خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پنجاب کے شہر گجرات سے سیاحت کی غرض سے گلگت بلتستان جانے والے چار نوجوان، جو گزشتہ چند روز سے لاپتہ تھے، ان کی گاڑی گلگت-سکردو روڈ پر گنجی پڑی کے مقام پر حادثے کا شکار ملی ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق، گاڑی میں چاروں نوجوانوں کی لاشیں موجود پائی گئی ہیں۔ جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کی شناخت سلیمان، واصف شہزاد، عمر احسان اور عثمان کے طور پر ہوئی ہے۔ یہ نوجوان سفید رنگ کی ہونڈا سیوک (نمبر 805-ANE) پر چند روز قبل گلگت اور ہنزہ کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ 15 مئی کی رات کو وہ گلگت کے علاقے دنیور سے سکردو کے لیے روانہ ہوئے، جس کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اہل خانہ کے مطابق، نوجوانوں کا آخری بار رابطہ دنیور سے ہوا تھا، جہاں وہ محسن لاج میں مقیم تھے۔ 16 مئی کی صبح انہوں نے سکردو کی جانب سفر شروع کیا، تاہم کچھ دیر بعد ان کے موبائل فون بند ہو گئے اور کوئی رابطہ ممکن نہ رہا۔ پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے نوجوانوں کی تلاش کے لیے گلگت سے سکردو جانے والے تمام راستوں پر چیک پوسٹس اور تھانوں کو الرٹ کر دیا تھا۔ ایس ایس پی گلگت ظہور احمد کے مطابق، تلاش کا دائرہ وسیع کیا گیا اور مختلف مقامات پر سرچ آپریشن جاری رکھا گیا۔ اب مقامی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ گنجی پڑی کے مقام پر ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور بدقسمتی سے چاروں نوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گاڑی تک رسائی حاصل کرنے اور لاشوں کو نکالنے کی کوششیں جاری ہیں، جبکہ حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں شہریوں کے لیے ایک اور اہم فلاحی اقدام اٹھایا گیا ہے۔ کے پی حکومت کے ترجمان، بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اعلان کیا ہے کہ صحت کارڈ پلس میں اب مزید چار مہنگے اور پیچیدہ امراض کا علاج بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق اب جگر، گردے اور بون میرو کی پیوند کاری کا علاج مکمل طور پر مفت فراہم کیا جائے گا، جبکہ آلۂ سماعت کی تنصیب بھی صحت کارڈ پلس کے دائرہ کار میں آ چکی ہے۔ بیرسٹر سیف نے مزید بتایا کہ مردان سے پائلٹ پراجیکٹ کے تحت او پی ڈی خدمات کا جلد آغاز کیا جا رہا ہے، جس سے شہریوں کو روزمرہ بیماریوں کے علاج میں بھی سہولت میسر آئے گی۔ انہوں نے بتایا کہ صحت کارڈ پلس کے تحت صوبے بھر کے 10.6 ملین خاندان مفت علاج کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ 2016 سے اب تک 42 لاکھ سے زائد افراد اس سہولت کا فائدہ اٹھا چکے ہیں اور 108 ارب روپے سے زائد رقم عوام کی صحت پر خرچ کی جا چکی ہے۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ ملک بھر میں پینل پر موجود 753 اسپتالوں میں خیبر پختونخوا کے عوام کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ صحت کارڈ پلس کے حوالے سے معلومات یا رہنمائی کے لیے شہری ٹول فری نمبر 0800-89898 پر چوبیس گھنٹے رابطہ کر سکتے ہیں۔
راولپنڈی پولیس اور منشیات فروشوں کے درمیان گٹھ جوڑ کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ منشیات فروشوں سے تعلقات کے الزامات پر سی پی او راولپنڈی، سید خالد ہمدانی نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 17 پولیس افسران و اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ برطرف کیے جانے والوں میں ایک سب انسپکٹر، چار اے ایس آئی، چار ہیڈ کانسٹیبل اور آٹھ کانسٹیبل شامل ہیں۔ راولپنڈی پولیس کے مطابق منشیات کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران اہلکاروں کی اسکروٹنی کی گئی، جس میں کچھ اہلکاروں کے منشیات فروشوں سے روابط سامنے آئے۔ اس انکشاف پر سینئر افسران پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم نے مکمل چھان بین کی۔ پولیس ترجمان کے مطابق تمام برطرف اہلکار تھانہ نیو ٹاؤن میں تعینات تھے۔ ایس ایچ او انوار الحق کو بھی اس اسکینڈل میں ملوث پائے جانے پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ سی پی او راولپنڈی نے بتایا کہ یہ تمام کارروائیاں پولیس کے اندرونی احتسابی نظام کے تحت عمل میں آئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ راولپنڈی پولیس منشیات کے خلاف بھرپور مہم جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 500 سے زائد منشیات فروشوں کو 10 سے 20 سال تک کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ اس مہم کو ہر سطح پر سراہا جا رہا ہے۔
پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ نے "16 گھنٹے میں جنوبی ایشیا کی تاریخی تبدیلی" کے عنوان سے ایک جامع رپورٹ جاری کی، جس کا اجرا سینیٹر مشاہد حسین سید نے کیا۔ اس رپورٹ میں حالیہ پاک بھارت کشیدگی، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے غلط اندازوں، اور پاکستان کی اسٹریٹجک برتری کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خطے میں جنگ کا امکان خارج از امکان قرار دیا گیا ہے کیونکہ دفاعی طاقت کا توازن بحال ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں مئی کے واقعات کو پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن اور شاندار لمحہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ نے مرتب کی ہے، جو چین اور خطے کے امور پر تحقیق کرنے والا ایک معروف تھنک ٹینک ہے اور جس کی بنیاد خود سینیٹر مشاہد حسین نے رکھی تھی۔ سینیٹر مشاہد حسین نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ پہلا ادارہ ہے جس نے اس نوعیت کی رپورٹ جاری کی ہے، جو پاک بھارت کشیدگی کے تمام پہلوؤں، بھارتی پالیسی کی ناکامیوں، اور پاکستان کی کامیاب دفاعی حکمت عملی کو سامنے لاتی ہے۔ انہوں نے اس صورتحال کو بھارت کے لیے 1962 میں چین کے ہاتھوں شکست کے بعد سب سے بڑی اسٹریٹجک ناکامی قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کی مربوط قیادت کو سراہا، جنہوں نے بین الافواج ہم آہنگی کے ساتھ حکمت عملی کو مؤثر انداز میں نافذ کیا۔ انہوں نے پاک فضائیہ کے پائلٹس کی تربیت، ان کے جذبے، اور جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال خصوصاً الیکٹرانک وارفیئر اور سائبر صلاحیتوں پر زور دیا۔ سینیٹر مشاہد حسین نے 1998 کے ایٹمی تجربات کے وقت کی قومی یکجہتی کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس بار بھی پاکستان نے مکمل منصوبہ بندی، ہم آہنگی اور عملدرآمد کے ذریعے دشمن کو مؤثر جواب دیا۔ دفتر خارجہ کی سفارت کاری اور پاکستانی میڈیا کے سنجیدہ اور ذمہ دارانہ کردار نے اس کامیابی کو مزید تقویت دی۔ انہوں نے عوام کے بلند حوصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ قوم نے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ چین نے پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا، جبکہ امریکہ نے ثالثی میں کردار ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا۔ رپورٹ میں تین اسٹریٹجک تبدیلیوں کو اجاگر کیا گیا ہے: پاکستان نے دفاعی توازن بحال کیا، چین مسئلہ کشمیر میں ایک عملی فریق کے طور پر سامنے آیا، اور امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں سے برابری کی سطح پر امن کے لیے کردار ادا کیا۔ رپورٹ میں ایک تین نکاتی حکمت عملی پیش کی گئی ہے جس میں متحرک سفارت کاری، خطے کے اہم ممالک سے مضبوط روابط، اور بھارت کے ہندوتوا نظریے کے خلاف قانونی اور سفارتی محاذ پر مؤثر بیانیہ شامل ہے۔ اس میں دریائے سندھ معاہدے پر قانونی حکمت عملی، اور عالمی فورمز پر بھارت کے انتہا پسند نظریات کو چیلنج کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جوہری طاقت کے توازن نے بھارتی جارحیت کو روکا اور جنوبی ایشیا میں استحکام قائم رکھا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ روایتی عسکری توازن بھی بحال کیا ہے، حالانکہ دونوں ممالک کے وسائل اور سائز میں نمایاں فرق ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ اگرچہ فی الحال جنگ کا امکان نہیں، تاہم بھارت کی غیر متوقع پالیسیوں کے پیش نظر مکمل چوکسی ضروری ہے۔ انہوں نے بھارت کی "3D حکمت عملی" — بدنامی، نقصان رسانی، اور عدم استحکام — کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب قومی اتحاد، سیاسی ہم آہنگی اور دہشتگردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی سے دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ کشیدگی نے پاکستانی عوام میں نئی خود اعتمادی، قومی شعور، اور فخر پیدا کیا ہے، جس کی بدولت قوم متحد ہو کر آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ رپورٹ 25 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد سے لے کر حالیہ کشیدگی تک کے تمام اہم واقعات کی تفصیل، عالمی ردعمل، اور تاریخی تناظر میں موازنہ شامل کیا گیا ہے۔ اس میں مودی کی سنگین سیاسی غلطی کو ہٹلر کے 1941 میں سوویت یونین پر حملے کے ساتھ جوڑا گیا ہے تاکہ تاریخ سے سبق سیکھا جا سکے۔ انہوں نے پاکستانی میڈیا کی غیرجانبدارانہ اور سچ پر مبنی رپورٹنگ کی بھی تعریف کی، جس نے اندرون اور بیرون ملک پاکستان کی ساکھ میں اضافہ کیا۔ یہ رپورٹ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ www.Pakistan-China.com پر دستیاب ہے۔
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان آئندہ مالی سال کے بجٹ اہداف پر مکمل اتفاق نہیں ہو سکا، تاہم آئی ایم ایف نے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایم ایف وفد کے حالیہ دورہ پاکستان کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ بجٹ سے متعلق معاملات پر بات چیت آئندہ دنوں میں بھی جاری رہے گی۔ اعلامیہ کے مطابق آئی ایم ایف وفد نے 19 مئی سے پاکستان کا دورہ کیا، جس کی قیادت نیتھن پورٹر نے کی۔ وفد نے پاکستانی حکام کے ساتھ موجودہ معاشی صورتحال، قرض پروگرام پر پیش رفت، اور آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق تفصیلی مذاکرات کیے۔ اعلامیہ میں مذاکرات کو تعمیری قرار دیا گیا۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان نے مالیاتی استحکام، سماجی تحفظ کو برقرار رکھنے، اور پرائمری سرپلس کو آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کے 1.6 فیصد تک لانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ مذاکرات کے دوران ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے، محصولات میں اضافہ کرنے، اور حکومتی اخراجات کو ترجیحی بنیادوں پر منظم کرنے پر بات چیت ہوئی۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی پر بھی زور دیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پائیدار ترقی اور مساوی کاروباری مواقع کی فراہمی کے لیے بھی اصلاحات زیر غور آئیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی جاری رکھنے، اور مہنگائی کو 5 سے 7 فیصد کے درمیان رکھنے پر زور دیا گیا۔ مزید یہ کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور فاریکس مارکیٹ کو مؤثر رکھنے کے لیے بھی پاکستانی حکام سے مشاورت کی گئی، جبکہ شرح تبادلہ میں لچک برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔ آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ قرض پروگرام اور ماحولیاتی مالیات (کلائمٹ فنانسنگ) سے متعلق آئندہ جائزہ مذاکرات 2025 کی دوسری ششماہی میں متوقع ہیں۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے بعض شعبوں میں ٹیکس رعایتوں کی درخواست کی، جن میں تنخواہ دار طبقہ اور رئیل اسٹیٹ شامل ہیں۔ تاہم آئی ایم ایف نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ کسی بھی ٹیکس رعایت کا فیصلہ فراہم کردہ ڈیٹا اور حکمت عملی کا جائزہ لینے کے بعد کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق فی الحال کوئی حتمی شرائط طے نہیں پائیں، البتہ حکومت نے آئی ایم ایف کو متعلقہ ڈیٹا فراہم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، آئی ایم ایف نے صوبوں کے اخراجات میں کمی اور آمدن بڑھانے پر زور دیا ہے، اور زرعی آمدن پر ٹیکس کے مؤثر نفاذ کے لیے اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا آغاز 15 مئی کو ورچوئل اجلاس سے ہوا تھا، جس کے بعد 19 مئی سے وفد نے اسلام آباد میں براہ راست بات چیت کا آغاز کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کو متنبہ کیا ہے کہ اگر امریکا میں فروخت ہونے والے آئی فون ملک کے اندر تیار نہ کیے گئے تو کمپنی کو 25 فیصد درآمدی ٹیرف ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی صدر نے یورپی یونین سے آنے والی مصنوعات پر بھی 50 فیصد ٹیرف کی سفارش کی ہے، جس سے عالمی مارکیٹوں میں دوبارہ کشیدگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر ایک پوسٹ میں لکھا: "میں نے ایپل کے سی ای او ٹم کک کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ مجھے توقع ہے کہ ان کے آئی فونز جو امریکا میں فروخت ہوں گے، وہ امریکا میں ہی تیار اور بنائے جائیں گے، نہ کہ بھارت یا کسی اور جگہ۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو ایپل کو کم از کم 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا ہوگا۔" ٹرمپ کے اس بیان کے بعد مارکیٹ میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ پری مارکیٹ ٹریڈنگ میں ایپل کے حصص کی قیمت میں 3.5 فیصد تک کمی واقع ہوئی، جبکہ دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حصص بھی نیچے چلے گئے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا کہ وہ یکم جون سے یورپی یونین سے درآمد ہونے والی اشیا پر 50 فیصد ٹیرف کی سفارش کریں گے۔ اس اقدام سے یورپی مینوفیکچررز کی تیار کردہ لگژری اشیا، ادویات اور دیگر سامان متاثر ہوں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا میں سالانہ 6 کروڑ سے زائد اسمارٹ فون فروخت ہوتے ہیں، لیکن ملک کے اندر ان کی تیاری کے لیے کوئی بڑا مینوفیکچرنگ پلانٹ موجود نہیں۔ ایپل نے رائٹرز کی جانب سے تبصرہ کی درخواست پر فوری جواب نہیں دیا۔ تاہم، ایک قریبی ذرائع نے بتایا کہ ایپل کا منصوبہ ہے کہ 2026 کے اختتام تک امریکا میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فونز بھارت میں قائم فیکٹریوں میں تیار کیے جائیں۔ یہ پیش رفت چین پر بڑھتے ٹیرف، سپلائی چین کے خدشات اور لاگت میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر کی جا رہی ہے۔ ایپل بھارت کو ایک متبادل مینوفیکچرنگ مرکز بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ جون 2025 کی سہ ماہی سے امریکا میں فروخت ہونے والے اس کے زیادہ تر اسمارٹ فونز بھارت سے درآمد ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا صدر ٹرمپ قانونی طور پر کسی انفرادی کمپنی پر ٹیرف عائد کر سکتے ہیں یا نہیں۔ تاہم، وائٹ ہاؤس متعدد ممالک کے ساتھ تجارتی مسائل پر گفت و شنید جاری رکھے ہوئے ہے، مگر ان میں کوئی واضح پیشرفت سامنے نہیں آئی۔
لاہور: عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر گزشتہ برس لاہور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شہر کو روشن کرنے کے لیے 34 کروڑ روپے کے بھاری اخراجات نے شفافیت اور ممکنہ فنڈز کے غلط استعمال پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مختلف محکموں، مذہبی تنظیموں اور تاجروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر روشنیوں کے انتظامات کیے اور کسی سرکاری امداد کا استعمال نہیں کیا۔ روزنامہ ڈان کے پاس موجود سرکاری دستاویزات میں ضلعی انتظامیہ کے دعووں اور زمینی حقائق میں واضح تضاد سامنے آیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق ابتدائی بجٹ کی منظوری صرف 10 کروڑ روپے کی تھی، تاہم حتمی ادائیگی 34 کروڑ روپے تک جا پہنچی، یعنی 240 فیصد اضافہ کیا گیا۔ انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ ابتدائی تخمینہ کم کیوں رکھا گیا اور بجٹ میں اس قدر اضافہ کس بنیاد پر کیا گیا۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور (MCL) نے گریٹر اقبال پارک میں روشنیوں اور جنریٹرز کی تنصیب پر 1 کروڑ 25 لاکھ 80 ہزار روپے کا بل جمع کروایا، مگر تحریک منہاج القرآن نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بین الاقوامی میلاد کانفرنس کے تین روزہ ایونٹ کے تمام انتظامات خود کیے، جن میں روشنی، صفائی اور باڑ کی مرمت تک شامل تھی۔ پارک انتظامیہ نے اس دعوے کی تصدیق کی۔ اسی طرح لاہور میوزیم (43 لاکھ)، اورنج لائن/ہائی کورٹ (35 لاکھ)، سول سیکریٹریٹ (51 لاکھ) کے لیے بھی بل جمع کروائے گئے، جبکہ متعلقہ حکام نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے بلڈنگز کو خود ہی سجایا اور کسی قسم کی MCL امداد نہیں ملی۔ ٹاؤن ہال پر معمولی سجاوٹ کے باوجود 30 لاکھ کا بل جمع کروایا گیا۔ تولنٹن مارکیٹ کے تاجروں نے بتایا کہ انہوں نے خود سجاوٹ کی، لیکن 39 لاکھ 50 ہزار روپے کا بل وصول کیا گیا۔ شہر کے مختلف زونز میں روشنیوں پر مبینہ اخراجات کی تفصیل یوں ہے: نشتر زون (42 لاکھ)، شالیمار زون (45 لاکھ)، گلبرگ (42 لاکھ)، راوی (64 لاکھ)، داتا گنج بخش (87 لاکھ)، سمن آباد (64 لاکھ)، علامہ اقبال ٹاؤن (81 لاکھ)، واہگہ (69 لاکھ)، عزیز بھٹی زون (64 لاکھ)۔ شہر کی اہم شاہراہوں پر بھی بھاری رقوم خرچ کی گئیں: میکلوڈ روڈ (1 کروڑ 80 لاکھ)، استنبول چوک تا گورنر ہاؤس (2 کروڑ 14 لاکھ)، فیروزپور تا جیل روڈ (2 کروڑ 23 لاکھ) حالانکہ ان راستوں پر پہلے سے مستقل لائٹس نصب تھیں۔ جنریٹرز کے لیے 16 کروڑ 27 لاکھ روپے صرف فیول پر خرچ کیے گئے، حالانکہ 2 ستمبر 2024 کے اجلاس میں لیسکو کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کی ہدایت دی گئی تھی۔ ڈی سی اور کمشنر لاہور کی سرکاری رہائش گاہوں کے لیے بھی 100 سے 150 کے وی اے کے نئے جنریٹرز لگائے گئے، حالانکہ وہاں پہلے ہی ہائی کیپیسٹی جنریٹرز موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لاگت میں اضافہ پہلے تخمینے کی غلطی کے باعث ہوا۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں دی کہ منظوری کے عمل میں کون سی کمیٹی شامل تھی یا زونل افسران کی سفارشات کی کیا قانونی حیثیت تھی۔ انہوں نے اس بات کا بھی جواب نہیں دیا کہ ACs کی عدم دستیابی کی صورت میں کس طرح ادائیگیاں منظور کی گئیں۔ ڈی سی کا کہنا تھا کہ تمام اخراجات محکمانہ قواعد کے تحت کیے گئے اور یہ گزشتہ دو برسوں کی نسبت کم ہیں۔ تاہم انہوں نے کوئی ثبوت یا رپورٹس فراہم نہیں کیں۔
بیجنگ – عالمی دفاعی صنعت میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے، اور چین اب ان شعبوں میں بھی مغربی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے جہاں طویل عرصے سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تکنیکی اور تجارتی برتری حاصل رہی ہے۔ ان میں نمایاں ترین شعبہ جنگی طیاروں کا ہے، جہاں چین کا تیار کردہ جدید چوتھی نسل کا ملٹی رول لڑاکا طیارہ جے-10 سی اب امریکی ایف-16 کے لیے ایک سنجیدہ عالمی حریف کے طور پر ابھرا ہے۔ امریکی دفاعی جریدے ’نیشنل انٹرسٹ‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، چین کی دفاعی صنعت نے نہ صرف تکنیکی میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے، بلکہ اپنی مصنوعات کی عالمی سطح پر فروخت اور اثر و رسوخ میں بھی تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین اب ان علاقوں میں مغرب کو پیچھے چھوڑ رہا ہے جنہیں ماضی میں امریکا کی خاص مہارت سمجھا جاتا تھا – جیسے کہ جدید جنگی طیارے، میزائل سسٹمز، اور ریڈار ٹیکنالوجی۔ جے-10 سی: ایک نیا عالمی کھلاڑی جے-10 سی، جسے چینگڈو ایئرکرافٹ انڈسٹری گروپ نے تیار کیا ہے، حالیہ برسوں میں چین کی فضائی طاقت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ یہ طیارہ جدید AESA ریڈار، پی ایل-15 جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایئر ٹو ایئر میزائل، اور اسٹیلتھ جیسی خصوصیات سے لیس ہے۔ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران جے-10 سی کی کارکردگی نے مغربی عسکری مبصرین کو حیران کر دیا، جب اس نے بھارت کی فضائی پیش قدمی کو مؤثر طور پر روکا۔ رپورٹ کے مطابق، اس طیارے نے اپنے مہنگے مغربی ہم منصبوں کو تکنیکی برتری کے بغیر بھی مؤثر طور پر ٹکر دی ہے، جس کی بنیادی وجہ اس کی لاگت، دستیابی اور بڑھتی ہوئی برآمدی صلاحیت ہے۔ امریکی ایف-16 کے لیے خطرہ امریکہ کا ایف-16، جو کئی دہائیوں سے عالمی ہتھیاروں کی برآمدات میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، اب جے-10 سی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خطرے میں ہے۔ 2024 کے دوران امریکا نے نیٹو اتحادیوں جیسے ترکی کو ایف-16 طیارے 23 ارب ڈالر سے زائد میں فروخت کیے، جو اس کی دفاعی برآمدات کا بڑا حصہ ہے۔ اگر چین ایف-16 کی عالمی فروخت میں کمی لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ امریکا کی دفاعی صنعت کے لیے ایک بڑا مالی دھچکہ ہو سکتا ہے۔ چین کی دفاعی حکمت عملی: معیار + مقدار ماضی میں چینی ہتھیاروں کو صرف "سستے مگر کم معیاری" سمجھا جاتا تھا، مگر اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ چین نے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی ہے بلکہ اس کی وسیع صنعتی صلاحیت اسے بڑے پیمانے پر اعلیٰ معیار کے ہتھیار پیدا کرنے کے قابل بھی بناتی ہے۔ یہی امتزاج اسے عالمی منڈی میں ایک ناقابل نظرانداز قوت بناتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغرب نے ماضی میں چین کو سستی مینوفیکچرنگ کے لیے استعمال کیا، مگر اب وہی صنعتی انفراسٹرکچر اور تحقیق و ترقی چین کے لیے ایک اسٹریٹجک برتری میں بدل چکی ہے۔ چین نے ابتدائی طور پر مغربی اور روسی ٹیکنالوجی کا مطالعہ کیا، مگر اب وہ خود اختراعات کے راستے پر گامزن ہے، اور کئی شعبوں میں ان پر سبقت لے چکا ہے۔ جے-10 سی جیسے ہتھیار نہ صرف تکنیکی سطح پر مغرب کو چیلنج کر رہے ہیں بلکہ عالمی فوجی و سیاسی اتحادوں میں بھی نئی صف بندیاں پیدا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے جے-10 سی کا حصول اور اس کی جنگی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ طیارہ نہ صرف مؤثر ہے بلکہ قابل اعتماد اور برآمدی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی سربراہی میں بننے والی صوبائی کابینہ اس وقت صرف 16 وزرا اور 5 معاونین خصوصی پر مشتمل ہے، جس پر مسلم لیگ (ن) کے کئی ارکان پنجاب اسمبلی (ایم پی ایز) ناراض اور مایوس نظر آ رہے ہیں۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں موجود پارٹی کے 205 ایم پی ایز میں سے تقریباً 60 سے 70 ارکان وزیراعلیٰ کے طرز حکمرانی سے مطمئن نہیں۔ وی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے پانچ ایم پی ایز بھی مریم نواز کے رویے اور گورننس سے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں عوامی نمائندوں کے مسائل کو سننے اور حل کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس سے عوامی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ ابتداء میں سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ پارٹی ارکان کے مسائل سنیں گی، تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے ایم پی ایز سے ملاقات سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ نے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ذیشان ملک کو یہ کام سونپا، مگر وہ بھی بے اختیار ہونے کے سبب کسی مسئلے کو حل نہ کر سکے۔ ارکانِ اسمبلی کا کہنا ہے کہ جب حلقے کے عوام ترقیاتی کاموں، ملازمتوں یا دیگر شکایات کے حل کے لیے ایم پی ایز سے رجوع کرتے ہیں تو وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں، جبکہ حکومت صرف پراجیکٹس کے اعلانات پر زور دے رہی ہے، زمین پر کچھ نظر نہیں آتا۔ کئی لیگی ایم پی ایز نے شکوہ کیا کہ کابینہ کے بیشتر وزرا اسمبلی اجلاسوں میں شریک ہی نہیں ہوتے، اور جب وزرا کی دلچسپی نہیں تو ارکان کی بھی حاضری کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ ایوان کو اہمیت نہیں دیتیں تو دوسرے وزرا یا معاونین سے کیا توقع رکھی جائے۔ پارٹی نے رانا ارشد کو چیف وہیب مقرر کیا ہے تاکہ ایوان میں حاضری بہتر ہو، مگر ارکان نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے تحفظات پہلے دور کیے جائیں۔ چند ارکان نے بتایا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان واحد شخصیت ہیں جن کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہے، اور ان کے توسط سے کچھ مسائل کا حل ممکن ہو رہا ہے، تاہم اصل مسائل وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں رکے ہوئے ہیں جہاں سے کوئی رسپانس نہیں آتا۔ ماضی کے حوالے سے ارکان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے دور میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ عملی کردار ادا کرتے تھے اور مسائل سنتے تھے۔ اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ بھی رابطے میں رہتے تھے۔ پی ٹی آئی دور میں بھی وزیر قانون راجہ بشارت دستیاب رہتے تھے۔ موجودہ حکومت میں وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد ظفر ڈال کو متعدد بار شکایات دی گئیں لیکن انہوں نے شنوائی نہیں کی۔ اسی طرح پی ایچ اے کے چیئرمین غزالی سلیم بٹ بھی اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے بے بس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ڈی جی ان سے تعاون نہیں کرتا اور متعدد بار سینیئر وزیر اور وزیراعلیٰ کو اطلاع دینے کے باوجود کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مزید برآں، صوبائی وزیر معدنیات شیر علی گوچانی بھی اپنے سیکریٹری سے ناخوش تھے اور شکایت کے باوجود ان کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ بعد ازاں اسپیکر ملک احمد خان نے سیکریٹری کو ہٹایا اور اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو متحرک کیا، جس کی سربراہی سمیع اللہ خان کر رہے ہیں۔ پارٹی کے سینئر ارکان، خصوصاً بزرگ ایم پی ایز نے بھی ایوان میں الگ گروپ بنا رکھا ہے جس کی قیادت سابق اسپیکر رانا محمد اقبال کر رہے ہیں۔ وہ بھی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے بجائے اسپیکر آفس سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ انہیں وہاں سے کچھ سننے کو ملتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی قابض افواج کی جانب سے جعلی انکاؤنٹرز، بلاجواز گرفتاریاں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں۔ 