خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ عید کے بعد اتحاد کو حتمی شکل دیں گے اور بلوچستان میں آل پارٹیز کانفرنس کریں گے۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے دوران اسد قیصر نے کہا کہ اے پی سی کے حوالے سے ذمہ داری لطیف کھوسہ کو دی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اسد قیصر نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ جوائنٹ اے پی سی کرنا چاہتے ہیں، اور جماعت اسلامی کو دعوت دیں گے کہ اے پی سی ہمارے پلیٹ فارم سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سنجیدگی آپ کے سامنے ہے، سوال شروع ہوتا ہے تو اجلاس ختم کر دیا جاتا ہے۔ وزیروں کی فوج بھرتی کر لی گئی ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حکومت کو عوام کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ قانونی سازی میں ایسا کوئی قانون بتا دیں جس سے عوام کا فائدہ ہو، یہ تمام ذمہ داریوں میں ناکام ہیں۔ اسد قیصر نے سوال اٹھایا کہ انہوں نے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہم نے کہا کہ ہم اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے لیڈر تک رسائی نہیں دی گئی۔ ملک کی سب سے مقبول پارٹی کے سربراہ سے ملاقات تک نہیں کروا سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو رہے، پھر بھی ہم ان کے ساتھ ملک کی خاطر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا لیڈر جیل میں ہے اور ان کے پاس یہی حکمت عملی ہے کہ پی ٹی آئی کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے۔ اسد قیصر نے کہا کہ ان کے پاس ایک ہی طریقہ ہے کہ بس پی ٹی آئی کی قیادت اور ورکرز کو زدکوب کیا جائے اور انہیں تنگ کیا جائے۔ ہمارے سیکڑوں ورکرز مختلف جیلوں میں ہیں اور ان کے خلاف مزید کیس بنائے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں اور آئندہ عمران خان کی رہائی کے لیے جوائنٹ فورم سے جدوجہد کریں گے۔ زرتاج گل پی ٹی آئی کی پارلیمانی لیڈر زرتاج گل نے کہا کہ پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے کہ آپ کی ہر بات تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ ن لیگ کا رویہ ایسا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو بطور ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تین سال سے پی ٹی آئی کے ساتھ فسطائیت برتی جا رہی ہے اور اس سے ملک پیچھے جا رہا ہے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے جو ووٹ لیے، اس طرح وہ وزیراعظم ہوتے، لیکن انہیں جیل میں بند کیا گیا ہے۔ زرتاج گل نے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد آپ لوگ جوابدہ ہیں، لیکن یہاں پی ٹی آئی کو فکس کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، پیکا ایکٹ کے ذریعے زبان بندی کر دی گئی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ماہ مقدس میں ملک کو نظر لگ گئی ہے، علماء کرام کا قتل ہو رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شیر افضل کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اور پارٹی کے لیے کام کیا، لیکن ہمیشہ کہا ہے کہ ڈسپلن سب سے ٹاپ پر رکھو اور کبھی نہیں کہا کہ پٹڑی سے اترنا ہے۔ شیر افضل کا کہنا تھا کہ میں چیئرمین صاحب کو کہتا ہوں کہ اگر کوئی میرے خلاف بیان دے گا تو ڈسپلن وہیں وڑے گا۔
مفتاح اسماعیل نے سولر کی خرید و فروخت پر 10 فیصد سے زائد ٹیکس لگانے کے معاملے پر حکومت پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو سولر کی خرید و فروخت پر 10 فیصد سے زائد ٹیکس دینا پڑے گا، جو کہ ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم خود عوام کو سولر سسٹم لگانے کی ترغیب دیتے تھے، لیکن اب حکومت عوام کے گھروں میں سولر سسٹم لگانے کو ناپسندیدہ سمجھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام قرض لے کر گھروں میں سولر سسٹم لگا رہے ہیں اور اب حکومت انہیں ٹیکس لگا کر مزید مشکلات میں مبتلا کر رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عوام 22 روپے کی بجلی کو مہنگا سمجھتے ہیں، لیکن 60 روپے کی بجلی کو مہنگا نہیں سمجھا جا رہا۔ لوگ گھروں میں مفت نہیں، سولر سے بجلی لے رہے ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ عوام بجلی خریدیں تو اس کو سستا کرے۔ رہنما عوام پاکستان پارٹی نے مزید کہا کہ جہاں جہاں سے بھٹو نکلتا تھا، وہاں وہاں پرسولر لگے گا۔ 3 لاکھ افراد پر حکومتی نااہلی کی وجہ سے بوجھ پڑ رہا ہے۔ بجلی چوری اور بل ریکوری میں ناکامی ان کو بوجھ نظر نہیں آ رہی۔ مفتاح اسماعیل نے طنز کیا کہا انہوں نے بجلی کی قیمت کم کرنے کے لئے تیل پر دس روپے کا اورٹیکس لگا دیا ہے۔یہ اخراجات کم نہیں کر رہے۔۔مسلم لیگ کی اس حکومت میں اہلیت کی بہت کمی ہے۔انکی کوئ ایک پالیسی نہیں جس سے خوشحالی آسکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہتے ہیں کہ سولر والوں نے بوجھ ڈالا ہوا ہے،حالانہ سولر سے تو صرف 12سو گیگا آورز خریدے ہیں مگر 22 ہزارگیگا آورز یونٹ آپ نے ٹی این ڈی لاسز میں ڈال دیے،وہ یونٹ چوری ہو گئے یا کھو گئے کچھ پتہ نہیں انکو ان کھوۓ ہوے یونٹس کا اور آئی پی پیز کے مہنگے معائدوں کا بوجھ نظر نہیں آتا ۔مفتاح اسماعیل
اسرائیلی اخبار "ہیوم" نے دعویٰ کیا ہے کہ مارچ 2025 میں ایک پاکستانی وفد نے خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ کیا ہے، جسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دورے میں 10 افراد شامل تھے، جن میں 8 مرد اور 2 خواتین تھیں۔ یہ وفد گزشتہ پیر کو تل ابیب پہنچا اور اسرائیل کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ اس میں صحافی، دانشور، اور انفلوئنسرز شامل تھے، جنہوں نے اسرائیل کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال کا جائزہ لیا اور اہم مقامات پر تحقیق کی۔ ذرائع کے مطابق، پاکستانی وفد نے اسرائیل کے تاریخی، سماجی اور سیاسی مقامات کا دورہ کیا، جن میں تل ابیب کے تعلیمی ادارے، یاد وشم ہولوکاسٹ میوزیم، دیوارِ گریہ، حرم شریف، اسرائیلی پارلیمنٹ (کنسٹ) اور مغویوں کا چوک شامل تھے۔ وفد نے اسرائیلی حکام اور تھنک ٹینکس کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اور پاکستان کا سرکاری مؤقف ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے حق میں رہا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح طور پر درج ہوتا ہے کہ یہ "تمام ممالک کے لیے قابلِ قبول ہے، سوائے اسرائیل کے"۔ تاہم، اس خفیہ دورے کو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان ممکنہ تعلقات کی جانب ایک قدم سمجھا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے سوچ کی تبدیلی کو ظاہر کر سکتا ہے، جبکہ دیگر مبصرین کے مطابق یہ صرف ایک تعلیمی اور غیر سرکاری اقدام تھا۔ پاکستانی صحافی قوسر عباس، جو اس وفد میں شامل تھے، نے اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بطور صحافی ان کا کام دنیا کے کسی بھی حصے میں جا کر معلومات حاصل کرنا اور سچائی کو اجاگر کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد صرف اسرائیل کو سمجھنا تھا، نہ کہ کوئی سیاسی ایجنڈا۔ ایک اور پاکستانی صحافی، شبیر خان، نے بھی کہا کہ مستقبل میں اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات دو ریاستی حل کے تناظر میں ممکن ہو سکتے ہیں، تاہم اس وقت ایسا کوئی باضابطہ امکان نظر نہیں آتا۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان میں اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے شدید حساسیت پائی جاتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں کچھ پاکستانی شہریوں نے انفرادی سطح پر اسرائیل کا دورہ کیا، لیکن انہیں پاکستان میں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل میں پاکستانی وفد کے پاسپورٹس پر مہریں نہیں لگائی گئیں تاکہ ان کی شناخت کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ ان کی موجودگی کا انکشاف بھی اس وقت ہوا جب وہ بحفاظت پاکستان واپس پہنچ گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقاتوں کے کیسز میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ عدالت نے ان مقدمات کی سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے، جو 20 سے زائد کیسز کا جائزہ لے گا۔ تشکیل دیے گئے بینچ کی سربراہی قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کریں گے، جبکہ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس اعظم خان شامل ہیں۔ اس سے قبل، اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ عمران خان کی ملاقاتوں کے متعلق کیسز کو یکجا کر کے ایک ہی بینچ میں سنا جائے۔ عدالت نے اس درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی، جس کے بعد تمام مقدمات کو یکجا کر کے لارجر بینچ کے سپرد کرنے کا حکم دیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل عبدالغفور انجم کی جانب سے ایڈووکیٹ نوید ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کا مؤقف تھا کہ عمران خان کی ملاقاتوں کے ایس او پیز انٹرا کورٹ اپیل میں طے ہو چکے ہیں، جبکہ مختلف بنچز میں سماعت کے باعث جیل حکام کو ہر بار عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے، جس سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ نوید ملک ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اڈیالہ جیل میں ہزاروں قیدی موجود ہیں، اور ان کے مسائل دیکھنا سپرنٹنڈنٹ جیل کی ذمہ داری ہے۔ لیکن مختلف بینچز میں عمران خان کی ملاقاتوں کے کیسز کی سماعت ہونے کی وجہ سے سپرنٹنڈنٹ کو ہفتے میں پانچ دن اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونا پڑتا ہے، جس سے جیل انتظامیہ پر غیر ضروری دباؤ آ رہا ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ تمام کیسز کو ایک ہی بینچ میں سنا جائے تاکہ سپرنٹنڈنٹ جیل کو بار بار عدالت میں پیش نہ ہونا پڑے اور عدالتی کارروائی میں بھی سہولت پیدا ہو۔ عدالت نے اس مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے کیسز کو یکجا کرنے اور لارجر بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عبہر گل خان نے تحریک انصاف کے کارکنان عثمان محمود اور فرحان احمد چشتی کی بازیابی کے لیے دائر آئینی درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے، جس پر قانونی ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس عبہر گل نے درخواستیں ابتدائی سماعت پر ہی خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ سیکریٹری دفاع ایک حاضر سروس فوجی افسر ہیں اور آئین کے آرٹیکل 199(3) کے تحت عدالت ان کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔ مزید کہا گیا کہ چونکہ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ رینک کے افسر ہیں اور ان کا دفتر راولپنڈی میں ہے، اس لیے لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، جس کی بنیاد پر درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی گئیں۔ صحافیوں اور قانونی ماہرین نے اس فیصلے میں کئی نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے آئین کی غلط تشریح اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جسٹس عبہر گل نے آئینی شقوں کو درست طریقے سے سمجھنے کے بجائے ایک ایسا فیصلہ دیا جو کئی حقائق سے متصادم ہے۔ سب سے پہلی غلطی یہ ہے کہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس فوجی افسر نہیں بلکہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد علی ہیں۔ اس کے علاوہ، آرٹیکل 199 فوجی افسر کے خلاف حکم جاری کرنے سے نہیں روکتا، بلکہ صرف ان کے سرکاری امور میں مداخلت سے متعلق ہے۔ اگر کسی شہری کو جبری طور پر لاپتہ کرنا یا غیر قانونی حراست میں رکھنا فوجی افسر کے سرکاری کام کا حصہ سمجھا جائے، تو یہ ایک خطرناک نظیر قائم کر دے گا، جو بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی روح کے خلاف ہے۔ فیصلے کے ایک اور حصے میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ راولپنڈی اس کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس نکتے پر قانونی ماہرین نے اعتراض کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ماضی میں کئی ایسے کیسز سنے اور ان پر فیصلے دیے جو راولپنڈی سے متعلق تھے، لہٰذا اس دلیل کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ صحافی مریم نواز نے اپنے تفصیلی ٹویٹ میں کہا آئینی عدالت کی جج کا خوف یا آئین کی ناقص سمجھ؟ لاہور ہائیکورٹ کی جج جسٹس ابہر گل خان نے بنیادی حقوق کے تناظر میں دائر ہونے والی آئینی درخواست پر اپنا عجیب و غریب فیصلہ دیا جس کو حقائق کی رو سے دیکھیں تو صرف غلطیاں ملیں گی۔ 26ویں ترمیم کے بعد بننے والے جوڈیشل کمیشن سے تقرر ہونے والی لاہور ہائیکورٹ کی ایڈشنل جج جسٹس ابہر گل خان (جو اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس عالیہ نیلم کی لگائی گئی رجسٹرار تھیں) نے PTI کے دو کارکنان عثمان محمود اور فرحان احمد چشتی کے مقدمات کو یہ کہہ کر پہلی ہی سماعت پر خارج کر دیا کہ آپ نے درخواست میں سیکریٹری دفاع کو فریق بنایا اور کہا کہ یہ افراد جب اٹھائے گئے تو ایلیٹ فورس کی وردیاں پہنے افراد CcTV میں نظر آئے اور یہ کہ یہ سیکریٹری دفاع کی غیر قانونی حراست میں ہیں۔ مریم نواز نے مزید لکھا پھر جج صاحبہ فیصلے میں لکھتی ہیں نمبر ایک: چونکہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس فوجی افسر ہیں اور آرٹیکل 199(3) کے تحت ان کے خلاف حکم نہیں دے سکتی۔ نمبر دو: سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ رینک کے افسر ہیں اور ان کا دفتر راولپنڈی میں ہے جو (لاہور ہائیکورٹ) کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا لہذا درخواستیں خارج کی جاتی ہیں! جج صاحبہ کے ان دو حکمناموں میں نا صرف ان کی وجوہات میں حقائق کی غلط بیانی ہے بلکہ آئین کو بھی غلط طریقے سے تحریر کیا۔ مریم نواز نے کہا پہلی غلطی تو یہ کہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس نہیں ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں جن کا نام لیفٹیننٹجنرل ریٹائرڈ محمد علی ہے، دوسرا آرٹیکل 199 فوجی افسر کے خلاف فیصلہ دینے سے نہیں روکتا بلکہ ان کے سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے کے بارے فیصلہ دینے سے روکتا ہے! اب اگر کسی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنا یا جبری طور پر گمشدہ کرنا فوجی افسر کے سرکاری امور میں آتا ہے اور اس پر بنیادی حقوق کی بنیاد پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت حبس بےجا کی درخواست نہیں ہو سکتی اور وہ بھی تب جب فوجی افسر بھی ریٹائرڈ اور سول پوسٹ پر ہو تو یہ فیصلہ دینے والے کی اعلی دانست ہو سکتی ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں! آخر میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں راولپنڈی نہیں آتا یہ بھی پہلی بار لاہور ہائیکورٹ کے کسی جج نے فرمایا۔ اظہر مشوانی نے کہا ان آرڈرز کو پڑھیں اور جانیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد کیسے نااہل افراد کو ہائی کورٹ کے ججز مقرر کیا گیا ہے۔ جج عبہر گل نے مغوی عثمان محمود اور فرحان چشتی کی بازیابی کے لیے دائر پٹیشن کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ "سیکرٹری ڈیفینس ایک فوجی ہے، اس لیے وہ لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔" حقائق: سیکرٹری ڈیفینس حاضر سروس نہیں، بلکہ ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ راولپنڈی، لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور اگر نہ بھی آئے تو ہائی کورٹ کسی بھی وفاقی ادارے کو نوٹس جاری کر سکتی ہے۔ حبسِ بیجا (Habeas Corpus) کی پٹیشن میں سب سے پہلے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر کے دریافت کیا جاتا ہے کہ مغوی کہاں ہے، اس کے بعد جمع شدہ شواہد کی بنیاد پر کیس آگے بڑھایا جاتا ہے۔ عثمان محمود اور فرحان چشتی کے کیس میں CCTV فوٹیجز میں ایلیٹ فورس کی گاڑیاں اور یونیفارم پہنے افراد واضح نظر آ رہے ہیں، اس کے باوجود پولیس کو بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ اغوا کار چاہے فوجی ہو یا سویلین، قانون کے مطابق اسے نوٹس جاری کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جج عبہر گل، جو کہ ڈی پی او اٹک کی بہن ہیں، کی واحد "قابلیت" 9 مئی کے کیسز کو لٹکانا اور تحریک انصاف کے افراد کو ضمانت نہ دینا ہے۔ اسی کارکردگی کے انعام میں جسٹس عالیہ نیلم نے انہیں خصوصی طور پر لاہور ہائی کورٹ میں تعینات کروایا ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا جسٹس عبہر گل کا حالیہ حکم، جو تحریک انصاف سے منسلک سوشل میڈیا کارکنوں کی حبسِ بیجا کی درخواست سے متعلق ہے، ان کی آئینی سمجھ بوجھ کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے، جو ان کی قابلیت پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ سیکرٹری دفاع کو حبسِ بیجا کی درخواست کے دائرہ اختیار سے باہر سمجھا جائے کیونکہ وہ "فوجی اہلکار" ہیں، نہ صرف قانونی طور پر غلط ہے بلکہ حقیقت کے بھی خلاف ہے۔ سیکرٹری دفاع کوئی حاضر سروس فوجی نہیں بلکہ ایک ریٹائرڈ فرد ہیں، جو ایک سول انتظامی عہدے پر تعینات ہیں۔ یہ عہدہ واضح طور پر ہائی کورٹ کے آئینی اختیار اور قانونی دائرہ کار میں آتا ہے۔ پاکستان میں عدالتی نظائر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حبسِ بیجا کی درخواستوں پر سیکرٹری دفاع کے خلاف کئی بار احکامات جاری کیے گئے ہیں، اور بعض صورتوں میں اعلیٰ عدالتوں نے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب بھی کیا ہے۔ جسٹس عبر گل کی جانب سے اس بنیادی اصول کو نظر انداز کرنا نہایت تشویشناک ہے اور ان کی قانونی مہارت پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ ججز، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی تعیناتی میں قابلیت کے بجائے نااہلی کو بنیاد بنانا ایک خطرناک رجحان بن چکا ہے، جو ملک میں غیر جمہوری نظام کو فروغ دیتا ہے اور احتساب کو ختم کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ جرنیل قانون سے بالاتر ہیں اور انہیں "مقدس گائے" سمجھا جاتا ہے، جو ہمارے قانونی اور سیاسی نظام کے بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (LHCBA) اور انڈیپنڈنٹ لائرز فورم (ILF) کو فوراً کارروائی کرتے ہوئے جسٹس عبر گل کے فیصلے کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے اور ان کی اہلیت پر سوال اٹھانا چاہیے۔ آئینی قوانین کی ایسی کھلی خلاف ورزی کو چیلنج کیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی نوعیت کے ایک دوسرے مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ غضنفر نے قدیر اعجاز کی جانب سے دائر درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، جب کہ جسٹس عبہر گل نے بالکل اسی نوعیت کے کیس میں درخواست کو ابتدائی سماعت پر ہی مسترد کر دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ میں یہ کم ہی دیکھنے کو ملا ہوگا کہ کسی لاپتا شخص کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کو یوں مسترد کر دیا جائے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فرحان چشتی کی گمشدگی پر دائر درخواست کو جسٹس عبہر گل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے خارج کر دیا، جبکہ اسی نوعیت کے ایک اور کیس میں جسٹس راجہ غضنفر نے نوٹس جاری کر دیا۔ فرحان چشتی کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس عبہر گل نے سخت موقف اختیار کیا۔ انہوں نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ "آپ نے سیکرٹری دفاع کو کیس میں فریق کیسے بنایا؟" مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "عدالت کسی انٹیلیجنس ایجنسی کو طلب نہیں کر سکتی" اور نہ ہی "آئی جی پنجاب کو نوٹس جاری کرنے کی کوئی ضرورت ہے"۔ اس مؤقف پر وکیل خدیجہ صدیقی نے حیرانی کا اظہار کیا اور عدالت کو باور کرایا کہ جب کسی شخص کو قانون نافذ کرنے والے ادارے (LEAs) گھر سے اغواء کر کے لے جائیں، تو پھر ان کی موجودگی کا پتا لگانا بھی عدالت کی ذمہ داری ہے۔ صحافی شاکر اعوان کے مطابق اسی روز لاہور ہائیکورٹ میں ایک اور بلکل ایسی ہی درخواست پر جسٹس راجہ غضنفر نے متضاد فیصلہ دیا۔ قدیر اعجاز کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر انہوں نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ یہ قانونی برتاؤ ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے کہ ایک ہی نوعیت کے کیسز پر مختلف بینچز کے فیصلے کیوں مختلف ہیں؟ عثمان محمود بازیابی کیس میں بھی جسٹس عبہر گل نے سیکرٹری دفاع کو فریق بنانے پر اعتراض اٹھایا، حالانکہ بازیابی کی دیگر تمام درخواستوں میں یہی نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ آئین کے آرٹیکل 199(3) کے تحت فوج کو نوٹس نہیں کیا جا سکتا، جبکہ وکلا کا کہنا تھا کہ سیکرٹری دفاع فوج کے بجائے حکومت کے تحت آتا ہے، لہٰذا انہیں فریق بنایا جا سکتا ہے۔ فرحان چشتی کا کیس لڑنے والی وکیل خدیجہ صدیقی نے عدالت کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "جج صاحبہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ فرحان چشتی کہاں ہے؟" انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے آئی جی پنجاب کو بھی نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا، جو حیران کن ہے۔ "اگر اغواء ہونے والے شخص کی موجودگی کا سراغ لگانا بھی عدالت کی ذمہ داری نہیں، تو پھر انصاف کے دروازے پر دستک دینے کا کیا فائدہ؟" جسٹس عبہر گل کو حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا ہے۔
لاہور: پنجاب حکومت نے ایک متنازع قانون منظور کر کے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو تحلیل کر دیا اور اس کی جگہ ایک نئی اتھارٹی قائم کر دی ہے، جو براہ راست وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے ماتحت ہوگی اور زیادہ تر بیوروکریٹس پر مشتمل ہوگی۔ ماہرین اور قانونی حلقے اس فیصلے کو فرانزک سروسز کی خودمختاری ختم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، جس سے انصاف کے نظام پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بے نظیر شاہ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی میں 12 فروری کو وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمان نے "پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی ایکٹ 2025" پیش کیا، جسے 14 مارچ کو منظور کر لیا گیا۔ یہ قانون 2007 میں بنائی گئی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو ختم کر کے ایک نئی اتھارٹی قائم کرتا ہے، جو فرانزک سروسز فراہم کرے گی۔ پہلے یہ ادارہ ایک ماہر ڈائریکٹر جنرل کے تحت چل رہا تھا، مگر اب اس کا براہ راست کنٹرول وزیراعلیٰ کے پاس ہوگا، جو اتھارٹی کی سربراہ ہوں گی۔ اتھارٹی میں کل 13 اضافی ارکان ہوں گے، جن میں مختلف محکموں کے سیکرٹریز، انسپکٹر جنرل پولیس یا ان کا نمائندہ، ایک ڈائریکٹر جنرل، اور پانچ ماہرین شامل ہوں گے۔ ڈائریکٹر جنرل کے لیے فرانزک سائنس میں مہارت کی شرط ختم کر دی گئی ہے، جو پہلے لازم تھی۔ اب یہ تقرر وزیراعلیٰ کی صوابدید پر ہوگا اور وہ کسی بھی وقت برطرف کیے جا سکیں گے۔ اگر یہ عہدہ خالی ہوتا ہے تو کسی بھی BS-20 گریڈ کے بیوروکریٹ کو ڈائریکٹر جنرل لگایا جا سکے گا۔ اتھارٹی کے 14 میں سے کم از کم 9 ارکان حکومتی بیوروکریٹس یا حکومتی نامزد کردہ افراد پر مشتمل ہوں گے۔ فیصلہ سازی اکثریتی ووٹنگ کے ذریعے ہوگی، جس میں حکومتی ارکان کو واضح برتری حاصل ہوگی۔ نئے قانون میں فرانزک شواہد کی تعریف میں توسیع کرتے ہوئے حیاتیاتی نمونے، دستاویزات، سائبر کرائم مواد، اور آڈیو ویڈیو ریکارڈنگز کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ادارے کو زیادہ خودمختاری دینا اور اس کی مالی و انتظامی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے تحت اتھارٹی لانے سے مالی اور انتظامی کنٹرول بہتر ہوگا اور کیسز کے حل میں تیزی آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2016 سے PFSA کی عمارت، آلات اور دیگر سہولیات اپڈیٹ نہیں ہوئیں، جبکہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے 8 ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ نئے آلات، انفراسٹرکچر اور اپ گریڈیشن کے منصوبے مکمل کیے جا سکیں۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی وضاحت کی کہ ڈائریکٹر جنرل کے لیے فرانزک سائنس میں مہارت کی شرط ہٹانے کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ماہرین اس عہدے کے لیے درخواست نہیں دیتے تھے۔ قانونی ماہرین اس تبدیلی کو فرانزک سائنس کی خودمختاری پر سنگین حملہ قرار دے رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کی وکیل، ردا حسین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ایک ایسی فرانزک اتھارٹی بنا رہا ہے جو حکومت کے مفادات کے تحت کام کرے گی، نہ کہ آزادانہ طور پر۔ انہوں نے کہا کہ نئے قانون کے تحت، اگر کوئی رکن حکومت کے خلاف آزادانہ فیصلے لیتا ہے تو اسے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ پہلے ڈائریکٹر جنرل کو صرف بدعنوانی یا نااہلی ثابت ہونے پر ہٹایا جا سکتا تھا، لیکن اب اس کی برطرفی وزیراعلیٰ کی خواہش پر ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانچ ماہرین بھی حکومت کی مرضی کے مطابق تعینات کیے جائیں گے، جو فرانزک تجزیے کی غیرجانبداری کو متاثر کر سکتا ہے۔ قانونی ماہر اسد رحیم خان نے بھی اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ PFSA نے ماضی میں جرائم کی تفتیش میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں، لیکن اب اس ادارے کی خودمختاری کمزور کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل کے لیے فرانزک مہارت کی شرط ہٹانا درحقیقت بیوروکریسی کے بے جا سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش ہے، جو پہلے ہی حکومت کے دیگر اداروں کو مفلوج کر چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ PFSA کو جدید سہولیات اور بہتر فنڈنگ کی ضرورت تھی، لیکن اس کا حل اسے براہ راست سیاسی کنٹرول میں لانا نہیں تھا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب فرانزک رپورٹس حکومتی دباؤ کے تحت تبدیل کی جا سکتی ہیں، کیونکہ بیوروکریٹس اور حکومتی اہلکار اس ادارے کو کنٹرول کریں گے، جبکہ ماہرین کا کردار محدود کر دیا گیا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب دیکھا جائے کہ پاکستان میں عدالتوں میں فرانزک شواہد کا کلیدی کردار ہوتا ہے، خاص طور پر کرپشن، دہشت گردی، اور دیگر اہم مقدمات میں۔ پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون فرانزک سروسز کی بہتری کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن قانونی ماہرین اور تجزیہ کار اسے ادارے کی غیر جانبداری پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اگر فرانزک اتھارٹی کو حکومتی کنٹرول میں لا کر اس کی آزادی محدود کر دی گئی، تو یہ عدالتی نظام پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اس قانون میں مزید ترامیم کرے گی یا عدالتی نظام پر اس کے ممکنہ اثرات کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے قرضوں پر قابو پانے کی کوششوں کو شدید رکاوٹ کا سامنا ہے، کیونکہ بیشتر بینک 683 ارب روپے کے موجودہ قرضوں کی تنظیم نو اور 567 ارب روپے کے نئے قرضے دینے پر راضی نظر نہیں آ رہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ یہ قرضے مارکیٹ ریٹ سے کم شرح سود پر دیے جائیں، تاکہ توانائی کے شعبے کو مستحکم کیا جا سکے، لیکن بینک مالی نقصان کے خدشے کے باعث محتاط رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ حکومت اور بینکوں کے درمیان کشیدہ مذاکرات ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے بینکوں کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا ہے، جس کے تحت پاور ہولڈنگ لمیٹڈ (PHL) کو 1.25 کھرب روپے کے قرضے دیے جائیں گے۔ یہ قرضے کائبور (Kibor) مائنس 0.90 فیصد سالانہ پر دیے جانے تھے۔ اس اقدام کو حکومت نے توانائی کے شعبے میں موجود گردشی قرضے ختم کرنے کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ قرار دیا تھا، جو گزشتہ ایک دہائی سے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، چوری، اور ترسیل کے نقصانات کی وجہ سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس دعوے کے باوجود، معاہدہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا، کیونکہ بینکوں نے ابھی تک اس کے شرائط و ضوابط پر دستخط نہیں کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1.25 کھرب روپے کا قرضہ PHL کے کھاتوں میں ہی رہے گا، جس سے واپسی کے امکانات مزید غیر یقینی ہو جاتے ہیں۔ بینکوں پر دباؤ ڈالنے کے الزامات ذرائع کے مطابق، حکومت اور بینکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات خاصے کشیدہ رہے۔ ایک سینئر بینکر، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، نے بتایا کہ وزارت خزانہ کے اجلاس میں بینکوں پر سخت دباؤ ڈالا گیا۔ سینئر بینکر نے بتایا "ہمیں کہا گیا کہ قرضہ دینا ہماری مجبوری ہے، اور اگر ہم نے اتفاق نہ کیا تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،" ایک اور بینکاری عہدیدار نے اس دباؤ کو نجی بجلی گھروں (IPPs) پر ڈالے گئے حکومتی دباؤ سے تشبیہ دی، جب توانائی کے ٹاسک فورس (جس میں سویلین اور فوجی حکام شامل تھے) نے ان سے معاہدے پر دستخط کرائے۔ آئی ایم ایف (IMF) نے بعد میں اس دباؤ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ بینکوں کے خدشات: مالی نقصان اور عدم ضمانت حکومت کا منصوبہ ہے کہ اس قرض کو چھ سال میں واپس کیا جائے، جس کے لیے بجلی کے بلوں میں شامل 2.83 روپے فی یونٹ سرچارج سے سالانہ 350 ارب روپے جمع کیے جائیں گے۔ لیکن بینکوں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت PHL کے قرضے کائبور + 0.45 فیصد شرح سود پر چل رہے ہیں، جبکہ حکومت کی نئی اسکیم کائبور - 0.90 فیصد پر دی جا رہی ہے، جس سے بینکوں کو 1.35 فیصد کا نقصان ہوگا۔ اس کے نتیجے میں، بینکوں کو سالانہ 9.2 ارب روپے کا نقصان ہونے کا امکان ہے، جو ان کے منافع پر براہ راست اثر ڈالے گا۔ اس کے علاوہ، نئے قرضے بھی اسی کم شرح سود پر دیے جائیں گے، جس سے مزید مالی دباؤ پیدا ہوگا۔ ایک بڑے بینک کے چیف فنانشل آفیسر نے کہا: "پرانے قرضوں کی بار بار تنظیم نو اور منفی مارجن اس معاہدے کو بینکوں کے لیے انتہائی غیرمناسب بنا رہا ہے۔ مزید یہ کہ توانائی کے شعبے کو اس قدر بڑے پیمانے پر قرضے دینے سے نجی شعبے کے لیے قرضوں کی دستیابی کم ہو جائے گی، جس سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔" اس کے علاوہ، بینک اس بات پر بھی شدید تحفظات رکھتے ہیں کہ نئے قرضوں کے لیے کوئی خودمختار ضمانت (sovereign guarantee) موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستان ایسی ضمانت فراہم نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے بینکوں کے لیے قرضہ دینا مزید خطرناک ہو گیا ہے۔ گردشی قرضے کا اصل مسئلہ برقرار توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں سب سے بڑا تنازعہ رہا ہے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ 1.5 کھرب روپے کے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے 1.25 کھرب روپے کے نئے قرضے اور 250 ارب روپے کے بجٹ سپورٹ کا استعمال کیا جائے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی مسئلے کو حل نہیں کرے گا۔ آئی ایم ایف بھی اس منصوبے پر شکوک و شبہات رکھتا ہے، کیونکہ اگر مستقبل میں بجلی کی طلب میں کمی آئی تو قرضوں کی واپسی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔ توانائی کے شعبے کے ماہر طاہر بشارت چیمہ نے کہا: "یہ منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اصل مسائل جیسے کہ بجلی کی چوری اور ترسیل کے نقصانات پر قابو نہ پایا جائے۔" یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان نے گردشی قرضے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 480 ارب روپے ادا کر کے گردشی قرضے کو ختم کیا تھا، لیکن چند ہی سالوں میں یہ دوبارہ بڑھنا شروع ہو گیا، کیونکہ بنیادی مسائل جوں کے توں رہے۔ بینکوں کے خدشات کے باوجود، کچھ ماہرین اب بھی پرامید ہیں۔ پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے کہا کہ 1.25 کھرب روپے کا آدھے سے زیادہ قرض پہلے ہی 18 بینکوں کے کھاتوں میں موجود ہے، اور اسے واپس کرنے کے لیے قابلِ شناخت کیش فلو بھی موجود نہیں تھا۔ "اب بجلی کے بلوں میں شامل ڈیٹ سروس سرچارج کے ذریعے قرضوں کی واپسی ممکن ہوگی۔ اس سے صارفین پر کوئی نیا بوجھ نہیں پڑے گا، اور پرانے و نئے قرضے اگلے چار سے چھ سالوں میں ادا ہو جائیں گے، خاص طور پر اگر شرح سود کم ہوئی تو ادائیگی مزید تیزی سے ہو سکے گی۔" انہوں نے ان خدشات کو بھی مسترد کیا کہ بینکوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور کہا کہ مذاکرات "انتہائی پیشہ ورانہ، احترام اور کاروباری ماحول میں" ہوئے۔ حکومت کا منصوبہ غیر یقینی صورتحال کا شکار یہ منصوبہ بظاہر توانائی کے شعبے کو مستحکم کرنے کی کوشش ہے، لیکن جب تک بجلی کی چوری، ترسیل میں نقصانات اور عدم ادائیگی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے، گردشی قرضے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ فی الحال، بینک محتاط ہیں، اور حکومت کا منصوبہ غیر یقینی صورتحال میں لٹکا ہوا ہے۔
