مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں کمرشل بینکوں کو 1,541 ارب روپے کا قرض واپس کرنے کے بعد حکومت نے رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں قرض لینے کی رفتار تیز کر دی، اور مئی کے آغاز تک یہ رقم 2,700 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران حکومت نے خالص طور پر قرض کی واپسی کی، جو کہ ایک مثبت مالیاتی اشارہ تھا اور یہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی مقرر کردہ مالیاتی نظم و ضبط کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا۔ حکومت کی یہ حکمت عملی گزشتہ برس کی صورتحال سے یکسر مختلف تھی، جب اسی مدت میں 3,744 ارب روپے کا خالص قرض لیا گیا تھا۔
اسٹیٹ بینک سے منافع نے قرضوں کی واپسی ممکن بنائی
مالی سال 25 کی پہلی ششماہی میں قرضوں کی واپسی کی بڑی وجہ اسٹیٹ بینک سے حاصل ہونے والے 2,700 ارب روپے کے ریکارڈ منافع کی صورت میں دستیاب لیکویڈیٹی تھی۔ اس بڑی مقدار میں دستیاب نقدی نے حکومت کو قلیل المدتی اندرونی قرضے کم کرنے میں مدد فراہم کی۔
تاہم مالی سال کی دوسری ششماہی میں نقدی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا، جس کے بعد حکومت نے دوبارہ کمرشل بینکوں سے قرض لینا شروع کیا۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق یکم جولائی 2024 سے 9 مئی 2025 تک مجموعی طور پر 2,690 ارب روپے قرض لیا گیا، جو کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں لیے گئے 6,076 ارب روپے کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
مالی خسارہ 9 سال کی کم ترین سطح پر آنے کا امکان
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل کے مطابق مالی سال 25 میں مالی خسارہ جی ڈی پی کے 5.4 سے 5.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے، جو مالی سال 24 میں 6.8 فیصد تھا۔ یہ گزشتہ 9 برسوں میں سب سے کم شرح ہو گی۔
مالی سال 24 میں حکومت کے لیے قرض لینا خاصا مہنگا پڑا، کیونکہ شرحِ سود 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر رہی، جس سے نہ صرف معیشت پر بوجھ پڑا بلکہ سود کی ادائیگیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ چنانچہ مالی سال 25 کے بجٹ میں سود کی ادائیگیوں کے لیے 9,775 ارب روپے مختص کیے گئے، جو کہ کل بجٹ کا تقریباً نصف ہے۔
دفاعی اخراجات میں ممکنہ اضافہ، بجٹ میں تاخیر کا خدشہ
مالیاتی ذرائع کے مطابق بھارت کی حالیہ جارحیت کے پیش نظر حکومت کو بینکوں سے مزید فنڈز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اعلیٰ سرکاری حکام نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ بجٹ — جو اب ایک ہفتہ تاخیر سے 10 جون کو پیش کیا جائے گا — میں دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا جائے گا۔
ایسی صورت میں یا تو حکومت کو محصولات میں اضافہ کرنا ہوگا یا بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا، جو پہلے ہی مالی سال 25 کے لیے 7,283 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم، اخراجات میں اضافے کے پیش نظر اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
اقتصادی سست روی اور محصولات میں کمی
بینکاری شعبے کا خیال ہے کہ حکومت مالی سال 26 میں بھی کمرشل بینکوں پر زیادہ انحصار کرے گی، کیونکہ معیشت کی سست روی کے باعث محصولات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔ معاشی کمزوری نے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کیا، جس کی وجہ سے حکومت کو کسٹمز ڈیوٹی 19 فیصد سے کم کر کے 9.5 فیصد کرنا پڑی۔ اگرچہ اس سے آمدنی میں کمی آئے گی، لیکن اس کا مقصد خام مال کی درآمدات کو سستا کر کے معیشت کو متحرک کرنا ہے۔
ترمیم شدہ شرحِ نمو کی پیش گوئی
حکومت نے مالی سال 25 کے لیے جی ڈی پی کی شرحِ نمو کا ہدف 3.6 فیصد سے کم کر کے اب 2.68 فیصد مقرر کیا ہے۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے عبوری اندازوں کے مطابق رواں مالی سال میں معیشت کی شرح نمو 2.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