سوشل میڈیا کی خبریں

انتخابات پر نظر رکھنے والے غیرسرکاری ادارے پتن نے 8 فروری الیکشن میں دھاندلی پر نئی رپورٹ جاری کر دی ہے جس کے مطابق 8فروری الیکشن میں دھاندلی کے 64 نئے طریقے استعمال کیے گئے، اپنی رپورٹ میں غیر سرکاری تنظیم پتن کا کہنا تھا کہ 8فروری الیکشن میں دھاندلی کے 64 نئے طریقوں کا کا استعمال کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ کچھ حلقوں میں ووٹر ٹرن آؤٹ 100 فیصد سے بھی زیادہ رہا جبکہ متعلقہ پولنگ اسٹیشن کے صوبائی حلقوں میں یہ ٹرن آؤٹ 40 فیصد رہا۔ یہ رجحان پنجاب اور کراچی میں رجحان زیادہ پایا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن ستمبر 2024 تک ویب سائٹ پر نتائج کے فارم تبدیل کرتا رہا۔پتن کا مزید کہا تھا کہ ملک میں آمریت زور پکڑرہی ہے۔ اس رپورٹ پر حامد میر نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ہیرا پھیری کے 64 نئے طریقے ایجاد کرنے کا اعزاز الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مل گیا عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ دھاندلی الیکشن 8 فروری 2024 چوری کی موٹر سائیکل نہیں چل سکتی تو حکومت کیسے چلے گی،تنقید کرنے والے صحافیوں کے لئے خطرات بڑ گئے، نشانے ہر پھر صحافی؟( خرید لو یا مار دو ) حافظ فرحت عباس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن الیکشن کے حوالے سے اپنی زمہ داری نبھانے میں بلکل ناکام رہا. دھاندلی کے لیے 64 نئے زرائع کا استعمال کیا گیا. جعلی فارم 47 تیار کئے گئے نو ماہ تک ویب سائٹ پر نتائج کے فارم تبدیل کئے جاتے رہے. کچھ حلقوں میں 100 فیصد سے زائد ٹرن آؤٹ رہا. الیکشن کی چوری میں الیکشن کمیشن نے مکمل سہولت کاری کی یے اور ملک کی تباہی میں برابر کا قصوروار ہے. عامرضیاء نے تبصرہ کیا کہ کیا پتن نے 2024 کے انتخابات میں دھاندلی اور ہیر پھیر کے بارے میں رپورٹس جاری کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن اور حکومت کا موقف جاننے کی کوشش کی؟ کون سے بڑے نام درحقیقت انتخابات ہار گئے تھے؟ ایک ہی علاقے کی قومی اور صوبائی نشستوں پر پڑنے والے ووٹوں میں اتنا بڑا فرق کیوں؟
گزشتہ روز ڈان اخبار نے ایک خاکہ شئیر کیا جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ریاست کے چار ستونوں میں سے عدلیہ اور جرنلزم کے ستون گرگئے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کا ستون اپنی جگہ سے سرک رہا ہے۔ یہ خاکہ سوشل میڈیا پر صحافیوں اور صارفین کی توجہ کا مرکز بن گیا جن کا کہنا ھا کہ یہ خاکہ پاکستان کے موجودہ حالات کی منظرکشی کررہا ہے جس میں سے دو ستون عدلیہ اور میڈیا توڑ دئیے گئے ہیں اور اب ریاست 2 ستونوں پر کھڑی ہے جس میں سے ایک ستون پارلیمنٹ بھی اپنی جگہ سے سرک رہا ہے اور کسی بھی وقت گرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ یہ خاکہ پاکستانی نظام پر نوحہ ہے اور اب اس نظام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے۔ عمر دراز گوندل نے خاجہ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ڈان اخبار موجودہ پاکستان کی منظر کشی کرتے ہوئے جس کے جواب میں اسداللہ خان نے کہا کہ یہ خاکہ بھی موجودہ حالت کی صحیح منظر کشی نہیں کر رہا، حقیقت میں تو باقی دونوں ستون بھی گر چکے ہیں، عمارت ہوا میں کھڑی ہے احتشام کیانی نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ڈان اخبار کے اِس خاکے کے مطابق ریاست کے چار ستونوں میں سے دو عدلیہ اور میڈیا توڑ دیے گئے. اب ریاست چار کی بجائے صرف دو ستونوں پارلیمان اور ایگزیکٹو پر کھڑی ہے جن کے کٹھ پتلی ہونے کا تاثر عام ہے ارسلان بلوچ نے کہا کہ ڈان اخبار میں شائع ہونے والا پوسٹر اس نظام پر فاتحہ پڑھ رہا ہے ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ انگریزی اخبار ڈان میں چھپنے والی اس تصویر نے کھل کر حقیقت بیان کر دی ہے۔ پارلیمان کی بھرپور معاونت سے میڈیا اور عدلیہ کا صرف تین سال میں کیا گیا حشر نشر ملاحظہ ہو۔ سہیل احمد کا کہنا تھا کہ ڈان اخبار کی نظر میں آج کا پاکستان حسین احمد چوہدری نے لکھا کہ ڈان اخبار میں شائع اسٹیٹ کا موجودہ خاکہ پیش کردیا گیا ۔ ابرار استوری کا کہنا تھا کہ ڈان اخبار میں شائع اسٹیٹ کا موجودہ خاکہ پیش کردیا گیا۔ ریاست کے چار ستون میں سے دو ستون میڈیا اور عدلیہ تو گر کر زمین بوس ہو گئے بس اب ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ رہ گئے ممکنہ طور پر وہ بھی اب شاید اپاہیج ہوچکے ہیں بس قوم نے اب گھبرانا نہیں ہے
جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کردیا گیا ہے اور اب امکان ہے کہ اگر چیف جسٹس عامرفاروق کو سپریم کورٹ ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو وہ متوقع چیف جسٹس ہونگے جبکہ سنیارٹی کے لحاظ سے جسٹس محسن اختر کیانی میرٹ پر پورا اترتے ہیں۔ صحافی ثاقب بشیر نے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس محسن کیانی کا موازنہ پیش کیا ہے جس کے مطابق جسٹس محسن کیانی جسٹس سرفراز ڈوگر کے مقابلے میں زیادہ یعنی 102 کیسز کا فیصلہ سناچکے ہیں۔ مجموعی طور پر جسٹس کیانی 161 جبکہ سرفراز ڈوگر 59 کیسز کا فیصلہ سناچکے ہیں۔ صحافی ثاقب بشیر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ سے لائے جانے والے جسٹس سرفراز ڈوگر کی رپورٹڈ ججمنٹس کی تعداد لاہور ہائیکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق 59 ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیرپورٹڈ ججمنٹس کی تعداد اسلام آباد ہائیکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق 161 ہے لیکن پھر بھی چیف جسٹس 59 والے ہی لگیں گے دوسری جانب صحافی امیر عباس کا کہنا ہے کہ ریاست نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو اپنا وفادار اور تابع بنانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے 15ویں نمبر کے جس جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ منتقل کیا ہے انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ وہ ہیرا جج ہے جس نے اپریل 2021 میں شہباز شریف صاحب کو عدالتی اصول پامال کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر ضمانت دی، کیونکہ انکے ساتھی جج، جسٹس اسجد جاوید گھرال نے ثبوتوں کی بنیاد پر ضمانت کی واشگاف مخالفت کی، لیکن جسٹس ڈوگر نے اپنے ساتھی جج کے اختلاف کے باوجود یکطرفہ طور پر شہباز شریف کی ضمانت کا فیصلہ جاری کر دیا، جو ہماری عدالتی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا، جسٹس ڈوگر بضد تھے کہ ضمانت دینی ہی دینی ہے، یہ ہیرا ریاست کو ایسا لاجواب انصاف دیا کرے گاکہ چیف جسٹس عامر فاروق کے جانے کے بعد ان کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ امیر عباس نے مزید کہا کہ جسٹس ڈوگر نے تمام عدالتی اصول پامال کرتے ہوئے شہباز شریف کو ضمانت کیسے دی، وہ تفصیلات سنیں جو اس سے پہلے آپ نے نہیں سنی ہونگی