لاہور: تاریخی ورثے کی بحالی اور تحفظ کے لیے "لاہور اتھارٹی فار ہیریٹج ریوائیول" (LAHR) کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے پیٹرن انچیف مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف ہوں گے۔ یہ فیصلہ لاہور میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا، جس کی صدارت نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کی۔ اجلاس میں لاہور کے تاریخی مقامات کی بحالی اور تحفظ کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا اور شہر کو چھ زونز میں تقسیم کرنے کی منظوری دی گئی تاکہ مختلف علاقوں میں تاریخی عمارتوں اور مقامات کی بحالی کو منظم کیا جا سکے۔ نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کو اس کی اصل تاریخی حالت میں بحال کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے تجاوزات کے متاثرین کے لیے متبادل جگہ اور معاوضے کی فراہمی کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یورپ کے شہروں کو صدیوں بعد بھی ان کی اصل شکل میں محفوظ رکھا گیا ہے، اسی طرح لاہور کی قدیمی حیثیت بحال کرنے سے عوام بھی مستفید ہوں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس موقع پر کہا کہ جگہ جگہ تجاوزات سے شہروں کو بگاڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور عوام میں شہریت کا شعور بیدار کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے لاہور کے تاریخی دروازوں کو ان کی قدیمی شکل میں بحال کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شاہی قلعہ، جہانگیر اور نور جہاں کے مقبرے، شالا مار باغ اور کامران کی بارہ دری کی تزئین و آرائش کی جائے گی، جبکہ شاہ عالم مارکیٹ سے بھاٹی گیٹ تک پیدل گزرگاہ بنانے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے کئی ممالک کو ہجرت کے باعث آبادی میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔ "ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2024" نامی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں سے سب سے زیادہ لوگ بیرون ملک جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، حالیہ عرصے میں پاکستان سے 1.6 ملین افراد نے ہجرت کی، جبکہ سوڈان سے 1.4 ملین اور بھارت سے 979 ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے شعبہ آبادی کی جانب سے 11 جولائی 2024 کو جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق، چین سے 568 ہزار، نیپال سے 550 ہزار، بنگلہ دیش اور فلپائن سے 164 ہزار، ترکی سے 318 ہزار، یوکرین سے 300 ہزار، برازیل سے 240 ہزار، یونان سے 159 ہزار، یوگنڈا سے 126 ہزار، وینیزویلا سے 113 ہزار، اور میکسیکو سے 101 ہزار افراد ہجرت کر چکے ہیں۔ یہ امیج رپورٹ "Everything About Maps" نامی پلیٹ فارم نے تیار کی ہے، جو اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کو نقشوں کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 2024 میں عالمی آبادی 8.2 بلین تھی اور اندازہ ہے کہ یہ 2080 کی دہائی میں 10.3 بلین کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد 2100 تک 10.2 بلین تک کم ہو جائے گی۔ شرح پیدائش میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، 1990 میں فی عورت شرح پیدائش 3.3 تھی، جو 2024 میں کم ہو کر 2.3 پر آ گئی ہے۔ آدھے سے زیادہ ممالک میں یہ شرح 2.1 سے بھی کم ہو چکی ہے، جو آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 63 ممالک کی آبادی پہلے ہی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جبکہ 48 ممالک میں یہ 2025 سے 2054 کے درمیان عروج پر پہنچے گی۔ ماہرین کے مطابق، پاکستان سے بڑی تعداد میں لوگوں کی ہجرت کی وجوہات میں معاشی عدم استحکام، سیاسی صورتحال اور روزگار کے محدود مواقع شامل ہیں۔ سوڈان میں جاری تنازعات اور عدم استحکام بھی ہجرت کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، جبکہ بھارت جیسے ممالک میں لوگ بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ممالک کو ہجرت کے اثرات کم کرنے اور آبادی کے عدم توازن سے بچنے کے لیے پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان کو معاشی استحکام، تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی تاکہ ہجرت کے باعث ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔
سندھ ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہونے والے جسٹس خادم حسین سومرو نے پی ٹی آئی رہنماؤں جنید اکبر، رؤف حسن، ارباب اور دیگر کی عمران خان سے ملاقات کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔ عدالت نے فیصلے میں واضح کیا کہ درخواست گزار جیل میں ملاقات کے لیے بنائے گئے طریقہ کار پر عمل نہیں کر رہے، اس لیے ان کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ تحریری فیصلے میں جسٹس خادم حسین سومرو نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی فہرست کے مطابق 10 مارچ کو آٹھ وکلاء نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی تھی، جن میں سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر گوہر، سلمان صفدر، نیاز اللہ نیازی، نعیم پنجھوتھہ، شعیب شاہین، ابو زر نیازی اور عذیر بھنڈاری شامل تھے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ سیاسی رہنما پہلے ہی عمران خان سے ملاقات کر چکے ہیں، اس لیے مزید ملاقات کی ضرورت نہیں۔ جسٹس خادم حسین سومرو نے سلمان اکرم راجہ، شعیب شاہین، ابو زر نیازی سمیت دیگر وکلاء کے نام تحریری فیصلے میں درج کرتے ہوئے انہیں "سیاسی رہنما" قرار دیا اور کہا کہ یہ ملاقاتیں ہو چکی ہیں، اس لیے درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ عدالت کے حکم کے باوجود جمعرات کے روز سیاسی رہنماؤں کی ملاقات نہیں کروائی جا رہی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم پنجھوتھہ نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جنید اکبر، رؤف حسن، ارباب اور دیگر کی عمران خان سے ملاقات کے لیے دائر درخواست میں پیش ہوئے تھے۔ عدالت میں جیل حکام نے ملاقات کرنے والوں کی ایک فہرست فراہم کی، جس میں صرف وکلاء کے نام شامل تھے۔ ابوزرسلمان نیازی نے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا یہ سراسر غلط ہے۔ جنید اکبر کی درخواست میں جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ میں نے 10 مارچ 2025 کو اڈیالہ میں کپتان سے ملاقات کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے اسی بیان کو درست مانتے ہوئے درخواست خارج کر دی۔ یہ بالکل جھوٹ اور غلط ہے۔ میں نے مارچ کے مہینے میں خان صاحب سے کوئی ملاقات نہیں کی۔ نعیم پنجھوتھہ کے مطابق، انہوں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ چھ ماہ میں صرف ایک بار سیاسی رہنماؤں کو ملاقات کی اجازت دی گئی ہے، حالانکہ عدالت کے حکم کے مطابق جمعرات کا دن ملاقات کے لیے مختص ہے، مگر جیل حکام عمران خان کی دی گئی فہرست کے مطابق ملاقات کی اجازت نہیں دے رہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست کو پینڈنگ رکھا جائے اور حکم دیا جائے کہ ملاقات کا دن ہونے کے باوجود ملاقات کروائی جائے، مگر عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔ نعیم پنجوتھا کے مطابق "یہی ملک میں انصاف کا نظام ہے کہ جسٹس خادم سومرو نے کہا کہ میں آرڈر کروں گا، مگر نہ آرڈر ملا اور نہ ہی ملاقات کروائی گئی، جمعرات کا دن بھی گزر گیا۔"
