خبریں

اسلام آباد: ورلڈ بینک نے بدھ کے روز پاکستان کے معاشی حالات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ موجودہ مالی سال کے دوران تقریبا 10 ملین پاکستانی غذائی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں، جبکہ غربت کی شرح میں اضافے کا امکان بھی ہے۔ یہ وارننگ اس وقت سامنے آئی جب ورلڈ بینک نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی کو کم کر کے 2.7 فیصد کر دیا، اس کی وجہ ملک کی سخت اقتصادی پالیسیوں کو قرار دیا گیا ہے جو قومی پیداوار کو دبا رہی ہیں۔ ورلڈ بینک کی "پاکستان اقتصادی اپ ڈیٹ" رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت اپنے سالانہ بجٹ خسارے کے ہدف کو پورا کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ملک کے قرضوں کا بوجھ بھی بڑھنے کا امکان ہے، جو نہ صرف مطلق مقدار میں بلکہ جی ڈی پی کے تناسب میں بھی اضافہ کرے گا۔ ورلڈ بینک نے کہا کہ "موسمی حالات کی وجہ سے اہم زرعی فصلوں جیسے چاول اور مکئی کی مجموعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے تقریباً 10 ملین افراد، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، اس مالی سال کے دوران شدید غذائی کمی کا سامنا کر سکتے ہیں۔" رپورٹ میں غربت، بے روزگاری اور حقیقی اجرتوں میں کمی جیسے مسائل پر زور دیا گیا ہے، جو عام طور پر سرکاری اجلاسوں میں زیر بحث نہیں آتے۔ رپورٹ کے مطابق "غربت میں کمی کے لیے اہم شعبے—زراعت، تعمیرات اور کم قیمت والی خدمات—کم یا منفی ترقی کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں حقیقی اجرتوں میں جمود آیا ہے۔" پاکستان میں آبادی کی شرح نمو تقریباً 2 فیصد ہے، جس کے سبب اس مالی سال میں مزید 1.9 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ملک میں روزگار کی شرح صرف 49.7 فیصد ہے، جو خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین میں کم محنت مارکیٹ کی شرکت کو ظاہر کرتی ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ "سوشل پروٹیکشن اخراجات مہنگائی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوئے، جس کے نتیجے میں غریب طبقے کے لیے خوراک، صحت، تعلیم اور دیگر اہم ضروریات کے لیے وسائل کی کمی ہو رہی ہے، جو انسانوں کی صلاحیت اور محنت کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔" رپورٹ میں بتایا گیا کہ "37 فیصد نوجوان اور 62 فیصد خواتین نہ تعلیم میں ہیں، نہ ملازمت میں اور نہ ہی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔" رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ "اگرچہ کم ہنر مند کارکنوں جیسے معماروں، پینٹروں، پلمبروں اور غیر ہنر مند کارکنوں کی یومیہ اجرتیں تقریباً دگنی ہو گئی ہیں، لیکن حقیقی اجرتوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، بلکہ یہ جمود یا معمولی کمی کا شکار ہو گئی ہیں۔" ورلڈ بینک کے مطابق، غربت کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ ہو سکتا ہے، حتیٰ کہ قومی غربت کی لائن پر بھی۔ ورلڈ بینک نے کہا کہ "اگر ہم 2013-14 کے قومی غربت لائن یعنی 3030 روپے فی بالغ فی ماہ کو 2024 کی قیمتوں پر 8231 روپے کے برابر سمجھیں، تو اس مالی سال کے لیے تخمینہ شدہ غربت کی شرح 25.4 فیصد ہو گی۔" ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ اس مالی سال میں اقتصادی ترقی 2.7 فیصد تک محدود رہے گی، جو کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی پیش گوئیوں کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے 3.6 فیصد ترقی کے ہدف کو پورا نہیں کر پائے گی، جسے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ میں حاصل کرنے کے قابل قرار دیا تھا۔ ورلڈ بینک کے پاکستان میں ملک کے ڈائریکٹر، نایجی بینہاسین نے کہا کہ "پاکستان کا بڑا چیلنج یہ ہے کہ حالیہ استحکام کے فوائد کو اقتصادی ترقی میں بدل کر غربت کم کرنے کے لیے مناسب اور پائیدار اقدامات کیے جائیں۔" انہوں نے کہا کہ "مؤثر اور ترقی پسند ٹیکس نظام کو ترجیح دینے کے لیے اعلی اثرات والے اصلاحات، مارکیٹ کی شرح تبادلہ کو سپورٹ کرنے کے لیے اقدامات، درآمدی محصولات کو کم کرنے کے لیے تجارتی اصلاحات، کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اور عوامی شعبے میں اصلاحات پاکستان میں اعتماد اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے۔" ورلڈ بینک نے مزید کہا کہ اگلے مالی سال میں اقتصادی ترقی 3.1 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے اور 2027 میں یہ 3.4 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ ورلڈ بینک نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ کھاتہ اس مالی سال میں جی ڈی پی کا 0.2 فیصد یا 800 ملین ڈالر کا سرپلس حاصل کرے گا، جو 15 سالوں میں پہلی بار ہوگا۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی تجارتی خسارہ بڑھنے کی توقع ہے کیونکہ درآمدات کی شرح نمو برآمدات سے زیادہ ہے۔ ورلڈ بینک نے کہا کہ حکومت کے 5.9 فیصد جی ڈی پی کے بجٹ خسارے کے ہدف کے مقابلے میں، یہ خسارہ اس مالی سال میں جی ڈی پی کے 6.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت بجٹ کے ہدف سے 1.1 کھرب روپے زیادہ خرچ کرے گی۔ ورلڈ بینک نے پاکستان کو تجویز دی کہ وہ بینک کے تبادلہ مارکیٹ کی فعالیت کو بحال کرے اور مکمل مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ کی حمایت کرے۔ اس نے حکومت سے مزید اصلاحات کرنے کی درخواست کی، جیسے غیر ضروری یا غیر پیداواری عہدوں یا اداروں کا خاتمہ، عوامی شعبے کی تنخواہوں کا جائزہ اور پینشن اصلاحات کو نافذ کرنا۔ ورلڈ بینک نے اس بات پر زور دیا کہ "پاکستان کی معیشت نے استحکام کی طرف قدم بڑھایا ہے، لیکن اقتصادی منظرنامہ ابھی بھی نازک ہے، اور اگر ساختی اصلاحات میں کوئی تاخیر ہوئی یا اقتصادی استحکام میں تبدیلی آئی تو یہ بحالی کو سست کر سکتا ہے اور بیرونی دباؤ کو بڑھا سکتا ہے۔" ورلڈ بینک نے پاکستان کی زرعی آمدنی ٹیکس کی حالیہ اصلاحات اور جائیداد کی قیمتوں میں کمی کی بھی حمایت کی تاکہ موجودہ قیمتوں کے نیچے ہونے والی غلط قیمتوں کا ازالہ کیا جا سکے۔
