سوشل میڈیا کی خبریں

عمران خان کے 190 ملین پاؤنڈ کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو سپریم کورٹ نے کسی بھی عدالتی عہدے کیلئے نااہل قرار دیا تھا اور ہائیکورٹ کو انکے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ ناصر جاوید رانا نے 2004 میں ایک شخص بہاؤل خیری کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ دیا تھا ،انکے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے جھوٹ بول کر کہ ملزم عدالت میں پیش ہوا ہے اسکے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ دیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے انہیں نہ صرف نااہل قرار دیا بلکہ ہائیکورٹ کو بھی انکے خلاف کاروائی کا حکم دیا، مطیع اللہ جان نے انکشاف کیا کہ جج ناصر جاوید رانا کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دے رکھا ہے کہ جج ناصر جاوید رانا کسی بھی عدالتی عہدے کے لیے مکمل طور پر نااہل ہے سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کو جج ناصر جاوید رانا کے خلاف تادیبی کاروائی کا بھی حکم دے رکھا ہے ! ۔۔۔ مطیع اللہ جان کے مطابق اسکی وجہ انکا جھوٹ بول کر جسمانی ریمانڈ دینا ہے اور سپریم کورٹ نے اس پر ازخودنوٹس لیا تھا اور اسے جان بوجھ کر اور جھوٹ پر مبنی فیصلہ قرار دیا تھا حامد میر نے 2004 کا فیصلہ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ 2004 میں جج ناصر جاوید رانا کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سول جج ناصر جاوید رانا کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا اور ان کے عدالتی اختیارات واپس لے لیے گئے۔ انہیں جوڈیشل سروس کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا لیکن اسی جج کو دوبارہ ملازمت پر رکھا گیا۔ احتشام کیانئ نے اس پر ردعمل کہ یہ تو بڑی خوفناک حقیقت منظرِعام پر آئی ہے کہ 2004 میں سول جج ناصر جاوید رانا نے نہ صرف ملزم کو پیش کرائے بغیر اُسکا جسمانی ریمانڈ دینے کا غلط فیصلہ کیا بلکہ سپریم کورٹ میں جھوٹا بیانِ حلفی بھی جمع کروایا جو جھوٹا ثابت ہونے پر اُن سے جوڈیشل اختیارات واپس لے لیے گئے اور سپریم کورٹ نے لکھا کہ غلط فیصلہ دے کر مِس کنڈکٹ کرنے اور جھوٹے موقف پر ڈھٹائی سے قائم رہنے والے ناصر جاوید رانا جوڈیشل سروس کیلئے فِٹ نہیں ہیں صحافی محمد عمیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 2004 میں جھوٹ لکھ کر ریمانڈ دینے پر ناصر رانا بارے فیصلہ دیا اور لکھا کہ ان میں کسی بھی قسم کے غلط کام کرنے کا رحجان پایا جاتا ہے اور ناصر جاوید رانا کو جج ہونے کے لئے مس فٹ قرار دیا۔اس ہیرے ناصر جاوید رانا کو عمران خان کو سزا دینے کے لیے چنا گیا۔
مہربخاری نے دعویٰ کیا ہے کہ انکے ذرائع کا کہنا ہے کہ القادر کیس میں عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید ہوگی۔ اس پر تحریک انصاف آفیشل نے ردعمل دیدیا اور عدالتی نظام اس وقت تباہ ہوتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کے ماؤتھ پیس اخبار اور میڈیا والے جج کے فیصلہ سنانے سے پہلے طاقتوروں سے فیصلہ وصول کرلیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ان ڈیکلئیرڈ مارشل لاء وہ ہے جس کے خلاف عمران خان ایک حقیقی آزاد پاکستان کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ ایسا پاکستان چاہتے ہیں جو قانون کی حکمرانی ہو، اور عدلیہ طاقتور اشرافیہ اور خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے آزاد ہو۔ اس پر مہر بخاری نے شدید ردعمل کا اظہار کیاور کہ یہیں مسئلہ ہے۔ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان چاہتی ہے، صحافی نہیں۔ آپ ایک خبر دیتے ہیں، معلومات کا کوئی حصہ جو پی ٹی آئی کو ناگوار لگتا ہے- آپ "اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان" ہیں، لیکن آپ انسانی حقوق کی زیادتیوں کی اطلاع دیں- اچانک آپ سیرت المستقیم پر ہیں انہوں نے مزید کہا کہ بہرحال، اب تک، غیر منسوب ذرائع درحقیقت ایسی ہی سزا کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ صحیح یا غلط الگ بحث ہے آرمی چیف سے ملاقات کو خوش آئند قرار دے کر "غیر اعلانیہ مارشل لاء" کے خلاف لڑنا تو اپنی جگہ، یاد آیا پانامہ پیپرز فیصلے اور امکانات پر بھی خبریں دی تھیں، آپ کو بہت پسند آئی تھیں اس پر احمد وڑائچ نے کہا ک مہر صاحبہ آپ ایسے ہی غصہ کر گئی ہیں، ٹویٹ میں اسٹیبلشمنٹ ٹاؤٹ اور میڈیا پرسنز الگ الگ لکھا ہے، پتہ نہیں کیوں آپ خود کو اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان سمجھ بیٹھیں۔ عدالتی فیصلے کا ٹاؤٹ یا میڈیا پرسن کسی کو بھی پہلے پتہ ہو تو یہ نظامِ انصاف پر سوالیہ نشان ہے۔ سوال اٹھانا مناسب عمل ہے۔ ثمینہ پاشا نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلے کا یہاں کسے نہیں پتہ ہوتا بھائی۔ بینچ بنتا ہے اور فیصلہ پتہ چل جاتا ہے۔ اکثریت کا تناسب تک پتہ چل جاتا ہے۔ اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے۔ اس حساب سے تو ہم سب پھر ٹاؤٹ ہی ہوۓ! صحافی فہیم اختر کا کہنا تھا کہ کیسا نااہل جج ہے جس کے فیصلے کی خبر زرائع سے نکل رہی ہے اس کا سیدھا مطلب بنتا ہے مرضی کا فیصلہ دلوایا جارہا ہے
صحافی اعزازسید سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی آخری رسومات کو بھی لیکر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اپنے ایکس پیغام میں انہوں نے تصویر شئیر کی اور کہا کہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی آخری رسومات کی تقریب میں امریکی صدر بائیڈن کے ساتھ نامزد صدر اور سابق صدور موجود ہیں، نامزد امریکی صدر ٹرمپ سابق امریکی صدور بل کلنٹن ، بش جونئیر اور بارک اوبامہ کیساتھ ایک ہی قطار میں بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ مسلسل بارک اوبامہ کیساتھ محو گفتگو ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کمزور جمہوریتوں کے حامل تیسری دنیا کے رہنماؤں باالخصوص پاکستانی رہنماؤں (خاص کر عمران کے لیے) اپنے مخالفین کے ساتھ خوشی غمی میں مل بیٹھنے کا سبق ہے۔ کاش ہم سیکھ پائیں ۔ اس پر صحافی شاہد اسلم نے جواب دیا کہ اتنا پھینٹا لگایا، ڈیڈھ سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند، انتخابی نشان چھینا، پارٹی توڑی، بیوی کی ماہواری تک کے کیس بنوائے اور بعد میں پورا الیکشن بھی چھین لیا تو پھر تلخیاں کیسے ہم ہوسکتیں تھیں بھلا۔ امریکہ یا مغرب کی جمہوریت کے سارے گن اپنانے چاہیں جس میں شفاف الیکشن سر فہرست ہے جس پر اعزاز سید نے تمام ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا اور کہا کہ شاہد ابھی آپکی ٹویٹ دیکھی ۔۔ مجھے یہ بتائیں کیا وہ پھینٹا سیاسی جماعتوں نے لگایا یا اسٹیبلشمنٹ نے ؟ انہوں نے مزید کہا کہ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ پھینٹا لگانے والے وہی ہیں مگر کھانے والے بدلتے رہتے ہیں ، لگانے والوں کا کچھ نہیں جاتا۔ اگر پھینٹا کھانے والے اکٹھے ہوں تو لگانے والے پیچھے جاسکتے ہیں ۔ یہ بات بنیادی بات ہے اس پر صحافی اویس حمید نے کہا کہ یہ بھی خوب کہی۔ پی ٹی آئی دور میں ن لیگ جبر کا نشانہ بنے تو اس کی ذمہ دار تحریک انصاف ہے۔ ن لیگی دور میں پی ٹی آئی جبر کا نشانہ بنے تو اس کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ سارے اس پھینٹے کے بینیفشری اور مخصوص نشستیں تک لوٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر عمران پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو ان سب پر بھی کم از کم بنیادی اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی ذمہ داری ہی عائد کر دیں، قانونی اصول تو کوئی رہ نہیں گیا جس کی یہ خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہو رہے ہوں۔
اجمل جامی کو تنقید کا نشانہ بناتے وہئے خالد بٹ نے کہا کہ جمل جامی ایک بہت سطحی قسم کا آدمی ہے ۔ انہوں نے مزیدکہا کہ یہ کون سا جرنلزم والا کام کر رہا ہے؟ یہ لوگ یوٹیوب پر منجن بیچ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ حبیب کرم سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ حبیب اکرم اور طارق متین جیسے لوگ عوام کو ورغلا رہے ہیں، یہ لوگ جناب جناب بول کر دانشوری کا منجن بیچتے ہیں۔ ان کو ایکسپوز کرنا چاہیے خالد بٹ کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شکریہ آپ نے یاد رکھا۔ نو جنوری فقیر کا جنم دن تھا، از راہ تفنن تاریخ لکھی اور بعد میں یاد دلایا۔ اجمل جامی نے مزید کہا کہ اندھی نفرت اور بھانڈ پن زیادہ نمایاں ہو جائے تو آپ ایسے بھلے لوگ بھی سستے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وی نیوز کو اعلی صحافتی اقدار کا پاس رکھنے پر اکیس توپوں کی سلامی! حبیب اکرم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مصطفیٰ اور خالد آپ دونوں میرے پسندیدہ فنکار ہیں۔ یہ فقیر آپ کی گفتگو کا موضوع ہے تو کچھ زیادہ مزیدار فقروں کی توقع ہے۔ سلامت رہیے اور خوش رہیے۔
میڈیا کے مطابق عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر کیس کا فیصلہ موخر ہونیکی وجہ بنا جبکہ عمران خان کے وکلاء کے مطابق وقت 11 بجے کا تھا۔ جج ناصر جاوید رانا کے مطابق ساڑھے8بجے عدالت پہنچا ہوں،عمران خان کو پیش ہونے کیلئے دو بار پیغام پہنچایا ہے،عمران خان اور بشریٰ بی بی پیش نہیں ہوئے ۔جج ناصر جاوید رانا نے مزید کہا کہ ملزمان کے وکلا بھی عدالت نہیں پہنچے،اب 190ملین پاؤنڈریفرنس کا فیصلہ 17جنوری کو سنایاجائیگا۔ جبکہ گزشتہ روز پاکستانی میڈیا چینلز اور اخبارات نے یہ رپورٹ کیا تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ 11 بجے سنایا جائے گا۔ روزنامہ دنیا، جنگ اخبار کے مطابق جج احتساب عدالت ناصر جاوید رانا پیر کی صبح 11 بجے اڈیالہ جیل میں فیصلہ سنائیں گے اور اس حوالے سے عدالتی عملے نے فریقین کو آگاہ کردیا۔ آج جج ناصر جاوید صبح 830 پر عدالت پہنچ گئے اور 1030 بجے فیصلہ موخر کرنیکا اعلان کرکے چلے گئے جبکہ بشریٰ بی بی 1050 پہ فیصلہ سننے اڈیالہ جیل پہنچیں۔ عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کیلئے 11 بجے کا ٹائم تھا، جج صاحب کو بڑی جلدی تھی جو چلے گئے۔ جنگ گروپ کے صحافی وقار ستی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ پھر موخرہونے کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان ،بشریٰ بی بی اور وکلا نےعدالت آنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ عمران خان کو دو بار پیغام بھیجا گیا لیکن وہ دانستہ طور پر عدالت نہیں آئے، جج ناصر جاوید رانا طویل انتظار کے بعد ساڑھے دس بجے اٹھ کر چلے گئے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا قانون صرف عوام کے لیے ہے؟ طاقتوروں کے لیے کوئی اصول نہیں؟ یہ انصاف کا تماشا کب ختم ہوگا؟ اس پر صحافی نادر بلوچ نے کہا کہ یہ لوگ ہر لحاظ سے بےایمان ہیں، ان سے آپ درست رپورٹنگ کی توقع نہیں رکھ سکتے، یہ صاحب جس ادارے (جیو) میں کام کر رہے ہیں وہ یہ کل خبر سے رپورٹ کر رہا ہے کہ عدالت 11 بجے فیصلہ سنائے گی اور عدالتی عملے نے فریقین کو فون کرکے آگاہ کردیا گیا ہے، جبکہ ان صاحب کے اپنے بقول جج صاحب ساڑھے دس بجے اٹھ کر چلے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب بندہ پوچھے جج تو دئیےگئے وقت سے دو منٹ لیٹ تو آسکتا ہے پہلے کیسے پہنچ گیا؟ کیا یہ عذر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔؟ احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ وکلا کو فیصلہ سنانے کیلئے 11 بجے کا وقت دیا گیا تھا، جج صاحب 8:30 وجے کمرہِ عدالت اڈیالہ کیا کر رہے تھے؟ پھر فیصلہ مؤخر بھی 11 بجے سے پہلے کر دیا؟ جی اوئے جج صاحب، سپریم کورٹ ہی جاؤ گے
میڈیا کے مطابق عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر کیس کا فیصلہ موخر ہونیکی وجہ بنا جبکہ عمران خان کے وکلاء کے مطابق وقت 11 بجے کا تھا۔ جج ناصر جاوید رانا کے مطابق ساڑھے8بجے عدالت پہنچا ہوں،عمران خان کو پیش ہونے کیلئے دو بار پیغام پہنچایا ہے،عمران خان اور بشریٰ بی بی پیش نہیں ہوئے ۔ جج ناصر جاوید رانا نے مزید کہا کہ ملزمان کے وکلا بھی عدالت نہیں پہنچے،اب 190ملین پاؤنڈریفرنس کا فیصلہ 17جنوری کو سنایاجائیگا۔ جج ناصر جاوید رانا نے مزید کہا کہ 2مرتبہ فیصلہ کیلئے کیس کال ہوا لیکن ملزمہ بشریٰ بی بی موجود نہ تھی، 6جنوری کو میں ٹریننگ پر تھا اس لیے فیصلہ نہیں سنا سکا، آج فیصلہ بالکل تیار اور دستخط شدہ میرے پاس ہے، یہ کہہ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا اڈیالہ جیل سے روانہ کر جج ناصر جاوید رانا رخصت ہوگئے سوال یہ ہے کہ کیا اگر ملزم فیصلے کے وقت عدالت پیش نہ ہو تو فیصلہ موخر کیا جاسکتا ہے ؟ جس کا جواب نہیں میں ہے۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں جج ہمایوں دلاور نے اس وقت سزا دی جب وہ لاہور میں موجود تھے، اسی طرح نوازشریف ، مریم نواز کے خلاف متعدد فیصلے اس وقت آئے جب وہ پاکستان میں موجود نہیں تھے ۔۔ ایون فیلڈ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد نوازشریف اور مریم نواز کو وطن واپس پہنچنے کے بعد گرفتار کیا گیا حالیہ مثالوں میں ایک مثال سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی بھی ہے جو عدالت سے غیرحاضر رہے اور انہیں گلگت بلتستان عدالت نے 34 سال کی سزا سنادی۔ صحافی سہیل رشید کے مطابق ملزمان کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا فیصلہ سنانے کیلئے ضروری نہیں ہے، نواز شریف لندن تھے جب ایون فیلڈ کا فیصلہ آیا، عمران خان توشہ خانہ کا پہلا فیصلہ آنے پر 5 اگست 2023 کو لاہور زمان پارک میں تھے۔ آج اڈیالہ کے اندر قید میں ہوتے ہوئے محض ان کی عدم موجودگی کو جواز بنا کر فیصلہ موخر؟ ریاض الحق نے اس پر جواب دیا کہ فیصلے کا نہ آنا اور تیسری مرتبہ موخر ہونا یقیناً عدالتی نظام پر سینکڑوں سوالات کھڑے کررہا ہے احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ پیش نہ ہونے پر فیصلہ مؤخر ۔۔ یہ نئی کہانی بنائی ہے، ہمایوں دلاور نے جب توشہ خانہ ون کا اسلام آباد میں فیصلہ سنایا تھا تب عمران خان لاہور تھے۔ ویسے بھی عدالتی وقت 3 بجے تک کا ہے، جج صاحب تو ابھی پوری طرح عدالت پہنچے نہیں تھے کہ اناوسمنٹ کر کے یہ جا وہ جا محمد عمیر کا کہنا تھا کہ ملزم کا عدالتی فیصلے کے وقت عدالت میں پیش ہونا کوئی قانونی ضرورت نہیں جس کی لاکھوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ عمران خان لاہور تھے جب انکو 5 اگست 2023 کو اسلام آباد عدالت نے سزا سنائی۔ حامد میر کے مطابق عمران خان ایک قیدی ہے ،قیدی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوا اس لئے عدالت کا فیصلہ تیسری دفعہ مؤخر کرنے کی ذمہ داری قیدی پر ڈالنا ایک کمزور تاویل ہے نادر بلوچ نے ردعمل دیا کہ فیصلہ موخر ہونے کی ہیٹرک مکمل، جج صاحب کی فیصلہ نہ سنانے کی وجہ لطیفہ سے بڑھ کر نہیں، عمران جیل تھے، بشری بی بی بھی فیصلہ سننے کیلئے جیل پہنچی لیکن جج صاحب تو جج ہیں پھر، کچھ بھی وجہ بیان کر سکتے ہیں
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی نوجوان اور ابھرتی ہوئی اداکارہ عینا آصف حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر صارفین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں، لیکن اس بار ان کی مقبولیت مثبت نہیں بلکہ تنقیدی ردعمل کا نتیجہ ہے۔ ان کے نئے ڈرامے "جڑواں" کے ٹیزر نے جہاں کچھ شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیا، وہیں کئی صارفین نے اس پر سخت تنقید کی ہے۔ ڈرامے کے ٹیزر میں عینا آصف پہلی بار ڈبل رول میں نظر آئیں گی، جس میں دو جڑواں بہنوں کی رقابت اور سازش کی کہانی دکھائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ صرف 16 سال کی عمر میں عینا آصف کو اتنے پیچیدہ اور بالغ کردار دینا ان کے بچپن اور معصومیت کو چھیننے کے مترادف ہے۔ ایک صارف نے کمنٹ کیا، "30 سالہ اداکاروں کے ہوتے ہوئے نابالغ اداکاراؤں کو کاسٹ کرنا بند کرو۔ یہ غیر مناسب اور غیر اخلاقی معلوم ہوتا ہے۔" ناقدین کا ایک گروپ یہ دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ "جڑواں" درحقیقت بھارتی ڈرامے "عشق میں مرجاواں" کی کاپی معلوم ہوتا ہے، جس نے شائقین کو مایوس کیا ہے۔ صارفین کی یہ رائے ہے کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو اپنی کہانیوں میں نیا پن اور تخلیقی صلاحیت دکھانی چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ بھارتی مواد کی نقل کریں۔ عینا آصف، جنہوں نے ڈرامہ سیریلز "بے بی باجی" اور "مائی ری" کے ذریعے شہرت حاصل کی، اپنے نئے پروجیکٹس کے ساتھ کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ حالیہ ڈرامہ "وہ ضدی سی" میں ان کی اداکاری کو خوب سراہا گیا ہے۔ ان کی اداکاری کے ساتھ ساتھ عینا اپنی تعلیم پر بھی توجہ دے رہی ہیں، جو انہیں دیگر نوجوان اداکاراؤں سے منفرد بناتا ہے۔
عمران خان کے وزیراعظم شہبازشریف کو " اردلی" قرار دینے کے بیان پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصروں کی بھرمار پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کی "کٹھ پتلی" اور "اردلی" قرار دے دیا۔ عمران خان نے کہا کہ شہباز شریف کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کے احکامات پر عمل درآمد کرنے والے ایک اردلی کی طرح ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشرف دور میں شوکت عزیز زیادہ طاقتور وزیراعظم تھے، جو کہ براہ راست فوجی حکمرانی کے تحت تھے۔ اردلی کی اصطلاح، جو برطانوی سامراجی دور سے لی گئی ہے، کا استعمال کرکے عمران خان نے یہ اشارہ دیا ہے کہ شہباز شریف کی حیثیت ایک ایسے فرد کی ہے جو محض فوجی قیادت کے احکامات پر عمل کرتا ہے، نہ کہ ایک خود مختار وزیراعظم کی۔ اردو کی مختلف ڈکشنریز نےا ردلی کا مطلب، حاکم وقت کا خدمتگار۔۔ چپڑاسی بتایا ہے۔ عمران خان کا یہ بیان اس قدر مقبول ہوا کہ صحافی اور سوشل میڈیا صارفین اس پر تبصرے کئے بغیر نہ رہ سکے اور کہا کہ خان صاحب نے پہلی بار ہمیں اردلی کا مطلب سمجھایا ہے۔ صدیق جان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اردلی کا لفظ استعمال کر کے کمال کر دیا ہے عمران خان کی sense of humor کو سلام ہے اس ایک لفظ اردلی نے سب کچھ بیان کر دیا ہے صحافی ثمینہ پاشا نے تبصرہ کیا کہ عمران خان نے شہباز شریف کے لیے تاریخی الفاظ ادا کیے، اور وہ الفاظ اتنے وزنی نکلے کہ بی بی سی اردلی لفظ پر آرٹیکل چھاپ دیتا ہے شہباز گل نے ردعمل دیا کہ خان صاحب کا سینس آف ہیومر بھی کمال ہے۔ کہنے کو تو وہ شہباز شریف صاحب کو جنرل عاصم منیر صاحب کا چپڑاسی، ذاتی ملازم یا نوکر بھی کہہ سکتے تھے لیکن خان صاحب نے خالص فوجی زبان میں اردلی کہہ کر اس کا مزہ ہی دوبالا کر دیا ہے صحافی عمران ریاض نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ عمران خان کا نام لیکر جو جیت کر آئے ہیں اور فائدے اٹھاتے ہیں یہ سب لوگ جان بوجھ کر خان کا ٹویٹ ری پوسٹ نہیں کرتے ۔خان نے شہباز شریف کو "اردلی""کا خطاب دیا ہے اور ٹیکنیکل فوجی زبان میں بتایا ہے کہ اردلی ہوتا کیا ہے۔ سحرش مان نے ردعمل دیا کہ ذات دا اردلی تے عرباں نوں جپھے محسن حجازی نے مزاح کے انداز میں کہا کہ اردلی کی صورت یوں ہے کہ آپس میں کہتے سمجھتے پٹواری بھی یہی ہیں لیکن خاں صاحب کو ایسا کہنا نہیں چاہئے تھ فیاض شاہ نے کہا کہ شکریہ خان صاحب!آپ کے بیان کے بعد آج بہت سارے لوگوں کو ”اردلی“ لفظ کا مطلب پتہ چلا ہے مدثر کا کہنا تھا کہ ہمارے اُردو کے پروفیسر نے آج "اردلی" لفظ کا مطلب بتایا مہر شرافت کا کہنا تھا کہ اردلی کا آسان مطلب چپڑاسی ہے اووووووو اردلی آئمہ خان نے کہا کہ مرشد بہت شرارتی ہوتے جارہے ہیں مذاق مذاق میں شوبآز کو #اردلی قرار دے دیا ہے
