خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
وفاقی حکومت نے بیرون ملک سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں دینے والے پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹس منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے وزیر خارجہ کا گزشتہ سال کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے پاسپورٹ رولز میں ترمیم کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزارت قانون و انصاف نے اس حوالے سے ایک سمری کابینہ کمیٹی برائے ڈسپوزل آف لیجسلیٹو کیسز (سی سی ایل سی) کو ارسال کر دی ہے، جس کی منظوری کے بعد معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ سمری میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مختلف ممالک میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دی ہیں جو کہ جھوٹے دعوؤں اور غیر مصدقہ معلومات پر مبنی ہیں۔ وزارت قانون کے ذرائع نے بتایا کہ سیاسی پناہ لینے والے افراد ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، اس لیے ان کے پاسپورٹس منسوخ کیے جائیں گے اور آئندہ ان کی تجدید بھی نہیں کی جائے گی۔ پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ نے بھی اس پالیسی کی تصدیق کی ہے۔ ذرائع کے مطابق تمام متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد پاسپورٹ رولز میں ترمیم کا حتمی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ریاست کے وقار اور شہرت کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف مؤثر اقدام کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ جون 2025 میں حکومت نے ان 7 ہزار 800 سے زائد پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹس منسوخ کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا، جنہیں گداگری اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ اور اوورسیز پاکستانیز کے حکام نے سینیٹ کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ 2019 سے 2025 کے دوران 7,873 پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے نکالا گیا، اور اب ان کے پاسپورٹس منسوخ کیے جا رہے ہیں تاکہ گداگری اور جعلی دعوؤں پر مبنی سیاسی پناہ کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کے امیر طبقے نے 1233 ارب روپے کے ٹیکس واجبات ادا نہیں کیے۔ اجلاس کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کی، جس میں ایف بی آر حکام نے شرکت کی۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ پاکستان کی صرف 5 فیصد آبادی کے پاس دولت ہے، جبکہ ملک کی 95 فیصد آبادی ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ ان کے مطابق ملک میں 6 لاکھ 70 ہزار امیر گھرانے ہیں، جن میں سے ٹاپ 1 فیصد کی سالانہ اوسط آمدنی ایک کروڑ روپے ہے۔ یہ 5 فیصد لوگ مجموعی طور پر 1700 ارب روپے ٹیکس دینے کے پابند ہیں، مگر صرف 499 ارب روپے جمع کرواتے ہیں، اور 1233 ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امیر طبقے سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے، بجائے اس کے کہ ٹیکس نیٹ میں بے تحاشہ اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں صرف 60 لاکھ ٹیکس فائلرز ہیں، جب کہ 13 کروڑ 20 لاکھ افراد 18 سال سے کم عمر، بزرگ یا لیبر فورس سے باہر ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے ٹیکس نظام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کمشنرز کو جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ ملک کو پولیس اسٹیٹ بنا رہے ہیں، اس طریقہ کار سے تو ایماندار لوگ بھی نظام سے بھاگ جائیں گے۔ انہوں نے ایف بی آر پر زور دیا کہ پکڑ دھکڑ کے بجائے اصلاحات کی طرف توجہ دی جائے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور سلیم مانڈوی والا نے منی لانڈرنگ سے متعلق نوٹسز کے اجرا پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کمپنی کو اینٹی منی لانڈرنگ (AML) کا نوٹس دینے سے پہلے وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کی منظوری لازمی ہونی چاہیے، کیونکہ ایسے نوٹسز پر بین الاقوامی ادارے تحقیقات شروع کر دیتے ہیں اور کمپنیوں کے بینکنگ چینلز بند ہو جاتے ہیں۔ ایف بی آر حکام نے یہ بھی بتایا کہ ٹیمپرڈ چیسس نمبر یا غیر قانونی مہر والی گاڑیوں کو اسمگل شدہ تصور کیا جائے گا، اور ایسی گاڑیوں کو ضبط کر کے 30 دن میں تلف کر دیا جائے گا، چاہے وہ کسی موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ہی کیوں نہ ہوں۔ قائمہ کمیٹی نے آخر میں مزدور کی کم از کم تنخواہ 40 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی سفارش بھی کر دی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک کی اقتصادی صورتحال، بجٹ اقدامات اور عالمی مالیاتی چیلنجز کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ زرعی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ یکم جولائی 2025 سے شروع کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پہلے کہا جاتا تھا زرعی آمدن پر ٹیکس عائد نہیں ہو سکتا، اب کہا جا رہا ہے کہ اسے وصول نہیں کیا جا سکتا، لیکن "ہم اسے وصول کریں گے، بس ہمیں موقع دیں۔" اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر احمد اور سینیٹر عبدالقادر نے صوبے میں پانی کی شدید قلت کا معاملہ اٹھایا۔ سینیٹر احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ صحت اور تعلیم سے زیادہ اہم مسئلہ صاف پانی کی فراہمی ہے اور مطالبہ کیا کہ 25 سال سے التوا کا شکار کچھی کینال منصوبہ مکمل کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے ریکوڈک منصوبے میں عالمی مالیاتی اداروں کی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک نے منصوبے کے لیے مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے، جب کہ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (IFC) 70 کروڑ ڈالر فراہم کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ بجٹ اقدامات کو آئی ایم ایف کی مکمل حمایت حاصل ہے اور ٹیکس اصلاحات بھی اسی معاہدے کا حصہ ہیں۔ لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں مشکلات کی خبروں کو انہوں نے "غلط معلومات" قرار دیا۔ نجکاری سے متعلق بات کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے تسلیم کیا کہ اہداف مکمل نہیں ہو سکے، تاہم پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو دوبارہ نجکاری کے عمل میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اجلاس میں بعض سینیٹرز نے بیوروکریٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز دی تاکہ پنشن کے بوجھ میں کمی لائی جا سکے۔ وزیر خزانہ نے اس پر کہا کہ ان کے سابقہ ادارے میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال تھی اور حکومت بجٹ کے بعد اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات نے اہم مالی تجاویز کی منظوری اور کچھ کو مسترد کرتے ہوئے رواں مالی سال کے بجٹ پر اہم ترامیم کی سفارشات پیش کی ہیں۔ کمیٹی نے یومیہ نقد رقم نکالنے کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار روپے کرنے کی منظوری دے دی، جبکہ آن لائن خریداریوں پر اضافی 2 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، اجلاس کی صدارت رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے کی۔ کمیٹی نے نقد نکالنے پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کرنے کی منظوری دی، تاہم بینک قرضوں پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز مسترد کر دی گئی۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ٹیکس میں اضافہ منظور قائمہ کمیٹی نے گوگل، یوٹیوب سمیت دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی سروسز پر عائد ٹیکس کو 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی حکومتی تجویز کی منظوری دی، جبکہ تجارتی جائیدادوں کے کرایہ پر 4 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر مزید غور کو مؤخر کر دیا گیا۔ چھوٹے تاجروں کیلئے متنازع تجویز مسترد کمیٹی نے ایک متنازع تجویز بھی مسترد کر دی جس کے تحت 2 لاکھ روپے سے زائد کی ہر خرید و فروخت کو لازمی طور پر بینکنگ چینلز سے گزارنے کی شرط عائد کی جانی تھی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام چھوٹے تاجروں کے لیے غیر عملی اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔ اسی دوران، ایک اور ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت کرائے کی آمدن کو کاروباری نقصانات کے خلاف ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ختم کر دی گئی۔ فاٹا و پاٹا کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر شدید مخالفت سابق فاٹا اور پاٹا کے علاقوں کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کے مرحلہ وار خاتمے کی تجویز کو بھی کمیٹی نے سختی سے مسترد کر دیا۔ نوید قمر نے اسے ان علاقوں کے چھوٹے کاروباروں کے لیے "معاشی قتل" قرار دیا اور ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کم ترقی یافتہ علاقوں میں روزگار اور کاروباری بحالی کے لیے ریلیف پیکج ترتیب دینے پر زور دیا۔ کم آمدنی والوں پر ٹیکس بوجھ بڑھانے پر سوالات اجلاس کا ایک اہم حصہ کم آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ سے متعلق تجاویز پر بحث میں گزرا۔ فنانس بل 2025 میں وفاقی حکومت نے سالانہ آمدن 6 لاکھ ایک سے 12 لاکھ روپے کے درمیان رکھنے والوں کے لیے ٹیکس شرح کم کر کے 1 فیصد ظاہر کی، جبکہ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں ڈھائی فیصد کا اعلان کیا تھا، تاہم ایف بی آر چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ کابینہ نے اس رعایت کو واپس لے لیا ہے۔ نئے وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جو ابتدائی تجویز کردہ 6 فیصد سے زائد ہے۔ تاہم اراکین کمیٹی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نجی شعبے کے ملازمین اس اضافے سے محروم ہیں، مگر ٹیکس ان پر بھی لاگو ہو گا۔ نوید قمر نے واضح کیا کہ کم آمدنی والے ملازمین پر بوجھ ڈالنے کا کوئی جواز نہیں، اور کابینہ کے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے حالیہ اجلاس میں ایک اور بڑی سفارتی کامیابی حاصل کرلی، بھارت کی بھرپور کوششوں کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارت کے سفارتی وفد نے اجلاس کے دوران پاکستان کے خلاف منفی بیانیے کو آگے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن FATF کے رکن ممالک نے اس پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا۔ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کے بجائے صرف رپورٹنگ پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران چین نے پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی اور ریلیف کی وکالت کی۔ ترکی اور جاپان نے بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہ حمایت پاکستان کے حق میں ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ آپریشن بنیان مرصوص کے بعد بھارت نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی مہم تیز کی، جس میں اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پیش پیش رہی۔ ذرائع کے مطابق ’’را‘‘ نے نئی دہلی میں ایک ’’ڈس انفو لیب‘‘ قائم کی جس کا مقصد پاکستان کے خلاف جھوٹا اور گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلانا تھا۔ اس لیب کے ذریعے پاکستان سے متعلق عالمی سطح پر جھوٹ پر مبنی رپورٹس اور بیانیے تیار کیے گئے، تاہم دنیا کے کسی ملک نے بھارتی وفد کی جانب سے پھیلائے گئے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر FATF کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر رکن ممالک نے اس پروپیگنڈے کو نظر انداز کر دیا۔ ذرائع کے مطابق بھارت کی تمام تر سفارتی اور خفیہ کوششوں کے باوجود پاکستان کو FATF کی گرے لسٹ میں شامل نہ کرنا پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کی مؤثر سفارت کاری کا ثبوت ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر بڑھتے ہوئے اعتماد کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کی سفارتی پوزیشن مسلسل مضبوط ہو رہی ہے اور بھارت کی ہندوتوا و صہیونی لابی کے مشترکہ اثرورسوخ کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل نہ کیا جانا اس کی تازہ مثال ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی دنیا کی خاموشی افسوسناک اور معنی خیز ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت نے جب پاکستان پر حملہ کیا تو اسرائیلی ڈرونز استعمال کیے، اور اب اسرائیل کا اگلا ہدف پاکستان بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم ایران کے ساتھ کھڑی ہے اور ایران کا ساتھ دینا پاکستان کا اخلاقی فرض ہے۔ اسد قیصر نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس معاملے پر اپنا مؤثر کردار ادا کرے اور فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلانے میں پیش پیش ہو۔ اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور مسلم دنیا کی خاموشی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ابھینندن کی واپسی کا فیصلہ حکومت نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے وقت نواز شریف کہاں تھے؟ کیا انہوں نے بھارت کی مذمت کی؟ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اب مریم نواز، حمزہ شہباز کے بعد جنید صفدر کو بھی لیڈر بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ہماری جماعت میں عمر ایوب قائدِ حزبِ اختلاف اور گوہر علی چیئرمین بن سکتے ہیں، لیکن آپ لوگوں کی سیاست کا مقدر صرف حکومتی بینچوں پر ڈیسک بجانا رہ گیا ہے، قیادت آپ کے نصیب میں نہیں۔ اسد قیصر نے ایوان میں خواجہ آصف کی پرانی تقریر بھی سنائی اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم صرف بانی پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لیے کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بانی پی ٹی آئی کو ضمانت دی جاتی ہے تو عدالتوں کو تالے لگا دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں، جنہیں برداشت کرنا حکومت کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’جو کرنا ہے کر لو، گولیاں چلاؤ، ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں۔‘‘
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے مختص رقم ناکافی ہے اور اس میں مزید 100 سے 200 ارب روپے کا اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ ٹورنٹو میں جنگ/جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے دفاعی بجٹ میں جو اضافہ کیا ہے، اس کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اس معاملے کو حالیہ جنگ سے نہیں جوڑ رہے بلکہ اسے فارن کرنسی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ چار سالوں میں روپے کی قدر میں شدید کمی آئی ہے جس کی وجہ سے دفاعی بجٹ حقیقی معنوں میں آدھا ہو چکا ہے، اس لیے اس شعبے کے لیے مزید وسائل مختص کیے جانے چاہیے تھے۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران حکومت کی معاشی پوزیشن بہتر ہوئی اور پاکستان استحکام کی طرف بڑھا، لیکن زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں معاشی سکڑاؤ تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوا، تنخواہوں کی شرح کم ہوئی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان کی معیشت مجموعی طور پر اب بھی کمزور ہے اور ملک کو اپنی بنیادی معاشی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ شبر زیدی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بہت زیادہ ہے، جسے فوری طور پر متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر فو کانگ نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی سخت مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل فوری طور پر اپنے تمام خطرناک فوجی اقدامات بند کرے۔ برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق، فو کانگ نے یہ موقف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اختیار کیا، جو مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورتِ حال پر بلایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چین ہر اُس اقدام کی مخالفت کرتا ہے جو تنازعات کو ہوا دے اور کشیدگی میں اضافہ کرے، جبکہ اسرائیل کے اقدامات کے ممکنہ خطرناک نتائج پر چین کو گہری تشویش ہے۔ فو کانگ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چین موجودہ کشیدہ حالات کے ایرانی جوہری معاملے پر سفارتی کوششوں پر منفی اثرات سے سنجیدگی سے پریشان ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے جمعہ کی صبح ایران پر بڑے پیمانے پر حملے شروع کیے تھے، جن کے بارے میں اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ایک طویل فوجی کارروائی کی شروعات ہے۔ جواب میں ایران نے جمعے کی رات اسرائیل پر بھرپور فضائی حملے کیے، جن کے نتیجے میں یروشلم اور تل ابیب میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ چین نے اسرائیل اور ایران میں موجود اپنے شہریوں کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے، جس میں انہیں دونوں ممالک میں پیچیدہ اور خطرناک سیکیورٹی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے خاص طور پر اسرائیل میں ممکنہ میزائل اور ڈرون حملوں سے محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پشاور: حکومت خیبرپختونخوا نے مالی سال 2025-26 کے لیے 2119 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، جو کہ 157 ارب روپے سرپلس ہے۔ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (ADP) کے لیے 547 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد، پینشن میں 7 فیصد اضافے اور کم سے کم ماہانہ اجرت کو 36 ہزار سے بڑھا کر 40 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم نے بجٹ اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں ایگزیکٹو الاؤنس نہ لینے والے ملازمین کے لیے ڈسپیرٹی الاؤنس میں 15 سے 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ بجٹ میں مجموعی اخراجات کا تخمینہ 1962 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق نئے مالی سال میں صوبے کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت 267 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے 71 ارب روپے اور آئل و گیس کی مد میں 58 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجٹ میں صوبائی محاصل کا ہدف 129 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کی الاٹمنٹ اور ٹرانسفر پر اسٹامپ ڈیوٹی کو 2 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ 36 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والوں پر پروفیشنل ٹیکس ختم کرنے اور الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس و ٹوکن ٹیکس معاف کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔ پولیس کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرتے ہوئے بجٹ میں کانسٹیبل سے انسپکٹر تک کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے مساوی کرنے اور شہدا پیکج میں اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سپاہی تا انسپکٹر کے لیے شہدا پیکج ایک کروڑ 10 لاکھ، ڈی ایس پی/اے ایس پی کے لیے ایک کروڑ 60 لاکھ اور ایس پی/ایس ایس پی/ڈی آئی جی کے لیے 2 کروڑ 10 لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔ شہدا کے لواحقین کو پانچ مرلہ سے ایک کنال تک پلاٹ بھی دیے جائیں گے۔ آفتاب عالم نے بجٹ تقریر میں کہا کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو صوبہ شدید مالی بحران اور بجٹ خسارے کا شکار تھا۔ تاہم وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں حکومت نے مالی نظم و ضبط اپناتے ہوئے نہ صرف مالی خسارے کو قابو میں کیا بلکہ ایک تاریخی سرپلس بجٹ بھی پیش کیا۔ حکومت کے پاس اب تین ماہ کی تنخواہوں کے مساوی رقم موجود ہے۔ صوبائی حکومت نے قرضوں کی مؤثر ادائیگی کے لیے "ڈیبٹ مینجمنٹ فنڈ" قائم کیا ہے، جس میں مالی سال 2024-25 کے دوران 150 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ مجموعی طور پر 49 ارب روپے کے قرضوں اور 18 ارب روپے کے مارک اپ کی ادائیگی کی گئی۔ صحت کے شعبے میں، حکومت نے صحت کارڈ پلس کی بحالی کا اعلان کیا ہے، جس میں اب گردے، جگر، بون میرو ٹرانسپلانٹ سمیت مہنگے علاج شامل کر دیے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے دوران لائف انشورنس بھی صحت کارڈ میں شامل کی جائے گی۔ تعلیم کے شعبے میں 46 کالجز کی تعمیر نو، 16 ہزار نئی بھرتیاں، اسکولوں میں 3 کروڑ 40 لاکھ کتابوں کی تقسیم، اور 5 لاکھ 18 ہزار وظائف دیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے 4.9 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ صوبے میں گڈ گورننس کے فروغ کے لیے 7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ بلدیاتی اداروں اور محکمہ سیاحت کے لیے بالترتیب 55 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں بندوبستی اضلاع کے لیے 120 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں 30 فیصد اضافہ کرتے ہوئے ADP پلس کے ذریعے رقم 155 ارب روپے تک بڑھا دی گئی ہے۔ ریونیو کے محاذ پر، خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی نے رواں مالی سال کے 10 ماہ میں 41.6 ارب روپے کا ریونیو جمع کیا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے، جبکہ نان ٹیکس آمدن میں 74 فیصد اضافہ ہوا۔ صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ عمران خان کے وژن اور موجودہ حکومت کی دیانتدارانہ حکمت عملی کا ثبوت ہے، جو مشکل حالات میں بھی عوامی خدمت کے جذبے کے تحت پیش کیا گیا ہے۔
ایران میں حالیہ کشیدہ حالات اور اسرائیلی حملوں کے تناظر میں تہران میں پاکستانی سفارتخانے نے ایران میں موجود پاکستانی شہریوں کو محفوظ مقامات پر رہنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ایران میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد 45 ہزار سے 50 ہزار کے درمیان ہے، جن میں زائرین، طلبہ، مزدور، تاجر، پیشہ ور افراد اور پاکستانی نژاد دوہری شہریت رکھنے والے شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں کے باعث ایران کے زمینی اور فضائی راستے جزوی یا مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں، جس کے سبب پاکستانی شہریوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوئی ہے۔ مشہد، قم اور تہران میں موجود مقدس مقامات پر زیارت کے لیے جانے والے زائرین کی ایک بڑی تعداد ایران میں موجود ہے۔ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ ہدایت میں شہریوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور محفوظ مقامات پر قیام کریں۔ سفارتی حکام کے مطابق پاکستان اور ایران کے درمیان 909 کلومیٹر طویل سرحد پر تین بڑے انٹری و ایگزٹ پوائنٹس — تافتان، گبد اور مند — واقع ہیں، جو کہ نہ صرف دور دراز علاقوں میں ہیں بلکہ سکیورٹی کے لحاظ سے بھی انتہائی حساس سمجھے جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایران میں موجود پاکستانیوں کی واپسی ناگزیر ہوئی تو حکومت پاکستان کی جانب سے فوری اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ان کی جلد اور محفوظ واپسی ممکن بنائی جا سکے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ ایرانی شہروں زاہدان، مشہد اور تہران میں پاکستانی کمیونٹی کے بڑے مراکز موجود ہیں، جبکہ کچھ پاکستانی شہری ایران میں ٹرانزٹ کے طور پر بھی موجود ہیں۔ پاکستانی سفارتخانہ مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت میں مدد فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو ممکنہ تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ تہران فوری طور پر معاہدے پر عمل کرے، ورنہ "ایرانی سلطنت" کا نام و نشان بھی مٹ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے یہ سخت پیغام سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹرتھ سوشل" پر جاری کیا، جہاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران کو متعدد مواقع دیے گئے تاکہ وہ معاہدہ طے کرلے، مگر ایرانی قیادت بارہا ناکام رہی۔ انہوں نے کہا: "میں نے ایران کو انتہائی سخت الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ اس معاملے کو طے نہ کرسکے۔ جو کچھ ہونے والا ہے، وہ ایران کی توقعات اور اندازوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ہوگا۔" ٹرمپ کے مطابق، امریکا دنیا کا جدید ترین اور مہلک فوجی ساز و سامان تیار کرتا ہے، جس کا بڑا حصہ اسرائیل کے پاس پہلے ہی موجود ہے اور مزید ہتھیار بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول، اسرائیل اس ہتھیار کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ ایرانی سخت گیر عناصر نے بہادری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ مارے جا چکے ہیں اور حالات بدستور بگڑ رہے ہیں۔ "اب تک کئی ہلاکتیں اور تباہی ہوچکی ہے، لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ اس قتل عام کو روکا جا سکے، کیونکہ آئندہ حملے اس سے بھی زیادہ ہولناک ہوں گے،" ٹرمپ نے خبردار کیا۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ایران کو فوری طور پر معاہدے پر واپس آنا ہوگا، ورنہ "کچھ باقی نہیں بچے گا اور اس شے کو بھی بچانا ممکن نہ ہوگا جسے کبھی ’ایرانی سلطنت‘ کہا جاتا تھا۔"
ایران میں حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں سے قبل اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی جانب سے ایرانی سرزمین پر خفیہ کارروائیوں کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں، جنہیں اسرائیلی فوج نے حملے کی کامیابی میں "کلیدی کردار" قرار دیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں اور اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، موساد کے ایجنٹس نے ایران کے اندر کئی اہم مقامات پر کارروائیاں کیں، جن میں ایرانی میزائل سسٹمز اور فضائی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانا شامل تھا۔ ان کارروائیوں میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹمز کو گائیڈڈ ہتھیاروں سے تباہ کیا گیا، تاکہ اسرائیلی جنگی طیاروں کو ایران کی فضائی حدود میں بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہونے کا موقع ملے۔ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ موساد نے تہران کے قریب ایک خفیہ ڈرون بیس قائم کیا، جسے اسرائیلی حملے سے کچھ دیر قبل فعال کیا گیا۔ اس بیس سے اڑنے والے ڈرونز نے ان ایرانی میزائلوں کو نشانہ بنایا جو اسرائیل پر جوابی حملے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، موساد نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایران کے فضائی دفاعی نظام کو غیر مؤثر کیا، جب کہ وسطی ایران میں اینٹی ایئرکرافٹ تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کارروائیوں کے لیے ہتھیاروں سے لیس گاڑیاں ایران کے اندر اسمگل کی گئیں، جن کے ذریعے موساد کے ایجنٹس نے یہ اہداف مکمل کیے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے موساد کی کارروائیوں کی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے، جو کہ انتہائی غیر معمولی اقدام تصور کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ویڈیو ایک پیغام بھی ہو سکتی ہے کہ اسرائیل مستقبل میں بھی ایران کے اندر کارروائیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق یہ خفیہ آپریشن طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا، جس میں موساد اور اسرائیلی فوج کے درمیان قریبی رابطہ اور تعاون موجود تھا۔
وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اب کسٹمز کے خالی عہدوں پر کنٹریکٹ کی بنیاد پر ریٹائرڈ جونیئر کمیشنڈ افسران اور سپاہیوں کو بھرتی کر سکے گا۔ مالیاتی بل کے مطابق ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ملک کے مختلف مقامات کو ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشن قرار دے، تاکہ اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام کی جا سکے۔ ایف بی آر کسی بھی موجودہ کسٹمز چیک پوسٹ کو بھی ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشن کا درجہ دے سکتا ہے۔ بل میں واضح کیا گیا ہے کہ بورڈ ان اسٹیشنز کے لیے عملے کی بھرتی، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی سے متعلق ضابطے بھی خود وضع کرے گا۔ مالیاتی بل میں شامل دفعات کے مطابق: "بورڈ قواعد کے تحت کسٹمز کے خالی عہدوں پر مسلح افواج کے ریٹائرڈ جونیئر کمیشنڈ افسران اور سپاہیوں کو کنٹریکٹ پر بھرتی کر سکتا ہے۔"
امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کو انسداد دہشت گردی کے میدان میں "ایک غیر معمولی شراکت دار" قرار دیتے ہوئے بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں اور داعش خراسان جیسے گروہوں کے خلاف پاکستانی کوششوں کو سراہا ہے۔ منگل کے روز امریکی ایوان نمائندگان کی ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے جنرل کوریلا نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں داعش خراسان کے متعدد اہم کمانڈروں کو گرفتار کیا ہے اور درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔ جنرل کوریلا نے خاص طور پر داعش خراسان کے نمایاں کارندے محمد شریف اللہ عرف جعفر کا ذکر کیا، جو کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ پر ہونے والے مہلک حملے کا مرکزی منصوبہ ساز تھا۔ جنرل کے مطابق شریف اللہ کی گرفتاری کے بعد پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے انہیں براہ راست فون کرکے آگاہ کیا کہ "ہم نے اسے گرفتار کر لیا ہے، اور ہم اسے امریکا کے حوالے کرنے کو تیار ہیں، براہ کرم سیکریٹری دفاع اور صدر کو اطلاع دیں۔" کمانڈر سینٹکام نے کہا کہ پاکستان، امریکی انٹیلی جنس معلومات کے محدود حصے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ذرائع سے کارروائیاں کر رہا ہے اور ان اقدامات کے مثبت اثرات داعش خراسان پر نمایاں ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 2024 کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں 1,000 دہشتگردانہ حملے ہو چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اس وقت انسداد دہشتگردی کی ایک "فعال جنگ" میں مصروف ہے۔ واضح رہے کہ 10 مئی کو واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے مابین انسداد دہشتگردی پر اعلیٰ سطحی بات چیت ہوئی تھی، جس میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش خراسان جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے تعاون جاری رکھنے پر زور دیا گیا تھا۔ رواں ماہ دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے موضوع پر ایک اور مشاورتی اجلاس متوقع ہے۔ جنرل کوریلا نے امریکا کی علاقائی توازن کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کو پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، "یہ ممکن نہیں کہ اگر ہم بھارت کے ساتھ تعلقات رکھیں تو پاکستان کے ساتھ نہ رکھ سکیں، ہمیں دونوں ممالک کے ساتھ شراکت داری کے مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔" اپریل میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے امریکی سینیٹر مارکو روبیو سے پہلی ٹیلیفونک گفتگو کی تھی، جس میں انسداد دہشتگردی سمیت مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق ہوا۔ دفتر خارجہ کے مطابق اسحٰق ڈار نے 2013 تا 2018 کے دوران پاکستان کی انسداد دہشتگردی کی کوششوں کو اجاگر کیا، جبکہ روبیو نے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے تعاون کو مزید بڑھانے کی خواہش ظاہر کی۔ مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس سے خطاب کے دوران شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کی مدد کا کھلے الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا، "آج رات مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ کابل ایئرپورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ کو ہم نے گرفتار کر لیا ہے، اور وہ امریکا میں انصاف کا سامنا کرے گا۔ میں پاکستان کی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے اس دہشتگرد کو گرفتار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔"
آئندہ مالی سال 26-2025 کے وفاقی بجٹ میں پنشن کی مد میں مجموعی طور پر 1,055 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے 742 ارب روپے ملٹری پنشن جبکہ 243 ارب روپے سویلین پنشن کے لیے رکھے گئے ہیں۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق ملٹری پنشن کے بجٹ میں تقریباً 66 ارب روپے اور سویلین پنشن کے بجٹ میں 9 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ رواں مالی سال 25-2024 میں ملٹری پنشن کے لیے 662 ارب روپے مختص تھے، تاہم نظرثانی تخمینے کے مطابق یہ رقم 676 ارب روپے تک جا پہنچی۔ نئے مالی سال میں یہ رقم بڑھا کر 742 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ اسی طرح سویلین پنشن کے لیے رواں مالی سال 220 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جبکہ نظرثانی تخمینہ 234 ارب روپے رہا۔ آئندہ مالی سال کے لیے اس میں اضافہ کر کے 243 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ملٹری اور سویلین پنشن کے مجموعی بجٹ میں 65 ارب 70 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ فیڈرل پنشن فنڈ کی مد میں کمی کی گئی ہے۔ نئے مالی سال میں فیڈرل پنشن فنڈ کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، جو کہ رواں مالی سال کے 10 ارب روپے کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال پنشن کی مد میں مجموعی طور پر 1,014 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، جو کہ آئندہ مالی سال میں 41 ارب روپے اضافے کے بعد 1,055 ارب روپے ہو جائے گا۔
وفاقی حکومت نے مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں ہائبرڈ گاڑیوں پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے، جس کے نتیجے میں ان گاڑیوں کی قیمتیں 10 لاکھ سے 14 لاکھ روپے تک بڑھ سکتی ہیں۔ نیوز ویب سائٹ "پروپاکستانی" کے مطابق حکومت نے بجٹ میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ موجودہ 8.5 فیصد جی ایس ٹی کو بڑھا کر دیگر گاڑیوں کی طرح ہائبرڈ گاڑیوں پر بھی 18 فیصد لاگو کیا جائے۔ اس پالیسی کے تحت حکومت تمام گاڑیوں — پٹرول، ڈیزل یا ہائبرڈ — پر جی ایس ٹی کی یکساں شرح نافذ کرنے کی خواہاں ہے۔ قبل ازیں ہائبرڈ گاڑیوں پر کم شرح جی ایس ٹی کی سہولت دی گئی تھی تاکہ عوام کو ماحول دوست اور ایندھن بچانے والی ٹیکنالوجی کی طرف راغب کیا جا سکے۔ تاہم، نئی پالیسی اس رعایت کو ختم کر دے گی۔ ہائبرڈ گاڑیاں، جنہیں اکثر ایندھن کی بچت اور ماحول دوست آپشن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نئے ٹیکس نظام کے تحت نمایاں طور پر مہنگی ہوجائیں گی۔ پاک وہیلز کے مطابق، اگر یہ تجویز منظور ہوتی ہے تو پاکستان میں فروخت ہونے والی کئی مقبول ہائبرڈ گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا، جس سے آٹو مینوفیکچررز اور ممکنہ خریدار دونوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف ہائبرڈ گاڑیوں کی طلب میں کمی کا باعث بنے گا بلکہ ملک میں ماحول دوست ٹرانسپورٹ کی جانب منتقلی کے عمل کو بھی سست کر دے گا۔
