سوشل میڈیا کی خبریں

سوشل میڈیا پر ایک ٹکر وائرل ہورہا ہے جس مٰں فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ عمران خان کو اگر اپنی جان بچانا ہے تو انہیں بشریٰ بی بی کو طلاق دینا ہوگی۔ سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں نےا س پر سخت ردعمل کااظہار کیا کچھ نے طنز کیا، سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ بات معافی سے طلاق پر آگئی ہے۔کیا اب حکومت بتائے گی کہ کس نے شادی کرنی ہے کس نے طلاق لینی ہے؟ علی رضا نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کو سزائے موت ہوگیعمران خان کو عمر قید ہوگیعمران خان کو بشری بی بی کو طلاق دینی ہوگیعمران خان کا مینڈیٹ تسلیم کرنا ہوگافیصل واوڈا کو جیسا پیغام ملتا ہے ویسا پہنچاتا ہے۔ وہ کمپنی کا ایک قاصد بن کر رہ گیا ہے ہمنا عمران نامی صارف نے کہا کہ میاں بیوی کو الگ کرنا شیطان کا پسندیدہ کام ہے اور فیصل واوڈا بہترین کردار نبھا رہے ہیں نیا پاکستان نے ردعمل دیا کہ اب طلاق دینا اور لینا حکومت کے بتائے گی؟یہ حکومت چاہے تو شادی چلےگی؟ کامران نے کہا کہ اگر فیصل واوُڈا کی جان پہ بات آئے تو کیا یہ اپنی جان بچانے کے لیے اپنی بیوی کو طلاق دے گا، معصومانہ سوال ثاقب کھرل نے لکھا کہ سارا غصہ بشری بی بی پرہے، اور وجہ نامعلوم سحرش مان نے تبصصرہ کیا کہ پہلے عمران خان سے معافی چاہیے تھی اب اس سے طلاق چاہئے ہے ۔۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے معافی تو نو مئی کے لیے چاہئے ۔ طلاق کیوں چاہیے ؟ سعید عمران نے جواب دیا کہ کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں عمران خان کو جان بچانی ہے تو فلاں سے شادی کرنا ہوگی، یہ کیا گھٹیا سیاست چل رہی ہے طارق متین نے ردعمل دیا کہ عمران خان معافی مانگو سے عمران خان طلاق دو تک ۔ باؤلے پن کی انتہا محمد عمیر نے لکھا کہ ریاست پاکستان کا غیر شرعی نکاح سے طلاق دو تک کا سفرعمران خان ختم شد زبیر علی خان نے کہا کہ عمران خان معافی مانگو سے عمران خان طلاق دو تک قمرمکین نے لکھا کہ ماتم!ماتم!ماتم اس سسٹم پر اور اس میڈیا پر تہ دل سے ماتم بشارت راجہ کاہ کہنا تھا کہ عمران نے ان کی آتما رولنے کے ساتھ ساتھ ایسی مت وجائی کہ اب یہ اُلٹے سیدھے بیان دے کر زندہ رہنا چاہتے ہیں۔
چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد بٹ نےانکشاف کیا ہے کہ 12 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں، انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ سب جانتے ہیں غیرملکی شہریت کے لیے لوگ ڈھائی سے پانچ لاکھ ڈالر تک ادا کر رہےہیں۔آپ نےیہ رقم کہاں سے حاصل کی، اپنے ملک میں توآپ ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیراحمد بٹ کا کہنا تھا کہ وہ دس کھرب ڈالر لگائیں لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں آپ نے یہ رقم کہاں سےحاصل کی،اپنےملک میں توآپ ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے۔ رائے ثاقب کھرل نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ آپ نے اگر دیکھنا ہو کہ پاکستان کی حالت آج ایسی کیوں ہے تو یہ ایک بیان چیئرمین نیب کا آپکو سب سمجھا دے گا۔ حضرت فرماتے ہیں بارہ لاکھ لوگ پاکستان سے باہر چلے گئے۔۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ئے کہ یہ پیسہ باہر کیسے لے کر گئے۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ بارہ لاکھ لوگوں کا ملک چھوڑ دینا انکے کیے مسئلہ نہیں: ہیسے باہر جانا مسئلہ ہے۔ صبیح کاظمی نے تبصرہ کیا کہ صبیح کاظمی لکھتے ہیں کہ 12 لاکھ لوگ پاکستان سے اپنے زیورات، گھربار اور زمینیں بیچ کر گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرائے، رہائش اورکھانے کے لیے جو پیسے نوجوان اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں وہ ان کے اپنے تھے لیکن چیئرمین نیب اسے منی لانڈرنگ میں شامل کر رہےہیں۔ فراز چوہدری نے ردعمل دیا کہ جب لوگوں کو اہلیت اور میرٹ کی بجائے دوستی اور ذاتی تعلق کی بنیادوں پر اداروں میں لگایا جائے گا تو ملک کا بیڑہ غرق ہی ہوگا۔ احمد جواد کا کہنا تھا کہ جی پوری قوم انتظار کر رہی ہے دوبئی لیکس کے 12 ارب ڈالرز دوبئی کیسے پہنچے، مقصود چپڑاسی کون تھا؟ اربوں روپے کی ٹی ٹیز کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ ریڑھی والے کے اکاؤنٹ میں اربوں کیسے آتے تھے، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیلئے پیسہ کہاں سے گیا؟ پنڈورا لیکس والے کہاں سے پیسہ لاۓ؟ پانامہ لیکس والوں کا کیا ہوا؟ ایان علی کے ڈالرز کا کس سے تعلق تھا؟ ایک صارف نے لکھا کہ ان کو یہ باتیں کرتے شرم نہیں آتی کہ لوگ 5لاکھ ڈالر دے کر جا کیوں رہے ہیں ؟ کیوں ان جیسے حراموں نے عام آدمی کا جینا حرام کیا ھوا ھے۔ کاروبار کر نہیں سکتے عبدالرزاق ثاقب نے طنز کیا کہ جس ملک میں زرداری اور شوباز کرپشن پہ پیغام جاری کریں چییرمین نیب کرپشن پہ بات کرے اور مریم چین کے دورے پہ ہو یا تو چین والے عقل سے پیدل ہیں یا ہماری ہی قسمت خراب ہے یا عنقریب ساری دنیا مریخ پہ جا رہی ہیں اور ہم ہی اس زمین پہ زلیل و خوار ہونےوالے ہیں ایک اور صارف نے کہا کہ حیرت ہے کہ اس کو اربوں ڈالرز کی چوری پہ سوال پوچھنا نہیں آیا مگر چند لاکھ ڈالرز پہ تشویش ہوگئی؟
پاکستان میں اس وقت میڈیا پر بے تحاشا پابندیاں اور قدغنیں ہیں، صحافیوں کی زباں بندی جاری ہے، حکومت سے اختلاف رکھنے والے کئی صحافی نوکریوں سے فارغ ہوچکے ہیں جبکہ بعض صحافی مقدمات کی زد میں ہیں تو کئی گرفتار ہوچکے ہیں۔ میڈیا پر تحریک انصاف پر بھی کئی پابندیاں عائد ہیں، تحریک انصاف کے اہم ایونٹس اور پریس کانفرنسز کو بلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے جبکہ عمران خان کا نام اور تصویر چلانے پر پابندی ہے اور عمران خان کا نام لینے کی بجائے "بانی پی ٹی آئی" کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ایک نجی چینل پر میڈیا پر پابندیوں کا ذکر ہوا تو رؤف کلاسرا نے کہا کہ ہم تُن کر شو بھی کرتے ہیں اور پھر رولا بھی ڈال دیتے ہیں کہ ہمیں آزادی نہیں ہے ساری آزادیاں ہمیں ملی ہوئی ہیں آپ مجھے کوئی بندہ بتائیں جسے آپ اپنے پروگرام میں نہیں بلا سکتے ! رؤف کلاسرا ۔۔۔ صحافی عمران ریاض نے اس پر ردعمل دیا کہ مجھے بلا لیں سب پتہ چل جائے گا۔ اس پر رؤف کلاسرا نے ٹویٹ کیا کہ علی امین گنڈاپور کو بلالیں مگر بعدازاں ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا صحافی طارق متین نے رؤف کلاسرا کو جواب دیا کہ سر، عمران ریاض کو دوسرے نمبر پہ رکھیں پہلے ارشد شریف کی والدہ کی سپریم کورٹ والی درخواست شو میں پڑھ دیں اور ان کو سامنے بٹھا کر سوالات کریں اور “ تن کے “ شو کر دیں واصف چوہدری کا کہنا تھا کہ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ رؤف کلاسرا کو پی ٹی آئی نے ایسا کون سا وٹا مارا ہے کہ یہ بالکل ہی باولا ہو گیا ہے۔ اب تو اپنا بغض اور نفرت چھپانے کی بھی کوشش نہیں کرتا۔ عادل راجہ نے رؤف کلاسرا کو جواب دیا کہ اتنا ہی تن کر شو کرسکتے ہیں تو مجھے بلا کر دکھائیں پھر! سامنے جس مرضی کو بٹھا لیں۔۔۔ کھلا چیلینج ہے سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ رؤف کلاسرا صاحب کی حالت بھی اس متشدد ذہن رکھنے والے مولوی کی طرح ہے جو اپنے گرد دائرہ لگا کر دیگر کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کلاسرا صاحب سمجھتے ہیں کہ یہ اگر اپنے پروگرام میں کسی بھی بندے کو بلا سکتے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے میڈیا آزاد ہے، لیکن یہ سوال خود سے نہیں پوچھتے کہ اپنے ٹاک شو میں عمران خان کا نام لینے، تصویر چلانے یا اس کی کوئی فوٹیج چلانے پر پابندی کیوں ہے جبکہ اس بابت کوئی عدالت حکم یا پابندی بھی نہیں۔ سعید بلوچ کا کہنا تھا کہ تجزیہ کار مخصوص ہیں، کون ایسا کرتا ہے؟، فہرست کہاں سے آتی ہے؟ عمران خان کے جلسے یا احتجاج کی کوریج نہیں ہوتی کون روکتا ہے؟ بلال رانا نے ردعمل دیا کہ مسٹر کلاسرا بندہ تو دور کی بات ھے تم ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر کا خالی نام بھی نہیں لے سکتے۔۔پھر دعوی کیسا۔ ذیشان نے کہا کہ مہرنگ بلوچ کو بلاسکتے ہیں؟ الطاف حسین سے بات کرسکتے ہیں؟ منظور پشتین کو بلا سکتے ہیں ؟ سب چھوڑیں عمران خان کا صرف نام بھی لے سکتے ہیں ؟ شاید کا کہنا تھا کہ ٹاؤٹ اتنی ہمت ہے تو عمران خان کا نام لو جو صحافی اغوا ہوتے ہیں انکو بلاؤ
