خبریں

اسلام آباد – پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے حالیہ اجلاس میں ایک اہم انکشاف سامنے آیا ہے کہ پاکستان ریلوے نے سکھر میں واقع اپنی قیمتی اراضی الشفاء ٹرسٹ آئی اسپتال کو صرف ایک روپے فی مربع گز کے حساب سے لیز پر دے دی، جس کا مقصد ایک فلاحی اسپتال قائم کرنا تھا۔ تاہم، آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ مذکورہ اراضی فلاحی مقاصد کے بجائے کمرشل سرگرمیوں کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسپتال انتظامیہ نے زمین کو سب لیز پر دے کر وہاں شادی لان تعمیر کیا، موبائل ٹاورز نصب کرنے کی اجازت دی اور دیگر تجارتی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ ان غیر قانونی کمرشل استعمالات کے باعث پاکستان ریلوے کو تقریباً 46 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ پی اے سی نے اس سنگین غفلت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ ریلوے حکام کے خلاف 10 دن کے اندر کارروائی کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی جنید اکبر نے کی، جہاں وزارت ریلوے سے متعلق آڈٹ اعتراضات پر تفصیلی غور کیا گیا۔ کمیٹی نے اس معاملے کو قومی اثاثوں کے ضیاع کی ایک واضح مثال قرار دیا اور سخت اقدامات کی سفارش کی۔ یہ انکشاف ایک بار پھر اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ملک میں قیمتی سرکاری اراضی کا غلط استعمال کتنا عام ہو چکا ہے اور کس طرح فلاحی نام پر کمرشل فائدے حاصل کیے جا رہے ہیں۔
لاہور: پنجاب کے وزیر اوقاف و مذہبی امور چوہدری شافع حسین نے اعلان کیا ہے کہ درباروں پر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا، اور جلد ہی اے ٹی ایم مشینز کی طرز پر ڈیجیٹل گلے نصب کیے جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اوقاف نے کہا کہ زائرین کی سہولت اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے درباروں پر پیسوں کے گلے کو جدید شکل دی جائے گی، جس سے چندے کی ادائیگی آسان، محفوظ اور قابل نگرانی ہو گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب کے تمام درباروں کے لیے فنڈز جاری کیے جا چکے ہیں، جبکہ اوقاف کی زمینوں پر قابض افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ چوہدری شافع حسین نے انکشاف کیا کہ لاہور میں قابضین سے پانچ ایکڑ تین کنال اوقاف کی زمین واگزار کروائی جا چکی ہے، اور یہ سلسلہ پورے پنجاب میں جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی اوقاف کی زمین پر ناجائز قبضہ کیے بیٹھا ہے، اس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اوقاف نے عزم ظاہر کیا کہ محکمہ اوقاف کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا، تاکہ مذہبی مقامات کی دیکھ بھال اور مالی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ جیسن گیلسپی نے واجبات کی عدم ادائیگی پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے رجوع کر لیا ہے۔ کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق، جیسن گیلسپی اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے درمیان مالی تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے، جو گزشتہ سال دسمبر میں گیلسپی کے عہدہ چھوڑنے کے بعد سامنے آیا۔ گیلسپی نے پی سی بی پر معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اب تک مکمل ادائیگی نہیں کی گئی۔ انہوں نے بورڈ پر وعدہ خلافی کا الزام لگایا، خاص طور پر ان بونسز کا جو انہیں اکتوبر 2024 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے اور نومبر میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز جیتنے پر دیے جانے تھے۔ ای ایس پی این کرک انفو کے ذرائع کے مطابق، گیلسپی نے پی سی بی سے اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے رابطہ کیا، اور ان میں وہ بونس بھی شامل ہیں جو ان سے وعدہ کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ، گیلسپی نے یہ معاملہ آئی سی سی کے سامنے بھی اٹھایا ہے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آئی سی سی اس تنازع میں مداخلت کر سکتا ہے یا نہیں۔ گیلسپی کا کہنا ہے کہ انہیں پی سی بی کی جانب سے مالی معاوضے کے حوالے سے تحریری یقین دہانیاں دی گئی تھیں، جو تاحال پوری نہیں ہو سکیں۔ یاد رہے کہ جیسن گیلسپی نے اکتوبر 2024 میں پاکستان کی ون ڈے ٹیم کی عبوری کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی تھی، مگر دسمبر میں جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے اسسٹنٹ کوچ ٹم نیلسن کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ کرنے پر وہ پی سی بی سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے جنوبی افریقہ جانے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد ازاں، پاکستان کرکٹ بورڈ نے عاقب جاوید کو قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا عبوری ہیڈ کوچ مقرر کر دیا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی کہ جیسن گیلسپی نے معاہدے کے تحت مطلوبہ 4 ماہ کا نوٹس بورڈ کو نہیں دیا، جس کے بعد پی سی بی نے ان کے ساتھ سیٹلمنٹ کے لیے رابطہ کیا تھا۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ چونکہ گیلسپی نے خود عہدہ چھوڑا تھا، انہیں 4 ماہ کی تنخواہ کے برابر رقم بورڈ کو ادا کرنی ہے، اور اگر بورڈ گیلسپی کو برطرف کرتا تو وہ انہیں یہ رقم ادا کرتا۔ اس کے باوجود، یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ پی سی بی گیلسپی سے نوٹس پیریڈ کے بغیر استعفیٰ دینے پر ہرجانے کا مطالبہ کرے گا یا نہیں، مگر بورڈ اس آپشن پر غور کر رہا ہے۔ فی الحال پی سی بی کا موقف ہے کہ وہ گیلسپی کے کسی بھی بقایاجات کا مقروض نہیں ہے۔
سابق آسٹریلوی کرکٹر اور کمنٹیٹر مائیکل سلیٹر کو گھریلو تشدد کے الزامات کے تحت 4 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ آسٹریلوی میڈیا کے مطابق مائیکل سلیٹر نے 7 مختلف چارجز میں اپنا جرم قبول کر لیا، جن میں گھریلو تشدد بھی شامل ہے۔ مائیکل سلیٹر پر 2023 کے آخر میں خاتون پر گھریلو تشدد کے علاوہ کئی الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ان الزامات میں نوسا کے علاقے میں ایک خاتون کے خلاف متعدد واقعات میں حملہ، گلا گھونٹنا، چوری اور ڈکیتی شامل ہیں۔ سلیٹر کو 5 دسمبر 2023 اور 12 اپریل 2024 کے درمیان پولیس کی تحویل میں ریمانڈ پر لیا گیا اور ان پر گھریلو تشدد کے متعدد جرائم کا الزام عائد کیا گیا۔ ایک سال قبل عدالت نے ان کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت نے مائیکل سلیٹر کے معاملے میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے شراب نوشی کی عادت کو ترک کرنے میں مشکلات کا سامنا کیا، جس کے باعث انہیں ری ہیب بھی مشکل ثابت ہوا۔ آخرکار عدالت نے انہیں 4 سال قید کی سزا سنا دی، جبکہ وہ ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ یاد رہے کہ مائیکل سلیٹر نے اپنے کرکٹ کیریئر میں 74 ٹیسٹ اور 42 ون ڈے میچز میں آسٹریلیا کی نمائندگی کی تھی۔
عمران خان کی بہنوں کی جیل میں ملاقات ایک بار پھر ممکن نہ ہو سکی۔ جیل انتظامیہ نے دو گھنٹے تک دروازے پر کھڑا رکھا اور بار بار یقین دہانی کراتی رہی کہ ملاقات کروا دی جائے گی، مگر آخرکار دو گھنٹے گزرنے کے بعد ان کو سادہ سا جواب دیا گیا کہ "ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے"۔ نورین خان نیازی، عمران خان کی بہن، نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، "ہمیں پہلے بتایا گیا تھا کہ علیمہ خان کے ساتھ آپ کو نہیں ملنے دیں گے، اور جب ہم علیمہ خان کے بغیر گئے تو پھر بھی ہمیں ملاقات نہیں کرنے دی گئی۔ یہ جھوٹے ہیں، ان کی نیت ہی خراب ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ جیل انتظامیہ نے ملاقات کے لئے دو گھنٹے تک انتظار کرایا اور ہر بار یقین دہانی کرائی گئی کہ ملاقات ہوگی، لیکن آخر میں انہیں بتا دیا گیا کہ ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل بانی چیئر مین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی 2 بہنوں نورین نیازی اور عظمیٰ خانم کو ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ بانی کے کزن قاسم خان کو بھی ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔ پولیس گورکھپور ناکے سے تینوں فیملی ممبران کو لے کر اڈیالا جیل روانہ ہوئی تھی جہاں جاکر انہیں پھر انتظار کروایا گیا اور پھر ملاقات بھی نہیں کروائی گئی۔
راولپنڈی پولیس نے شہریوں کو ہنی ٹریپ کے ذریعے لوٹ مار کرنے والے دو خطرناک گینگز کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے ہوئے خواتین اور پولیس اہلکاروں سمیت 16 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ ان گینگز کے قبضے سے نقدی اور اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، راولپنڈی پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ یہ گینگز سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو ملاقات کے بہانے پھانسنے کے بعد انہیں لوٹ لیا کرتے تھے۔ صدر بیرونی پولیس نے ایک کارروائی کے دوران پاکستانی نژاد مشرقی افریقی خاتون اور اس کے شوہر سمیت 6 افراد کو گرفتار کیا۔ اس گینگ کے قبضے سے 2 لاکھ 50 ہزار روپے اور اسلحہ برآمد ہوا۔ پولیس کے مطابق، ملزمان تابی اور مرینہ نامی خواتین شہریوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا شکار بناتی تھیں اور انہیں ملاقات کے بہانے بلا کر گینگ کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر لوٹ لیتیں۔ ان خواتین کے ذریعے سرکاری ملازمین، نوجوانوں اور بزرگوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ صادق آباد پولیس نے آفتاب عرف تابی گینگ کے 10 مزید ارکان کو گرفتار کیا، جن میں خواتین اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس کارروائی کے دوران گینگ کے قبضے سے 5 لاکھ روپے اور اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ گرفتار ہونے والے پولیس اہلکاروں میں ہیڈ کانسٹیبل فضل عباس، رضا عباس، کانسٹیبل مبشر انصر، افضال اور نعمان شامل ہیں۔ ملزمان شہریوں کو بلیک میل کر کے ان کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے رقم بٹورتے تھے۔ یہ کارروائی پولیس کی جانب سے عوام کے تحفظ کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، اور پولیس نے اس بات کا عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ایسے جرائم کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