گلوکار سلمان احمد جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ہی عمران ریاض کی سیاسی پناہ کیلئے رچرڈ گرینل سے بات کی تھی۔ اب سلمان اھمد نے عمران ریاض کو 4 دن کی مہلت دیدی اور سوال کیا کہ تمام تر تفصیلات واضح کرنے کیلئے خاموشی کیوں ہے؟ انہوں نے عمران ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض صاحب ! پاکستانی عوام پوری سچائی جاننا چاہتی ہے۔ اگر آپ تین دن کے اندر ایک غیر جانبدار ٹوئٹر اسپیس میں ہمارے ساتھ شامل ہونے سے قاصر یا ناچار ہیں، تو میں اپنا موقف بیان کر دوں گا۔ انہوں نے عمران ریاض کو مشورہ دیا کہ برائے مہربانی فلم "تھری ڈیز آف دی کونڈور" بھی دیکھیں۔ اس پر عمران ریاض نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایک دوست کے کہنے پر سلمان احمد سے رابطہ ہوا تھا غلطی ہوئی کہ انہیں ویزے کے حصول کے عمل میں شامل کر لیا۔ امریکی ویزہ کے حوالے سے انہوں نے کئی دیگر دوستوں اور آرگنائزیشنز کی طرح کوشش بھی کی مگر کامیابی کی امید ملتے ہی انہوں کریڈٹ لینے کے چکر میں سوشل میڈیا پر رولا ڈال کر میری تضحیک کی اور مجھے اور میری فیملی کو خطرے میں ڈال دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سلمان احمد کو فون کرکے احتجاج کیا اور انہیں صاف کہہ دیا کہ مجھے نہ تو اب انکی مدد چاہیئے اور نہ ہی ویزہ۔ اسکے بعد میں نے وہ درخواست بھی واپس لے لی جس پر سلمان احمد صاحب نے ایک تیسرے گواہ کی موجودگی میں اپنی غلطی تسلیم کرلے معافی بھی مانگ لی۔ اب سلمان احمد صاحب میری اور اپنی وٹس ایپ گفتگو اور ای میل کو لے کر بلیک میل کر رہے ہیں کہ میں انہیں فیس سیونگ دوں کیونکہ عمران خان کی بیوی پر تنقید انہیں مہنگی پڑی ہے۔ میں نے انہیں صاف کہا کہ وہ معاملہ آپکی پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے میرا اس سے کیا لینا دینا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ایک بات صاف کر دوں سلمان احمد صاحب آپ مجھے 4 تاریخ تک کی مہلت بالکل نہ دیں ابھی پیغامات پبلک کریں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ میں اللہ رب العزت کی مدد سے پوری ریاستی طاقت سے بلیک میل نہیں ہوا۔ آپ بھی کوشش کر کے دیکھ لیں گڈلک
گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 10 مئی کے مجرمان کی سزا معطل کردی اور رہائی کا حکم دیدیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے سزا معطلی آرڈر جاری کر دیا، انسدادِ دہشتگردی عدالت نے 22 نومبر 2024 کو ملزمان کو مجموعی طور پر 5 سال 10 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان پر فیض آباد میں پولیس پر حملے اور پولیس چوکی جلانے کا الزام ہے، ریکارڈ کے مطابق کوئی ایک بھی ملزم جائے وقوعہ سے گرفتار نہیں کیا گیا، وکیل کے مطابق دہشتگردی کی دفعات سے بری کر دیا گیا اور جھوٹی سزائیں دی گئیں۔ جیو نیوز کے صحافی وجیہ ثانی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں دعویٰ کیا کہسزا معطلی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ملزمان کو چونکہ جائے وقوع سے گرفتار نہیں کیا گیا اس لئے سزا معطل رہا کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کوئی بھی قاتل ، چور ڈاکو ، ریپسٹ یہ استدعا کرسکتا ہے کہ چونکہ مجھے جائے وقوع سے نہیں پکڑا گیا اس لئے میری سزا معطل کرکے فوری رہا کیا جائے۔ سب فورا رجوع کرلیں۔ اس پر صحافی احمد وڑائچ نے ردعمل دیا کہ پڑھنے کی عادت ڈالیں، کسی چیز کا علم نہ ہو تو چونچ بند رکھیں، کیوں کہ لاعلمی ذلیل کراتی ہے ! انہوں نے سزا معطلی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق، ملزمان کو دہشتگردی (7ATA) سمیت سے 7 سنگین دفاعت میں بری کیا گیا، ٹرائل کورٹ نے سرکاری افسران کو کام سے روکنے (353)، مسلح احتجاج (148) اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سزا سنائی۔ انکا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے پوچھا کیا ملزمان سے کوئی ہتھیار برآمد ہوا؟ جس پر تفتیشی افسر نے NO میں جواب دیا۔ سوال یہ ہے جب ہتھیار ہی نہیں ملا تو مسلح احتجاج کی دفعہ میں سزا کیسے سنائی گئی؟ احمد وڑائچ کے مطابق کارِ سرکار میں مداخلت (353) اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی (188) اتنے بڑے جرائم نہیں کہ ان میں 3 سال کی سزا سنا دی جائے، کسی عدالت سے ان دفعات میں maximum سزا نہیں ہوتی۔ اس کیس میں کیوں ہوئی؟ صحافی محمد عمیر نے کہا کہ جب ملزمان کی گرفتاری جائے وقوعہ سے ڈالی گئی ہو اور وہ وہاں سے گرفتار ہی نہ ہوئے ہوں یا وہاں اسوقت ہو ہی نہیں تو عدالت کیا کرے؟ انہوں نے مزید کہا کہ 10 مئی کلمہ چوک کی کینٹینر کو آگ لگ ساری تحریک انصاف اس مقدمہ میں نامزد ہے وہاں کوئی کارکن تھا کہ نہیں کیونکہ وہ جگہ دوپہر سے چاروں اطراف سے سیل تھی۔ 10 مئی ہی کی ٹویٹ بطور ثبوت بھی حاضر ہے۔
ساہیوال سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستانی ہم شکل سلیم بگا کے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر چرچے ہیں۔ سلیم بگا عام طور پر تو قلفیاں بیچتے ہیں مگر سردی کے موسم کی وجہ سے انکی قلفیاں کوئی نہیں خریدتا اس لئے انہوں نے کھیر لگانی شروع کردی ہے۔ کچھ روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں سلیم بگا نے نومنتخب امریکی صدر کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب آپ الیکشن جیت چکے ہیں، اب یہاں تشریف لائیں اور میری کھیر کھائیں، آپ کو بہت مزہ آئے گا۔ ٹرمپ کے مشابہ سلیم بگا کے اس وقت سے بہت چرچے ہورہے ہیں جب سے پاکستان میں ایک امریکی کاروباری شخص جینیٹری پیج نے پریس کانفرنس کی ہے، جینیٹری پیج پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول دیکھنے آئے تھے مگر اس سے پریس کانفرنس کروالی گئی جس میں انہوں نے رچرڈ گرینیل پر تنقید کی اور موجودہ حکومت کا دفاع کیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے چند ہی گھنٹوں میں جینٹری پیج کا کچا چٹھا کھول دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ ایک فراڈ شخص ہے جو 2016 میں ٹرمپ کے نام پر فنڈز اکٹھے کرتا رہا جسے ٹرمپ کے بیٹے نے فراڈ کہا، اسی طرح جینٹری پیج پر الزام ہے کہ اس نے لاکھوں ڈالر کی جعلی بنک کرپسی فائل کی۔ چینیٹری پیج کی پریس کانفرنس کے بعد ایک اور شخصیت کا بہت تذکرہ ہورہا ہے جو ہے تو پاکستانی مگر ٹرمپ کی مشابہ ہے، سوشل میڈیا صارفین نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں اسے ٹرمپ بناکر اس سے پریس کانفرنس نہ کروالی جائے۔ فرحان منہاج نے تبصرہ کیا کہ وزیر داخلہ کی کوششوں سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان میں عام افراد میں گھل مل گئے اور قلفیاں بھی بیچیں ۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ گرنیل تم لے لو اور مریم امریکہ کو دے دو ۔ ماریہ عطاء کا کہنا تھا کہ اب فارم 47والی سرکار کہیں اسے ٹرمپ کا کزن بنا کر پیش نہ کردے اور کہے کہ یہ پاکستان میں قلفیوں کے کاروبار میں انویسٹ کرنے آیا ہے ٹرمپ کے ہم شکل کی تصویر شئیر کرکے محمد عمیر نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اگلی پریس کانفرنس اس امریکی سے کروائیں عمر علی نے تبصرہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ اور اُن کی چُنتخب حکومت کی حرکتیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دن زیادہ دُور نہیں جب ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہم شکل سلیم بگا صاحب کو امریکی صدر بنا کر پاکستان کا سرکاری دورہ کروایا جائے گا