ڈی چوک احتجاج کے دوران رینجرز کی جانب سے ایک شخص کو نماز پڑھتے کنٹینر سے پھینکنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جسے نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی شئیر کیا اور اس پر خوب تبصرے ہوئے اس شخص کے بارے میں مختلف دعوے کئے گئے، جتنی بلندی سے انہیں نیچے پھینکا گیا، خیال یہ تھا کہ یہ شخص زندہ نہیں رہے گا اور کچھ پی ٹی آئی سپورٹرز نے اسے شہید ڈیکلئیر کردیا مگر وہ شخص زندہ تھالیکن وہ شخص کون تھا کسی کو معلوم نہیں تھا۔ اس پر ن لیگ سوشل میڈیا سپورٹرز ایک ویڈیو سامنے لے آئے اور کہا کہ یہ شخص رحیم افغانی ہے۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ رحیم افغانی دوستوں سے شرط لگا کر کنٹینر پر ٹک ٹاک بنانے کیلئے چڑھا تھا اور اب تک زندہ بھی ہے۔ یہ ویڈیو زنجم ولی خان، رضی دادا جیسے صحافیوں اور حکومتی عہدیدار اور سابق صوبائی وزیر رانا مشہود نے شئیر کی تھیں۔ مگر اسی اثناء میں ساجد تارڑ نامی ایک تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر اس شخص کی تفصیلات سامنے لے آئے جو اصل میں رحیم افغانی نہیں تھا بلکہ منڈی بہاؤالدین کا طاہر عباس تارڑ تھا، اسکے بعد ن لیگی سپورٹرز کا یہ پروپیگنڈا جھوٹا ثابت ہوا۔ صحافی ادیب یوسفزئی نے "جب طاہر عباس تارڑ رحیم افغانی بنے" کے نام سے کالم لکھا اور اس شخص کی تمام تفصیلات بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کارکنان پر کریک ڈاؤن ہوا جس میں کئی رپورٹس کے مطابق براہ راست فائرنگ بھی ہوئی تاہم حکومت اس کی تردید کر رہی ہے۔ اس دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کارکن کنٹینر پر نماز کی ادائیگی میں مصروف تھا کہ رینجرز اہلکار اس کے قریب پہنچے۔ مختصر وقفے کے بعد رینجرز اہلکاروں نے اس کارکن کا ایک دھکا دیا لیکن وہ کنٹینر کے ساتھ لٹک گیا تاہم رینجرز اہلکاروں کے دوسرے دھکے سے وہ گر پڑا۔ انکے مطابق یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔ پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے بغیر تصدیق کیے اسے 'شہید' قرار دیا اور اپنا پراپیگنڈا جاری رکھا۔ کئی صارفین نے اس پر تنقید کی تو متعدد صارفین ایسے بھی تھے جو کنٹینر پر نماز کی ادائیگی سے متعلق سوالات اٹھا رہے تھے۔ اس ویڈیو پر بھی کام شروع کیا تاہم کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملا۔ ابھی تک اس کارکن کو 'شہید' قرار دیا جا چکا تھا۔ ادیوب یوسفزئی نے انکشاف کیا کہا کہ اچانک کسی طرح میں طارق محمود ساہی صاحب سے جڑا جو منڈی بہاؤالدین سے سابقہ ایم پی اے ہیں۔ ان کی اہلیہ زرناب شیر گزشتہ عام انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئیں ہیں۔ ان کی جیت پر میں نے سٹوری کی تھی اس لیے ان سے رابطہ با آسانی ہوگیا۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں باسمہ ریاض چوہدری(منڈی بہاؤالدین ) سے بھی ملاقاتیں ہوچکی ہیں تو ان سے بھی رابطے کی کوشش کی۔ طارق محمود ساہی صاحب سے معلوم ہوا کہ کمٹینر سے گرائے جانے والے کارکن کا تعلق منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ گاؤں پنڈی کالو سے ہے اور ان کا نام طاہر عباس تارڑ عرف بابا ہے۔ اب تک یہ دعوے سوشل میڈیا پر بھی گردش کرنے لگے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تک طاہر عباس تارڑ کی فیملی سے کسی نے رابطہ نہیں کیا تھا کہ اچانک پنجاب حکومت کے ترجمان اور سابق صحافی کوثر کاظمی کی ٹویٹ نظر سے گزری جس میں انہوں نے ایک شخص کی 'با پردہ' ویڈیو لگائی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ کنٹینر سے گرائے جانے والے کارکن زندہ ہیں۔ اس شخص کا لہجہ پشتونوں والا تھا تاہم مجھے شک گزرا۔ اس کے بعد پی ٹی وی کے نجم ولی خان اور رضوان رضی نے بھی یہ ویڈیو لگائی۔ ان دونوں صحافیوں نے دعوٰی کیا کہ یہ رحیم افغانی ہیں جو کہ ٹک ٹاکر ہیں اور انہوں نے کنٹینر پر نماز ادا کرنے کے لئے دوستوں کے ساتھ شرط لگائی تھی۔ ادیب یوسفزئی کے مطابق طاہر عباس تارڑ کی فیملی سے رابطہ جب سرکاری صحافیوں کی جانب سے افغانیوں اور پشتونوں کے خلاف پراپیگنڈا سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو میں نے طاہر عباس تارڑ کی فیملی سے رابطہ کیا۔ ان کی فیملی میں کئی افراد سے بات ہوئی اور انہوں نے پوری کہانی بتائی لیکن ساتھ ہی اسے میڈیا پر نہ لانے کی شرط رکھی۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک ان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا لیکن مجھے یقین دہانی کروائی کہ کل وہ طاہر عباس سے ویڈیو کال کے ذریعے میرا رابطہ کروائیں گے۔ میں نے طاہر عباس تارڑ کے نمبر پر بھی رابطہ کیا۔ ان کو میرے میسجز پہنچے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ادیب یوسفزئی نے مزید کہا کہ صبح جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ طاہر عباس کہیں غائب ہوگئے ہیں اور ان کے والد، چچا اور بہنوئی کو پولیس کے ایک اعلیٰ افسر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ طاہر عباس تارڑ کا نمبر بھی اس دن سے آج تک بند ہے۔ سلامت تارڑ(فرضی نام) جو کہ ان کے بھتیجے ہیں، نے مزید بتایا کہ ان کی فیملی کو خطرہ ہے اس لیے اب آپ اس پر ہماری مدد کریں لیکن پولیس کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ پراپیگنڈا، پراپیگنڈا اس دوران کئی پراپیگنڈا ہوئے۔ ایک طرف حکومت نے طاہر عباس تارڑ کو ٹک ٹاکر کہا جو کہ وہ نہیں تھے۔ صحافی احمد وڑائچ نے کہا کہ کیا ’رحیم افغانی‘ والی فیک نیوز پھیلانے، پشتون قوم کیخلاف پراپیگنڈا پر رانا مشہود (آپ کا ویژن ہے سر والے)، رضوان رضی، نجم ولی وغیرہ کو جیل/جرمانہ ہو گا؟ یا یہ صرف مخالفین کیلئے ہے؟ مسرت چیمہ نے سکرین شاٹس شئیر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت کی جانب سے نوازے جانے والے صحافی و پی ٹی وی کے ملازم رضی دادا اور نجم ولی خان کے خلاف جھوٹ پھیلانے اور پراپیگنڈا کرنے پر کوئی کاروائی ہوگی یا تمام قوانین صرف مخالفین کے خلاف ہی استعمال ہونے ہیں؟ حکومتی صحافیوں اور حکومت کی جانب سے پھیلائی جانیوالی خبروں پر عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ یوٹیوبرز سے زیادہ حکومت کو درست حقائق پیش کرنے، مبالغہ آرائی سے گریز اور غیرذمہ دارنہ و سنسی خیز بیانات سے پرہیز کی ضرورت ہے۔
