہ مراد سعید کے بارے میں بازاری گفتگو پہ افسوس ہوا ۔پی ٹی آئی اور نون لیگ کو بھی کردار کشی اور گالم گلوچ کو ترک کرنا ہوگا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ پیچھے مڑ کر کر دیکھیے، ایم کیو ایم کے ساتھ کیا ہوا۔ آئن سٹائل کے بقول گھمنڈ جہالت سے بھی بڑا مرض ہے۔ ہارون رشید نے مزید کہا کہ غریدہ فاروقی کے حق میں بی بی سی بھی میدان میں۔ پروگرام میں غیر اخلاقی اشاروں پر اسےہرگز اعتراض نہیں۔ بہانہ یہ کہ پیمرا نے موقف نہیں دیا۔ سینئر صحافی نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی آئی کا ردعمل بھی بہت ناشائستہ مگر کیا یہ عدم اعتماد کے بڑے کھیل کا حصہ ہے؟ امریکہ کو فوجی اڈے دینےسے انکار پر خان کے خلاف اعلان جنگ؟ گالم گلوچ اور کردار کشی میں تو کوئی کسی سے پیچھے نہیں۔ سبھی ایک جیسے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں کچھ اخبار نویس سیاستدانوں سے بھی زیادہ پرجوش اور سرگرم کیوں ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے نجم سیٹھی صاحب کی غیر معمولی جرآت اور سرگرمیوں کا راز کیا ہے؟
آصف زرداری نے فارم ہاؤس بنانے کیلئے زمین پر قبضہ کر رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی کا الزام سندھ کے علاقے مرزاپور میں زرداری اور بھنڈ برادری میں زمین کے تنازع پر تصادم ہوا جہاں فائرنگ اور تشدد سے 6افراد جاں بحق ہو گئے، مرنے والوں میں ایڈیشنل ایس ایچ او بھی شامل ہے جس پر اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے الزام لگایا ہے کہ زمین پر یہ قبضہ سابق صدر آصف زرداری کا فارم ہاؤس بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ حلیم عادل شیخ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ پیغام میں لکھا کہ آصف زرداری کا نام تو سنا ہوگا، جی یہ جناب زرداری صاحب کے لوگ نوابشاہ میں بھنڈ برادری کی زمین پر قبضہ کرنے آئے گولیاں چلائیں ایس ایچ او شہید ہوا، 5 بیگناہ افراد قتل ہوگئے، پولیس زرداری فورس بن کر کام رہی ہے، زرداری صاحب اپنا فارم ہاؤس بنانے کے لیے زمین پر قبضہ کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نوابشاہ کے علاقے مرزاپورمیں دوبرادریوں کےدرمیان زمین کے تنازع پر جھگڑا اور فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں پولیس کے ایڈیشنل ایس ایچ او عبدالحمید کھوسو سمیت 6 افرادجاں بحق ہوگئے ہیں۔ نواب شاہ کے علاقے مرزا پور میں زرداری برادری اور بھنڈ برادری میں زمین کا تناز‏ع ہے، زمین کے تنازع پر دونوں برادریوں میں جھگڑے اور فائرنگ سے 3 افراد موقع پر جاں بحق اور 7 افراد زخمی ہوئے، زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں تین مزید زخمی دم توڑ گئے۔ مرنے والوں میں 5 افراد بھنڈ برادری کے ہیں۔ پولیس نے زرداری برادری کے 16 افراد کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ بھنڈ برادری نے لاشیں رکھ کر قومی شاہراہ پر دھرنا دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ رہے کہ دو ماہ قبل بھی بھنڈ برادری نے زرداری برادری پر زمین پر قبضے کا الزام لگایا تھا، بھنڈ برادری نے اس وقت بھی قومی شاہراہ پر 40 گھنٹے دھرنا دیا تھا۔
حفیظ اللہ نیازی کے گھر کتنے ایم پی ایز آئے اور شہباز شریف نے ملنے گئے؟ حفیظ اللہ نیازی کے چند منٹس کے کلپ میں متضادعوے حفیظ اللہ نیازی نے دعویٰ کیا کہ میرے گھر سے6 کہہ لیں یا 9 کہہ لیں، پی ٹی آئی ایم پی اے شہباز شریف سے ملنے گئے ذرا کلپ غور سے سنئے پہلے حفیظ اللہ نیازی ڈیڑھ درجن کا دعوٰی کرتے کرتے رک گئے، پھر کہا کہ میرے گھر سےتقریبا 6 کہہ لیں یا 9 کہہ لیں پی ٹی آئی ایم پی اے شہباز شریف سے ملنے گئے۔ ذرا غور کیجئے کہ حفیظ اللہ نیازی کے گھر تحریک انصاف کے ایم پی ایز آئے اور انکی اصل تعداد معلوم نہیں، 10 تک گنتی تو تیسری جماعت کا بچہ کرلیتا ہےاور حفیظ اللہ نیازی کو یہ بھی پتہ نہیں کہ جو ایم پی ایز انکے گھر آئے، انکے گھر کھانا کھایا اور ڈائننگ ٹیبل پر انکےساتھ گپ شپ کی، انکی تعداد ہی معلوم نہیں۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ حفیظ اللہ نیازی غلط بیانی کررہے ہیں، کیا ایم پی ایز کو حفیظ اللہ نیازی کا ہی گھر ملا تھا شہبازشریف سے ملاقات کرنے کیلئے؟ حفیظ اللہ نیازی جس کا بھائی 2013 میں آزادالیکشن لڑ کر اپنی ضمانت ضبط کروابیٹھا۔ اس سیٹ سے تحریک انصاف کے امجد نیازی کو ایک لاکھ 25 ہزار ووٹ ملے جبکہ حفیظ اللہ نیازی کے بھائی انعام اللہ نیازی کو صرف 8000 ووٹ مل سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ اللہ نیازی اور عمران خان کے اختلافات کی وجہ ہی اس حلقے کا ٹکٹ تھا، عمران خان نے ٹکٹ شیرافگن نیازی کے بیٹے کو دیدیا تو حفیظ اللہ نیازی ناراض ہوگیا اور ناراض ہوکر جنگ جیو جوائن کرلیا، آج تک حفیظ اللہ نیازی کے جنگ پر چھپنے والے کالمز اور جیو نیوز پر تجزئیے عمران خان کے خلاف ہوتے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی کے بھائی مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں۔مسلم لیگ ن کے رہنما تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے حوالےسے متضاد دعوے کررہے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ہم سے تحریک انصاف کے 22 ایم این ایز رابطے میں ہیں، کوئی 15 کا دعویٰ کرتا ہے تو کوئی 10 کا ۔
کیا اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی؟کیا پی ڈی ایم کے اعلانات ہوائی باتیں ہیں؟ بڑے سوالات اٹھ گئے دو روز قبل پی ڈی ایم جماعتوں کااجلاس ہوا جس میں پی ڈی ایم نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عدم اعتماد سے پہلے ہوم ورک مکمل کر کے اتحادیوں کو بھی رضامند کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کے اراکین سے رابطہ نہیں کریں گے، اگر پی ٹی آئی سے کسی نے خود رابطہ کیا تو دیکھیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بغیر تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جاسکتی۔ اس موقع پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت کب ہو گی،،،،اس بات کا علم تو اللہ کو ہے لیکن ہم پوری کوشش کریں گے۔ شہباز شریف کے بیان کہ عمران خان حکومت کب ختم ہوگی یہ تو اللہ کو علم ہےا ور مولانا فضل الرحمان کے بیان "پہلے گراؤنڈ بنائیں گے پھر تحریک عدم اعتماد لائیں گے" نے ساری کہانی کھول دی جس سے یہ تاثر جارہا ہے کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد نہیں لیکرآئے گی۔ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے کی بات تو کررہی ہے لیکن حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہے۔ اپوزیشن اس مخمصے کا شکار ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی ہے تو کہیں عمران خان پہلے سے زیادہ مضبوط نہ ہوجائے اور نومبر بھی گزر جائے، آرمی چیف سمیت اہم تقرریاں بھی وزیراعظم کردیں اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ سینئر صحافی راناعظیم نے اہم نکتہ پیش کیا کہ مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد جو بھی حکومت آئے وہ اسمبلیاں توڑدے جبکہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ اسکا بندہ وزیراعظم بنے جو آرمی چیف سمیت اہم تقرریاں کرے۔ راناعظیم کے مطابق ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ تحریک عدم اعتماد آئی تو کون وزیراعظم بنے گا، کسے کیا حصہ ملے گا؟ تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کے بدلے حکومتی اتحادیوں کو کیا ملے گا، یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ پی ڈی ایم اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف کی گفتگو پر خاورگھمن نے تبصرہ کیا کہ پی ڈی ایم کا حکومتی اتحادی کو راضی کر کے عدم اعتماد لانے کے کوشش کی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔مطلب نہ ہی سمجھیں۔۔۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا کہتے ہیں کہ ہم کسی پی ٹی آئی روکن کو کوئی لالچ نہیں دیں گے، نہ ٹکٹ کا نہ حکومت کا۔۔حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ بھی پارٹی کی سطح پر رابطہ کریں گے۔،،میرے خیال میں پی ڈی ایم کی طرف سے یہ کہنا ظاہر کرتا ہے ہماری ملکی سیاست مستحکم ہو رہی ہے۔ باقی لانگ مارچ کرنا مظاہرے کرنا اپوزیشن کا حق ہے۔ صحافی عدیل وڑائچ نے اس پر تبصرہ کیا کہ پی ڈی ایم اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے اگر اتحادی راضی ہوئے تو، کیونکہ ہمارے اپنے نمبرز پورے نہیں ہیں، تحریک انصاف کے ارکان سے بھی رابطے نہیں کرینگے، عدم اعتماد لانے کی تاریخ بھی نہیں دی اینکر عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ پی ڈی ایم رہنماؤں کی باڈی لینگویج پر غور کریں انکےچہرے اترے ہوئے تھے، انکے لئے تحریک عدم اعتمادلانا بہت مشکل ہے، میڈیا کے سامنے اپنی خفگی مٹانے کیلئے پی ڈی ایم تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کررہی ہے۔ سینئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی اتحادی کیونکر پی ڈی ایم کا ساتھ دیں گے؟ اگر تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوگئی تو وہ نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے رہیں گے۔ حکومت میں تو رہ کر وہ اپنے مطالبات منوارہے ہیں، کون ایم این اے پی ڈی ایم کیلئے اپنی سیٹ کی قربانی دے گا؟ صحافی عمران ریاض نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم وزیراعظم عمران خان کے خلاف ڈائریکٹ تحریک عدم اعتماد لانے کی غلطی کبھی نہیں کرے گی، پہلے اسپیکر کے خلاف لائے گی کیونک خفیہ ووٹنگ ہوگی اور اپوزیشن پرامید ہے کہ وہ تحریک انصاف کے بندے اپنےساتھ ملالے گی۔ اس موقع پر اینکرعمران خان نے سوال اٹھایا کہ اگر پی ڈی ایم تحریک انصاف کے 15 ایم این ایز توڑ بھی لیتی ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ انکے بندے نہیں ٹوٹیں گے؟ اپوزیشن 3، 4 یا زیادہ سے 5 لوگ توڑلے گی، 15 ایم این ایز توڑنا تو بہت مشکل ہے۔ اگر ن لیگ تحریک انصاف کے 5، 6 بندے توڑلیتی ہے اور تحریک انصاف ن لیگ کے بندے توڑلیتی ہے تو پھر بھی تحریک عدم اعتمادناکام ہوجائے گی۔ صحافی نصرت جاوید کا اپنے کالم میں کہنا تھا کہ ۔مجھے یہ منصوبہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ فرض کیا یہ کامیاب ہو بھی گیا تو عمران خان صاحب کی جگہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والا شخص آنے والے دنوں میں جان لیوا ہوتی مہنگائی کا حتمی ذمہ دار تصور ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے منصب سے تحریک عدم اعتماد کی بدولت ہٹائے جانے کے بعد عمران خان صاحب بھی مزید غضب ناک ہوجائیں گے۔