سوشل میڈیا پر ایک سکرین شاٹ وائرل ہورہا ہے جو ایک آن لائن چینل وی نیوز کے کامیڈی شو کا ہے جسے دو بھائی مصطفیٰ چوہدری اور خالد بٹ ہوسٹ کرتےہیں۔ اس شو میں مصطفٰی چوہدری علیمہ خان بنا ہوا تھا عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان سے متعلق انتہائی گھٹیا گفتگو کرتا ہے۔ اس میں شہزادہ چارلس سے رشتہ، عمران خان کو بھرے سگریٹ، نشہ، سلائی مشین جیسی باتیں کی گئیں اور عمران خان کی بہن کا مذاق اڑایا گیا جو مذاق نہیں تھا بلکہ کسی عورت کی تضحیک تھی۔ اس پر صحافیوں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا جن کا کہنا تھا کہ یہ مزاح نہیں عورت کی عز پر حملہ ہے، کیا یہ لوگ مریم نواز، آصفہ، بختاور سے متعلق ایسی گفتگو کرسکتے ہیں؟ صحافی بشیر چوہدری نے تبصرہ کیا کہ یہ تو مزاح بھی نہیں۔۔ ایک عورت کی عزت پر حملہ ہے۔ پیکا ایکٹ کا پہلا کیس بن سکتا ہے۔ رائے ثاقب کھرل نے تبصرہ کیا کہ لعنت اور بس لعنت! ایسا زوال: اور سب سے زیادہ گھن آتی ہے جب خواتین کے حقوق کے چیمپئن اس غلاظت کو تفریح کا نام دے کر خاموش ہیں۔ میں دیکھوں کیسے یہ لوگ مریم نواز / آصفہ بھٹو بارے ایسے گھٹیا بکواس کر تے ہیں۔ اس پر مسرت چیمہ نے کہا کہ اخلاقیات کی دھجیاں ۔اس سے زیادہ کوئی کیسے گر سکتاہے افسوس صد افسوس عائشہ بھٹہ نے تبصرہ کیا کہ بیروزگاری اور ناکامی انسان کوحرام اور دیوانگی کی آخری حدوں تک پہنچا دیتی ہے۔کراچی کے ان دو بھانڈ بھائیوں کےفلاپ کیرئیر کوعمران خان کےنام نے زندہ کر رکھا ہے۔اب گھر چلانے کے لئے یہ عمران خان کی ماں بہن بیوی کی بھی کردار کشی سے گریز نہیں کرتے۔ایسے بدصورت کردار معاشرے پر دھبہ ہیں جس پر ارم زعیم نے کہاکہ ان بھانڈ بھائیوں کو پیدا کرنے والی بھی ایک عورت ہے۔۔ یقیناً وہ بھی افسوس کرتی ہونگی۔۔۔ جو دوسروں کی ماؤں بہنوں کی عزت نہیں کرتے ان سے انکی اپنی مائیں بہنیں بھی محفوظ نہیں ہوتی۔۔ قابل رحم ہیں انکی اپنے گھر کی عورتیں۔ ثمینہ پاشا نے ردعمل دیا کہ اس قسم کا گھٹیا کانٹینٹ تو اس قابل نہیں کہ اس پر بات کی جاۓ، لیکن ⁦ زبیر علی خان جیسے پروفیشنل صحافی ایسے اداروں میں کام کرتے ہیں۔ انھیں سوال ضرور اٹھانا چاہئے کہ یہ کس بیہودہ قسم کی ایڈیٹوریل پالیسی ہے؟ ڈاکٹر شہباز گل نے تبصرہ کیا کہ سرکاری حاجن کا خواتین کے احترام کے بارے کوئی ٹوئیٹ یا بیان آیا ہے ؟ ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی۔ احمد جنجوعہ کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں انور مسعود کا بیٹا بھی باپ کی طرح وضع دار ہو۔ ضروری نہیں عمار مسعود بھی باپ کی طرح عزت دار ہو عبدالقادر نے تبصرہ کیا کہ ہر بار جب میں سوچتا ہوں کہ یہ لوگ نیچے گر نہیں سکتے ،کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ قابل رحم ہیں یہ طارق متین نے سوال اٹھایا کہ کیا عمارمسعود اور وسیم عباسی صاحبان کا یہ نیٹ ورک ایسی سستی کامیڈی مریم نواز اور دختران بلاول پر کرے گا ؟ سہراب برکت کا کہنا تھا کہ افسوس ناک اور شرمناک صورتحال ہے۔۔ اس معاشرے کی گند کا گٹر ابل رہا ہے۔۔ وقاص بٹ نے ردعمل دیا کہ زوال، پستی، گھٹیا پن کی انتہا۔۔۔ یہ لوگ ہمارے معاشرے میں گندگی اور غلاظت کا ڈھیر ہیں، جن کے کردار سے صرف معاشرے میں بدبو اور تعفن ہی پھیلتا ہے۔۔ /FONT]
ایکسپریس نیوز کے صحافی عامرالیاس رانا جو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں انکا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو خاموش کرانے کیلئے بیرسٹر گوہر کی ایک اور ملاقات ہوئی ہے لیکن یہ ملاقات کسی ہائی پروفائل شخصیت سے نہیں ہوئی۔ اپنے ایکس پیغام میں عامرالیاس رانا نے دعویٰ کیا ہے کہ بیرسٹر گوہر ایک چھوٹی سی ملاقات اور ہوئی ہے (لیکن بڑے سے نہیں ) بس عمران خان چند دن کیلئے خاموش ہو جائیں تو سب سیٹ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر سر توڑ کوششیں کہ خان باہر آ جائے “ لیکن شرط چپ ہونے کی ہے انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ بیرسٹر کی اڈیالہ انٹری سے پہلے سرگوشی کی ہے“ اب ایک اور ملاقات ہو گی "- واضح رہے کہ بیرسٹر گوہر اور وزیراعلٰٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی کچھ ہفتے قبل آرمی چیف سے پشاور میں ملاقات ہوئی تھی جس پر حکومتی صفوں میں کھلبلی مچ گئی تھی اور حکومتی وزراء صفائیاں دیتے نظر آئے کہ یہ ملاقات انکے علم میں ہے۔
"جب آپ میڈیا کا گلا گھونٹتے ہیں تو آپ پاکستان کا گلا گھونٹتے ہیں"۔پیکا ترامیم سے متعلق مسلم لیگ ن ماضی میں کیا کہا کرتی تھی؟ وزیراعظم شہبازشریف، وزیراعلیٰ مریم نواز سمیت لیگی رہنماؤں کے بیانات وائرل مسلم لیگ ن کی حکومت نے پیکا ترمیمی ایکٹ قومی اسمبلی سے پاس کروادیا ہے، اس بل پر صحافیوں اور تحریک انصاف کی جانب سے شدید احتجاج کیا جارہا ہے۔ حکومت کا یہ موقف ہے کہ اِس قانون سازی کا مقصد آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگانا نہیں بلکہ صرف جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے لیکن صحافی برادری کی اکثریت اِس سے متفق نہیں ہے۔ صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے (پی ایف یو جے) نے دیگر صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان دور میں بھی پیکا ایکٹ میں ترمیم لائی گئی تھی اور ایک آرڈیننس لایا گیا تھا جس پر ن لیگ نے شدید احتجاج کیا تھا، اسے کالاقانون کہتی رہی مگر وہی ن لیگ جب حکومت میں آئی تو اس سے بھی سخت بل پاس کیا۔ اس پر صحافی مہربخاری نے وزیراعظم شہبازشریف، وزیراعلیٰ مریم نواز، مریم اورنگزیب اور احسن اقبال کے بیانات شئیر کئے جسے عنوان دیا کہ "تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو"۔ وزیراعظم شہبازشریف نے آج سے 4 سال پہلے نومبر 2021 میںقومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ میڈیا کے بارے میں زباں بندی ہے، صحافی بات کرے تو زباں بندی ہے، ہم اظہار رائے پر پابندی کی سخت مذمت کرتے ہیں، اس کالے قانون(پیکا ترمیمی ایکٹ) کو واپس لیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 17 نومبر 2021 میں کہا تھا کہ جو بخشش سے اقتدار میں آتے ہیں وہ قانون سازی عوامی مفاد میں نہیں کرتے،یہاں پر قانون سازی صحافیوں کو سبق سکھانے کیلئے کی جاتی ہو،جب آپ میڈیا کا گلا گھونٹتے ہیں تو آپ پاکستان کا گلا گھونٹتے ہیں مریم نواز نے مزید کہا تھا کہ ایسے ہتھکنڈے وہ حکومت استعمال کرتی ہے جو کسی بھی شعبے میں اپنی کارکردگی نہ دکھاسکی ہو، انہوں نے مزید کہا تھا کہ میں تو میڈیا ریگولیشن پہ بالکل یقین نہیں رکھتی، جہاں آپ میڈیاوالوں کو میری ضرورت پڑے گی میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ مجھے اپنے ساتھ پائیں گے۔اگر ہم اقتدار میں آتے ہیں تو یہ وعدے اس وقت بھی یاد رکھوں گی۔ پنکا ترمیمی ایکٹ کے حق میں ووٹ دینے والے وفاقی وزیر احسن اقبال نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو کالا ترین قانون کہا تھا اور کہا تھا کہ آپ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔ پنجاب حکومت میں اہم وزیر مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ جو قوانین آپ بنارہے ہیں یہ آپ کا گلا گھونٹے گا، یہ آپکو جیلوں میں ڈلوائے گا۔ گزشتہ روز پی ایف یو جے کے اعلیٰ عہدیدار افضل بٹ نے پیکاایکٹ ترامیم کے خلاف تفصیلی پریس کانفرنس کی اور تمام تر ملبہ ن لیگ کی بجائے محسن نقوی پر گرایا حالانکہ یہ ترامیم ن لیگ کے اپنے ووٹوں سے پاس ہوئی تھی۔ تین سال پہلے جب مریم نواز ایک تقریب میں کہہ رہی تھیں کہ جب آپ میڈیا کا گلا گھونٹتے ہیں تو آپ پاکستان کا گلا گھونٹتے ہیں انکے پیچھے افضل بٹ بھی کھڑے تھے ۔
