خبریں

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے بعد کراچی اور لاہور کی مخصوص فضائی حدود ایک ماہ کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق، پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث کراچی اور لاہور کی مخصوص فضائی حدود یکم مئی سے 31 مئی تک جزوی طور پر بند کر دی گئی ہیں۔ پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی (پی اے اے) نے اس حوالے سے ناٹم جاری کیا ہے جس کے مطابق کراچی اور لاہور کے فلائٹ انفارمیشن ریجن (ایف آئی آر) کی مخصوص فضائی حدود جزوی طور پر بند کی گئی ہیں۔ یہ بندش یکم مئی سے 31 مئی تک صبح 4 بجے سے صبح 8 بجے تک جاری رہے گی، اور اس دوران کمرشل پروازوں کا فلائٹ آپریشن متبادل روٹس کے ذریعے جاری رہے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز قومی ایئرلائن پی آئی اے کی گلگت اور اسکردو کے لیے پروازیں کچھ گھنٹوں کی تعطل کے بعد دوبارہ بحال کر دی گئی تھیں۔ ترجمان پی آئی اے کا کہنا تھا کہ تین گھنٹے تک فضائی حدود بند رہنے کی وجہ سے گلگت اور اسکردو کی پروازیں منسوخ کی گئی تھیں، تاہم فضائی حدود کھلنے کے بعد تمام پروازیں بحال کر دی گئی تھیں۔ ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ نے کہا کہ فضائی حدود کی بندش کی وجہ سے گلگت اور اسکردو کی پروازیں منسوخ کی گئیں، مگر فضائی حدود کھلنے پر تمام پروازیں دوبارہ بحال ہو گئیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت کو "انڈو پیسیفک میری ٹائم ڈومین اویئرنیس" اور اس سے متعلقہ سازوسامان کی ممکنہ فروخت کی منظوری دی ہے، جس کی مالیت تقریباً 13 کروڑ 10 لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ امریکی ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے اس مجوزہ دفاعی معاہدے کی باضابطہ اطلاع کانگریس کو دے دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت نے "سی ویژن" نامی سافٹ ویئر، اس میں تکنیکی بہتری، ٹیکنیکل اسسٹنس فیلڈ ٹیم کی تربیت، ریموٹ سپورٹ، اور دستاویزی رسائی سمیت دیگر لاجسٹک اور پروگرام معاونت حاصل کرنے کی درخواست کی ہے۔ امریکی بیان کے مطابق، یہ مجوزہ فروخت امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے مقاصد کو فروغ دے گی، کیونکہ اس سے امریکہ اور بھارت کے اسٹریٹجک تعلقات مضبوط ہوں گے اور انڈو پیسیفک اور جنوبی ایشیا کے خطے میں سیاسی استحکام، امن اور معاشی ترقی کو تقویت ملے گی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاہدے سے بھارت کی موجودہ اور مستقبل کی سمندری خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، خاص طور پر تجزیاتی استعداد اور اسٹریٹجک پوزیشننگ میں بہتری آئے گی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس سودے سے خطے میں فوجی طاقت کا توازن متاثر نہیں ہوگا۔
بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کے بعد دی جانے والی گیڈر بھپکیوں کے پیش نظر پاک فوج دشمن کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جنگی مشقیں پورے زور و شور سے جاری ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کا عملی مظاہرہ بھی کیا جا رہا ہے اور جنگی حکمتِ عملی کے مطابق افسران اور جوان اپنی پیشہ ورانہ مہارتیں بھرپور طریقے سے دکھا رہے ہیں۔ ان مشقوں کا مقصد دشمن کی کسی بھی جارحیت کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دینا ہے۔ اس سے قبل 29 اپریل کو پاکستان نے بھارت کو عملی طور پر منہ توڑ جواب دیتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر ایک ہی روز میں بھارتی فوج کے دو کواڈ کواپٹر مار گرائے تھے۔ واضح رہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے بے بنیاد الزام تراشی کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے بین الاقوامی برادری بھی میدان میں آگئی ہے، اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی ہم منصب جے شنکر سے ٹیلی فونک رابطے میں اس بات پر زور دیا کہ بھارت کشیدگی کم کرنے اور خطے میں امن کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔
امریکا کا بھارت پر زور: پاکستان کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرے، مارکو روبیو کی سفارتی سرگرمیاں امریکا نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے علیحدہ علیحدہ ٹیلیفونک گفتگو کی۔ مارکو روبیو نے بھارتی وزیر خارجہ سے بات کرتے ہوئے پہلگام حملے میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے امریکی عزم کا اعادہ کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کے مطابق، وزیر خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعمیری انداز میں کام کرے تاکہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سے قبل وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان بھی ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔ وزیر اعظم نے اس گفتگو میں جنوبی ایشیا کی حالیہ صورتحال پر پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 90 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے اور ملک کو 152 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مارکو روبیو نے اس موقع پر اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے دونوں ممالک کو باہمی تعاون اور بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے ایک ٹی وی پروگرام میں میزبان عادل شاہزیب کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ اس وقت پاکستان کو درپیش صورتحال میں تمام سیاسی جماعتیں اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آ چکی ہیں اور ملک کے دفاع کے لیے سب متحد ہیں۔ عطاء اللہ تارڑ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا" آج میں پاکستانی کی حیثیت سے سبز ہلالی پرچم کے نیچے بیٹھا ہوں۔ آج نہ یہاں مسلم لیگ (ن) ہے، نہ پی ٹی آئی، نہ پیپلز پارٹی، نہ اے این پی، نہ جے یو آئی، نہ ایم کیو ایم — آج صرف پاکستان ہے۔ آج ایک قومی اتفاقِ رائے کا پیغام پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سے بھی دیا گیا۔ ہم سب اکٹھے ہیں، سیاسی اختلافات نہیں رہے۔ ملک کی بات ہو تو ہم اپنی سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کریں گے، اور یہ پیغام پوری قوم کا ہے۔" انہوں نے اس موقع پر زور دیا کہ اس معاملے پر کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہو رہی، اور موجودہ حالات میں پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتیں ایک صف میں کھڑی ہیں۔ عادل شہزیب نے جب سوال اٹھایا کہ کیا آل پارٹیز کانفرنس بلانے پر غور کیا جا رہا ہے، تو عطاء اللہ تارڑ نے جواب دیا کہ آل پارٹیز کانفرنس سیاسی امور پر ہوتی ہے، مگر اس وقت ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ قومی اسمبلی کے فورم سے دنیا کو متحدہ آواز میں پیغام جانا چاہیے۔ یہ ایک سنجیدہ اور قابلِ عمل حل ہے، جس پر غور جاری ہے۔ ان شاء اللہ جلد فیصلہ ہو گا۔" جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پاکستان کی حکمت عملی کیا ہو گی، تو انہوں نے اسے حساس اور قانونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کر سکتا۔ ہمارے پاس قانونی ٹیم اور مواد موجود ہے۔ اٹارنی جنرل اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم قانونی طور پر مضبوط بنیاد پر کھڑے ہیں، اور ان شاء اللہ، جو بھی فورم ہو، پاکستان کا کیس مؤثر انداز میں پیش کیا جائے گا اور عالمی سطح پر ہمیں حمایت ملے گی۔" لائن آف کنٹرول کی صورتِ حال پر سوال کے جواب میں عطاء اللہ تارڑ نے واضح کیا کہ جہاں بھی بھارت کی جانب سے جارحیت ہوئی، اس کا مؤثر جواب دیا گیا۔ پاکستان اپنی پوری طاقت اور قوت سے اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔ دشمن کو ہر محاذ پر منہ توڑ جواب ملے گا۔" ا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 کے مجوزہ مسودے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے موجودہ صورت میں ناقابلِ عمل قرار دیا گیا ہے۔ پارٹی کی سہ رکنی نظرثانی کمیٹی نے 40 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ پارٹی قیادت کو ارسال کی ہے جس میں 20 سے زائد نکات پر اعتراضات اور ایک جامع ترمیمی بل لانے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیٹی کے سربراہ اور رکنِ قومی اسمبلی علی اصغر خان نے "آج نیوز" سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ موجودہ ڈرافٹ اگر نافذ ہوا تو خیبرپختونخوا جیسے وسائل سے مالا مال صوبے کے مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا، "ہم اپنے صوبے کا مستقبل غیر یقینی کی تاریکیوں میں دھکیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔" رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ میں "اسٹریٹجک منرلز" کی تعریف بہت وسیع ہے، جسے محدود کر کے صرف یورینیم، پٹرولیم اور ایکٹو عناصر تک رکھا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں، کمیٹی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ موجودہ مسودہ صوبائی خودمختاری، شفاف احتساب، اور قانون کی بالادستی کے اصولوں سے متصادم ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بعض شقیں ایس آئی ایف سی جیسے وفاقی اداروں کو صوبائی معاملات میں مداخلت کا موقع دیتی ہیں، جو آئینی حدود سے تجاوز کے مترادف ہے۔ ساتھ ہی فیڈرل منرل ونگ سے متعلق تمام حوالہ جات کو بھی قانون سے نکالنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ مسودے کے تحت میفا (MEFA) جیسے میکانزم کے ذریعے وفاق کو "بیک ڈور انٹری" دی جا رہی ہے، جس سے بااثر ادارے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ نیا قانون تمام صوبوں، بشمول ضم شدہ اضلاع کے لیے یکساں، شفاف اور منصفانہ ہونا چاہیے۔ ادھر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے مشاورت کا فیصلہ کر لیا ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر انہوں نے بھی ایکٹ پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے صوبائی اختیارات پر حملہ قرار دیا۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت، بشمول چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، اب اس رپورٹ کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ آئندہ حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں بھارتی حکومت نے ایک اور سخت قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی ڈرامے اور شوبز مواد دکھانے والے یوٹیوب چینلز پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ اس سے قبل بھارت نے 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کو جواز بنا کر پاکستان کے 16 سے زائد نیوز یوٹیوب چینلز، جن میں ڈان نیوز بھی شامل ہے، بند کر دیے تھے۔ اب بھارت نے معروف پاکستانی یوٹیوب چینلز جیسے اے آر وائے ڈیجیٹل، جیو ٹی وی اور ہم ٹی وی کو بھی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر بند کر دیا ہے۔ اس سے قبل بھارت میں معروف پاکستانی کرکٹرز شعیب اختر اور باسط علی سمیت دیگر مواد تخلیق کاروں کے یوٹیوب چینلز پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے۔ بھارتی ویب سائٹ ’سیاست‘ کے مطابق پاکستانی ڈراموں کی بھارت میں بے پناہ مقبولیت بھارتی حکومت کو ہضم نہیں ہو رہی تھی، اسی لیے اب شوبز چینلز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی عوام، خاص طور پر پاکستانی ڈراموں کے شائقین، نے سوشل میڈیا پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ DJEYPBNsokn دوسری جانب، پاکستان نے تاحال نہ تو کسی بھارتی نیوز یوٹیوب چینل اور نہ ہی بھارتی شوبز مواد دکھانے والے کسی چینل پر کوئی پابندی لگائی ہے۔ پہلگام حملے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی و عسکری کشیدگی بڑھ چکی ہے۔ بھارتی حکومت پاکستانی ویب سائٹس پر سائبر حملوں میں بھی تیزی لا چکی ہے اور اب مختلف پلیٹ فارمز پر پاکستان کے میڈیا مواد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حکومت نے مہنگائی کے ستائے عوام کو کچھ ریلیف دیتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 2، 2 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق: پیٹرول کی نئی قیمت 252 روپے 63 پیسے فی لیٹر ڈیزل کی نئی قیمت 256 روپے 64 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق آج رات 12 بجے سے ہو جائے گا۔ یہ کمی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث کی گئی ہے، جس کا فائدہ عوام تک منتقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سینئر تجزیہ کار محمد مالک نے انکشاف کیا ہے کہ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ آپ کشمیر میں مداخلت نہ کریں، ہم بلوچستان میں نہیں کریں گے سینئر صحافی محمد مالک نے ایک پروگرام میں انکشاف کیا کہ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں پاکستانی حکام سے ایک اہم ملاقات کے دوران بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا اعتراف کیا تھا۔ محمد مالک نے کہا کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی ایک عوامی تقریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ بھارت پاکستان کو بلوچستان میں سبق سکھائے گا۔ محمد مالک نے بتایا کہ وہ اس وقت شرم الشیخ میں موجود تھے جب اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی وہاں گئے، یوسف رضا گیلانی اور منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات کا جب مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، تو اُس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ اگر پاکستان کشمیر میں کچھ نہیں کرے گا تو بھارت بلوچستان میں دخل اندازی نہیں کرے گا،" انہوں نے مزید بتایا کہ "اس اعلامیے سے صاف ظاہر تھا کہ بھارت نے بلوچستان میں مداخلت کا اعتراف کر لیا ہے۔ جب ہم اعلامیہ کے بعد باہر کھڑے تھے، تو ہم نے ایک دوسرے سے کہا، یہ بلوچستان ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔" محمد مالک کے مطابق بھارتی میڈیا نے منموہن سنگھ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سوال اٹھایا کہ "آپ نے بلوچستان کے حوالے سے یہ اعتراف کیسے کرلیا، مگر افسوس کہ ہم نے کبھی دنیا کو یہ باتیں نہیں بتائیں۔ شرم الشیخ میں دو وزرائے اعظم نے بیٹھ کر یہ مانا کہ بھارت بلوچستان میں کارروائیاں کر رہا ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، وہاں مسلمان دونوں جانب موجود ہیں، اس پر کچھ حد تک بحث کی جا سکتی ہے۔ مگر بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کی کوئی اخلاقی یا قانونی بنیاد موجود نہیں۔ "اس ملاقات کا باضابطہ ریکارڈ موجود ہے، لیکن ہم نے اسے کبھی عالمی سطح پر اجاگر نہیں کیا،" مالک نے کہا۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "جو سخت سفارت کاری ہمیں کرنی چاہیے تھی، وہ ہم نہیں کر سکے۔"
