خبریں

اسلام آباد/راولپنڈی: رواں ہفتے کے آغاز میں ہونے والی اچانک اور شدید ژالہ باری نے دارالحکومت اور گرد و نواح کے شہریوں کو نہ صرف حیران بلکہ مالی لحاظ سے پریشان بھی کر دیا۔ بغیر کسی پیشگی انتباہ کے آنے والے اس موسم نے سینکڑوں گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، خاص طور پر شیشے، سائیڈ مررز اور چھتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ ژالہ باری کے فوراً بعد بڑی تعداد میں شہری اپنی گاڑیوں کی مرمت اور شیشے تبدیل کرانے بازاروں کا رخ کر رہے ہیں، لیکن صورتحال یہ ہے کہ مارکیٹ میں اسٹاک نایاب ہو چکا ہے۔ راولپنڈی کے صدر بازار اور اسلام آباد کے مختلف آٹو مارکیٹوں میں ونڈ اسکرینز کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ دکانداروں کے مطابق عام دنوں میں 15 ہزار روپے میں دستیاب ونڈ اسکرین اب 35 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے، وہ بھی محدود تعداد میں۔ چھوٹے سائز کے شیشے، جو پہلے چند سو روپے میں مل جاتے تھے، اب ایک ہزار روپے سے بھی تجاوز کر چکے ہیں۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق ژالہ باری کے بعد دکانوں پر خریداروں کا رش غیر معمولی ہو چکا ہے، اور کئی دکاندار سپلائی ختم ہونے کے باعث مزید آرڈر لینے سے بھی قاصر ہیں۔ دوسری جانب سپلائرز نے وقتی طور پر نئے آرڈر لینا روک دیے ہیں، جس سے صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ صدر بازار کے بعض دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف مہنگی یا نایاب گاڑیوں کے شیشے دستیاب ہیں، جن کی قیمتیں 10 سے 15 ہزار روپے تک بڑھ چکی ہیں۔ شہری، جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اب ژالہ باری کے نتیجے میں گاڑیوں کی مرمت پر اٹھنے والے غیر متوقع اخراجات سے مزید پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ مارکیٹ میں آٹو پارٹس اور شیشے کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 30 سے 40 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں متعدد گاڑی مالکان کم قیمت اور دستیاب پرزے حاصل کرنے کے لیے لاہور، گوجرانوالہ اور پشاور جیسے قریبی شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ژالہ باری جیسی موسمی شدت کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن حکومت کو مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی پر فوری قابو پانا چاہیے۔
اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے قومی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، تاہم انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ کسی بھی قسم کے گرینڈ الائنس کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ جمعہ کے روز عوام پاکستان پارٹی کے خواتین ونگ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہوں نے کبھی کسی بڑے سیاسی اتحاد یا گرینڈ الائنس کی بات نہیں کی، البتہ وہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے ملک کے مسائل کا حل نکالے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی جیسے اہم اپوزیشن گروہوں کے تحفظات کو سننا اور دور کرنا وقت کی ضرورت ہے، تاہم خاص طور پر پی ٹی آئی کو اپنی سوچ اور رویہ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں کم ہونے کے باوجود حکومت نے عوام کو ریلیف نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اضافی آمدنی کو بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کے بجائے لاپتا افراد کے مسئلے پر توجہ دی جانی چاہیے تھی، کیونکہ بلوچستان کے عوام سڑکیں نہیں، انصاف اور شناخت مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں اور ان کی آوازوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، جب تک وہاں احساس محرومی کا خاتمہ اور قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی، پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ عباسی نے خبردار کیا کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں کمی نہ کرکے بجلی سستی کرنے کا جواز پیش کیا، لیکن اگر عالمی منڈی میں قیمتیں دوبارہ بڑھ گئیں تو حکومت کے پاس بجلی سستی رکھنے کا کیا جواز ہوگا؟ ان کے مطابق معقول اور واضح اقتصادی پالیسیاں ہی مہنگائی سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف دینے کا راستہ ہیں۔ نئی نہروں کے منصوبوں پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبے قابلِ تحسین ہیں، مگر ان کے لیے پانی کی دستیابی ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ انہوں نے سندھ میں اس معاملے پر پیدا ہونے والی بدامنی اور عوامی مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو پانی کی صورتحال اور منصوبوں کی حقیقت سے بروقت آگاہ کرے تاکہ انتشار سے بچا جا سکے۔ شاہد خاقان عباسی نے وفاقی حکومت کی اس پالیسی پر بھی تنقید کی جس کے تحت وہ معدنیات جیسے صوبائی معاملات پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کو صوبائی خودمختاری کا احترام کرنا ہوگا۔ اس سے قبل عوام پاکستان پارٹی کے خواتین ونگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی اور آئینی بالادستی کے لیے مؤثر سیاسی نمائندگی ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو سیاسی میدان میں زیادہ مواقع دیے جائیں تاکہ وہ عوام کی بہتر نمائندگی کر سکیں، اور سیاسی نظام کو مضبوط بنایا جا سکے۔