پاکستان نے بھارتی طیاروں کے لیے فضائی حدود بند کر دیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نوٹم جاری کر دیا پاکستان نے بھارت کے لیے فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی رجسٹرڈ طیاروں پر ایک ماہ کی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے کے تحت بھارتی ایئر لائنز اور ان کے زیرِ استعمال یا لیز پر لیے گئے تمام طیارے اب پاکستان کی فضائی حدود استعمال نہیں کر سکیں گے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس حوالے سے نوٹم (نوٹس ٹو ایئر مین) بھی جاری کر دیا ہے۔ نوٹم کے مطابق نہ صرف بھارتی سول بلکہ ملٹری طیاروں کو بھی پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پابندی سے بھارت کی بین الاقوامی پروازوں پر براہِ راست اثر پڑے گا، کیونکہ پاکستان کا فضائی راستہ بھارت کے لیے یورپ، روس، کینیڈا اور امریکا جانے کے لیے مختصر ترین راستہ ہے۔ ترجمان پی آئی اے عبداللہ خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی بیشتر پروازیں پاکستانی فضائی حدود سے گزرتی ہیں اور موجودہ بندش کی وجہ سے اب انہیں طویل متبادل راستے اختیار کرنا ہوں گے، جس سے نہ صرف وقت بلکہ ایندھن کا بھی بڑا نقصان ہوگا۔ ان کے مطابق ہر اضافی پرواز گھنٹے میں تقریباً 2200 گیلن ایندھن خرچ ہوتا ہے، اور موجودہ قیمتوں کے مطابق فی فلائٹ 7 سے 8 ہزار ڈالر اضافی لاگت آئے گی۔ ڈائریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی عبدالقادر نے بتایا کہ دہلی اور ممبئی سے یورپ جانے والی پروازیں اس فیصلے سے شدید متاثر ہوں گی، جب کہ ایئر انڈیا، وسٹارا اور بھارت کی دیگر بین الاقوامی ایئر لائنز کو بھی اپنے فلائٹ روٹس میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔ ان پروازوں کو اب بحیرہ عرب، ایران یا چین کی فضائی حدود اختیار کرنی ہوں گی، جس سے وقت اور ایندھن کی کھپت میں خاصا اضافہ ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے یہ قدم خطے میں حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں اُٹھایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت کو یومیہ کروڑوں روپے کے اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑ سکتے ہیں۔
اسلام آباد: سابق وزیرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عمران خان کی مقبولیت کے حوالے سے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں اور خاص طور پر موجودہ حالات میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جانا عام بات ہو چکی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک کلپ کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت دی کہ اس میں کچھ باتیں دانستہ طور پر کاٹ کر پیش کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ "سوشل میڈیا پر چلنے والے اس ادھورے کلپ میں جو بات حذف کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ میں نے یہ واضح طور پر کہا تھا کہ عمران خان کا کسی نبی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کسی نبی کے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ ان کا ایمان ہے اور وہ اس پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔ ڈاکٹر علوی نے قرآن کی سورۃ الحجرات کی آیت 6 کو یاد دلایا جس میں اللہ تعالیٰ نے فاسق کی خبر کی تصدیق کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس آیت میں فرمایا گیا ہے: "اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہو۔" آخر میں ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ "انسان خطاؤں کا پتلہ ہے اور وہ اپنے رب سے ہمیشہ معافی اور ہدایت کا طلبگار ہوتا ہے۔ جو افراد اس ادھوری وڈیو کی وجہ سے دل آزاری کا شکار ہوئے، میں ان سے دل سے معافی مانگتا ہوں۔" انہوں نے اپنی ٹویٹ میں خطاب کا مکمل لنک بھی شیئر کیا، جس میں واضح کیا کہ وائرل ہونے والی وڈیو کے 37ویں منٹ کے قریب سے جملہ کاٹ کر پیش کیا گیا تھا۔
لاہور : شالیمار پولیس کے زیر اثر علاقے میں ایک انوکھی ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا جہاں ایک ڈاکو نے نہ صرف شہری کو گھر لے جا کر لوٹا بلکہ مال لوٹنے کے بعد اسے واپس چھوڑ دیا۔ تفصیلات کے مطابق، 19 اپریل کو صبح ساڑھے آٹھ بجے حسن شہزاد نامی شہری موٹرسائیکل پر سفر کر رہا تھا کہ سیٹھاں والی باغیچی کے قریب ایک نامعلوم شخص نے راستہ پوچھنے کا بہانہ بنا کر اسے روک لیا۔ واقعے کے بارے میں متاثرہ شخص کا بیان ہے کہ نامعلوم شخص نے ایک ڈیوائس ان کی جیب میں ڈال کر دھمکی دی کہ "یہ بم ہے، اگر مزاحمت کی تو تمہیں بم سے اڑادوں گا"۔ اس کے بعد ڈاکو نے حسن کو اپنے ہی گھر لے جانے کا حکم دیا جہاں اس نے زیورات، نقدی، موبائل فون اور کریڈٹ کارڈز لوٹ لیے۔ حیرت انگیز طور پر، مال لوٹنے کے بعد ڈاکو نے حسن سے کہا کہ اب اسے واپس چھوڑ آئے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ڈاکو کو حسن کی موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس نے واقعے کے دو دن بعد مقدمہ درج کیا ہے۔ ایس پی اثر علی چوہدری کے مطابق ابتدائی طور پر چوری اور دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جبکہ ملزم کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مقدمہ درج کرنے میں ہونے والی تاخیر اور دفعات کے انتخاب پر متعلقہ ایس ایچ او سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ قانونی ماہرین کے مطابق چونکہ ڈاکو نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا تھا، اس لیے یہ واقعہ ڈکیتی کے زمرے میں آتا ہے۔ پولیس نے ملزم کی شناخت کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت دیگر شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ یہ واقعہ شہر میں ہونے والی منفرد نوعیت کے مجرمانہ واقعات میں شمار کیا جا رہا ہے
ضلع وہاڑی کی تحصیل بوریوالہ میں 12 سالہ بچے کو ٹیوب ویل پر نہانے کی پاداش میں مالک کی جانب سے بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ملزم طارق ڈوگر نے فائرنگ کرکے 12 سالہ محمد ذکی کی جان لے لی۔ٹیوب پر ذکی کیساتھ اور بھی بچے نہارہے تھے۔ نجی چینل سماء کے مطابق معصوم ذکی جو قرآن پاک بھی حفظ کر رہا تھا، اتوار کی صبح 10 سے 11 بجے کے درمیان ٹیوب ویل پر نہانے گیا تھا جب یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ مقتول ذکی کے والد 33 سالہ ارسلان بٹ جو سعودی عرب میں ملازمت کے سلسلہ مقیم ہیں، بیٹے کی موت کی خبر سن کر وطن واپس آگئے اور انہوں نے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ ذکی ان کا بڑا بیٹا تھا جسے وہ بہت پیار کرتے تھے ‘۔ ارسلان بٹ کے مطابق ’ ملزم طارق نے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں گولی ذکی کی ہتھیلی کو کراس کرتی ہوئی پہلے ایک ٹانگ اور پھر دوسری ٹانگ میں لگی، ان کے ساتھ نہانے والے بچوں نے ابتدا میں سمجھا کہ پٹاخہ پھوٹا ہے لیکن دوسری جانب ذکی زمین پر گر پڑا تھا۔ ‘ ارسلان بٹ کے مطابق فائرنگ کے بعد ملزم نے اسلحہ دکھا کر کسی کو بچے کے قریب بھی آنے نہ دیا اور ذکی کو شدید زخمی حالت میں تڑپنے دیا ۔ بچے کے دوستوں کے مطابق ذکی ملزم کے پاؤں پکڑ کر بار بابر التجا کرتا رہا کہ "انکل، میں نے کیا کیا ہے؟ " لیکن ملزم نے بچے پر رحم نہ کیا اور ریسکیو کا بھی کوئی موقع نہ دیا جس کے باعث شدید خون بہنے کی وجہ سے ذکی موقع پر ہی دم توڑ گیا"۔ ارسلان کے مطابق ملزم نے جب دیکھا کہ ذکی آخری سانسوں پر ہے تو اس نے اسکو گاڑی میں ڈال کر کہیں پھینکنے کے لئے لے جانے کی کوشش کی لیکن ایک بچے نے گاؤں میں گندم کی کٹائی کرنے والوں کو اطلاع دے دی تھی جس پر لوگوں نے ملزم کی گاڑی روک لی اور زبردستی اس گاڑی میں سوار ہوگئے تاکہ بچے کو ہسپتال منتقل کیا جاسکے۔ بعد ازاں ملزم گاؤں والوں کو دیکھ کر فرار ہوگیا۔ارسلان بٹ کے مطابق ملزم ماضی میں بھی دو بار اسی طرح کی حرکتیں کرچکا ہے۔ طارق کا بھائی بھی ایک قتل کیس میں جیل میں ہے جبکہ اسکے بیٹے نے بھی کسی پر فائرنگ کی جو ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ملزم طارق کا ایک اور ٹیوب ویل بھی ہے جس کے حوض میں اس نے کیلیں ٹھوک رکھی ہیں تاکہ اس میں نہانے والے زخمی ہوں‘۔ پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرکے کاروائی شروع کردی ہے۔
پنجاب پولیس کے پانچ اہلکاروں پر مشتمل ایک اور ہنی ٹریپ گینگ پکڑا گیا،گینگ میں خواتین سمیت کل 10 ملزمان شامل تھے۔ راولپنڈی پولیس کی تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ اس گینگ نے 50 سے زیادہ افراد کو ہنی ٹریپ کر کے ان سے کروڑوں روپے حاصل کیے ہیں۔ لاہور پولیس کے اہلکاروں نے شیخوپورہ میں گھر میں گھس کو دونوجوانوں کو اٹھایا،تشدد کیا،پھر ان کو چھوڑنے کے لیے گھر والوں سے ایک کروڑ اور ایک گاڑی کی ڈیمانڈ کی،بعد میں لاہور کے ایک ایس ایچ او کے ذریعے لڑکے کو چھوڑنے کے لیے پولیس نے 15 لاکھ وصول کیے۔ بی بی سی کی شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ہنی ٹریپ کے کارووائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں اِن پانچوں پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اُن کے قبضے سے کروڑوں روپے کی نقدی کے علاوہ وہ قیمتی اشیا بھی برآمد کی گئی ہیں جو مبینہ طور پر متاثرہ افراد کو بلیک میل کر کے حاصل کی گئی تھیں۔ پولیس اہلکار کے مطابق اس گینگ میں شامل ایک خاتون سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے لوگوں کو ٹریپ کرتی تھیں۔ تفتیشی ٹیم میں شامل اہلکار کے مطابق اس گینگ میں شامل دیگر افراد ملاقات کے بہانے آنے والے لوگوں کی برہنہ حالت میں تصاویر اور ویڈیوز بناتے اور پھر ان افراد کو دکھاتے جو ہنی ٹریپ ہو چکے ہوتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اس گینگ کے افراد ان تصاویر اور ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ اور شیئر کرنے کی دھمکی دیتے اور پیسے بٹورتے۔ تفتیشی ٹیم میں شامل پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ اس گینگ نے 50 سے زیادہ افراد کو ہنی ٹریپ کر کے ان سے کروڑوں روپے حاصل کیے ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق ملزمان ہنی ٹریپ ہونے والے افراد سے اُن کے کاروبار کے بارے میں بھی پوچھتے تھے۔ مقامی پولیس کے مطابق ہنی ٹریپ ہونے والے افراد میں متعدد سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جو اس گینگ کے مطابات پورا کرتے رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے ضلع پہلگام میں سیاحتی مقام پر ہونے والے حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے پاک بھارت کرکٹ سیریز سے متعلق اہم بیان جاری کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آخری دو طرفہ سیریز 2012 اور 2013 میں ہوئی تھی، اور بھارت نے 2008 میں ایشیا کپ کے دوران پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پہلگام حملے کے بعد بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں ہونے والی کسی دو طرفہ کرکٹ سیریز کے بارے میں اپنا فیصلہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت آئندہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی دو طرفہ کرکٹ سیریز میں حصہ نہیں لے گا۔ راجیو شکلا نے مزید کہا، "ہم اس حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں اور متاثرین کے ساتھ ہیں۔ ہماری حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی، ہم اس پر عمل کریں گے۔ حکومت کے موقف کی وجہ سے ہم پاکستان کے ساتھ دو طرفہ کرکٹ سیریز نہیں کھیلیں گے اور نہ ہی آگے کسی دو طرفہ معاملات میں پاکستان کے ساتھ کھیلیں گے۔" انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ آئی سی سی ایونٹس میں بھارت پاکستان کے ساتھ کھیلتا ہے، کیونکہ یہ ایونٹس آئی سی سی کی زیر نگرانی ہوتے ہیں، اور آئی سی سی بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس وقت کیا صورتحال ہے اور وہ اس پر اپنا ردعمل دے گا۔ واضح رہے کہ تین دن قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع پہلگام میں فائرنگ کے ایک واقعے میں 26 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے کے بعد بھارتی حکومت نے بغیر کسی تحقیق کے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔
بینظیر شاہ کی رپورٹ: گزشتہ ستمبر، جب پنجاب میں گندم کی بوائی کا موسم قریب آ رہا تھا، بہاولنگر سے تعلق رکھنے والے 39 سالہ کسان ایاز سمیع اپنے گھر میں بیٹھے ٹیلی ویژن پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی تقریر غور سے سن رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا تھا، "میں کسانوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں، جب آپ فیلڈ میں کسان سے بات کریں، تو اسے بے دھڑک گندم لگانے کی ترغیب دیں، انشاء اللہ، آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔" اس وعدے کے بعد پنجاب حکومت نے کسانوں کو گندم کی کاشت بڑھانے کی ترغیب دینے کے لیے اشتہارات جاری کیے، جن میں مفت ٹریکٹر کی فراہمی جیسے مراعات کی پیشکش کی گئی۔ ایاز سمیع، جو طویل عرصے سے مسلم لیگ (ن) کے حامی ہیں، نے اپنی 100 ایکڑ اراضی میں سے 70 ایکڑ پر گندم کی فصل لگائی۔ تاہم، جیسے ہی اپریل آیا اور گندم کی فصل کٹائی کے لیے تیار ہوئی، پنجاب حکومت خاموشی سے اپنے کیے گئے وعدے سے منحرف ہو گئی۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ معاہدے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وہ پالیسی ختم کر دی جس کے تحت گندم کے کاشتکاروں کو مارکیٹ کے نقصانات سے بچانے کے لیے کم از کم امدادی قیمت (MSP) دی جاتی تھی۔ ایاز سمیع نے کہا، "کھاد جیسے مہنگے زرعی اخراجات کی وجہ سے 40 کلو گندم کی پیداواری لاگت 3 ہزار روپے آتی ہے، جب کہ اوپن مارکیٹ میں ہمیں صرف 1800 سے 2200 روپے مل رہے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سال بھی صوبائی حکومت نے چھوٹے کسانوں سے براہِ راست گندم خریدنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ وعدہ بھی پورا نہ ہو سکا۔ اس فیصلے کے واپس ہونے کے بعد پنجاب بھر میں کسانوں نے احتجاج شروع کر دیا اور ہزاروں کسان سڑکوں پر نکل آئے۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ وہ اگلے سیزن میں گندم نہیں اگائیں گے جب تک حکومت کم از کم 4 ہزار روپے فی 40 کلوگرام قیمت کی ضمانت نہ دے۔ بہاولپور کے 42 سالہ نواز بلوچ، جو اپنی 10 ایکڑ زمین پر گندم کاشت کرتے ہیں، نے کہا، "کیا مسلم لیگ (ن) کسانوں کے خلاف ہے؟ اگر حکومت نے ہماری مدد نہ کی تو اگلے سال صرف اپنے لیے گندم اگاؤں گا۔" پاکستان کے زرعی شعبے کی معیشت میں اہمیت کے حوالے سے وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق، زرعی شعبہ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 23 فیصد حصہ ہے اور پنجاب ملک کی مجموعی گندم کا 76 فیصد پیدا کرتا ہے۔ حکومت کے ریلیف پیکج پر ردعمل قیمتوں میں کمی کے سبب بڑھتے ہوئے عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے، وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے 16 اپریل کو گندم کے کاشتکاروں کے لیے 15 ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا۔ اس پیکج میں کسان کارڈ ہولڈرز کے لیے گندم سپورٹ فنڈ، رواں سال کے لیے آبیانہ اور فکسڈ ٹیکسز سے استثنیٰ، الیکٹرانک ویئرہاؤس رسید (EWhR) نظام کا آغاز اور گندم و آٹے کی بین الصوبائی فروخت پر عائد پابندی کا خاتمہ شامل ہے۔ بعد میں، 21 اپریل کو وزیر اعلیٰ نے کسانوں کے لیے فی ایکڑ 5 ہزار روپے کی اضافی نقد امداد کی منظوری دی۔ تاہم، بہت سے کسانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے گندم کے کاشتکار ذوالفقار علی نے کہا، "کسان کارڈ اب ایک قرض کا جال بن چکا ہے، میں نے پچھلے سال اس کے ذریعے 1 لاکھ 50 ہزار روپے کا قرض لیا تھا، جو 30 اپریل تک واپس کرنا ہے، لیکن میرے پاس اپنے بچوں کی سکول فیس دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔" پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے حکومت کے پیکج کو متضاد اور ناکافی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، "ایک طرف آپ گندم کی مارکیٹ کو ڈی ریگولیٹ کر رہے ہیں، دوسری طرف روٹی کی قیمتیں مقرر کر رہے ہیں۔" عادل منصور، جو کراچی میں فوڈ سیکیورٹی کے تجزیہ کار ہیں، نے کہا کہ 27 ہزار روپے کی رقم کسانوں کو ہونے والے نقصانات کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی پورا نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا، "موجودہ قیمتوں کے مطابق، کسان گزشتہ سال کی قیمتوں کے مقابلے میں 3 سے 4 لاکھ روپے تک کے نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ کوئی امدادی پیکج نہیں ہے، یہ ایک بڑے زخم پر محض دکھاوے کی پٹی ہے۔" عادل منصور نے مزید کہا کہ "الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسید (EWR) نظام کاغذوں پر اچھا لگتا ہے، لیکن چھوٹے کسانوں کو فوری نقد رقم کی ضرورت ہے، نہ کہ تاخیر سے ہونے والی ادائیگیوں کی۔" پنجاب حکومت کا موقف پنجاب کے وزیر زراعت عاشق حسین کرمانی نے "دی نیوز" کو بتایا کہ 15 ارب روپے کی رقم صرف ابتدائی مرحلے کے لیے مختص کی گئی ہے اور یہ صرف ان کسانوں کے لیے ہے جن کے پاس ساڑھے 12 ایکڑ سے کم زمین ہے۔ انہوں نے کہا کہ "مالی امدادی پروگرام کی تفصیلات ابھی حتمی شکل دی جا رہی ہیں، اس لیے یہ امکان ہے کہ مجموعی رقم میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو اہل کسانوں کی حتمی فہرست پر منحصر ہوگا۔" انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ پنجاب حکومت گندم کے شعبے کی ڈی ریگولیشن کی جانب بڑھ رہی ہے اور اب گندم کی قیمتیں حکومت مقرر نہیں کرے گی، بلکہ ان کا تعین مارکیٹ کرے گی۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا 31 واں اجلاس ہوا، جس میں پہلگام واقعے کے بعد بھارتی حکومت کے جارحانہ رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بھارتی حکومت کا یہ رویہ افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے، اور مودی سرکار ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس واقعے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے اپنے دوٹوک موقف میں کہا کہ خیبر پختونخوا اور پورا پاکستان بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہر طرح سے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ بھارتی حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی نے مزید کہا کہ بھارتی حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے پاکستان کے خلاف زہر اگل رہی ہے، اور اگر بھارت نے جارحیت کی کوشش کی تو اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملک کی سالمیت اور قومی مفاد کے لئے ہم سب متحد ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی قربانی کے لئے تیار ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بھارتی حکومت کا جارحانہ رویہ ہمیشہ سے خطے کے امن کے لئے ایک بڑا خطرہ رہا ہے اور یہ صورتحال مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔
وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرتے ہوئے اظہار دلچسپی کا نوٹس جاری کر دیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، پی آئی اے کے 51 سے 100 فیصد شیئرز فروخت کرنے کے لیے پیش کیے جائیں گے، جبکہ پی آئی اے کا منیجمنٹ کنٹرول بھی منتقل کیا جائے گا۔ نجکاری کمیشن نے اظہار دلچسپی جمع کرانے کے لیے 3 جون 2025 تک کی تاریخ مقرر کی ہے۔ نجکاری کمیشن کے مطابق، پی آئی اے کے کور اور نان کور بزنس کو الگ الگ کیا گیا ہے، اور پی آئی اے کے اثاثے اور واجبات پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمٹیڈ کو منتقل کیے گئے ہیں۔ نجکاری کمیشن کا کہنا ہے کہ نئے طیاروں کی خریداری اور لیز کے حوالے سے سیلز ٹیکس چھوٹ دی جا سکتی ہے، اور پی آئی اے کو مالی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزرے چند سالوں سے مسلسل خسارے کا شکار پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی حکومت نجکاری کرنے کی خواہاں ہے، اور اس سلسلے میں ایک طویل عمل کے بعد حکومت کو ادارے کی نجکاری کے لیے بولیاں بھی موصول ہوئی تھیں۔ تاہم، توقع سے انتہائی کم بولی لگنے پر نجکاری بورڈ نے قومی ایئرلائن کی نجکاری کے لیے موصول ہونے والی بولیاں مسترد کر دی تھیں۔ یاد رہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے گزشتہ سال 31 اکتوبر کو بولی کھولی گئی تھی، اور قومی ایئر لائن کے 60 فیصد حصص کی نجکاری کے لیے 85 ارب روپے کی خواہاں حکومت کو ریئل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنی کی جانب سے صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی تھی۔ بعد ازاں، دبئی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی گروپ نے حکومت کو 250 ارب روپے کے واجبات سمیت 125 ارب روپے سے زائد میں خریدنے کی پیشکش ارسال کی تھی۔ ڈان نیوز کے مطابق، النہانگ گروپ نے پی آئی اے کی خریداری کے لیے وزیر نجکاری، وزیر ہوا بازی اور وزیر دفاع سمیت دیگر متعلقہ حکام کو بذریعہ ای میل پیشکش ارسال کی تھی۔ النہانگ گروپ نے حکومت کو پی آئی اے کے ملازمین کی چھانٹی نہ کرنے، اور تنخواہوں میں مرحلہ وار 30 سے 100 فیصد اضافے کی بھی پیشکش کی تھی۔ بعد ازاں، گزشتہ سال 19 دسمبر کو سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے حکومت پر پی آئی اے کی نجکاری کا عمل سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا تمام کام مکمل کر لیا گیا تھا مگر موجودہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل سبوتاژ کر دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ نجکاری کے لیے واضح مقصد اور بیانیہ ہونا چاہیے، اور دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں نجکاری کمیٹی کا سربراہ وزیر خارجہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بڑی حکومت پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو چھوٹی حکومت کرنے پر یقین رکھتی ہو۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے واقعے کے بعد بھارت نے ایک بار پھر روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے بغیر کسی تحقیق کے حکومت پاکستان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بلاک کر دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق، پہلگام واقعے کو جواز بناتے ہوئے ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے بھارت میں گورنمنٹ آف پاکستان کے ایکس ہینڈل کو بند کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ 2 روز قبل مقبوضہ کشمیر کے ضلع پہلگام کے سیاحتی مقام پر فائرنگ کے واقعے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے پہلگام واقعے میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا بھی کی گئی۔ تاہم، گزشتہ روز بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے جاری پانی کی تقسیم کے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دیتے ہوئے ایک ہفتے میں بھارت چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ پاکستان کی جانب سے بھی بھارتی اقدامات کا بھرپور جواب دینے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، جس میں سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔
لاہور پولیس نے سوشل میڈیا پر جعلی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج کرلیے ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق، لاہور پولیس نے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج کرلیے ہیں۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سید ذیشان رضا کا کہنا ہے کہ قومی اداروں کے خلاف قابل اعتراض اور نازیبا مواد کی تشہیر میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کی تضحیک اور تمسخر اڑانے والے عناصر کو قانون کی گرفت میں لے کر سخت سزا دلائی جائے گی، کیونکہ ان کا مقصد معاشرے میں انتشار پھیلانا اور اداروں کے خلاف منافرت پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کو تمام قانونی شواہد کی بنیاد پر مضبوط چالان تیار کر کے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
اسلام آباد – جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بگڑ چکی ہے، ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں، اور حکومت عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں مسلح گروہ آزادانہ گھوم رہے ہیں، بھتے لیے جا رہے ہیں، کاروباری طبقہ غیرمحفوظ ہے، اور حکومت تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بڑے عوامی مارچ کا اعلان کیا اور کہا کہ 27 اپریل کو لاہور، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور مالی جہاد میں بھی بھرپور شرکت کرے گی۔ مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی کے کچھ اراکین کی جانب سے مائن اینڈ منرل بل کی حمایت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کرنے اور سخت بازپرس کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس قانون کو عوام دشمن قرار دیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی باضابطہ اپوزیشن اتحاد کے قیام کا ارادہ نہیں رکھتے، تاہم عوامی مسائل پر باہمی مشاورت اور رابطہ جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مجلس اتحاد امت کو متحدہ مجلس عمل کا متبادل بنانے کا کوئی ارادہ نہیں، البتہ دینی نکات پر دینی جماعتیں متحدہ مؤقف اختیار کر سکتی ہیں۔ مولانا نے انکشاف کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر پی ٹی آئی نے ان سے حمایت مانگی، مگر بعد ازاں خود ہی اس ترمیم کی مخالفت کر دی۔ ان کے بقول، پی ٹی آئی اب تک ان کے تحفظات دور کرنے میں ناکام ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر 2018 کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور کہا کہ سلیکٹڈ حکومت کو قوم پر مسلط کیا گیا، جس کے اثرات آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت عوامی دباؤ کے تحت نہری منصوبے کی مخالفت کر رہی ہے، جبکہ ان کا مقصد صرف اور صرف عوام کے حق کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ حالات جو رخ اختیار کریں، ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