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی میں 10 روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا ہے، جس کے بعد دونوں ایندھن پر لیوی 60 روپے سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کر دی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اس اضافے کا اطلاق 16 مارچ سے ہوگا۔ حکومت نے مالی سال 2025 کے بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کو 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے فی لیٹر کرنے کا اعلان کیا تھا اور طے شدہ پالیسی کے تحت مرحلہ وار 20 روپے کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، حکومت نے آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی پر غور کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے جلد پیکج کا اعلان متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 13 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے کمی کا امکان رد کرتے ہوئے قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت 255 روپے 63 پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 258 روپے 64 پیسے، مٹی کے تیل کی قیمت 168 روپے 12 پیسے، اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 153 روپے 34 پیسے فی لیٹر پر برقرار رہے گی۔
صحافی مغیث علی نے ٹویٹ کرکے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ " دنیا بھر میں آج اسلاموفوبیا کیخلاف عالمی دن منایا جارہا ہے"اسلاموفوبیا کے خلاف عمران خان کا تاریخی اقدام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسلامو فوبیا مخالف عالمی دن منانے کا خیال پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم عمران خان نے 2020ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس سے خطاب کرتے پیش کیا تھا۔ 2022 کو اقوام متحدہ کی جانب سے 15مارچ کو ”انٹرنیشنل ڈے ٹو کومبیٹ اسلاموفوبیا“ کے طور پر مختص کیا گیاتنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کے 57 رکن ممالک کے علاوہ چین اور روس سمیت آٹھ دیگر ملکوں نے بھی قرارداد کی تائید کی تھی۔۔ قرارداد میں انسانی حقوق اور مذہبی تنوع کے احترام کی بنیاد پر رواداری اور امن کے ماحول کو فروغ دینے کی بین الاقوامی کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔اس قرارداد میں لوگوں کے خلاف ان کے مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے اقدامات اور عبادت گاہوں پر حملوں کی سختی سے مذمت بھی کی گئی تھی۔قرارداد میں کہا گیا تھا کہ قرآن کی بے حرمتی، نبیؐ آخری الزماں کے گستاخانہ خاکوں اور اِسلام سے متعلق توہین آمیز کلمات سے عالم اِسلام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے بلکہ اسلامو فوبیا کے ذریعے امتیازی سلوک بھی روا رکھا جا رہا ہے جس کے خلاف اقوام متحدہ کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسوقت کے وزیراعظم عمران خان نے اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد منظور ہونے پر امت مسلمہ کو مبارک باد دی۔ انہوں نے ٹوئٹ کر کے کہا، ''اقوام متحدہ نے بالآخر آج دنیا کو درپیش اسلامو فوبیا، مذہبی رسومات کی تعظیم، منظم نفرت انگیزی کے انسداد اور مسلمانوں کے خلاف تفریق جیسے بڑے چیلنجز کا اعتراف کیا۔ اس تاریخی قرارداد کا نفاذ یقینی بنانا اب اگلا امتحان ہے۔بھارت، فرانس اور یورپی یونین کے نمائندوں نے اس پر یہ کہتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ مذہبی عدم برداشت ساری دنیا میں پائی جاتی ہے، جب کہ اس قرارداد میں صرف اسلام کی بات کی گئی ہے، بھارت کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا کے حوالے سے پاکستانی قرارداد کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ ایک مذہبی پلیٹ فارم میں تبدیل ہو سکتا ہے اور دیگر مذاہب کے سلسلے میں بھی قراردادیں آسکتی ہیں۔۔آج اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ مذہبی گروہوں اور کمزور لوگوں کے خلاف عدم رواداری اور انتہاپسندانہ نظریات فروغ پا رہے ہیں۔ امن و ہم آہنگی کے لیے سبھی کو مسلم مخالف تعصب اور غیرملکیوں سے نفرت کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔ عمران خان نے اسلاموفوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد منظور کروا کر دین اسلام کی بڑی خدمت کی۔ ان کی کاوش نے عالمی سطح پر مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا اور اسلام کے امن پسند پیغام کو اجاگر کیا۔ ان کا یہ قدم مسلمانوں کے لیے فخر کا باعث ہے اور دنیا کو نفرت اور تعصب کے خلاف متحد ہونے کا پیغام دیتا ہے۔نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں ایک مخصوص بیانیے کے تحت مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔ اب ہر سال یہ دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر کے مسلمان اِسی مناسبت سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔۔ جس سے مسلمان اور اسلام دشمن فوبیا کے خلاف آگاہی پیدا کرنے میں آسانی ہو گی، دنیا کو یہ باور کرانے میں مدد ملے گی کہ جرم کوئی بھی کر سکتا ہے،اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی مجرم کے عقیدے سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد مجرم ہیں یا اِس کی بنیاد پر پوری کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہےاسلاموفوبیا مسلمانوں کےخلاف خوف،تعصب اورنفرت کا نام ہے،جوآن لائن اورآف لائن دنیا میں مسلمانوں کےخلاف اشتعال،دشمنی اورعدم برداشت کو ہوا دیتا ہے۔اسلامو فوبیا کونسل پرستی سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے، جس کے تحت اسلامی مذہب،روایت اور ثقافت کو مغربی اقدار کے لیے خطرہ کےطورپرتصورکیاجاتا ہے، دنیا بھر میں مسلمان اسلاموفوبیا کے باعث بیشمار تکالیف اور پرتشدد واقعات کا شکار ہو چکے ہیں۔اسلامو فوبیا کیا ہے؟ مذہب اسلام اور عمومی طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت، تعصب یا اس مذہب اور اس کے پیروکاروں سے بعض لوگوں میں پائے جانے والے خوف کے لیے اسلامو فوبیا کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اسلامو فوبیا دو الفاظ کا مرکب ہے اسلام اور فوبیا۔ لفظ فوبیا یونانی اصطلاح ہے۔جس کے انگریزی میں معنی ہیں کسی چیز کے خوف میں مبتلا ہونا، اسلامو فوبیا یعنی اسلام کا خوفمسلمانوں کے خلاف اس لفظ کی ایجاد سن 1987 ء میں ہوئی۔ سن 1997 ء میں اس اصطلاح کی تعریف برطانوی رائٹر رونیمیڈ ٹروسٹ نے Islamophobia: A Challenge for Us All کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کی ہے کہ اسلامو فوبیا سے مراد اسلام سے بے پناہ خوف، ایک ایسا ڈر جو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے
جعفر ایکسپریس حملے کے بعد قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور جھوٹے پروپیگنڈے کے الزام میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سائبر کرائم اسلام آباد نے تین مقدمات درج کر لیے ہیں۔ ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت معروف صحافی احمد نورانی، شفیق احمد ایڈووکیٹ اور آئینہ درخانی کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو قومی اداروں کے خلاف بھڑکایا اور کالعدم تنظیموں کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد سوشل میڈیا پر ملک دشمن عناصر متحرک ہو گئے تھے اور بھارتی میڈیا کی پھیلائی گئی جعلی خبروں کو پاکستان میں بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق، حملے کے بعد سے بھارتی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، بھارتی خفیہ ایجنسی "را" اور کالعدم تنظیم "بی ایل اے" کے پیغامات پھیلانے میں سرگرم ہیں۔ بھارتی نیوز چینلز نے بی ایل اے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی خبر کو بنیاد بنا کر حملے کی ذمہ داری اس تنظیم پر ڈالنے کی کوشش کی، جس کے بعد بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اس پروپیگنڈے کو مزید ہوا دی۔ بھارتی میڈیا حسبِ روایت مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس - AI) سے بنی ویڈیوز اور تصاویر کا سہارا لے کر پاکستان کے خلاف جھوٹی مہم چلا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک جعلی ویڈیو بھی بھارتی اور مخصوص سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی گئی، جو حقیقت میں 2022 کی ایک فلم کا سین ہے۔ ذرائع کے مطابق، بھارتی میڈیا کے بے بنیاد پروپیگنڈے کو پاکستان میں موجود ایک مخصوص سیاسی جماعت سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بھی آگے بڑھایا اور افواجِ پاکستان کے خلاف زہر آلود بیانیہ پھیلانے کی کوشش کی۔ ان اکاؤنٹس نے نہ صرف جعلی خبروں کو پھیلایا بلکہ عوام کو بھی قومی اداروں کے خلاف گمراہ کرنے کی مہم میں حصہ لیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے اس سلسلے میں مزید اکاؤنٹس کی چھان بین شروع کر دی ہے اور جلد مزید کارروائیوں کا امکان ہے۔ ادارے کے مطابق، کسی کو بھی ملک دشمن عناصر کے بیانیے کو فروغ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 306 کا لاپتا پہیہ بالآخر کراچی ایئرپورٹ کے ریموٹ پارکنگ بے کے قریب سے برآمد کرلیا گیا۔ گزشتہ روز لاہور ایئرپورٹ پر ایک پہیے کے بغیر ہنگامی لینڈنگ کرنے والے اس ایئربس طیارے کے معاملے پر ایوی ایشن حکام نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (پی اے اے) کے مطابق، ویل کے طیارے سے علیحدہ ہونے کے باوجود کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔ تاہم، حکام اس غیر معمولی واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے مزید تحقیق کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ایئربس کمپنی نے پی آئی اے کے اس طیارے کی تکنیکی بنیادوں پر تحقیقات شروع کر دی ہیں، جبکہ بورڈ آف سیفٹی انویسٹیگیشن پہلے ہی اس معاملے کی چھان بین کر رہا ہے۔ ایئربس ساختہ A320 طیارے بنانے والی کمپنی نے پی آئی اے سے پرواز پی کے 306 کے AP-BLS رجسٹریشن کے حامل طیارے کی مکمل رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق، ایئربس کمپنی نے اس طیارے کا تین ماہ کا مکمل فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ اور چیک لسٹ بھی طلب کر لی ہے، جبکہ لینڈنگ گیئر سمیت دیگر تکنیکی رپورٹس فراہم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پرواز پی کے 306 نے بدھ کی شب لاہور ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی تھی، اور لینڈنگ کے بعد طیارے کے ایک ٹائر کی عدم موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔ ایوی ایشن ماہرین کے مطابق، ہر طیارے کے ٹیک آف کے بعد پی اے اے کا عملہ رن وے کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ طیارے سے کوئی چیز نکل کر رن وے پر نہ گری ہو۔ کیونکہ رن وے پر پڑی دھاتی یا ٹھوس اشیا کسی دوسرے طیارے کے ٹیک آف کے دوران شدید حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ تاہم، پی اے اے حکام کو طیارے کے پہیہ غائب ہونے کا علم اس وقت ہوا جب وہ لاہور پہنچ چکا تھا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس کے سانحے کے بعد جس طرح بین الاقوامی رائے عامہ اور حکومتوں نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور بی ایل اے کے دہشت گردی کے کاروبار کی مذمت کی ہے، اس سے اس دہشت گرد تنظیم کے انسانیت دشمن بیانیے کو شدید زک پہنچی ہے۔ ہماری افواج نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچایا ہے اور بی ایل اے کی پسپائی اور انسان دشمنی نے ان کی قوم پرستی کے بہروپ کو عیاں کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی، عوام کے حقوق اور پسماندگی سے نجات ہمیشہ وفاق کی ترجیح رہی ہے۔ بلوچستان کی سیاسی لیڈر شپ کی بلوچ عوام کے مسائل اور حقوق کے ساتھ کمٹمنٹ شفاف اور ان کی سیاست کا بنیادی جز ہونا چاہیے۔ وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کے وسائل کا اولین حق بلوچ عوام کا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردی بلوچ عوام کے حقوق کی جنگ نہیں بلکہ ہندوستان اور یورپ میں بیٹھے شاہانہ زندگی گزارنے والے قبائلی شہزادوں، وسائل پر قابض وڈیروں اور فرسودہ نظام کی باقیات کے قبضے کی جنگ ہے۔ آل پارٹی کانفرنس کا ایجنڈا بلوچ عوام کی ترقی کا ایجنڈا ہونا چاہیے اور وسائل پر ان کے اولین حق کی گارنٹی ہونی چاہیے۔ بلوچ قیادت وفاق یا صوبے میں بلوچ عوام کی امنگوں کی ترجمان اور ان کے حقوق کی محافظ بن کر سامنے آئے۔
پنجاب میں گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران مقامی حکومتوں کے لیے مختص 828 ارب روپے کی رقم غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ فنڈز آئینی طور پر صوبے کی 229 مقامی حکومتوں کو ملنے تھے، مگر چھ مختلف وزرائے اعلیٰ کے ادوار میں ان فنڈز کی یا تو غلط تقسیم کی گئی، یا پھر انہیں کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔ یہ رقم عبوری صوبائی مالیاتی کمیشن (PFC) کے تحت تقسیم کی جانی تھی۔ یہ کمیشن 2017 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا کام وفاقی حکومت سے موصول ہونے والے فنڈز اور صوبائی محصولات کو یکجا کرکے ان کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا تھا، بالکل اسی طرح جیسے قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کام کرتا ہے۔ PFC کے تحت قائم ہونے والا صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ (PCF) ایک مخصوص فارمولے کے تحت مقامی حکومتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 62.5 فیصد حصہ پنجاب حکومت خود رکھتی ہے، جبکہ باقی 37.5 فیصد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز، ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز، مقامی حکومتوں اور یونین کونسلز کے درمیان تقسیم ہونا ہوتا ہے۔ 2017 میں صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ (PCF) کی کل مالیت تقریباً 1.9 کھرب روپے تھی۔ حکومتی فارمولے کے مطابق، مقامی حکومتوں کے لیے 90 ارب روپے مختص کیے جانے تھے، مگر حقیقت میں صرف 36.82 ارب روپے فراہم کیے گئے، جس کے نتیجے میں 45 ارب روپے کا فرق پیدا ہوا۔ معاملہ صرف پہلے سال تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر سال مقامی حکومتوں کو ملنے والی رقم میں کمی واقع ہوتی رہی، حالانکہ NFC ایوارڈ اور صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ کا حجم مسلسل بڑھتا گیا۔ 2023-24 کے مالی سال میں مقامی حکومتوں کے لیے 180.67 ارب روپے مختص کیے جانے تھے، مگر حقیقت میں انہیں صرف 37.64 ارب روپے دیے گئے۔ اس بنیاد پر، پنجاب حکومت کی مجموعی مالی ذمہ داری (جو ابھی تک پوری نہیں کی گئی) 828 ارب روپے بنتی ہے۔ حالیہ سرکاری رپورٹ میں پنجاب حکومت کے مالیاتی حکام نے تسلیم کیا کہ PCF سے کچھ رقم مشترکہ اخراجات جیسے کہ پنشن اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی۔ تاہم، اس حوالے سے کوئی واضح تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں کہ آخر مقامی حکومتوں کے فنڈز سے یہ کٹوتیاں کیوں کی گئیں اور کس حد تک جائز تھیں۔ یہ معاملہ اس لحاظ سے اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ یہ مالی بے ضابطگیاں کسی ایک حکومت کے دور میں نہیں ہوئیں، بلکہ گزشتہ آٹھ سالوں میں چھ وزرائے اعلیٰ کے ادوار میں یہ عمل جاری رہا۔ یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ کیا حکومت نے صرف چالاک اکاؤنٹنگ کے ذریعے ان فنڈز کو دوسری جگہ منتقل کیا؟ یا پھر یہ ایک واضح آئینی خلاف ورزی ہے جہاں مقامی حکومتوں کے فنڈز کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا؟ کیا مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی؟ بلدیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف مالی بے ضابطگی کا نہیں، بلکہ مقامی حکومتوں کو کمزور کرنے کی ایک منظم پالیسی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک سابق بلدیاتی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ مقامی حکومتوں کے فنڈز کو اس طریقے سے روکنا دراصل مرکزیت پسند پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جس میں طاقت کو صوبائی حکومت کے ہاتھ میں رکھا جاتا ہے اور نچلی سطح کی گورننس کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ شفاف تحقیقات کا متقاضی ہے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ فنڈز کہاں گئے اور ان کا استعمال کس مد میں کیا گیا۔ اگر یہ رقم غلط طور پر کہیں اور خرچ کی گئی تو یہ ایک بڑی مالیاتی بے ضابطگی اور آئینی خلاف ورزی ہے۔ حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ نیب اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دائرہ کار میں آتا ہے، اور اس پر جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔
اسلام آباد: پاکستان نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں جعفر ایکسپریس کے حملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ ملک سے باہر دہشت گردوں کا پلان تھا،ہم نے ابھی جعفر ایکسپریس دہشت گردی پر ریسکیو آپریشن مکمل کیا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ بیرون ملک بیٹھی قیادت نے کروایا، اور جعفر ایکسپریس ٹرین دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ افغان حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور ان تخریب کاروں کا نشانہ رہا ہے جو ہماری سرحدوں سے باہر ہیں۔ جعفر ایکسپریس ٹرین دہشت گردی میں بھی دہشت گردوں کے بیرون ممالک رابطے تھے، جبکہ اس واقعے کے دوران ٹریس شدہ کالز میں افغانستان سے رابطوں کا سراغ ملا ہے۔ شفقت علی خان نے کہا کہ ہم نے ابھی جعفر ایکسپریس ٹرین دہشت گردی پر ریسکیو آپریشن مکمل کیا ہے اور ہم سفارتی رابطوں کو اس طرح پبلک فورم پر بیان نہیں کرتے، ماضی میں بھی ہم ایسے واقعات کی مکمل تفصیلات افغانستان کے ساتھ شیئر کرتے رہے ہیں اور یہ ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے۔ مزید پڑھیں؛ جعفر ایکسپریس حملہ؛ آپریشن مکمل، 21 افراد اور 4 جوان شہید، تمام 33 دہشت گرد ہلاک، آئی ایس پی آر ترجمان نے کہا کہ ہمارے بہت سے دوست ممالک نے جعفر ایکسپریس دہشت گردی کی مذمت کی ہے، جبکہ ہمارے کئی دوستوں سے ہمارا انسداد دہشت گردی پر تعاون موجود ہے۔ ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شفقت علی خان نے کہا کہ یہ پروپیگنڈا ہو رہا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد کو کھلنے نہیں دے رہا، ہم طورخم سرحد کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر چوکی بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، ہم افغان حکام کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ کوئی بھی تعمیرات کریں۔ افغانستان پر ہماری بنیادی ترجیح دوستانہ و قریبی تعلقات کا فروغ ہے۔ پاکستان سفیر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم نے امریکا میں پاکستانی شہریوں کے داخلے پر متوقع پابندیوں کی خبروں کا نوٹس لیا ہے تاہم ابھی تک ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے اور یہ صرف افواہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کے کے احسن وگن نجی دورے پر امریکا جا رہے تھے اور وہ نجی ویزے پر سفارتی حیثیت کے متقاضی نہیں تھے۔ ابتدائی اسکریننگ کے بعد ان کی دوسری اسکریننگ ہوئی جس پر انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ حکومت اس معاملے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہے۔ اسپین میں گرفتار قیدی شفقت علی خان نے کہا کہ اسپین میں گرفتار پاکستانی شہریوں میں سے 4 کو عدالتی احکامات پر رہا کیا گیا، بقیہ قیدیوں تک ملاقات کے لیے قونصلر رسائی کی درخواست کی ہے لیکن ابھی تک قونصلر رسائی کی اجازت نہیں ملی۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے کل 14 افراد کی گرفتاری کی اطلاع تھی پھر 9 افراد کی اطلاع ملی۔ فلسطین پر اسرائیلی مظالم ترجمان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ نے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کی میٹنگ میں شرکت کی، اسحاق ڈار نے فلسطینیوں کے لیے پاکستان کی مکمل تعاون کا اعادہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسحاق ڈار نے سائیڈ لائنز پر فلسطینی وزیرِاعظم، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اور دیگر سے ملاقاتیں کی، جبکہ ترکیہ کے وزیرِ خارجہ سمیت دیگر سے بھی ملاقاتیں کی۔ ترجمان نے واضح کہا کہ پاکستان اسرائیل کی جانب سے غزہ کو امدادی سامان کی بندش کی مذمت کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکام کی جانب سے دو کشمیری تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی مذمت کرتے ہیں، بھارت پر زور دیتے ہیں کہ کشمیری سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائے۔ شفقت علی خان نے کہا کہ بھارت نے عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو پانچ سال کے لیے غیر قانونی ایسوسی ایشن قرار دیا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کر رہے ہیں، جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی بنیاد مولانا محمد عباس انصاری نے رکھی تھی۔ ترجمان کے مطابق اس فیصلے سے کالعدم کشمیری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی کل تعداد 16 ہو گئی ہے، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانا بھارتی حکام کے رویے کا غماز ہے۔
بلوچستان :جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے دہشت گردوں کے حملے کو قیامت کی گھڑی قرار دیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ غسل خانے میں استعمال کا پانی پی کر زندہ رہے۔ بازیاب مسافروں نے فوج اور ایف سی کو فوری کارروائی پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ان کی بروقت کارروائی نے ہماری جانیں بچائیں۔ ٹرین کو روکے جانے اور پھر شدید فائرنگ کے بعد ہر جانب دہشت کا عالم تھا۔ مسافروں کے مطابق وہ گھڑی جیسے قیامت کی گھڑی تھی۔ بے مسافروں پربڑی مصیبت آن پڑی تھی۔ جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے دہشت ناک داستان سناتے ہوئے کہا کہ اس وقت افراتفری اور ہر جانب چیخ و پکار تھی۔ لوگوں کو اب بھی اپنے پیاروں کی تلاش ہے، کوئی ماں اپنے جگر کے گوشے کو ڈھونڈتی رہی، تو کوئی بیٹا باپ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ تو کوئی بیٹا باپ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ بلوچستان میں درۂ بولان کے علاقے میں مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر بلوچ شدت پسندوں کے حملے اور درجنوں مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کے دوران چند مسافر حملہ آوروں کی چنگل سے کیسے آزاد ہوئے، جاننے کے لیے دیکھیے یہ ویڈیو وہ کسی کو نہیں چھوڑ رہے تھے ۔ ایک آدمی نے کہا میری تین بیٹیاں ہیں مجھے مت مارو۔ انہوں نے وہیں اس آدمی کو گولیوں سے اڑا دیا۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا جب مرنا ہی ہے تو بھاگتے ہوئے مرو۔ جعفر ایکسپریس کے مسافر نے اغوا اور پھر آپریسن کی خوفناک رودار سنا دی۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ترین پٹڑی سے اتری تو کافی سارے لوگ آگئے، ان کے پاس لانچرز بھی تھے اور بہت سی گنیں تھیں، انہوں نے ٹرین پر سیدھا فائرنگ شروع کردی اور پولتے رہے کہ باہر آجاؤ جو باہر نہیں آئے گا اس کو مار دیں گے۔ عینی شاہد کے مطابق ’دہشتگردوں نے سب کے شناختی کارڈ چیک کئے، کوئی سندھی تھا، کوئی بلوچی کوئی پنجابی، سب کو انہوں نے الگ الگ بٹھا دیا، جس پر دل کیا اس پر فائرنگ کردی‘۔ ایک ار بزرگ عینی شاہ نے بتایا کہ ’دہشتگردوں نے پہلے کہا نیچے اتر آؤ کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے، جب 182 بندے نیچے اتر آئے تو پھر انہوں نے اپنی مرضی سے بندوں کو مارا‘۔
پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ دنوں میں عمرہ ویزہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور عازمین عمرہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ رمضان المبارک میں عمرہ کی ادائیگی کی منصوبہ بندی کرنے والے شہری پریشان ہیں۔ ٹریول ایجنٹس کے مطابق یکم مارچ کے بعد سے پاکستانی پاسپورٹس پر عمرہ کے ویزے جاری نہیں ہو رہے۔ ایجنٹس کا کہنا ہے کہ غیر ملکی پاسپورٹس پر مقررہ دنوں میں عمرہ کا ویزہ مل رہا ہے، لیکن یکم مارچ سے سعودی پورٹل سسٹم میں پاکستانی پاسپورٹس پر جن ایجنٹس نے عمرہ ویزے کے لیے درخواست دی ہے، انہیں ابھی تک ویزے نہیں ملے۔ ایک ایجنٹ نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، اور اب تو پورٹل میں ویزے کے سٹیٹس کے بارے میں بھی کچھ ظاہر نہیں ہو رہا۔ ایسے پاکستانی عازمین عمرہ جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کو خانہ کعبہ یا روضہ رسول ﷺ پر گزارنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں، وہ خاص طور پر پریشان ہیں۔

Back
Top