کچھ روز قبل عمران ریاض نے ایک دعویٰ کیا تھا کہ ابصار عالم جب چئیرمین پیمرا تھا ، میری کسی سے لڑائی ہوئی، جس سے میری لڑائی ہوئی اسکا تعلق نوازشریف کے گھر سے تھا، مریم نواز نے ابصارعالم کو کہا کہ ابصار عالم کو کس دو، جس پر ابصارعالم نے مجھے نوٹس بھیج دیا انکے مطابق میں نے ابصارعالم سے کہا کہ میں نجی زندگی میں جو بھی کروں اس سے پیمرا کا کیا تعلق ہے؟ اگر میں نے کسی پروگرام میں ایسی کوئی بات کی ہے تو آپ کو یہ اختیار حاصل ہے۔جس پر ابصارعالم نے کہا کہ مجبوری ہے بس جانے دیں،مجھے ایک لیٹر لکھ دیں میں نے کہا کہ میں کیوں لیٹر لکھوں عمران ریاض نے مزید کہا کہ یہ بیچارا اپنی نوکری کی وجہ سے ایک عورت کے ہاتھوں مجبور ہوگیا تھا،یہ پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوتا تھا وہ جو اسے کہتی تھی، یہ وہی کرتا تھا، یہ بیچارا غلامی کرتا رہا ہے اس پر ابصارعالم نے بھی عمران ریاض پر جوابی وار کیا اور پیمرا کا نوٹس سامنے لے آئے۔ اور کہا کہ عمران ریاض کو پیمرا نوٹس کی اصل وجہ ! عمران ریاض نے کہا یہ ذاتی معاملہ تھا۔ کیا کار چوری “ذاتی معاملہ” ہے؟ اس پر اینکر عمران ریاض بھی سامنے آگئے اور ابصارعالم کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابصار عالم اب بھاگنا مت میری یاداشت بدترین تشدد کے بعد بھی الحمدللہ اچھی ہے یہ معاملہ ایک ایسے ماہر کار چور کا تھا جس نے پولیس سے ملی بھگت کرکے کروڑوں کی گاڑیاں چوری کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لین دین پر تنازعہ ہوا تو پولیس نے اسے پکڑ کر جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا اور کروڑوں کا مال ہڑپ لیا اسکے بھائیوں نے جعلی مقابلے کے خلاف آواز اٹھائی تو اسکے 4 بھائی جو ملوث نہیں تھے وہ بھی اٹھا کر قتل کر دیئے۔ ان لڑکوں کی ماں میرے پاس فریاد لائی تو معاملہ کھل گیا۔ عمران ریاض کا مزید کہنا تھا کہ پولیس والوں نے شریف خاندان تک سفارش پہنچائی اور پھر اس ٹاؤٹ نے یہ نوٹس بھیجا جسکا میرے پروگرام یا پیمرا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عدالت میں پولیس زمہ دار نکلی اور عدالت کے احکامات کے باوجود ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شریف خاندان کا دور ایسے بے شمار مظالم سے بھرا پڑا ہے جس پر ابصار عالم جیسے وظیفہ خور سرکاری عہدوں کے لالچی پردے ڈالتے رہے ہیں آج بھی یہ شخص سانحہ ڈی چوک کا چشم دید گواہ ہونے کے باوجود اپنے آقاؤں کی گردن بچانے کے لیے اپنا ضمیر بیچ رہا ہے۔ اس پر صحافی طارق متین نے ردعمل دیا کہ افسوسناک ! جانتے بوجھتے کہ رینجرز والے ایک بیوروکریٹ کے خاندان کی گاڑی سے شہید ہوئے۔ آپ پوڈ کاسٹ اور ٹی وی پر اسے مظاہرین کی شہادتوں کے مقابلے میں پیش کرتے رہے ہیں ۔ اتنا مکروہ کام کرنے کے بعد بھی آپ یہ دعوے کر رہے ہیں سب کو میمونہ سمجھا ہوا ہے آپ نے۔ جس پر عمران ریاض نے مزید کہا کہ یہ ایک بہروپیا اور جھوٹا شخص ہے جو بیچارہ توجہ کا بھوکا ہے۔ شریف خاندان کی سیاسی تباہی نے اسکے اعصاب پر بجلی گرائی ہے۔ سرکاری نوکری کی اتنی بڑی قیمت تو آجتک کسی نے نہیں چکائی۔ مریم کی غلامی سے بہتر تھا کہ یہ شخص صحافت چھوڑنے کے دعوے کے بعد کوئی اور کام کر لیتا۔ جسے لوگوں کا بہتا خون دکھائی نہ دے اس سے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اینکر عمران ریاض نے ابصارعالم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اچانک میرا پاؤں کسی کی دم پر پورے طریقے سے آگیا ہے جسکے بعد بے شمار ٹاؤٹس اور نواز شریف اور اسکی بیٹی کے زرخرید غلاموں کے پٹے کھول دیئے گئے ہیں۔ اگلے چند دن بڑے دپچسپ ہونے والے ہیں کیونکہ میں نے پاؤں نہیں اٹھانا اور ان کی چیخیں نہیں رکنی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی صنعتوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ پر اتنے دن تک نواز شریف اور انکے قریبی لوگوں کی خاموشی بلا وجہ نہیں ہے۔ بڑی خبر آ رہی ہے۔
تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے فوجی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم۔۔ سابق فوجی افسران اورصحافیوں کی مذمت۔۔ کیا یہ مہم کامیاب ہوگئی ہے؟ سانحہ ڈی چوک پر کارکنوں کی ہلاکتوں پر تحریک انصاف کے کارکنوں اور سپورٹرز میں شدید غم وغصہ ہے جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر کررہےہیں، اس ضمن میں تحریک انصاف کے سپورٹرز نے فوجی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم چلارکھی ہے جس پر سابق فوجی فسران، صحافیوں نے تشویش کااظہار کیا ہے تحریک انصاف کے سپورٹرز کا دعویٰ ہے کہ انکی یہ مہم کامیاب ہورہی ہے کیونکہ عمران خان کے چاہنے والے کروڑوں میں ہیں، اگر کروڑوں لوگ اس مہم کا بائیکاٹ کریں گے تو انکو معاشی نقصان ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ وہ فوجی صنعتی اور کاروباری اداروں کو کیوں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؟ تو اسکا جواب انکے پاس یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے ہی ٹیکسوں کے پیسے کے بل پر ادارے کھڑے کئے ہیں اور اسی پیسے سے ہم پر ظلم کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حمایتیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب پی ٹی آئی رہنماؤں اور حامیوں کے کاروبار تباہ کئے جارہے تھے تب انہیں خیال نہیں آیا۔ اگر اس کمائی سے شہداء کے بچوں کو پیٹ پلتا تھا تو جو کاروبار ہم نے محنت سے کھڑے کئے تھے ان سے ہمارے بچوں کا پیٹ پلتا ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے سابق فوجی افسر بریگیڈئیر(ر)اشفاق احمد نے ردعمل دیا کہ جو کہتے تھے ملک بھی پمارا فوج بھی ہماری۔ وہ فوج کے ادارے پر حملہ آور ھو گئے اور فوجی ادارے کی مصنوعات کے بائیکات کا حکم دے دیا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ مصنوعات ادارے کی ملکیت ھیں اور ان سے شہیدوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔ یہ ادارے اور شہیدوں کے خلاف اعلان جنگ ھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باھر بیٹھے ھوئے لوگوں نے خان کو جیل پہنچایا اور اب نہیں چاہتے کہ وہ باہر آئے۔ جو لوگ اس مہم میں ملوث ھیں پی ٹی آئی کی قیادت کو ان کے خلاف فوری ایکشن لینا چاہئے۔ مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے جس طرح فوج کے صنعتی اداروں اور مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ مہم چلا رہے ہیں وہ شرمناک ہے بائیکاٹ کی مخالفت کرنیوالوں کا کہنا ہے کہ فوج کی زیرنگرانی چلنے والے یہ صنعتی اور کاروباری ادارے پاکستانی ہیں،ان کو نقصان پاکستان کو نقصان ہے۔ اگر فوج سے شکایت ہے تو اسکا شائستہ اور مناسب انداز میں اظہار کی جاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج سے اگر اختلاف کرنا ہی ہے تو سیاسی طور پر کریں، کاروباری اداروں کو نقصان نہ پہنچائیں،یہ پاکستان کی فوج ہے جو ہماری حفاظت کرتی ہے یہ اسرائیلی فوج نہیں ۔ پاک فوج کے جوان ہمیں دشمن سے بچانے کیلئے اپنے پیاروں سے دور ہماری حفاظت کررہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو انہیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹنا چاہئے اور قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے اس طرح کی مہم نہیں چلانی چاہئے۔ اس پر تحریک انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی عدالتوں کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک شخص کو رہائی ملتی ہے تو پولیس پہلے سے ہی کیس بناکر گرفتار کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ دونوں جانب سے موقف پر غیرجانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ تشویشناک ہے، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ تحریک انصاف کی شکایات ہیں تو انہیں دور کرے، ان سے مصالحانہ رویہ رکھے۔ طاقت کا استعمال کسی طور پر بھی ٹھیک نہیں۔ غیرجانبدار حلقوں کا مزید کہنا ہے کہ اسکے لئے ڈائیلاگ بہت ضروری ہے، تمام فریقین کو بیٹھ کر تحریک انصاف کی شکایات کا زالہ کرنا چاہئے، اگر وہ ریاست سے ناراض ہیں مگر ہیں تو پاکستانی۔۔نفرت کا جواب نفرت میں دیا جائے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