کچھ روز قبل عاصمہ شیرازی نے ایک وی لاگ کیا جس کا عنوان "لیٹ چکا ہے کپتان "رکھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ عنوان لیٹ چکا ہے کپتان عاصمہ شیرازی نے نہیں بلکہ ن لیگی سوشل میڈیا ٹیم نے رکھا تھا۔ اس وی لاگ میں عاصمہ شیرازی نے بیک ڈور ڈیل سے مختلف دعوے کئے، یہ بھی کہا کہ عمران خان پہلے صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے، اب حکومت سے مذاکرات کرنے کو بھی تیار ہوگئے ہیں۔ شہباز گل نے عاصمہ شیرازی کے وی لاگ کا سکرین شاٹ شئیر کرکے اس پر تنقید کی اور کہا کہ عورت ہو کے یہ کس طرح کے الفاط کا چناؤ ہے۔ پھر اگر آپکو اسی زبان اور الفاظ میں جواب دیا جائے گا تو تکلیف ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا ہ حد ہے ویسے فحاشی اور عریانی کی۔ کس طرح کا ایکس ریٹڈ جرنلزم ہے بی بی کا۔ اس پر عاصمہ شیرازی بھڑک اٹھیں اور شہبازگل کو کھری کھری سنادیں اور شہبازگل کو بے غیرت اور گھٹیا قرار دیدیا عاصمہ شیرازی نے کہا کہ بے غیرت اور گھٹیا لوگوں کو اُن کی زُبان میں جواب دینا نہ میری عادت ہے اور نہ ہی تربیت لیکن اگر ہمت ہے تو اس وی لاگ کی وڈیو شئیر کرو اور ثابت کرو کہ میں نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ مگر آپ جیسے بے غیرت ہر کسی کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں ۔ میں نے آج تک میرے خلاف تمہاری یکطرفہ مہم کا جواب نہیں دیا مگر لگتا ہے کہ اب دینا پڑے گا۔ بعدازاں شہباز گل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ میرے اس ٹوئیٹ میں لگا سکرین شارٹ بہت سارے زمہ دار صحافی حضرات اور سوشل میڈیا پر موجود لوگوں نے کل سے ٹوئیٹ کر رکھا تھا۔ کیونکہ یہ کچھ زمہ دار لوگوں نے ٹوئیٹ کیا تھا جہاں سے یہ میری ٹائم لائین پر آیا اور آج میں نے بھی اسے ٹوئیٹ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عاصمہ شیرازی صاحبہ نے کل سے ان میں سے کسی کو جواب نہ دیا۔ بہرحال آج جب عاصمہ شیرازی کا ٹویئٹ پڑھا تھا تو پتہ چلا کہ اس کا مطلب سکرین شاٹ پر لیٹ جانے کا لفظ کسی ن لیگی ٹرول نے لگایا۔ اس وجہ سے زمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے میں یہ ٹوئیٹ ڈیلیٹ کر رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالانکہ اس تجزے میں عاصمہ ڈیل کرنے کے جھوٹے الزام عمران خان پر لگا رہی ہیں لیکن میں نے عاصمہ شیرازی کے بارے جو بھی لکھا اپنے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں کیونکہ یہ ماضی میں بشری بی بی پر کالا جادو بکرے سوئیاں جیسا گھٹیا کالم لکھ چکی ہیں۔ اور بعد میں مکر چکی ہیں کہ یہ بشری بی بی کے بارے تھے۔ شہبازگل کا کہنا تھا کہ ان میں نہ صحافتی غیرت ہے اور نہ ہی اخلاقی جرت کے یہ اپنی غلاظت مان سکیں۔ طارق متین صاحب نے لکھا کہ یہ ایسی زبان استعمال نہیں کرتیں۔ تو کیا اس کالم میں اچھی زبان تھی۔ کیا وہ ہماری خواتین کا احترام تھا۔ کیا وہ زبان درست تھی۔ شہبازگل کے مطابق یہ صحافت کے نام پر ضمیر فروشی ہے اور کچھ نہیں۔ ہاں جب یہ دوسروں کی خواتین کا احترام کریں گے تو انکو بھی احترام ملے گا۔ اس لئے میں انکو صحافت کے نام پر دھبہ سمجھتا ہوں اور انکو ایکسپوز کرتا رہؤں
پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک بچی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوری ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ انگریزی بول کر اپنی اشیاء فروخت کررہی ہے۔ یہ بچی سڑکوں پر پھر پھر کر مکئی کے دانے، مونگ پھلی ، بھنے ہوئے چنے اور دیگر اشیاء فروخت کررہی ہے جو وہ گھر سے ہی پیک کر لاتی ہے۔ وائرل ہونیوالی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک کارسوار نے بچی کو روکا اور پوچھا کہ بچی انگلش میں پوچھتی ہے کہ آپ کو کچھ چاہئے جس پر کارسوار پوچھتا ہے کہ کیا فروخت کررہی ہیں جس پر بچی انگلش میں جواب دیتی ہے بچی کا دعویٰ ہے کہ اس نے کسی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر میں ہی انگلش سیکھی ہے۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے بچی کی تعریف کی اور علی امین گنڈاپور سے اپیل کی کہ اس بچی کی تعلیم کیلئے بندوبست کریں، یہ بچی انتہائی قابل ہے۔ فیصل خان نے ردعمل دیا کہ شمائلہ کا انگلش سنیں اور اندازہ لگائیں کتنی قابل بچی ہے۔ اس عمر میں مزدوری کی بجائے اس بچی کو سکول میں ہونا چاہئیے تھا ایک صارف نے کہا کہ کہاں ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ بھارت انگریزی بولنے میں بہت آگے ہے؟ پشاور کی رہائشی اس بچی نے گھر پر ہی انگریزی بولنی سیکھ لی عظمت خان نے تبصرہ کیا ماشاءاللہ اس بچی کی انگلش دیکھیں جو اس نے گھر میں سیکھی پشاور میں ۔۔ گنڈاپور صاحب پلیز اس کواور تعلیم دلوائی جائے تاکہ یہ ابھرتا ہوا ستارہ مر نہ جائے !! کوئی ہے جو اس بچی کا پتہ چلا سکتا ہے ؟
وزیراعظم شہباز شریف نے رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات کے صدر عزت مآب شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ شیخ محمد بن زید النہیان نے اپنی آمد پر خود گاڑی چلائی، جس میں وزیراعظم شہباز شریف ان کے ساتھ موجود تھے۔ دوران سفر دونوں رہنماؤں کے درمیان غیر رسمی اور خوشگوار گفتگو ہوئی، جس میں وہ ہنستے مسکراتے نظر آئے۔ وزیراعظم نے انہیں پاکستان میں ان کے دوسرے گھر میں خوش آمدید کہا۔ اسی دوران مریم نواز کے میڈیا کوآرڈینیٹر ذیشان ملک نے مریم نواز کی تصویر جاری کردی جس میں مریم نواز متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے گرمجوشی سے مصحافحہ کررہی ہٰں اور وزیراعظم شہباز شریف وزیراعلیٰ مریم نواز کا یو اے ای کے صدر سے تعارف کرارہے ہیں اس تصویر کے سامنے آنے پر ن لیگی سپورٹرز ذیشان پر چڑھ دوڑے اور مطالبہ کیا کہ اسے سوشل میڈیا ٹیم سے باہر نکالیں۔ ایک صارف نے ن لیگی سپورٹرز کے ٹویٹس شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ذیشان بیٹا تصویر کیوں لگائی۔۔۔ آب یوتھئیے ہمیں تنگ کرینگے۔۔۔ عدت جیسے کیس ہم نے بنائے ہیں آب اس ننگی بےشرمی اور مُنافقت کا دفاع کیسے ہو گا ذیشان آپ بےشرم ہو داؤد خٹک نے ردعمل دیا کہ مریم نواز کو اس طرح ہاتھ نہیں ملانا چاہئے کم از کم میں اس کی حمایت نہیں کر سکتا دیکھنا اس تصویر کو کس طرح ایشو بنا دیا جائے گا اور ہمارے ملک میں مذہبی جنونیوں کی کوئی کمی نہیں ہے فیض رسول نے ردعمل دیا کہ کچھ دن یوتھیوں کو مواد مل گیاویسے کیا ضرورت تھی اتنی گرمجوشی کی مرو جی محسن رضا نے اسے بیڈ آپٹکس قرار دیا ایک لیگی سپورٹر نے ذیشان سے کہا کہ بھائی اس تصویر کو ڈلیٹ کر دیں۔ راجہ کبیر نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ محترمہ سی ایم صاحبہفورا سے پہلے اس شخص کو اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے ٹھڈے مار کر باہر نکالیں جس نے وہ تصویر سوشل میڈیا پر جاری کروائی ہے کیونکہ آپکا پالا اس مخلوق سے ہے جنہوں نے اپنی حقیقی بیٹی گولڈ سمتھ کے ٹکڑوں پر پلنے واسطے چھوڑ دی ہےتھوڑے لخے کو بہتا سمجھیں ذیشان سید نے تبصرہ کیا کہ ایسے ایسے ہاتھ پکڑنا تو شریک ہاتھ کا پکڑ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراہٹ تو شریک حیات کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے،،مسلمان کیلئے کسی نامحرم کیساتھ اس طرح تو نہیں ملا جاسکتا،، وہ یہودی ایجنٹ بھی شائد ایسا ہی کرتا تھا جب حکومت میں تھے
گزشتہ دنوں اپیکس کمیٹی کااجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور وزیراعظم شہبازشریف کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی آرمی چیف کی موجودگی میں وزیراعظم شہبازشریف نے جب کہا کہ 26 نومبر کو کوئی گولی نہیں چلی تو اس پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا برہم ہوگئے اور شدید تلخ کلامی دیکھنے میں آئی۔۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہمارے 13 لوگوں کی جانیں گئیں،کئی زخمی اور کئی لاپتہ ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ گولی نہیں چلی۔ بعدازاں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کی جانب سے جیسے بات کی گئی وہ نامناسب ہے۔وزیراعظم کی جانب سے اس طرح کے بیانات قابل افسوس ہے اس ملک کے لوگوں پر گولیاں برسائی گئی اس پر صحافی اسداللہ خان نے کہا کہ وزیراعظم نے خوامخواہ 26 نومبر کی بات چھیڑی، اسکی ضرورت نہیں تھی، پتہ نہیں انہیں کیوں خیال آیا کہ اسکی وضاحت کرنی چاہئے۔انہوں نے خود سے کہہ دیا کہ 26 نومبر کو گولی نہیں چلی پتہ نہیں کیوں کہا؟ شاید شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کی۔گولی چلانے والوں کو خوش کرنا چاہتے تھے کہ دیکھو ہم آپکو ڈیفنڈ کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب شہبازشریف نے کہا کہ 26 نومبر کو کوئی گولی نہیں چلی تو علی امین گنڈاپور نے جواب دیا کہ 13 بندے مرے ہیں،ا تنے زخمی ہیں، اتنے غائب ہیں، پورا ڈیٹا علی امین گنڈاپور نے سامنے رکھا۔ اسکے بعد وزیراعظم سے تکرار ہوگئی کہ گولی نہیں چلی۔ اسداللہ خان نے کہا کہ وزیراعظم کو یہ کہنا ہی نہیں چاہئے تھا ، کیا ضرورت تھی اڑتا ہوا تیر بغل میں لینے کی۔ آپ خوامخواہ جو چیز موضوع بحث ہی نہیں ہے اس پر اکسارہے ہیں۔ صحافی عدیل سرفراز نے کہا کہ علی امین نے آرمی چیف کی موجودگی میں شہباز شریف کو کافی تلخ جملوں سے خاموش کروا دیا یہ ایک اشارہ ہے جس میں نون لیگ کے لیے کافی بڑا پیغام ہے۔ صوبے کے وزیراعلی کیونکہ اصل فارم 45 پر آیا ہے تو فارم 47 کے وزیراعظم کو ٹھیک ٹھاک سنائیں۔ سہراب برکت کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے جب پی ٹی آئی کی شہادتوں سے انکار کیا تو علی امین نے ٹھیک ٹھاک کلاس لی علی امین نے شہباز شریف کو کہا کہ تم ہوا میں باتیں کر رہے ہو ہمارے لوگ مرے ہیں ہم نے خود دفناۓ ہیں، جب تکرار زیادہ ہوا تو اسحاق ڈار نے بیچ میں پڑ کر کہا آگے بڑھتے ہیں مذاکرات کی طرف
گزشتہ دنوں تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ ہوا جس کا اعلامیہ جاری ہوچکا ہے، اس اعلامیہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو نہ "عمران خان " لکھا گیا ہے، نہ "بانی پی ٹی آئی " لکھا گیا ہے بلکہ عمران خان کو "عمران خان صاحب" کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس اعلامیہ میں چھ (6) بار عمران خان صاحب لکھا گیا ہے جبکہ لیگی رہنما عمران خان کو بانی پی ٹی آئی، انتشاری، فتنہ جیسے الفاظوں سے پکارتے تھے اپنے شو میں عامر متین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ برف تو پگھلی ہے! بعض دفعہ چھوٹی چیزوں سے بڑی چیزوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے! آج جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں بہت عرصے بعد عمران خان کا نام لیا گیا ہے! پی ٹی آئی نے اصرار کر کے کہا کہ عمران خان کا نام لکھا جائے! اس بات کا اعلان بھی ہو گیا ہے! پی ٹی آئی کی ہی سنی گئی ہے عامرمتین نے مزید کہا کہ کفر ٹوٹا کہ اب عمران خان کو نام سرکاری اعلامیہ میں لیا گیا۔ مگر نام لینا روکا کیوں گا۔ اس سے بڑی جہالت کیا ہو سکتی تھی۔ بچے بھی اس چیز کے پیچھے بھاگتے ہیں جس سے روکا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ کا سبق ہے کہ جس نام کو روکا جائے انسانی فطرت اسی طرف راغب ہوتی ہے۔ اہل بیعت کا نام لینا روکا گیا تو کیا امام حسین کو لوگ بھول گئے۔ نعوز باللہ موازنہ نہی کیا جا سکتا۔ مگر نام لینے سے روکنا-کیا اس طرح بیانیے بدلتے ہیں۔ کون مشورہ ساز ہیں۔ اور کیا ان کی عقل ہے۔ سینئر صحافی نے سوال اٹھایا کہ اب کیا مجبوری آن پڑی کہ بات کرنی پڑ رہی ہے۔ ساری شرطیں خان کی ہیں اور دوسری طرف سے چپ۔ آخر ماجرا کیا ہے۔ کیا پریشر ہے۔ اندرونی ہے یا بیرونی۔ حالات خراب ہو گئے ہیں یا تھکاوٹ ہے یا ڈر ہے کہ ہمارے ساتھ بھی یہ ہو سکتا ہے۔ کچھ تو ہے۔ کون بتلائے گا ہمیں۔ منصور علی خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ " عمران خان ختم شُد’ کہنے والے اب عمران خان صاحب کہہ رہے ہیں، اور ایک صاحب جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے وہ ختم شد ہو گئے۔ یہ ہوتی ہے عوام کی طاقت انہوں نے مزید کہا کہ آپ عمران خان صاحب کہنا نہیں چاہتے لیکن آپ جانتے ہیں عوام اس کے ساتھ ہے، یہ ہوتی ہے حقیقی ووٹ کی عزت، ان کو پتا ہے کہ عمران خان کے پیچھے کروڑوں لوگ کھڑے ہیں۔" ثاقب بشیر نے ردعمل دیا کہ اچھی بات ہے سیاسی اختلاف اپنی جگہ ہے ایک دوسرے کا نام احترام سے لیا جانا چاہیے جبران الیاس نے کہا کہ حال میں حکومت کی پریس ریلیز میں چھ (6) بار عمران خان صاحب لکھا گیا بیشک نظریے کو کوئی نہیں ہرا سکتا! فوکس گولی کیوں چلائی اور ترسیلات بائیکاٹ پر رکھیں ، باقی ٹاؤٹس اور چابی والے کھلونوں کو اگنور موڈ پر رکھیں!
