خبریں

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جیل میں اپنے وکلاء سے ملاقات کے دوران پارٹی کے بعض رہنماؤں اور حکومتی رویے پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ صحافی زبیر علی خان کے ذرائع کے مطابق عمران خان نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ *"علی امین ذاتی مفاد کے لیے فوج سے جا ملا ہے، اور جنید اکبر و تیمور جھگڑا کے درمیان تنازعہ میں پارٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔"* عمران خان نے خیبرپختونخوا میں پارٹی رہنماؤں کے اغوا پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ *"اگر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی ہمارے لوگ اٹھائے گئے تو عوام کو کیا جواب دیں گے؟"* انہوں نے ہدایت کی کہ علی امین کو صوبے کی سیکیورٹی صورتحال پر آئی جی سے وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے وکیل فیصل چوہدری پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ *"جن وکلاء سے میں ملنا چاہتا ہوں انہیں اندر آنے نہیں دیا جاتا، تم ہر بار کیسے آ جاتے ہو؟"* اطلاعات کے مطابق بشریٰ بی بی نے بھی فیصل چوہدری سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ عمران خان نے سیالکوٹ ضمنی انتخاب میں فیصل چوہدری کی سفارش رد کرتے ہوئے فاخر نشاط گھمن کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کی ہدایت دے دی، جب کہ فیصل چوہدری اسلم گھمن کے بھائی کو ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے۔ عمران خان نے ایک بار پھر بھارت مخالف بیانیہ اپناتے ہوئے کہا کہ *"پوری قوم بھارت کے خلاف متحد ہے، لیکن فارم 47 والے بھارت کو کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ نوازشریف اور آصف زرداری مودی کے خلاف بیان نہیں دیں گے، کیونکہ ان کے ذاتی مفادات اور کاروبار بھارت سے جڑے ہوئے ہیں۔" واضح رہے کہ گزشتہ روز عمران خان کی بہنوں کو ایک بار پھر اپنے بھائی سے ملاقات سے روک دیا گیا۔ پولیس نے راستے میں رکاوٹیں اور ٹرک کھڑے کر کے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔
امریکی کانگیرس ممبران جیک برگمین اور کریگ سٹینٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق خط لکھ دیا۔ خط میں وزیرداخلہ محسن نقوی کے جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن کا خصوصی ذکر ۔۔۔ کانگریس ارکان کا امریکی صدر سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف یوایس اے کے مطابق امریکی کانگریس کے ارکان جیک برگمین (ریپبلکن - مشی گن) اور گریگ اسٹینٹن (ڈیموکریٹ - ایریزونا) نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک سخت خط لکھا ہے، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تمام موزوں سفارتی ذرائع استعمال کریں۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سیاسی جبر میں ملوث افراد پر ویزا پابندیاں عائد کی جائیں، امریکہ کی مالی امداد اور تعاون اُن اداروں کو نہ دیا جائے جو جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں، 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کی جائیں اسکے علاوہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے، اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی کو بحال کیا جائے واضھ رہے کہ جیک برگمین گزشتہ ماہ پاکستان دورے پر بھی آئے تھے جہاں انہوں نے آرمی چیف سمیت پاکستانی حکام سے ملاقات کی تھی۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) میں اربوں روپے کے مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمین کی بیگمات اور پنشنرز کے اہل خانہ کو بھی غیر قانونی طور پر مالی امداد دی گئی۔ آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مستحقین کے اکاؤنٹس سے 35 کروڑ روپے کی رقم کی غیر مجاز نکاسی کی گئی، جو ادارے کی ساکھ اور شفافیت پر سنگین سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس کے دوران پیش کی گئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 27,266 ایسے کیسز سامنے آئے جہاں میاں بیوی دونوں کو مالی امداد جاری کی گئی، جو بی آئی ایس پی کی پالیسی کے صریحاً خلاف ہے۔ چیئرمین پی اے سی نوید قمر نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا کہ ان غیر قانونی ادائیگیوں کی ریکوری کیسے کی جائے گی۔ اس پر سیکرٹری بی آئی ایس پی نے اعتراف کیا کہ ادارے کے پاس اس وقت ریکوری کا کوئی واضح اور مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔ آڈٹ حکام نے مزید انکشاف کیا کہ صرف سرکاری ملازمین کی بیگمات کو 8 کروڑ 98 لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگیاں کی گئیں۔ بی آئی ایس پی کی پالیسی کے مطابق، 30 ہزار روپے سے زیادہ پنشن لینے والے افراد اور ان کے خاندان اس امداد کے اہل نہیں ہیں۔ آڈٹ حکام کے مطابق گریڈ 1 سے گریڈ 20 تک کے ملازمین کے اہل خانہ کو ادائیگیاں کی گئیں، گریڈ 15 کے 263 ، گریڈ 16 کے 42 ملازمین کو رقم کی ادائیگی کی گئی، گریڈ 17 کے 21، گریڈ 18 کے 15 اور گریڈ 19 کے 11 ملازمین کو ادائیگی کی گئی، گریڈ 20 کے 3 ملازمین اور پینشرز بھی رقم لینے والوں میں شامل ہیں اس کے علاوہ پینشنرز بھی بی آئی ایس پی کے امدادی ریکارڈ میں شامل پائے گئے، جو کہ ادارے کی اہلیت کے معیار سے متصادم ہے۔
صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 9 مئی سے متعلق مقدمات کو چار ماہ میں نمٹانے کے تازہ حکم نامے کے بعد تحریک انصاف کے ارکانِ پارلیمنٹ میں ممکنہ نااہلی کا خوف شدت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی ذرائع کے مطابق، تحریک انصاف کے ارکان کے درمیان اس معاملے پر مسلسل بحث جاری ہے اور عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کورٹس سے منصفانہ فیصلے ممکن نہیں ہوں گے، جس کے نتیجے میں کئی ارکان سزا کے بعد پارلیمانی رکنیت سے نااہل قرار دیے جا سکتے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے، پارٹی قائدین حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، مذاکرات کے آپشن کو دوبارہ زندہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ ایک سینئر رہنما نے کہا کہ "پارٹی کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے مرحلہ وار معمول پر لانے کا عمل ضروری ہو گیا ہے۔" پارٹی کے اندر مایوسی اس بات پر بھی ہے کہ ماضی میں ترسیلاتِ زر کے بائیکاٹ اور اسلام آباد مارچ جیسے اقدامات ناکام رہے، اپوزیشن اتحاد بنانے کی کوششیں دم توڑ چکیں، اور عدلیہ یا بیرونی اثر و رسوخ سے بھی کوئی خاطر خواہ مدد نہیں ملی۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں تو تحریک انصاف کو مزید سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایک ذریعے کے مطابق، پارٹی میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ موجودہ حالات میں مذاکرات ہی واحد قابلِ عمل راستہ ہیں۔ واضح رہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ٹرائل کورٹس کو ہدایت دی کہ 9 مئی کے واقعات سے جڑے مقدمات کو چار ماہ میں نمٹایا جائے، تاکہ حساس مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نہ ہو۔ رپورٹس کے مطابق، پنجاب میں 9 مئی سے متعلق 319 ایف آئی آرز درج کی گئیں، جن میں 35 ہزار 962 افراد کو نامزد کیا گیا۔ ان میں سے 11 ہزار 367 افراد گرفتار جبکہ 24 ہزار 595 ابھی تک مفرور ہیں۔ 307 مقدمات میں چالان جمع کرائے جا چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ اگرچہ 9 مئی کے مقدمات میں گواہان پیش ہو چکے ہیں، لیکن وہ خود اور دیگر پارٹی رہنما اب بھی کئی ایف آئی آرز کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ وہ قتل کے دس مقدمات میں نامزد ہیں۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب بھارت پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، حکومت اپوزیشن کو دبانے میں مصروف ہے۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ اگر سزا یا نااہلی کی نوبت آئی تو تحریک انصاف کے رہنما بھرپور مزاحمت کریں گے۔
بھارتی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ بھارت نے فرانس سے اپنی بحریہ کے لیے 26 رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، جس میں سنگل اور ٹو سیٹ طیارے دونوں شامل ہوں گے۔ یہ معاہدہ فرانس کی ایرو اسپیس کمپنی، ڈاسو ایوی ایشن کے تیار کردہ طیاروں کی خریداری کے لیے کیا گیا ہے، جو بھارت کی بحریہ میں استعمال کے لیے ایک اہم اضافے کا باعث بنے گا۔ یہ 26 رافیل طیارے بھارت کے پہلے سے موجود 36 رافیل طیاروں میں شامل ہوں گے، جو بھارت نے پہلے ہی فرانس سے حاصل کیے ہیں۔ بھارتی وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا کہ ان طیاروں کی فراہمی 2030 تک مکمل ہو جائے گی، اور ان طیاروں کو بھارتی بحریہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں سے اڑانے کے لیے تیار کیا جائے گا۔ رافیل طیارے روسی ساختہ مگ-29 طیاروں کی جگہ لے لیں گے، اور ان طیاروں کی سمندری ماحول میں آپریشنل صلاحیتیں پہلے ہی ثابت ہو چکی ہیں۔ معاہدے کے مطابق، بھارت اور فرانس میں ان طیاروں کے عملے کو تربیت دی جائے گی۔ اس معاہدے میں بھارتی بحریہ کی تربیت، سازوسامان، ہتھیار اور دیگر متعلقہ لاجسٹک معاونت بھی شامل ہے تاکہ ان طیاروں کو مکمل طور پر آپریشنل بنایا جا سکے۔ یہ معاہدہ بھارت کے فرانس سے دفاعی سازوسامان پر انحصار کی ایک اور واضح مثال ہے، کیونکہ بھارت نے ماضی میں بھی فرانس سے اہم دفاعی سازوسامان خریدا ہے، جن میں 1980 کی دہائی میں خریدے گئے میراج 2000 طیارے اور 2005 میں آرڈر دیے گئے سکورپین کلاس آبدوزیں شامل ہیں۔ اگرچہ روس اب بھی بھارت کا سب سے بڑا فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا ملک ہے، لیکن بھارت نے حالیہ برسوں میں فرانس، امریکا اور اسرائیل جیسے ممالک سے بھی اہم دفاعی سازوسامان خریدنا شروع کیا ہے۔ اس معاہدے کی بدولت بھارت کی بحریہ کی آپریشنل صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوگا اور اس کی دفاعی حکمت عملی کو تقویت ملے گی۔ بھارت کی فرانس کے ساتھ 26 رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ، نہ صرف بھارت کی دفاعی حکمت عملی کو مزید مضبوط کرے گا بلکہ فرانس کے ساتھ اس کے دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔ یہ معاہدہ بھارت کے دفاعی سازوسامان کی متنوع خریداری کی حکمت عملی کی ایک اہم کڑی ہے، جس میں مغربی ممالک سے خریدی جانے والی ٹیکنالوجی شامل ہے۔
شمالی وزیرستان میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 25 سے 28 اپریل 2025 کے دوران دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے، جن میں 71 خوارج ہلاک کر دیے گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، 25 سے 27 اپریل کے دوران 54 خوارج کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے بعد، 27 اور 28 اپریل کی درمیانی شب، پاکستان-افغانستان سرحد کے قریب حسن خیل اور اس کے گردونواح میں ایک منظم صفائی آپریشن کیا گیا۔ اس آپریشن میں مزید 17 خوارج ہلاک ہوئے، جو بھارتی آقاؤں کے ایما پر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے تھے۔ آپریشن کے دوران ہلاک شدہ خوارج سے بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیوں پر صدر مملکت آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے خراج تحسین پیش کیا۔ صدر مملکت آصف زرداری نے کہا کہ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں کا تسلسل خوش آئند ہے اور ہم اپنے عزم میں غیر متزلزل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سیکیورٹی فورسز کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ ان کی محنت اور قربانیوں کی بدولت دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا جا رہا ہے اور جنگ جاری رہے گی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے دراندازی کی کوشش ناکام بنانے اور مزید 17 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ خوارج دہشت گردوں کا انجام عبرتناک موت ہے اور اس آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ سیکیورٹی فورسز نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت، امن، استحکام اور ترقی کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ان کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ فورسز نے واضح کیا کہ وہ دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر قیمت پر پرعزم ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان کی کامیاب کارروائیوں کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے خلاف عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بات ڈان نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی اور واضح کیا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے فوراً بعد پاکستان اقوام متحدہ میں بھی بھارت کے خلاف قدم اٹھائے گا۔ بیرسٹر عقیل ملک نے مزید کہا کہ بھارت نے پہلگام حملے کے محض آدھے گھنٹے میں بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے اس اقدام کے خلاف پاکستان کی پوری تیاری مکمل ہے اور ہم بھارت کے ہر اقدام کا بھرپور اور مؤثر جواب دیں گے۔ وزیر مملکت برائے قانون و انصاف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بات اتنی زیادہ نہ بڑھنے پائے کہ خطے کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔ عقیل ملک نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ موجودہ صورتحال پر مشاورت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جا سکتی ہے تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھارت کے اقدامات کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔ واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان پر الزام عائد کیا۔ بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنے ملک میں مقیم پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ بھارت نے واہگہ بارڈر بند کرنے اور اپنے ملٹری اتاشی کو واپس بلانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ پاکستان نے بھارت کے اس یکطرفہ اقدام کا سختی سے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی یا پاکستان کے پانی کو روکنا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا اور اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی نے اس موقف کو واضح کیا کہ پاکستان اپنے آبی حقوق کا بھرپور دفاع کرے گا۔ پاکستان نے بھارتی حکومت کی جانب سے کی جانے والی تمام کارروائیوں کے بعد شملہ معاہدہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کی معطلی کا عندیہ دیا۔ پاکستان نے بھارت کو فضائی حدود کی بندش، سرحدی آمد و رفت کو محدود کرنے اور تمام تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ بھارت کے سفارتی عملے کو بھی محدود کر دیا گیا اور بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات 30 ارکان کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے سکھ یاتریوں کے علاوہ تمام بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور انہیں 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی حکومت کو پہلگام واقعے کی مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی، تاہم بھارتی حکومت نے ابھی تک اس پیشکش پر کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان کی حکومت کا موقف ہے کہ اس واقعے کی حقیقت کو جانچنے کے لیے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، تاکہ کوئی بھی فیصلہ امن و استحکام کے لیے مفید ہو۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا گیا۔ اس اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے متعدد اہم فیصلے کیے گئے، جن میں طویل المدتی زرعی اور آبی حکمت عملی پر اتفاق اور نئے نہری منصوبوں کے آغاز کے لیے وفاقی حکومت کی رضا مندی کی شرط شامل ہے۔ اجلاس میں 8 رکنی کونسل کے ارکان شامل تھے جن میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام سمیت دیگر شخصیات شامل تھیں۔ اجلاس میں 25 افراد کو خصوصی دعوت دی گئی۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے مابین مشاورت سے ہی کسی بھی نئے نہری منصوبے کو شروع کیا جائے گا، اور سی سی آئی کی رضا مندی کے بغیر کوئی نہریں تعمیر نہیں کی جائیں گی۔ اجلاس میں ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو زرعی ترقی اور پانی کے استعمال کے حوالے سے طویل المدتی حکمت عملی تجویز کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی، نئی نہری تعمیرات کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) کی عبوری منظوری اور انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا سرٹیفکیٹ واپس لے لیا گیا۔ مشترکہ مفادات کونسل نے بھارتی یکطرفہ غیر قانونی اقدامات کی بھرپور مذمت کی اور قومی یکجہتی کا پیغام دیا۔ کونسل کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے لیکن اپنے آبی مفادات کا بھرپور دفاع کرنا جانتا ہے۔ تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ نے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف یک زبان ہو کر اپنے اتحاد کا اظہار کیا۔ اجلاس میں سی سی آئی سیکریٹریٹ کی جانب سے مالی سال 2021-2023 کی رپورٹس پیش کی گئیں، اور مشترکہ مفادات کونسل کے ریکروٹمنٹ رولز کی منظوری بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی اور اسٹیٹ آف انڈسٹری کی سالانہ رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے کینال منصوبہ مسترد کر دیا ہے اور ہر صوبے کو اس کے حصے کا پانی دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کے مسائل پر بات چیت کی جائے گی اور آئینی مسائل جیسے دسویں اور گیارھویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کا حل نکالا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد تمباکو کو زراعت کے طور پر تسلیم نہ کرنا ایک اہم مسئلہ تھا، جسے حل کر لیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے ان کے صوبے کو 100 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، جو ایک آئینی حق تھا۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب میں بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے 6 نہریں نکالنے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جسے پیپلز پارٹی اور سندھ کے قوم پرست رہنماؤں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے سخت مخالفت کی۔ اس منصوبے کی مخالفت میں کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے احتجاج بھی کیا تھا۔ سی سی آئی کا اجلاس اور اس میں کیے گئے فیصلے ملک بھر میں آبی اور زرعی ترقی کی حکمت عملی کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں، اور اس سے متعلق آگے آنے والے اقدامات ملک کی معیشت اور صوبوں کے درمیان پانی کے حقوق پر گہرے اثرات ڈالیں گے۔
لاہور میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے ینگ ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز پر تشدد کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں کئی ہیلتھ ورکرز زخمی ہو گئے، اور خواتین سمیت متعدد ڈاکٹرز کو گرفتار کر لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق، گرینڈ ہیلتھ الائنس نے کلب چوک سے اپنا دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم احتجاج کا سلسلہ چیئرنگ کراس پر جاری رہا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ہر حد تک جائیں گے، اور حکومت کی جانب سے سرکاری اسپتالوں کی ممکنہ نجکاری کے فیصلے کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔ لاہور میں مظاہرین نے وزیر اعلیٰ آفس کی جانب پیش قدمی کی، جس کے بعد پولیس نے سی ایم آفس کے مرکزی دروازے کو حصار میں لے لیا۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف گرفتاریوں کا عمل شروع کیا گیا اور انہیں قیدیوں کی وین میں بٹھا کر لے جایا جانے لگا۔ اس دوران مظاہرین نے قیدیوں کی وین کے شیشے توڑ دیے اور وین کے سامنے نعرے بازی کی۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے رہنماؤں نے ساتھیوں کی پکڑ دھکڑ کے خلاف ہسپتالوں کی ان ڈور سروسز بند کرنے اور ایمرجنسی سروسز معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے نہتے اور پرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، اور احتجاجی کارکنوں کے ساتھ انتہائی سخت سلوک کیا۔ دوسری جانب، لاہور کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی ہڑتال آج نویں روز بھی جاری رہی جس سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سروسز ہسپتال، جناح ہسپتال، گنگارام ہسپتال اور دیگر اہم اسپتالوں کی او پی ڈیز بند ہیں، جس کے نتیجے میں مریضوں کو علاج کے لیے دشواری ہو رہی ہے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس مظاہرین کے ساتھ تحمل سے پیش آ رہی ہے، اور ہائی سیکورٹی زون میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر حملے کیے جا رہے ہیں، اور کچھ افراد ذاتی مفادات کے لیے احتجاج کو پرتشدد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) نے حکومت کی جانب سے سرکاری اسپتالوں کی ممکنہ نجکاری کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے او پی ڈیز میں کام بند کر رکھا ہے۔ ہڑتال کی وجہ سے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، اور حکومتی سطح پر ابھی تک اس معاملے پر کوئی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ہڑتال نے ان کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے، اور وہ حکومت سے فوری فیصلے کی توقع رکھتے ہیں تاکہ ان کے علاج میں تاخیر نہ ہو۔
پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف جنگی بیانات اور الزام تراشیوں پر جہاں حکومتی سطح پر سنجیدہ ردعمل دیا جا رہا ہے، وہیں پاکستانی عوام نے روایتی انداز میں ان دھمکیوں کا طنز و مزاح سے بھرپور جواب دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر "میمز" اور مزاحیہ تبصروں کا سیلاب آ گیا ہے جو بھارتی دعوؤں کو مذاق بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز پر ہزاروں پاکستانی صارفین نے بھارت کی حالیہ دھمکیوں کو تنقید اور مزاح کا نشانہ بنایا۔ انٹرنیٹ پر چلنے والے طنزیہ ویڈیوز، تصاویر اور چٹکلے بھارت کی خارجہ پالیسی اور جنگی عزائم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ فیس بک پر ایک صارف ذیشان نے لکھا: "اتنی گرمی میں لوگ ولیمہ نہیں رکھتے، بھارت نے جنگ رکھ لی ہے۔" ایک اور صارف نے تاریخی طنز کیا: "جو 50 ایکڑ زمین میرے دادا جی بھارت میں چھوڑ آئے تھے، اب اسے واپس لینے کا وقت آ گیا ہے۔" کچھ صارفین نے ذاتی زندگی کے تناظر میں مذاق کیا، جیسے ایک نے لکھا: "ہماری شادی کی عمر قریب آئی تو جنگ کا چکر شروع ہو گیا۔" مزاح کی انتہا اس تبصرے میں دیکھی گئی: "بھارت پانی کھول دو، مجھے فریج میں بوتلیں بھرنی ہیں۔" جبکہ ایک اور صارف نے لکھا: "جنگ کرنی ہے تو نو بجے سے پہلے کر لینا، سوا نو بجے گیس چلی جاتی ہے!" سب سے زیادہ وائرل ہونے والی پوسٹ ابھی نندن کی پرانی تصویر کے ساتھ تھی جس پر لکھا گیا: "بھارت پانی کھول دو۔۔۔ چائے بنانی ہے!" پاکستانی عوام کی جانب سے بھارت کی مبینہ جارحیت پر اس انداز میں ردعمل نہ صرف موجودہ صورتحال کو ہلکے پھلکے انداز میں بیان کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عوام بھارتی دھمکیوں سے مرعوب ہونے کے بجائے انہیں مذاق کا موضوع بنا رہی ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان میمز میں سے کچھ کے لیے بصری نمونہ یا تصویری خاکہ بھی تیار کیا جائے؟