معروف صحافی حامد میر نے بھارتی حکومت کے پہلگام حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ بھارتی حکومت کا یہ اقدام دراصل انٹیلی جنس کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے۔ حامد میر نے کہا کہ پہلگام میں اس قسم کے حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، اور بھارتی سکیورٹی فورسز اس خطرناک علاقے میں سیاحوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کا ذمہ دار پاکستان ہرگز نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ پاکستان کی طرف سے نہیں کیا گیا، بلکہ یہ بھارت کی اپنی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے یہ قدم اُٹھا کر اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی ہے، اور اس کا مقصد پاکستان پر الزام دھریں۔ حامد میر نے جیو نیوز کے ساتھ اپنی خصوصی گفتگو میں بھارت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا جو اعلان کیا ہے، وہ ایک طویل عرصے سے بھارت کا ایک مقصد تھا۔ ان کے مطابق بھارت اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ بھارت کو ورلڈ بینک کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاہدہ کرانے پر تحفظات تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا خیال تھا کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستان کو پانی کے معاملے میں ریلیف ملتا ہے، خاص طور پر جب بھارت برسات کے موسم میں اپنے پانی چھوڑتا ہے، اور پاکستان ورلڈ بینک کو شکایت کرتا ہے، جس کے بعد پاکستان کو کچھ ریلیف مل جاتا ہے۔ حامد میر کے مطابق بھارت کی کوشش تھی کہ وہ اس معاہدے سے نکل جائے تاکہ پاکستان کو اس سے متعلق کسی قسم کا فائدہ نہ ملے۔ انہوں نے اس فیصلے کے پیچھے ایک انٹیلیجنس ناکامی کا اشارہ دیا۔ حامد میر کے مطابق، بھارت نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر سندھ طاس معاہدہ معطل کیا اور پاکستان ہائی کمیشن کے عملے کو واپس جانے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایکسکیوز ہے تاکہ بھارت اپنی انٹیلیجنس ناکامی اور مجرمانہ غفلت کو چھپانے کی کوشش کر سکے۔ حامد میر کے مطابق، پہلگام میں ہونے والا حملہ لائن آف کنٹرول سے کئی سو کلومیٹر دور ہوا تھا اور اس علاقے میں سڑکیں تک نہیں پہنچتیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کا سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ اس علاقے میں پہلے بھی ہو چکے ہیں، اور بھارتی فوج یہاں سرچ آپریشن کرتی رہی ہے، جس میں بھارتی فوج کے سینئر افسران مارے بھی گئے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ پہلگام میں ہر سال یوم یاتریوں پر حملے ہوتے ہیں، اور یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ خیال رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے سرحد پار دہشت گردی کی حمایت نہیں روکی تو سندھ طاس معاہدہ تب تک معطل رہے گا۔ مقبوضہ کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں گزشتہ روز فائرنگ کے ایک افسوسناک واقعے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر میں ایک مسلمان اکثریتی علاقے میں پیش آیا۔ حملے میں 26 مرد ہلاک ہوئے اور 17 افراد زخمی بھی ہوئے۔ بھارت کی جانب سے اس حملے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس حملے کے پس منظر میں سرحد پار سے دہشت گردی کے روابط ہیں۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کیبنٹ کمیٹی برائے سیکیورٹی (سی سی ایس) نے اس حملے کے جواب میں سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پاکستان کے دہشت گردوں کی حمایت کرنے کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان پانی کے وسائل کی تقسیم کی جاتی ہے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان جب تک سرحد پار دہشت گردی کی حمایت ختم نہیں کرتا، تب تک اس معاہدے کا نفاذ نہیں ہوگا۔ بھارتی حکومت نے پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ 48 گھنٹوں میں بھارت کو چھوڑ دیں۔ بھارت نے سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت پاکستانیوں کو بھارت آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور اس کے تحت ماضی میں جاری کردہ تمام ویزوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ وکرم مسری نے مزید کہا کہ بھارت اسلام آباد میں موجود اپنے دفاعی، بحریہ اور فضائی مشیروں کو واپس بلائے گا، اور ہائی کمیشن میں موجود عملے کی تعداد کو 55 سے کم کر کے 30 تک لایا جائے گا۔ یکم مئی تک مزید کمی متوقع ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی اقدامات کے جواب میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب کر لیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس بات کا اعلان کیا کہ اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوگی اور بھارت کے اقدامات کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔
اسلام آباد – وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگانا نامناسب ہے اور بھارت کی حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کرے اور سہولت کاروں کو تلاش کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال کے مطابق پاکستان کو جواب دینے کی ضرورت پیش آئی، تو پاکستان بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے، جیسے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بھارت کے پائلٹ ابھی نندن کے ساتھ کیا گیا تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے اور کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی ہو، پاکستان اس کی مذمت کرتا ہے۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ پاکستان جیسا ملک، جہاں بے گناہ لوگ شہید ہو رہے ہیں، کیسے دہشت گردوں کی پشت پناہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فورسز ہر جگہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں، اور ممکن ہے کہ بھارت فالس فلیگ آپریشن کر کے ملبہ پاکستان پر ڈال دے، چند روز قبل ایک شخص سرحدی علاقے میں پکڑا بھی گیا ہے، یہ بالکل کلبھوشن جیسا ہی ایک معاملہ ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واضح تانے بانے بھارت سے جڑتے ہیں، اور ان کے بغیر پاکستان میں دہشت گردی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو سرحد پار سے سپورٹ مل رہی ہے۔ انہوں نے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کو بھارت نے پناہ دی ہوئی ہے اور وہاں علاج کرایا جا رہا ہے، جو ریکارڈ پر ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اور مقبوضہ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود بے گناہ لوگوں کے مارے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں تو بھارتی فوج وہاں کیا کر رہی ہے؟ خواجہ آصف نے کہا کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کرے اور سہولت کاروں کو تلاش کرے، اور اگر کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پاکستان بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ دو سال پہلے بھی وہ کابل گئے تھے لیکن وہاں کی صورتحال اتنی خوشگوار نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس دورے کے دوران افغان حکام کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا، مگر اس کے بعد بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، اور دہشت گردی میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا۔ خواجہ آصف نے نائب وزیراعظم افغانستان کے حالیہ دورے کے حوالے سے کہا کہ دعا ہے کہ اس دورے کے اچھے نتائج سامنے آئیں اور پاکستان و افغانستان کے تعلقات امن کی سمت میں آگے بڑھیں۔ نواز شریف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی رانا ثناء اللہ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ملاقاتیں ہو چکی ہیں، اور ان ملاقاتوں میں سیاسی پیشرفت ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف بلوچستان میں ناراض لوگوں کو قریب لانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں اور سیاسی عناصر کو بھی قریب لانے میں ان کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی مسئلہ ہو تو ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر بہترین حل نکالیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے سے کہا کہ ڈیل کی باتیں سنتے ہوئے انہیں دو سال ہو چکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ڈیل نہیں ہوئی، اور پی ٹی آئی خود ہی کہتی ہے کہ بات ہوئی، پھر کہتی ہے کہ بات نہیں ہوئی۔
لاہور – پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ملوث ملزمان کو سزا دینے کی شرح میں بھی نہ ہونے کے برابر کمی واقع ہوئی ہے۔ ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق، 2024 کے دوران پنجاب بھر میں جنسی زیادتی، اغوا، غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کے ہزاروں کیسز سامنے آئے، جو خواتین کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ لاہور میں خواتین سے زیادتی کے سب سے زیادہ 532 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر ان میں سے صرف 2 مجرموں کو سزا دی جا سکی۔ اس کے علاوہ، فیصل آباد، قصور اور دیگر اضلاع میں بھی حالات بہت خراب ہیں، جہاں خواتین کے خلاف تشدد کی شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ خواتین کے اغوا کے سب سے زیادہ واقعات بھی لاہور میں رپورٹ ہوئے، جہاں 4510 خواتین کو اغوا کیا گیا، تاہم، ان میں سے صرف 5 ملزمان کو سزا دی جا سکی۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کے کیسز میں گوجرانوالہ سب سے آگے رہا، لیکن ان میں سے کسی بھی کیس میں ملزمان کو سزا نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پنجاب کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین کے لیے خطرات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں، اور انصاف کے نظام کی سست روی اور عدم کارکردگی کی وجہ سے ملزمان کی گرفتاری اور سزا کے امکانات انتہائی کم ہو گئے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں سماجی تنظیم ساحل کے اعداد و شمار کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق 2024 کے دوران پاکستان بھر میں خواتین پر تشدد کے 5,253 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کیسز میں قتل، خودکشی، اغوا، ریپ، غیرت کے نام پر قتل اور تشدد شامل ہیں۔ ساحل رپورٹ نے یہ اعداد و شمار ملک بھر کے 81 مختلف اخبارات سے جمع کیے تھے، جن میں اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کی خبریں شامل تھیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر، سماجی تنظیموں اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر خواتین کے تحفظ کے لیے مزید مؤثر اقدامات کرے اور ان کے خلاف تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دے۔
اسلام آباد – سعودی عرب میں گداگری سمیت مختلف جرائم میں ملوث پاکستانیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی کی گئی ہے، جس میں 4,300 پاکستانیوں کے پاسپورٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام سعودی حکام کی جانب سے کی جانے والی رپورٹ کے بعد اٹھایا گیا، جس میں ان افراد کی لسٹ فراہم کی گئی تھی۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں بتایا کہ سعودی عرب نے گداگری اور دیگر جرائم میں ملوث پاکستانیوں کی لسٹ حکومت پاکستان کو بھیجی، جس کے بعد ان افراد کو واپس لایا گیا اور ان کے پاسپورٹ منسوخ کر دیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اس معاملے میں سخت اقدامات کیے ہیں تاکہ ایسے افراد کے غیر قانونی طور پر بیرون ملک مقیم ہونے کا سلسلہ روکا جا سکے۔ کمیٹی اجلاس میں رکن قومی اسمبلی راجا خرم نواز نے اجلاس کی صدارت کی، جبکہ کمیٹی کے دیگر اراکین نے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر مملکت نے مزید بتایا کہ آئندہ اراکین پارلیمنٹ کے تجویز کردہ افراد کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس محدود پیمانے پر دیے جائیں گے۔ اجلاس میں اسلام آباد کے حلقوں میں سڑکوں کی تعمیر کا بھی ذکر کیا گیا۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اسلام آباد کے حلقوں میں سڑکوں کی تعمیر پر کوئی خاص کام نہیں ہو رہا، جس پر کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین نے وضاحت پیش کی کہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 25 کروڑ روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ہے، اور کئی حلقوں میں کام شروع بھی ہو چکا ہے۔ ایف آئی اے کے حوالے سے بھی اہم گفتگو ہوئی، جہاں رکن کمیٹی جمشید دستی نے کہا کہ ایف آئی اے میں تبدیلیوں سے ادارے کی کارکردگی میں بہتری نہیں آئی۔ وزیر مملکت نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بجائے بے جا تنقید کرنا مناسب نہیں، اور اداروں کی اصلاحات کے لیے ایڈوانس پروفائلنگ کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ طلال چوہدری نے گداگری کے حوالے سے ایک نیا قانون لانے کا بھی عندیہ دیا، جس کے تحت واپس آنے والے گداگروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور سزاؤں کا انتظام کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے بتایا کہ اب ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔ کمیٹی کے اجلاس میں آغا رفیع اللہ نے بھی ایف آئی اے کی کارکردگی کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ادارہ دنیا کے بہترین اداروں میں شامل ہے، خاص طور پر جب اس نے ایران جانے والے زائرین کو روک کر ان کی کلیئرنس فراہم کی۔