گزشتہ روز حماد اظہر نے ایک ٹویٹ کی جس پر فیصل واوڈا شدید سیخ پا نظر آئے اور ن صرف گھیٹا ویڈیو کی دھمکی دیدی اور دعویٰ کیا کہ اس گھٹیاویڈیو کے بعد حماداظہر نے اس خاتون سے شادی کی تھی۔ حماداظہر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ تو اس ہی دن ہار گئی تھی جب اپنا ترجمان مقرر کرنے کے لئے انہیں فیصل واڈا، حسن ایوب، رضی دادا اور سہیل ورائچ جیسے نمونوں کے علاوہ کوئی بھی نا ملا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے مخالفین کے گھر کی خواتین اور بچوں کو کوئی بزدل ہی دھمکی دیتا ہے۔ نہتے شہریوں پر کوئی شکست خردا حریف ہی گولی چلاتا ہے۔ اس پر فیصل واوڈا کافی سیخ پا نظر آئے اور کہا کہ حماد اظہر تیرے ٹویٹ کا جواب۔ نمونہ پھر بہتر بہ نسبت تیرے جیسے بھگوڑے بزدل سے۔ فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ تو وہ بزدل ہے جو اپنی گھٹیا ویڈیو کے بعد دوسری شادی کے باوجود اسے قبول نہ کرے، تو وہ بزدل ہے جس نے عمران خان کی پیٹھ پیچھے چھرا گونپا ۔ تو وہ بزدل ہے جو کسی کال پر ٹویٹ کے علاوہ سامنے نہیں آیا۔ فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ تو وہ بزدل ہے جو اپنے بزرگ باپ کو چھوڑ کے بھاگ گیا۔ میں تیری اور تیری پارٹی طرح نہ بزدل ہوں نہ گھٹیا ہوں کہ تیری ویڈیو دکھا دوں۔ مجھے قوم کی ماں بہن بیٹیوں کی شرم ہے۔ تو چوہے کی طرح بل میں چھپنے کی بجائے باہر آ۔۔ بزدل بھگوڑے۔ اس ٹویٹ کے بعد حماداظہر بھی پیچھے نہ رہے اور فیصل واوڈا کو ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا کہ تم وہ ہو جو ساری عمر جھوٹ اور فراڈ کے سہارے پلتے رہے۔ عمران خان کی کابینہ میں سوائے خان کی چاپلوسی اور مالش کے تمھاری کوئی اوقات نا تھی۔ لیکن وقت آنے پر غدار اور بوٹ چاٹ ٹاؤٹ بن گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج جس کو تو اپنی عزت سمجھ رہا ہے وہ عبرت ہے۔ تیرا نام آج ایک گالی بن چکا ہے
سوشل میڈیا پر #PushtoonLivesMatter کے نام سے ایک ٹرینڈ ٹاپ پر ہے ۔یہ ٹرینڈ سانحہ ڈی چوک کے بعد تب نظر آیا جب اچانک پولیس کا کریک ڈاؤن شروع ہوگیا اور کئی پشتون ریڑھی بانوں، مزدوروں کو پولیس نے پکڑ کر بند کردیا اور ان پر 9 مئی کا کیس بنادیا۔۔ ان میں سے بعض پشتون ریڑھی بانوں نے انکشاف کیا کہ پولیس والے ان سے مفت کھانا ، مونگ پھلی اور جوسز لیتے تھے ، بھتہ بھی لیتے تھے جب ہم نےانکار کیا تو ہمیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔بعدازاں ایمان مزاری کی کوششوں سے انہیں رہائی ملی اسی طرح کے مزید واقعات بھی سامنے آئے ،ایک شخص کو ڈی چوک واقعے پر پکڑا گیا جس نے کہا کہ وہ کباڑخانے میں نوکری کرتا تھا اور وہ اس دن وہاں مزدوری کررہا تھا جبکہ صحافی عدنان حیدر نے انکشاف کیا کہ انکے جاننے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو صرف اسلئے پکڑا گیا کیونکہ وہ پٹھان تھا۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس پر سخت ردعمل دیا، کچھ صحافیوں نےد عویٰ کیا کہ اسلام آباد میں پشتونوں کی پروفائلنگ ہورہی ہے، انہیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ وہ اسلام آباد سے چلےجائیں۔ سوشل میڈیا پر سخت ری ایکشن دیکھ کر اسلام آباد پولیس کو ردعمل دینا پڑا اور کہا کہ پشتون ہمارے بھائی اور ہمیں عزیز ہیں۔ غیور اور بہادر پشتون اس وطن عزیز کے محافظ ہیں اور پاکستانی قوم کا فخر ہیں۔ حالیہ امن عامہ کی صورتحال کے دوران کسی بھی پر امن پشتون کو ہرگز حراست میں نہیں لیا گیا۔ اس پر صحافی اے وحید مراد نے کہا کہ اصل خبر یہ ہے کہ اسلام آباد میں پنجاب سے لائے گئے محسن نقوی کی ایما پر پشتون پروفائلنگ ہو رہی ہے۔ محسن نقوی اور دیگر وزرا کے اس حوالے سے متعدد بیانات موجود ہیں سوشل میڈیا صارفین کے مطابق پشتونوں کے خلاف مہم اور کریک ڈاؤن اسلئے چل رہا ہے تاکہ پنجابی پشتون کو لڑایا جاسکے عدیل حبیب کا اس پر کہنا تھا کہ ن لیگ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پورا پاکستان ان سے شدید نفرت کرتا ہے۔ ان کی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے، اور اب ان کے پاس صرف لسانیت کی سیاست کا سہارا رہ گیا ہے—یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی۔ پنجابیوں کو پختونوں کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن یہ دور انفارمیشن کا ہے، اور لوگوں کو بیوقوف سمجھنا اب ان کی بھول ہے۔ ان کی قسمت میں اب صرف ذلت اور رسوائی لکھی ہے۔ راشد نے تبصرہ کیا کہ اگر قومیت کے نعرے پر ووٹ ملنا ہوتا تو پختونخوا میں اے این پی، کراچی میں ایم کیوایم، سندھ میں قوم پرست جماعتوں اور بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کو ملتے، سندھ میں پیپلزپارٹی قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ وڈیروں کے اثرورسوخ، اور بھٹو کی وجہ سے ووٹ لیتی ہے ۔ شفاء یوسفزئی نے ردعمل دیا کہ محبت محبت کو جنم دیتی ہے اور نفرت نفرت کو جنم دیتی ہے۔ شاہد خٹک کا کہنا تھا کہ پشتون قوم کے ساتھ اسلام آباد میں جو ہورہا ہے قابل مزمت ہے پاکستان کو بنانے میں ہمارے ابا و اجد کا خون شامل ہے آئ جی اسلام آباد مسلم نون کا نمائندہ بن چکا ہے بہتر وردی اُتر کر عملی سیاست کا حصہ بن جائے ندا نے عوام سے اپیل کی کہمیں نے نوے کی دہائی میں کراچی کو لسانیت کی آگ میں جلتے دیکھا ہے اس وقت بھی سندھی پختونوں اور مہاجروں میں کچھ ایسے باشعور لوگ بھی تھے جو نجی محفلوں میں اس لسانیت کے خلاف بات کرتے تھے اور اس کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، پنجابی پختونوں سے ہاتھ جوڑ کر گذارش ہے کہ آپ اس سازش کو سمجھیں
گزشتہ روز سہیل وڑائچ نے ایک کالم لکھا جو بادی النظر میں صحافی اقدار کے منافی تھا، یہ کالم ڈی چوک میں ہونیوالی اموات سے متعلق تھا جس کا سہیل وڑائچ نے مذاق اڑایا اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارتے رہے۔ سہیل وڑائچ عمران خان کو ڈونکی راجہ کے نام سے پکارتے رہے جبکہ بشریٰ بی بی پر جادو ٹونے کالزام عائد کرتے رہے اور بشریٰ بی بی کے موکلوں، جنوں کا تذکرہ کرتے رہے اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ حکومت تو پاگل لگتی ہے جو یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ لاشیں دکھائو، جنازے ثابت کرو، 278 نام سامنے لائو، یہ سراسر احمقانہ مطالبہ ہے، روحوں کی لاشیں کہاں ہوتی ہیں، ان کے جنازے کہاں ہوتے ہیں، وہ تو موکل تھے، جن تھے، روحیں تھیں، سب جادو کا کارخانہ ہے سوشل میڈیا صارفین نےا س کالم پر سخت ردعمل دیا اور کہا کہ سہیل وڑائچ نے ڈی چوک میں گرنے والی لاشوں کا مذاق اڑایا ہے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کی سہیل وڑائچ نے زبان استعمال کی اس طرح کی زبان کوئی گھٹیا ٹرول بھی استعمال نہیں کرتا۔ سیاستدان جیسا بھی ہو عزت کے قابل ہے اسکا مذاق اڑانا، الٹے سیدھے ناموں سے پکارنا سہیل وڑائچ کو زیب نہیں دیتا۔ ڈاکٹر شہبازگل نے سہیل وڑائچ کے نام کھلاخط لکھتے ہوئے سہیل وڑائچ کی صحافت کو "صحافتی بواسیر" قرار دیا اور انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کو آرے ہاتھوں لیا۔ احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ یہ الفاظ کسی انتہائی گھٹیا ٹرول کے تو ہو سکتے ہیں، صحافی کے نہیں ہو سکتے، سیاستدان جو بھی ہو عزت کرنی چاہیے۔ سہیل وڑائچ صاحب کی جو تھوڑی بہت عزت دل میں تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ افسوس ہے کہ یہ صاحب میرے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتہائی افسوسناک انہوں نے مزید کہا کہ کل ملک احمد نے تحریک انصاف کو انتشاری، فتنہ کہا تو سہیل وڑائچ وہاں کھڑا سر ہلاتا رہا۔ آج کالم میں ڈونکی راجہ، رانی، موکل، جادو، جن وغیرہ لکھا ہے۔ لاشوں کا مذاق اڑایا ۔ بلاشبہ اس قماش کے گھٹیا دانشوڑ ملک کی بڑی 3 لعنتوں میں سے ایک ہیں۔ ان ہی گھٹیا افراد نے ہمیشہ جرائم کو وائٹ کیا رائے ثاقب کھرل نے ردعمل دیا کہ محترم سہیل وڑائچ صاحب کے لب جو جنازے اٹھے ان پر تو نہیں اٹھے : جن اور موکل کی کہانیاں سنانے جناب کا قلم چل پڑا۔۔ حضور صحافت اسی لیے معتبر پیشہ مانا جاتا ہے کیونکہ اس میں سختیاں بھی آتی ہیں۔۔ لیکن کچھ لوگ سختیاں جھیلے بغئر معتبر اور دانشور کہلوانا چاہتے ہیں۔ صحافی طارق متین نے تبصرہ کیا کہ سہیل وڑائچ صاحب کا آج کا کالم کم سے کم لفظوں میں بھی گھٹیا ہے۔ 