امریکی اخبار "نیو یارک ٹائمز" نے ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت، عالمی برادری میں کشیدگی کم کرنے کے بجائے، جان بوجھ کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز تیار کر رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی مودی حکومت اندرونی خلفشار اور عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی اور جنگی بیانات کا سہارا لے رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پلوامہ حملے جیسے مشکوک فالس فلیگ واقعے کے فوراً بعد بھارت نے بلا ثبوت پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا اور عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دینے کی مہم تیز کر دی۔ مودی نے متعدد ممالک کے سربراہان سے رابطہ کر کے پاکستان کے خلاف سفارتی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، اور دہشت گردی کے الزام میں شدید ردعمل کی دھمکیاں دیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے سفارتکاروں کو بریفنگ میں پاکستان پر دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرنے کی ہدایت دی۔ بھارتی سفارتی و دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ "بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی سے پہلے دہشت گردانہ حملے کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرنے ہوں گے۔" بھارت نے پاکستان کے ساتھ 1960 کے آبی معاہدے "انڈس واٹر ٹریٹی" کو یکطرفہ طور پر معطل کر دیا، لیکن پہلگام حملے سے متعلق تاحال کوئی ناقابلِ تردید ثبوت عالمی برادری کو فراہم نہیں کیا۔ دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے بھارت سے ٹھوس شواہد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ سفارتی روابط محدود کرتے ہوئے متعدد پاکستانی سفارتکاروں کو ملک بدر کر دیا اور ویزوں کی منسوخی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن میں شدت آ گئی ہے جس سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آ رہی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں مسلم مخالف جذبات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ خاص طور پر کشمیری طلباء کو ہراساں کیے جانے، انہیں تعلیمی اداروں سے نکالنے اور مختلف شہروں سے جبری بے دخلی جیسے اقدامات بھارتی ریاستی تعصب کی واضح مثال بن چکے ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس خبر کو کسی مخصوص اخبار یا ویب سائٹ کے انداز میں بھی ڈھالا جائے؟
سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق اپیل پر سماعت 5 مئی تک ملتوی سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی بینچ کے روبرو کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ وہ تین نکات پر بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے نکتہ کے تحت وہ 9 مئی کے واقعات سے متعلق تفصیلات عدالت کے سامنے رکھیں گے، جس پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث بھی پہلے دلائل دے چکے ہیں۔ دوسرا نکتہ مرکزی کیس کی سماعت کے دوران دی گئی یقین دہانیوں سے متعلق ہو گا، جبکہ تیسرے نکتے میں وہ ملٹری ٹرائل کا سامنا کرنے والوں کو اپیل کے حق پر گفتگو کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ ملٹری ٹرائل کے ملزمان کو اپیل کا حق دینا ایک پالیسی معاملہ ہے جس پر حکومتی ہدایات لے کر ہی تفصیلی موقف پیش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے دورانِ گفتگو کہا کہ پہلے سندھ کنال کا معاملہ زیر بحث رہا، اب بھارت کی حالیہ سرگرمیوں پر بھی سب کی توجہ مرکوز ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آج عالمی عدالت انصاف کے دورے کا پروگرام منسوخ کر دیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے جو بھی پالیسی فیصلہ کرنا ہے، وہ ان کا اختیار ہے، عدالت کا دائرہ اختیار صرف موجودہ مقدمے تک محدود ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر سول نظام ناکام ہو چکا ہے تو تمام کیسز فوجی عدالتوں کو ہی بھیج دیے جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے کتنا وقت درکار سمجھتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ 45 منٹ میں دلائل مکمل کر لیں گے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے بینچ نے مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔
سینئر تجزیہ کار اطہر کاظمی نے ایک ٹی وی پروگرام میں انڈیا کے فارم سینتالیس پر قبضہ کرنے کے حوالے سے کہا کہ انڈیا نے فارم سینتالیس پر جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جیت حاصل کر لی ہے اور اس نے خود کو امریکہ قرار دے لیا ہے۔ اطہر کاظمی نے کہا کہ "انڈیا نے فارم سینتالیس پر تمام جنگیں جیت لی ہیں اور وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن چکا ہے، لیکن جب وہ فارم پینتالیس (Form 45) پر پہنچے گا، تو اسے حقیقت کا پتا چلے گا۔" ان کا کہنا تھا کہ انڈیا نے فارم سینتالیس کو اتنا اہم سمجھا کہ اس نے اس پر اپنی طاقت کا اظہار امریکہ کی طرح کیا ہے، لیکن حقیقت میں اس کا سامنا فارم 45 سے ہوگا۔ اطہر کاظمی نے مزید کہا کہ "جب بھی انڈیا نے اس طرح کی کوئی کارروائی کی، تو پاکستان کے وہ لوگ جو فارم پینتالیس دیتے ہیں، انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔" انہوں نے اپنے حکومتی حکام سے شکایت کی کہ پاکستان میں دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں، جیسے جافر ایکسپریس پر ہونے والا بڑا حملہ، اور ہمارے سفارتی تعلقات کمزور پڑ گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "اس وقت ہمارے سفارتی سطح پر یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ ہم ان کے سفیر کو واپس بھیج دیتے۔ اگر ہم نے سفیر واپس نہ بھیجا ہوتا، تو کم از کم ہم ان کے دیگر لوگوں کو واپس بھیج دیتے اور فوری طور پر عالمی سطح پر اس خبر کو پھیلانے کے لیے اقدامات کرتے۔" انہوں نے کہا کہ جافر ایکسپریس جیسے بڑے سانحے پر ہماری کارروائیاں محدود رہیں۔ اطہر کاظمی کا یہ بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی اور انڈیا کے ساتھ تعلقات میں اضافی تنقید کو اجاگر کرتا ہے، اور اس بات کی ضرورت پر زور دیتا ہے کہ پاکستان کو اپنے سفارتی معاملات میں مزید مؤثر اور فیصلہ کن قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
سینئر صحافی اور اینکر عمران ریاض خان نے اپنے تازہ ترین وی لاگ میں وزیر دفاع خواجہ آصف کے حالیہ بیان پر شدید ردعمل دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف نے ماضی کی افغان پالیسی پر جو اعتراف کیا، وہ اگر عمران خان یا پاکستان تحریک انصاف کا کوئی رہنما کرتا تو اسے فوراً غداری سے جوڑ دیا جاتا۔ عمران ریاض خان نے کہا کہ خواجہ آصف نے اپنے بیان میں سوویت افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت کو غلطی قرار دیتے ہوئے سارے الزامات پاکستان پر ڈال دیے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر یہی باتیں عمران خان نے کہیں ہوتیں تو کیا ردعمل ہوتا؟ انہوں نے کہا، "تب تو پاکستان کے ہر چینل پر گلا پھاڑ ٹرانسمیشنز ہو رہی ہوتیں، غداری اور بغاوت کے سرٹیفیکیٹ بانٹے جا رہے ہوتے۔" ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رہنما کو ایسی بات کہنے پر نہ صرف شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ قانونی کارروائی بھی ممکن تھی، جبکہ خواجہ آصف جیسے افراد کو سب کچھ معاف ہے کیونکہ وہ "فارم 47" کے سائے میں آتے ہیں۔ خیال رہے کہ خواجہ آصف نے حال ہی میں روسی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کی ماضی کی افغان پالیسی، خاص طور پر سوویت افغان جنگ میں شمولیت، ایک "سنگین حکومتی غلطی" تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس جنگ کا حصہ بننے سے پاکستان میں جہادی نظریات، عسکری تربیت اور مغربی بیانیے کے تحت "جہاد" کا فروغ شروع ہوا، جس کے اثرات آج تک ملک کی سیکیورٹی اور سماجی صورتحال پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے ایک حالیہ گفتگو میں کہا ہے کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے سے باہر نکل چکا ہے تو پاکستان کو بھی شملہ معاہدے سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے میں دو واضح آپشنز دیے گئے ہیں: ایک "نیوٹرل ایکسپرٹ" یعنی غیرجانبدار ماہر اور دوسرا "ثالثی عدالت" یعنی کورٹ آف آربیٹریشن۔ حامد میر نے کہا کہ جب بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنایا، جو کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی تھی، تو پاکستان یہ معاملہ ثالثی عدالت لے گیا۔ دی ہیگ کی ثالثی عدالت میں پاکستان نے بھارت کے خلاف مقدمہ دائر کیا، اور یہ پاکستان کے لیے ایک قانونی راستہ تھا جسے اس نے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جب بھی بھارت نے خلاف ورزی کی، ورلڈ بینک سے رجوع کیا۔ کبھی پاکستان کو انصاف ملا، کبھی نہیں۔ بعض اوقات بھارت نے ورلڈ بینک کو نظرانداز کر کے پاکستان سے کہا کہ دونوں ممالک مل بیٹھ کر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کریں۔ حامد میر کے مطابق، سلال ڈیم کی مثال سامنے ہے۔ جب پاکستان نے سلال ڈیم کے خلاف ورلڈ بینک سے رجوع کیا، تو بھارت نے تجویز دی کہ ورلڈ بینک کو چھوڑ کر براہ راست مذاکرات کیے جائیں۔ بعد ازاں بھارت نے سلال ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کی، اس کی اونچائی کم کی گئی، اور پاکستان و بھارت کے درمیان ایک دوطرفہ معاہدہ ہوا، جس کے بعد بھارت نے یہ ڈیم تعمیر کیا۔ تاہم کشن گنگا ڈیم، بگلیہار ڈیم سمیت کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن پر دونوں ممالک میں ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا۔ حامد میر نے نشاندہی کی کہ جب بھی پاکستان نے عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا، اسے کبھی ریلیف ملا اور کبھی نہیں، مگر اب جبکہ بھارت سندھ طاس معاہدے سے باہر نکل چکا ہے، تو پاکستان کے پاس ایک واضح راستہ باقی رہ جاتا ہے، اور وہ ہے شملہ معاہدے سے علیحدگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان شملہ معاہدے سے باہر نکلتا ہے تو اس کے اثرات بھارت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں، کیونکہ اس سے لائن آف کنٹرول کی حیثیت ختم ہو کر صرف ایک "سیزفائر لائن" رہ جائے گی۔ اس صورتحال میں سابقہ ریاست جموں و کشمیر کا متنازعہ درجہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ لائن آف کنٹرول کی بین الاقوامی حیثیت ہے، جس پر دونوں ممالک کچھ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے پابند ہیں، لیکن اگر شملہ معاہدہ ختم ہو جاتا ہے تو پھر نہ کوئی ایل او سی باقی رہے گی، نہ کوئی پابندیاں۔ "پھر جو جانا چاہے جائے، جو آنا چاہے آئے"، کیونکہ سیزفائر لائن اور لائن آف کنٹرول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