اسلام آباد – پاکستان سے 67 ہزار سے زائد عازمین حج کی مقدس سفر کی امیدوں پر پانی پھر گیا، حج درخواستوں کے لیے رقم ادا کیے جانے کے باوجود ان کا حج کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ اس سنگین صورتحال پر نجی حج آپریٹرز نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس میں وزارت مذہبی امور کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سینیٹر عطاالرحمان کی زیر صدارت اجلاس میں حج آپریٹرز کے نمائندوں نے انکشاف کیا کہ وزارت مذہبی امور نے نہ تو کوئی واضح ڈیڈ لائن دی، نہ ہی انہیں بروقت درخواستیں جمع کرنے کی اجازت دی گئی۔ مزید برآں، ان کا کہنا تھا کہ نجی اسکیم کے کروڑوں روپے غلط اکاؤنٹ میں منتقل ہو گئے، جس کی وجہ سے سعودی عرب کی ڈیجیٹل حج والٹ میں رقم کی تصدیق میں تاخیر ہوئی۔ پاکستان علما کونسل کے چیئرمین طاہر اشرفی نے خدشہ ظاہر کیا کہ 70 سے 75 ہزار نجی عازمین حج کا کوٹہ ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی حکومت نے طے شدہ معاہدے کے تحت 14 فروری تک مکمل رقم کی وصولی کی شرط رکھی تھی، بصورت دیگر "جہاں جگہ ہو گی وہاں دیا جائے گا" کی شق لاگو ہوگی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سعودی حکام 50 ملین ریال کی رقم ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں تلاش کرتے رہے، جس کی واپسی میں ڈیڑھ ماہ لگ گیا۔ دوسری جانب، سیکریٹری وزارت مذہبی امور نے انکشاف کیا کہ سعودی حکومت نے اب باضابطہ اطلاع دے دی ہے کہ مزید 67 ہزار عازمین کے لیے کوٹہ دستیاب نہیں ہے۔ وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ حج کوٹہ بحال کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی، جس پر سعودی حکومت نے صرف 10 ہزار اضافی افراد کی اجازت دی ہے۔ ڈی جی حج نے وضاحت کی کہ نجی اسکیم کے تحت 14 فروری تک 600 ملین ریال ادا کرنا لازمی تھا، جو مقررہ وقت میں ادا نہیں کیے گئے۔ ڈیجیٹل والٹ میں منتقل شدہ رقم تو واپس آ جائے گی، لیکن جو رقم عمارتوں کے کرایے اور بسوں کی بکنگ پر خرچ ہو چکی ہے، اس کی واپسی ممکن ہے یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ سیکریٹری نے اعتراف کیا کہ اب یہ مسئلہ وزارت مذہبی امور کے دائرہ اختیار سے نکل چکا ہے، اور دفتر خارجہ کی سطح پر بھی معاملات بند ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "پہلے مسئلہ حل کریں، پھر ذمہ داروں کا تعین کیا جائے"، لیکن اب صورتحال قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ یہ بحران نہ صرف ہزاروں عازمین کی حج کی خواہشات پر پانی پھیر چکا ہے، بلکہ پاکستان کے حج انتظامات پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے۔
کراچی – سندھ میں قومی شاہراہ کی مسلسل بندش پر اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (OICCI) نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ کو ایک اہم خط ارسال کیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، او آئی سی سی آئی نے خط میں نشاندہی کی کہ چھ روز سے جاری قومی شاہراہ کی بندش نے مقامی صنعت اور تجارتی سرگرمیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ خاص طور پر سامان کی ترسیل میں تاخیر، کنٹینرز کے بیک لاگ اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل میں رکاوٹ سے سنگین مالی نقصان ہو رہا ہے۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ سکھر کے قریب 3500 سے زائد گاڑیاں پھنس چکی ہیں جن میں برآمدی سامان، جلد خراب ہونے والی اشیاء اور اہم صنعتی خام مال شامل ہے۔ اس تعطل نے مارکیٹ کی سپلائی چین کو متاثر کیا ہے، جس کے باعث اشیائے ضروریہ کی قلت اور رسد کے بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ او آئی سی سی آئی کا کہنا ہے کہ قومی شاہراہ کی بندش سے کراچی پورٹ پر خام مال بھی پھنس گیا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر کی صنعتیں بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہو چکی ہیں۔ چیمبر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ برآمد کنندگان اپنی ڈیلیوری ڈیڈ لائنز پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے بین الاقوامی اعتماد کھو رہے ہیں، جو پاکستان کی مستقبل کی تجارتی شراکت داریوں اور برآمدی مسابقت کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ او آئی سی سی آئی نے اپنے خط میں خبردار کیا کہ یہ صورتحال صنعتی سرگرمیوں کی معطلی، روزگار کے مواقع کے خاتمے اور ملک کی طویل المدتی معاشی بحالی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ چیمبر نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت اور وفاقی انتظامیہ صورتحال کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر قومی شاہراہ کو بحال کرنے اور اشیاء کی بلا تعطل نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں، کیونکہ مضبوط اور روان تجارت ہی معاشی استحکام اور ترقی کی بنیاد ہے۔
اسلام آباد – وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے ایک اہم پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت حاصل کرنے والے سرکاری ملازمین کو پینشن یا تنخواہ میں سے صرف ایک کا انتخاب کرنے کی اجازت ہوگی۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے آفس میمورنڈم کے مطابق، یہ فیصلہ پے اینڈ پنشن کمیشن 2020 کی سفارشات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ نے واضح کیا کہ اگر کوئی ریٹائرڈ سرکاری ملازم 60 سال کی عمر کے بعد دوبارہ سرکاری ملازمت حاصل کرتا ہے، تو وہ پینشن یا موجودہ ملازمت کی تنخواہ میں سے کسی ایک کے حقدار ہوں گے، یعنی دونوں میں سے کوئی ایک فائدہ حاصل کیا جا سکے گا، نہ کہ دونوں۔ اس نئے اقدام کا مقصد سرکاری ملازمین کے پینشن فنڈ اور ریگولر یا کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ کی صورت میں حکومت کے اخراجات میں توازن پیدا کرنا ہے۔ وزارت خزانہ نے یہ بھی کہا کہ ملازمین کو پینشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا آپشن دیا جائے گا، جس سے حکومت کے مالی بوجھ میں کمی آنے کی توقع ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف وفاقی ملازمین کو مالی فوائد میں توازن کا سامنا ہوگا بلکہ حکومت کو بھی مالی لحاظ سے ایک مؤثر حکمت عملی اپنانے کا موقع ملے گا۔

Back
Top