خبریں

راولپنڈی کے تھانہ مندرہ کے علاقے میں ایک کم سن بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعے میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار شدہ فرد مقتولہ بچی کا سگا ماموں ہے، جو عادی نشئی بھی بتایا جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، ملزم نے ایسٹر کے موقع پر بچی کو کسی چیز کا لالچ دے کر ایک زیر تعمیر مکان میں لے گیا، جہاں اس کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے بے دردی سے قتل کر دیا۔ پولیس کی ایک خصوصی ٹیم نے تحقیقات کے بعد ملزم کو مندرہ کے علاقے سے گرفتار کر لیا۔ واقعے کے بعد جب پولیس ملزم کو آلہِ قتل کی برآمدگی کے لیے لے جا رہی تھی، تو مرید پھاٹک کے قریب ملزم کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی اور پولیس سے مزاحمت کی۔ اس دوران ہونے والی فائرنگ میں ملزم سنبل بشارت زخمی ہو گیا، جبکہ پولیس اہلکار محفوظ رہے۔ زخمی ملزم کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا اور اسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گیا۔ پولیس کے مطابق، ملزم نے بچی کو ایسٹر کی خوشی میں کچھ دینے کے بہانے بہلایا تھا، جس کے بعد اس نے بچی کا گلا دبا کر اسے قتل کر دیا۔ واقعے کی رپورٹ مقتولہ بچی کے والد کی جانب سے تھانہ مندرہ میں درج کرائی گئی تھی۔ بچی کی لاش اتوار اور پیر کی درمیانی شب 5 مرلہ اسکیم کے ایک زیر تعمیر گھر کے فرسٹ فلور پر واش روم سے برآمد ہوئی تھی۔
ریپبلکن کانگریس مین جیک برگمین نے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی اور ان کی مختلف شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں پاکستان سے واپسی پر انہوں نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ دہرایا۔ جیک برگمین نے ایک بیان میں کہا کہ میرے پاکستان کے دورے اور وہاں و امریکہ میں رہنماؤں و کمیونٹیز سے ملاقاتوں کے بعد، میں ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو دہراتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مضبوط امریکہ-پاکستان شراکت داری مشترکہ اقدار—جمہوریت، انسانی حقوق، اور اقتصادی خوشحالی—پر قائم ہوتی ہے۔ آئیے آزادی اور استحکام کے لیے مل کر کام کریں۔ آخر میں انہوں نے #FreeImranKhanکا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا۔ جیک برگمین کے بیان پر صحافی معید پیرزادہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس مین برگمین، بات تو اچھی ہے!لیکن کیا یہ پیغام آپ نے نجی ملاقاتوں میں اپنے پاکستانی میزبانوں کو مؤثر انداز میں پہنچایا بھی؟
دی نیوز کے صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف کی قیادت میں موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم شہباز شریف کی کارکردگی، محنت، اور انتظامی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سینئر ذریعے نے شہباز شریف کو "بہترین" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت، نظم و ضبط، سفارتی احتیاط، اور پاکستان کے طاقت کے نظام کی سمجھ بوجھ کے باعث اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل کیا ہے۔ انصار عباسی کے معتبر ذرائع کے مطابق، موجودہ سیاسی تقسیم اور سنگین معاشی چیلنجز کے باوجود، اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو چیف ایگزیکٹو کے منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت تصور کرتی ہے۔ یہ اعتماد یکطرفہ نہیں۔ شہباز شریف بھی کئی بار آرمی چیف کی پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط اور قومی وژن کو نہ صرف سراہ چکے ہیں بلکہ قومی چیلنجز سے نمٹنے میں فوجی قیادت کی حمایت کو بارہا تسلیم بھی کیا ہے۔ معتبر ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر بھی نجی محفلوں میں شہباز شریف کی بطور وزیراعظم کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں۔ اس باہمی اعتماد اور ستائش کا یہ مظہر پاکستانی سیاست میں ایک نایاب منظر ہے، جہاں تاریخی طور پر طاقتور حلقے ایک دوسرے پر شاذ و نادر ہی بھروسہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ کچھ حلقے یہ تاثر دیتے رہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کی توقعات پر پورا نہیں اترے، لیکن باخبر ذرائع ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ شہباز شریف کو طویل عرصے سے ایک فعال اور نتیجہ خیز منتظم کے طور پر جانا جاتا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف، جنہوں نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا، بھی شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ جو نواز شریف کے دور حکومت (2013–2017) میں ان سے دور ہو گئی تھی، شہباز شریف کو اقتدار کے لیے اپنی اولین ترجیح سمجھتی تھی۔ تاہم، جب شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کا ساتھ نہ چھوڑنے کا اعلان کیا تو انہیں جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی حمایت کی، جس کے نتائج قوم کے سامنے ہیں۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) سے فرانزک کے لیے آنے والے اسلحے کی چوری کا معاملہ سامنے آیا ہے، جس میں ایک درجہ چہارم کے ملازم کی ملوث ہونے کی خبر ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پی ایف ایس اے کے ملازم خالد مشتاق نے اسلحہ چوری کرنے کے بعد اسے فروخت کر دیا، جبکہ اس کے ساتھی احتشام نے منشیات کی فروخت میں بھی اس کا ساتھ دیا۔ تھانہ مصطفی آباد پولیس نے پی ایف ایس اے کے ملازم خالد مشتاق اور اس کے ساتھی احتشام کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق، خالد مشتاق نے پی ایف ایس اے سے 30 بور پسٹل اور گولیوں کے خول چوری کیے اور یہ سامان احتشام کو فروخت کر دیا۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کیا اور ان کے قبضہ سے 100 گرام آئس اور 200 گرام آئس برآمد کی۔ دونوں ملزمان کو منشیات کی فروخت میں ملوث پایا گیا، جس پر پولیس نے دو علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کر لیے ہیں۔ پولیس کے مطابق، تحقیقات کا عمل جاری ہے اور مزید تفصیلات بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور ان سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے تاکہ اسلحے کی چوری اور منشیات کی فروخت کے نیٹ ورک کو مزید بے نقاب کیا جا سکے۔ یہ واقعہ پی ایف ایس اے کے اندر ہونے والی بدعنوانیوں اور غیر قانونی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے، جس کی تحقیقات اور مزید کارروائی ضروری بن گئی ہے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایشیا کے مشہور سلسلہ کوہ ہندوکش-ہمالیہ میں برف باری کی مقدار اس سال 23 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً دو ارب افراد کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ خطہ، جو افغانستان سے لے کر میانمار تک پھیلا ہوا ہے، ایشیا میں برف اور پانی کے سب سے بڑے ذخائر میں شامل ہے اور دنیا کے دو ارب سے زائد افراد کے لیے پینے کے پانی کا اہم ذریعہ ہے۔ یورپی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کی تازہ ترین تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوکش-ہمالیہ کے خطے میں موسمی برف کی مقدار میں نمایاں کمی آئی ہے، جہاں برف کے جمے رہنے کا دورانیہ 23.6 فیصد کم ہو گیا ہے۔ یہ کمی گزشتہ 23 برسوں میں سب سے کم ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا خطرہ: آئی سی آئی ایم او ڈی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلسل تیسرے سال برف باری میں کمی کا رجحان جاری ہے، جس سے خطے میں پانی کی قلت کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برف کے پگھلنے سے دریائی بہاؤ میں کمی، زیر زمین پانی پر بڑھتا ہوا انحصار اور خشک سالی کے بڑھتے ہوئے خطرات کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ آئی سی آئی ایم او ڈی کے مصنف شیر محمد نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سال جنوری کے آخر میں برف باری دیر سے شروع ہوئی اور موسم سرما میں برف کی مقدار اوسطاً کم رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کمی سے خطے کے کئی ممالک پہلے ہی خشک سالی کی وارننگ جاری کر چکے ہیں اور مستقبل میں فصلوں اور مقامی آبادیوں کو پانی کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آگاہی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت: آئی سی آئی ایم او ڈی نے خطے کے ممالک پر زور دیا کہ وہ پانی کے بہتر انتظام، خشک سالی کی تیاری، ابتدائی انتباہی نظام کی بہتری اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔ اس تحقیق میں خاص طور پر میکونگ اور سالوین طاس کے بارے میں بتایا گیا ہے، جو چین اور میانمار کو پانی فراہم کرتے ہیں اور جہاں برف کی تہہ کی نصف مقدار پہلے ہی پگھل چکی ہے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر: آئی سی آئی ایم او ڈی کے ڈائریکٹر جنرل پیما گیامٹسو نے برف کی سطح میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیوں میں طویل مدتی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم (ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن) کے مطابق، ایشیا موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے، اور گزشتہ چھ سالوں میں سے پانچ سالوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ترین رہی ہے۔ اگر برف کی یہ کمی اسی طرح جاری رہی تو خطے کے دو ارب افراد کی زندگیوں کو سنگین مسائل کا سامنا ہو گا، جن میں پانی کی قلت اور خشک سالی جیسے بحران شامل ہیں۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر ایک سنگین چیلنج کی نشاندہی کرتی ہے جس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے نجی حج آپریٹرز کی مبینہ غیر ذمہ داری کے باعث 67 ہزار پاکستانی عازمین حج کا سفر خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، وزیر مذہبی امور سردار یوسف اور ممتاز مذہبی رہنما علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ نجی شعبہ کی ناکامی کی وجہ سے پاکستانی عازمین حج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کا 2025 کا حج کوٹہ ایک لاکھ اناسی ہزار دو سو ہے، جس میں سے نصف کوٹہ نجی اسکیم کے تحت دیا گیا ہے، یعنی تقریباً 50 ہزار افراد کو نجی شعبہ کے ذریعے حج ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ تاہم، نجی اسکیم میں صرف 22,500 افراد کو ہی اجازت دی جائے گی۔ سعودی حکومت نے پاکستان کو 89,605 عازمین کے لیے حج کوٹہ الاٹ کیا تھا، جن میں سے بیشتر کو نجی آپریٹرز کے ذریعے حج ادا کرنا تھا۔ سعودی حکومت کی جانب سے نئی پالیسیوں اور ایڈوانس ادائیگی کے نظام کے نفاذ کے باوجود، نجی حج آپریٹرز ان اصلاحات پر عمل کرنے میں ناکام رہے، جس سے اس سال کے حج انتظامات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ نئے نظام کے تحت، 14 فروری تک پانچ دنوں کے اخراجات جمع کرانا ضروری تھا، مگر نجی آپریٹرز اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ وزارتِ مذہبی امور نے اس حوالے سے متعدد بار نجی حج آپریٹرز کو آگاہ کیا تھا، لیکن ان کی غفلت کے سبب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ علامہ طاہر اشرفی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’ہمیں سعودی عرب نے متعدد مواقع فراہم کیے، مگر کوتاہی کے باعث یہ بحران پیدا ہوا۔‘‘ دوسری جانب، حج آپریٹرز نے حکومت کو اس معاملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب سے رقوم بھجوانے کا سسٹم اکتوبر 2024 میں کھولا گیا تھا، لیکن نجی حج آرگنائزرز صرف 12,500 حاجیوں کی رقوم ہی مقررہ وقت پر جمع کروا سکے، جس کے باعث 67 ہزار عازمین کے حج پر جانے کا راستہ دشوار ہوگیا۔ حج و عمرہ آرگنائزرز ایسوسی ایشن نے الزام عائد کیا ہے کہ وزارت مذہبی امور اور وفاقی حکومت اس بحران کی تمام ذمہ داری حج آپریٹرز پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ اصل ذمہ داری متعلقہ اداروں کی تھی۔ ایسوسی ایشن کے نمائندے کامران زیب نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب منتقل کی جانے والی رقم 2 ارب 67 کروڑ ریال (تقریباً 200 ارب پاکستانی روپے) ہے، جو اوورسیز پاکستانیوں کی رقم بھی شامل ہے۔ کراچی میں حج آپریٹرز نے بھی 67 ہزار عازمین کو کوٹے کے مطابق اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ حج آرگنائزر ایسوسی ایشن کے چیئرمین زعیم اختر صدیقی نے وزیراعظم اور آرمی چیف سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تمام درخواست گزاروں کی ایڈوانس بکنگ مکمل ہو چکی تھی اور وقت پر تمام واجبات کی ادائیگی بھی کر دی گئی تھی، مگر آخری لمحے میں ہزاروں درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔‘‘ زعیم اختر صدیقی نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ یہ بحران ٹور آپریٹرز کی غلطی سے پیدا ہوا ہے، اور کہا کہ ’’پاکستان کا کل حج کوٹہ 1,79,210 ہے جس کا 50 فیصد نجی سیکٹر کو دیا گیا تھا، مگر اب تک صرف 23,000 درخواستیں ہی کنفرم ہو پائی ہیں، اور 67,000 افراد غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ ان میں سے 13,000 حاجیوں کا اندراج سعودی نسک سسٹم میں ہی نہیں ہوا۔‘‘ اس صورتحال کے پیش نظر، وزارتِ مذہبی امور اور نجی حج آپریٹرز کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، تاکہ اس بحران سے نکل کر 67,000 عازمین حج کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے مائنز اینڈ منرل ایکٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری مباحثے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قانون مکمل طور پر صوبائی حکومت کی تیار کردہ پالیسی ہے، جس میں وفاقی مداخلت یا اختیار کی کوئی گنجائش نہیں۔ پیر کے روز ایک اہم بریفنگ کے دوران وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایکٹ سے متعلق جھوٹا بیانیہ پھیلا کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ’’ہم نے ایس آئی ایف سی کی تجویز تسلیم ہی نہیں کی، اور نہ ہی کسی کو غیر قانونی مائننگ کی اجازت دیں گے،‘‘ انہوں نے دوٹوک مؤقف اپنایا۔ علی امین گنڈاپور نے خبردار کیا کہ جو بھی غیرقانونی مائننگ میں ملوث پایا گیا، اُس کی مشینری سرعام نیلام کی جائے گی، اور ان افراد کو وکیل تک نہیں ملے گا۔ ’’ہم اپنے قیمتی معدنی وسائل کو کوڑیوں کے مول نہیں بیچنے دیں گے،‘‘ انہوں نے کہا۔ مزید برآں، انہوں نے افغانستان کے ساتھ وفاقی حکومت کی مذاکراتی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے تنقید کی کہ ’’سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر خیبرپختونخوا ہے، مگر ہمیں نظر انداز کیا گیا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ صوبے نے مذاکرات کے لیے ٹی او آرز (شرائط وضوابط) بھی ارسال کیے، لیکن وفاق نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ ’’ہم نے قومی جرگے کی تجویز دی، مگر فارم 47 حکومت نے اس پر بھی عمل نہیں کیا،‘‘ وزیراعلیٰ کا شکوہ۔ افغان مہاجرین سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا نے سالوں تک لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کی، اور اب بھی ان کی باعزت واپسی ہونی چاہیے۔ ’’انہیں غیر مہذب طریقے سے نکالنا، کشیدگی کا باعث بنے گا،‘‘ انہوں نے خبردار کیا۔ دوسری جانب، صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے مائنز اینڈ منرلز بل پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کابینہ نے اس بل میں عوامی و سیاسی تجاویز شامل کی ہیں اور ترامیم کے ذریعے اسے مزید مؤثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ 15 اپریل کو خیبرپختونخوا حکومت نے بل کے حوالے سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا جس میں معدنی ذخائر کے سائنسی ڈیٹا بیس کی تیاری اور غیرقانونی کان کنی کے خلاف خصوصی فورس بنانے کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق، گزشتہ 76 سال سے سونا نکالنے والی چار سائٹس پر غیر قانونی مائننگ ہو رہی تھی، جسے اب بند کر دیا گیا ہے۔ ’’یہ کسی مافیا کا کھیل لگتا ہے جو اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے اصلاحات کی مخالفت کر رہا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ گزشتہ روز اسمبلی اجلاس کے دوران بل پر بریفنگ کے دوران پی ٹی آئی اور اے این پی اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا، جس نے ماحول کو گرما دیا۔
پاکستان میں سول سروس کے شعبے میں اصلاحات کے تحت ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے ایک نیا پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے افسران کی کارکردگی کو مؤثر طریقے سے جانچنا اور ان کے کام کو بہتر بنانا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس اسکیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت 98 فیصد کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس نئے نظام میں کارکردگی کی بنیاد پر افسران کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا جائے گا، جن میں 20 فیصد افسران ہر کیٹیگری میں شامل ہوں گے۔ ’’اے کیٹیگری‘‘ کے افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملے گی، ’’بی کیٹیگری‘‘ کے افسران کو تین گنا زیادہ، اور اسی طرح دیگر کیٹیگریز کے افسران کو اضافی معاوضہ دیا جائے گا۔ ’’ای کیٹیگری‘‘ کے افسران کو کوئی اضافی معاوضہ نہیں ملے گا۔ اس سسٹم کے تحت ہر 6 ماہ بعد افسران کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، اور اس کے لیے فورسڈ رینکنگ سسٹم استعمال کیا جائے گا جس سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ہر کیٹیگری میں صرف 20 فیصد افسران کو ’’شاندار‘‘ درجہ دیا جائے۔ یہ سسٹم مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ اور مداخلت سے محفوظ ہوگا، جس سے کسی بھی افسر کی کارکردگی کی رپورٹ میں چھیڑ چھاڑ کرنا ناممکن ہوگا۔ اس سسٹم کو مکمل طور پر گمنام رکھا جائے گا اور اس کی نگرانی سائبر سیکیورٹی کے جدید ٹولز کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ اصلاحات کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجرباتی طور پر نافذ کی جا چکی ہیں، اور اس کا مقصد پاکستان کی سول سروس کی کارکردگی میں ایک بڑی تبدیلی لانا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گندم کی کٹائی کا آغاز ہو چکا ہے، جو کہ یہاں کے کسانوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل فصل ہے۔ گندم کی فصل کے ساتھ کئی ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں بھی جڑی ہوتی ہیں، لیکن اس سال کسان مختلف مسائل کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ برس پنجاب حکومت نے گندم کی قیمت کا تعین کیا تھا، تاہم اس سال قیمتوں کا تعین نہیں کیا گیا اور نہ ہی گندم کی خریداری کی گئی۔ اس کے نتیجے میں گندم کی قیمت میں کمی آئی اور کسانوں نے مختلف شہروں میں احتجاج کیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بدھ کے روز گندم پیکج کا اعلان کیا ہے، جو کہ کسانوں کے لیے ایک اہم اقدام سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم اس پیکج کے اثرات کس حد تک کسانوں کو ریلیف فراہم کر سکیں گے؟ اس سے قبل ہم پنجاب حکومت کے دیگر منصوبوں کا جائزہ لیتے ہیں جو مریم نواز کے دورِ اقتدار میں شروع کیے گئے ہیں۔ مریم نواز کے عوامی منصوبے:مریم نواز کے اقتدار کی موجودہ مدت میں 80 سے زائد عوامی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن میں سے 50 سے زائد مکمل ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق، "وزیرِ اعلیٰ مریم نواز نے ایک سال میں 80 سے زائد منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں سے 50 مکمل ہو چکے ہیں۔" ان منصوبوں کا مقصد پنجاب کے لاکھوں افراد کو براہ راست فائدہ پہنچانا ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ ستھرا پنجاب اور دیگر منصوبے:ایک اہم منصوبہ "ستھرا پنجاب" ہے، جس کا دائرہ پہلے دیہی علاقوں تک محدود تھا، مگر اب اسے شہری علاقوں تک بھی پھیلایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب حکومت نے ایک لاکھ افراد کو نوکریاں فراہم کی ہیں۔ رمضان کے دوران "رمضان نگہبان پیکج" کے ذریعے 30 لاکھ افراد کو مالی معاونت فراہم کی گئی، جبکہ رمضان سہولت بازاروں سے 85 لاکھ افراد نے فائدہ اٹھایا۔ مریم نواز نے "ہونہار سکالرشپ پروگرام" شروع کیا، جس کے تحت 30 ہزار طلبا و طالبات کو اسکالرشپ دی جا چکی ہیں۔ اسی طرح، 27 ہزار طلبہ کو الیکٹرک بائیکس فراہم کی گئیں اور "دھی رانی پروگرام" کے تحت 1500 بچیوں کی شادیاں کرائی گئیں۔ گندم پیکج:پنجاب حکومت نے گندم کے کاشتکاروں کے لیے ساڑھے پانچ لاکھ کسانوں کو 15 ارب روپے دینے کی منظوری دی ہے۔ اس کے علاوہ، کسانوں کو کسان کارڈ کے ذریعے ڈائریکٹ فنانشل سپورٹ، آبیانہ میں چھوٹ، اور مفت سٹوریج کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ گندم خریداری کے لیے فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈرز کو قرضوں کا مارک اپ بھی ادا کیا جائے گا۔ کسانوں کی رائے:اگرچہ حکومت کے اس پیکج کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف کسانوں سے رائے لی گئی، تو ان میں سے بیشتر نے اس پیکج کو ناکافی قرار دیا۔ ضلع سرگودھا کے کسان وقاص احمد کا کہنا ہے کہ کسان کارڈ کے تحت دی جانے والی مالی معاونت کا فائدہ صرف بڑے کسانوں کو پہنچتا ہے، جبکہ چھوٹے کسان اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ضلع لودھراں کے کسان سید جعفر گیلانی نے کہا کہ آبیانہ کی وصولی مارچ میں ہو چکی تھی، اور اب حکومت کی جانب سے اس کی معافی کا اعلان بے معنی محسوس ہوتا ہے۔ کسان اتحاد کے مرکزی چیئرمین خالد حسین نے اس پیکج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے منصوبے صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، اور ان سے کسانوں کے بنیادی مسائل کا حل نہیں نکلتا۔ سیاسی فوائد:مریم نواز کے ان منصوبوں کو دیہی علاقوں میں مسلم لیگ ن کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سینیئر سیاسی رہنما اعجاز پرویا کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کا اثر سیاسی طور پر ہو سکتا ہے، مگر دیہی عوام میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر، پنجاب کے کسانوں اور دیگر عوامی حلقوں میں مریم نواز کے منصوبوں کو ملے جلے تاثرات ملے ہیں۔ بعض افراد ان منصوبوں کو فوری فوائد دینے والی سکیمیں سمجھتے ہیں، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ محض سیاسی حربے ہیں جو عوامی مسائل کا مستقل حل نہیں ہیں۔