کراچی اور خیرپور میں نہروں کے متنازع منصوبے کے خلاف وکلا کی جانب سے احتجاج کے دوران پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں۔ کراچی میں مشتعل مظاہرین نے پولیس موبائل کو آگ لگا دی، جبکہ خیرپور میں پولیس نے دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔ ڈان نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے گلشن حدید لنک روڈ پر وکلا نہروں کے منصوبے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس کے موقع پر پہنچنے پر ایک وکیل نے پولیس اہلکار کو ڈنڈا مار دیا، جس کے بعد پولیس نے وکلا پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ پولیس کی کارروائی میں ایک وکیل زخمی بھی ہوا، اور ایک وکیل کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد وکلا کی بڑی تعداد اسٹیل ٹاؤن تھانے پہنچ گئی۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران وکیل نے پولیس اہلکار پر حملہ کیا، جس کے بعد لاٹھی چارج کیا گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ گلشن حدید کے مظاہرین کے منتشر ہونے کے بعد یہ معاملہ کسی حد تک قابو میں آ گیا۔ دوسری جانب خیرپور میں فیض گنج میں وکلا اور قوم پرستوں نے نہروں کے منصوبے کے خلاف دھرنا دیا تھا۔ پولیس نے احتجاجی کیمپ پر دھاوا بولتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔ اس کے جواب میں مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ڈنڈوں کے ذریعے پولیس موبائل کے شیشے توڑ دیے، پھر اسے آگ لگا دی۔ پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے 2 مظاہرین کو حراست میں لے لیا، جس کے بعد ہیوی ٹریفک کی آمدورفت بحال ہو گئی، لیکن اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بعض مظاہرین نے دوبارہ دھرنا دے دیا ہے۔ قوم پرست جماعتوں کے کارکنان نے پولیس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حراست میں لیے گئے رہنماؤں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقات کے بعد حکومت نے چولستان نہروں کے منصوبے کو فی الحال مؤخر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد بھی سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، خاص طور پر کراچی میں جہاں وکلا کا احتجاج پانچویں دن میں داخل ہوگیا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کئی ماہ سے جاری احتجاج اور سندھ اسمبلی کی متفقہ قرارداد کے بعد کیا گیا تھا، اور اس سے قبل بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے معطلی کے خدشات بھی زیرِ بحث آئے تھے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) اجلاس میں فیصلہ ہونے تک کوئی نئی نہر نہیں بنے گی، اور اس اجلاس کو 2 مئی کو بلایا جائے گا۔ یہ تمام واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نہروں کے منصوبے پر سندھ میں عوامی ردعمل کی شدت برقرار ہے، اور حکومت کو اس منصوبے کے حوالے سے مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔
کراچی کے علاقے شاہ لطیف میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں سرنگ کھودنے کے دوران گیس کے شدید اخراج کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ پولیس کے مطابق جب وہ موقع پر پہنچے تو سرنگ کھودنے والے افراد فرار ہو گئے، جبکہ سرنگ سے گیس کا اخراج مسلسل جاری ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق پولیس حکام نے بتایا کہ سرنگ کھودتے وقت سوئی گیس کی مرکزی پائپ لائن کو نقصان پہنچا، جس سے گیس کا اخراج شروع ہوگیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ گیس چوری یا گیس لائن میں کلپ لگانے کی کوشش کے دوران پیش آیا ہوسکتا ہے۔ پولیس نے مزید بتایا کہ واقعے کے دوران 4 گاڑیاں، 3 موٹرسائیکلیں اور 5 موبائل فونز تحویل میں لیے گئے، جن میں کچھ خواتین بھی شامل تھیں، تاہم ملزمان جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ علاقے میں پہلے بھی تیل چوری کے واقعات پیش آچکے ہیں، اور قریبی علاقوں میں سوئی سدرن گیس اور کروڈ آئل کی لائنیں موجود ہیں۔ گیس کمپنی کو لائن میں چوری کی کئی شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ پولیس نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ملزمان کا مقصد گیس لائن سے چوری یا کسی دوسری لائن میں کلپ لگانا ہو سکتا تھا، تاہم اصل مقصد کی وضاحت تفتیش کے بعد ہی ہو سکے گی۔ اس ضمن میں متعلقہ اداروں کے افسران کو بھی فوری طور پر جائے وقوعہ پر طلب کیا گیا ہے تاکہ صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ تسلیم کیا ہے کہ 1980 کی دہائی میں سوویت افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت ایک سنگین غلطی تھی، جس کے دور رس اثرات آج تک محسوس ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کا حصہ بننے سے پاکستان میں جہادی نظریات اور تربیت کا آغاز ہوا اور مغرب کے ذریعے مسلط کیے گئے جہاد نے پاکستان کی اخلاقیات اور داخلی صورتحال میں پیچیدگیاں پیدا کیں۔ ڈان نیوز کے مطابق روسی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کسی بھی کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش نہیں کر رہا اور نہ ہی وہ کسی فوجی کارروائی میں پہل کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کی جا رہی ہے، تاہم پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر بھارت نے کسی بھی قسم کی دراندازی یا حملہ کیا تو پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھرپور جواب دے گا، لیکن اگر بھارت نے کشیدگی نہ بڑھائی تو پاکستان بھی فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے خطے کا سب سے بڑا شکار رہا ہے، اور اس کا آغاز افغان جنگ میں شمولیت کے بعد سے ہوا۔ انہوں نے اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ سوویت افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت ایک سیاسی اور حکومتی غلطی تھی، کیونکہ یہ جنگ دو عالمی طاقتوں کے درمیان تھی نہ کہ ایک مذہبی جہاد۔ وزیر دفاع نے یہ بھی یاد دلایا کہ پاکستان نے سوویت افغان جنگ کے دوران امریکہ کو ہر ممکن مدد فراہم کی تھی اور نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان نے مغربی اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ تعلقات قائم کیے تھے۔ تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے 80 اور 90 کی دہائی میں پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور 2021 میں افغانستان سے اس کا انخلا ملک کی سیکیورٹی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا گیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں پر افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد بغیر دستاویزات کے موجود ہے، اور اب خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان وہ ملک ہے جسے دہشت گردی کی لہر نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور اس کے نتائج سے آج بھی نبرد آزما ہے۔ یہ بیانات پاکستان کے ماضی کی پالیسیوں کی غمگین حقیقتوں کو سامنے لاتے ہیں اور ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ ماضی میں کی جانے والی سیاسی غلطیوں کا آج کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارتی انتہا پسندوں نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حملہ کر دیا۔ حملہ آوروں نے عمارت کے شیشے توڑنے سمیت متعدد تخریبی کارروائیاں کیں۔ ڈان نیوز کے مطابق، بھارت میں پہلگام کے مبینہ واقعے کے بعد بیرون ملک مقیم بھارتی انتہا پسندوں نے بھی تشدد کا راستہ اپنایا۔ لندن میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر جمع ہونے والے ہندو انتہا پسندوں نے عمارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ حملہ آوروں نے عمارت پر سرخ رنگ پھینکا اور شیشے توڑ دیے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میٹروپولیٹن پولیس نے موقع پر پہنچ کر صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کی۔ پولیس نے دو بھارتی شہریوں کو حراست میں لے لیا جو عمارت کو نقصان پہنچانے اور نازیبا حرکات کرنے میں ملوث تھے۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 23 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں 26 سیاحوں کی مبینہ ہلاکت کے بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا تھا۔ پاکستانی حکومت نے بھارت کے ان اقدامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا پانی روکنا اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ لندن میں پیش آنے والا یہ واقعہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستانی حکام نے واقعے کی فوری طور پر میٹروپولیٹن پولیس کو اطلاع دے دی تھی۔ پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔
بھارت نے اپنے جنگی جنون میں ایک اور اشتعال انگیز قدم اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی سرحد سے متصل گاؤں رورانوالا خرد میں کسانوں کو سرحدی علاقوں میں کھڑی فصلیں فوری طور پر کاٹنے کا حکم دے دیا ہے۔ بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے کسانوں کو صرف دو دن کی مہلت دی ہے، جس کے بعد سرحدی دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت کے یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کا جنگی جنون خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بھارت نے روایتی جنگ کا آغاز کیا تو اس کے نتائج بھارت کے لیے بھی تباہ کن ہوں گے۔ ماہرین نے زور دے کر کہا کہ جنگ کا آغاز بھارت کرے گا، لیکن اختتام پاکستان طے کرے گا۔ یاد رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں مبینہ طور پر 26 سیاحوں کی ہلاکت کا الزام لگا کر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ ایک فالس فلیگ آپریشن ہو سکتا ہے، جسے بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کا جواز بنانے کے لیے استعمال کیا۔ بھارت نے اس واقعے کے بعد پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا، واہگہ بارڈر بند کر دیا، اپنے ملٹری اتاشی کو واپس بلایا اور پاکستان میں سفارتی عملے کی تعداد کم کر دی۔ قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس میں بھارتی اشتعال انگیزی کے جواب میں فیصلہ کیا گیا کہ شملہ معاہدہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدے معطل کیے جائیں۔ بھارت کے لیے فضائی حدود، سرحدی آمدورفت اور تجارت بند کر دی گئی۔ بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کو 30 ارکان تک محدود کر دیا گیا۔ بھارتی فوجی مشیروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ سکھ یاتریوں کے علاوہ تمام بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو کھلی جنگ ہوگی، جو دونوں ممالک کے جوہری طاقت ہونے کے پیش نظر پورے خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے بھارت کی خود ساختہ کارروائی قرار دیا۔ بھارت کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علاقائی امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا اور ہر ممکن جوابی اقدام کے لیے تیار ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی جنگی پالیسیوں پر فوری طور پر توجہ دے اور تنازعے کو مزید بڑھنے سے روکے۔

Back
Top