افغان طالبان نے پاکستان سے 10 ارب روپے مانگنے کا دعویٰ مسترد کر دیا طالبان حکومت نے پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو 'ڈیورنڈ لائن' کے قریبی علاقوں سے افغانستان کے اندر منتقل کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان سے 10 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ خواجہ آصف نے حامدمیر کے شو میں دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو سرحدی علاقوں سے افغانستان کے اندر دیگر حصوں میں منتقل کرنے کے لیے اسلام آباد سے 10 ارب روپے (تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر) مانگے تھے۔ خواجہ آصف نے سابق دورِ حکومت میں طالبان حکومت سے ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس پاکستانی سرکاری وفد کا حصہ تھے جو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے متعلق طالبان حکومت سے بات چیت کرنے گیا تھا۔ صحافی حامد میر نے یہ خبر شئیر کی تو خواجہ آصف سامنے آگئے اور خواجہ آصف کو کھوچل اور عقل کو ہاتھ مارنے کے مشورےد یتے رہے۔ خواجہ آصف نے حامد میر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میر صاحب آپ کتنے معصوم ھیں وہ 10ارب مانگ کر اور میرے بتانے کے بعد آپکے پروگرام میں آکے کہیں گے کہ ہاں ھمُ نے دس ارب مانگے تھے ؟ میر صاحب چنگے بھلے کھوچل او عقل نوں ھتھ مارو اس پر حامد میر نے عادل شاہ زیب کے شو کا فروری 2023 کا ایک کلپ شئیر کردیا جس میں خواجہ آصف متضاد بات کررہے ہیں۔ کلپ شئیر کرتے ہوئے حامدمیر نے جواب دیا کہ خواجہ صاحب بڑے ادب سے گذارش ہے کہ آپ نے اردو میں جو کچھ میرے سامنے کہا فروری 2023 میں عادل شاہ زیب کے سامنے بالکل متضاد بات کی اب آپ ہی بتائیں اگر میں کھوچل ہوتا تو آپکے سامنے یہ کلپ ضرور چلا دیتا
سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کو سیکیورٹی اداروں اور الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے جرم میں عدالت نے 34 برس قید کی سزا سنادی۔ عدالت نے سابق وزیرِ اعلیٰ جی بی پر 6 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ عدالت نے آئی جی پولیس کو حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجرم کو گرفتار کر کے جیل منتقل کیا جائے۔عدالت نے ڈی جی نادرا کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ شناختی کارڈ بلاک کر دیا جائے۔ اکبر نے تبصرہ کیا کہ اداروں کے خلاف بیان دینے پر 34 سال قید کی سزا کیسے کیسے عظیم جج بیٹھے ہوئے ہیں جو صرف بیان بازی پر 30/30 سال کی سزائیں سنا رہے ہیں علی رضامنگی نے ردعمل دیا کہ "جب ڈکٹیٹر نے آئین پر پیشاب کیا تب محسن نقوی جیسی شخصیات پیدا ہوئیں"خالد خورشید کو 34 سال قید کی سزا یہ جملہ بولنے پر ملی ہے ثمینہ پاشا نے تبصرہ کیا کہ پہلے سنتے تھے انصاف ہو، اور ہوتا ہوا نظر بھی آۓ۔ اب یہ جملہ یوں ہو چکا ہے، کہ بے انصافی ہو اور ہوتی ہوئی نظر بھی آۓ۔ پتہ چلنا چاہئے ان ججز کی حیثیت کیا ہے ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ کوئی حال ہے اس ملک کے نظام انصاف کا؟ خالد خورشید کو 34 سال کی سزا سنا دی ہے۔ یہ سزا چیلنج ہو کر قائم تو نہیں رہ سکے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بندے کا ایسا قصور کیا ہے؟ حیدرسعید نے ردعمل دیا کہ اس ملک میں اس تقریر پر 34 سال قید کی سزا۔۔۔۔لیکن اتنے لوگوں کو شہید کرنے والوں کے لئے کوئی سزا نہیں ہے۔۔ وقار ملک نے تبصرہ کیا کہ سال کا آغاز 13 جنوری کے آئین شکن جمہوریت کش اور ملک دشمنی پہ مبنی فیصلے سے ہوا اور انجام ایک ملٹرعی ڈکٹیٹر کے مظالم کیخلاف آواز اٹھانے والے کو 34 سال قید کی سزا سنا کے ہوا 2024 واقعی پاکستان کی تاریخ کے بدترین سالوں میں سے ایک تھا! صبیح کاطمی نے طنز کیا کہ خالد خورشید کو 34 سال کی سزا سنانے کی وجہ یہ ہے کہ محسن نقوی کو آہین پر کیا گیا پیشاب کا مطلب اب سمجھ آیا۔ جمیل فاروقی نے ردعمل دیا کہ کیا کبھی آپ نے 34 سال قید کی سزا سنی تھی ؟ پیشاب کو پیشاب بولنے کی اتنی لمبی سزا ؟ خالد خورشید پر 6 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد احتشام کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ بلاک، 34 سال سزا۔۔ صرف دھمکانے پر؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ماہم ملک نے تبصرہ کیا کہ خالد خورشید کو 34 سال کی سزا سنائی گئی ہے، ان کا جرم صرف عمران خان کے ساتھ وفا نبھانا ہی ہے- اسی لئے تو قوم کے اندر اس نظام کے خلاف نفرت شدید تر ہوتی جا رہی ہے-
کچھ روز قبل خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ مجھے جیل میں عمران خان نے نہیں بلکہ قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈالا تھا۔جن کا نام کوئی نہیں لیتا۔۔ انکا نام لینا چاہیے اس پر خواجہ سعد رفیق نے وضاحت جاری کردی اور کہا کہ میری تقریر سےا ایک جملہ عمران خان کو معصوم ثابت کرنے کیلئے وائرل کیا گیا ہے، عمران خان نے مجھ پر ظلم کرنیوالوں میں شامل تھے اپنے ایکس پیغام میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ دو روز قبل خواجہ محمد رفیق شہید کی برسی کے موقع پر سیمینار میں میری گفتگو شواہد اور تجربات کی روشنی میں میرے خیالات کی عکاسی کرتی ھے ۔میں اپنے کہے ھر جملے پر قائم ھوں اور ان شا اللّٰہ رھونگا انہوں نے مزید کہا کہ حسب عادت PTI کے حامیوں نے 23 منٹ کی تقریر کے سیاق و سباق سے ھٹ کر اسمیں سے ایک جملہ اٹھایا اور عمران خان صاحب کو معصوم ثابت کرنے کیلئے اسے وائرل کر دیا کہ (مجھے اور میرے بھائیکوعمران خان نے نہیں جنرل باجوہ اور جسٹس ثاقب نثار نے جیل بھیجا ) خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی تقریر کے آغاز ھی میں بتا دیا تھا کہ جنرل باجوہ اور جسٹس ثاقب نثار نے مجھے اور میرے بھائی کو جیل بھجوایا جبکہ عمران خان نے اس جیل کو ایکسٹینشن دیکر طویل ترکروایا خواجہ سعد کے مطابق پس ِ منظر محض یہ ھے کہ مسلم لیگ ن کو گرانے اور ھماری پکڑ دھکڑ کی تیاری2017 سے شروع تھی ،جنرل باجوہ ، جنرل فیض حمید ،جسٹس ثاقب نثار اور انکے ساتھی اس کھلواڑ کواپنی ریاستی طاقت سے آگے بڑھا رھے تھے جبکہ عمران خان اس سازش کا حصہ اور اسکےسب سے بڑے بینیفشری تھے ان کا کہنا تھا کہ مجھے، میری ذات اور خاندان کو تکلیف دینے والوں سے ذاتی grudge تھا نہ ھے ، نہ کوئ انتقام لینا ھے لیکن ذمہ داران میں سے کسی ایک کومکھن سے بال کی مانند نکال کر تاریخ مسخ کرنے نہیں دیجائیگی۔ جس نے جو کیا وہ اب تاریخ کا حصہ ھے جرنیل ھوں جج ھوں یا سیاستدان ، سب تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ھونگے اس پر ڈاکٹر شہبازگل نے خواجہ سعد رفیق پر طنز کیا کہ خواجہ صاحب ہم نے اسی وقت یہ کہہ دیا تھا کہ آپ انقلابی نہیں۔کبھی کبھی آپکو انقلاب کا زکام ہوتا ہے۔اتنے پرائز بانڈ نکلنے کے بعد انقلاب ان پرائز بانڈوں کے نیچے آ کر وفات پا جاتا ہے۔ آپ کو اپنا سیاسی حساب کتاب دیکھ کر بیان دینے چاہیے۔ پہلے لوہے کے چنے اب یہ۔ بڑھکیں نہ مارا کریں
کچھ روز قبل ساجد تارڑ نے ایک ٹویٹ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں کرسمس پارٹی میں موجود ہیں۔ ساجد تارڑ نے ٹویٹ کی تو سوشل میڈیا صارفین نے حقیقت بتادی جس پر ساجد تارڑ نے ٹویٹ ڈیلیٹ کردی۔دراصل ساجد تارڑ اپنے پیغام سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ انہیں وائٹ ہاؤس کے اندر تک رسائی ہے۔ اس پر ن لیگی سپورٹر اور عمران مخالفین کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟ وہ یہ ثابت کرنیکی کوشش کرتے رہے کہ ساجد تارڑ کا امریکہ میں بہت اثرورسوخ ہے اور انہیں وائٹ ہاؤس کرسمس پارٹی میں بلایا گیا ہے۔اس پر لیگی سپورٹر تحریک انصاف کو ٹرول کرتے رہے فرحان ورک نے ٹویٹ قوٹ کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ۔۔ ڈانلڈ ٹرمپ کے حقیقی سابقہ مشیر ساجد تارڑ صاحب آج وائٹ ہاوس موجود ہیں جبکہ تحریک انصاف کا جعلی گرنیل اکاونٹ ایسی ایک تصویر نہیں لگا سکا۔ ٹرمپ کا پاکستان پر مشیر ساجد تارڑ ہی لگے گا ۔۔ روک سکو تو روک لو بعدازاں ساجد تاڑ کو یہ زناٹے دار تھپڑ ڈیلیٹ کرنا پڑا۔ اس پر وائٹ ہاؤس کا اپنی ویب سائٹ پر موقف ہے کہ "آپ دسمبر میں وائٹ ہاؤس کی کرسمس کی سجاوٹ دیکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ وائٹ ہاؤس کے دورے کے لیے پہلے سے رجسٹریشن کروائیں۔ یہ دورے بہت مقبول ہیں، اس لیے جلدی درخواست دینے سے آپ کے امکانات بہتر ہو جائیں گے کہ آپ تعطیلات کے موسم میں وائٹ ہاؤس کا دورہ کر سکیں۔" عمران افضل راجہ نے تبصرہ کیا کہ پاکستان کے میڈیا اور ن لیگ کی طرف سے لاڑکانہ میں دریافت کیا گیا ڈونلد ٹرمپ کا مشیر فیک وائٹ ہاؤس کرسمس پارٹی والی ٹوئیٹ ڈیلیٹ کر گیا۔۔“بےچاروں کو نوسرباز بھی ٹھیک نہیں ملا” صحافی ارشاد عارف نے ساجد تارڑ کو وجاب دیا کہ امریکی دعوت پر 1993 میں واشنگٹن ڈی سی سمیت دس بارہ شہروں کا دورہ کیا ۔وائٹ ہاوس ،پینٹاگان اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بریفنگزمیں شرکت کا موقع ملا، تین ڈالر کا ٹکٹ لے کر آپ ان تینوں حساس مقامات کے مختلف حصوں کا دورہ کرسکتے ہیں کولن پاول سے ہاتھ بھی ملایا۔آپ نے یاددلایا تومجھے یادآیا ا بو زیان اعوان نے کہا کہ اور پھر فرحان ورک کے حقیقی سابقہ فادر ساجد تارڑ اپنی ٹویٹ ڈلیٹ کر کے ورک کی موجودہ امی کیساتھ بھاگ گیا ۔۔زناٹے دار تھپڑ میاں طاہر نے تبصرہ کیا کہ وائٹ ہاؤس ٹور ہر کوئی سکتا ہے۔۔ آج وائٹ ہاؤس ٹور کو وائٹ ہاؤس کو دورہ قرار دیا ۔۔ساجد تارڑ نے پھر ماموں بنایا اسٹبلشمنٹ کو
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی 11 سالہ کارکردگی بدعنوانی، نااہلی اور ناقص گورننس کی بدترین مثال ہے۔ وائٹ پیپر کے ذریعے ان کی ناکامیوں کو بے نقاب کیا ہے، جن میں 725 ارب روپے کا مجموعی خسارہ اور 152 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں شامل ہیں۔ انکے مطابق صحت اور تعلیم کے فنڈز کو سیاسی سرگرمیوں پر خرچ کیا گیا، جبکہ فرضی کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے سوشل میڈیا پروپیگنڈے پر ضائع کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے، پولیس ریفارمز اور گڈ گورننس کہیں نظر نہیں آتی۔ یونیورسٹیوں کو ایچ ای سی سے نکال کر وزیراعلیٰ کے ماتحت کر دیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبے میں اربوں روپے کی مشکوک ادائیگیاں اور بے ضابطگیاں ہوئیں۔ خیبر پختونخوا کا قرض 75 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، اور اگر یہی روش جاری رہی تو یہ خسارہ 2030 تک 2555 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔ اس پر خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ بہتر ہے قیدی نمبر 804 سے معافی مانگ لیں اگر تاررڈ سے وائٹ پیپر دلوانا ہے انہوں نے مزید کہا کہ جتنا قرضہ خیبر ہختونخواہ کا 77 سال میں ہوا اتنا قرض شہباز شریف ایک ماہ میں لیتے ہیں۔شہباز شریف نے دو سالوں میں 27,000 ارب قرض لیا۰ اتنا قرض لینے میں خیبر پختونخواہ کو 2870 سال لگے گے مزمل اسلم نے مطابق اگر شہباز شریف روپیہ 175 سے 280 نا کرتا تو خیبر پختونخواہ کا قرض 450 ارب روپے ہوتا۔ تم قرض لیتے ہو اور ہم اتارتے ہیں خیبر پختوخواہ پہلا صوبہ بن گیا ہے جس نے قرض اتارنے کا فنڈ بنایا ہے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ ن لیگ والوں پر ترس آتا ہے کہ معیشت پر بات کرنے کے لئے اُنکے پاس اب بچا کھچا عطا تارڑ ہی رہ گیا ہے،جسے معیشت کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ! جن بے قاعدگیوں کا زکر اس نے کیا،وہ تین دن قبل ایک اخبار میں چھپ چکی ہیں۔وہ آڈٹ بے قاعدگی جو ہر دفعہ وفاقی یا صوبائ حکومتوں کی ہوتی انہوں نے مزید کہا کہ اگرآپ نے ہمارے ساتھ معاشی مقابلہ کرناہے توآئیں کرلیں پہلے کوارٹر میں آئی ایم ایف کیطرف سے خیبرپختونخوا گورنمنٹ کا سرپلس کاٹارگٹ 45 ارب تھا، ہم نے ریکارڈ 103 ارب کا سرپلس کیا جبکہ ان تجربہ کاروں کی پنجاب حکومت ،جن کا سرپلس ٹارگٹ 150 ارب تھا،انہوں نے 160 ارب خسارہ کردیا ۔۔جائیں آئی ایم ایف سے پوچھیں
