پاکستان پر ایک مرتبہ پھر ٹرائیکا کی حکمرانی

ansai1h1h1i3.jpg


پاکستان پر ایک مرتبہ پھر ایک ٹرائیکا حکومت کر رہی ہے جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر شامل ہیں,آخری مرتبہ ملک پر 90کی دہائی میں ٹرائیکا کی حکمرانی تھی جب صدر مملکت کے پاس حکومت کو ہٹانے اور قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار تھا۔ یہ صدارتی اختیارات 90ء کی دہائی کے آخر میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے واپس لے لیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں صدر کا عہدہ بے اختیار ہوگیا۔

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق آئینی اور قانونی لحاظ سے وزیراعظم اگرچہ طاقتور بن گئے لیکن آرمی چیف کے روایتی اثر پر فرق نہیں پڑا جس کا مشاہدہ گزشتہ فوجی حکمرانی کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ کچھ وقت کیلئے، چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ بھی ٹرائیکا کے ممبر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا تھا۔

8فروری کے الیکشن کے نتیجے میں مینڈیٹ تقسیم ہوگیا، پاکستان پیپلز پارٹی کی اسٹریٹجک لحاظ سے جیتی گئی قومی اسمبلی کی اہم نشستوں اور آصف علی زرداری کے ریاست کے سربراہ کے طور پر انتخاب نے ایک بار پھر موجودہ صدر کو حکمران ٹرائیکا کا رکن بنا دیا ہے۔

صدر زرداری کے پاس کوئی آئینی اور قانونی اختیار نہیں کہ وہ تین چار دہائیاں پہلے کی باتوں کو دہرائیں لیکن قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد کی وجہ سے ایوان صدر شہباز شریف کی قیادت والی حکومت کو طاقت دینے یا جھٹکا دینے کیلئے واقعی موزوں ہے۔

اس وقت حکمران ٹرائیکا کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور ملک کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ اقتصادی محاذ پر سب سے طاقتور اسپیشل انویسٹمنٹ فنانس کونسل کا کردار بہت اہم ہے، جو وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم باجوہ کی اختراع ہے۔

ایس آئی ایف سی پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں قائم ہوئی تھی، صدر آصف علی زرداری شہباز حکومت کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ایس آئی ایف سی کی حمایت کیلئے پرعزم ہیں,اسلام آباد میں 23 مارچ کی پریڈ کے موقع پر اپنے خطاب میں صدر زرداری نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور اب یہ ذمہ داری ’’ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم مل کر چیلنجز سے نمٹیں، ہمارے لوگ محنتی اور ذہین ہیں، بے پناہ صلاحیتوں سے آراستہ نوجوان ملک کی ترقی کے امین ہیں۔

صدر نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کا قیام ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اس پلیٹ فارم کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات اور کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں کو ترقی ملے گی, تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سلامتی اور خوشحالی کی خاطر مل کر کام کریں۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کے درمیان افہام و تفہیم اور ورکنگ ریلیشن شپ قابل ذکر رہی۔

8؍ فروری کے عام انتخابات کے بعد آرمی چیف کی زیرقیادت کور کمانڈرز کانفرنس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اور ملک میں سماجی اقتصادی ترقی کو بلند کرنے کیلئے حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرنا جاری رکھا جائیگا جس میں اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، بجلی کی چوری سمیت تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے بھرپور مدد کی جائے گی۔

ایک دستاویزی نظام کا نفاذ اور غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی باعزت اور محفوظ وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایس آئی ایف سی کے قیام اور حکومت کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دینے پر آرمی چیف کی تعریف کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔

اس وقت ٹرائیکا کے تینوں رکن اس بات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ قوم کو ان سے کیا توقع ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود کابینہ کا حصہ نہیں اور یہ ایک کمزور کڑی ہے اور ممکن ہے وہ چند ماہ میں حکومت سے الگ ہوجائے۔ تاہم، کچھ کا اصرار ہے کہ زرداری ایسا نہیں کریں گے جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ بھی ملک کو موجودہ معاشی دلدل سے نکالنے کیلئے سب کو ساتھ رکھنے کی کوشش کرے گی۔
 

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان میں حکمرانی صرف خاکی وردی والے گریڈ بائیس کے سرکاری ملازم کی ہوتی ہے۔۔۔۔باقی ماندہ شودر صرف اپنی ایک ایک ہڈی کے لیے اُس کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ ٹرائکا شرایکا والی پخ یہاں مت بیچیں