فیصل آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ کاروباری اداروں پر حملے غیر اسلامی فعل ہیں اور ریاست ان واقعات کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر سے سختی سے نمٹا جائے گا جو ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیصل آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں، اور سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے اداروں پر حملے کسی صورت قبول نہیں کیے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں بین الاقوامی فوڈ چینز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملک بھر میں تقریباً 20 مختلف مقامات پر نجی ریسٹورنٹس پر حملے کیے گئے، جن میں وہ ادارے شامل ہیں جہاں 25 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار حاصل کیے ہوئے ہیں۔ طلال چوہدری نے کہا کہ جو لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری لاتے ہیں، ان پر حملہ آور ہونا نہ صرف معیشت دشمنی ہے بلکہ قومی مفاد کے بھی خلاف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ان حملہ آوروں کو گرفتار کیا گیا تو وہ فوراً معافی مانگنے لگے۔ وزیر مملکت کے مطابق پنجاب میں تشدد اور توڑ پھوڑ کے مختلف واقعات میں 142 افراد کو گرفتار کیا گیا، جبکہ اسلام آباد میں دو واقعات میں 15 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ طلال چوہدری نے واضح کیا کہ ریاست قانون شکن عناصر کو کسی صورت معاف نہیں کرے گی اور ملکی امن، روزگار اور سرمایہ کاری کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔
لاہور: پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے کروڑوں روپے کی اسکالرشپس لے کر فرار ہونے والے 12 اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ یہ اساتذہ بیرون ملک پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپس پر گئے تھے، لیکن تعلیمی ادارے میں خدمات دینے کے عوض ان سے معاہدہ کیا گیا تھا جسے انہوں نے نظرانداز کیا۔ تفصیلات کے مطابق ان اساتذہ نے یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد 5 سال تک یونیورسٹی میں خدمات فراہم کرنی تھیں، لیکن 56 اساتذہ میں سے 12 نے اسکالرشپ کے بعد یونیورسٹی جوائن نہیں کی۔ اب ان اساتذہ سے اسکالرشپ کی رقم کی ریکوری کے لیے پنجاب یونیورسٹی نے ایف آئی اے کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بلاک کرنے کے لیے وزارت خارجہ کو بھی درخواست کی جائے گی۔ پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل میں 7 اساتذہ ایچ ای سی کی اسکالرشپ اور 5 اساتذہ یونیورسٹی کی اسکالرشپ پر بیرون ملک گئے تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی واپس آ کر اپنی خدمات یونیورسٹی میں دینے نہیں آیا۔ اس کے علاوہ، مختلف اساتذہ کی جانب سے ادھار کردہ رقم کی تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں۔ جی آئی ایس سینٹر کی فرح ستار 70 لاکھ روپے کی ادائیگی کی ذمہ دار ہیں، جی آئی ایس کے سید محسن علی پر 1 کروڑ 40 لاکھ روپے واجب الادا ہیں، انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز کی کرن عائشہ نے 1 کروڑ روپے واپس کرنے ہیں، ایم ایم جی کے شعبے کی رابعہ عباد پر 90 لاکھ روپے کا قرض ہے، آئی کیو ٹی ایم کے خواجہ خرم خورشید 84 لاکھ روپے، طہیلی کالج آف کامرس کی شمائلہ اسحاق نے 1 کروڑ 61 لاکھ روپے کی رقم واپس کرنی ہے، سینٹر فار کل ٹیکنالوجی کے عثمان رحیم پر 72 لاکھ روپے واجب الادا ہیں، کالج آف انجینئرنگ کے سلمان عزیز 90 لاکھ روپے، جی آئی ایس کے محمد نواز 72 لاکھ روپے، پی یو سی آئی ٹی کی جویریہ اقبال 60 لاکھ روپے، ایڈمنسٹریٹو سائنسز کی سیماب آرا کو 1 کروڑ روپے اور سامعہ محمود کو 1 کروڑ 16 لاکھ روپے واپس کرنے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور مفرور اساتذہ سے رقوم کی فوری ریکوری کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اسکینڈل نے یونیورسٹی کے انتظامی امور اور اسکالرشپ اسکیم کی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ انہیں دس مقدمات کی نقول فراہم کی گئی ہیں حالانکہ وہ اس وقت ملک میں موجود ہی نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف کی قبر کھودی جارہی ہے اور انصاف کی کشتی ڈوبو دی گئی ہے۔ راولپنڈی میں عدالت میں پیشی کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چار ماہ میں ٹرائل مکمل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق 36 ہزار کیسز کو چار ماہ میں نمٹانا مشکل ہے، اور یہ مقدمات ان کی زندگی میں نہیں نمٹ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انصاف کو مستحکم کرنے کے لیے صاف اور شفاف ٹرائل ضروری ہے۔ ہم انصاف چاہتے ہیں، غریبوں کی حالت زار دیکھیں، وہ دن بدن غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنا ناانصافی کے مترادف ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ ان کی اپیل ہے کہ چار ماہ میں کیس کے فیصلے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں دس مقدمات کی نقول دی گئی ہیں حالانکہ وہ اس ملک میں موجود ہی نہیں تھے، اور اس طرح انصاف کی قبر کھودنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید نے عدالت سے ذاتی طور پر استدعا کی کہ ہم روزانہ عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں، اور چار ماہ میں فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سب کو انصاف دیا جائے۔ وکیل سردار عبدالرزاق، جو شیخ رشید احمد کے وکیل ہیں، نے بتایا کہ نو مئی کے مقدمات کی آج سماعت ہو رہی ہے، اور نو مئی کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں، مگر اب تک چالان عدالت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن دو سال بعد چالان عدالت میں پیش کر رہی ہے، اور مقدمات میں تاخیر کی ذمہ دار پراسیکیوشن ہے، جبکہ ملزمان ہر پیشی پر عدالت میں حاضر ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے پاکستان سے دو بڑے مطالبات: 4.32 ارب ڈالر اور 1971 کے واقعات پر معافی کا مطالبہ ڈھاکہ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ سفارتی رابطوں میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے دو بڑے مطالبات کر دیے ہیں۔ ان میں 1971 میں علیحدگی کے بعد واجب الادا اثاثوں کی مد میں 4 ارب 32 کروڑ ڈالر کی ادائیگی اور 1971 کے جنگی واقعات پر باضابطہ معافی شامل ہے۔ یہ مطالبات پاکستان کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کے حالیہ دورہ ڈھاکہ کے دوران بنگلہ دیش کے سیکرٹری خارجہ جاسم الدین کے ساتھ باضابطہ ملاقات میں سامنے آئے۔ آمنہ بلوچ نے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس اور مشیر خارجہ سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ جاسم الدین نے بتایا کہ بنگلہ دیش نے 1971 کی جنگ کے دوران مبینہ مظالم پر پاکستان سے باضابطہ معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی، بنگلہ دیش نے 1970 کے طوفان کے متاثرین کے لیے بھیجی گئی غیر ملکی امداد کی منتقلی اور بنگلہ دیش میں موجود پاکستانیوں کی واپسی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ جاسم الدین کے مطابق، بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ 24 ہزار 447 ہے۔ ان میں سے کچھ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں جبکہ کچھ نے بنگلہ دیش میں ہی رہنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ صحافیوں کے سوال پر کہ آیا بنگلہ دیش کا جھکاؤ اب بھارت کے بجائے پاکستان کی طرف ہو رہا ہے، جاسم الدین نے جواب دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ مسائل کا سنجیدگی سے حل نکالا جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان معاملات پر پاکستان کی جانب سے بات چیت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، اور اسی سلسلے میں پاکستان کے وزیر خارجہ 27 اور 28 اپریل کو ڈھاکہ کا دورہ کریں گے۔ یہ 2012 کے بعد کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورۂ بنگلہ دیش ہوگا۔
لاہور: پولیس نے مشہور ٹک ٹاکر کاشف ضمیر اور ایک پولیس اہلکار کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، کاشف ضمیر پر الزام ہے کہ اس نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ ویڈیوز میں پولیس وردی کا مذاق اڑایا اور قانون کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ پولیس حکام کے مطابق، وائرل ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹک ٹاکر نے ایک تقریب میں نہ صرف وردی میں موجود اہلکار کے ساتھ غیر سنجیدہ حرکات کیں بلکہ ایک موقع پر اہلکار کو پیسوں سے بھرا تھال اٹھائے ہوئے بھی دکھایا گیا۔ اس حرکت کو پولیس کے ادارہ جاتی وقار کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا اہلکار محکمہ پولیس سے وابستہ ہے اور پولیس لائنز میں تعینات تھا۔ انہوں نے کہا کہ اہلکار نے ڈیوٹی کے اوقات کے بعد ذاتی طور پر کاشف ضمیر کی تقریبات میں شرکت کی، جو کہ محکمے کے ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اہلکار کو فوری طور پر حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس قسم کی حرکات عوام میں پولیس کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہیں، جو قانون کے مطابق قابل گرفت جرم ہے۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ واقعے کی مکمل چھان بین جاری ہے اور ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔ دوسری جانب، ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کی طرف سے تاحال اس واقعے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد نے اس ویڈیو پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ افراد کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2025 میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں 10 کروڑ 57 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، مارچ کے دوران نجی شعبے میں ایک کروڑ 4 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں نے سرکاری شعبے سے 11 کروڑ 61 لاکھ ڈالر نکالے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2025 کے 9 ماہ کے دوران بیرونی سرمایہ کاری میں 19 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جو کہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر تک محدود ہوگئی۔ نجی شعبے کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کمی دیکھی گئی، جو 8.8 فیصد کم ہو کر ایک ارب 37 کروڑ ڈالر رہی۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ سے 9 ماہ کے دوران 26 کروڑ 89 لاکھ ڈالر نکالے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جہاں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی اقتصادی ترقی کے لئے ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد سرکاری شعبے اور اسٹاک مارکیٹ سے کم ہوا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں اقتصادی استحکام اور ترقی پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کے لئے موثر پالیسی اقدامات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