کراچی: صوبہ سندھ میں اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے نئی لگژری گاڑیوں کی خریداری کے لیے حکومت سندھ نے 52 کروڑ 66 لاکھ روپے کے فنڈز جاری کر دیے ہیں۔ یہ فنڈز صوبے بھر کے 6 کمشنرز اور 29 ڈپٹی کمشنرز کے لیے مختص کیے گئے ہیں، تاہم ضلع کیماڑی کو اس فہرست سے خارج رکھا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، ہر کمشنر کو ایک کروڑ 80 لاکھ روپے مالیت کی نئی گاڑی فراہم کی جائے گی، جب کہ ہر ڈپٹی کمشنر کے لیے ایک کروڑ 44 لاکھ روپے کی گاڑی خریدی جائے گی۔ محکمہ خزانہ سندھ نے یہ رقم متعلقہ کمپنی کو ادا کر دی ہے، جس کی منظوری کابینہ اجلاس اور آڈٹ کلیئرنس کے بعد دی گئی۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ستمبر 2024 میں حکومت نے کفایت شعاری مہم کے تحت اخراجات میں کمی کے دعوے کیے تھے، مگر اس کے باوجود، لگژری گاڑیوں کی خریداری کے لیے خطیر رقم جاری کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی حکومت سندھ کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 ڈبل کیبن فور بائی فور گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی گئی تھی، جن کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے فنڈز محکمہ خزانہ کو جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے حالیہ امریکی دورے سے قبل ہی اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری کی سمری منظور کی تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مالی سال 2024-25 کے دوران کسی نئے ترقیاتی منصوبے کے آغاز کا اعلان نہیں کیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقیاتی کاموں کی بجائے انتظامی افسران کی سہولیات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ اقدام عوامی حلقوں میں سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ کفایت شعاری اور مالیاتی بحران کے دعووں کے باوجود سرکاری افسران کے لیے مہنگی گاڑیوں کی خریداری کس منطق کے تحت کی جا رہی ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ویمنز کرکٹ ورلڈکپ کوالیفائر 2025 کی "ٹیم آف دی ٹورنامنٹ" کا اعلان کر دیا ہے، جس کی قیادت پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی کپتان فاطمہ ثنا کو سونپی گئی ہے۔ فاطمہ ثنا کی قیادت میں پاکستان نے ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی کیا، اور ان کی شاندار کارکردگی نے ٹورنامنٹ کے دوران انہیں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر نمایاں کر دیا۔ آئی سی سی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ "ٹیم آف دی ٹورنامنٹ" میں ویمنز کرکٹ ورلڈکپ کوالیفائر 2025 میں شامل 4 ٹیموں کے کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا۔ پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے 4 کھلاڑی، ویسٹ انڈیز کے 3، بنگلہ دیش اور اسکاٹ لینڈ کے 2، 2 کھلاڑی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔ فاطمہ ثنا کی قیادت میں پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم نے تمام پانچ میچوں میں کامیابی حاصل کی اور ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی کیا۔ فاطمہ ثنا نے بطور کپتان نہ صرف بروقت فیصلے کیے، بلکہ آل راؤنڈر کے طور پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے 103 رنز بنائے اور 12 وکٹیں حاصل کیں، جس سے وہ ٹورنامنٹ کے دوران پاکستان کی اہم کھلاڑی ثابت ہوئیں۔ آئی سی سی نے فاطمہ ثنا کو "ٹورنامنٹ کے دوران پاکستان کے لیے ایک اہم کھلاڑی" قرار دیا، جنہوں نے بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں شعبوں میں اہم موقعوں پر ٹیم کے لیے شاندار کارکردگی دکھائی۔ DIn_RfUPrk9 ٹیم آف دی ٹورنامنٹ میں فاطمہ ثنا کے علاوہ پاکستان ویمنز ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں میں منیبہ علی، نشتہ سندھو اور سعدیہ اقبال شامل ہیں۔ بنگلہ دیش کی شرمین اختر اور نگار سلطانہ، ویسٹ انڈیز کی ہیلے میتھیوز، عالیہ علین اور شنیل ہنری بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کی کیتھرین برائس اور کیتھرین فریزر بھی منتخب کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جب کہ بنگلہ دیش کی رابعہ خان کو ریزرو کھلاڑی کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم نے آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈکپ کوالیفائر میں ناقابل شکست رہ کر اپنے ورلڈکپ کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ اس کامیابی پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے قومی ویمنز ٹیم کی کارکردگی کی تعریف کی اور ان کے لیے انعامات کا اعلان کیا۔ لاہور اسٹیڈیم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے واضح کیا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ویمنز ورلڈ کپ کے لیے بھارت نہیں جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت میزبان ملک بھارت کو طے کرنا ہے کہ وہ نیوٹرل وینیو کہاں چنتا ہے، اور پاکستان کی ٹیم اسی مقام پر جائے گی، لیکن بھارت نہیں جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینئر قانون دان سلمان اکرم راجا نے استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر عقیدے، ہر مسلک اور ہر علاقے کے لوگ ایک قوم بن کر جمع ہیں، اور اس اتحاد کو مجلس وحدت مسلمین نے مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج مسجد وحدتِ مسلمین پی ٹی آئی کی اتحادی ہے اور تحریکِ تحفظِ آئین میں بھی اس اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے۔ سلمان اکرم راجا نے اپنے خطاب میں پاکستان کے استحکام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا اور ایک بار پھر شرافت کو معاشرت میں بلند کرے گا۔ انہوں نے آئین اور قانون کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون کا مقصد معاشرت میں شرافت کا احیاء ہے، تاکہ انسان کی جان، مال، عزت اور چادر محفوظ ہوں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آج یہ تمام چیزیں محفوظ نہیں ہیں اور ہم سب پر جبر کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں تاکہ ہمیں عبرت کا نشان بنایا جائے، مگر ہم کھڑے ہیں اور ہم دعوت دیتے ہیں کہ آؤ ہم سے مقالمہ کرو۔ اگر مقالمہ نہیں ہوتا، تو ہم اس عمل کے لیے تیار ہیں جو ہمارا مقدر ہے اور ہم جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سلمان اکرم راجا نے علامہ اقبال کے مشہور شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ستیزہ کار رہا ہے عزل سے تا امروز، شرارِ بولہبی سے چراغِ مصطفیٰ"۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے چراغِ مصطفیٰ کی لو کو تھاما ہوا ہے اور اسی روشنی کے ساتھ ہم اپنے مقصد کی طرف بڑھیں گے۔ ان کے خطاب کا پیغام اتحاد، شرافت اور جدوجہد کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اور یہ یقین دلاتا ہے کہ پاکستان میں آنے والے دنوں میں ایک نیا دور شروع ہوگا جہاں آئین، قانون اور شرافت کی بالادستی ہوگی۔