پی ٹی آئی خیبرپختونخوا نے اپنی تنظیم نو کے پہلے مرحلے کا آغاز کر دیا ہے، جس کے تحت صوبے کی مختلف سطحوں پر عہدیداروں کی تقرری کی جائے گی۔ اس عمل کی تفصیلات صوبائی صدر کی مشاورت سے صوبائی جنرل سیکرٹری نے جاری کیں۔ نئے عہدیداروں کی تقرری ریجن، ضلع اور تحصیل سطح پر کی جائے گی، اور اس میں خاص طور پر ان کارکنان کو ترجیح دی جائے گی جنہوں نے 9 مئی کے بعد پارٹی کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کیا، الیکشن 2024 میں سرگرم کردار ادا کیا اور مزاحمتی تحریک میں فعال رہیں۔ ریجن، ضلع اور تحصیل سطح پر ایم این ایز، ایم پی ایز، ٹکٹ ہولڈرز، ونگز، سینئر رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں سے مشاورت کی جائے گی تاکہ تقرریاں زیادہ مؤثر اور نمائندہ ہوں۔ تمام سفارشات ریجنل صدر اور جنرل سیکرٹری کے ذریعے صوبائی جنرل سیکرٹری کو موصول ہوں گی، اور ان پر حتمی فیصلہ صوبائی صدر کریں گے۔ تنظیم میں تبدیلیوں کا اختیار صرف صوبائی صدر کو حاصل ہے، اور یہ عمل صوبائی جنرل سیکرٹری کے زیر نگرانی مکمل کیا جائے گا۔ نااہل افراد میں وہ شامل ہوں گے جو غیر فعال رہے، پارٹی مخالف امیدواروں کی حمایت کی، یا حکومتی عہدے رکھتے ہیں۔ ریجن سطح کی تنظیم نو 29 اپریل تک، ضلع سطح کی تنظیم نو 9 مئی تک، اور تحصیل سطح کی تنظیم نو 23 مئی تک مکمل کی جائے گی۔
نوشہرہ: جرائم پیشہ شخص کی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے ایس ایچ او کو جان سے مارنے کی دھمکی، مقدمہ درج نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں ایک جرائم پیشہ شخص نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق، خاد علی عرف خادوگے نامی شخص نے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے سرِعام ایس ایچ او اکوڑہ خٹک اشفاق خان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ واقعے کی وائرل ویڈیو اور بیانات کے مطابق، خادوگے کلاشنکوف اور جوتوں سمیت مسجد میں دندناتا ہوا داخل ہوا اور بلند آواز میں مسجد کے اسپیکر سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "یہ اعلان اس لیے کر رہا ہوں تاکہ ایس ایچ او کو اطلاع پہنچ جائے۔ بچے باہر نہ نکالیں، لڑائی میں اگر کوئی زخمی ہوا تو میں ذمہ دار نہیں۔" مسجد جیسے مقدس مقام میں اس قسم کی حرکت نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی تقدس کی بھی شدید پامالی سمجھی جا رہی ہے۔ واقعے کے بعد پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے خادوگے کے خلاف تھانہ اکوڑہ خٹک میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں اور علاقے میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔
اسلام آباد: بلوچستان میں زیر تعمیر 23 میں سے 18 ڈیموں کے منصوبوں میں نمایاں تاخیر کا انکشاف ہوا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے اجلاس میں پیش کی گئی بریفنگ کے مطابق، صوبے میں 14 ڈیم اپنی مقررہ تکمیل کی مدت گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہو سکے، جبکہ 4 دیگر منصوبے لاگت میں اضافے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ منصوبوں کی تعداد اور لاگت: بلوچستان میں کل 23 ڈیم زیر تعمیر ہیں (11 چھوٹے، 12 بڑے)، جن کی کل تخمینی لاگت 182 ارب 83 کروڑ روپے ہے۔ تاہم، اب تک صرف 50 ارب 55 کروڑ روپے (21.7% مالی پیش رفت) خرچ ہوئے ہیں۔ موجودہ سال کا بجٹ: رواں مالی سال میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے 22 ارب 38 کروڑ روپے مختص کیے گئے، جن میں سے 5 ارب 31 کروڑ جاری کیے گئے۔ اس میں سے 4 ارب 86 کروڑ استعمال ہو چکے ہیں۔ تاخیر کی وجوہات: حکام نے منصوبوں میں تاخیر کی بنیادی وجوہات کے طور پر فنڈز کی بروقت فراہمی نہ ہونا، لاگت میں اضافہ، اور انتظامی چیلنجز کا ذکر کیا۔ سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن قرۃ العین مری کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں: گوادر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے خصوصی مراعات کے منصوبے کی تفصیلات طلب کی گئیں۔ صوبائی حکومت سے گوادر کی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات اور مستقبل کی پلاننگ کی رپورٹ مانگی گئی