کراچی: ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی نے عامر مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم ارمغان کے خلاف پہلا مقدمہ درج کرلیا ہے، جس میں کئی چشم کشا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ملزم ارمغان ڈی ایچ اے کراچی میں ایک غیر قانونی کال سینٹر چلا رہا تھا، جس کے ذریعے متعدد جرائم جیسے ہراسانی، دھوکہ دہی، شناخت کی نقالی، جعل سازی، فشنگ اور بھتہ خوری کی کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔ ملزم ارمغان نے اپنے ملازمین کو فراڈ کی کارروائیوں کے لیے حساس معلومات جیسے نام، والدہ کا نام، تاریخ پیدائش، کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات اور سوشل سکیورٹی نمبرز نکالنے کے لیے باقاعدہ تربیت دی۔ ان کارروائیوں کی ہدایات ارمغان عرف ایلیکس باس کی طرف سے دی گئی تھیں۔ مقدمے کے مطابق، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے ملزم کے قبضے سے 63 لیپ ٹاپز تحویل میں لیے ہیں، جنہیں فارنزک تجزیے کے لیے بھیجا گیا۔ ڈیجیٹل تحقیقات میں سافٹ ویئر، یو ایس پی ٹی او پورٹلز تک رسائی، وی پی این سافٹ ویئر اور رجسٹرڈ ٹریڈ مارک سیریل نکالنے کے مجرمانہ شواہد ملے ہیں۔ فارنزک رپورٹ میں "لاگز12" اور "لاگز04" نامی فائلوں کے شواہد بھی سامنے آئے۔ ایف آئی آر کے مطابق، ارمغان کے کال سینٹر کے ملازمین متاثرین کی ذاتی اور مالی معلومات غیر قانونی طور پر نکالتے تھے۔ متاثرہ افراد کی خفیہ بینکنگ معلومات اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات ارمغان کو فراہم کی جاتی تھیں۔ ان معلومات کے ذریعے متاثرین کے آن لائن اکاؤنٹس سے رقوم منتقل کی جاتی تھیں جو ارمغان کے فراہم کردہ اکاؤنٹس میں جاتی تھیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کرپٹو کرنسی والیٹس میں رقوم کی منتقلی بھی ارمغان کے ملازمین کے مقامی بینک اکاؤنٹس میں کی جاتی تھی، جس سے اس فراڈ کی پیچیدگی اور وسعت کا پتا چلتا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس میں مزید تحقیقات جاری ہیں، اور ملزم کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔
اسلام آباد: وزارت مذہبی امور نے رواں سال فریضہ حج ادا کرنے والے پرائیویٹ عازمین حج کے لیے ہدایات نامہ جاری کر دیا ہے، جس میں اہم معلومات اور ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔ وزارت کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق، 2025 میں پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت صرف 23 ہزار 620 عازمین فریضہ حج ادا کر سکیں گے۔ اعلامیے میں مزید بتایا گیا ہے کہ حج 2025 کے کوٹہ اور سروس پرووائیڈرز کی فہرست وزارت مذہبی امور کی ویب سائٹ اور پاک حج ایپ پر اپ ڈیٹ کر دی گئی ہے۔ عازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ویب سائٹ پر رجسٹرڈ سروس پرووائیڈرز کے ساتھ اپنی بکنگ سمیت درخواست کی حیثیت اور معاہدہ چیک کریں اور اپ ڈیٹس کے لیے پاک حج 2025 موبائل ایپ کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام سروس پرووائیڈرز کمپنیاں منظور شدہ کوٹے کے مطابق عازمین کو اپ ڈیٹ شدہ معاہدہ (حج فارم) فراہم کریں گی اور سعودی عرب کی تعلیمات کے مطابق 18 اپریل تک عازمین حج کے ویزا اجراء کے عمل کو مکمل کیا جائے گا۔ عازمین کی سہولت کے لیے وزارت نے لینڈ لائن نمبر 051-9218571 اور 051-9207519 کے علاوہ ای میل فراہم کی ہے، جہاں عازمین اپنی شکایات درج کروا سکتے ہیں۔ ای میل ایڈریس: [email protected] یہ ہدایات پرائیویٹ عازمین حج کو سفر کی تیاری اور عمل کی تفصیلات میں رہنمائی فراہم کریں گی تاکہ وہ آسانی سے اپنے سفر کی تیاری کر سکیں۔
کراچی: رواں سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں متحدہ عرب امارات جانے والے پاکستانی کارکنوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ اماراتی ویزا پالیسیوں میں بار بار ہونے والی تبدیلیاں بتائی گئی ہیں۔ اس کے برعکس سعودی عرب پاکستانی افرادی قوت کے لیے سب سے بڑی منزل بن کر ابھرا ہے، جہاں 70 فیصد سے زائد پاکستانی کارکن ہجرت کر چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار جے ایس گلوبل کی حالیہ رپورٹ میں سامنے آئے ہیں، جو بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، متحدہ عرب امارات جو ماضی میں پاکستانیوں کے لیے ایک مرکزی منزل رہا ہے، اب صرف 4 فیصد حصہ رکھتا ہے، جب کہ ماضی میں یہی شرح 35 فیصد تک تھی۔ جے ایس گلوبل کے تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ یو اے ای کی ویزا اسکروٹنی اور پالیسی میں تبدیلیوں نے پاکستانی کارکنوں کے لیے مواقع محدود کر دیے ہیں، جس سے افرادی قوت کی برآمدات میں سست روی آئی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب نے اپنی لیبر مارکیٹ پاکستانیوں کے لیے کھلی رکھی ہے، جس سے وہاں ہجرت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر متحدہ عرب امارات کی جانب سے ویزا پالیسیوں میں نرمی کی جاتی ہے تو یہ ترسیلات زر میں بڑی بہتری لا سکتا ہے۔ یو اے ای پہلے ہی پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار اور ترسیلات زر کا بڑا ذریعہ ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک نے پاکستانی شہریوں پر کسی قسم کی ویزا پابندیوں کی خبروں کی تردید کی ہے، تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستانی درخواست دہندگان کو ویزے مسترد ہونے اور سخت جانچ پڑتال کا سامنا ضرور رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان میں یو اے ای کے سفیر حماد عبید الزعابی نے اطمینان دلایا کہ پاکستانی شہری اب پانچ سالہ ویزہ اسکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ "ماضی کے بیشتر مسائل حل ہو چکے ہیں"۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، مارچ 2025 میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر 4.