یکدم انقلابی بننے والے صحافی انیق ناجی ماضی میں بشریٰ بی بی، عمران خان اور پی ٹی آئی خواتین سے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے اور کس قسم کی کردارکشی کرتے تھے؟یوٹیوب ویڈیوز کے سکرین شاٹس وائرل۔۔ سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل انیق ناجی معروف صحافی مرحوم نذیر ناجی کے صاحبزادے ہیں جو آج کل حکومت کے بڑے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں جبکہ ماضی میں وہ مسلم لیگ ن کے کٹر حمایتی سمجھے جاتے تھے۔ انیق ناجی نے رجیم چینج آپریشن سے قبل نوازشریف سے بھی لندن میں ملاقات کی تھی جن کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں اور اسکے بعد انیق ناجی کا تحریک انصاف اور بالخصوص بشریٰ بی بی سے متعلق سخت موقف دیکھنے میں آیا تھا اور وہ انہیں پنکی پیرنی اور دوسرے سخت القابات سے بھی نوازتے تھے۔ انیق ناجی اس وقت تحریک انصاف کی کھل کر حمایت کررہے ہیں اور عمران خان کو بہادر لیڈر ثابت کرنیکی کوشش کررہے ہیں جبکہ کچھ ماہ قبل ایسی صورتحال نہیں تھی، وہ ن لیگ کے کٹر حمایتیوں میں شمار ہوتے تھے اور اپنے وی لاگز میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر صرف تنقید ہی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ قابل اعتراض زبان بھی استعمال کرتے تھے۔ عدیل حبیب نے انیق ناجی کے انکے ماضی قریب کے وی لاگز کے چند سکرین شاٹس شئیر کئے اور کہا کہ انیق ناجی صاحب آج کل یکدم انقلابی بن بیٹھے ہیں۔ ان کے YouTube چینل پر جا کر معلوم ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے جہاز سے نصرت بھٹو کی جعلی ننگی تصویریں پھینکنے والا ہی اُن کا لیڈر تھا ان سکرین شاٹس میں وہ کہتے تھے کہ "عمران خان اور زرتاج گل کی ننگی ویڈیوز، مراد سعید اور فرح گوگی کی ویڈیوز، عمران خان کی گندی ویڈیو کب بے اثر ہوگی؟ عمران ویڈیو کی تصاویر وائرل۔۔ لڑکی کون نکلی؟ "جبکہ ویڈیو میں مواد کچھ اور ہوتا تھا ۔ صرف یہی نہیں انیق ناجی عمران خان اور بشریٰ بی بی ازدواجی زندگی پر بھی بات کرتے نظر آتےہیں کہ طلاق کب ہوگی؟خاتون بنی گالہ سے چلی گئیں، خان کی بہنوں نے گھر سنبھال لیا ۔۔ اسکے علاوہ جادوگرنی، گلابو، چمکو،پنکومنکو جیسے الفاظ بھی استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ عمران خان سے اسے کوئی ہمدردی نہیں، یہ صرف کمائی کا بہانہ ہے،عمران افضل راجہ نے کہا کہ فی الحال اسے کمائی کے لیے ریچ چاہیے جو عمران خان کے گُن گا کر ہی ملے گی ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی نوٹس کررہےہیں کہ ایک دم انیق ناجی کو کیا ہوا؟ اکرم راعی کا کہنا تھا کہ انیق ناجی اگر سچے انقلابی بن گئے ہیں تو ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کریں، اپنے یوٹیوب چینل سے ایسی ویڈیوز ڈیلیٹ کریں جو صحافتی ضابطہ اخلاق، قانون، شریعت کے منافی ہوں۔ اِس سے اُن کی عزت میں کمی نہیں، اضافہ ہو گا اور دیگر یوٹیوبرز پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ بھی اپنے چینل کی صفائی کریں۔ اس حوالے سے انیق ناجی کا کہنا تھا کہ بہت ہی بیہودہ الزام ہے۔ کبھی نہیں کہا کہ نصرت بھٹو کی تصاویر گرانے والا نواز شریف تھا کیونکہ وہ نہیں تھا۔ نوازشریف کا دفاع کرتے ہوئے انیق ناجی نے کہا کہ اس نے تو الیکشن کیمپین میں اپنی پارٹی کو سختی سے منع کیا تھا کہ خاور مانیکا اور بشری بی بی کے حوالے سے ایک لفظ نہ کہا جائے۔ یہ عمرانی دور حکومت کے وی لاگز ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ زرتاج گل کے حوالے سے جو وی لاگ کیا تھا اسے چند گھنٹوں بعد ڈیلیٹ کر دیا تھا اور دوسرا اپ لوڈ کر دیا تھا، اس میں بھی یہ نہیں کہا تھا کہ زرتاج کی کوئی فلم ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ لوگ شئیر کر رہے ہیں کہ کوئی ایسی فلم ہے، باقی تھم نیل بھی اسی دور کے ہیں جن کی زبان پر مجھے کوئی فخر نہیں البتہ اس دور میں گالم گلوچ اتنی زیادہ تھی کہ رد عمل ضرور کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ کئی صحافی اس بات کے گواہ ہیں کہ نوے کی دہائی میں بے نظیر اور نصرت بھٹو کی جعلی برہنہ تصاویر نوازشریف کے ایماء پر ہیلی کاپٹر سے گرائی گئی تھیں جس کا مقصد بے نظیر کی الیکشن میں مقبولیت کو کاؤنٹر کرنا تھا، یہ تصاویر اس وقت ہیلی کاپٹر سے گرائی جارہی تھیں۔ کالم نگار ااور سینئر صحافی اکثر اپنے کالمز اور شوز میں تذکرہ کرتے ہیں کہ کیسے آئی جے آئی نے اس وقت یہ سب کیا، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سیل کے انچارج اس حسین حقانی تھے، جو بعد ازان پیپلزپارٹی کو پیارے ہوگئے تھے۔ صرف بات بے نظیر کی کردار کشی تک نہیں رکی بلکہ عورت کی حکمرانی سے متعلق فتوے بھی دلوائے گئے تھے۔اس سب کے باوجود بے نظیر الیکشن جیت کر وزیراعظم بن گئی تھیں۔ ملاحظہ کیجئے ان کے یوٹیوب چینل کی ویڈیوز کے سکرین شاٹس
سوشل میڈیا پر ایک اشتہار وائرل ہورہا ہے جو مریم نواز کی پنجاب حکومت نے کچھ روز قبل تمام اخبارات کو دیا، یہ اشتہار اقلیتوں کو منیارٹی کارڈ دینے سے متعلق تھا جس میں مریم نواز کی تصویر نمایاں تھی اور یہ اشتہار تمام اخبارات میں شائع ہوا۔ جس پر سوشل میڈیا صارفین نے تنقید کی اور کہا کہ اس طرح رشوت دیکر میڈیا کا منہ بند کیا جاتا ہے اور اپنے اوپر تنقید سے روکا جاتا ہے۔ امتیاز گل نے تبصرہ کیا کہ شاہی خاندان کے شاہانہ انداز اور دو قریبی میڈیا گروپوں پر عنائت- روزانہ اپنی تصویروں کے ساتھ کروڑوں کے اشتہار- اور سارا قرضے کا پیسہ عدیل راجہ نے لکھا کہ اتنا تو اقلیتوں کو پیسہ نہیں ملا، جتنا میڈیا کو اشتہار مل گیا! سہراب برکت نے طنز کیا کہ یا اللہ ٹک ٹاک کے عذاب سے بچا۔۔ اس ملک پر ٹک ٹاک عذاب نازل ہوا پڑا ہے۔ ااسد چوہدری نے تبصرہ کیا کہ س اشتہار سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟ چھوڑیں، اقلیتوں کو بھی اس اشتہار کا کیا فائدہ ہوگا؟ یہ کیسی ذہنیت ہے کہ پنجاب کی عوام کا کروڑوں روپیہ اس طرح کی اشتہاری مہمات میں اجاڑا جارہا ہے۔ ایسے تو کوئی حرام کا پیسہ نہیں اڑاتا جیسے ٹیکس کا پیسہ اڑایا جارہا ہے۔ کمیشن کون کھا رہا ہے؟ احمد بوباک کا کہنا تھا کہ یہ ہے وہ رشوت جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو دی جاتی ہے مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے تبصرہ کیا کہ "اشتہار کا خرچ کارڈ سے زیادہ ہے۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ 12 کروڑ کے صوبے میں 50,000 اقلیتی افراد کو 10,500 کے حساب سے رقم دیں گی جس کی کل مالیت 55 کروڑ بنتی ہے۔ اس پر ٹی وی پر اشتہار چل رہے ہیں، وہ شاید 55 کروڑ کی مالیت سے زیادہ ہوں۔ کس بے دردی سے ٹیکس پیئر کا پیسہ اشتہار میں اڑایا جا رہا ہے۔" عمران ریاض نے لکھا کہ میڈیا پر پیسے کی برسات صابر شاکر نے ردعمل دیا کہ مشہوریاں ۔۔۔ عوام کے پیسوں کی بارش میڈیا پر
ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کیلئے امریکہ گئے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے کئی شخصیات سے ملااقات کی جن میں امریکی ارکان کانگریس، سینیٹرز اور سابق برطانوی وزیراعظم بھی شامل ہیں مگر محسن نقوی کی کسی ہائی پروفائل امریکی شخصیت سے ملاقات نہ ہوسکی۔ امریکہ میں موجود پاکستانی صحافیوں کے مطابق محسن نقوی کو امریکہ میں پذیرائی نہ مل سکی جبکہ ڈان کے صحافی کے مطابق ٹرمپ کی حلف برداری تقریب میں محسن نقوی کو ہال میں جگہ نہ مل سکی اور انہوں نے وہان موجود ایک کمرے میں ٹی وی پر حلف برداری تقریب دیکھی گزشتہ روز محسن نقوی نے امریکی کانگریس مین جوولسن سے ملاقات کی جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا محسن نقوی سے ملاقات کے فوری بعد جو ولسن نے ٹویٹ کیا Free Imran Khan لکھ کر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرڈالا شہباز گل نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ڈیجیٹل زناٹے دار تھپڑ 25 مئی اور 26 نومبر اسلام آباد قتلِ عام کے مجرم محسن نقوی نے بڑے فخر سے جو وِلسن سے ملاقات کی وڈیو پاکستان میں میڈیا کس چلانے کے بھیجیں جو وِلسن نے ملاقات کے بعد کیا ٹویٹ کی جریدے فارن پالیسی سے وابستہ صحافی مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان کے وزیر داخلہ نے امریکی رکن کانگریس سے ملاقات کی اور اس کے فوراً بعد رکن کانگریس نے ’فری عمران خان‘ کا ٹویٹ کیا۔ یہ وزیر داخلہ اور ان کے اعلیٰ افسران کے لیے ایک بڑی ناکامی ہے۔‘ عاشر باجوہ نے اس پر تبصرہ کیا کہ صرف ٣ لفظوں کی جو ولسن کی اس پوسٹ پر 7 گھنٹے میں 1 ملین ویوز، 3600 کمنٹس ، 13 ہزار ری پوسٹس ، 26 ہزار لایکس اور 6 ہزار سے زیادہ نئےفولّورز رضوان غلزئی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ لوگ پیسے اور طاقت کے ذریعے حاصل کیے گئے نتائج کو اپنی صلاحیت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں ‘سوپرمین’ سمجھے جانے والے محسن نقوی نے امریکا جاکر ایسا بلنڈر مارا ہے کہ خود اپنے لوگ حیران ہیں کوئی اتنا نالائق کیسے ہوسکتا ہے۔ شوکت بسرا نے لکھا کہ یہ 2 مسخرے وزیراعظم عمران کو جیل میں رکھنے کے لئے امریکہ میں سنیر کانگرس مین جوئی ولسن سے ملے۔ جیسے ہی ان نوسربازوں نے دفتر سے باہر قدم رکھا۔ جوئی ولسن نے ٹویٹ کیا free IMRAN KHAN تھوڑی سی بھی شرم حیا ہو تو ڈوب کر مر جاؤ محسن نقوی حامد میر کا کہنا تھا کہ ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں ایک رُخ یہ ہے کہ امریکی سینیٹر جو ولسن نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی جس کی تصاویر پاکستانی میڈیا پر نشر ہوئیں تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ملاقات کے بعد سینیٹر جو ولسن نے ایکس پر مطالبہ کیا کہ عمران خان کو رہا کیا جائے عامر متین کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر داخلہ کی رکن کانگریس جو ولسن سے ملاقات نتیجہ: عمران خان کی رہائی کی ٹویٹ
ملک ریاض نے نیب کی جانب سے کل پریس ریلیز میں الزامات کو مسترد کردیا اور کہا ہے کہ " جتنا مرضی ظلم کرلو،کسی کیخلاف گواہی نہیں دونگا،ملک ریاض نہ تو کسی کے خلاف استعمال ہو گا اور نہ ہی کسی سے بلیک میل نہیں ہو گا" اپنے ایکس پیغام میں ملک ریاض نے کہا کہ میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا آج بھی یہ فیصلہ ہے چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا! انہوں نےمزید کہا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، قدم قدم پر رکاوٹوں کے باوجود 40 سال خون پسینہ ایک کرکے اللہ کے فضل سے بحریہ ٹاؤن بنایا اور عالمی سطح کی پہلی ہاوسنگ کا پاکستان میں آغاز ہوا، مجھے اللہ نے استقامت دی اور اپنے ممبرز سے کیے وعدے وفا کیے. انگنت رکاوٹوں سرکاری بیلک میلنگ نے بعض اوقات وعدوں کی تکمیل میں تعطل پیدا کیا، لیکن میرے رب نے ہمیشہ مجھے سرخرو کیا.سالوں کی بلیک میلنگ،جعلی مقدمے اور افسران کی لالچ کو عبور کیا، مگر ایک گواہی کی ضد کیوجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا. ملک ریاض نے مزید کہا کہ مدتوں سے لوگوں کی خواہش تھی کہ پاکستان برانڈ کو ورلڈ کلاس برانڈ بنایا جائے اللہ تعالی نے مجھے اسکا سبب بھی بنایا اور دبئی میں BT Properties کا آغاز ہو گیا ہے ۔دبئی کی ترقی کا راز ہز ہائی نس شیخ محمد بن راشد المکتوم کا وژن اور نیب جیسے ادارے کا نا ہونا ہے. بحریہ ٹاؤن کے سربراہ کے مطابق نیب کا آج کا بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ میں ضبط کرہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جاے گا۔ یہ مت بھولنا کہ بچھلے ۲۵/۳۰ سالوں کے سب راز ثبوتوں کیساتھ محفوظ ہیں. انہوں نے دعویٰ کیا کہ اللہ کے فضل سے بحریہ ٹاؤن پاکستان کامیاب ترین پراجیکٹ بنا اور اب اللہ کے کرم سے بی ٹی پراپرٹیز دبئی بھی خوب کامیاب ہو گا، ماشاللہ ماشاللہ اب تک درجنوں ملکوں سے سرمایہ کار دبئی میں آنے والے BT Properties کے منصوبوں مثالی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں پچیس کروڑ پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے کہ کہ ان کی کمپنی دنیا کے سب سے شفاف سب سے ایماندار نظام نے عالمی سطح کے مقابلے کے لیے ایک عالیشان منصوبے کے لئیے چنا گیاہے۰ اس عزم کے ساتھ کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے لئیے تھا اور ہمیشہ رہے گا اپنے پاکستانی بھائیوں بہنوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے پاکستان سمیت دنیا کہ ہر ملک کے قانون کی پاسداری کی ہے اور ہمشہ کرتے رہیں گے آخر میں انہوں نے واضح کیا کہ ملک ریاض نہ تو کسی کے خلاف استعمال ہو گا اور نہ ہی کسی سے بلیک میل نہیں ہو گا. انشااللہ دبئی پراجیکٹ کامیاب بھی ہو گا اور دبئی سمیت پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بنے گا۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ڈیرہ غازی خان کی ایک یونیورسٹی کا دورہ کیاجہاں انکے لئے سکالرشپ کی ایک تقریب رکھی گئی تھی جس سے مریم نواز نے خطاب کرنا تھا۔ اس تقریب سے مریم نواز نے نہ صرف خطاب کیا بلکہ طالبات کو بھی گلے سے لگایا، مریم نواز نے اس موقع پر اپنے آپکو نوجوانوں کی ماں کہا۔ مریم نواز کی اس تقریب کا ایک کلپ وائرل ہورہا ہے جس میں ایک طالبہ نظم پڑھ رہی ہے کہ "او سب دی ماں آگئی اے۔۔ کراپنا فرض ادا گئی اے" اس نظم پر مریم نواز جذباتی ہوگئیں اور انکی آنکھیں اشکبار ہوگئیں جس پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے ہوئے، کسی نے اسے سستا ڈرامہ کہا تو کسی نے اسے اپنی پی آر بہتر کرنے کا ناکام طریقہ قرار دیا سبی کاظمی نے کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف دنیا کا سب سے بڑا سٹیج ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری اور ایک طرف یہ سستے سٹیج ڈرامے۔۔۔۔۔ عدیل حبیب نے تبصرہ کیا کہ مریم نواز کی desperate حرکتیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یا تو ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، یا پھر موجودہ صورتحال ان کے لیے اتنی پیچیدہ ہو چکی ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔ عدیل کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ بیوقوفوں کی طرح بلا سوچے سمجھے ہاتھ پیر مار رہے. سب سے پہلے تو اس بندے کو فائر کریں جو اس طرح کی بھونڈی ترتیب ویڈیوز بنانے کی ترتیبیں دے رہا ہے امیر عباس نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ مریم بی بی اپنی ساری محنت اور بھاگ دوڑ خود اپنے ہی ہاتھوں سے، اپنے برتاؤ، Bollywood طرز کے شوٹ، اداکاری، پھیکی اور انتہائی سطحی تقریروں، choreography اور تیسری دنیا کی روایتی طرز سیاست سے ضائع کر چکی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فارم 47 کا دھبہ اور داغ ویسے ہی انکی اپنی سیٹ سے لے کر حکومت تک پر برقرار ہے، عوام میں کوئی جوش یا ولولہ بھی انکے لئے نظر نہیں آتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مریم بی بی خود پسندی کے مرض کا شکار ہو چکی ہیں اور جس حکمران کو یہ مرض لگ جائے وہ مختلف ہتھکنڈوں سے حکمران تو بن سکتا ہے مگر کبھی لیڈر نہیں بن سکتا اسکے جواب میں ثمینہ پاشا نے تبصرہ کیا کہ مریم نواز نے خود کو ایک مضحکہ خیز کردار بنا دیا ہے۔ ن لیگ کے اپنے لوگ ان پر ہنستے ہیں اور نجی محفلوں میں شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ انسان میں بھلے عقل و دانش نہ ہو لیکن پھوہڑ پن کی اس قدر تشہیر ۔۔ کیا ن لیگ میں ایک بھی ایسا سلجھا ہوا شخص نہیں جو ان کو عقل دے سکے! احمد فرہاد کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے اردگرد جمع جملہ کنیزوں اور خادموں نے گزشتہ ایک برس میں ٹک ٹاک اور اسکرپٹڈ و پلانٹڈ تقاریب میں ان سے عوامی لیڈر ہونے کی اتنی ایکٹنگ کرائی ہے کہ اب شاید وہ یہ بھی بھول گئی ہوں کہ وہ مرکز اور صوبے میں صرف دس پندرہ سیٹوں پر حکومت بنا کر بیٹھی ہیں۔جس دن سر سے جوتے کا سایہ اٹھا اور یہ زین سے زمین پر آئیں تو شاید یہ سب چکا چوند اور مصنوعی پیار یاد کر کر کے وہ پاگل ہو جائیں۔ عائشہ بھٹہ نے کہا کہ یا اللہ! ہم اتنے گنہگار تو نہیں تھے کہ ہمارے اوپر سزا کے طور پر یہ عورت مسلط کی جاتی صںم جاوید نے ردعمل دیا کہ پہلے ڈرامے میں ادکارہ پکڑی گئی تھی اسی لیے اس بار منہ پر نقاب لگایا ہے شفقت چوہدری کا کہنا تھا کہ جو سوشل میڈیا گنڈاپور ' فواد ' حبا ' گوہر ' علی محمد اور شدید کاروائیوں کے باوجود اصطبلشمنٹ کو بھی نہیں چھوڑتااس سوشل میڈیا کے ہوتے یہ لوگ ایسے ڈراموں سے آسکر کی امید کیسے لگا بیٹھتے ہیں
صحافی احمد نورانی نے آج القادر کیس فیصلے کا تفصیلی پوسٹمارٹم کیا اور اہم انکشافات کئے جو بہت سے لوگوں کیلئے نئے تھے مگر صحافی سہیل رشید اور احمد وڑائچ ان انکشافات سے نومبر 2023 میں ہی پردہ اٹھاچکے تھے جب سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کا کیس زیرسماعت تھا۔ فیصلے کے مطابق این سی اے اور ملک ریاض فیملی کی سیٹلمنٹ میں طے ہی یہ پایا تھا کہ اس رقم سے سپریم کورٹ سے عائد واجبات ادا ہوں گے صحافی سہیل رشید نے نومبر 2023 میں ہی یہ انکشافات کردئیے تھے، انکے مطابق برطانوی جج سنوڈن کے فیصلے کیمطابق این سی اے اور ملک ریاض فیملی کی سیٹلمنٹ میں طے ہی یہ پایا تھا کہ اس رقم سے سپریم کورٹ سے عائد واجبات ادا ہوں گے۔ سہیل رشید کے مطابق حکومت پاکستان اس سیٹلمنٹ میں فریق ہی نہیں تھی۔ فیصلہ سامنے آنے کے بعد سوال بے معانی نہیں ہوجاتا ہے کہ وہ رقم سپریم کورٹ کیوں گئی؟ انہوں نے مزید کہا کہ رقم ریاست پاکستان کو جانے کی پریس ریلیز این سی اے کی کا مطلب بھی یہ نکلا کہ بحریہ ٹاون ریاست پاکستان کیلئے سپریم کورٹ سے عائد ادائیگی اس رقم سے کرے گا ، بظاہررقم پر حق ملکیت بحریہ ٹاون اور ملک فیملی کا معاہدے میں تسلیم کیا جا رہا ہے اسی طرح احمد وڑائچ نے بھی 2023 میں بتایا تھا کہ برطانیہ سے آنے والے 190 ملین پاؤنڈ حکومتِ پاکستان کی ملکیت نہیں تھے، برطانوی عدالت نے اکاؤنٹ ڈی فریز کرنے کا حکم دیا، اکاؤنٹ ہولڈر نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے کہنے پر نہیں بلکہ خود سے رقم پاکستان بھجوائی، عرب امارات کے المشرق بینک نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا انہوں نے مزید کہا کہا کہ نومبر 2023 میں المشرق بینک نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پیسے ملک ریاض فیملی نے اپنے اکاؤنٹ سے پاکستان بھجوائے، رقم حکومتِ پاکستان کی ملکیت نہیں تھی، فائز عیسیٰ نے فیصلے میں پیٹر پال تو کیا لیکن المشرق بینک کا ریکارڈ منگوانے کے باوجود تذکرہ نہیں کیا۔ احمد وڑائچ نے مزید کہا کہ اور وہ معاہدہ اتنا خفیہ تھا کہ برطانوی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جائے گی۔ تاریخ دان برطانوی عدالت کے فیصلے میں لکھے اس معاہدے کو "تاریخ کا سب سے زیادہ خفیہ" معاہدہ کہتے ہیں۔ صحافی قمر میکن کے مطابق احمد نورانی صاحب کا وی لاگ مکمل سنا انفارمیشن سے بھرپور تھا ۔ اسی نکتے پر سہیل رشید صاحب بھی جو مایا ناز کورٹ رپورٹر ہیں 24 نومبر 2023 کو یہی بات برطانوی جج کے فیصلے کے مطعلق ٹویٹ کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے جبکہ القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلے اور پورے ٹرائل میں ایک بار بھی کوئی جرم ثابت نہیں ہوا بلکہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ کوئی جرم ہوا ہی نہیں نہ کہ کوئی کرپشن ہوئی نہ کسی دائرہ اختیار کا ناجائز استعمال۔ 15 دن میں یہ فیصلہ ہائیکورٹ سے ختم ہو جائے گا۔ بشارت راجہ نے ردعمل دیا کہ احمد نورانی صاحب نے 190 ملین پونڈ کیس کا کچھا چٹھا کھولا مگر میرے دوست سہیل رشید نومبر 2023 میں بتا چُکے تھے ریاض الحق نے تبصرہ کیا کہ لوگ ب پیٹ رہے ہیں۔ سہیل رشید نے تب ہی مدعا سادہ الفاظ میں بیان کردیا تھا۔ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی دستاویزات میں سب کچھ موجود تھا۔ فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ تین دستاویزات جج کے بغض عناد اور بے ایمانی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ جن میں برطانوی عدالت کے حکم نامہ سے کچھ لائنیں القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلہ میں کاپی پیسٹ کی ہیں اور اسی فیصلہ کے اُس پیرا گراف کی جو سطریں عمران خان صاحب کو سپورٹ کر سکتی تھیں انکو حذف کر دیا گیا۔