پاکستان اور بھارت نے اپنے شہریوں کی باہمی واپسی کے بعد واہگہ اور اٹاری بارڈرز کو دوبارہ بند کر دیا ہے۔ دونوں ممالک نے رہ جانے والے شہریوں کی واپسی کے لیے خصوصی طور پر بارڈرز کھولے تھے جہاں آخری شہریوں نے ایک دوسرے کے ملک سے واپسی کی۔ کئی شہریوں نے اس موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "سیاست کی خاطر عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے والا کسی کا دوست نہیں ہو سکتا"۔ ان میں سے کچھ بھارتی شہری پاکستانی رشتہ داروں سے ملنے آئے تھے، تو کچھ شادیوں یا دیگر ذاتی وجوہات کی بنا پر یہاں موجود تھے۔ پورا دن پاکستانی شہری واہگہ بارڈر پر بھارت میں رہ جانے والے اپنے پیاروں کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔ واپس جانے والے بھارتی شہریوں نے پاکستانی مہمان نوازی کی تعریف کی اور کہا کہ انہیں یہاں رہتے ہوئے بہت پیار ملا۔ پاکستانی سفارت خانے کے اراکین صبح سویرے واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچ گئے جبکہ بھارتی سفارت کاروں کے سامان سے بھرے سات کنٹینرز بھی بھارت روانہ کر دیے گئے۔ اب دونوں ممالک کے درمیان سرحدی گزرگاہیں دوبارہ بند ہو چکی ہیں اور معمول کے مطابق سفارتی تعلقات کے علاوہ عوامی سطح پر آمدورفت معطل ہے۔ شہریوں نے اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی تناؤ کے باوجود عام لوگوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے جذبات برقرار ہیں۔ واپس جانے والے بھارتی شہریوں نے خصوصی طور پر پاکستانی عوام کی مہمان نوازی اور رواداری کو سراہا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کچی آبادیوں کے مسئلے پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے سی ڈی اے کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ہونے والی سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کچی آبادی کا مطلب کچے گھر ہیں تو پھر بلوچستان کا 90 فیصد حصہ کچی آبادی میں شمار ہوگا۔ عدالت نے سی ڈی اے کے چیئرمین، ممبر پلاننگ اور سیکرٹری قانون کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ڈپلومیٹک انکلیو کے قریب موجود کچی آبادیوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ سی ڈی اے کے وکیل منیر پراچہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس کچی آبادیوں کے لیے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے جواب دیا کہ سی ڈی اے کا کام ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو کچی آبادیوں سے متعلق قانون سازی کی تجاویز پیش کرے۔ عدالت نے کچی آبادیوں سے متعلق قائم ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے منٹس بھی طلب کر لیے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ سی ڈی اے کس قانون کے تحت کچی آبادیوں میں سے کچھ کو تسلیم کرتا ہے اور کچھ کو نہیں کرتا؟ وکیل سی ڈی اے نے جواب دیا کہ اس سلسلے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے، بس کچھ کو ویسے ہی تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے اسی آئینی بینچ نے طلبا یونینز پر پابندی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے طلبا یونینز کی بحالی کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی ہے جس کی عبوری رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ماضی میں تمام جامعات کے طلبا سیاسی جماعتوں کے ونگ بن چکے تھے جو تعلیمی ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے زور دیا کہ نئے نظام کو اس انداز میں ترتیب دیا جائے کہ طلبا صرف متعلقہ جامعات سے ہوں اور ان کا مقصد ویلفیئر سرگرمیاں ہوں، نہ کہ سیاسی وابستگی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پرائیویٹ جامعات میں ایسے مسائل نہیں ہیں، اصل مسائل سرکاری جامعات میں ہیں جہاں سیاسی اثر و رسوخ کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب تو خود ادارے بھی سیاسی جماعتوں کے ونگ بن چکے ہیں، حتیٰ کہ بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز بھی سیاسی اثر سے محفوظ نہیں رہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت میں کمیٹی کی مکمل اور حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔
پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد بدحواس مودی حکومت نے اپنی ناکامیوں کا الزام اپنے ہی شہریوں پر ڈالتے ہوئے ایک معصوم موچی کو قومی سلامتی کے خطرے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ذرائع کے مطابق، بھارت کی سب سے بڑی بھٹنڈہ چھاؤنی میں 7-8 سال سے جوتے سی کر اپنا روزگار چلانے والے سنیل کمار نامی موچی کو بھارتی حکام نے گھر سے اٹھا لیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق، سنیل کمار پر الزام ہے کہ وہ حساس معلومات لیک کرنے اور پاکستانی ہینڈلرز سے رابطے میں تھا۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بھارت کی سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیوں کے ثبوت عالمی برادری کے سامنے پیش کیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اپنی دہشت گردی کی پالیسیوں کے بے نقاب ہونے کے بعد اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق، سنیل کمار کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھارت میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت کی ایک اور کڑی ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے بھارتی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے اور اپنے ہی شہریوں پر جھوٹے مقدمات بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس واقعے نے بھارت کے دعوؤں کی یکطرفیت کو مزید عیاں کر دیا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پہلگام کے واقعے کے بعد نواز شریف نے اپنا لندن کا علاج ملتوی کر کے 24 اپریل کو فوری طور پر پاکستان واپس آ گئے تھے۔ لندن میں موجودگی کے دوران صحافیوں کے پہلگام واقعے پر سوالات کے جواب میں انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔ لیگی ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف اس وقت پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سفارتی سطح پر سرگرم عمل ہیں۔ اتوار کو وزیراعظم شہباز شریف عمرہ آئے اور انہوں نے نواز شریف کو موجودہ صورتحال کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے نواز شریف کو بتایا کہ انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس کے بعد نواز شریف نے قطر کے اپنے رابطوں کے ذریعے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے اپنے قریبی دوستوں کو واضح کیا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو اس کے خطے کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی، بلکہ بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ ذرائع کے مطابق، نواز شریف نے زور دیا ہے کہ عالمی برادری کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے، کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، کیونکہ اس معاہدے میں ورلڈ بینک ضامن کی حیثیت سے شامل ہے۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی سفارتی کوششوں سے جلد ہی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے ایک بار پھر امن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تنازعات کا حل صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
خیبر پختونخوا میں 40 ارب روپے کی مبینہ مالی بدعنوانی، نیب کی تحقیقات جاری پشاور: خیبر پختونخوا کے سرکاری بینک اکاؤنٹس سے 40 ارب روپے سے زائد کی مبینہ خردبرد اور مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے، جسے ملک کی تاریخ کے بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، بدعنوانی کی یہ رقم مسلسل بڑھ رہی ہے اور اب تک لگ بھگ 50 بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا چکے ہیں جبکہ تحقیقات کا دائرہ بھی وسیع کر دیا گیا ہے۔ تحقیقات کے دوران ایک حیران کن انکشاف اس وقت سامنے آیا جب معلوم ہوا کہ ایک ڈمپر ڈرائیور، ممتاز، کے اکاؤنٹس میں تقریباً ساڑھے چار ارب روپے موجود تھے۔ نیب نے فوری طور پر ان رقوم کو منجمد کر دیا۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ مذکورہ شخص نے ایک فرضی تعمیراتی کمپنی قائم کر رکھی تھی، اور اس کے اکاؤنٹس میں مجموعی طور پر تقریباً سات ارب روپے مشکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے منتقل کیے گئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق، ضلع اپر کوہستان کے سرکاری اکاؤنٹس سے تقریباً ایک ہزار جعلی چیکس جاری کیے گئے۔ اب تک 50 مشتبہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی نشاندہی ہو چکی ہے، جن میں بااثر سیاسی اور اعلیٰ سرکاری شخصیات کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، نیب کے چیئرمین کو اپر کوہستان میں مالی بے ضابطگیوں سے متعلق مستند معلومات موصول ہوئیں، جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ اگرچہ ضلع کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 50 کروڑ سے ڈیڑھ ارب روپے کے درمیان ہے، تاہم 2020 سے 2024 کے درمیان 40 ارب روپے جعلی طریقوں سے نکلوائے گئے، جو کئی دہائیوں کے ترقیاتی فنڈز سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ مالیاتی فراڈ زیادہ تر سیکورٹی اینڈ ڈپازٹ ورکس اکاؤنٹ (10113) کے ذریعے انجام دیا گیا، جسے جعلی دستاویزات، مبالغہ آمیز بلوں اور فرضی سیکورٹیز کے ذریعے استعمال کیا گیا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ فراڈ اپر کوہستان کے سی اینڈ ڈبلیو (C&W) ڈیپارٹمنٹ کے تحت ہوا، جس نے جعلی سیکورٹی ریفنڈز، ریکارڈ میں ردو بدل، اور غیر حقیقی منصوبوں کی منظوری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اکاؤنٹس آفیسر (DAO) کی جانب سے بھی مالیاتی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر مجاز ادائیگیاں کی گئیں۔ متعدد منصوبے جو کاغذی طور پر موجود تھے، حقیقت میں کبھی مکمل ہی نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ، سرکاری بینک کی داسو اپر کوہستان برانچ کے بعض ملازمین نے اسٹیٹ بینک اور اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری رقوم نجی اکاؤنٹس میں منتقل کیں۔ اکاؤنٹنٹ جنرل اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ جیسے نگران ادارے بھی بروقت کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ نیب نے کرپشن کے ثبوت محفوظ بنانے کے لیے ضلع اکاؤنٹس آفس، C&W ڈیپارٹمنٹ، سرکاری بینک اور متعلقہ اکاؤنٹس کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے، جب کہ مزید 10 ارب روپے مالیت کے اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔ پولیس کے ذریعے 30 افراد کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں، جبکہ نیب کی ٹیم سرکاری بینک، DAO، C&W، اکاؤنٹنٹ جنرل اور DG آڈٹ کے 14 سے زائد افسران کے کردار کا جائزہ لے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ اسکینڈل نہ صرف مالیاتی نظام کی سنگین خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس میں صوبائی سطح کی اعلیٰ قیادت بھی ملوث ہو سکتی ہے۔ نیب نے اس معاملے کو ابتدائی انکوائری سے مکمل تحقیقات میں منتقل کر دیا ہے۔ جیسے جیسے تفتیش آگے بڑھ رہی ہے، مزید سنسنی خیز انکشافات کی توقع ہے۔ ادھر بعض کنٹریکٹرز اور اکاؤنٹ ہولڈرز نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قانونی تقاضوں کے مطابق کاروبار کر رہے ہیں، اور نیب کو ممکنہ طور پر کسی غلط فہمی کا سامنا ہے۔
روزنامہ دنیا کے رپورٹر عمران اکبر کی رپورٹ کے مطابق لاہور ڈویلپمنٹ پروگرام کی 3ہزار 682 گلیوں میں سے 8سو 67گلیاں مکمل کرلی گئیں، ہر گلی میں میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی تصویر کے ساتھ تختی لگانے کے ڈیزائن کی منظوری دے دی گئی۔ ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا نے افسروں کو پروگرام کا فیز ون 30جون تک مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دے دی ۔ رپورٹ کے مطابق نشتر ٹاؤن کی 18 سو 50گلیوں میں سے 3سو 38 ، راوی زون میں 6سو 34میں سے 2سو 25 ،داتا گنج بخش زون کی 5سو 16میں سے 1سو 36 ،گلبرگ زون کی 186میں سے 35 ،سمن آباد کی 1سو 44 سے میں 87 ،شالامار زون کی 352میں سے 44گلیاں مکمل کر لی گئیں ۔ جبکہ 454گلیوں کو پی سی سی اور 363 کو ٹف ٹائل لگا کر جبکہ 50اسفالٹ روڈ کو مکمل کیا گیا ۔ افتتاحی تختی میں علاقہ ایم این اے اور ایم پی اے کا نام بھی شامل کیا گیا ۔ چیف سیکرٹری کو پروگرام کی رپورٹ بھجوا دی گئی ۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا کہ راشن کارڈ ان لوگوں کے لئے نہیں جوبھیک مانگتے ہیں بلکہ 15سے 16گھنٹے کام کرنے والوں کے لئے ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب سے اقتدار سنبھالا کوشش ہے کہ کسی شخص کو نہ آنا پڑے بلکہ حکومت خود مدد کو پہنچے ۔ لوگوں کا قطاروں میں لگ کر راشن وغیرہ دینامجھے اچھا نہیں لگتا۔ ورکرز اور کان کنوں کے لئے راشن کارڈ تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ روٹی کی قیمت 25،30سے کم ہوکر 12 سے 15روپے پر آگئی یہ بھی کبھی نہیں ہوا تھا۔ کہ سب صوبوں کے پاس وسائل ہیں، مسئلہ وسائل کا نہیں بلکہ خدمت کی نیت کا ہے ۔پوری طرح عوام کی جنگ لڑرہی ہوں، ہر گھر میں خوشحالی آنے تک چین سے نہیں بیٹھوں گی۔ مریم نواز نے مزید کہا کہ میں نے کہا تھا کہ میں کسان کو نقصان نہیں ہونے دوں گی، ہم کسانوں کو 5000 روپے فی ایکڑ دے رہے ہیں، 10 ایکڑ ہو تو 50 ہزار اور 12 ایکڑ پر 60 ہزار روپے ملیں گے۔اگر میں 4000 روپیہ گندم کی قیمت مقرر کردوں تو کسان کو تو فائدہ ہوجائے گا لیکن کروڑوں لوگوں کیلئے آٹا اور روٹی مہنگی ہوجائے گی-