شہر شہر جاکر دہائی مچانا شروع ہوجائیں گے کہ سازشی مگر ’’کرپٹ مافیا‘‘ باہمی اختلافات بھلاکر ان جیسے دیانت دار سیاست دان کے خلاف یکجا ہوگیا۔ انہیں آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔ ہماری سیاست میں اس کی وجہ سے پہلے سے موجود تلخیاں شدید تر ہونا شروع ہوجائیں گی۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور چوہدری برادران کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ نجی چینل کے ذرائع کے مطابق ملاقات دو سیشن پر مشتمل تھی۔ پہلا سیشن چودھری شجاعت کی عیادت اورشرکا کے درمیان مشترکہ تھا جبکہ دوسرا سیشن مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت، پرویز الہی اور اکرم درانی کے مابین ہوا جس میں مولانا فضل الرحمن نے تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ ق کی قیادت سے حمایت مانگ لی ہے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری برادران نے پارٹی سے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری برادران نے مولانا سے کہا کہ آپ اپوزیشن والے پہلے آپس میں طے کر لیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اور اپوزیشن آپس میں مشاورت کرے گی۔ کل شہباز شریف آپ سے ملاقات کرینگے، میں راہ ہموار کرنے آیا ہوں۔ جس پر چودھری پرویزالٰہی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا مولانا آپ بے فکر رہیں۔ق لیگ کی قیادت شہباز شریف سے ملاقات کے بعد پارٹی اجلاس منعقد کریگی اس موقع پر چوہدری برادران کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام سے دیرینہ مراسم ہیں۔ ملک کے لیے جو بہتر ہو گا وہ کریں گے۔ اپوزیشن جماعتوں سے بعض تحفظات تھے اور ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مہنگائی سے عوام کی کمر توڑ دی ہے، یہ واحد حکومت ہے جس سے کوئی بھی خوش نہیں ہے، حکومت کے اتحادی بھی ان سے مطمئن نہیں ہیں۔
وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے متعلق جمعہ کے روز ہونیوالے پی ڈی ایم اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی نجی چینل کے ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم اجلاس میں گرماگرمی دیکھنے میں آئی اور مولانا فضل الرحمان لیگی قیادت سے ناراض نظر آئے، انہوں نے شکوہ کیا کہ اعتماد میں لئے بغیر آصف زرداری اور بلاول سے ملاقات کیوں کی؟ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے آئندہ ایسا کرنے پر پی ڈی ایم چھوڑنے کی دھمکی بھی دے ڈالی اور پی ڈی ایم اجلاس ختم ہونے کے بعد پریس کانفرنس سے بھی انکار کردیا۔ سماء ٹی وی کے ذرائع کے مطابق شہبازشریف اور مریم نواز مولانا فضل الرحمان کو مناتے رہے اور شہباز شریف نے معذرت کی تو مولانا مان گئے۔ مولانا نے کہا کہ آئندہ الیکشن ہوا تو وہ پی ڈی ایم چھوڑدیں گے۔ اے آروائی نیوز کے ذرائع کے مطابق اجلاس میں سابق وزیراعظم نواز شریف عدم اعتماد کی تحریک کیلئے اصرار کرتے رہے اور تحریک کی کامیابی کیلئے شہباز شریف سے کردار ادا کرنے کا بھی کہتے رہے۔ نجی چینل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران نواز شریف مسلسل شہباز شریف کو عدم اعتماد کے حوالے سے احکامات جاری کرتے رہے تاہم آخری وقت تک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے کوئی ٹھوس بات نہ ہوسکی۔ https://www.facebook.com/watch/?ref=external&v=520886255992057 ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے قائدین نواز شریف کی عدم اعتماد کی تجویز پر پریشان نظرآئے اور انہوں نے عدم اعتماد کے طریقہ کار پر حیرانی کا اظہار کیا، نواز شریف نے وقت آنے پر عدم اعتماد کا طریقہ کار واضح کرنے کی یقین دہانی کرائی، جس پر اتحادی پریشان رہے کہ عدم اعتماد حکومت پر کوئی نیا دباؤ لانےکی کوشش تو نہیں؟۔ ذرائع کے مطابق عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئی حکومت کو 3 سے 4 ماہ کے اندر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے عمل کو ختم کرنے کا ٹاسک دینے پر اتفاق کیا گیا۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیا ہے، پیپلزپارٹی نے بھی تحریک کی حمایت کا فیصلہ کرلیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں گی، اس حوالے سے پی ڈی ایم نے اس حوالے سے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے روابط بھی شروع کردیئے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کیلئے پہلے گراؤنڈ بنائیں گے، تیاری کریں گے اور اس کے بعد تحریک لائیں گے، ہم اس کیلئے پی ٹی آئی اراکین سے خود رابطہ نہیں کریں گے بلکہ حکومتی اراکین خود ہم سے رابطہ کریں گے، ہم انہیں کسی بھی قسم کا لالچ بھی نہیں دیں گے۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے بھی اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عوامی خواہشات کو دیکھتےہوئے عمران خان کے خلاف کوشش کریں گے، عوام دیکھ رہے ہیں کہ کون اس ظالم حکمران سے انہیں نجات دلوائے گا ، مولانا فضل الرحمان اور پیپلزپارٹی کے تعلقات میرے مولانا سے تعلقات سے بھی پرانے ہیں۔ پیپلزپارٹی گو کہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے مگر عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر متحدہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہے، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بھی اس حوالے سے ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‏یہ جمہوریت کی فتح ہے کہ حزب اختلاف کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں اب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے متفق ہیں، وزیراعظم عوام کا اعتماد کھوچکے ہیں اور وقت آگیا ہے کہ وہ پارلیمان کا اعتماد بھی کھودیں۔
وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے سیاست میں آنے کا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ریحام خان نے یہ اعلان فیصل آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ میں بالکل سیاست میں آنا چاہوں گی کوئی مجھے نہیں روک سکتا، مجھے صحافی جس پارٹی میں شمولیت کا مشورہ دیں گے میں اسی پارٹی میں چلی جاؤں گی۔ ریحام خان نے کہا کہ میں نے ہمیشہ مظلوم اور مجبور کا ساتھ دیا ہے، تاہم سیاست میں آنے کیلئے میرا مقصد وزیر بننا نہیں ہے۔ فیصل آباد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ریحام خان کا کہنا تھا کہ موٹر وےسے اترنے کے بعد سمندری فیصل آباد روڈ پر پہنچی تو ایسا لگا جیسے کسی جنگ زدہ علاقے میں آگئی ہوں، فیصل آباد کے رہنے والوں سے پوچھا کہ یہ کوئی وزیرستان نہیں جو یہاں ایسی سڑکیں ہوں، جب تک عوام سوال کرنا نہیں سیکھیں گے سڑکوں کی حالت یہی رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصل آباد سے منتخب ہونے والا منسٹر بچہ آپ کا نوکر ہے، حکومت نے غریبوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادیا ہے، میں یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو، میرا فیصل آباد آنے کا مقصد یہ ہے قوم جاگ جائے، ہمیں منظم انداز میں اپنا حق لینا ہوگا۔ ریحام خان نے کہا کہ ہماری زندگیاں اسی زمین سے جڑی ہوئی ہیں، سڑکیں روزگار پیدا کرتی ہیں، تاہم تحریک انصاف کی حکومت صرف تختیاں لگانے میں اچھی ہے، مجھ میں ایک پنجابی روح پنہاں ہے، پنجابی امریکہ جاکر انگریزی بولنا شروع کردیتا ہے جبکہ پٹھان جہاں جاتا ہے پشتو بولتا ہے، مجھ سے جب پنجابی میں سوالات ہوتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی یا کامیاب؟ اگر تحریک انصاف کے کچھ ناراض ارکان اپوزیشن کا ساتھ دے بھی دیں تو کیا ہوگا؟ کیا وہ اپنی ہی سیٹ سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے؟ حبیب اکرم کاتجزیہ اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن سے مل جائیں تو کیا ہوگا؟ اگر تحریک انصاف کے ارکان اپوزیشن کا ساتھ دینگے تو کیا ہوگا؟ صحافی حبیب اکرم نے اہم نقطہ اٹھادیا۔ اپنے ویڈیو لاگ میں حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری کیلئے منظوری کے لیے کم ازکم اسے ایک 172 کی حمایت درکار ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پیش آئی تھی تو اس وقت انہیں ایک 178 کی حمایت حاصل تھی۔ ان اراکین میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے جن کی مدد سے تحریک انصاف نے اپنی حکومت تشکیل دی تھی۔ حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ اگر عمران خان کے اتحادی اپنی بائیس نشستوں کے ساتھ الگ ہوکر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل جاتے ہیں تو خان صاحب کی حکومت تحریک عدم اعتماد پیش کیے بغیر ہی ختم ہوجائے گی ۔ اگر یہ اتحادی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں تو پھرتحریک عدم اعتماد پیش ہوبھی جائے توچند دن کے شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ تجزیہ کار نے مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں خفیہ ووٹنگ نہیں ہوگی بلکہ کھڑے ہوکر بتانا ہوگا کہ فلاں بن فلاں عمران خان کے خلاف ہے۔ اگر کوئی یا وزیراعلیٰ پراعتماد یا عدم اعتماد کے وقت اپنا ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے یا غیرحاضر ہوتا ہے تو وہ نااہل ہوجائے گا۔ دوسری صورت میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والا کوئی ایم این اے اگراس موقع پروزیر اعظم کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو سپیکر اس شق کے مطابق اس کا ووٹ مسترد کرسکتا ہے کیونکہ یہ ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال ہورہا ہوگا۔ حبیب اکرم نے سوال اٹھایا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخراتحادی حکومت چھوڑ کراپوزیشن کے مطالبے پروقت سے پہلے اسمبلی توڑنے کی کسی بھی کاوش کا حصہ کیوں بنیں گے؟ حبیب اکرم نے مزید کہا کہ اتحادیوں کے ٹوٹنے سے بھی زیادہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کیلئے اہم چیز مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں مکمل اتفاق و اتحاد ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے خیال میں اسی سال کے آخر میں وزیراعظم نے کچھ ایسی تقرریاں کرنی ہیں جن پرکسی مخصوص شخص کا تقرر اس کیلئے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کیلئے یہ معاملہ زیادہ اہم نہیں بلکہ ابتدائی طور پر تو اس کی کوشش تھی کہ عمران خان کی جگہ پیپلزپارٹی کا کوئی جیالا وزارت عظمیٰ سنبھالے اور یہ تقرریاں وہ کرے۔ تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں اپنا حسن ظن یہ تھا کہ سیاستدان پاکستان کے معاملات کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتے ہیں۔ تجربے نے بتایا کہ ہمارے سیاستدان صرف اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں، ملک، قوم یا ترقی ان کے ایجنڈے پراپنے مفاد کے بعد آتے ہیں۔