حکومت نے آئندہ مالی سال 26-2025 کے وفاقی بجٹ میں ڈیری، میڈیکل اور سرجیکل شعبے کی مشینری سمیت کئی اہم اشیاء پر ٹیکس میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے، جس سے مہنگائی کی نئی لہر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق دودھ، دہی، گوشت، انڈے، مرغی، کینولا تیل، پنکھے، فرنیچر اور صحت کی سہولیات سمیت روزمرہ استعمال کی متعدد اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں۔ حکومت نے دودھ کے پروسیسنگ پلانٹس، مویشیوں اور پولٹری شیڈز، اور جانوروں کی فیڈ مشینری پر دو فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ اسی طرح ڈیری کی مشینری اور پنکھوں پر تین فیصد ٹیکس تجویز کیا گیا ہے، جبکہ کینولا، سرنج، فائر فائٹنگ آلات اور جم کے سامان پر تین سے پانچ فیصد اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ملک فلٹرز پر بھی دو فیصد اضافی ٹیکس تجویز کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 2023-24 کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے، مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے اور ہم اصلاحات کے عمل کو مرحلہ وار آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مزید قرضے لینا نہیں چاہتے، اگر لینا پڑا تو اپنی شرائط پر لیں گے، اور جو بچت قرضوں کی ادائیگی سے حاصل ہوگی اسے دیگر اہم شعبوں میں منتقل کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران قرضوں کی ادائیگی میں 800 ارب روپے کی بچت ہوئی، پنشن اصلاحات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور حکومت آنے والے دنوں میں 43 وزارتوں اور 400 سے زائد ماتحت اداروں کی رائٹ سائزنگ کرے گی۔ اس عمل کو مرحلہ وار آگے لے جایا جا رہا ہے اور متعدد وزارتوں و محکموں کو ضم کیا جا رہا ہے تاکہ اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں بہتری لائی جا سکے۔ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ جولائی سے مئی کے درمیان ٹیکس وصولی میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ فائلرز کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔ ریٹیلرز کی رجسٹریشن میں 74 فیصد اضافہ ہوا، جو ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی بڑی پیش رفت ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ٹی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی فری لانسرز نے 40 کروڑ ڈالر کمائے، جو ڈیجیٹل معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیرونی شعبہ دوہرے بحرانوں کا شکار رہا، تاہم اس کے باوجود روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی بدولت ترسیلات زر میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رواں سال ترسیلات زر 37 سے 38 ارب ڈالر کے درمیان رہنے کا امکان ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملکی معیشت پر اعتماد مضبوط ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ بھارت نے پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کو رکوانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔ ان کے مطابق بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے خاص طور پر یہ کوشش کی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی دوسری قسط نہ ملے، تاہم حکومت نے تمام چیلنجز پر قابو پایا۔ معاشی اشاریوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران صنعتی شعبے میں 6 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا، خدمات کے شعبے میں 2.9 فیصد اور تعمیرات کے شعبے میں 1.3 فیصد نمو ہوئی۔ زرعی شعبہ کمزور رہا اور محض 0.6 فیصد ترقی کر سکا۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں 3 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ ملک کا جاری کھاتوں کا خسارہ ختم ہو کر سرپلس میں آ چکا ہے جبکہ اکاؤنٹس 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ گزشتہ 20 برس میں پہلی مرتبہ پرائمری بیلنس سرپلس میں آیا ہے۔ معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر سے بڑھ کر 411 ارب ڈالر ہو چکا ہے جبکہ فی کس آمدنی 162 ڈالر اضافے کے ساتھ 1824 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ بی آئی ایس پی (بینظیر انکم سپورٹ پروگرام) کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے اور اب یہ 593 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس پروگرام کے تحت 99 لاکھ خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اسی طرح اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت 16 ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ مقامی و عالمی مارکیٹ میں ملازمت کے لیے تیار ہو سکیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی سے 52.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 25.9 فیصد اضافے سے 10 ہزار 234 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ برآمدات میں بھی 6.8 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 27.3 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 604 میگاواٹ ہے، جبکہ 56 ہزار نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد رکھا گیا تھا، تاہم اصل نمو 2.7 فیصد رہی۔ زرعی شعبے کی ترقی کا ہدف 2 فیصد تھا، مگر یہ 0.6 فیصد پر محدود رہی، جبکہ خدمات کے شعبے کی ترقی 4.1 فیصد کے مقابلے میں 2.9 فیصد رہی۔ رواں مالی سال بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد کمی آئی، جبکہ دیگر فصلوں کی پیداوار میں 4.8 فیصد کا اضافہ ہوا۔ سبزیوں کی پیداوار میں 7.8 فیصد اور پھلوں کی پیداوار میں 4.1 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ لائیو اسٹاک کی پیداوار 4.4 فیصد سے بڑھ کر 4.7 فیصد تک پہنچ گئی اور مویشیوں کی آبادی میں 3.77 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی شرح نمو 4.5 فیصد، فارماسیوٹیکل میں 2.3 فیصد اضافہ، جبکہ کیمیکل سیکٹر میں 5.5 فیصد کمی دیکھی گئی۔ کان کنی اور کھدائی کے شعبے میں شرح نمو 3.4 فیصد رہی۔ مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.2 فیصد تھا مگر اصل شرح 13.8 فیصد رہی۔ فکسڈ سرمایہ کاری 12.5 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 12 فیصد، اور نجی سرمایہ کاری 9.7 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 9.1 فیصد رہی۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 9.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11.4 ارب ڈالر ہو گئے، جبکہ نان ٹیکس آمدن میں 69.9 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 4.23 کھرب روپے تک پہنچ گئی۔ تاہم، اقتصادی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے محصولات میں اضافے کے باوجود رواں مالی سال کا مقررہ اصل اور نظرثانی شدہ ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی سروے میں ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ حالیہ سیلاب کے باعث 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ سال 2024 میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری رہا جبکہ سال بھر میں معمول سے 31 فیصد زائد بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ اقتصادی سروے پر ردعمل کا سلسلہ بھی جاری ہے
مالی سال 2024-25 کے اقتصادی سروے کے مطابق وفاقی حکومت نے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں پر مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تعلیم کے شعبے پر جی ڈی پی کا صرف 0.8 فیصد صرف ہوا، جبکہ ملک کی مجموعی شرح خواندگی 60.6 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق مردوں کی شرح خواندگی 68 فیصد اور خواتین کی 52.8 فیصد رہی، جس سے دونوں میں 16 فیصد کا نمایاں فرق ظاہر ہوتا ہے۔ ملک بھر میں اس وقت 269 جامعات موجود ہیں جن میں سے 160 سرکاری اور 109 نجی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت اعلیٰ تعلیم پر 61 ارب 10 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، جبکہ یونیورسٹی سطح پر پی ایچ ڈی فیکلٹی کی شرح 37.97 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے میں صحت کے شعبے کی صورتحال بھی مایوس کن قرار دی گئی ہے۔ رواں مالی سال میں صحت کا مجموعی بجٹ 925 ارب روپے رہا جو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں فی الحال 751 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر میسر ہے، تاہم پچھلے ایک سال میں ڈاکٹرز کی تعداد میں 20 ہزار کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار اور ڈینٹسٹ کی 39 ہزار 88 تک جا پہنچی ہے۔ ملک میں اس وقت نرسوں کی تعداد 1 لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد 29 ہزار ہے۔ مجموعی طور پر ملک بھر میں 1,696 اسپتال اور 5,434 بنیادی صحت مراکز کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ تشویشناک پہلو بھی سامنے آیا کہ ملک میں ایک ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے ہر سال 50 فوت ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اوسط متوقع عمر میں قدرے بہتری آئی ہے اور یہ بڑھ کر 67 سال تک پہنچ گئی ہے۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی سماجی کارکن یاسر خان علیزئی نے سوشل میڈیا پیغام میں بتایا ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی، اویس خان علیزئی کو پُراسرار طور پر قتل کر دیا گیا، جبکہ قاتل کی گرفتاری میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے بااثر عناصر سرگرم ہیں۔ یاسر خان علیزئی، جو یوٹیوب چینل AliZai Vlogs سمیت فیس بک اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے ذریعے پاکستان میں قانون شکنی، آمریت اور جبر کے خلاف آواز بلند کرتے آئے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں بارہا دھمکیاں دی گئیں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ 2 مئی 2025 کی رات 11:45 بجے، ان کے بھائی اویس خان کو سر پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد خیبر پختونخوا پولیس اور صوبائی حکومت ان سے مسلسل رابطے میں رہی ہے۔ یاسر نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، علی امین گنڈا پور نے ان سے براہِ راست بات کر کے مکمل انصاف کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم، 40 دن گزرنے کے باوجود مرکزی ملزم — جو مبینہ طور پر پاکستان نیوی کا حاضر سروس اہلکار ہے — تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ یاسر کے مطابق پی ٹی آئی پشاور کے انفارمیشن سیکریٹری خالد خان سپاری، وزیر اعلیٰ کے فوکل پرسن یار محمد خان نیازی، اور وزیر اعلیٰ کے بھائی فیصل امین خان نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ نیوی ملزم کو پولیس کے حوالے کرنے سے انکاری ہے۔ یاسر خان نے الزام لگایا کہ بااثر ادارے اور عناصر قاتل کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: "مجھے نہیں معلوم میرے بھائی کو کیوں قتل کیا گیا، یا اصل سازش کار کون ہے، مگر جو بھی قاتل کو تحفظ فراہم کر رہے اور اس کو بچا رہے ہیں، وہ سب میرے دشمن ہیں۔" انہوں نے اپنے بیان میں انصاف کے حصول کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور دنیا بھر کے انسان دوستوں سے اپیل کی کہ وہ ان کے ساتھ اس جنگ میں آواز بلند کریں۔ "میں آخری سانس تک اپنے بھائی کے قاتلوں اور ان کے محافظوں کے خلاف لڑتا رہوں گا۔"

Back
Top