گزشتہ دنوں القادر کیس کا فیصلہ آنے کے بعد حکومت اس پر وضاحتیں دینے اور درست فیصلہ قراردینے کیلئے متحرک ہے ، عطاء تارڑ اس فیصلے کو درست دینے کیلئے مختلف جواز دے رہے ہیں۔ عطاء تارڑ نے گزشتہ روز اپنے ساتھ مخصوص علمائے کرام کو بٹھاکر پریس کانفرنس کی جو تقریبا نئے چہرے تھے اور انکے ناموں سے بہت کم لوگ واقف تھے، سوشل میڈیا صارفین نے ان علمائے کرام کو دربادی مولوی قرار دیا۔ نجی چینل کے صحافی عمر دراز گوندل نے ن علمائے کرام کو ایکسپوز کیا اور ان سے سخت سوالات پوچھے عمردراز گوندل نے علمائے کرام سے سوال کیا کہ عدت جیسے کیس بنائے گئے یا پھر انسانی حقوق کی پامالیوں پر تو علماء خاموش رہتے ہیں لیکن حکومتی بیانیہ بنانے کے لیے وزیروں کے ساتھ بیٹھ پریس کانفرنس بھی کرلیتے ہیں ایسا کیوں ؟ عمر دراز گوندل نے مزید سوال کیا کہ القادر کیس میں عمران خان کو تو 14 سال کی سزا سنادی گئی ،ملک ریاض کو کیوں نہیں گرفتار کیا گیا؟ اس معاہدہ کی منظوری کابینہ نے دی انہیں کیوں نہ سزا سنائی گئی؟ اس پر علمائے کرام جواب نہ دے پائے مگر عطاء تارڑ تاویلیں پیش کرتے رہے۔ عمردراز گوندل کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیراطلاعات تارڑ کی پریس کانفرنس نے دوران خاکسار نے یہی سوالات پوچھے ملک ریاض کدھر ہیں اس سارے کیس میں ؟ کابینہ کا فیصلہ تھا تو باقی سب نامزد کیوں نہیں ؟ علماء آج آپکے ساتھ بیٹھے ہیں لیکن عدت جیسے کیسز پر کیوں خاموش رہے ؟ مفتی انتخاب نامی غیرمعروف عالم دین سے عمردراز گوندل نے سوال کیا کہ عدت جیسے کیس بنائے گئے اس پر آپ بولے نہیں اور آج ایک وزیر کیساتھ پریس کانفرنس کرنے آگئے۔ اس پر مولانا صاحب کے جوابات بڑے دلچسپ تھے،ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہر موقع پر آواز اٹھائی ہے، ہم نے تفصیلی موقف دیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس موقع پر گھناؤنا مذہب کارڈ کھیلا گیا تو ہم اسلئے آئے، انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی نے سیاست کو گالی بنادیا ہے۔نوجون نسل کو بداخلاقی اور بے راہروی کی طرف لے جایا گیا۔ مہوش قمس خان نے ردعمل دیا کہ جب کچھ نہیں بچتا تو آخر میں مولویوں کو ساتھ بیٹھا دیا جاتا ہے۔ اور یہ مولوی ویسے تو اسلام کے لیے کچھ نہیں کرتے، کسی ظلم کے خلاف کبھی کچھ نہیں بولتے، مگر ایسے کام کرنے کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔ نادر بلوچ نے تبصرہ کیا کہ درباری ملاوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔۔ نئے چہرے نظر آرہے ہیں۔۔ ارسلان کا کہنا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے چاہے جتنی مرضی،حکومتی ملاؤں کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کر لیں۔عوام جان چکی ہے کہ عمران خان کو سیرت النبی کی درسگاہ بنانے کے جرم مں کل سزا سنائی گئی۔
احتساب عدالت کے جج نے القادر کیس کا فیصلہ سنادیا ہے جس کے مطابق عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے مطابق جج کا یہ فیصلہ انتہائی ناقص ہے کیونکہ جج ناصر جاوید رانا نے اپنے فیصلے میں خود کہا ہے کہ "پراسیکیوشن کے ثبوتوں میں تضادات اور بے ضابطگیاں موجود تھیں لیکن ایسے کیسز میں یہ قدرتی ہے"۔ اس کیس میں جج نے پراسیکیوشن نے مزید ریکارڈ مانگا تھا جو نہیں دیا گیا جس میں این سی اے معاہدہ، بنک اکاؤنٹس کی تفصیلات ، رقم فریز کرنیکا معاہدہ، حسن نواز کی پراپرٹی کی تفصیلات بھی شامل تھیں احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے برطانیہ سے مختلف قسم کا ریکارڈ مانگا جو اب تک مل نہیں سکا۔ اس میں " این سی اے اور ملک ریاض فیملی کا سیٹلمنٹ معاہدہ"،" رقم فریز کرنے کا تصدیق شدہ حکمنامہ"،" حسن نواز کی ون ہائیڈ پراپرٹی کی تفصیل"،" جن اکاؤنٹس سے رقم منتقل ہوئی ان کی تفصیل" انہوں نے فیصلے کے متن کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے ملک ریاض فیملی اور این سی اے کی سیٹلمنٹ کا اصل معاہدہ تھا ہی نہیں، ابھی تک برطانیہ سے آنے کا انتظار ہے، فریزںگ آرڈرز، حسن نواز کی جائیداد کی تفصیلات نہیں ملیں۔ کابینہ نے جس چیز کی منظوری دی وہ نہیں ملی۔ سزا صرف "تیرا میرا اگر وہ چونکہ چنانچہ" پر سنائی گئی صحافی ثاقب بشیر نے فیصلے کا پوسٹمارٹم کرتے ہوئے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس فیصلے کے 148 صفحات پڑھے فیصلے میں کیس سے جڑے مختلف نکات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے مثلا ایک پہلو یہ ہے کہ پیسہ ریاست پاکستان کا تھا انہوں نے مزید کہا کہ اس پر فیصلے میں لکھا گیا پی ڈی ایم حکومت کی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے لکھا "بادی النظر" میں یہ پیسہ ریاست پاکستان کے اکاؤنٹ میں آنا تھا اس کا مطلب ہے واضع الفاظ میں ان کو لکھا ہوا نظر نہیں آیا کہ پیسہ ریاست پاکستان کے اکاؤنٹ میں آنا تھا ۔ ثاقب بشیر کے مطابق پھر تین دسمبر 2019 کابینہ منظوری سے چند دن پہلے 102 ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آچکے تھے اگر اکاؤنٹ میں آچکے تھے تو منظوری کس کی لی گئی ؟ اس سوال کے جواب میں عدالت مطمئن ہوئی ہے کہ 6 نومبر 2019 کو deed of confidentiality ہوئی جس کے بعد پیسہ پاکستان ملک ریاض settlement سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آیا ان کا کہنا تھا کہ اب یہاں 6 نومبر کی ڈیڈ پر پی ڈی ایم حکومت کی کمیٹی نے خود اس کے اصلی ہونے پر شکوک وشبہات اٹھائے اور لکھا کہ فرانزک کئے بغیر اس کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔ اگر ڈیڈ پر سوال ثابت ہو گیا تو اس کا فائدہ ہائیکورٹ میں ملزم کو ہو سکتا پے پھر ڈیڈ متعلق وزارت خارجہ کی ایک ای میل کا حوالہ دیا گیا یہ بھی لکھا گیا ایسٹ ریکوری یونٹ نے اپنی پریس ریلیز میں لکھا پیسہ ریاست پاکستان کا ہے ۔ انکے مطابق عدالت لکھتی ہے شہزاد اکبر کے کابینہ کو لکھے نوٹ سے ظاہر ہو رہا ہے لیکن ساتھ ہی عدالت لکھتی ایسٹ ریکوری یونٹ اور این سی اے خط و کتابت کا سارا ریکارڈ شہزاد اکبر اور بیرسٹر ضیاء المصطفیٰ نسیم اپنے ساتھ ہی لے گئے انہوں نے مزید کہا کہ آخری بات نے فیصلے کی تشویش بڑھا دی جس کا فائدہ ملزم کو ہو سکتا ہے کہ مصدقہ نقول ابھی تک نیشنل کرائم ایجنسی نے فراہم ہی نہیں کیں جن میں ملک ریاض این سی اے settlement ، جو اکاؤنٹ فریز ہوئے پھر جن اکاؤنٹس سے پیسہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آیا ہے اس کی مصدقہ نقول ملی ہی نہیں اکبر کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی حکومت نے 2022 میں عمران خان کی کابینہ والا فیصلہ کلعدم کرکے خفیہ منظوری کو پبلک کردیا تھا جس میں سے کچھ نہیں نکلا تھا جس پر برطانوی لا-فرم نے سٹیٹمنٹ بھی جاری کی تھی کیا برطانوی لا-فرم بھی جھوٹ بول رہی؟ تو این سی اے نے پھر کوئی کاروائی کیوں نہیں کی؟ وقار ملک نے کہا کہ بغیر کوئی دستاویز بغیر کوئی ثبوت دیکھے ہی سزا سنادی جج خود لکھتا ہے کہ برطانیہ سے جو کاغذات مانگے گئے تھے اب تک انکا انتظار کیا جارہا ہے مطلب بغیر کچھ دیکھے بغیر تصدیق ہی جرنیلی سزا سنادی گئی۔