23ستمبر 2108 کو موصوف نے بشری بی بی سے ایک واقعہ منسوب کیا اور چھ دن بعد 29ستمبر کو اس پر معافی مانگی تھی آج کے کالم میں ایک خاتون کی تضحیک کی، ایک سابق وزیراعظم کی تضحیک کی اور لاشوں کا مذاق اڑایا ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اس تجربے اور اس عمر میں آکر کسی سندھیلے یا کسی گجر خاتون جیسا کام کرنا افسوسناک ہے ۔ وڑائچ صاحب نواز شریف کی بیماری کے بعد رہائی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے قلمی خدمات پیش کرتے ہوئے اگر وہ جیل میں مر گیا جیسا کالم بھی لکھ چکے ہیں ۔ عمران بھٹی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ انکا نام سہیل وڑائچ ہے،،بدقسمتی کہ یہ صاحب شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں،بغض اور خوشامد نے انکی زہنی حالت بگاڑ دی ہے،،خوش قسمتی ہے کہ یہ بھی ایکسپوز ہوچکے ہیں،۔۔یہ موصوف ایک جماعت کے سربراہ کو ڈونکی راجہ کہہ رہے ہیں،،،اگر کسی طور پر بھی ایک صحافی کو زیب دیتا ہے تو رہنمائی فرمائیں؟ احمد جنجوعہ کا کہنا تھا کہ سہیل وڑائچ کا کالم پڑھ کر یقین ہو گیا ہے کہ ایسی گھٹیا تحریر جنگ اور جیو کا ملازم ہی لکھ سکتا ہے ۔ فرحان منہاج نے لکھا کہ سہیل وڑائچ نے آج جنگ میں گھٹیا ترین کالم لکھ کر شریف خاندان کے بھنگی ہونے کا ثبوت دیا ہے سحرش مان نے ردعمل دیا کہ سٹیج ڈانسر مہک ملک کے بیڈ روم میں گھس کر انتہائی گھٹیا اور ذومعنی سوالات کرنے والے (جس پر ڈانسر بیچاری شرمندہ ہو جائے ) انسان سے آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ زبان و بیان، اخلاق و اقدار کا دیوتا ہو گا ؟ ان کی ٹوٹل حیثیت دو مسترد شدہ خاندانوں کے سیپی سے زیادہ کچھ نہیں پاکستانیت کا کہنا تھا کہ یہ صحافی نہیں ، نواز شریف نے جاتی عمرہ کے باڑے میں سؤر پالے ہوئے ہیں ، ساری عمر رزق حرام پہ پالا گیا ہے ان کو ، کسی مخالف کی ماں بہن محفوظ نہیں ، جبکہ مریم کے سامنے ہاتھ باندھ کے یہ مؤدب ہوتا کھڑا ہوتا ہے، ان حرام خوروں کو ننگا کریں گے تو ملک بچے گا حسان بلوچ نے ردعمل دیا کہ اس سرزمین کا مقدر المیہ ہی ہونا تھا کہ یہاں سہیل وڑائچ ، عرفان صدیقی اور عطاء اللہ قاسمی جیسے فطری بدیانت لوگ دانش ور اور مدبر سمجھے جاتے رہے ہیں شوکت بسرا نے تبصرہ کیا کہ سہیل وڑائچ اور اس جیسے کئی اور ٹاوٹ، دلال اور حرامی صحافی نہیں بلکہ گندی نالی کے گندے کیڑے ہیں،کیونکہ ایک قلم فروش صحافی ایک جسم فروش طوائف سے زیادہ بد کردار ہوتا ہے
گزشتہ روز بیرسٹر گوہر نے عمران خان سے ملاقات کی، انکا کہنا تھا کہ عمران خان کو مظاہرے، دیگر معاملات پر معلومات فراہم کی، بانی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ عمران خان کو رینجرز، پولیس اور پی ٹی آئی کے 12 شہداء کا بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مخالفین تفرقہ ڈال رہے ہیں، ہم سنگجانی میں تھے یا جہاں بھی تھے گولی نہیں چلنی چاہیے تھی۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارا ڈی چوک آنا مقصد نہیں تھا، نہ پارٹی رہنماؤں کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا گیا، لوگ صرف شہادتوں سے توجہ ہٹانے کیلئے سنگجانی اور ڈی چوک کی بات کر رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کی اس ہومیو پیتھک پریس کانفرنس پر سوالات اٹھنے لگے، حسنین رفیق نے ردعمل دیا کہ عمران خان سے وہ تمام لوگ آج ملکر آئے ہیں جو ڈی چوک کے لیے نکلے ہی نہیں انھوں نے خاک سچ بتانا تھا عمران خان کو سید ذیشان عزیز کا کہنا تھا کہ عمران خان اور اس کے مشن کے سب سے بڑے دشمن اسی کے اپنے ساتھی ہیں ، یہ لوگ آہستہ آہستہ عوام کا اعتماد اور اُمید دونوں ختم کرتے جا رہے ہی صبیح کاظمی نے تبصرہ کیا کہ جس عمران خان کو ہم جانتے ہیں وہ بھی ایسا بیان نہیں دے سکتا جو ابھہ بیرسٹر صاحب فرما رہیں ہیں۔۔۔ سحرش مان نے طنز کیا کہ بیرسٹر گوہر فرما رہے ہیں خان صاحب نے کہا ہے سب اچھا ہے ۔ ایسے ملاقاتی رہے توحکومت کے لئے ستے خیراں بشارت راجہ کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر کے ساتھ وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے والا چشمے پہنے علی محمد خان بھی تھا جو ہاتھ میں تسبیح لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے کہ درود پاک پڑھ کر جھوٹ بولا جائے جمیل فاروقی نے ردعمل دیا کہ بیرسٹر گوہر کی پی ٹی آئی میں حیثیت ہی کیا ہے ؟ ڈھنگ سے ایک سوال کا جواب تو دے نہیں پاتا ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو حقائق کا پتہ ہی نہیں کہ کیا کچھ اب تک ہوچکا ہے ثمینہ پاشا نے تبصرہ کیا کہ جس عمران خان نے ایک شہباز گل پر تشدد کے اوپر اتنا سخت موقف لیا، پوری ریلی نکالی ، خود لیڈ کیا اور الٹا اپنے اوپر دس اور مقدمے بنوا لئے وہ کارکنوں کی شہادت اور بر بریت کے واقعے پر ایساہومیو پیتھک ردعمل دے بات کچھ ہضم نہیں ہوتی مقدس فاروق اعوان نے سوال اٹھایا کہ عمران خان نے کیا سوچ کر بیرسٹر گوہر کو چیئرمین پی ٹی آئی بنایا ؟ صدیق جان نے تبصرہ کیا کہ عمران خان سے آج تمام وہ رہنما ملے ہیں ،جن میں سے کوئی ایک بھی ڈی چوک نہیں پہنچا تھا ،بلکہ ڈی چوک کے لیے نکلا ہی نہیں تھا کیونکہ یہ سب تو 24 نومبر کی فائنل کال کے ہی خلاف تھے ،انہوں نے اصل حقائق خان کو بتائے بھی نہیں ہوں گے ، پریس کانفرنس سے صاف پتا چل رہا ہے کہ کیسی رپورٹ اندر دی گئی ہے ، اسی لیے اخبار بند کیا گیا تھا کہ جو یہ جا کر بتائیں ،خان کو وہی سچ لگے دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ملنے والوں کا نام بھی کسی ایف آئی آر میں نہیں ہے انورلودھی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سگی بہنوں کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن بیرسٹر گوہر کو کھلی اجازت ہے، جب چاہتے ہیں ملتے ہیں.. اسکے پیچھے کیا منطق ہے؟ محمد عمیر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر گوہر کی آج کی پریس کانفرنس کافی مشکوک ہے۔پنجاب جہاں سے لوگ نہیں نکلے،وہاں کے اراکین کو شاباش دلوائی،خود ڈی چوک نہ آنے کے سوال کو تفرقہ قرار دیا اور کہاں وہاں جانا کوئی مقصد نہ تھا۔ ورکرز کی عیادت کے لیے ہسپتال نہ آنے کے سوال پر کہاں ہم مصروف تھے،گولی چلانے والوں پر بھی موقف نہیں دیا۔اہم بات یہ بھی کہ بیرسڑ گوہر چئیرمین ہیں ان پر کوئی مقدمہ نہیں ہے اور عمران خان سمیت دیگر تمام قیادت ہر پرچے میں نامزد ہے۔
آج عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی عمران خان سے ملاقات نہ ہوسکی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت ہوئی لیکن عمران خان کی فیملی کے لوگوں کو نہیں جانے دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان سے بیرسٹر گوہر، علی محمد خان نے ملاقات کی جو ڈی چوک احتجاج کے دوران نظر نہیں آئے جبکہ فیصل چوہدری اور علی ظفر کو عمران خان کا وکیل ہونیکی وجہ سے ملاقات کی اجازت مل سکی۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران سب کو جانے دیا لیکن فیملی کو جانے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں 5 گھنٹے سے اڈیالہ کے باہر موجود ہوں، وکلاء اور میڈیا کو اندر جانے دیا ہے، لیکن فیملی کو اجازت نہیں ملی۔ اُن کو یہی فکر ہورہی ہے کہ میں باہر آکر خان صاحب کا پیغام نہ دے دوں۔ عمران افضل راجہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف سیاستدان بنے وکلا اور علی محمد خان کو عمران خان سے ملنے دیا گیا، بہنیں نہ مل سکیں انہوں نے مزید کہا کہ “جیل ٹرائل کے نام پر خفیہ ٹرائل چلا کر دنیا کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیںورنہ کہاں ہوتا ہے کہ ٹرائل پر فیملی کو نہیں جانے دیا جائے؟موجودہ ٹرائل دراصل ملٹری ٹرائل ہی ہے جہاں جج سے لے کر اٹارنیز اور گواہان تک مینیج کیے ہوئے ہیںسب فراڈ چل رہا ہے”۔ شفقت علی نے کہا کہ علیمہ خان کو ملاقات سے روک کر باہر کی اصل صورتحال اندر اور اندر کی اصل صورتحال باہر آنے سے روکا گیا ہے جانے والے بھوتیے تھے اس لئے انہیں سمجھا بجھا کر بھیجا گیا وہ رٹو طوطے ہیں صدیق جان کا کہنا تھا کہ بہنیں پانچ گھنٹے باہر کھڑی رہیں لیکن نہیں ملنے دیا گیا ،بیرسٹر گوہر کو پورے پروٹوکول سے اڈیالہ کے اندر لے جایا گیا