کچھ روز قبل پنجاب کے شہر تاندلیا نوالہ میں دھند کے باعث ایک گاڑی گنے کی ٹرالی سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جن میں بچوں کی عمریں 3سے6سال کے درمیان بتائی جارہی ہیں۔ گنے کے ٹرک سے بری طرح تباہ ہوئی اور بالکل ٹین ڈبہ کا منظر پیش کرنے لگی۔۔ تصاویر منظرعام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے سوزوکی کمپنی کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور سوزوکی کمپنی کی گاڑی کو ٹین ڈبہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کمپنی کی گاڑیاں چلتی پھرتی موت ہیں، اس پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔یہ گاڑیاں کباڑ سے بھی گئی گزری ہیں۔ صحافی زاہد گشکوری نے وزیراعظم شہباز شریف سے اپیل کرت ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب اور رانا تنویر حسین صاحب اس گاڑی کے بالکل ناقص معیار کا نوٹس لیں گے ؟ آج ایک خاندان کے چھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ شفقت علی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 29 لاکھ کا یہ ٹین ڈبہ سوزوکی آلٹو سڑکوں پر چلتی پِھرتی موت ہے۔ پاکستانی عوام پیسے دے کر اپنے لیے یہ موت خریدتی ہے۔۔۔۔ اس گاڑی میں نہ تو سیکورٹی فیچر ہیں اور نہ ہی کوالٹی۔۔۔ اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں کوئی کمپنی اتنی ناقص کوالٹی کی گاڑی بناتی تو اب تک کمپنی پر پابندی عائد ہو جانی تھی۔۔۔۔ مہوش قمس خان نے لکھا کہ پاکستان میں اس ناکارہ سوزوکی کار کی قیمت 32 لاکھ روپے ہیں صحافی وحید مراد کا کہنا تھا کہ یہ سوزوکی کی آلٹو ہے۔ پاکستان میں ٹین ڈبہ 32 لاکھ روپے کا بیچا جا رہا ہے۔ اپنی جان بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مال بچائیں۔ سوزوکی خریدنے سے بچیں۔ صبیح الحسن نے ردعمل دیا کہ اس ملک میں جسکا جودل چاہتاہےکرتاپھرتاہےکوئی پوچھنےوالا نہیں۔ آخر پاکستان میں ٹین ڈبے بنانے والی سوزوکی، کرولا، ہنڈا کی فیکٹریوں کو کوئی پوچھتا کیوں نہیں؟ اُلٹا گاڑیوں کی ایمپورٹ پر سختیاں کررکھی ہیں تاکہ لوگ ملک میں بنی گاڑیاں خریدیں۔ بھئی آپ معیار بھی تو دیں جاپان جرمنی والا نظام نے تبصرہ کیا کہ سارے اشرافیہ اس جُرم میں برابر کے شریک ہیں کیوں کہ سب مل کر کھاتے ہیں، موٹر وے پر سوزوکی آلٹو گاڑی اُلٹ گئی اور گاڑی کی کوالٹی چیک کریں ذرا، ایسے لگتا ہے کہ ٹرین کے نیچے آ گئی ہو، ایسی کمپنیوں کو پاکستان سے نکال باہر کرنا چاہئیے صابر ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ سوزوکی کمپنی کی تقریباً 30 لاکھ کی گاڑی خود کش بمبار سے کم نہیں ہے،ان چوروں نے لوٹ مار مچائی ہوئی ہے، ٹین ڈبے بھی شاید اس سےمضبوط ہوتا ہے، کیا اس کمپنی سے کوئی پوچھنےوالا نہیں ہے،کیا انکی مارکیٹ میں اجارہ داری بدمعاشی یونہی قائم رہےگی اور یہ ایسےہی خود کش بمبار تیار کرتےرہیں گے۔ میاں جاوید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سوزوکی آلٹو ۔ اتنی ہلکی اتنی لو کوالٹی میٹریل سے بنی ہوئی گاڈی ہے کہ چلتی پھرتی موت ہے اگر ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ایک بھی پرزہ سلامت نہیں بچتا اور گاڈی کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ بچ جائیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سوزوکی والے اِس چلتے پھرتے کباڑ کے 30 لاکھ روپے تک لیتے ہیں، اللہ محفوظ رکھے ہر اُس شخص کو جو یہ گاڑی خریدتا ہے، پتہ نہیں کب ہماری حکومتیں اِس کار مافیا کے شکنجے سے نکلیں گی۔۔!!
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پنجاب میں دیہی خواتین کو پالنے اور روزگار کمانے کیلئے گائے اور بھینسیں مفت میں دینے کا اعلان کردیا۔ مریم نواز کا کہنا تھاکہ پنجاب کی دھی رانیوں کیلئے باعزت روزگار کے دروازے کھول دیے اور 12اضلاع کی11ہزار دیہی خواتین کیلئے 2ارب روپے کا ریکارڈ پیکج دیا۔ انہوں نے کہا کہ دیہی خواتین کو پالنے اور روزگار کمانے کیلئے گائے اور بھینسیں مفت ملیں گی، پنجاب کے لائیواسٹاک فارمرز کا بھر پور ساتھ دیں گے۔ صحافیوں کے مطابق یہ سکیم عمران حکومت میں "کٹا پال اسکیم" کے نام سے شروع ہوئی تھی جس کا ن لیگ نے کافی مذاق اڑایا تھا، اس اسکیم میں دیہی خواتین کو مفت گائے بھینسیں، مرغیاں دی جاتی تھیں ۔ حافظ فرحت عباس نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ جب عمران خان نے یہ منصوبہ شروع کیا تھا تو یہی لوگ عمران خان کا مزاق اڑایا کرتے تھے اب عمران خان کا پروگرام شروع کر کے اسے انقلابی اقدام قرار دے رہے ہیں. شرم انکو مگر نہیں آتی ارسلان بلوچ نے ردعمل دیا کہ ہر چیز میں عمران خان کے ویژن کی کاپی کر رہی ہے پشپا۔ جب عمران خان نے گائے،بھینس اور نرغیاں دینے کا اعلان کیا تھا تو یہی روز کہتی تھی ایسے بھلا ملک ترقی کرے گا؟ اب خود کے کام دیکھو اسکے۔ محمد عمیر نے لکھا کہ عمران خان کی کٹا پال سکیم کا مذاق اڑانے والے اب اسی اسکیم کو دوبارہ شروع کرنے جارہے ہیں شاہد اسلم نے کہا کہ گائے، بھینس اور کٹا پال اسکیم کی بحالی شروع، شکریہ کس کا ادا کرنا ہے؟ حیاناز نےطنز کیا کہ عمران خان کے کٹے مرغیوں والے پروگرام کا مذاق اڑانے والے وہی پروگرام کاپی کر رہے ہیں۔ ”ہم نہ باز آئینگے منافقت اور کاپی پیسٹ سے“ راحیل کا کنا تھا کہ ھم ویسے ہی تو کہتے کہ یہ ٹک ٹاکر ن لیگ کی عمران نیازی ہی ہے آ گئی نا بات کٹے وچھے تک فرحان رضا نے لکھا کہ یہ تو مرغی انڈوں گائے بھینسوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اب کیا ہوا مزمل اسلم نے طنز کیا کہ یہ تو خان کی شاگردی میں پکی پکی آگئی ہیں لگتا ہے ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ انڈے، کٹے اور مرغياں مریم نواز کے گلے پڑ گئیں

Back
Top