احتساب عدالت کے جج نے القادر کیس کا فیصلہ سنادیا ہے جس کے مطابق عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ صحافیوں کے مطابق جج کا یہ فیصلہ انتہائی ناقص ہے کیونکہ جج ناصر جاوید رانا نے اپنے فیصلے میں خود کہا ہے کہ "پراسیکیوشن کے ثبوتوں میں تضادات موجود تھے، لیکن ایسے کیسز میں یہ قدرتی ہے"۔ جج نے فیصلے میں مزید لکھا کہ استغاثہ کے شواہد میں کچھ معمولی بے ضابطگیاں اور تضادات ہو سکتے ہیں جو کہ وائٹ کالر کرائم جیسے معاملات میں فطری طور پر پائے جاتے ہیں ابوذر سلمان نیازی نے ردعمل دیا کہ یہ بنیاد اکیلی ہی القادر کیس میں سزا کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ جج خود استغاثہ کے شواہد میں تضاد اور اختلاف کو تسلیم کر رہے ہیں۔ صحافی احمد وڑائچ نے کہا کہ سنا کرتے تھے کیس کو beyond reasonable doubt ثابت کرنا ہوتا ہے، جج صاحب غالباً لکھ رہے تضاد تو تھے لیکن چلو خیر ای اے احمد وڑائچ نے مزید کہا کہ مزے کی بات۔۔نیب قانون میں زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال ہے، جج صاحب نے "ثبوتوں میں تضاد" کی نشان دہی کے باوجود پورے 14 سال ہی سزا سنائی، یہ بھی نہیں کہ "تضاد" پر کوئی سال ڈیڑھ کم کر دوں۔ انصاف صحافی محمد عمیر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر میں تاخیر پر ملزم رہا ہوجاتے ملزم کو ہمیشہ شک کا فایدہ دیا جاتا ہے ایسے شواہد پر فیصلہ دیا جاتا جن پر کوئی شک نہ ہو۔ عمران خان کے معاملے میں معاملہ الٹ ہے۔ پراسکیوشن کے شواہد میں تضاد تھا مگر جج نے کہا خیر ہے سزا سناو حماد اظہر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ2400 سال پہلے افلاطون کے الفاظ جو ریاستی ڈھانچوں کے بارے میں لکھے گئے تھے، جو خود کو عوامی دائرے سے دور کر لیتے ہیں، آج بھی سچ ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہر ادارے کو کمزور کر دیا ہے اور پاکستان میں عوامی جذبات کے مخالف سمت میں کھڑی ہے۔
عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ٹرائل کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس کو بھی حصہ بنالیا احتساب عدالت کے جج نے القادر کیس کا فیصلہ سنادیا ہے جس کے مطابق عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر 190 ملین پاؤنڈ کیس کا جو فیصلہ ٹرائل کورٹ نے آج 17 جنوری 2025 کو سنایا ہے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 23 نومبر 2023 کو سنا چکے ہیں ، اسے جج ناصر جاوید رانا نے اپنے فیصلے کا حصہ بنالیا ہے۔ صحافی ثاقب بشیر کے مطابق 190 ملین پاؤنڈ کیس کا جو فیصلہ ٹرائل کورٹ نے آج 17 جنوری 2025 کو سنایا ہے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 23 نومبر 2023 کو سنا چکے ہیں آج احتساب عدالت کے جج نے اس کو باقاعدہ فیصلے کا حصہ بھی بنا دیا ہے حالانکہ اعلی عدلیہ کبھی بھی ایسا نہیں کرتی تاکہ ٹرائل کورٹ اثر نا لے لیکن ایسا ہی ہوا جب قاضی فائز عیسیٰ نے اس قسم کے ریمارکس دئیے تھے ،اس وقت کئی صحافیوں نے کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے، انکے مطابق یہ فیصلے پر اثرانداز ہونیکی کوشش ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مارگلہ ہلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران 190 ملین پاونڈ کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ 190 ملین پاونڈ والا بھی بلڈر ہی تھا مگر بلڈر کے خلاف کوئی خبر نہیں چلے گی، جب ہم نے حکم دیا تو عدالت کو گالیاں دی گئیں، ہم نے تو صرف عوام کا پیسہ واپس بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مافیا سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس کوئی میڈیا ٹیم نہیں، بیرون ملک حکومت نے پیسہ واپس کیا، ہم نے اس کو لوٹا دیا، مستقبل میں وہ ملک کیا سوچے گا؟ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ان کو پیسہ دو تو یہ واپس اسی شخص کو دے دیتے ہیں، سندھ میں بھی اس کیس کو دبا دیا گیا، پیسے کا معاملہ ہے لیکن کوئی احتساب نہیں۔
فیصلے سے پہلے فیصلے کا اعلان۔۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل احتساب عدالت کے جج نے القادر کیس کا فیصلہ سنادیا ہے جس کے مطابق عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فیصلے سے پہلے ہی کئی صحافیوں کو علم تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا؟ عمران خان ، بشریٰ بی بی کو کتنی سزا سنائی جائے گی؟ فیصلہ کتنے صفحات پر مشتمل ہوگا؟ مہربخاری اور غریدہ فاروقی نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال سزا سنائی جائے گی جبکہ اسکے علاوہ کئی صحافیوں نے بھی ایسی ہی باتیں کی تھیں۔۔دلچسپ بات یہ کہ ابھی فیصلہ پوری طرح سنایا نہیں گیا تھا کہ کئی صحافیوں نے تفصیلی فیصلہ پوسٹ کردیا جو فیصلہ سنانے کے بعد مہیا کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف آفیشل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے عمران خان کو بری کرنے کی سلائیڈ چلائی گئی اور اسکے فوری بعد سزا سنانے والی خبر چلائی گئی، اسکا مطلب ہے جج صاحب کے ساتھ ساتھ کرنل صاحب نے ٹی وی چینلز کو بھی فیصلے کی دونوں کاپیاں بھیجی تھیں؟ تحریک انصاف آفیشل نے مزید کہا کہ عمران خان اور بشری بی بی کو اتنی ہی سزا سنائی گئی جس کا ذکر ٹاؤٹ صحافی اور انکے ذرائع کر رہے تھے۔ ناانصافی پر مبنی اس فیصلے کی کاپی جج سے پہلے صحافیوں کو کیسے مل گئی؟ صحافی ریاض الحق نے حکومتی صحافی عمار سولنگی کی جانب سے سب سے پہلے فیصلہ جاری کرنے پر کہا کہ ایک مشکوک ٹویٹر اکاؤنٹ جو ماضی میں آڈیو بھی لیک کرتا رہا کو پاکستان کے تمام صحافیوں اور وکلا سے پہلے، فیصلے سنانے کے 11 منٹ بعد فیصلے کی کاپی مل گئ۔ ثاقب بشیر نے کہا کہ یہ خبر بھی درست ثابت ہوئی 150 صفحے کے فیصلے کی خبر بھی درست ثابت ہوئی ۔۔۔ دونوں فیصلہ سنانے سے پہلے ہی مارکیٹ میں آ چکیں تھیں صاحبزادہ حامد رضا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی سزا اس جج کے لیے شرمندگی اور ذلالت کا مقام ہے اس فیصلے کا حکومتی ٹاوٹس کو پہلے سے ہی پتہ تھا یہ فیصلہ جج نے نہیں دیا یہ فیصلہ جج کو دیا گیا ہے عمران خان کو نفرت انا میں 100 سال قید سنا دیں لیکن عدلیہ کو اتنا تو بے وقعت نہ کریں کہ فیصلے سے پہلے فیصلہ کا اعلان ہو جائے رائے ثاقب کھرل نے کہا کہ کیسا ملک ہے: صحافی سزائیں پہلے سنا دیتے ہیں۔۔ فیصلے آنا ہے یا نہیں۔۔ تاریخ پہلے بتا دیتے ہیں۔۔ جج صاحبان صحافیوں سے مشورے کر کے فیصلے لکھتے ہیں یہاں؟ احمد جنجوعہ نے ردعمل دیا کہ اتنی محنت سے بیانیہ بناتے ہیں اور ایک حرکت سے سب مٹی میں ملا دیتے ہیں ۔ سزا سنانے کے ٹھیک 11 منٹ کے بعد تفصیلی فیصلہ عمار سولنگی کے پاس کیسے آگیا ۔ اس پر سلمان درانی نے کہا کہ مطلب ٹاؤٹس حضرات کے پاس فیصلہ ہی نہیں فیصلے کی کاپی بھی پہلے سے موجود تھی؟ صحافی محمد عمیر نے کہا کہ عدالت سے قبل ٹاؤٹس کو فیصلے کا علم تھا یہ پہلی بار نہیں ہوا. نادرج بلوچ نے لکھا کہ لیں جناب فیصلے کی تفصیلات پہلے ہی صحافیوں تک پہنچ گئی۔ یہ ہے آزاد عدلیہ کا جنازہ جو دھوم سے نکلا ہے علی افضل ساہی نے کہا کہ سیرت النبی (ص) کے فروغ کیلئے القادر یونیورسٹی کے قیام کے "سنگین جرم" پرعمران خان صاحب کو 14 سال اور اُن کی اہلیہ بشری بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنا دی گئ۔ فیصلہ جج صاحب کے سنانے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر سنا دیا گیا تھا۔ قانون سے عاری ایسے فیصلے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکے جائیں گے۔

Back
Top