صدیق جان نے ابصارعالم کا ایک کلپ شئیر کیا جو صدیق جان کے مطابق یوٹیوب پر اپلوڈ پروگرام سے نکلوادیا گیا تھا، اس کلپ میں شیرازاحمد شیرازی نے شرکت کی جس نے ڈی چوک پر تحریک انصاف کے احتجاج کو مکمل کور کیا تھا گفتگو کرتے ہوئے شیراز احمد شیرازی نے کہا کہ تقریبا 12 کے قریب تحریک انصاف کے ورکرز ضرور جاں بحق ہوئے ہیں،تحریک انصاف کے سننٹرل میڈیا نے بھی ان کےنام اور تصاویر جاری کردی ہیں،باقی دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو وہاں پر موجود نہیں تھے کوئی 10 منٹ کیلئے آیا تھا اور کوئی 20 منٹ کیلئے صدیق جان نے کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ابصار عالم نے پروگرام کیا کہ جھوٹ کیسے بکتا ہے اور بہروپیے نے اپنے لائیو پروگرام کے بعد یوٹیوب پر اپ لوڈ کیے گئے پروگرام سے یہ کلپ نکلوا دیا جھوٹے کا اپنا جھوٹ پکڑا گیا یہ ہے ان کی اصل اوقات اس پر ابصارعالم شدید غصے میں نظر آیا اور صدیق جان کو ٹیڈی کتا قرار دیدیا۔ ابصارعالم نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہیلو ڈی جی آئی ایس پی آر ایک طرف تُم لوگ ٹی وی چینلز پر لائیو نشریات میں کہی ہوئی بات کو سینسر کرواتے ہو جس میں ورکنگ جرنلسٹ کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور پھر اپنے اس جیسے پالتو ٹیڈی کتوں کا پٹہ ہم پر کھول دیتے ہو جو آج بھی تُمہاری بیرک کے سامنے راتب وصول کرنے روزانہ پہنچے ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی بھی دل نہیں بھرا ایسی گیمز سے؟ صحافی فہیم اختر نے اس پر ردعمل دیا کہ ابصار عالم صاحب آپ کی شکایت لگ گئی؟ اب بتائیں کلپ کیوں نکلوایا کیوں ؟صدیق جان نے جس بات کو پوائنٹ آوٹ کیا اس کا آپ نے جواب نہیں دیا اور گالیوں پر اتر آئےجو اس بات کا ثبوت ہے کہ کلپ نکلوایا گیا صحافی طارق متین نے ابصار عالم کو جواب دیا کہ حوصلہ کیجیے ابصار صاحب، پروگرام پر آئی ایس پی آر کٹ لگائے تو ان سے اور چینل مالک سے ہر بار سوال کیجیے ۔ اعصاب چٹخ گئے ؟ گالیاں مت دیجیے ۔ یہ صدیق جان ہے وہ بچی میمونہ نہیں ۔ ڈاکٹر وقاص نواز نے ابصارعالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس ٹویٹ میں صدیق جان کی خبر کی تردید نہیں بلکہ توثیق کی گئی - پیغام رساں کو برا بھلا کہنے کی بجاے اصل موضوع پر آئیں- آپ کا یہ ٹویٹ اس امر کا اعتراف ہے کہ آپ نے ایڈٹ ہوئی وی وڈیو لگائی جس میں سے یہ بارہ اموات والی صحافی کی بات کو حذف کردیا گیا اور ڈی جی ای ایس پی آر کو ٹیگ کرکے آپ اس موقف کو تقویت دے رہے ہیں کہ یہ سب آرمی کہ کہنے پر آپ نے کیا
صحافی ماجد نظامی نے مریم نواز کا 2021 کا ٹویٹ شئیر کیا جو 2 صحافیوں عامر میر اور عمران شفقت سے متعلق تھا جنہیں 2021 میں اغوا کیا گیا تھا مریم نواز نے 2021 میں ٹویٹ شئیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ہی دن میں دو صحافیوں کا اغوا نہایت ہی تشویشناک ہے۔صحافی برادری کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اس میں کوتاہی مجرمانہ ہے۔ تنقید کرنے پر کسی کو غائب کردینا غیر اعلانیہ مارشل لا ہے۔ کس کس کو چپ کرائیں گے؟ اب تو پورا ملک بول رہا ہے۔یہ حرکتیں آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گی۔ افسوس! اس پر صحافی ماجد نظامی نے کہا کہ مریم نواز صاحبہ! رات بھی دو صحافیوں کا اغوا ہوا جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔ تنقید کرنے پر کسی کو غائب کر دینا غیر اعلانیہ مارشل لا ہے، جس کا حصہ آج آپ بھی ہیں۔ کس کس کو چپ کرائیں گے؟ اب تو پورا ملک بول رہا ہے۔ واقعی یہ حرکتیں آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گی۔ افسوس! اس پر وزیراطلاعات پنجاب بول پڑیں اور کہا کہ آپ ان لوگوں کو صحافی کہتے ہیں جو جھوٹی خبریں ڈالروں کے لئے پورے ملک میں آگ لگوانے کا دھندہ کرتے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ جو رینجر اہلکاروں کی ہلاکت پہ جھوٹ بولتے ہیں،فرضی لاشیں ڈھوںڈتے پھرتے ہیں تاکہ پراپیگنڈہ سیل میں حاضری لگوائی جاسکے،یہ صحافت ہوتی ہے؟ ماجد نظامی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پلیز اپنے بیچ میں سے ایسے لوگوں کو خود علیحدہ کریں یہ آپ کا فرض ہے ماجد نظامی نے اس پر عظمیٰ بخاری کو جواب دیا کہ عرض یہ ہے کہ مطیع اللہ جان کے خلاف ایف آئی آر میں آپ کی جانب سے لگائے گئے ان تمام الزامات کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ وہ نشے کی حالت میں گاڑی چلا رہے تھے اور ان سے آئس برآمد ہوئی ہے۔ رانا ثنا اللہ پر ہیروئن کے مقدمے کی یاد تازہ ہو گئی احمد نورانی نے اس پر کہا کہ مطیع نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ رینجرز والے واقع پر مطیع اللہ جان کی رپورٹنگ سو فیصد درست تھی۔ جو بعد میں ثابت بھی ہوئی۔ لاشوں کے بارے ہسپتال حکام نے خود تصدیق کی۔ جنازوں تک کی تپورٹنگ ہوئی۔ افسوس ن لیگ اس حد تک گِر گئی کہ مطیع اللہ جان پر اتنے غلیظ الزام لگانے لگی۔ بے نظیر شاہ نے عظمیٰ بخاری کو جواب دیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی ویڈیو میں، مطیع اللہ متاثرہ کے بھائی کا نقطہ نظر پیش کر رہے تھے، جو کہ ایک صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام نقطہ نظر کو اجاگر کرے، بجائے اس کے کہ اندھا دھند ریاست کے بیانیے کو قبول کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک یہ تصدیق کرنا کہ آیا پی ٹی آئی احتجاج کے دوران کوئی ہلاکتیں ہوئیں، یہ بھی ایک صحافی کی ذمہ داری کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ورنہ، حکومت مظاہرین کے زخمی ہونے کے بارے میں اسپتال کے ڈیٹا کو کیوں چھپا رہی ہے، اور طبی عملہ میڈیا سے بات کرنے سے کیوں انکار کر رہا ہے؟ انکا مزید کہنا تھا کہ آخر میں، یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات یہ سمجھتے ہیں کہ اس سب—چاہے وہ حقیقی رپورٹنگ ہو یا غلط معلومات کی ترسیل—اغوا یا جھوٹے ایف آئی آرز کے اندراج کو جواز فراہم کر سکتا ہے۔ ثمینہ پاشا نے طنز کیا کہ چلو بھئی۔۔ محترمہ عظمیٰ بخاری کا فتویٰ آ گیا ہے ۔۔ اب پتہ چلا ہے کہ مطیع اللہ جان بھی صحافی نہیں ہیں۔۔ البتہ عمران خان کے دور میں وہ صحافی تھے اس لئے شہباز شریف اور مریم نواز وغیرہ نے ان کی گمشدگی پر آواز اٹھا ئی تھی۔ مبشرزیدی نے سوال کیا کہ اور اس ریاست کو کیا کہتے ہیں جو جھوٹے کیس بناتی ہے مریم نواز خان نے ردعمل دیا کہ ٹھیک ہے، درج ایف آئی آر کو ثابت کرا دیں اور اس میں کوئی ایک بھی الزام آپ کی ان فرمودات سے مطابقت رکھتا ہو تو بتا دیں وی لاگر وسیم اعجاز جنجوعہ نے کہا کہ ہاں جی صحافی صرف وہ ہی ہے جو شریف خاندان کا میراثی بن کر رہے شیراز حسن نے سوال کیا کہ صحافی جعلی خبریں پھیلاتا ہے اس لیے اس پر منشیات اور دہشت گردی کا مقدمہ کروا دو۔ یہ مشورے آپ کو کون دیتا ہے؟