لاہور ہائیکورٹ نے خلع لینے والی خاتون کو حق مہر کا حق دار قرار دیتے ہوئے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ جسٹس راحیل کامران شیخ نے شہری آصف محمود کی درخواست پر فیصلہ سنایا، جس میں خلع کی بنیاد پر حق مہر اور جہیز کی رقم دینے کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں بیٹی کو جہیز دینا ایک روایت بن چکا ہے اور والدین جتنا بھی استطاعت رکھتے ہوں، وہ اپنی بیٹی کو جہیز دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ طلاق دینا شوہر کا حق ہے، لیکن طلاق کے بعد شوہر کو حق مہر اور تحائف کی واپسی کا تقاضا کرنے کا حق نہیں رہتا۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ سورۃ النساء میں بھی شوہر کو بیوی سے دیے گئے مال اور تحائف واپس لینے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت اگر خاوند کے برے رویے یا تشدد کی بنا پر خلع لیا جائے تو عدالت حق مہر کی رقم واپس نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ محض خلع لینے کی بنیاد پر خاتون کو حق مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ رقم خاتون کے لیے ایک قسم کی سکیورٹی سمجھی جاتی ہے۔ اگر خاوند کا رویہ خاتون کو خلع لینے پر مجبور کرتا ہے، تو وہ حق مہر لینے کی مکمل حق دار ہے۔ یہ فیصلہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جس میں خلع لینے والی خواتین کو بھی ان کے حق مہر کے پیسے واپس کیے جائیں گے۔
آج سندھ بھر میں قوم پرست جماعتوں کی جانب سے دریائے سندھ سے متنازع نہریں نکالنے کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جارہی ہے، جس کے دوران متعدد شہروں میں کاروباری مراکز بند اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی معمول سے کم ہے۔ خیرپور میں وکلا کا دھرنا 3 دن سے جاری ہے، جس کے باعث سندھ سے پنجاب اور دیگر صوبوں کو جانے والا ٹریفک مکمل طور پر معطل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ، قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے ریلوے ٹریک بھی بند کر دیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، سندھ میں مختلف شہروں میں کاروباری مراکز اور مارکیٹیں مکمل طور پر بند ہیں۔ جامشورو، کوٹری، نوشہروفیروز، کندھ کوٹ، خیرپور، جیکب آباد اور دیگر شہروں میں ٹریفک کی روانی کم ہے اور سڑکوں پر غیر معمولی سکونت دیکھی جا رہی ہے۔ خیرپور میں قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے ریلوے ٹریک پر دھرنا دے دیا ہے جس کے نتیجے میں اپ اور ڈاؤن دونوں ٹریک بند ہو چکے ہیں۔ مشتعل مظاہرین نے لاہور سے کراچی آنے والی عوامی ایکسپریس کو روک لیا ہے، جس کے باعث ٹرین سروس متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری جانب، خیرپور میں وکلا کا دھرنا 3 دن سے ببرلو بائی پاس پر جاری ہے۔ اس احتجاج میں قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ ادیب، شاعری کے شوقین افراد، دانشور اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک ہے۔ اس احتجاج کے باعث قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ چکی ہیں، اور پنجاب جانے والی سڑک 3 دن سے بند ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وکلا نے کشمور میں ڈیرہ موڑ پر این 55 شاہراہ پر دھرنا ختم کر دیا، جس کے بعد سندھ سے دیگر صوبوں کو جانے والی ٹریفک دوبارہ بحال ہو گئی ہے۔ تاہم، وکلا کے احتجاج کی حمایت میں جامشورو میں یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی دھرنا دیا ہے۔
لاہور: شہر کے مرکزی کاروباری علاقے مال روڈ پر گرینڈ ہیلتھ الائنس کے جاری دھرنے نے معمولات زندگی کو مفلوج کر دیا ہے، تاہم حکومت پنجاب نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ مظاہرین سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ ذرائع کے مطابق حکومت کا مؤقف ہے کہ دھرنا دینے والے کسی بھی گروہ کے دباؤ میں آ کر بلیک میل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایک گروہ سے مذاکرات کیے گئے تو دیگر شعبوں میں بھی احتجاجی سلسلے شروع ہونے کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے حکومت نے اپنے موقف میں سختی اختیار کی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے تشکیل دی جانے والی خصوصی کمیٹی کو بھی مظاہرین سے بات چیت کی اجازت نہیں دی گئی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے احتجاج کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ دوسری طرف، محکمہ صحت کے ملازمین گزشتہ 14 دنوں سے نجکاری کے مجوزہ اقدامات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے تحت ڈاکٹروں، نرسز اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کا مطالبہ ہے کہ اسپتالوں کی نجکاری کا فیصلہ واپس لیا جائے، ورنہ احتجاج میں مزید شدت لائی جائے گی۔ مال روڈ پر ہونے والے دھرنے کے باعث شہر کی ٹریفک شدید متاثر ہو چکی ہے، اور مریضوں کو اسپتالوں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومتی فیصلے نے اس احتجاج کو ایک نئی شدت دی ہے، اور عوامی زندگی پر اس کے اثرات مزید گہرے ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد: رواں برس تقریباً 67 ہزار پاکستانیوں کے حج کی سعادت سے محروم رہ جانے کا خدشہ ہے، جب کہ نجی ٹور آپریٹرز کے ذریعے جمع کی گئی 36 ارب روپے کی خطیر رقم بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے حج پالیسی کی منظوری میں غیرمعمولی تاخیر کے باعث درخواستیں بروقت جمع نہ ہو سکیں، جس کی وجہ سے انتظامات کے لیے وقت ناکافی رہا۔ حج درخواستوں کے لیے جمع کی گئی رقم سعودی حکام کو منتقل کی جا چکی ہے، تاہم مکمل انتظامی عمل مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں عازمین حج سے محروم ہونے کے قریب ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام اور سعودی وزارت حج کے درمیان بروقت اور مؤثر رابطہ نہ ہونے کے باعث صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے۔ سعودی حکومت نے اس رقم کی واپسی سے معذرت کرتے ہوئے اسے اگلے سال کے لیے ایڈجسٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزارت مذہبی امور کے مطابق کچھ نجی کمپنیوں نے عدالت سے حکمِ امتناع حاصل کر کے حج کوٹہ روک لیا تھا، جس کے باعث مزید مشکلات پیدا ہوئیں۔ اس سال نجی اسکیم کے تحت صرف 23 ہزار 620 پاکستانی حجاج ہی سفرِ حج پر روانہ ہو سکیں گے، حالانکہ ہر سال تقریباً 90 ہزار پاکستانی نجی حج اسکیم کے ذریعے فریضہ حج ادا کرتے ہیں۔ متاثرہ افراد اور ٹور آپریٹرز حکومت سے فوری اقدامات اور سعودی حکام سے دوبارہ رابطہ کر کے مسئلے کے حل کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ پاکستانی عازمین کو اس مقدس فریضے کی ادائیگی سے محروم نہ ہونا پڑے۔
لاہور: وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف فورسز کامیابی سے کارروائیاں جاری رکھیں گی، تاہم اصل چیلنج علیحدگی پسند دہشت گردوں کا بیانیہ ہے، جو صوبے میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میر خلیل الرحمان میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف فورسز کامیابی سے لڑ رہی ہیں، اور یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ناراض بلوچ" کی اصطلاح پنجاب کے بعض دانشوروں کی طرف سے استعمال کی جا رہی ہے، جو حقیقت سے ہٹ کر ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے مزید کہا کہ دہشت گرد صرف انتشار اور فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کا اسلام یا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اُن خواتین کا ذکر کیا جن کے بیٹے اور شوہر بسوں سے اُتار کر مارے گئے، اور کہا کہ وہ ان خواتین کے ساتھ ہیں، لیکن ان خواتین کے ساتھ نہیں کھڑے جو مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد اگر دوبارہ منظم ہونے کا موقع پائیں گے تو وہ پاکستان کو بندوق کے زور پر توڑنے کی کوشش کریں گے، تاہم لڑائی ریاست نے نہیں، بلکہ ان دہشت گردوں نے شروع کی تھی۔ سرفراز بگٹی نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل نوجوانوں کو وسائل فراہم کرنا اور میرٹ پر نوکریاں دینا ہے۔ جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کی بات دل سے کی ہے اور بلوچستان میں صرف دو یا تین فیصد افراد ملک توڑنے کے خواہش مند ہیں، جو کہ حقیقت میں ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں بلکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کی ضرورت ہے، جو کہ پہلے سے جاری ہے۔ سرفراز بگٹی کا یہ مؤقف تھا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل ترقی میں ہے، اور اس میں نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔
لاہور: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں معدنیات اور کان کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور 60 ممالک کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور ترقی کا حصہ بنیں۔ وزیراعظم نے لاہور میں منعقدہ ہیلتھ انجینئرنگ اینڈ منرلز شو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار دوست ماحول فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ وقت پاکستان میں معدنیات کے شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اب ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے، معاشی استحکام کے آثار نمایاں ہیں، اور عالمی سطح پر پاکستان کے چین، افریقہ، یورپ اور امریکا سے مضبوط کاروباری اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ وزیراعظم نے ملکی معاشی اشاریوں میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی شرح جو پہلے 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی، اب سنگل ڈیجٹ میں آ چکی ہے۔ اسی طرح پالیسی ریٹ ساڑھے 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد ہو گیا ہے، جو کہ معیشت کی بحالی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت جیسے جدید شعبوں میں مہارت حاصل کر رہے ہیں، اور یہی ہمارا اصل اثاثہ ہیں۔ انجینئرنگ، زراعت اور معدنیات کے شعبے میں پاکستان کے پاس بے پناہ پوٹینشل موجود ہے، جسے بروئے کار لا کر ہم ترقی کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے تقریب کے انعقاد پر وزیرِ تجارت اور متعلقہ اداروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس ایونٹ میں دنیا بھر سے ماہرین اور سرمایہ کاروں کی موجودگی باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے نمائش میں لگائے گئے زرعی مشینری، قیمتی پتھروں، ادویات اور دیگر مصنوعات کے اسٹالز کو بھی سراہا۔ شہباز شریف نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بہترین کام کر رہے ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو قدرت نے بیش بہا معدنی وسائل سے نوازا ہے، جنہیں بروئے کار لا کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیاد فراہم کی جا سکتی ہے۔ آخر میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو جدت، تحقیق اور ترقی کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا جا سکے، اور اس کے لیے حکومت مکمل طور پر پرعزم ہے۔
