خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کوئٹہ: سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے اضلاع کچھی اور قلات میں انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر دو الگ الگ کارروائیوں میں کالعدم تنظیم فتنۃ الہند سے تعلق رکھنے والے کم از کم 7 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، پہلا آپریشن ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کیا گیا جہاں 5 دہشت گرد مارے گئے، جب کہ دوسرا آپریشن قلات میں ہوا جس میں مزید 2 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں کارروائیوں کے دوران دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے، جب کہ دونوں مقامات پر کلیئرنس کا عمل جاری ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، ہلاک دہشت گرد حالیہ دنوں میں فورسز اور شہریوں پر ہونے والے متعدد حملوں میں ملوث تھے، اور ان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ یہ کارروائیاں حالیہ دنوں میں بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے تناظر میں کی گئی ہیں، جن میں بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے گروہوں کے متحرک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ 6 سے 10 مئی کے درمیان پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے بعد بھارتی حمایت یافتہ عناصر نے بلوچستان میں حملوں کی نئی لہر شروع کرنے کی کوشش کی، جس میں فتنۃ الہند اور کالعدم بی ایل اے جیسے گروہ نمایاں ہیں۔ گزشتہ ماہ خضدار میں ایک اسکول وین پر دہشت گردوں کے حملے میں 7 طالبات اور ایک طالب علم شہید ہو گئے تھے، جس کے بعد قومی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی منظوری دی تھی۔ اس کے بعد ضلع سوراب میں سرکاری افسران کی رہائش گاہوں پر بھی حملے کیے گئے جن میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت بلیدی شہید ہوئے، جب کہ افسران کی رہائش گاہوں کو نذر آتش کر دیا گیا اور قریبی بینک کو بھی لوٹ لیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی تاکہ صوبے میں امن و امان کی فضا بحال کی جا سکے اور ریاستی عملداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے کھاد کی من پسند قیمتوں کا تعین کرنے، کارٹیلائزیشن کے ذریعے مصنوعی نرخ مقرر کر کے کسانوں کو مالی نقصان پہنچانے پر 6 بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں اور ان کی انڈسٹری ایسوسی ایشن پر مجموعی طور پر 37 کروڑ 50 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ سی سی پی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق، کمیشن کے دو رکنی بینچ، جس میں ڈاکٹر کبیر احمد سدھو اور سلام امین شامل تھے، نے ازخود نوٹس کے تحت کھاد کی قیمتوں کے گٹھ جوڑ سے متعلق تحقیقات کیں، جن کے نتیجے میں فاطمہ فرٹیلائزر لمیٹڈ، فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ، اینگرو فرٹیلائزر لمیٹڈ، بن قاسم لمیٹڈ، ایگری ٹیک لمیٹڈ اور دیگر کمپنیوں پر فی کس 5 کروڑ روپے، جب کہ فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان ایڈوائزری کونسل (FMPAC) پر ساڑھے 7 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ تحقیقات کے مطابق نومبر 2021 میں ان کمپنیوں اور ان کی نمائندہ ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک مشترکہ "آگاہی مہم" کے تحت اشتہار شائع کیا گیا، جس میں 50 کلوگرام یوریا بیگ کی ملک بھر میں یکساں قیمت 1,768 روپے مقرر کی گئی۔ کمیشن کے مطابق یہ اقدام مسابقتی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور کسانوں کے ساتھ ناانصافی تھا۔ سی سی پی نے واضح کیا کہ ہر کمپنی کی پیداواری لاگت، صلاحیت اور مارکیٹ میں رسائی مختلف ہونے کے باوجود یکساں قیمت کا اعلان کرنا "کارٹلائزیشن" یعنی کاروباری گٹھ جوڑ کے مترادف ہے، جو کمپیٹیشن ایکٹ 2010 کی دفعہ 4 کی خلاف ورزی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران کمپنیوں نے مؤقف اختیار کیا کہ قیمتوں کا اعلان حکومتی ہدایت پر کیا گیا تھا، تاہم کمیشن نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کوئی سرکاری ہدایت یا حکم نامہ موجود نہیں تھا جو اس اقدام کا جواز فراہم کرتا ہو۔ سی سی پی نے کہا کہ قیمتوں کا یہ گٹھ جوڑ خاص طور پر ربیع اور خریف کے اہم زرعی سیزن میں کسانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا، کیونکہ اس سے کھاد کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہوا اور زرعی پیداواری لاگت بڑھ گئی۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ سی سی پی نے 2010، 2012 اور 2014 میں بھی ان کمپنیوں کو وارننگ جاری کی تھی، تاہم وہ مؤثر اصلاحات یا دیرپا بہتری لانے میں ناکام رہیں۔ کمیشن کے رکن ڈاکٹر کبیر سدھو نے اپنے تبصرے میں کہا کہ کسی بھی کاروباری یا تجارتی تنظیم کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ منڈی میں قیمتوں کا تعین کرے۔ انہوں نے اس اقدام کو منڈی کی شفافیت اور صارفین کے مفادات کے خلاف قرار دیا۔ سی سی پی نے امید ظاہر کی کہ یہ فیصلہ مستقبل میں کاروباری اداروں کے لیے ایک مثال بنے گا اور مارکیٹ میں آزاد مسابقت کو فروغ دینے میں مدد دے گا۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے صوبے بھر میں تمام ایئرپورٹس اور پاک فضائیہ کی بیسز کے 15 کلومیٹر کے دائرہ کار میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، جس کا اطلاق 5 جون سے 20 جون تک جاری رہے گا۔ اس فیصلے کا مقصد عیدالاضحیٰ کے موقع پر فضائی سفر کو محفوظ بنانا ہے۔ ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق ہر سال عیدالاضحیٰ کے دوران قربانی کے جانوروں کی آلائشیں ایئرپورٹ کے آس پاس کھلے عام پھینک دی جاتی ہیں، جس کے باعث پرندے اس جانب راغب ہوتے ہیں۔ پرندوں کی موجودگی نہ صرف طیاروں کی پرواز کے لیے خطرہ ہے بلکہ مسافروں کی جان کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ انہی خدشات کے پیش نظر صوبائی حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ پابندی کے دوران ایئرپورٹ اور فضائی بیسز کے 15 کلومیٹر کے اندر کبوتر بازی، آتش بازی، ڈرونز کا استعمال، لیزر لائٹس کی روشنی ڈالنا، یا کھلی آلائشیں پھینکنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ حکام نے اس اقدام کو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ اور فلائٹ آپریشن کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ محکمہ داخلہ کی جانب سے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ اپنے اضلاع میں ایئرپورٹس کے اطراف صفائی، فضلہ ٹھکانے لگانے کے مناسب انتظامات، اور دفعہ 144 کے اطلاق پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنائیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں ملک کے مختلف ایئرپورٹس پر پرندوں کے طیاروں سے ٹکرانے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جن کے نتیجے میں متعدد پروازیں منسوخ یا تاخیر کا شکار ہوئیں، اور بعض واقعات میں طیاروں کو ہنگامی لینڈنگ بھی کرنا پڑی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات شہری شعور کو اجاگر کرنے، ممکنہ حادثات سے بچاؤ، اور بین الاقوامی ایوی ایشن معیار کے مطابق حفاظتی تقاضے پورے کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کے بعد معروف امریکی کار ساز کمپنی ٹیسلا نے بھارت میں مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کرنے کا منصوبہ مؤخر کر دیا ہے۔ بھارتی وزیر برائے ہیوی انڈسٹریز ایچ ڈی کمار سوامی نے ایک پریس کانفرنس میں تصدیق کی ہے کہ ٹیسلا نے بھارت میں صرف شورومز کھولنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جب کہ فیکٹری یا مینوفیکچرنگ یونٹ کے قیام پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ یہ پیشرفت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار امریکی کمپنیوں پر زور دے چکے ہیں کہ وہ اپنی پیداوار امریکا میں ہی کریں۔ فروری میں ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ایلون مسک بھارت میں ٹیسلا فیکٹری لگاتے ہیں تو یہ امریکا کے ساتھ "سنگین ناانصافی" ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ امریکی کمپنیوں کی مصنوعات، بالخصوص کاریں اور پرزے، امریکی سرزمین پر تیار ہوں، نہ کہ بھارت یا کسی اور ملک میں۔" ٹرمپ کا یہ موقف صرف ٹیسلا تک محدود نہیں رہا، بلکہ انہوں نے حال ہی میں ایپل کو بھی خبردار کیا تھا کہ اگر اس کے آئی فونز امریکا میں تیار نہ کیے گئے تو کمپنی کو 25 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ "جو چیزیں امریکا میں فروخت ہونی ہیں، وہ امریکا میں ہی بننی چاہئیں۔" واضح رہے کہ ایلون مسک ماضی میں بھارت میں ٹیسلا فیکٹری کے قیام پر اپنی دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں، لیکن انہوں نے بارہا بھارتی حکومت کی "ہائی امپورٹ ڈیوٹیز" کو بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب ایپل نے چین پر انحصار کم کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں بھارت میں اپنی پیداوار میں اضافہ کیا ہے اور فروری 2025 میں امریکا میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی اعلان کیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنیاں اب امریکی مارکیٹ میں مینوفیکچرنگ کے تقاضوں کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ ٹرمپ کی مداخلت سے جہاں بھارت میں سرمایہ کاری کے کچھ امکانات متاثر ہوئے ہیں، وہیں امریکا میں مقامی صنعت کو فروغ دینے کے حکومتی دباؤ میں شدت آئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ٹرمپ دوبارہ صدارت میں آتے ہیں تو امریکی کمپنیوں کے لیے بیرون ملک مینوفیکچرنگ مزید مشکل ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملکی اداروں کو کرپشن سے پاک کرنے اور پائیدار اصلاحات کے ذریعے پاکستان کو ایک مستحکم عالمی معیشت بنانے کے لیے حکومت پرعزم ہے۔ یہ بات انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی، جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، چیئرمین ایف بی آر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش چیلنجز کے باوجود حکومت اصلاحاتی عمل کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے اور اداروں سے کرپشن، بدعنوانی اور شفافیت کی کمی جیسے مسائل کے خاتمے کے لیے دن رات محنت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایف بی آر میں جاری اصلاحات کی جانچ کے لیے عالمی شہرت یافتہ تھرڈ پارٹی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ سسٹم جیسے اقدامات شفافیت کی سمت میں مثبت پیش رفت ہیں۔ وزیراعظم نے اس نظام کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف محصولات میں اضافہ ہوا بلکہ کسٹمز کلیئرنس کا عمل بھی تیز ہوا ہے۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم کو پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) میں جاری اصلاحات پر بھی بریفنگ دی گئی۔ حکام نے بتایا کہ عام صارفین کے لیے ڈیجیٹل ٹیکس ریٹرن سسٹم متعارف کرانے پر کام جاری ہے، جسے اردو سمیت دیگر علاقائی زبانوں میں بھی دستیاب کیا جائے گا تاکہ ٹیکس نظام کو عام شہریوں کے لیے مزید قابلِ فہم اور قابلِ رسائی بنایا جا سکے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ معاشی اشاریے حکومتی پالیسیوں کی کامیابی کا ثبوت ہیں اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ثمرات عوام تک پہنچنے لگے ہیں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے کفایت شعاری اور ترجیحات کے ازسرِ نو تعین کے تحت 1000 ارب روپے مالیت کے 118 ترقیاتی منصوبے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے فوری طور پر 100 ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی مد میں 1000 ارب روپے مختص کیے جائیں گے، جو رواں برس کے مقابلے میں 100 ارب روپے کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محدود وسائل کے باعث صرف قومی اسٹریٹجک منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگلے تین برسوں میں سکھر-حیدرآباد موٹروے کو مکمل کرنے کا ہدف ہے، جب کہ دیامر بھاشا ڈیم، چمن روڈ اور قراقرم ہائی وے فیز 2 جیسے منصوبے بھی حکومت کی اہم ترجیحات میں شامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ بھارت کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم پر اعتراضات کے تناظر میں اس منصوبے کی بروقت تکمیل قومی سلامتی سے جڑا معاملہ بن چکی ہے۔ سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 4.2 فیصد، زرعی شعبے کا 4.5 فیصد، لائیو اسٹاک 4.2 فیصد اور صنعتی شعبے کے لیے 4.3 فیصد تجویز کیا گیا ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ بلوچستان کے لیے آئندہ بجٹ میں 250 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ ضم اضلاع کے لیے 70 ارب روپے اور سوشل سیکٹر کے لیے 150 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ این-25 منصوبے کے لیے 120 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سخت مالی حالات اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت اخراجات پر سخت کنٹرول رکھا جا رہا ہے، قرضوں کی ادائیگی کے بعد ترقیاتی فنڈز محدود ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے بھی ترقیاتی فنڈز کے مؤثر استعمال کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران اصلاحات کے ذریعے کئی ارب روپے کی بچت کی گئی، اور 664 ارب روپے توانائی، انفراسٹرکچر، پانی، ٹرانسپورٹ اور فزیکل پلاننگ پر خرچ کیے جائیں گے۔ گزشتہ برس ترقیاتی بجٹ 1400 ارب تھا، جو کٹوتی کے بعد 1100 ارب رہ گیا تھا۔ اوورسیز پاکستانیوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے دو سال میں ترسیلات زر میں 10 ارب ڈالر کا اضافہ کیا، اور امید ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں ترسیلات 50 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آئندہ مالی سال کے دوران برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر اور ترسیلات زر کا ہدف 39 ارب ڈالر رکھا گیا ہے، تاکہ ملکی معیشت کو خود کفالت کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
پنجاب حکومت کے مالی سال 2023-24 کے کھاتوں میں اربوں روپے کے مالی بے ضابطگیوں اور غبن کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈیٹر جنرل پنجاب کی جانب سے نگران حکومت کے دور میں کیے گئے اخراجات کا آڈٹ کیا گیا، جس میں کئی محکموں میں کرپشن اور بدعنوانی کے سنگین کیسز سامنے آئے۔ زاہد گشکوری کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خوراک پنجاب میں مجموعی طور پر 1 ارب 65 کروڑ روپے کا غبن اور فراڈ سامنے آیا۔ ڈی جی خان کے مختلف فوڈ سینٹرز پر 84 کروڑ روپے کا غبن کیا گیا، جب کہ لاہور میں محکمہ خوراک کے عملے کی جانب سے 78 کروڑ 50 لاکھ روپے کا فراڈ رپورٹ کیا گیا۔ مزید برآں، فلور ملز کو فراہم کی جانے والی گندم میں 30 کروڑ روپے کا غبن ریکارڈ پر آیا، جب کہ رمضان پیکج اور سستا آٹا اسکیم میں چار فلور ملز نے مبینہ طور پر 20 کروڑ روپے خردبرد کیے۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری گندم لینے والی ان فلور ملز نے مجموعی طور پر 40 کروڑ روپے کا نقصان سرکار کو پہنچایا۔ محکمہ خوراک میں 91 کروڑ روپے مالیت کی 74 لاکھ ٹن درآمدی گندم کے غائب ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے، جس پر شدید سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ میں عبدالسلام خان اسکول لاہور کے ایک منصوبے میں غیر ملکی فیکلٹی کی بھرتی کے نام پر جعلی دستاویزات کے ذریعے 78 کروڑ روپے کے فراڈ کی نشاندہی کی گئی۔ خانیوال اور لودھراں میں روڈ کی تعمیر کے لیے جعلی زمین خریداری کلیمز کے ذریعے ساڑھے 4 کروڑ روپے کا غبن کیا گیا۔ کل 2981 ارب روپے کے حکومتی کھاتوں میں سے 619 ارب روپے کا آڈٹ کیا گیا، جس میں سے مختلف نوعیت کے 50 کیسز میں 25.5 ارب روپے کی ریکوری کی سفارش کی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب میں 25 کروڑ روپے مالیت کا اسلحہ لاپتہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جب کہ نواز شریف یونیورسٹی اور یو ای ٹی لاہور میں 70 لاکھ روپے کی چوری کی نشان دہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی بدنظمی کے 21 کیسز میں ساڑھے 10 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں، جب کہ 45 کیسز میں 43.5 ارب روپے کی غلط پروکیورمنٹ رپورٹ ہوئی۔ دیگر کیسز میں 8 ارب روپے کی مختلف بے قاعدگیوں کا ذکر بھی شامل ہے۔ آڈٹ رپورٹ پر نگران حکومت کے وزراء سے وضاحت طلب کی گئی ہے، جن کا جواب تاحال موصول نہیں ہوا۔ رپورٹ نے ایک بار پھر سرکاری محکموں میں شفافیت اور جواب دہی کے فقدان کو نمایاں کر دیا ہے۔
وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نقدی پر مبنی معیشت کے خلاف ایک بڑے اسٹریٹجک منصوبے کے تحت متعدد شعبوں میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے اور نقد ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات متعارف کرانے جا رہی ہے، جن میں ایندھن کی قیمتوں پر مختلف ٹیکس شرحیں شامل ہوں گی۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، یہ منصوبہ حکومت کے ان اہم اہداف میں شامل ہے جن کا ذکر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب حالیہ دنوں میں اپنے بیانات میں کر چکے ہیں، اور اس کا باضابطہ اعلان ممکنہ طور پر 10 جون کو بجٹ تقریر میں کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بھی معمولی ریلیف متوقع ہے، جس کے تحت ٹیکس کی شرح میں 1 سے 1.5 فیصد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ یہ اقدام وزیر اعظم کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے تاکہ ان شعبوں میں بوجھ کم کیا جا سکے جہاں ٹیکس کی شرح غیر معمولی حد تک بلند ہے، اگرچہ کمی بڑی سطح پر نہ ہو۔ وفاقی وزارت خزانہ اور ایف بی آر پہلے ہی اس منصوبے کے تکنیکی اور انتظامی پہلوؤں پر کام کا آغاز کر چکے ہیں۔ وزیر خزانہ کی زیر صدارت ایف بی آر، وزارت پیٹرولیم، بینکوں اور مالیاتی اداروں سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کم از کم تین مشاورتی اجلاس ہو چکے ہیں تاکہ اس سلسلے میں قابلِ عمل حل تلاش کیے جا سکیں۔ ذرائع کے مطابق، اس حکمت عملی کے تحت ملک بھر کے تمام پیٹرول پمپس کو ڈیجیٹل ادائیگی کے آپشنز فراہم کرنا لازم ہوگا۔ ان میں کیو آر کوڈز، ڈیبٹ و کریڈٹ کارڈز اور موبائل ایپس کے ذریعے ادائیگی کی سہولتیں شامل ہوں گی۔ نقد اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے درمیان فرق پیدا کرنے کے لیے سرکاری طور پر مقرر کردہ پیٹرولیم قیمتیں صرف ڈیجیٹل لین دین پر لاگو ہوں گی، جبکہ نقد خریداری پر فی لیٹر 2 سے 3 روپے زائد چارج کیا جائے گا۔ صارفین کو نقدی سے ادائیگی کی آزادی حاصل ہوگی، تاہم انہیں ڈیجیٹل طریقے اپنانے پر راغب کیا جائے گا۔ ایک سرکاری اہلکار کے مطابق یہ قدم معیشت کی دستاویزی حیثیت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کے عمل میں شفافیت لانے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ مزید برآں، درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز کو اپنے سپلائرز یا ریٹیلرز کو ڈیجیٹل ادائیگیوں پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) چارج کرنا ہوگا، جبکہ نقد ادائیگی کی صورت میں یہ شرح 2 فیصد اضافی یعنی 20 فیصد ہو جائے گی۔ ماہرین کے مطابق، یہ دو طرفہ مہم — اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر — صارفین اور کاروباری حلقوں کو قانونی طریقے سے لین دین کرنے کی ترغیب دے گی اور پاکستان کو بتدریج ایک کم نقدی یا مکمل طور پر ڈیجیٹل معیشت کی طرف لے جائے گی۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس نیٹ سے باہر افراد، یعنی نان فائلرز پر مالی دباؤ بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے آئندہ بجٹ کے لیے مختلف ٹیکس تجاویز پر کام شروع کر رکھا ہے۔ ان میں ایک اہم تجویز یہ ہے کہ نان فائلرز اگر روزانہ پچاس ہزار روپے سے زائد کی رقم بینک سے نکالیں گے تو ان پر اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں، نان فائلرز پر ودہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1.2 فیصد کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بجٹ میں چھوٹی گاڑیوں، خصوصاً 850 سی سی سے کم انجن والی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں اضافہ زیر غور ہے، جبکہ ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح 12.5 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ پیٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر خصوصی لیوی نافذ کرنے کا امکان بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بینکوں میں رکھے گئے رقوم، قومی بچت اسکیمیں، سرمایہ کاری پر حاصل ہونے والا منافع، اور کیپیٹل گین پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم، سپر ٹیکس کی موجودہ شرح میں کچھ کمی کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
گلگت بلتستان میں وفاقی تجارتی پالیسیوں کے خلاف تاجروں کی قیادت میں جاری احتجاج اتوار کو شدت اختیار کر گیا جب مظاہرین نے چین پاکستان راہداری کی اہم شاہراہ قراقرم (کے کے ایچ) کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ اس اقدام کے باعث ہزاروں مسافر اور سیاح گھنٹوں سڑک پر پھنسے رہے اور طویل ٹریفک جام دیکھنے میں آیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتجاج کی کال گلگت بلتستان امپورٹرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، گلگت-نگر چیمبر آف کامرس، اور دیگر چھوٹی تجارتی انجمنوں پر مشتمل اتحاد پاک-چائنہ ٹریڈرز ایکشن کمیٹی نے دی تھی۔ احتجاج میں مقامی تاجروں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام، سول سوسائٹی کے ارکان اور سیاسی کارکنان نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے مقامی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خنجراب پاس کے ذریعے ہونے والی پاکستان-چین تجارتی سرگرمیاں مقامی افراد کی آمدنی کا واحد مؤثر ذریعہ تھیں، جو گزشتہ سات ماہ سے بند ہیں۔ اس بندش کے باعث ٹرانسپورٹرز، دکاندار، مزدور، کسٹم ایجنٹ اور دیگر کاروباری افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ رہنماؤں نے بتایا کہ سوست ڈرائی پورٹ پر پھنسے ہوئے 240 سے زائد کنسائنمنٹس کی یکمشت کلیئرنس کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ مقامی تاجر اربوں روپے کے نقصان کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی پالیسیوں نے گلگت بلتستان کے عوام کا "معاشی قتل" کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ مقامی افراد کو سرحدی پاس رکھنے کے باوجود چین سے اشیاء درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ گلگت بلتستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے درمیان بارٹر ٹریڈ معطل ہے۔ تاجروں نے 1985 کے سرحدی معاہدے کے تحت بارٹر ٹریڈ کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جعلی اشیاء جو سوست ڈرائی پورٹ پر ضبط کی گئی ہیں، انہیں گلگت بلتستان میں ہی تلف یا نیلام کیا جائے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگرچہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت متنازع ہے، پھر بھی مقامی تاجر تمام ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔ احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نگر چیپٹر کے صدر اور سابق رکن اسمبلی جاوید حسین نے کہا کہ وفاقی حکومت مسئلے کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے دیگر علاقوں میں تجارتی پالیسیوں میں نرمی کی گئی ہے کیونکہ وہاں کے عوام کو پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے، جبکہ گلگت بلتستان کے عوام نمائندگی کے بغیر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اگر دہشت گردوں کو معافی دے سکتی ہے تو ٹیکس ادا کرنے والے تاجروں کو 250 کنسائنمنٹس کلیئر کرانے کے لیے ایک بار کی ایمنسٹی دینا کوئی بڑا مطالبہ نہیں۔ مظاہرین سے مذاکرات کے لیے گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس لون، رکن اسمبلی ایوب وزیری اور دیگر حکام نے ملاقات کی، تاہم کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ حکام نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ ان کے مطالبات "حقیقی" ہیں اور گلگت بلتستان کی حکومت ان کی حمایت کرتی ہے، لیکن ان مسائل کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے اور وزیر اعلیٰ پہلے ہی اسلام آباد کو سفارشات بھیج چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی محمد علی قائد نے میڈیا کو بتایا کہ گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس ان مطالبات کو حل کرنے کا کوئی آئینی اختیار نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ معاملہ سول اور عسکری قیادت پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں زیر غور لایا جائے گا۔ مظاہرین نے اعلان کیا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، شاہراہ قراقرم پر دھرنا جاری رہے گا۔