میں نے شادی کی ہے اوروں کی طرح حرام رشتے نہیں رکھے، دوسری شادی کو فروغ دینا چاہئے اور حلال رشتوں پر یقین رکھنا چاہئے۔ عامرلیاقت تحریک انصاف کے ایم این اے عامر لیاقت کا کہنا تھا کہ میں نے شادی کی ہے اوروں کی طرح حرام رشتے نہیں رکھے، میں ہمیشہ حلال رشتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ عامرلیاقت کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک شرعی معاملہ ہے، شادی کیلئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے،دوسری شادی کے لئے فیملی لاز میں ترامیم کی ضرورت ہے، عائلی قوانین کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے مزید کہا یہ سنت نبوی ﷺ کا احیاء ہے، جب رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمادیا تو ارشاد فرمادیا، اسکے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، ہمیں اسلامی تعلیمات پر چلنا چاہئے، اگر کوئی دوسری شادی کرنا چاہتا ہے اور اسے پہلی بیوی سے ڈر ہے تو وہ اللہ سے ڈرے پہلی بیوی سے نہ ڈرے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری شادی کی اجازت ہونی چاہئے کیونکہ اس طرح مرد دوسری طرف دیکھنے سے پرہیز کرتا ہے۔کسی دوسری طرف دیکھنے سے بہتر ہے کہ بندہ دوسری شادی کرلے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں شادیوں کو فروغ دینا چاہئے اور زنا کو روکنا چاہئے ٹی وی اینکر نے کہا کہ آپ لاکھوں مردوں کیلئے قابل رشک ہیں جس پر عامرلیاقت نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ قابل رشک میں سے ر نکال دیں قابل شک رہ جاتا ہے، کچھ لوگ قابل شک ہیں۔ عامرلیاقت کا کہنا تھا کہ ہم تبدیلی کی جماعت ہیں، میں تبدیلی لیکر آیا ہوں۔میں نے آپکے شو میں کہا تھا کہ مارچ سے پہلے پہلے بڑی تبدیلی ہوگی۔ صحافی کےسوال کہ چوتھی شادی کی بھی گنجائش ہے جس پر عامر لیاقت نے ہاں میں جواب دیا۔ پی ٹی آئی حکومت سے متعلق عامرلیاقت کا کہنا تھا کہ مارچ میں بہت بڑی تبدیلی آنیوالی ہے، کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئی ہے۔ عامر لیاقت نےد بے الفاظ میں صدارتی نظام کی بھی حمایت کی، ان کا کہنا تھا کہ ایسا نظام ہونا چاہئےجس میں اراکین اسمبلیوں کی خریدوفروخت نہ ہو، پارلیمان ضرور فیصلے کرے لیکن ایک شخص ایسا ہونا چاہئے جو سب پر نگاہ رکھے۔
حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں سے متعلق نمبرز گیم شروع ہوگئی ہے، اس حوالے سے تحریک انصاف کے ناراض اراکین سے متعلق رپورٹ بھی شہباز شریف کو پیش کردی گئی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے ن لیگ پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ سے لاہور ماڈل ٹاؤن میں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کی، ملاقات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے متعلق گفتگو ہوئی اور تحریک انصاف کے ناراض اراکین کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر راناثنا اللہ نے شہبا زشریف کو تحریک انصاف کے سرگودھا ڈویژن، راولپنڈی ڈویژن اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ناراض اراکین سے متعلق رپورٹ پیش کی، اور شہباز شریف کو تحریک انصاف کے ناراض اراکین سے متعلق گارنٹی بھی دی۔ رانا ثنا اللہ نے شہباز شریف کو ان اراکین اسمبلی کی بھی فہرست دی جو اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ووٹنگ میں حصہ نہ لینے اور اس سے لاتعلق رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شہباز شریف نےعدم اعتما د کی تحریکوں کو کامیاب بنانے کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے بھی تیز کردیئے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے جمیعت اہلحدیث کے امیر مولانا ساجد میر سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ملکی موجودہ سیاسی صورتحال اور عدم اعتماد کی تحریکوں سے متعلق گفتگو کی۔ اس موقع پر شہبا زشریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے کھوکھلے لیکچروں کو حقائق منہ چڑھارہے ہیں۔ واضح رہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے منصوبہ بندی کرلی ہے جس میں حکومت کے خلاف مرحلہ وار عدم اعتماد کی تحریکیں لائی جائیں گی، سب سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد لائی جائے گی جس کے بعد وزیراعلی پنجاب کانمبر آئے گا اور آخری مرحلے میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی۔