فیملی کورٹ کا فیصلہ: شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچے کی کفالت کا ذمہ دار باپ قرار فیملی کورٹ نے ایک اہم کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے افضل نامی شخص کو شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچے کا قانونی باپ قرار دے دیا اور اسے بچے کی کفالت اور مالی اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا۔ واقعے کے مطابق، افضل نے ایک خاتون کے ساتھ بغیر نکاح کے تعلقات قائم کیے، جن کے نتیجے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ بعد ازاں افضل نے اس خاتون سے شادی تو کر لی، لیکن بچے کو اپنا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ خاتون نے عدالت میں دعویٰ دائر کیا، جس کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ثابت ہوا کہ بچہ واقعی افضل کا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "اگر کوئی شخص کسی خاتون کے ساتھ بغیر نکاح کے تعلقات رکھتا ہے یا پھر زبردستی کی صورت میں بچہ پیدا ہوتا ہے، تو وہ شخص قانوناً اس بچے کی کفالت کا ذمہ دار ہوگا۔" عدالت نے افضل کو بچے کی کفالت کے لیے ماہانہ خرچہ ادا کرنے اور دیگر ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند بنایا۔ یہ فیصلہ غیر شادی شدہ تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہے
بنوں میں پولیس کی فوری کارروائی کے نتیجے میں دہشت گردوں کی پولیس چوکی پر حملہ آور ہونے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ سینٹرل پولیس آفس کے مطابق، رات کے وقت دھڑئے پل پر واقع چوکی پر 19 دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ تفصیلات کے مطابق، پولیس نے 3 دہشت گردوں کو چوکی کی طرف بڑھتے دیکھا، جو چوکی کے سیکیورٹی کیمرز کو نشانہ بنا کر اپنا حملہ شروع کرنا چاہتے تھے۔ حملہ آوروں نے مختلف سمتوں سے چوکی پر شدید فائرنگ کی۔ پولیس ذرائع کے مطابق، یہ دہشت گرد 8 موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ تاہم، پولیس اہلکاروں نے موقع پر ہی جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا، جس کے بعد وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس واقعے میں پولیس کی چوکسی اور بروقت ردعمل کو سراہا گیا ہے، جس کی وجہ سے بڑا سانحہ ٹل گیا۔ پولیس نے علاقے میں مزید کارروائیوں کے لیے تلاشی آپریشن جاری رکھا ہوا ہے۔
راولپنڈی کے تھانہ مندرہ کے علاقے میں ایک کم سن بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعے میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار شدہ فرد مقتولہ بچی کا سگا ماموں ہے، جو عادی نشئی بھی بتایا جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، ملزم نے ایسٹر کے موقع پر بچی کو کسی چیز کا لالچ دے کر ایک زیر تعمیر مکان میں لے گیا، جہاں اس کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے بے دردی سے قتل کر دیا۔ پولیس کی ایک خصوصی ٹیم نے تحقیقات کے بعد ملزم کو مندرہ کے علاقے سے گرفتار کر لیا۔ واقعے کے بعد جب پولیس ملزم کو آلہِ قتل کی برآمدگی کے لیے لے جا رہی تھی، تو مرید پھاٹک کے قریب ملزم کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی اور پولیس سے مزاحمت کی۔ اس دوران ہونے والی فائرنگ میں ملزم سنبل بشارت زخمی ہو گیا، جبکہ پولیس اہلکار محفوظ رہے۔ زخمی ملزم کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا اور اسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گیا۔ پولیس کے مطابق، ملزم نے بچی کو ایسٹر کی خوشی میں کچھ دینے کے بہانے بہلایا تھا، جس کے بعد اس نے بچی کا گلا دبا کر اسے قتل کر دیا۔ واقعے کی رپورٹ مقتولہ بچی کے والد کی جانب سے تھانہ مندرہ میں درج کرائی گئی تھی۔ بچی کی لاش اتوار اور پیر کی درمیانی شب 5 مرلہ اسکیم کے ایک زیر تعمیر گھر کے فرسٹ فلور پر واش روم سے برآمد ہوئی تھی۔
ریپبلکن کانگریس مین جیک برگمین نے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی اور ان کی مختلف شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں پاکستان سے واپسی پر انہوں نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ دہرایا۔ جیک برگمین نے ایک بیان میں کہا کہ میرے پاکستان کے دورے اور وہاں و امریکہ میں رہنماؤں و کمیونٹیز سے ملاقاتوں کے بعد، میں ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو دہراتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مضبوط امریکہ-پاکستان شراکت داری مشترکہ اقدار—جمہوریت، انسانی حقوق، اور اقتصادی خوشحالی—پر قائم ہوتی ہے۔ آئیے آزادی اور استحکام کے لیے مل کر کام کریں۔ آخر میں انہوں نے #FreeImranKhanکا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا۔ جیک برگمین کے بیان پر صحافی معید پیرزادہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس مین برگمین، بات تو اچھی ہے!لیکن کیا یہ پیغام آپ نے نجی ملاقاتوں میں اپنے پاکستانی میزبانوں کو مؤثر انداز میں پہنچایا بھی؟