ٹھٹہ: وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کھیئل داس کوہستانی ٹھٹہ سے کراچی جا رہے تھے کہ اسی دوران کچھ شرپسندوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔ وزیر مملکت نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سجاول کی جانب روانہ تھے کہ ایک قوم پرست جماعت کے درجن بھر کارکنان نے اچانک ان کی گاڑی پر حملہ کیا، جن کے ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے تھے اور وہ کینالوں کی تعمیر کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ کھیئل داس کوہستانی نے کہا کہ جیسے ہی حملہ کیا گیا، ان کے ڈرائیور نے فوراً گاڑی نکالی، تاہم حملہ آوروں نے ان کے قافلے میں موجود دیگر گاڑیوں پر بھی حملہ کیا۔ وزیر مملکت نے بتایا کہ حملے کے دوران گاڑیوں پر پتھراؤ اور ڈنڈوں سے حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں ان کے کچھ ساتھی زخمی ہو گئے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ کھیئل داس نے کہا کہ یہ حملہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھا جس کا مقصد انہیں نقصان پہنچانا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نمائندوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں۔ انہوں نے وزیر مملکت سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے ہمدردی کا اظہار کیا اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس حملے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی اس حملے کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے رابطہ کیا اور واقعہ کی تفصیلات معلوم کی ہیں۔ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ عوامی نمائندوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں اور سندھ حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرے اور ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے ترجمان اسد عثمانی نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کھیئل داس کوہستانی پر حملہ ٹھٹہ سے کراچی جاتے ہوئے کیا گیا، تاہم ان کے قافلے میں موجود پولیس نے بروقت کارروائی کر کے حملے کو ناکام بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو اس حملے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان مسلم لیگ ہاؤس سندھ میں تمام رہنماؤں کو طلب کر لیا گیا ہے تاکہ فوری طور پر حکمت عملی طے کی جائے اور اس معاملے پر پریس کانفرنس کی جائے۔ اس حملے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اس کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیالکوٹ: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے کھوئی ہوئی قیادت کو دوبارہ تلاش کرنا ہو گا، جو ملکی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے۔ وہ سیالکوٹ میں ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کے صنعتکاروں سے خطاب کر رہے تھے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں معاشی اور سماجی مسائل کی بڑی وجہ قیادت کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں چوتھی اڑان کے لیے تیار ہے، مگر اس کے لیے قومی سطح پر معاشی پالیسیوں کو ترجیح دینا ہو گا، خاص طور پر برآمدات کو قومی ایمرجنسی قرار دے کر پیداواری شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ خطاب کے دوران وزیر دفاع نے ملک میں موجود گداگری کے بڑھتے رجحان کو بھی سنگین مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد فقیر موجود ہیں، جو نہ صرف ملکی ساکھ بلکہ بیرون ملک ویزہ مسائل کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ سعودی عرب میں بھی چھ ہزار افراد پاکستانی وزٹ ویزوں پر جا کر مانگ رہے ہیں، اور دیگر ممالک اس صورتحال سے متاثر ہو رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سیالکوٹ میں دو بار گداگروں کو صاف کیا گیا، مگر وہ دوبارہ واپس آ جاتے ہیں۔ انہوں نے صنعتکاروں پر زور دیا کہ وہ معیشت کو سنبھالنے میں حکومت کا ساتھ دیں اور ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے کہا کہ 1 اپریل 2022 کو عدم اعتماد کے بعد وزارت خزانہ نے بتایا تھا کہ ہمارے پاس ایک کوارٹر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی رقم نہیں ہے، لیکن اس وقت کی قیادت نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ملک کی امپورٹ پر اس وقت 4 بلین ڈالر کا خسارہ ہے، جو کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت بڑی رقم ہے۔ انہوں نے ماضی کی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2015 میں لگائے گئے پاور پلانٹس میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی، ہر گرام پر چونا لگایا گیا، جس کے اثرات اب بھی ملک بھگت رہا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں اس وقت 533 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 70 کمپنیاں ایسی ہیں جو 10 ہزار ڈالرز سے زیادہ کی سطح پر کام کر رہی ہیں، یہ مثبت اشاریے ہیں جنہیں بروئے کار لا کر معیشت کو دوبارہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے آئی پی پیز کے معاہدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 90 کی دہائی میں ہونے والے معاہدے جلد ختم ہو رہے ہیں، جبکہ مشرف دور کے پاور پراجیکٹس کے معاہدے 2035 تک چلیں گے۔ خواجہ آصف نے بزنس کمیونٹی کو ملک کا محسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایمانداری سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان سنجیدگی سے اپنی سمت درست کرے، اور اس کے لیے باصلاحیت، دیانت دار اور تجربہ کار قیادت کی واپسی ناگزیر ہے۔

Back
Top