عدالت میں سماعت کے دوران گزشتہ روز مریم نواز شریف نے عدالت میں ہی نماز کی ادائیگی کی اور مسلسل تسبیحات پڑھتی دکھائی دی ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کے خلاف گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ کیس میں اپیلوں پر سماعت ہوئی، دوران سماعت مریم نواز شریف نے اپنی کرسی پر ہی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھی اور سماعت کے دوران مسلسل تسبیحات پڑھتی دکھائی دیتی رہیں۔ دوران سماعت ججز نے ریمارکس دئیے کہ اگر ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز اور حسین نواز کے دستخط موجود ہیں اور وہ اسے تسلیم کرتے ہیں تو ٹرسٹ ڈیڈ جعلی نہیں۔ یہ جعلسازی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اگر حسین نواز آ کر کہہ دیتے کہ دستخط ان کے نہیں تو پھر بات جعلسازی کی طرف جاتی۔ گزشتہ روز سماعت کے بعد مریم نواز پرامید ہیں کہ وہ باعزت بری ہوجائیں گی جس کااظہار انہوں نے میڈیا کے سامنے بھی کیا۔ سماعت کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ آج وہ حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ اب کسی کیلئے بھی عمران خان کی حکومت قابل قبول نہیں ہے، عمران خان نے خود خارجہ، خزانہ اور توانائی کی وزارتوں میں کوئی تعریفی سند تقسیم نہیں کی کیونکہ ان وزارتوں نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران کو معلوم ہے کہ حال کے بعد مستقبل بھی ان کا نہیں ہے، ان کی تقریریں درحقیقت ان کی چیخیں ہیں، حکومت کی کشتی ڈوب رہی ہے، ان کے اپنے اتحادی جان چکے ہیں کہ تاریخی ناکامی کا بوجھ لے کر عوام میں نہیں جاسکتے، اسی لیے عمران کی کشتی میں سوار لوگ جمپ کرنے کو تیار ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے توڑ کیلئے حکومت نے اپنی حکمت عملی تشکیل دیدی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ ے مطابق گزشتہ روز اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک سے متعلق ایک منصوبہ سامنے آیا تھا جس میں اسپیکر قومی اسمبلی، وزیراعلی پنجاب اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں کی مرحلہ وار منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے توڑ کیلئے حکومت نے بھی اپنی کمر کس لی ہے اور مخالفین کے منصوبے کو ناکام کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی وضع کرلی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) میں شامل بلوچ جماعت جو پہلے حکومتی اتحادی بھی تھی کے ساتھ بیک ڈور رابطے شروع کردیئے ہیں، چار اراکین قومی اسمبلی رکھنے والی اس جماعت کو اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی اور حکومت میں شمولیت کی دعوت کی گئی ہے۔ حکومتی رہنما کے مطابق حکومت نے اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے ساتھ بھی رابطے شروع کردیئے ہیں، حکومتی رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن کے 5 اراکین اسمبلی سے بات چیت آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے ، ان اراکین میں سے 3 کا تعلق پنجاب سے جبکہ 2 کا سندھ سے ہے۔ حکومت حلقوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنی تیاری کررہے ہیں مگر ہمیں معلوم ہے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک نہیں لاسکتی، حکومتی اتحادی ساتھ ہیں، اگر اپوزیشن نے عدم اعتماد لاکر سیاسی غلطی کی تو اسے شکست فاش کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے گزشتہ روز انسٹاگرام پر اپنی ایک تصویر جاری کی جس میں اُن کے ہاتھ میں ایک کتاب موجود ہے جس کا عنوان "دی نیرو کوریڈور" ہے۔ یہ وہی کتاب ہے جس کا ذکر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی اپنے خطاب میں کر چکے ہیں۔ مریم نواز نے اس تصویر کے کیپشن میں اپنے کارکنوں کو بتایا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے لیے جارہی ہوں۔ مگر دوران سفر مریم جس کتاب کا مطالعہ کر رہی ہیں وہ بتاتی ہے کہ نئے خطرات کے باوجود ریاست میں جمہوریت کیسے ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے۔ CZwYECIMcEa کتاب کے مصنف دو اسکالرز ڈیرون ایسیموگلو اور جیمز اے رابنسن ہیں جو اس کتاب میں بتاتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جمہوری ریاستوں کے وجود میں آنے اور ان میں شخصی آزادی کی وجوہات کے حوالے سے مختلف نظریے سامنے آئے کسی نے ثقافت، آب و ہوا، جغرافیہ، ٹیکنالوجی، یا سماجی اقتصادی حالات پر زور دیا تو کسی نے مضبوط متوسط طبقے کی ترقی کو جمہوریت کی کامیابی قرار دیا۔ شکاگو یونیورسٹی کے ماہر سیاست ڈیرون ایسیموگلو اور جیمز اے رابنسن نے 2019 میں شائع کی جانے والی اپنی کتاب "دی نیرو کوریڈور": ریاستیں، معاشرے، اور آزادی کی قسمت میں اس بات کا احاطہ کیا ہے کہ کہ کچھ ریاستیں آزادی کی روشنی کے طور پر کیسے ابھریں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ہمیں تاریخ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے، یہ کتاب اس لیے لکھی گئی کیونکہ مصنف سمجھتے ہیں کہ یہ آج ہمارے لیے درپیش فوری چیلنجوں سے متعلق ہے۔ کتاب میں دونوں اسکالرز نے "ریاست میں جمہوریت کی ترقی اور اسے برقرار رکھنا اتنا مشکل کیوں ہے؟" کے سوال کا جواب بڑی بصیرت سے دیا ہے۔ کتاب ایک اہم تصویر کا فریم ورک ہے جو اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ آزادی کس طرح کچھ ریاستوں میں پنپتی ہے لیکن دوسری ریاستیں آمریت کا شکار ہیں۔ ڈیرون ایسیموگلو نے کتاب میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سیاسی آزادی سماجی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے، ہمارے پاس آزادی کا کوئی آفاقی سانچہ نہیں ہے، کوئی ایسی شرائط نہیں ہیں جو اس کے لیے ناگزیر ہوں اور اب تک کوئی ایسی تاریخی پیش رفت بھی نہیں ہوئی جو لامحالہ اس کی طرف لے جائے۔ انہوں نے کہا کہ "آزادی کو اشرافیہ کی طرف سے کسی اور کو سپرد نہیں کیا جاتا، اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آزادی برقرار رہے گی۔" ریاست اور معاشرے کے درمیان تنازع ایک تنگ کوریڈور بناتا ہے جس میں آزادی پروان چڑھتی ہے، آپ کو اس تنازعے کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے، عدم توازن آزادی کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور رمضان شوکے میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت نے 18 سالہ لڑکی سے تیسری شادی کرلی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے تیسری شادی کا اعلان اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کرتے ہوئے کہا گزشتہ رات میں 18 سالہ سیدہ دانیہ شاہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا۔ اپنی دلہن کا تعارف کراتے ہوئے عامر لیاقت کا کہنا تھا کہ دانیہ کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے لودھراں کے معزز نجیب الطرفین ’’سادات‘‘ خاندان سے ہے اور اسکی عمر 18 برس ہے۔دانیہ سرائیکی، دلکش، سادہ اور پیاری ہے۔ عامرلیاقت کی تیسری شادی پر سوشل میڈیا صارفین نے نت نئے تبصرے کئے کسی نے کہا کہ سب پیسے کا کھیل ہے، کسی نے کہا کہ دلہن تو عامر لیاقت کی پہلی بیوی سے بیٹی کی عمر کی ہے توکسی نے کہا کہ شادی عامرلیاقت کا ذاتی معاملہ ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف تبصروں پر عامر لیاقت نے خاموشی توڑدی اور کہا میری تیسری شادی کیا ہوئی، گویاآسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگ گئی، افواہوں ، بدگمانیوں، غیبتوں اور حسد کے شعلے بھڑک رہے ہیں، کچھ پہلی کے بعد دوسری کیسے کریں؟ یہ سوچ کر تڑپ رہے ہیں!!! واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی اداکارہ اور ماڈل طوبیٰ انور نے عامر لیاقت سے رشتہ ختم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے خلع لے لی ہے انہوں نے لکھا تھا کہ ’میرے قریبی رشتے دار اور دوست اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ میں نے 14 ماہ قبل ہی شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، جس کے بعد صلح کی کوئی صورت نظر نہیں آئی‘۔
نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن و سینئر تجزیہ کار کامران خان نے اپنے ایک مختصر ویڈیو تجزیے میں بتایا کہ کس طرح ایک ہی خاندان کے اقتدار پر براجمان ہو کر سیاست کرنے اور پھر کاروبار کرنے سے ملکی بنیادیں کھوکھلی ہوئی اور اس سے پاکستان کس طرح متاثر ہوا ہے۔ کامران خان نے کہا کہ اس تباہی کی مثال 2008 سے 2018 تک کی دہائی ہے جس کے دوران شہبازشریف صوبہ پنجاب کے طاقتور ترین وزیراعلیٰ رہے جن کے ایک اشارے پر پنجاب کا نظام قوت ناچا کرتا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسی عرصے کے دوران شہبازشریف کے صاحبزادوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز نے کاروبار کو بہت ہی احسن طریقے سے سنبھالا اور بہت پیسہ بنایا۔ اینکر پرسن نے کہا کہ دونوں بھائیوں حمزہ اور سلیمان میں کاروباری معاملات کو تقسیم کیا گیا اور حمزہ شہباز ترقیاتی کاموں کے ٹینڈر، خرید وفروخت اور دیگر حکومتی معاملات میں اس طرح اثر انداز ہوتے کہ جس نے ان کی خوشنودی حاصل کر لی اس نے سب کچھ پا لیا، جب کہ سلیمان شہباز نے کاروبار جیسے پولٹری، ڈیری، شوگر، کنسٹرکشن، ٹریڈنگ و دیگر شعبہ جات میں بہت ترقی کی۔ کامران خان نے کہا کہ سلیمان شہباز ملک کی بڑی بڑی کاروباری کمپنیوں کو مختلف طریقوں سے کاروبار کی شراکت داری میں حصہ پہنچاتے تھے۔ اس دوران کچھ لوگ برملا ان کے کولیشن پارٹنر ہونے کا دعویٰ کرتے تھے جبکہ کچھ لوگ درپردہ انڈرسٹیڈنگ سے ہی کام چلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہبازشریف، ان کی اہلیہ نصرت شہباز، بیٹے حمزہ شہباز، سلیمان شہباز بیٹیوں رابعہ و جویریہ ہی نہیں ان کے شوہروں کے بھی اکاؤنٹس میں پڑی رقوم میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے یقیناً ان سب پر تحقیقات ہونی چاہییں اور ان پر کیسز بنائے جانے چاہییں کیونکہ اسی ملک کا پیسہ لوٹ کر حوالہ ہنڈی والوں کو دیا گیا جنہوں نے مختلف ذرائع سے یہ رقم واپس ان کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کر کے انہیں فائدہ پہنچایا ہے۔
وزیراعظم کے دورہ چین پر ڈس انفارمیشن پھیلانے اور پروپیگنڈا کرنے پر حبیب اکرم کا تبصرہ۔۔ کیا ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہے؟ حبیب اکرم کا سوال اپنے کالم میں حبیب اکرم لکھتے ہیں کہ ذرا تصور فرمائیے کہ ملک کا وزیراعظم چین جیسے عظیم دوست ملک کے دورے پر ہے اور ہمارے جید صحافی اس بات پر شرطیں لگا رہے ہیں کہ میزبان ملک کا صدر وزیراعظم سے نہیں ملے گا۔ اپنے وزیراعظم کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ اس کا استقبال کسی نچلے درجے کے اہلکار نے کیا ہے۔ حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ جب خبرآگئی کہ چین کے صدر نے ہمارے وزیراعظم سے ملاقات کرلی تو پھر شکوک و شبہات پیدا کرنیکی کوشش کی گئی جس مطلب یہ تھا کہ چین سے تعلقات کے حوالے سے حکومت پرباقاعدہ جھوٹ بولنے کا الزام دھرا جائے۔ جب ملاقات کی تصویر آگئی تو یہ کہا گیا ابھی تک چینی حکومت نے جاری نہیں کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب وہاں سے تصویر کے ساتھ خبر ریلیز ہوگئی کہ کہا گیا کہ 'پریس ریلیز میں وہ نکات نہیں جو ہماری حکومت کہتی ہے۔ پھر وہ نکات بھی آگئے تو خاموشی چھا گئی۔ اس پر حبیب اکرم نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم صحافیوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے وزیراعظم کی دوست ملک میں سبکی کے خواہشمند ہیں اوراس کے لیے ہر حد سے گزر جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ کونسی صحافت ہے کہ اپنے ہی ملک کے سربراہ توہین کی خواہش ہماری خبر بن جائے؟ اس قدر نفرت میں ہم اپنا ہی گریبان چاک کر بیٹھے ہیں۔ حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے دورۂ چین کے موقع پر جو کچھ پاکستان میں صحافت اور سیاست کے نام پر ہوا‘ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ بالغ نظری تو دور کی بات ہے‘ ہم بلوغت کی الف ب تک بھی نہیں پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ذاتی‘ سیاسی‘ مسلکی یا مذہبی اختلافات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہم اتنے کمزور‘ نالائق اور پسماندہ ہیں کہ خود ہی اپنی تباہی کے لیے کافی ہیں۔
مسلم لیگ ن نے وزیراعظم عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد رواں ماہ میں ہی پیش کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ نجی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مارچ یا مئی نہیں، بلکہ رواں ماہ ہی لائے جانے کا امکان ہے۔ ن لیگی ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن نے فروری ہی میں ان ہاؤس تبدیلی کی تیاری کرلی ہے اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے عدم اعتماد کے حوالے سے ہوم ورک بھی مکمل کر لیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے شہبازشریف کو گرین سگنل دیدیا ہے اور ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے شہباز شریف کو مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لینے کی ہدایت کی ہے۔ ن لیگی پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے پلان اے اور پلان بی بنایا ہے، اور وزیراعظم عمران خاں کے خلاف رواں ماہ ہی تحریک عدم اعتماد لانے کا قوی امکان ہے، ن لیگی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ شہباز شریف کے حکومتی اتحادیوں، اپوزیشن قائدین سے بیک ڈور رابطوں کے بعد کیا گیا ہے۔ شہبازشریف تحریک انصاف کےناراض اراکین اور ترین گروپ کے ایم این ایز سے بھی رابطے کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے شہباز شریف پی ڈی ایم سربراہی اجلاس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن کو اعتماد میں لیں گے جبکہ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کریں گے۔ شہباز شریف پی ڈی ایم اجلاس میں حکومتی اتحادیوں اور پیپلز پارٹی سے ہونے والے رابطوں، حکومتی اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی تعداد کے حوالے سے بریفنگ دیں گے اور پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں حتمی منظوری کے بعد شہباز شریف تحریک عدم اعتماد پر عملی اقدامات کا آغاز کریں گے۔
ملکی سیاسی موسم میں گرمی بڑھتی جارہی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کو گرانے کیلئے جدوجہد تیز کردی گئی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سیاسی صورتحال کے پیش نظر رابطوں میں تیزی دیکھی جارہی ہے، تازہ ترین رابطہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے گروپ کے درمیان ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس رابطے کے بعد آئندہ چند روز میں مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف اور جہانگیر ترین کے درمیان براہ راست رابطہ ہونے اور ملاقات ہونے کے امکانات بھی روشن ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فی الحال شہباز شریف اور جہانگیر خان ترین کے نمائندوں کے درمیان کچھ دنوں سے رابطے ہورہے ہیں۔ یادرہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کےصدر شہباز شریف نے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملاقات کی اور بعد میں ایم کیو ایم کے وفد سے ملے اور حکومت سے نکلنے کی تجویز دی تھی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے بھی حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہی کو ٹیلی فون کیا تھا۔ تجزیہ کار ہارون رشید کے مطابق مونس الٰہی کو اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کی آفر کی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز بلاول زرداری نے ملتان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے مارچ سے پہلے عمران خان کی وکٹیں گرنا شروع ہوگئیں، اسلام آباد پہنچنے سے تک مزید وکٹیں گریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں 100 فیصد یقین ہے کہ مارچ کامیاب ہوگا اور ہمارے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے عمران خان کی مزید وکٹیں بھی گریں گے، اسلام آباد پہنچنے کے بعد وزیراعظم پر حملے سے کوئی انکار نہیں کرسکے گا۔

Back
Top