دی نیوز کے صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف کی قیادت میں موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم شہباز شریف کی کارکردگی، محنت، اور انتظامی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سینئر ذریعے نے شہباز شریف کو "بہترین" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت، نظم و ضبط، سفارتی احتیاط، اور پاکستان کے طاقت کے نظام کی سمجھ بوجھ کے باعث اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل کیا ہے۔ انصار عباسی کے معتبر ذرائع کے مطابق، موجودہ سیاسی تقسیم اور سنگین معاشی چیلنجز کے باوجود، اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو چیف ایگزیکٹو کے منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت تصور کرتی ہے۔ یہ اعتماد یکطرفہ نہیں۔ شہباز شریف بھی کئی بار آرمی چیف کی پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط اور قومی وژن کو نہ صرف سراہ چکے ہیں بلکہ قومی چیلنجز سے نمٹنے میں فوجی قیادت کی حمایت کو بارہا تسلیم بھی کیا ہے۔ معتبر ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر بھی نجی محفلوں میں شہباز شریف کی بطور وزیراعظم کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں۔ اس باہمی اعتماد اور ستائش کا یہ مظہر پاکستانی سیاست میں ایک نایاب منظر ہے، جہاں تاریخی طور پر طاقتور حلقے ایک دوسرے پر شاذ و نادر ہی بھروسہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ کچھ حلقے یہ تاثر دیتے رہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کی توقعات پر پورا نہیں اترے، لیکن باخبر ذرائع ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ شہباز شریف کو طویل عرصے سے ایک فعال اور نتیجہ خیز منتظم کے طور پر جانا جاتا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف، جنہوں نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا، بھی شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ جو نواز شریف کے دور حکومت (2013–2017) میں ان سے دور ہو گئی تھی، شہباز شریف کو اقتدار کے لیے اپنی اولین ترجیح سمجھتی تھی۔ تاہم، جب شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کا ساتھ نہ چھوڑنے کا اعلان کیا تو انہیں جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی حمایت کی، جس کے نتائج قوم کے سامنے ہیں۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) سے فرانزک کے لیے آنے والے اسلحے کی چوری کا معاملہ سامنے آیا ہے، جس میں ایک درجہ چہارم کے ملازم کی ملوث ہونے کی خبر ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پی ایف ایس اے کے ملازم خالد مشتاق نے اسلحہ چوری کرنے کے بعد اسے فروخت کر دیا، جبکہ اس کے ساتھی احتشام نے منشیات کی فروخت میں بھی اس کا ساتھ دیا۔ تھانہ مصطفی آباد پولیس نے پی ایف ایس اے کے ملازم خالد مشتاق اور اس کے ساتھی احتشام کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق، خالد مشتاق نے پی ایف ایس اے سے 30 بور پسٹل اور گولیوں کے خول چوری کیے اور یہ سامان احتشام کو فروخت کر دیا۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کیا اور ان کے قبضہ سے 100 گرام آئس اور 200 گرام آئس برآمد کی۔ دونوں ملزمان کو منشیات کی فروخت میں ملوث پایا گیا، جس پر پولیس نے دو علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کر لیے ہیں۔ پولیس کے مطابق، تحقیقات کا عمل جاری ہے اور مزید تفصیلات بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور ان سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے تاکہ اسلحے کی چوری اور منشیات کی فروخت کے نیٹ ورک کو مزید بے نقاب کیا جا سکے۔ یہ واقعہ پی ایف ایس اے کے اندر ہونے والی بدعنوانیوں اور غیر قانونی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے، جس کی تحقیقات اور مزید کارروائی ضروری بن گئی ہے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایشیا کے مشہور سلسلہ کوہ ہندوکش-ہمالیہ میں برف باری کی مقدار اس سال 23 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً دو ارب افراد کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطہ، جو افغانستان سے لے کر میانمار تک پھیلا ہوا ہے، ایشیا میں برف اور پانی کے سب سے بڑے ذخائر میں شامل ہے اور دنیا کے دو ارب سے زائد افراد کے لیے پینے کے پانی کا اہم ذریعہ ہے۔ یورپی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کی تازہ ترین تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوکش-ہمالیہ کے خطے میں موسمی برف کی مقدار میں نمایاں کمی آئی ہے، جہاں برف کے جمے رہنے کا دورانیہ 23.6 فیصد کم ہو گیا ہے۔ یہ کمی گزشتہ 23 برسوں میں سب سے کم ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا خطرہ: آئی سی آئی ایم او ڈی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلسل تیسرے سال برف باری میں کمی کا رجحان جاری ہے، جس سے خطے میں پانی کی قلت کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برف کے پگھلنے سے دریائی بہاؤ میں کمی، زیر زمین پانی پر بڑھتا ہوا انحصار اور خشک سالی کے بڑھتے ہوئے خطرات کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ آئی سی آئی ایم او ڈی کے مصنف شیر محمد نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سال جنوری کے آخر میں برف باری دیر سے شروع ہوئی اور موسم سرما میں برف کی مقدار اوسطاً کم رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کمی سے خطے کے کئی ممالک پہلے ہی خشک سالی کی وارننگ جاری کر چکے ہیں اور مستقبل میں فصلوں اور مقامی آبادیوں کو پانی کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آگاہی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت: آئی سی آئی ایم او ڈی نے خطے کے ممالک پر زور دیا کہ وہ پانی کے بہتر انتظام، خشک سالی کی تیاری، ابتدائی انتباہی نظام کی بہتری اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔ اس تحقیق میں خاص طور پر میکونگ اور سالوین طاس کے بارے میں بتایا گیا ہے، جو چین اور میانمار کو پانی فراہم کرتے ہیں اور جہاں برف کی تہہ کی نصف مقدار پہلے ہی پگھل چکی ہے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر: آئی سی آئی ایم او ڈی کے ڈائریکٹر جنرل پیما گیامٹسو نے برف کی سطح میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیوں میں طویل مدتی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم (ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن) کے مطابق، ایشیا موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے، اور گزشتہ چھ سالوں میں سے پانچ سالوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ترین رہی ہے۔ اگر برف کی یہ کمی اسی طرح جاری رہی تو خطے کے دو ارب افراد کی زندگیوں کو سنگین مسائل کا سامنا ہو گا، جن میں پانی کی قلت اور خشک سالی جیسے بحران شامل ہیں۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر ایک سنگین چیلنج کی نشاندہی کرتی ہے جس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے نجی حج آپریٹرز کی مبینہ غیر ذمہ داری کے باعث 67 ہزار پاکستانی عازمین حج کا سفر خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، وزیر مذہبی امور سردار یوسف اور ممتاز مذہبی رہنما علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ نجی شعبہ کی ناکامی کی وجہ سے پاکستانی عازمین حج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کا 2025 کا حج کوٹہ ایک لاکھ اناسی ہزار دو سو ہے، جس میں سے نصف کوٹہ نجی اسکیم کے تحت دیا گیا ہے، یعنی تقریباً 50 ہزار افراد کو نجی شعبہ کے ذریعے حج ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ تاہم، نجی اسکیم میں صرف 22,500 افراد کو ہی اجازت دی جائے گی۔ سعودی حکومت نے پاکستان کو 89,605 عازمین کے لیے حج کوٹہ الاٹ کیا تھا، جن میں سے بیشتر کو نجی آپریٹرز کے ذریعے حج ادا کرنا تھا۔ سعودی حکومت کی جانب سے نئی پالیسیوں اور ایڈوانس ادائیگی کے نظام کے نفاذ کے باوجود، نجی حج آپریٹرز ان اصلاحات پر عمل کرنے میں ناکام رہے، جس سے اس سال کے حج انتظامات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ نئے نظام کے تحت، 14 فروری تک پانچ دنوں کے اخراجات جمع کرانا ضروری تھا، مگر نجی آپریٹرز اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ وزارتِ مذہبی امور نے اس حوالے سے متعدد بار نجی حج آپریٹرز کو آگاہ کیا تھا، لیکن ان کی غفلت کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ علامہ طاہر اشرفی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’ہمیں سعودی عرب نے متعدد مواقع فراہم کیے، مگر کوتاہی کے باعث یہ بحران پیدا ہوا۔‘‘ دوسری جانب، حج آپریٹرز نے حکومت کو اس معاملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب سے رقوم بھجوانے کا سسٹم اکتوبر 2024 میں کھولا گیا تھا، لیکن نجی حج آرگنائزرز صرف 12,500 حاجیوں کی رقوم ہی مقررہ وقت پر جمع کروا سکے، جس کے باعث 67 ہزار عازمین کے حج پر جانے کا راستہ دشوار ہوگیا۔ حج و عمرہ آرگنائزرز ایسوسی ایشن نے الزام عائد کیا ہے کہ وزارت مذہبی امور اور وفاقی حکومت اس بحران کی تمام ذمہ داری حج آپریٹرز پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ اصل ذمہ داری متعلقہ اداروں کی تھی۔ ایسوسی ایشن کے نمائندے کامران زیب نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب منتقل کی جانے والی رقم 2 ارب 67 کروڑ ریال (تقریباً 200 ارب پاکستانی روپے) ہے، جو اوورسیز پاکستانیوں کی رقم بھی شامل ہے۔ کراچی میں حج آپریٹرز نے بھی 67 ہزار عازمین کو کوٹے کے مطابق اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ حج آرگنائزر ایسوسی ایشن کے چیئرمین زعیم اختر صدیقی نے وزیراعظم اور آرمی چیف سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تمام درخواست گزاروں کی ایڈوانس بکنگ مکمل ہو چکی تھی اور وقت پر تمام واجبات کی ادائیگی بھی کر دی گئی تھی، مگر آخری لمحے میں ہزاروں درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔‘‘ زعیم اختر صدیقی نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ یہ بحران ٹور آپریٹرز کی غلطی سے پیدا ہوا ہے، اور کہا کہ ’’پاکستان کا کل حج کوٹہ 1,79,210 ہے جس کا 50 فیصد نجی سیکٹر کو دیا گیا تھا، مگر اب تک صرف 23,000 درخواستیں ہی کنفرم ہو پائی ہیں، اور 67,000 افراد غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ ان میں سے 13,000 حاجیوں کا اندراج سعودی نسک سسٹم میں ہی نہیں ہوا۔‘‘ اس صورتحال کے پیش نظر، وزارتِ مذہبی امور اور نجی حج آپریٹرز کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، تاکہ اس بحران سے نکل کر 67,000 عازمین حج کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے مائنز اینڈ منرل ایکٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری مباحثے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قانون مکمل طور پر صوبائی حکومت کی تیار کردہ پالیسی ہے، جس میں وفاقی مداخلت یا اختیار کی کوئی گنجائش نہیں۔ پیر کے روز ایک اہم بریفنگ کے دوران وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایکٹ سے متعلق جھوٹا بیانیہ پھیلا کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ’’ہم نے ایس آئی ایف سی کی تجویز تسلیم ہی نہیں کی، اور نہ ہی کسی کو غیر قانونی مائننگ کی اجازت دیں گے،‘‘ انہوں نے دوٹوک مؤقف اپنایا۔ علی امین گنڈاپور نے خبردار کیا کہ جو بھی غیرقانونی مائننگ میں ملوث پایا گیا، اُس کی مشینری سرعام نیلام کی جائے گی، اور ان افراد کو وکیل تک نہیں ملے گا۔ ’’ہم اپنے قیمتی معدنی وسائل کو کوڑیوں کے مول نہیں بیچنے دیں گے،‘‘ انہوں نے کہا۔ مزید برآں، انہوں نے افغانستان کے ساتھ وفاقی حکومت کی مذاکراتی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے تنقید کی کہ ’’سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر خیبرپختونخوا ہے، مگر ہمیں نظر انداز کیا گیا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ صوبے نے مذاکرات کے لیے ٹی او آرز (شرائط وضوابط) بھی ارسال کیے، لیکن وفاق نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ ’’ہم نے قومی جرگے کی تجویز دی، مگر فارم 47 حکومت نے اس پر بھی عمل نہیں کیا،‘‘ وزیراعلیٰ کا شکوہ۔ افغان مہاجرین سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا نے سالوں تک لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کی، اور اب بھی ان کی باعزت واپسی ہونی چاہیے۔ ’’انہیں غیر مہذب طریقے سے نکالنا، کشیدگی کا باعث بنے گا،‘‘ انہوں نے خبردار کیا۔ دوسری جانب، صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے مائنز اینڈ منرلز بل پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کابینہ نے اس بل میں عوامی و سیاسی تجاویز شامل کی ہیں اور ترامیم کے ذریعے اسے مزید مؤثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ 15 اپریل کو خیبرپختونخوا حکومت نے بل کے حوالے سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا جس میں معدنی ذخائر کے سائنسی ڈیٹا بیس کی تیاری اور غیرقانونی کان کنی کے خلاف خصوصی فورس بنانے کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق، گزشتہ 76 سال سے سونا نکالنے والی چار سائٹس پر غیر قانونی مائننگ ہو رہی تھی، جسے اب بند کر دیا گیا ہے۔ ’’یہ کسی مافیا کا کھیل لگتا ہے جو اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے اصلاحات کی مخالفت کر رہا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ گزشتہ روز اسمبلی اجلاس کے دوران بل پر بریفنگ کے دوران پی ٹی آئی اور اے این پی اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا، جس نے ماحول کو گرما دیا۔
پاکستان میں سول سروس کے شعبے میں اصلاحات کے تحت ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے ایک نیا پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے افسران کی کارکردگی کو مؤثر طریقے سے جانچنا اور ان کے کام کو بہتر بنانا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس اسکیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت 98 فیصد کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس نئے نظام میں کارکردگی کی بنیاد پر افسران کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا جائے گا، جن میں 20 فیصد افسران ہر کیٹیگری میں شامل ہوں گے۔ ’’اے کیٹیگری‘‘ کے افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملے گی، ’’بی کیٹیگری‘‘ کے افسران کو تین گنا زیادہ، اور اسی طرح دیگر کیٹیگریز کے افسران کو اضافی معاوضہ دیا جائے گا۔ ’’ای کیٹیگری‘‘ کے افسران کو کوئی اضافی معاوضہ نہیں ملے گا۔ اس سسٹم کے تحت ہر 6 ماہ بعد افسران کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، اور اس کے لیے فورسڈ رینکنگ سسٹم استعمال کیا جائے گا جس سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ہر کیٹیگری میں صرف 20 فیصد افسران کو ’’شاندار‘‘ درجہ دیا جائے۔ یہ سسٹم مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ اور مداخلت سے محفوظ ہوگا، جس سے کسی بھی افسر کی کارکردگی کی رپورٹ میں چھیڑ چھاڑ کرنا ناممکن ہوگا۔ اس سسٹم کو مکمل طور پر گمنام رکھا جائے گا اور اس کی نگرانی سائبر سیکیورٹی کے جدید ٹولز کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ اصلاحات کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجرباتی طور پر نافذ کی جا چکی ہیں، اور اس کا مقصد پاکستان کی سول سروس کی کارکردگی میں ایک بڑی تبدیلی لانا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گندم کی کٹائی کا آغاز ہو چکا ہے، جو کہ یہاں کے کسانوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل فصل ہے۔ گندم کی فصل کے ساتھ کئی ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں بھی جڑی ہوتی ہیں، لیکن اس سال کسان مختلف مسائل کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ برس پنجاب حکومت نے گندم کی قیمت کا تعین کیا تھا، تاہم اس سال قیمتوں کا تعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی گندم کی خریداری کی گئی۔ اس کے نتیجے میں گندم کی قیمت میں کمی آئی اور کسانوں نے مختلف شہروں میں احتجاج کیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بدھ کے روز گندم پیکج کا اعلان کیا ہے، جو کہ کسانوں کے لیے ایک اہم اقدام سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم اس پیکج کے اثرات کس حد تک کسانوں کو ریلیف فراہم کر سکیں گے؟ اس سے قبل ہم پنجاب حکومت کے دیگر منصوبوں کا جائزہ لیتے ہیں جو مریم نواز کے دورِ اقتدار میں شروع کیے گئے ہیں۔ مریم نواز کے عوامی منصوبے:مریم نواز کے اقتدار کی موجودہ مدت میں 80 سے زائد عوامی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن میں سے 50 سے زائد مکمل ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق، "وزیرِ اعلیٰ مریم نواز نے ایک سال میں 80 سے زائد منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں سے 50 مکمل ہو چکے ہیں۔" ان منصوبوں کا مقصد پنجاب کے لاکھوں افراد کو براہ راست فائدہ پہنچانا ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ ستھرا پنجاب اور دیگر منصوبے:ایک اہم منصوبہ "ستھرا پنجاب" ہے، جس کا دائرہ پہلے دیہی علاقوں تک محدود تھا، مگر اب اسے شہری علاقوں تک بھی پھیلایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب حکومت نے ایک لاکھ افراد کو نوکریاں فراہم کی ہیں۔ رمضان کے دوران "رمضان نگہبان پیکج" کے ذریعے 30 لاکھ افراد کو مالی معاونت فراہم کی گئی، جبکہ رمضان سہولت بازاروں سے 85 لاکھ افراد نے فائدہ اٹھایا۔ مریم نواز نے "ہونہار سکالرشپ پروگرام" شروع کیا، جس کے تحت 30 ہزار طلبا و طالبات کو اسکالرشپ دی جا چکی ہیں۔ اسی طرح، 27 ہزار طلبہ کو الیکٹرک بائیکس فراہم کی گئیں اور "دھی رانی پروگرام" کے تحت 1500 بچیوں کی شادیاں کرائی گئیں۔ گندم پیکج:پنجاب حکومت نے گندم کے کاشتکاروں کے لیے ساڑھے پانچ لاکھ کسانوں کو 15 ارب روپے دینے کی منظوری دی ہے۔ اس کے علاوہ، کسانوں کو کسان کارڈ کے ذریعے ڈائریکٹ فنانشل سپورٹ، آبیانہ میں چھوٹ، اور مفت سٹوریج کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ گندم خریداری کے لیے فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈرز کو قرضوں کا مارک اپ بھی ادا کیا جائے گا۔ کسانوں کی رائے:اگرچہ حکومت کے اس پیکج کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف کسانوں سے رائے لی گئی، تو ان میں سے بیشتر نے اس پیکج کو ناکافی قرار دیا۔ ضلع سرگودھا کے کسان وقاص احمد کا کہنا ہے کہ کسان کارڈ کے تحت دی جانے والی مالی معاونت کا فائدہ صرف بڑے کسانوں کو پہنچتا ہے، جبکہ چھوٹے کسان اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ضلع لودھراں کے کسان سید جعفر گیلانی نے کہا کہ آبیانہ کی وصولی مارچ میں ہو چکی تھی، اور اب حکومت کی جانب سے اس کی معافی کا اعلان بے معنی محسوس ہوتا ہے۔ کسان اتحاد کے مرکزی چیئرمین خالد حسین نے اس پیکج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے منصوبے صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، اور ان سے کسانوں کے بنیادی مسائل کا حل نہیں نکلتا۔ سیاسی فوائد:مریم نواز کے ان منصوبوں کو دیہی علاقوں میں مسلم لیگ ن کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سینیئر سیاسی رہنما اعجاز پرویا کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کا اثر سیاسی طور پر ہو سکتا ہے، مگر دیہی عوام میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر، پنجاب کے کسانوں اور دیگر عوامی حلقوں میں مریم نواز کے منصوبوں کو ملے جلے تاثرات ملے ہیں۔ بعض افراد ان منصوبوں کو فوری فوائد دینے والی سکیمیں سمجھتے ہیں، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ محض سیاسی حربے ہیں جو عوامی مسائل کا مستقل حل نہیں ہیں۔

Back
Top