اسلام آباد سے رینجرز، پولیس اور فوج کے اہلکاروں نے دھرنا اٹھالیا جس کے لئے خون کی ہولی کھیلنا پڑی اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ 100 سے زائد لوگوں کی شہادت ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے دھرنے کے خاتمے پر ن لیگی سپورٹرز اور عمران مخالفین نے خوشی کا اظہار کیا ۔ خواجہ سعد رفیق نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے اسے فائنل کال مسڈ کال کہا۔ خواجہ سعد رفیق جو خود کو جمہوری اقدار کے حامل کہتے ہیں، مشرف دور میں انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی انکے اس روئیے پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے حیرت کا اظہار کیا۔ اس پر قاسم سوری نے جواب دیا کہ بیشرم پٹواری لاشوں پے جشن منا رہےہو بڑے بیغیرت ہو، غیرت والوں نے تمہارے باپ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی سنائپرز، ایس ایم جیز، پیلٹ گنز، گرینیڈز، ایکسپائرڈ شیلز کا خالی ہاتھوں جوانمردی سے مقابلہ کیا سینوں پے گولیاں کھائیں، اپنےباپ کے شب خون مارنے پر خوش ہو تیرے مردانگی پر لعنت ڈاکٹر شہبازگل نے خواجہ سعد رفیق کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ شرم کر خواجہ۔ ابھی تو ہم لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ تیرے طعنوں کا کیا جواب دیں۔ مخالف ہی سہی نسلی تو رہو۔ اتنا نیچے گرنے کی کیا ضرورت ہے ذوالقرنین کھرل نے ردعمل دیا کہ یہ جناب کہتے ہیں ان کو جمہوری کہا جائے ان سے بڑے دوغلے لوگ آپ نے نہیں دیکھے ہوں گے۔ خواجہ صاحب کو انسانی زندگیاں نظر نہیں آئی۔ رہا سہا احترام بھی گیا آپ کے لی احمد بوباک نے ردعمل دیا کہ خواجہ سعد رفیق تمہیں اللہ اس دکھ سے بچائے کیونکہ تم یہ برداشت نہیں کر سکو گے۔ نیچے کمیونٹی نوٹ ہی پڑھ لو بے شرم آدمی ابھی تو شہدا کی لاشیں تک نہیں مل رہیں اور تم انسانیت بھول بھی گئے نئیر بخاری نے کہا کہ پہلی نظر میں مجھے یہ ٹویٹ خواجہ آصف کا لگا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ خواجہ سعد رفیق بھی اس حد تک گر سکتا ہے کہ لاشوں کا مذاق اُڑاۓ ایم ایس خان کا کہنا تھا کہ ابھی ماؤں کو بچوں کے جسد نہیں ملے خواجہ سعد رفیق الله سے ڈر گولیوں کے آگے نہتے شہریوں کی جانیں گئیں اور تو فرعون بن کر طنز کر رہا ہے، الله تجھے بھی یہ دن دکھائے ایک صارف نے کہا کہ اللہ مخالفین بھی اصلی اور نسلی دے تم جیسے بیغیرتوں کو بندہ کیا کہے۔ سعدیہ نے کہا کہ دشمن مرے تے جشن نہ کریئے سجن وی مر جانا۔۔
تمام تر مزاحمت کے بعد تحریک انصاف ڈی چوک پہنچی تو رات کے اندھیرے میں ان پر گولیاں چلادی گئیں جس کی وجہ سے کئی کارکن شہید اور زخمی ہوئے۔۔ تحریک انصاف کے دعوے کے مطابق جاں بحق کارکنوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جبکہ محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ایک سے 2 درجن ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جارہی ہے۔ اس بربریت کے بعد تحریک انصاف کو دھرنا ختم کرنا پڑا جس پر ن لیگی رہنماؤں، کارکنوں اور حامی صحافیوں نے تحریک انصاف پر خوب جملے بازی کی، حسب معمول خواجہ آصف بھی پیچھے نہ رہے۔ اپنے ایک ایکس پیغام میں خواجہ آصف نے تحریک انصاف پر جگتیں کستے ہوئے کہا کہ ان سے بہتر تو کھاریاں کے کھسرے تھے جو تھانے سے اپنے گرو کو چھڑوا کر لے گئے تھے سوشل میڈیا صارفین نے خواجہ آصف کی زبان پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انسان اتنے گھٹیا بھی ہوسکتے ہیں، افسوس کہ یہ ہمارے ملک کا وزیردفاع ہے،کیسے کیسے بے حس لوگ ہم پر مسلط کردئیے گئے ہیں۔ مبشر زیدی نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ اس لحاظ سے شہباز شریف کیا ہوئے جو اپنے بھائی کی گرفتاری پر لاہور میں ہوتے ہوئے ائرپورٹ نا پہنچ سکے؟ طارق متین نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ آپ کے گرو سب سے اچھے نکلے دونوں بار خود بھاگ گئے صحافی مریم نواز خان نے ردعمل دیا کہ منہ کو خون لگ جائے تو وزیر دفاع کے منہ سے بھی اپنی مثالیں نکل آتی ہیں شاد بیگم کا کہنا تھا کہ یہ طرز کلام ہے ایک وفاقی وزیر کا۔ ہمارے ملک میں سمجھدار اور سلجھے ہوئے لوگوں کی قحط پڑ گئی لہذا ایسے لوگ وفاقی وزیر بن گئے ہیں ایک صارف نے کہا کہ ور اللہ جن کے دِلوں پر مہر لگا دیتا ہے، اُن کے کانوں اور آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور یہی ان کے لیے سب سے بڑی سزا ہے۔ سائرہ بانو نے ردعمل دیا کہ مسئلہ یہ ہے اس بار کھسروں نے گرو کے کہنے پر عوام پر دھاوا بولا مطلب دونوں باری کھسروں کو پلڑا بھاری رہا اکرام یوسفزئی نے تبصرہ کیا کہ ایسے کمی کمین لوگوں کو حکومت دی ہے، ایسی زبان تو اڈہ چلانے والوں کی بھی نہیں ہوتی۔ صحافی مہوش قمس خان نے کہا کہ افسوس ایسے لوگ اس ملک پے حکمرانی کر رہے رضوان غلزئی نے کہا کہ انسان اتنے گھٹیا بھی ہوسکتے ہیں ا سحرش مان نے ردعمل دیا کہ ایک عورت سے زلت آمیز شکست کھا کر اسکے ووٹ چوری کرنے سے تو بہتر تھا آپ ہیجڑاہوتے، جگتیں اچھی مارتے ہو ،کاروبار خوب چلتا ایک صارف نے کہا کہ استغفراللہ۔ یہ وزیر دفاع ہنس رہا ھے۔۔ دشمن بھی مرے تو انسان ہنستا نہیں ھے۔ اور یہ تو سیاسی حریف تھے صرف ۔ اللہ سب دیکھ رہا
اعزازسید نے دعویٰ کیا ہے کہ مریم نواز نہیں چاہتی تھیں کہ جیل کے جس عذاب سختیوں اور ٹراما سے میں گزری ہیں ہمارے سفاک سیاسی مخالفین کی خواتین بھی اسی ٹراماسے گزریں اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ایک اہم اوربڑی میٹنگ ہوئی جہاں کوئی بھی بشری بی بی اور علیمہ کی رہائی کےحق میں نہ تھا وہاں مریم نواز نےسٹینڈ لیا کہ بشری و علیمہ کو رہا کردینا چاہیے اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے سوال اٹھایا اگر یہ بات ہے کہ پھر عدت کا کیس کیوں بنوایا تھا؟ توشہ خانہ کیس اور عدت کیس میں بشریٰ بی بی کو کئی ماہ تک کیوں قید میں رکھا گیا؟ بشریٰ بی بی کے دوبارہ وارنٹ کس نےجاری کروائے؟ طارق متین نے طنز کیا کہ بنانا عدت کا کیس اور دلوانا ہمدردی کی گواہیاں جیتنا فارم47 پہ اور کہلانا وزیراعلی ن لیگی کارکن نے کہا کہ مریم نواز صاحبہ! آپ نے تو مہر لگا دی کہ بشریٰ پر مقدمات سیاسی بنیادوں پر ہیں اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔کیا آپ مجرم تھیں جو آپ نے اسے خود سے کمپیئر کیا؟ ایک اور کارکن نے کہا کہ بہت غلط سٹینڈ لیا بہت غلط سوچ ہے اور اسی کو بھگت رہے ہیں سب۔ اصل بات یہ ہے کہ نوازشریف نے بھائی اور بیٹی کا احسان اتارنے کیلئے یہ حکومت کی ذلالت لی۔یہ دونوں وردی پہننے کے شوقین ہیں اسی لیے آرمی کی فین فولوونگ کی طرح ان پر فدا ہیں ملک کی تباہی میں انکی نااہلیت یا بےفکری شامل ہے ایک لیگی کارکن نے دوسرے سے کہا کہ بس کر دے عدیل۔۔۔ نہ خون جلا اور نہ ہی اپنی خواہشات پوسٹ کرتا جا بھائی، اعزاز سید کہہ رہا ہے کہ بشری کو جناب مریم کی خواہش پر رہائی ملی ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔۔ انکی اہنی ہی الگ دنیا ہے اور اپنی ہی الگ گیم ہے۔۔۔ ہم تم کہیں نہیں گنے جاتے ۔۔ کچھ نہیں ہو گا۔
گزشتہ روز کرم ایجنسی میں دہشتگردوں نے وحشیانہ حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت تقریبا 50 افراد کو شہید کر دیا، جس نے پورے علاقے کو خون میں نہلا دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی لاپرواہی اور فورسز کی ناکامی کی وجہ سے دہشتگردوں نے اس سفاکانہ کارروائی کو انجام دیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قومی میڈیا اور حکومت نے اس سانحے کو نظر انداز کر دیا اور اپنی توجہ سیاسی معاملات پر مرکوز رکھی۔ اسی دوران وزیردفاع خواجہ آصف نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں وہ عوام کو سانحہ کرم پر تسلی دینے یا کوئی واضح پالیسی بیان دینے کے بجائے، سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے رہے۔ ان کی گفتگو کا زیادہ تر حصہ بشریٰ بی بی پر طنزیہ جملے بازی اور دیگر غیر متعلقہ معاملات پر مشتمل تھا۔ یہ صورتحال عوام میں شدید غم و غصے کا باعث بنی ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین حکومت اور میڈیا کی بے حسی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سانحہ کرم کے شہداء کے لیے انصاف فراہم کیا جائے اور دہشتگردی کے خلاف موثر اقدامات کیے جائیں۔ عبداللہ مومند نے کہا پختونخوا میں کل 100 لاشیں گری ہے مگر وزیر دفاع جن کو آج کرم میں متاثرہ لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے تھا وہ ٹی وی پر بھابی اور نند کی لڑائی بیان کررہے ہیں۔ شرم کا مقام ہے ن لیگ کے لیے۔ سینیئر صحافی ریاض الحق نے کہا یقین نہیں آتا کہ وزیر دفاع نے 45 منٹس کی پریس کانفرنس میں اتنے بڑے واقعے پر ایک لفظ تک نہیں کہا حامد میر نے کہا کرم کی صورتحال پر سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں فریق بن کر میڈیا نے اس قومی سانحے کو نظرانداز کر کے ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیا ہے ثاقب بشیر نے کہا آج کل ایسی دردناک خوفناک خبروں کو دبا کر سمجھا جاتا ہے سب اچھا چل رہا ہے یہ رویہ انتہائی افسوناک ہے ان قیمتی جانوں کے دردناک طریقے سے قتل عام کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیوں سیکورٹی میں ناکامی ہوئی ؟ کیا جو سیکورٹی دینے میں ناکام ہوئے ان کے خلاف کوئی ایکشن ہوگا ؟ یہ رہ سوالات ہیں جن کے جوابات آنے چاہییں ارم ضعیم نے ٹویٹ میں کہا بےشرم بے حیاء کل 100 سے زائد پاکستانی مار دیے گئے اور یہ بابا عمران خان کے گھر کے باہر سے نہیں اُٹھ رہا۔ کیسے بے حیاء ہیں بجائے متاثرین کے گھروں کو جانے کے اپنی جعلی حکومت کی بقاء کے لیے خان خان کر رہے ہیں۔ خان نے ٹھیک کہا تھا آپ بھی بے حیاء اور آپکے ہینڈلرز بھی بےحیاء