ڈی جی نیب کی راغب نعیمی سے ملاقات، مالی دھوکہ دہی پر شرعی رائے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل سے معاونت طلب ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی وقار احمد چوہان اور ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار ظفر عباسی نے منگل کے روز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی سے اہم ملاقات کی۔ ملاقات کا مقصد عوام کو دھوکہ دینے والی مالیاتی سکیموں پر شرعی رائے لینے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی معاونت حاصل کرنا تھا۔ ترجمان اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق، ملاقات میں ڈی جی نیب نے پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ادارے کے اقدامات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ عوام کو خصوصاً تعمیراتی و ہاؤسنگ سکیموں کے ذریعے مالی نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے شرعی رہنمائی ضروری ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر راغب نعیمی نے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کی قیادت میں ادارے کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ نیب نے حالیہ عرصے میں فعالیت اور مؤثر اقدامات سے نمایاں پیش رفت کی ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب کو یقین دلایا کہ کونسل اس اہم معاملے میں بھرپور تعاون کرے گی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جلد ہی عوام کو دھوکہ دینے والی مالیاتی سکیموں کے مختلف انداز کا شرعی تجزیہ مکمل کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے نیب کو ارسال کی جائے گی تاکہ ان سکیموں کے خلاف مؤثر کارروائی کو شرعی بنیاد فراہم کی جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جیل میں اپنے وکلاء سے ملاقات کے دوران پارٹی کے بعض رہنماؤں اور حکومتی رویے پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ صحافی زبیر علی خان کے ذرائع کے مطابق عمران خان نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ *"علی امین ذاتی مفاد کے لیے فوج سے جا ملا ہے، اور جنید اکبر و تیمور جھگڑا کے درمیان تنازعہ میں پارٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔"* عمران خان نے خیبرپختونخوا میں پارٹی رہنماؤں کے اغوا پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ *"اگر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی ہمارے لوگ اٹھائے گئے تو عوام کو کیا جواب دیں گے؟"* انہوں نے ہدایت کی کہ علی امین کو صوبے کی سیکیورٹی صورتحال پر آئی جی سے وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے وکیل فیصل چوہدری پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ *"جن وکلاء سے میں ملنا چاہتا ہوں انہیں اندر آنے نہیں دیا جاتا، تم ہر بار کیسے آ جاتے ہو؟"* اطلاعات کے مطابق بشریٰ بی بی نے بھی فیصل چوہدری سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ عمران خان نے سیالکوٹ ضمنی انتخاب میں فیصل چوہدری کی سفارش رد کرتے ہوئے فاخر نشاط گھمن کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کی ہدایت دے دی، جب کہ فیصل چوہدری اسلم گھمن کے بھائی کو ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے۔ عمران خان نے ایک بار پھر بھارت مخالف بیانیہ اپناتے ہوئے کہا کہ *"پوری قوم بھارت کے خلاف متحد ہے، لیکن فارم 47 والے بھارت کو کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ نوازشریف اور آصف زرداری مودی کے خلاف بیان نہیں دیں گے، کیونکہ ان کے ذاتی مفادات اور کاروبار بھارت سے جڑے ہوئے ہیں۔" واضح رہے کہ گزشتہ روز عمران خان کی بہنوں کو ایک بار پھر اپنے بھائی سے ملاقات سے روک دیا گیا۔ پولیس نے راستے میں رکاوٹیں اور ٹرک کھڑے کر کے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔
امریکی کانگیرس ممبران جیک برگمین اور کریگ سٹینٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق خط لکھ دیا۔ خط میں وزیرداخلہ محسن نقوی کے جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن کا خصوصی ذکر ۔۔۔ کانگریس ارکان کا امریکی صدر سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف یوایس اے کے مطابق امریکی کانگریس کے ارکان جیک برگمین (ریپبلکن - مشی گن) اور گریگ اسٹینٹن (ڈیموکریٹ - ایریزونا) نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک سخت خط لکھا ہے، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تمام موزوں سفارتی ذرائع استعمال کریں۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سیاسی جبر میں ملوث افراد پر ویزا پابندیاں عائد کی جائیں، امریکہ کی مالی امداد اور تعاون اُن اداروں کو نہ دیا جائے جو جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں، 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کی جائیں اسکے علاوہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے، اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی کو بحال کیا جائے واضھ رہے کہ جیک برگمین گزشتہ ماہ پاکستان دورے پر بھی آئے تھے جہاں انہوں نے آرمی چیف سمیت پاکستانی حکام سے ملاقات کی تھی۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) میں اربوں روپے کے مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمین کی بیگمات اور پنشنرز کے اہل خانہ کو بھی غیر قانونی طور پر مالی امداد دی گئی۔ آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مستحقین کے اکاؤنٹس سے 35 کروڑ روپے کی رقم کی غیر مجاز نکاسی کی گئی، جو ادارے کی ساکھ اور شفافیت پر سنگین سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس کے دوران پیش کی گئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 27,266 ایسے کیسز سامنے آئے جہاں میاں بیوی دونوں کو مالی امداد جاری کی گئی، جو بی آئی ایس پی کی پالیسی کے صریحاً خلاف ہے۔ چیئرمین پی اے سی نوید قمر نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا کہ ان غیر قانونی ادائیگیوں کی ریکوری کیسے کی جائے گی۔ اس پر سیکرٹری بی آئی ایس پی نے اعتراف کیا کہ ادارے کے پاس اس وقت ریکوری کا کوئی واضح اور مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ آڈٹ حکام نے مزید انکشاف کیا کہ صرف سرکاری ملازمین کی بیگمات کو 8 کروڑ 98 لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگیاں کی گئیں۔ بی آئی ایس پی کی پالیسی کے مطابق، 30 ہزار روپے سے زیادہ پنشن لینے والے افراد اور ان کے خاندان اس امداد کے اہل نہیں ہیں۔ آڈٹ حکام کے مطابق گریڈ 1 سے گریڈ 20 تک کے ملازمین کے اہل خانہ کو ادائیگیاں کی گئیں، گریڈ 15 کے 263 ، گریڈ 16 کے 42 ملازمین کو رقم کی ادائیگی کی گئی، گریڈ 17 کے 21، گریڈ 18 کے 15 اور گریڈ 19 کے 11 ملازمین کو ادائیگی کی گئی، گریڈ 20 کے 3 ملازمین اور پینشرز بھی رقم لینے والوں میں شامل ہیں اس کے علاوہ پینشنرز بھی بی آئی ایس پی کے امدادی ریکارڈ میں شامل پائے گئے، جو کہ ادارے کی اہلیت کے معیار سے متصادم ہے۔
صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 9 مئی سے متعلق مقدمات کو چار ماہ میں نمٹانے کے تازہ حکم نامے کے بعد تحریک انصاف کے ارکانِ پارلیمنٹ میں ممکنہ نااہلی کا خوف شدت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی ذرائع کے مطابق، تحریک انصاف کے ارکان کے درمیان اس معاملے پر مسلسل بحث جاری ہے اور عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کورٹس سے منصفانہ فیصلے ممکن نہیں ہوں گے، جس کے نتیجے میں کئی ارکان سزا کے بعد پارلیمانی رکنیت سے نااہل قرار دیے جا سکتے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے، پارٹی قائدین حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، مذاکرات کے آپشن کو دوبارہ زندہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ ایک سینئر رہنما نے کہا کہ "پارٹی کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے مرحلہ وار معمول پر لانے کا عمل ضروری ہو گیا ہے۔" پارٹی کے اندر مایوسی اس بات پر بھی ہے کہ ماضی میں ترسیلاتِ زر کے بائیکاٹ اور اسلام آباد مارچ جیسے اقدامات ناکام رہے، اپوزیشن اتحاد بنانے کی کوششیں دم توڑ چکیں، اور عدلیہ یا بیرونی اثر و رسوخ سے بھی کوئی خاطر خواہ مدد نہیں ملی۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں تو تحریک انصاف کو مزید سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایک ذریعے کے مطابق، پارٹی میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ موجودہ حالات میں مذاکرات ہی واحد قابلِ عمل راستہ ہیں۔ واضح رہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ٹرائل کورٹس کو ہدایت دی کہ 9 مئی کے واقعات سے جڑے مقدمات کو چار ماہ میں نمٹایا جائے، تاکہ حساس مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نہ ہو۔ رپورٹس کے مطابق، پنجاب میں 9 مئی سے متعلق 319 ایف آئی آرز درج کی گئیں، جن میں 35 ہزار 962 افراد کو نامزد کیا گیا۔ ان میں سے 11 ہزار 367 افراد گرفتار جبکہ 24 ہزار 595 ابھی تک مفرور ہیں۔ 307 مقدمات میں چالان جمع کرائے جا چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ اگرچہ 9 مئی کے مقدمات میں گواہان پیش ہو چکے ہیں، لیکن وہ خود اور دیگر پارٹی رہنما اب بھی کئی ایف آئی آرز کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ وہ قتل کے دس مقدمات میں نامزد ہیں۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب بھارت پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، حکومت اپوزیشن کو دبانے میں مصروف ہے۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ اگر سزا یا نااہلی کی نوبت آئی تو تحریک انصاف کے رہنما بھرپور مزاحمت کریں گے۔

Back
Top