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو ملکی تاریخ میں پہلی بار 4 ارب ڈالر کی حد سے تجاوز کر گئیں۔ یہ شرح مارچ 2024 کے مقابلے میں 37 فیصد اور فروری 2025 کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب اور یو اے ای سے مستقل ترسیلات زر جاری رہیں اور غیر رسمی ذرائع کی روک تھام کی جائے تو پاکستان کو ان دونوں ممالک سے ترسیلات زر کا 50 فیصد سے زائد حصہ مل سکتا ہے، جو ملکی معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
کراچی: سندھ لیبر اپیلٹ ٹربیونل نے پاکستان اسٹیل ملز کے 5744 ملازمین کو بحال کرتے ہوئے لیبر کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔ ٹربیونل نے پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ کو 14 مئی تک جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے ملازمین کو فارغ کر کے اس فیصلے کے خلاف لیبر کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 22 فروری کو لیبر کورٹ نے پاکستان اسٹیل کی درخواست کو منظور کر لیا تھا۔ تاہم سندھ لیبر اپیلٹ ٹربیونل نے اس فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان اسٹیل کے وکیل نے کہا کہ پاکستان اسٹیل کا آڈٹ کرنے والے گواہوں کا ریکارڈ غائب ہو چکا ہے، اور یہ سوال اٹھایا کہ اگر پاکستان اسٹیل نقصان میں جا رہی ہے تو کیوں نئی اسٹیل مل کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈان نیوز نے گزشتہ سال ستمبر میں باوثوق ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں نئی اسٹیل ملز قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے لیے 700 ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے۔ یہ اراضی پاکستان اسٹیل ملز کی موجودہ زمین پر ہی مختص کی گئی ہے، اور اس منصوبے میں روس کا تعاون بھی شامل ہے۔ روس کے نائب وزیر صنعت و تجارت اور پاکستان کے وزیر صنعت نے نئی اسٹیل مل کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز جون 2015 سے بند ہے، اور اس کی نجکاری کی تجاویز بھی کئی بار زیر غور آ چکی ہیں۔
کراچی: کے الیکٹرک نے ایک وکیل کو 62 یونٹس کا بل 99 ہزار روپے بھیج دیا جس پر وہ ششدر رہ گیا اور فوری طور پر کنزیومر کورٹ شرقی سے رجوع کر لیا۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق، وکیل رضا حسین نے کے الیکٹرک کے خلاف پانچ لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ رضا حسین نے اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں اتنے بڑے بل کا پتہ چلا تو وہ بہت حیران ہوئے اور اس میں موجود غلطی کی اصلاح کی درخواست کرنے کے لیے کے الیکٹرک کے دفتر گئے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کے نمائندوں نے اس غلطی کا اعتراف کیا لیکن باوجود اس کے بل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب غلطی تسلیم کر لی گئی تھی تو اس کے بعد بل کو درست کیوں نہیں کیا گیا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ رضا حسین نے اس غلطی کے سبب اپنے حقوق کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز کیا اور پانچ لاکھ روپے کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ یہ واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ کراچی کے صارفین کو مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے، جس کے لیے نیپرا سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کے الیکٹرک کا آزادانہ آڈٹ کرائے تاکہ عوام کو اس قسم کی پریشانیوں سے بچایا جا سکے۔
اسلام آباد: حکومت پاکستان نے ٹریژری بلز (ٹی بلز) اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) کی حالیہ نیلامی کے ذریعے مجموعی طور پر 1,220 ارب روپے کا قرض حاصل کر لیا ہے، جس سے حکومتی سکیورٹیز میں سرمایہ کاروں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق حکومت کو ٹی بلز کے لیے 1,730 ارب روپے اور پی آئی بیز کے لیے 1,592 ارب روپے کی بولیاں موصول ہوئیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ کار موجودہ غیر یقینی معاشی حالات میں تقریباً 33 کھرب روپے حکومتی کاغذات میں لگانے کو تیار ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رجحان نجی شعبے کی مالیاتی ضروریات سے توجہ ہٹنے اور معیشت کی حقیقی ترقی کی رفتار میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ٹی بلز کی نیلامی میں حکومت نے مقررہ 850 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 965 ارب روپے اکٹھے کیے، جبکہ میچیورٹی رقم 821 ارب روپے رہی۔ اتنی بڑی مالیت میں بولیوں کی وصولی نے بینکوں کی نجی شعبے کو قرض دینے میں عدم دلچسپی کو مزید واضح کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق دسمبر 2024 سے نجی قرضوں میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بار بار قرض لینے کے رجحان نے سرمایہ کاروں کی ترجیحات کو سرکاری کاغذات کی طرف موڑ دیا ہے، جو ایک "رسک فری" سرمایہ کاری سمجھی جاتی ہے، مگر اس کا نتیجہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کی سست روی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ منڈی میں شرحِ منافع میں بھی کسی بڑی تبدیلی کا رجحان نہیں دیکھا گیا۔ ایک ماہ کے ٹی بلز پر کٹ آف ریٹ 6 بیسس پوائنٹس کی کمی کے بعد 12.32 فیصد ہو گیا، جبکہ 3 ماہ، 6 ماہ اور 12 ماہ کی مدت کے بلز پر شرح منافع بالترتیب 11.99 فیصد، 12.01 فیصد اور 12.01 فیصد پر برقرار رہی۔ دوسری جانب پی آئی بیز کی نیلامی میں بھی سرمایہ کاروں نے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت کو 1,592 ارب روپے کی بولیاں موصول ہوئیں، تاہم حکومت نے مقررہ 400 ارب روپے کے ہدف کے برعکس صرف 261 ارب روپے ہی اکٹھے کیے۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے واضح ہے کہ بینک اور دیگر مالی ادارے نجی شعبے کو قرض دینے سے گریزاں ہیں اور رسک فری منافع کو ترجیح دے رہے ہیں، جو ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں مسلسل اضافے کے فیصلے نے صارفین پر مزید مالی بوجھ ڈال دیا ہے، جس سے حکومت کی ماہانہ آمدنی میں سو ارب روپے تک کا اضافہ متوقع ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتیں گرنے کے باوجود حکومت نے مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی، جس کے باعث صارفین 168 روپے فی لیٹر والے پیٹرول کو 254.63 روپے میں خریدنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے، جس سے رواں مالی سال کے اختتام تک لیوی کی مد میں 1100 ارب روپے تک کی اضافی آمدنی ہو گی۔ اس وقت حکومت کا پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا ہدف 1281 ارب روپے ہے، اور مسلسل بڑھتی لیوی سے وہ اپنے ہدف کے قریب پہنچ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق 30 جون تک حکومت کو لیوی کی مد میں 17 ارب روپے اضافی آمدنی حاصل ہونے کا امکان ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت میں 78 روپے کی لیوی شامل ہو چکی ہے، جس سے صارفین کو مہنگا پیٹرول خریدنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے 2 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد حکومت فی لیٹر پیٹرول پر 78 روپے 2 پیسے کی لیوی وصول کر رہی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 7 روپے 1 پیسہ کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں 77 روپے 1 پیسہ فی لیٹر لیوی وصول کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی کے تیل پر سات روپے 99 پیسے اور لائٹ ڈیزل پر سات روپے 62 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے ذریعے اپنے مالی اہداف کو پورا کرنے کے لیے صارفین پر مزید بوجھ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی ہے، جس کے نتائج عوامی سطح پر مہنگائی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی معروف کارکن اور ریاستی جبر کے خلاف سرگرم مزاحمت کار گلزادی بلوچ نے جیل سے ایک دل دہلا دینے والا پیغام جاری کردیا۔۔۔۔۔۔۔ گلزادی بلوچ کا جیل سے جھنجھوڑ دینے والا پیغام کچھ یوں ہے کہ بلوچ خواتین محض حادثاتی طور پر اس جدوجہد کا حصہ نہیں بنیں وہ شعور اور شعریت کے ساتھ اس تحریک کا حصہ ہیں ہمیں نہ دھمکیاں روک سکتی ہیں نہ جبری گمشدگیاں اور نہ بندوق کی زبان اگر جبر کسی کو خاموش کرا سکتا تو دو ہزار چھ کے بعد ماہ رنگ جیسی بچی مزاحمت کا استعارہ نہ بنتی اگر ظلم حل ہوتا تو دودا کی سمی ریاست کے یزید کو للکارنے والی نہ بنتی انہوں نے کہا اگر تشدد سے نظریات دبائے جا سکتے تو راشد حسین کی ماں محض ایک غمزدہ عورت ہوتی لیکن آج وہ پورے بلوچستان کی ماں بن چکی ہیں اگر بندوق ذہنوں کو غلام بنا سکتی تو آج میں گلزادی بلوچ قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود تمہارے سامنے مزاحمت کا نشان نہ بنتی تم نے چار گھنٹے مسلسل مجھ پر تشدد کیا لیکن میرے نظریے کو نہ توڑ سکے گلزادی نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ بلوچستان کی ہزاروں خواتین اپنے لاپتہ مسخ شدہ پیاروں کی تلاش میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ریاستی جبر کے سامنے کھڑی ہو چکی ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ مزاحمت صرف آنسوؤں یا جذبات کی پیداوار نہیں بلکہ ایک باشعور پختہ ارادوں والی تحریک ہے یہ پیغام نہ صرف بلوچ خواتین کی جدوجہد کو ایک نئی روح دے رہا ہے بلکہ ریاستی پالیسیوں پر بھی ایک سنجیدہ سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے کیا تشدد اور خوف واقعی کسی نظریے کو شکست دے سکتے ہیں یا وہ صرف مزید مزاحمت کو جنم دیتے ہیں گلزادی بلوچ کا پیغام ایک چیخ ہے ایک سوال ہے اور ایک واضح اعلان کہ ہم نہ رکیں گے نہ جھکیں گے
اڈیالہ جیل کے باہر سے پولیس نے علیمہ خان، عظمیٰ خان، نورین خان، زرتاج گل، صاحبزادہ حامد رضا، عمر ایوب، ملک احمد خان بچھر کو گرفتار کر لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچنے والے اہم پارٹی رہنما اور ان کی تین بہنوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ گرفتار ہونے والوں میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، صاحبزادہ حامد رضا، احمد خان بچھر، علیمہ خان، نورین خانم اور عظمیٰ خانم شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے یہ رہنما اور عمران خان کی بہنیں جیل میں ملاقات کے لیے جا رہے تھے، جب پولیس نے انہیں اڈیالہ جیل کے قریب ایک ناکے پر روک لیا۔ اس موقع پر پولیس اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان شدید بحث و تکرار ہوئی، جس کے بعد پولیس نے سات افراد کے وارنٹ گرفتاری دکھائے، جن میں عمران خان کی تینوں بہنوں، قریبی عزیز قاسم خان، اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے نام شامل تھے۔ پولیس کے مطابق عمران خان سے آج اہل خانہ کی ملاقات کا دن نہیں تھا، اس کے باوجود ان کی بہنیں اصرار کے ساتھ ملاقات کے لیے پہنچیں۔ واپسی سے انکار پر پولیس نے تمام افراد کو حراست میں لے کر قیدیوں کی وین میں منتقل کر دیا۔ واقعے کے بعد علاقے میں سخت کشیدگی پائی گئی، جبکہ سوشل میڈیا پر اس اقدام کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اظہار رائے اور ملاقات جیسے بنیادی حقوق کو بھی سلب کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع نے اس واقعے کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومتی طاقت کا استعمال صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہے۔ پارٹی رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک کیا جائے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قائد عمران خان کی بہنیں اور دیگر رہنما پولیس کے روکنے کے باوجود اڈیالہ جیل میں اپنے بھائی سے ملاقات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ گزشتہ روز عمران خان سے ملاقات کے دوران پولیس نے علیمہ خان اور دیگر رہنماؤں کو جیل کے قریب جانے سے روک دیا، جس پر علیمہ خان اور ان کے ہمراہ پی ٹی آئی رہنما شدید احتجاج کرتے ہوئے سڑک کے کنارے زیر تعمیر پلازے میں دھرنا دینے پر مجبور ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں علیمہ خان کو پلازے کی زمین پر چادر بچھا کر بیٹھتے ہوئے دیکھا گیا، جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی ان کے ہمراہ احتجاج میں شریک ہیں۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری پلازے کے چاروں طرف تعینات کر دی گئی تھی تاکہ دھرنا دینے والوں کو منتشر کیا جا سکے۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آج ان کی ملاقات عمران خان سے کرائی جائے گی، مگر پولیس نے ان کا راستہ روک کر یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ پولیس کی جانب سے اڈیالہ جیل کے باہر بچھائی گئی چٹائیاں اٹھانے کا اقدام بھی سامنے آیا، تاکہ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکنان کو دھرنا دینے سے روکا جا سکے، ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار اڈیالہ جیل کے سامنے موجود چٹائیاں لپیٹ کر اٹھا رہے ہیں تاکہ کسی بھی طرح احتجاج کا راستہ روکا جا سکے۔ علیمہ خان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دن ہمیں ایک دفعہ تو ان پر یقین کرنا تھا سو ہم نے کر لیا اور چلے گئے لیکن یہ اتنے بے شرم ہے انکو جھوٹ بولتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی آج ہم بلکل بھی نہیں اٹھیں گے جب تک ملاقات نہیں کروائی جاتی۔ پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب اور زرتاج گل بھی پولیس کی روک تھام کا سامنا کرتے ہوئے جیل کے قریب پہنچے، تاہم پولیس نے انہیں ملاقات سے روک دیا۔ عمر ایوب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ ظلم کی انتہا ہے، جس کے ذریعے حکومت عدلیہ کے فیصلوں کی دھجیاں اُڑاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے لیڈر سے ملاقات کرنے کا حق نہیں مل رہا تو پھر عوامی احتجاج کی گونج بھی سننی پڑے گی۔ عمر ایوب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ عدلیہ اور ملک کی سالمیت کے لیے ایک سنگین لمحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ملاقات کی اجازت دی جانی چاہیے، کیونکہ یہ ایک جمہوری حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جبر اور ظلم کی علامت ہے اور حکومت اس بات سے خوف زدہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے قائد سے بات کرے۔ اس دوران علیمہ خان، زرتاج گل، اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے پولیس کی جانب سے روکے جانے کے باوجود جیل کے باہر اپنے احتجاج کو جاری رکھا۔ پولیس نے اس موقع پر پلازے کے مالک کو طلب کر کے وہاں دفتر کو تالے لگانے کا حکم دیا، تاہم علیمہ خان اور ان کے ہمراہ دیگر رہنماؤں نے باہر آنے سے انکار کر دیا۔
اسلام آباد: شاہد خاقان عباسی کی حکومت پر شدید تنقید عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومتی فیصلوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پیٹرول سے بچت نہ ہو، تو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بن سکتیں؟ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو ملک میں کسانوں کے بحران اور پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف نہ دینے کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کسان آج بدترین مشکلات کا شکار ہے، اور پورے ملک میں کسان احتجاج کر رہے ہیں، مگر ان کی آواز حکومت تک نہیں پہنچ رہی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کسان ملک کی معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان گندم اگاتا ہے، تو ملک کو آٹا ملتا ہے، لیکن اگر کسان پریشان ہوگا تو پورا ملک متاثر ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ 2023 میں کسان پہلے ہی مسائل کا سامنا کر رہا تھا اور 2024 میں حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 4000 روپے فی من گندم نہیں خریدے گی، جس کے نتیجے میں کسانوں کو گندم مختلف قیمتوں پر فروخت کرنا پڑی۔ کچھ کسانوں نے 2200 روپے فی من جبکہ کچھ نے 2400 روپے فی من میں گندم بیچی۔ انہوں نے کہا کہ یوریا اور بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اور کسانوں کو مجبوراً گندم 2100 روپے فی من کے حساب سے بیچنا پڑ رہا ہے۔ جب کسان خوشحال ہوگا، تو ملک خوشحال ہوگا، لیکن آج کسان اپنا اثاثہ لگا کر بھی منافع نہیں کما رہا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ حالات برقرار رہے تو اگلے سال ملک کو گندم درآمد کرنی پڑے گی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اگر کسانوں کے لیے ملک کی منڈی سازگار نہیں، تو کم از کم انہیں اپنی گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ کسان کی پیداوار کی لاگت 3000 روپے فی من ہو چکی ہے، لیکن اسے 2100 روپے میں اپنی گندم بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند ووٹوں کے لیے کسان کو قربان نہ کیا جائے، کیونکہ جب کسان کی آمدنی نہیں بڑھے گی تو معیشت کے دیگر شعبے جیسے ٹریکٹر اور موٹرسائیکل کی خریداری بھی متاثر ہوگی۔ پریس کانفرنس کے دوسرے حصے میں شاہد خاقان عباسی نے پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف نہ دینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئی مرتبہ کمی آئی، مگر حکومت نے اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرانے بلوں میں 10 روپے تک ریلیف کی گنجائش تھی، مگر عوام کو کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو عوام پر بوجھ ڈالا جاتا ہے، لیکن جب قیمتیں کم ہوتی ہیں تو عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا؟ انہوں نے کہا کہ پیٹرول کے منافع سے بلوچستان میں سڑکیں بنانے کی بات کی جا رہی ہے، لیکن اگر پیٹرول سے بچت نہ ہو تو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بن سکتیں؟ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملک صرف حکومت کے مثبت فیصلوں سے ترقی کرتا ہے، مگر موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا ایک اور موقع ضائع کر دیا ہے۔
کراچی: ناصر حسین شاہ کی پیپلز پارٹی کی جانب سے متنازع نہروں کے منصوبے پر سخت تنقید سندھ کے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر متنازع نہروں کے منصوبے کو واپس نہ لیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی حکومت سے علیحدہ ہو جائے گی۔ فرنیچر ایکسپو کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کے لیے ایک سرخ لکیر ہے، اور اگر اسے زبردستی جاری رکھا گیا تو ہم وفاقی حکومت کا حصہ نہیں رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی انتشار نہیں چاہتی، مگر قومی مفاد اور صوبائی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کر سکتی۔ ناصر حسین شاہ نے الزام لگایا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے پانی سے متعلق غلط اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اتنی مقدار میں پانی دستیاب ہی نہیں کہ اس منصوبے کو جاری رکھا جا سکے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم اور سیاسی قیادت دانشمندانہ فیصلہ کریں گے اور نہروں کے منصوبے کو منسوخ کیا جائے گا۔ انہوں نے دہشت گردی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے تانے بانے پاکستان دشمن قوتوں سے ملتے ہیں اور وہ آرمی چیف کے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو عناصر دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ ناصر حسین شاہ نے فوج کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں افواج کو کمزور کر کے ان ممالک کو افراتفری کی طرف دھکیل دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوج کمزور ہو جائے تو دشمنوں کو ملک کے اندر کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا، اس لیے ریاست کو ملک دشمن عناصر کے خلاف سختی سے نمٹنا ہوگا۔ وزیر نے فرنیچر ایکسپو کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے عوام کو انٹیریئر ڈیزائن اور فرنیچر کے نئے رجحانات سے آگاہی ملے گی، جہاں 100 سے زائد اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ معدنیات کے شعبے پر بات کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ نے کہا کہ پاکستان کے پاس قدرتی وسائل اور مواقع موجود ہیں، تاہم ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی شدید ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ معدنیات کے شعبے سے صوبوں کا عمل دخل ختم کیا جا رہا ہے، بلکہ انہیں اس میں پورا حق اور اہمیت دی جائے گی۔ ناصر حسین شاہ نے سندھ سے گیس کے ذخائر ملنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ گیس کی پیداوار کے مقابلے میں صوبے کو اس کا کم حصہ دیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں گیس پیدا ہو، وہاں اس صوبے کا پہلا حق بنتا ہے، تاہم پورے ملک میں تمام صوبوں کو گیس فراہم کی جانی چاہیے۔ ایس آئی ایف سی کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ کئی مثبت منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور اگر کسی منصوبے پر اعتراض ہے تو وہ اُمید رکھتے ہیں کہ قیادت اسے ختم کر دے گی۔ انہوں نے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ سندھ میں جہاں پانی دستیاب ہے، اگر جدید ٹیکنالوجی سے زراعت کو فروغ دیا جائے تو یہ ایک خوش آئند بات ہوگی، اور پنجاب و دیگر صوبوں میں بھی جدید زرعی اقدامات پر کوئی اعتراض نہیں۔ آخر میں ناصر حسین شاہ نے نہروں کے منصوبے پر سیاسی ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو ایشو بنا کر بعض سیاسی مخالفین پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی رہنما محب وطن ہیں اور سب کے لیے سب سے اہم پاکستان ہونا چاہیے۔ عوام کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہے، اور ہمیں پاکستان کے مفاد کو ہر صورت مقدم رکھنا ہے۔

Back
Top