گزشتہ دنوں مفتی تقی عثمانی کراچی گورنر ہاؤس گئے جہاں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے انکا استقبال کیا، اس موقع پر مفتی تقی عثمانی نے کامران ٹیسوری کی تعریف کرتے ہوئے ایسے الفاظ بولد ئیے جس پر وہ تنقید کی زد میں آگئے۔ گورنر ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ حضرت عمر فاروق راتوں کو اٹھ کر گلیوں میں چکر لگا کر دیکھا کرتے تھے کون کس حالت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو بخشی، انہوں نے حضرت عمر کی روایت زندہ کی۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے مفتی تقی عثمانی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مفتی تقی عثمانی کو رات کی تاریکی میں گھومتا ہوا کامران ٹیسوری نظر آگیا لیکن دن دیہاڑے ریاستی جبر کیوں نظر نہیں آیا؟ ان کا کہنا تھا کہ مفتی تقی عثمانی اور راغب نعیمی جیسے علماء فتوی بیچ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں قاسم سوری نے تبصرہ کرتے وہئے لکھا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب کو رات کی تاریکیوں میں گھومتا ہوا کامران ٹیسوری تو نظر آ گیا لیکن پچھلے تیس ماہ سے دن دیہاڑے ہونے والا ریاستی جبر نظر نہیں آیا۔ ارشاد بھٹی نے تبصرہ کیا کہ نجانے کب اور کہاں مفتی صاحب نے خلقِ خدا کے لیے ٹیسوری صاحب کو گلیوں میں پھرتے دیکھ لیا۔ کہاں خلیفہ دوئم اور کہاں ٹیسوری صاحب؟ یقین نہیں آ رہا کہ مفتی تقی عثمانی ایسا کہہ سکتے ہیں۔ اس موقع پر اسد طور نے امام حنیفہ اور امام زین العابدین کے اقوال کا حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقی عُثمانی اور راغب نعیمی کی اصلیت امام ابو حنیفہ اور امام زین العابدین نےصدیوں پہلے بیان کر دی تھی امام ابو حنیفہ کا قول شئیر کرتے ہوئے کہا کہ "کسی عالم کو بادشاہ کے دروازے پر دیکھو تو اس کے ایمان پر شک کرو"، جبکہ امام زین العابدین کے بھی قول کا حوالہ دیا کہ "کسی عالم دین کو بادشاہوں کے محل میں آتا جاتا دیکھو تو اس سے دین مت لو" اس پر بشارت راجہ نے جواب دیا کہ مفتی تقی عثمانی اور راغب نعیمی فتوی بیچ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں حضور علی حسنین نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی مذہب کے سیاسی استعمال کی تمام حدیں پار کرتے ہوے امجد خان نے ردعمل دیا کہ استغفراللہ مفتی تقی عثمانی نے حضرت عمر کی توہین ہے
سابق وزیرخزانہ پی ٹی آئی اسد عمر نے گزشتہ روز اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہسیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن میں اعتراف کرتا ہوں ملکی معیشت بہتر ہوچکی میں معیشت کو مزید ابھرتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ انکا کہنا تھا کہ دو سال کی شدید معاشی مشکلات کے بعد، ہم بالآخر معاشی بحالی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ سب سے امید افزا شعبہ آئی ٹی کا ہے، جو برآمدات میں نمایاں ترقی دکھا رہا ہے۔ تاہم، انٹرنیٹ کنٹرول کے ناقص نفاذ کی وجہ سے یہ ترقی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اگر ہم نے اس مسئلے کو فوری طور پر حل نہ کیا تو یہ ابھرتے ہوئے ٹیکنالوجی کے شعبے کو کئی سالوں تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسد عمر نے مزید کہا کہ بہت سے ممالک، بشمول ہمارے قریبی اتحادی جیسے چین اور سعودی عرب، سخت ڈیجیٹل کنٹرول کے ساتھ مضبوط ٹیکنالوجی کی صنعتوں کے حامل ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ کنٹرول ایک سوچے سمجھے حکمت عملی کے تحت نافذ کیے ہیں اور ان کے ٹیکنالوجی کے شعبے ترقی کر رہے ہیں۔ ہمیں فوری طور پر اپنی ڈیجیٹل کنٹرول حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ابھرتے ہوئے آئی ٹی شعبے کو محفوظ کیا جا سکے۔ اسد عمر جو تحریک انصاف میں نمایاں مقام رکھتے تھے، عمران خان دور میں انہیں پہلے وزیرخزانہ بعدازاں وزیر پلاننگ بنایا تھا اور جب تحریک انصاف کی حکومت گئی تو وہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائزہوئے۔۔ تحریک انصاف نے سپورٹرز اور صحافیوں نے اس پر سخت ردعمل دیا۔ ایک صارف نے کہا کہ نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑیگا کے اسد عمر نے پاکستان اور بالخصوص عوام کے ساتھ دھوکہ کیا۔ اب جا کر کرپٹ اور دو نمبر جرنیلی کیمپ جوائن کر لیا۔ احمد بوباک کا کہنا تھا کہ اسد عمر نے انتہائی گہری چوٹ پہنچانے کی کوشش کی ہے اپنی ٹویٹ کے ذریعے ۔ اسد عمر نے تحریک انصاف کے مخالف بیانیہ کے حق میں ٹویٹ کیا ہے ۔ مخالف بیانیہ یہ ہے کہ " ملک معاشی طور پر مستحکم ہو رہا ہے اور 24 نومبر کی کال معاشی ترقی روکنے کی سازش ہے۔" تو اس عمر نے آج کیا ٹویٹ کیا ہے ؟؟ جائیں اور دوبارہ پڑھیں ۔ یہ سانپ ہیں سانپ عائشہ بھٹہ نے طنز کیا کہ "اسد عمر کو رہا کرو" سرفراز کا کہنا تھا کہ خان نے کل اسی لیئے عاصم منیر کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے پی ٹی آئی کے گند کو صاف کردیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ عزت بڑی مشکل سے کمائی جاتی ہے ، گنوانے کے لیے ایک پریس کانفرنس ہی کافی ہوتی ہے احتشام عباسی کا کہنا تھا کہ اسد عمر ایک نوسرباز تھا عمران خان سے جھوٹ بولتا رہا،،،پھر دغا دے کر پی ٹی آئی کو چھوڑ گیا،،آج ن لیگ کا بیانیہ پروموٹ کر رہا ہے
سوشل میڈیا پر ایک خط گردش کررہا ہے جسے ن لیگی کارکن اور عمران مخالف صحافی شئیر کررہے ہیں یہ مبینہ خط چیف سیکرٹری کی طرف سے تھا جس کے مطابق پچھلے لانگ مارچ میں 80 کروڑ روپے کا خرچہ ہوا تھا اور وہ 80 کروڑ روپے اب تک نہیں دئیے گئے۔ اس خط کا تذکرہ عظمیٰ بخاری نے بھی کیا اور کہا کسی نے 80 کروڑ خرچ والا جعلی ڈاکومنٹ شیئر کر دیا، میں تصدیق کرنے کے بعد شئیر کروں گی۔ پشاور کے مقامی صحافیوں نے اس خط کو جعلی قرار دیدیا اور کہا کہ دستاویزات میں ہمیشہ ملین کا لفظ استعممال ہوتا ہے کروڑ کا نہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنےو الے صحافی محمد فہیم نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ خط جعلی ہےسرکاری دستاویز میں کروڑ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ملین میں ادائیگی اور حساب ہوتا ہےکل رقم بھی ایسے صفروں سے نہیں بھرتی بلکہ ملین میں لکھی جاتی ہے تحریک انصاف کے ناقد سمجھے جانیوالے لحاظ علی نے شمع جونیجو کی پوسٹ پر ردعمل دیا کہ اس موصوفہ کو جعلی نوٹیفیکیشن پھیلانے اور مسلسل جھوٹ بولنے پر تمغہ امتیاز اور ڈاکٹری کی ڈگری ملی طارق متین نے کہا کہ ابھی میری وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے فوکل پرسن سے بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ یہ لیٹر فیک ہے

Back
Top