ترکیہ اور پاکستان کے درمیان انٹیلی جنس تعاون کے تحت ایک بڑے مشترکہ آپریشن میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کا اہم ترین کارندہ پاک-افغان سرحد سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ترک سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کے مطابق گرفتار کیے جانے والے شخص کی شناخت اوزغور آلتون کے نام سے ہوئی ہے، جو ’ابو یاسر الترکی‘ کے کوڈ نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ترکیہ کے سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ کامیاب کارروائی پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ترکیہ کی نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشن (ایم آئی ٹی) کے باہمی تعاون سے عمل میں آئی۔ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے بعد آئی ایس آئی کو اوزغور آلتون کی افغانستان میں موجودگی اور پاکستان میں داخل ہونے کے منصوبے سے آگاہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں اسے سرحدی علاقے میں گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاں اُسے ترکیہ منتقل کر دیا گیا، جہاں اس سے مزید تفتیش جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق اوزغور آلتون داعش کا سب سے اہم ترک رکن تصور کیا جاتا ہے، جو تنظیم کے میڈیا اور لاجسٹک نیٹ ورکس میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ایم آئی ٹی نے اس کی سرگرمیوں پر طویل عرصے سے نظر رکھی ہوئی تھی، اور اطلاعات کے مطابق وہ یورپ اور وسطی ایشیا سے جنگجوؤں کی پاک-افغان خطے میں منتقلی کو مربوط کرنے میں ملوث تھا۔ اوزغور آلتون پر ترکیہ اور یورپ میں کنسرٹ ہالز اور شہری مقامات پر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی اور ہدایات دینے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ یہ گرفتاری ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب پاکستان اور ترکیہ نے وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورۂ استنبول کے دوران دفاعی اور سیکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان نے داعش-خراسان سے وابستہ ایک خطرناک کارندے، محمد شریف اللہ، کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا تھا۔ شریف اللہ پر 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے مہلک خودکش حملے میں ملوث ہونے کا الزام تھا، جس میں 13 امریکی فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔ اس موقع پر اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی تھی۔ اگرچہ داعش کو عالمی سطح پر امریکی قیادت میں بننے والے اتحاد نے بڑی حد تک کمزور کر دیا ہے، تاہم حالیہ برسوں میں یہ تنظیم دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ مارچ 2024 میں روس کے ایک کنسرٹ ہال پر حملہ، جنوری 2024 میں ایران کے شہر کرمان میں دھماکے، جولائی میں عمان کی ایک مسجد پر حملہ، اور ویانا میں ٹیلر سوئفٹ کے کنسرٹ پر ممکنہ حملے کی سازش جیسے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ داعش اب بھی ایک سنگین خطرہ بنی ہوئی ہے۔
خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی حالیہ پریس کانفرنس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جن کرپشن اسکینڈلز کا مولانا ذکر کر رہے ہیں، وہ نگران حکومت کے دور کے ہیں اور اُس وقت مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت خود حکومت کا حصہ تھی۔ ڈان نیوز کے مطابق پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے قریبی لوگ ٹھیکوں اور کمیشن کے ذریعے اپنی تجوریاں بھر رہے تھے، اور چوری شدہ 20 ارب روپے انہی کے لوگوں سے وصول کیے گئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے اس اسکینڈل کا سراغ لگایا، رقم برآمد کی، اور آئندہ مزید 20 ارب روپے بھی برآمد کیے جائیں گے۔ بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن جس کوہستان اسکینڈل کی بات کر رہے ہیں، وہ نگران دور میں پیش آیا، اور اُس وقت جے یو آئی حکومت کا حصہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اس بدعنوانی کا سراغ لگا کر عملی اقدامات کیے، جب کہ ماضی کی حکومتیں صرف بیانات دیتی رہیں۔ مشیر اطلاعات نے اس موقع پر صوبائی حکومت کی مضبوطی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایم پی اے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف نہیں ہے، اور جلد پیش کیے جانے والے بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جائے گا، کیوں کہ صوبائی خزانہ مستحکم ہے۔ سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور دیگر جماعتیں پہلے عوام کی حمایت حاصل کریں، کیونکہ آج عوام صرف پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے، اگر مخالف جماعتوں کے پاس عوامی طاقت ہوتی تو اُن کی سیاسی حالت ایسی نہ ہوتی۔ انہوں نے عدالتی فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کا غیرعدالتی استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چترال سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایم این اے کو دو دن قبل سزا دی گئی، لیکن ایسے اقدامات سے نہ تو انہیں ڈرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کی مقبولیت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ جتنا غیرقانونی سلوک ہوگا، اتنی ہی عوامی نفرت بڑھے گی۔ یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پریس کانفرنس میں خیبرپختونخوا میں کرپشن کی عدالتی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں اس وقت تک بدعنوانی ختم نہیں ہو سکتی جب تک جے یو آئی کی حکومت قائم نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے بھی کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کیے اور اب بھی ثابت کریں گے کہ کرپشن کیسے ختم کی جاتی ہے۔ مولانا نے دعویٰ کیا کہ ان پر الزام تراشیاں ضرور ہوئیں، لیکن آج تک ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔
کوئٹہ: چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت کی پراکسی جنگ اب کوئی راز نہیں رہی، ہمارے پاس بھارتی مداخلت کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا جائے گا اور جو بھی ہماری خودمختاری کو چیلنج کرے گا، اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کوئٹہ میں ایک عظیم الشان قبائلی جرگے سے خطاب کیا۔ یہ جرگہ بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال اور ترقی کے امور پر قبائلی قیادت سے مشاورت کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں بلوچستان کے امن کو پاکستان کے استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل تیار ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بلوچستان کے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور پاکستان کا مستقبل اسی خطے کی خوشحالی سے وابستہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی سرپرستی میں سرگرم دہشت گرد عناصر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے اور امن کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے "فتنہ الہند" جیسے گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مقامی حمایت کی کوششوں کو ہر حال میں ناکام بنانا ہوگا۔ وزیراعظم نے قبائلی عمائدین کے مثبت کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ مقامی سطح پر عوامی شمولیت اور رابطے ہی دہشتگردوں کے لیے زمین تنگ کریں گے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امن دشمن عناصر کو ملک میں کوئی جگہ نہیں دی جائے گی۔ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور حامیوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔ جرگے میں شریک قبائلی عمائدین نے حکومت اور افواجِ پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملک دشمن عناصر کے خلاف صف آرا رہیں گے۔
سانحہ 9 مئی 2023 سے متعلق مختلف کیسوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔ محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے ذرائع کے مطابق پنجاب بھر، خصوصاً لاہور سمیت مختلف شہروں اور دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد افراد کے پاسپورٹ بلاک کر دیے گئے ہیں۔ ان افراد پر الزام ہے کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں سانحہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث پائے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق پاسپورٹ بلاک ہونے والے افراد میں بڑی تعداد ایسے شہریوں کی بھی ہے جو اُس وقت نجی یا سرکاری اداروں میں ڈیوٹی پر موجود تھے، اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ تاہم، جیو فینسنگ کے ذریعے ان کے موبائل یا لینڈ لائن نمبرز کی موجودگی متاثرہ مقامات کے قریب پائی گئی، جس کی بنیاد پر ان کے نام بلیک لسٹ میں شامل کر لیے گئے۔ متعدد افراد نے اپنی بے گناہی کے ثبوت پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کر دیے ہیں، تاہم ان کے نام اب بھی بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں متاثرہ شہری عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں۔ عدالت عالیہ نے ایسے درجنوں کیسوں میں پاسپورٹ حکام کو ریکارڈ سمیت طلب کیا ہے۔ پاسپورٹ حکام نے متعدد کیسوں میں عدالت کو بلیک لسٹ ہونے کا ریکارڈ بھی پیش کر دیا ہے۔ دوران سماعت یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ کئی افراد ان علاقوں میں قائم اداروں میں ملازمت کر رہے تھے اور صرف اپنے اہل خانہ کو فون کرنے پر ان کے نمبرز جیو فینسنگ میں آ گئے۔ دوسری جانب، محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پاسپورٹ کو بلیک لسٹ کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں، بلکہ یہ وزارت داخلہ کا دائرہ کار ہے۔ وزارت داخلہ ہی افراد کو بلیک لسٹ یا ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرتی ہے اور انہی کے حکم پر نام نکالے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ جن افراد کے پاسپورٹ کی مدت ختم ہو چکی ہے، ان کے دستاویزات کی تجدید اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کا نام بلیک لسٹ سے خارج نہ کر دیا جائے۔
بھارتی فوج نے حالیہ جھڑپوں میں پاک فضائیہ کے ہاتھوں اپنے لڑاکا طیارے تباہ ہونے کی پہلی بار تصدیق کر دی ہے۔ امریکی جریدے بلوم برگ کو دیے گئے انٹرویو میں بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپوں میں بھارت نے لڑاکا طیارے کھوئے ہیں۔ جب ان سے پاکستان کی جانب سے چھ بھارتی طیارے گرائے جانے کے دعوے کے بارے میں سوال کیا گیا تو جنرل انیل چوہان نے طیاروں کی درست تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ "یہ اہم نہیں، ہمارے لیے اصل سوال یہ ہے کہ طیارے گرے کیوں۔" انہوں نے تسلیم کیا کہ جھڑپوں کے دوران بھارت کی جانب سے تکنیکی غلطیاں ہوئیں جنہیں بعد میں درست کیا گیا۔ ان کے مطابق، ان اصلاحات کے بعد بھارتی طیاروں نے طویل فاصلے تک اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا آغاز کیا اور یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ اس کے بعد 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں پر میزائل حملے کیے، جن کا پاکستانی فوج نے بھرپور اور فوری جواب دیا۔ بعد ازاں، 10 مئی کو بھارت نے ایک بار پھر نور خان ایئربیس اور رحیم یار خان ایئرپورٹ پر میزائل حملے کیے۔ پاکستان نے اس کے ردعمل میں آپریشن بنیان مرصوص شروع کیا، جس کے دوران پاکستان نے بھارت کے 3 رافیل سمیت 6 لڑاکا طیارے گرائے، اور آدم پور، ادھم پور سمیت متعدد ایئرفیلڈز اور ایمونیشن ڈپوز کو بھی نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔ پاکستان کی موثر جوابی کارروائی کے بعد بھارت کو اپنی پوزیشن کمزور نظر آنے لگی، جس پر اس نے امریکا اور دیگر اتحادی ممالک سے جنگ بندی کے لیے مداخلت کی درخواست کی۔ نتیجتاً دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر عمل میں آیا۔
لاہور: نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان، لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ بلوغت کے شرعی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے والے قانون پر صدر کے دستخط غیر آئینی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس قانون سازی کو مسترد کر چکی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے اپنے ہی طیارے گرائے جانے کا اعتراف مودی کے زوال کی علامت ہے۔ بی جے پی نے خود ہی مودی کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں بچی کھچی جمہوریت مودی کے جھوٹ کو زیادہ دیر تک چھپا نہیں سکتی تھی۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا، دونوں ملکوں کے عوام کی مشترکہ خواہش اور اجتماعی آواز ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت کی دفاعی کارروائیاں ابھی مکمل نہیں ہوئیں، اور ’’آپریشن سندور‘‘ ابھی جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی دھوکے میں نہ رہے کیونکہ بھارت اپنی دفاعی حکمت عملی میں اب کوئی لچک نہیں دکھائے گا۔ یہ بیان انہوں نے بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کے دوران دیا، جہاں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف بھارت کی حکمت عملی کے تین نکات بھی پیش کیے۔ نریندر مودی نے کہا کہ بھارت ہر دہشت گردانہ حملے کا مؤثر اور فوری جواب دے گا، اور یہ فیصلہ کہ کب، کیسے اور کس طریقے سے جواب دیا جائے، بھارت کی مسلح افواج خود کریں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اب ایٹمی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس بنیاد پر کوئی فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے ایک بار پھر پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے کھیل کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا، اور دشمن جہاں بھی ہو، اسے بخشا نہیں جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان ماضی میں ان الزامات کو کئی بار مسترد کر چکا ہے، اور حالیہ کشیدگی کے بعد بھی پاکستان نے امن مذاکرات کی پیشکش کی ہے، جسے بھارت نے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو بھارتی علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر براہ راست الزام عائد کرتے ہوئے مئی کے اوائل میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سمیت متعدد علاقوں پر حملے کیے تھے، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ جنگی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ ان حملوں کے بعد پاکستان نے دفاعی جوابی کارروائی کرتے ہوئے "آپریشن بنیان مرصوص" کے تحت بھارت کے کئی فوجی اور دفاعی اہداف کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ اگرچہ جنگ بندی ہو چکی ہے، تاہم بھارتی قیادت کے حالیہ بیانات سے واضح ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اب بھی سخت تناؤ کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ’’آپریشن سندور‘‘ کے جاری رہنے کا اعلان ایک خطرناک پیغام دے رہا ہے، جس سے خطے کے امن کو مزید خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کے باوجود، بھارت کی جانب سے اس قسم کے بیانات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں کسی بھی وقت حالات دوبارہ کشیدہ ہو سکتے ہیں، اور اگر فریقین نے جلد مذاکرات کا راستہ نہ اپنایا تو مستقبل میں بڑے تصادم کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے گھریلو صارفین کے لیے بجلی 7 روپے 41 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کے اعلان کردہ پیکج کو ایک اور دھچکہ لگنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، جون میں بجلی صارفین کو مکمل ریلیف نہ ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئندہ ماہ بجلی صارفین کے لیے مجموعی ریلیف کم ہو کر 4 روپے 79 پیسے فی یونٹ رہ جانے کا امکان ہے۔ اس وقت وزیراعظم پیکج کے تحت بجلی صارفین کو 6 روپے 35 پیسے فی یونٹ کا ریلیف دیا جا رہا ہے، جبکہ اپریل میں یہ ریلیف 4 روپے 97 پیسے فی یونٹ رہا۔ ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور دیگر عوامل کی بنیاد پر اس ریلیف میں کمی متوقع ہے۔ نیپرا کو اپریل کی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے 1 روپے 27 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست موصول ہوئی ہے، جس پر نیپرا نے گزشتہ روز سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اگر نیپرا سی پی پی اے کی درخواست کے مطابق اضافہ منظور کرتا ہے اور اس کا اطلاق جون میں ہوتا ہے تو وزیراعظم پیکج کے تحت ریلیف میں کمی یقینی ہو جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ کی ایڈجسٹمنٹ کے تحت 29 پیسے فی یونٹ ریلیف کا خاتمہ رواں ماہ کے اختتام پر ہو جائے گا، جو مجموعی ریلیف میں مزید کمی کا باعث بنے گا۔ اگرچہ بجلی کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ صارفین کے لیے مایوس کن خبر ہے، تاہم کچھ مدات میں ریلیف جون میں بھی برقرار رہے گا۔ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں 1 روپے 90 پیسے اور تیسری سہ ماہی میں 1 روپے 55 پیسے فی یونٹ کمی کا اطلاق جون میں جاری رہے گا۔ اس کے علاوہ، پیٹرولیم لیوی کی مد میں 1 روپے 71 پیسے فی یونٹ اور ری ٹینڈ ایف سی اے کی مد میں 90 پیسے فی یونٹ کمی بھی جون میں لاگو رہے گی۔ یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 3 اپریل کو بجلی کے نرخوں میں 7 روپے 41 پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا تھا، جسے حکومت نے عوام کے لیے بڑا ریلیف قرار دیا تھا۔ تاہم توانائی شعبے میں مالیاتی دباؤ اور ایڈجسٹمنٹس کے سبب اس پیکج پر عمل درآمد کو مسلسل چیلنجز درپیش ہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کو کبھی کسی دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا اور جنوبی ایشیا کے تزویراتی استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کے پُرامن اور منصفانہ حل کی ضرورت ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا اور طلبہ افسران و فیکلٹی سے خطاب کیا۔ انہوں نے آپریشن "بنیان مرصوص" کے شہدا کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے اہل خانہ سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم اور قیادت مادر وطن کے دفاع کے لیے متحد ہے۔ فیلڈ مارشل نے مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کو سراہتے ہوئے کہا کہ حالیہ دفاعی معرکہ قومی عزم اور طاقت کے تمام عناصر کے درمیان ہم آہنگی کا مظہر تھا۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے بڑھتی فوجی جارحیت کو خطرناک رجحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اور ملک دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ یہی خطے میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ فیلڈ مارشل نے بھارت کی جانب سے آبی دہشت گردی اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرپرستی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے اقدامات خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے طلبہ افسران کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں مکمل لگن، جذبے اور اختراعی سوچ کے ساتھ ادا کریں، اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کو مستقبل کے عسکری قائدین کی تیاری میں کلیدی ادارہ قرار دیا۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر تعینات افواج کی سطح کو حالیہ کشیدگی سے پہلے کی حالت پر لانے کے قریب ہیں، تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس بحران نے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان مستقبل میں کشیدگی اور غلط فیصلوں کے خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو سنگاپور میں دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جنرل ساحر شمشاد مرزا نے تصدیق کی کہ دونوں ممالک نے 22 اپریل سے پہلے کی عسکری پوزیشن کی جانب واپسی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، ’’ہم اس حالت کے قریب پہنچ چکے ہیں یا ممکنہ طور پر پہنچ چکے ہیں۔