القادر کیس کا فیصلہ اہم دستاویزات دیکھے بغیر سنائے جانیکاانکشاف

bs1hh12.jpg

احتساب عدالت کے جج نے القادر کیس کا فیصلہ سنادیا ہے جس کے مطابق عمران خان کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔

صحافیوں کے مطابق جج کا یہ فیصلہ انتہائی ناقص ہے کیونکہ جج ناصر جاوید رانا نے اپنے فیصلے میں خود کہا ہے کہ "پراسیکیوشن کے ثبوتوں میں تضادات اور بے ضابطگیاں موجود تھیں لیکن ایسے کیسز میں یہ قدرتی ہے"۔

اس کیس میں جج نے پراسیکیوشن نے مزید ریکارڈ مانگا تھا جو نہیں دیا گیا جس میں این سی اے معاہدہ، بنک اکاؤنٹس کی تفصیلات ، رقم فریز کرنیکا معاہدہ، حسن نواز کی پراپرٹی کی تفصیلات بھی شامل تھیں

احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے برطانیہ سے مختلف قسم کا ریکارڈ مانگا جو اب تک مل نہیں سکا۔ اس میں " این سی اے اور ملک ریاض فیملی کا سیٹلمنٹ معاہدہ"،" رقم فریز کرنے کا تصدیق شدہ حکمنامہ"،" حسن نواز کی ون ہائیڈ پراپرٹی کی تفصیل"،" جن اکاؤنٹس سے رقم منتقل ہوئی ان کی تفصیل"
https://twitter.com/x/status/1880328102733312409
انہوں نے فیصلے کے متن کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے ملک ریاض فیملی اور این سی اے کی سیٹلمنٹ کا اصل معاہدہ تھا ہی نہیں، ابھی تک برطانیہ سے آنے کا انتظار ہے، فریزںگ آرڈرز، حسن نواز کی جائیداد کی تفصیلات نہیں ملیں۔ کابینہ نے جس چیز کی منظوری دی وہ نہیں ملی۔ سزا صرف "تیرا میرا اگر وہ چونکہ چنانچہ" پر سنائی گئی
https://twitter.com/x/status/1880500554088214603
صحافی ثاقب بشیر نے فیصلے کا پوسٹمارٹم کرتے ہوئے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس فیصلے کے 148 صفحات پڑھے فیصلے میں کیس سے جڑے مختلف نکات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے مثلا ایک پہلو یہ ہے کہ پیسہ ریاست پاکستان کا تھا

انہوں نے مزید کہا کہ اس پر فیصلے میں لکھا گیا پی ڈی ایم حکومت کی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے لکھا "بادی النظر" میں یہ پیسہ ریاست پاکستان کے اکاؤنٹ میں آنا تھا اس کا مطلب ہے واضع الفاظ میں ان کو لکھا ہوا نظر نہیں آیا کہ پیسہ ریاست پاکستان کے اکاؤنٹ میں آنا تھا ۔

ثاقب بشیر کے مطابق پھر تین دسمبر 2019 کابینہ منظوری سے چند دن پہلے 102 ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آچکے تھے اگر اکاؤنٹ میں آچکے تھے تو منظوری کس کی لی گئی ؟ اس سوال کے جواب میں عدالت مطمئن ہوئی ہے کہ 6 نومبر 2019 کو deed of confidentiality ہوئی جس کے بعد پیسہ پاکستان ملک ریاض settlement سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آیا
https://twitter.com/x/status/1880459912972542272
ان کا کہنا تھا کہ اب یہاں 6 نومبر کی ڈیڈ پر پی ڈی ایم حکومت کی کمیٹی نے خود اس کے اصلی ہونے پر شکوک وشبہات اٹھائے اور لکھا کہ فرانزک کئے بغیر اس کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔ اگر ڈیڈ پر سوال ثابت ہو گیا تو اس کا فائدہ ہائیکورٹ میں ملزم کو ہو سکتا پے پھر ڈیڈ متعلق وزارت خارجہ کی ایک ای میل کا حوالہ دیا گیا یہ بھی لکھا گیا ایسٹ ریکوری یونٹ نے اپنی پریس ریلیز میں لکھا پیسہ ریاست پاکستان کا ہے ۔

انکے مطابق عدالت لکھتی ہے شہزاد اکبر کے کابینہ کو لکھے نوٹ سے ظاہر ہو رہا ہے لیکن ساتھ ہی عدالت لکھتی ایسٹ ریکوری یونٹ اور این سی اے خط و کتابت کا سارا ریکارڈ شہزاد اکبر اور بیرسٹر ضیاء المصطفیٰ نسیم اپنے ساتھ ہی لے گئے

انہوں نے مزید کہا کہ آخری بات نے فیصلے کی تشویش بڑھا دی جس کا فائدہ ملزم کو ہو سکتا ہے کہ مصدقہ نقول ابھی تک نیشنل کرائم ایجنسی نے فراہم ہی نہیں کیں جن میں ملک ریاض این سی اے settlement ، جو اکاؤنٹ فریز ہوئے پھر جن اکاؤنٹس سے پیسہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آیا ہے اس کی مصدقہ نقول ملی ہی نہیں

اکبر کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی حکومت نے 2022 میں عمران خان کی کابینہ والا فیصلہ کلعدم کرکے خفیہ منظوری کو پبلک کردیا تھا جس میں سے کچھ نہیں نکلا تھا جس پر برطانوی لا-فرم نے سٹیٹمنٹ بھی جاری کی تھی کیا برطانوی لا-فرم بھی جھوٹ بول رہی؟ تو این سی اے نے پھر کوئی کاروائی کیوں نہیں کی؟
https://twitter.com/x/status/1880329311833804855
وقار ملک نے کہا کہ بغیر کوئی دستاویز بغیر کوئی ثبوت دیکھے ہی سزا سنادی جج خود لکھتا ہے کہ برطانیہ سے جو کاغذات مانگے گئے تھے اب تک انکا انتظار کیا جارہا ہے مطلب بغیر کچھ دیکھے بغیر تصدیق ہی جرنیلی سزا سنادی گئی۔
https://twitter.com/x/status/1880569784116613526 https://twitter.com/x/status/1880935260135063825
 
Last edited by a moderator:

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)


اسی لیے بزرگ ہمیں بہت پہلے بتا گئے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے
 

Back
Top