‘‘ جنرل شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران اگرچہ جوہری ہتھیاروں کی جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، لیکن صورت حال نہایت خطرناک تھی اور مستقبل میں ’’اسٹریٹجک مس کیلکولیشن‘‘ کا خدشہ رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا، ’’جب بحران پیدا ہوتا ہے تو ردعمل روایتی انداز سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس بار کچھ نہیں ہوا، مگر اگلی بار حالات بہت تیزی سے بگڑ سکتے ہیں۔‘‘ جنرل شمشاد مرزا نے انکشاف کیا کہ اس بار کی لڑائی صرف کشمیر کے متنازع علاقے تک محدود نہیں رہی، بلکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ دونوں جانب سے نقصانات کو تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن حملے بڑی حد تک حساس اور اسٹریٹجک مقامات پر کیے گئے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ’’یہ ایک خطرناک رجحان ہے، کیونکہ آئندہ یہ لڑائی صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بھارت اور پاکستان کے اندرونی علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔‘‘ جنرل شمشاد مرزا نے بتایا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ کوئی بیک چینل رابطہ ہے اور نہ ہی کسی اعلیٰ سطحی ملاقات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایم اوز (Directors General of Military Operations) کی ہاٹ لائن کے علاوہ دونوں ممالک کے پاس رابطے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’یہ مسائل صرف میدانِ جنگ سے نہیں، بلکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں۔‘‘ رائٹرز کے مطابق، حالیہ کشیدگی میں کمی جزوی طور پر امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی پسِ پردہ سفارت کاری کا نتیجہ تھی۔ تاہم بھارت نے کسی بھی تیسرے فریق کے کردار کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ جنرل مرزا نے اس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ کوئی بحران پیدا ہوا تو ’’عالمی برادری کے پاس مداخلت کے لیے وقت بہت کم ہوگا، اور تباہی پہلے ہی ہو چکی ہوگی۔‘‘ یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو بھارتی علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے پاکستان کے سفارتی عملے پر پابندیاں لگائیں اور پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کر دیے، حتیٰ کہ بیمار بچوں تک کو وطن واپس بھیج دیا گیا۔ جواب میں پاکستان نے بھارت کو کھلا پیغام دیتے ہوئے نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو اعلانِ جنگ قرار دیا، بلکہ بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر کے فضائی حدود بند کر دی، اور ہر قسم کی تجارت بھی معطل کر دی۔ 6 اور 7 فروری کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان کے مختلف علاقوں — کوٹلی، مریدکے، بہاولپور، باغ اور مظفر آباد — پر میزائل حملے کیے، جن میں 26 شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے 3 رافیل طیاروں سمیت 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے۔ اس کے بعد بھارت نے پاکستان کی تین ایئربیسز کو ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا، جس کے بعد پاک فضائیہ نے "آپریشن بنیان مرصوص" کا آغاز کیا اور بھارت کے اندر کئی حساس تنصیبات، بشمول ادھم پور، پٹھان کوٹ، براہموس اسٹوریج، اور S-400 میزائل ڈیفنس سسٹم کو تباہ کر دیا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے واضح مؤقف اپنایا ہے کہ "بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے"۔ اس کے جواب میں جنرل شمشاد مرزا نے زور دیا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر موجودہ حالات میں دونوں ممالک کو بحران سے نمٹنے کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ راغب حسین نعیمی نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال پر مکمل پابندی کی تجویز دی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ کم عمر بچوں کو آن لائن دنیا سے محفوظ رکھنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں تاکہ انہیں اخلاقی اور سماجی بگاڑ سے بچایا جا سکے۔ ڈان نیوز کے پروگرام ’’دوسرا رخ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے علامہ راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ ’’ملک میں 16 سال سے کم عمر بچوں کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ 16 سال سے زائد عمر کے نوجوانوں کے لیے بھی آن لائن مواد کی نوعیت پر پابندی ہونی چاہیے تاکہ وہ ان چیزوں سے بچ سکیں جو دینِ اسلام میں گناہ کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹرنیٹ ایک جدید سہولت ہے، لیکن اس کا غیر محتاط استعمال نوجوان نسل کو راہِ راست سے ہٹا سکتا ہے۔ انہوں نے والدین اور ریاستی اداروں پر زور دیا کہ بچوں کی تربیت میں انٹرنیٹ کے کردار کو سنجیدگی سے لیا جائے اور قومی سطح پر ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جائے۔ گفتگو کے دوران علامہ راغب نعیمی نے خواتین سے متعلق بھی رائے دی اور کہا کہ خواتین کے حقوق اسلام نے جس جامع انداز سے واضح کیے ہیں، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے بقول اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیا ہے، وہ نہ صرف عزت کا مظہر ہے بلکہ مکمل انصاف پر مبنی ہے۔ انہوں نے عورت مارچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’عورت مارچ میں شامل بعض خواتین کے مطالبات شریعت سے متصادم ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ گھریلو مسائل کی جڑ اکثر عورت ہی ہوتی ہے، کیونکہ ایک عورت دوسری عورت کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔ ان کے مطابق اکثر مسائل ساس اور بہو کے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں، اور یہ کشیدگی مردوں کی جانب سے نہیں بلکہ خواتین کی جانب سے ہوتی ہے۔

Back
Top