22 اپریل 2025 کو پیش آنے والے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارتی فورسز نے کریک ڈاؤن تیز کرتے ہوئے اب تک 48 کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا ہے، جب کہ 2 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق، صرف گزشتہ ہفتے بھارتی فورسز نے 6 مختلف اضلاع میں جعلی مقابلوں کے دوران کم از کم 5 نوجوانوں کو شہید کیا۔ شہید نوجوانوں کے اہل خانہ نے بتایا کہ ان کے پیارے بے گناہ تھے، جنہیں بلاجواز اٹھا کر جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے مارا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کی جانب سے موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کا سلسلہ بھی جاری ہے تاکہ زمینی حقائق دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھے جا سکیں۔ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران فورسز نے 40 سے زائد گھروں پر چھاپے مارے اور 25 نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ دی اکنامک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ تین روز میں بھارتی فوج نے مختلف کارروائیوں میں 60 سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔ اسی طرح الجزیرہ نے رپورٹ کیا ہے کہ 22 اپریل 2025 سے اب تک 2000 سے زائد کشمیری نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سرچ آپریشنز کے دوران بھارتی فورسز نے خواتین اور بزرگوں پر بھی تشدد کیا، جس سے مقامی آبادی میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق، 15 مئی 2025 کو بھارتی فوج نے پلوامہ میں ایک اور کارروائی میں 3 کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کا دائرہ مسلسل پھیلایا جا رہا ہے، اور کئی علاقوں کو مکمل طور پر محصور کر کے رکھا گیا ہے۔ ان تمام اقدامات نے بھارت کے اس دعوے کی نفی کر دی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں امن بحال کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، صحافتی ادارے اور مبصرین ان کارروائیوں کو ریاستی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں، تاہم عالمی برادری کی خاموشی نے کشمیریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھارتی نیوی کی جانب سے روہنگیا مہاجرین کو بحیرہ انڈمان میں سمندر میں پھینکنے کی اطلاعات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی باضابطہ تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی نیوی کے اہلکاروں کی جانب سے روہنگیا مہاجرین کے ساتھ پیش آنے والا سلوک بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس پر عالمی سطح پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ اقدامات غیر انسانی، ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔ یہ تصور ہی لرزہ خیز ہے کہ کسی قوم سے بے دخل کیے گئے، ظلم و جبر کا شکار افراد کو کھلے سمندر میں پھینک دیا جائے۔‘‘ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق یہ واقعہ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں اور مہاجرین سے متعلق بنیادی اصولوں اور انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے خلاف ہے۔ کمیشن نے زور دیا کہ روہنگیا مہاجرین کی حالت زار پہلے ہی انتہائی ابتر ہے، اور ایسے اقدامات ان کے لیے مزید خطرناک حالات پیدا کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سنگین واقعے کی مکمل، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے، ذمہ داروں کا تعین کرے، اور عالمی برادری کو اس معاملے پر وضاحت پیش کرے۔ مزید کہا گیا ہے کہ ’’بھارت کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق اور مہاجرین کے تحفظ سے متعلق عالمی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لے، اور ایسے انسانیت سوز اقدامات کو فوری طور پر بند کرے۔‘‘ یاد رہے کہ بھارت ماضی میں بھی روہنگیا مہاجرین کو پناہ دینے کے بجائے حراستی مراکز میں رکھنے یا واپس بھیجنے کی پالیسی پر عالمی تنقید کا سامنا کرتا رہا ہے۔ اس تازہ واقعے نے ایک بار پھر انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھارت کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے بین الاقوامی برادری سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مہاجرین کی مدد کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور ایسے واقعات پر بھارت سمیت دیگر ریاستوں کو عالمی قوانین کی پاسداری کا پابند بنائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے کھلے الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے ججز کے درمیان تنازع موجود ہے، اور اس حقیقت سے انکار محض دکھاوا ہوگا۔ یہ غیر معمولی ریمارکس اُنہوں نے توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران دیے جو ان کے سنگل بینچ سے ہٹا کر ڈویژن بینچ کو منتقل کیا گیا تھا۔ توہینِ عدالت کی یہ کارروائی اُس وقت زیرِ غور آئی جب عدالت میں ڈپٹی رجسٹرار اور دیگر افسران پیش ہوئے۔ جسٹس اعجاز اسحٰق نے انکشاف کیا کہ عدالت سے انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کی حقیقت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا، حالانکہ یہ اپیل ایک عبوری حکم کے خلاف دائر کی گئی تھی، جو قانونی طور پر ناقابلِ سماعت ہے۔ جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے واضح انداز میں کہا کہ ڈویژن بینچ کا یہ فیصلہ ان کی عدالت کی اتھارٹی کے خلاف ہے اور یہ اقدام اختیار سے تجاوز کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا: "اگر میں اس تجاوز کو قبول کرلوں تو میری عدالت پر سائلین کا اعتماد کیوں باقی رہے گا؟ کل کو کوئی میرے حکم پر عمل کیوں کرے گا، جب کہ کسی بھی وقت کوئی دوسرا بینچ میرے جاری کردہ آرڈر کو معطل کر سکتا ہے؟" فاضل جج نے ڈپٹی اور ایڈیشنل رجسٹرار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کر کے عدالت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پہلے ہی انہیں تسلی دی تھی کہ ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، مگر اس کے باوجود اپیل دائر کی گئی، یا شاید اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے برملا کہا کہ: "یہ کورٹ نمبر 5 ہے، چاہے یہاں میں بیٹھا ہوں یا کوئی اور، جب معاملہ ڈویژن بینچ میں گیا تو اس عدالت کی نمائندگی کیوں موجود نہیں تھی؟ یکطرفہ آرڈر جاری ہوا اور پھر بعد میں اس عدالت کو بتایا گیا کہ کارروائی روک دی گئی ہے۔ عبوری آرڈر کے خلاف اپیل ویسے بھی ناقابلِ سماعت ہے، یہ بات 30 سال کی سروس والے رجسٹرارز کو کیوں نہیں معلوم؟ کیا ڈویژن بینچ بھی اس سے لاعلم تھا؟" عدالتی معاون نے اس موقع پر رائے دی کہ ڈویژن بینچ کے حکم میں ابہام موجود ہے، اس لیے جب تک وضاحت نہ ہو، کارروائی مؤخر کر دی جائے تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ عدالت کے اندر اختلاف ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے صاف الفاظ میں کہا: "ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں ہے؟" انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس توہینِ عدالت کی کارروائی کو آگے بڑھائیں گے اور تحریری فیصلہ دیں گے، جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ آیا چیف جسٹس کے پاس ایک جج سے توہینِ عدالت کی کارروائی واپس لینے کا اختیار ہے یا نہیں۔ ان کے بقول، یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ادارہ جاتی وقار اور قانونی دائرہ اختیار کی بنیاد پر ایک سنجیدہ حملے کے مترادف ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے داخلی ماحول کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ عدالتی نظام میں اختیارات کے توازن پر بھی سنگین سوالات اٹھا رہی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اگر یہ تنازع جلد حل نہ ہوا تو اس کا اثر نہ صرف ہائی کورٹ کے وقار بلکہ عوامی اعتماد پر بھی پڑ سکتا ہے۔
پاکستان ادارہ شماریات (PBS) کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال 2025 کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی 2024 تا مارچ 2025) کے دوران بڑی صنعتوں کی مجموعی پیداوار میں 1.47 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو ملکی معیشت کے لیے تشویشناک اشارہ تصور کیا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2025 میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں ماہانہ بنیاد پر 4.64 فیصد کی نمایاں کمی دیکھی گئی، جو فروری 2025 کے مقابلے میں تنزلی کی طرف اشارہ ہے۔ تاہم، سالانہ بنیاد پر یعنی مارچ 2024 کے مقابلے مارچ 2025 میں صنعتوں کی پیداوار میں 1.79 فیصد بہتری بھی دیکھی گئی، جو جزوی اطمینان بخش پہلو ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق بڑی صنعتوں کی کارکردگی میں کمی کے باوجود چند اہم صنعتی شعبوں نے مثبت نمو دکھائی ہے۔ خاص طور پر آٹوموبائل سیکٹر میں جولائی تا مارچ کے دوران پیداوار میں 40 فیصد کا قابلِ ذکر اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو ممکنہ طور پر اندرونی طلب میں بہتری، گاڑیوں کی دستیابی، اور آٹو فنانسنگ میں نرمی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کے شعبے میں بھی مثبت رجحان دیکھنے میں آیا، جہاں پیداوار میں 13.2 فیصد اضافہ ہوا۔ ٹیکسٹائل پاکستان کی برآمدی صنعت کا ستون مانا جاتا ہے، اور اس شعبے میں بہتری بیرونی تجارت کے لیے بھی خوش آئند سمجھی جا رہی ہے۔ ملبوسات کی صنعت میں بھی ترقی دیکھی گئی، جس کی پیداوار میں 7.6 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس اضافے کا تعلق ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ملبوسات کی مانگ میں اضافے سے جوڑا جا رہا ہے۔ تاہم، ان چند شعبوں کی مثبت کارکردگی کے باوجود بڑی صنعتوں کی مجموعی صورتحال اب بھی نازک ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی مکمل بحالی کے لیے توانائی کی قیمتوں میں کمی، پالیسی استحکام اور برآمدی مراعات ضروری ہیں۔
پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف دباؤ بڑھانے کی نئی حکمت عملی کے تحت دریائے چناب سے پاکستان کو ملنے والے پانی میں کمی کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ معروف عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، بھارت نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرتے ہوئے ایسے نئے منصوبوں پر غور شروع کر دیا ہے جن سے پاکستان کے لیے مختص پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نئی دہلی نے اس واقعے کو، جس میں مسلح افراد نے 26 سیاحوں کو ہلاک کیا، پاکستان سے جوڑتے ہوئے اسے بنیاد بنا کر آبی معاہدے کو معطل کر دیا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے، تاہم بھارت نے پاکستانی سرزمین پر ڈرون اور میزائل حملے کیے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھرپور فوجی ردعمل دیا۔ پاکستان نے چھ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرانے اور متعدد میزائل داغنے کا دعویٰ کیا۔ صورتحال میں مزید شدت اس وقت آئی جب بھارت نے دریاؤں پر نئے آبی منصوبے شروع کرنے کے احکامات جاری کیے۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے 22 اپریل کے حملے کے فوراً بعد حکام کو ہدایت کی کہ وہ دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں تیزی لائیں۔ یہ وہی دریا ہیں جن کے پانی پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق بھارت دریائے چناب سے نکلنے والی رنبیر نہر کی لمبائی کو دوگنا کر کے 120 کلومیٹر تک بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ نہر بھارتی علاقے سے گزرتی ہوئی پاکستان کے زرعی مرکز پنجاب تک پہنچتی ہے۔ یہ نہر انیسویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی اور معاہدے سے بہت پہلے وجود میں آ چکی تھی۔ موجودہ معاہدے کے تحت بھارت کو اس نہر سے آبپاشی کے لیے محدود مقدار میں پانی نکالنے کی اجازت ہے، جو اس وقت تقریباً 40 کیوبک میٹر فی سیکنڈ ہے، لیکن مجوزہ توسیع کے بعد یہ مقدار 150 کیوبک میٹر فی سیکنڈ تک بڑھ سکتی ہے۔ بھارت نے اس کے علاوہ بھی متعدد آبی منصوبوں پر غور شروع کر دیا ہے۔ رائٹرز کو دستیاب سرکاری دستاویزات اور اس معاملے سے باخبر افراد کے مطابق، بھارت ان منصوبوں پر سنجیدگی سے کام کر رہا ہے جن کا مقصد پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو کم کرنا ہے۔ ان میں چناب اور جہلم کے معاون دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر شامل ہے۔ وزارتِ بجلی کی ایک اندرونی دستاویز کے مطابق، بھارت نے کم از کم پانچ مقامات کی نشاندہی کر لی ہے جہاں یہ ڈیم تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے چار مقامات دریائے چناب اور ایک دریائے جہلم کے معاون ندی پر واقع ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے میں ہائیڈرو پاور منصوبوں کی ایک تفصیلی فہرست تیار کر لی ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد بھارت کی بجلی پیداوار 3360 میگاواٹ سے بڑھ کر 12000 میگاواٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اس ہفتے پارلیمان کو بتایا کہ اسلام آباد نے بھارت کو خط لکھ کر معاہدے کی معطلی کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور اسے ناقابل قبول سمجھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کو اب بھی مؤثر مانتا ہے اور بھارت کی کسی بھی خلاف ورزی کو ’جنگی اقدام‘ تصور کرے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان منصوبوں پر عمل درآمد میں کئی سال لگ سکتے ہیں، تاہم بھارت کی یہ حکمت عملی پاکستان پر سفارتی، آبی اور معاشی دباؤ ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ امریکہ میں قائم سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے آبی امور کے ماہر ڈیوڈ مشیل کے مطابق، ایسے منصوبوں کی تعمیر میں وقت ضرور لگے گا، لیکن ان کے اثرات دیرپا اور سنگین ہوں گے۔ مئی کے آغاز میں بھارت کی جانب سے سندھ پر قائم پروجیکٹس میں مرمت کے باعث پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں 90 فیصد تک کی عارضی کمی واقع ہوئی تھی، جس نے پاکستان کو خطرے کا پیشگی اشارہ دے دیا ہے کہ اگر بھارت اس طرح کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے تو پاکستانی زراعت، بجلی، اور ماحولیات پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ ورلڈ بینک، جو اس معاہدے کا ضامن تھا، مستقل ثالثی عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس معاملے کو اٹھانے کے لیے قانونی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان کا 80 فیصد زرعی نظام اور تقریباً تمام ہائیڈرو پاور منصوبے دریائے سندھ کے پانی پر انحصار کرتے ہیں، اور بھارت کی جانب سے اس بہاؤ میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو پاکستان اپنی بقا کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے ضابطوں میں کی گئی حالیہ تبدیلی کے باعث جسٹس عائشہ اے ملک کا انتخابی فہرست میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیا گیا اختلافی نوٹ 9 مئی تک عوام کے سامنے نہیں آ سکا۔ ذرائع کے مطابق، عدالتِ عظمیٰ نے یہ تبدیلیاں ججوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے تاثر کو کم کرنے کے لیے کی ہیں۔ نئے ضوابط کے تحت کسی بھی بنچ کے سینئر ترین جج کی منظوری کے بغیر کسی اختلافی یا اضافی نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس یحیی آفریدی نے ججز کو اختلافی نوٹ دینے سے روکنے کے لیے پالیسی آپشن بھی جاری کروا دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسا کئی بار ہوا کہ اختلافی نوٹس سماعت کے دوران ہی جاری کر دیے گئے، جس سے عدالت کی تقسیم شدہ رائے کا تاثر پیدا ہوا اور مقدمے کے آغاز ہی سے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا امکان بڑھ گیا۔ خاص طور پر جسٹس عمر عطا بندیال کے چیف جسٹس کے دور میں یہ رجحان زیادہ نمایاں رہا، جب جج صاحبان کے اختلافی نوٹ بغیر کسی تاخیر کے ویب سائٹ پر جاری کیے جاتے تھے۔ اس عمل سے بعض اوقات بنچ کی تعداد کم ہو جاتی تھی اور یہ بحث چھڑ جاتی تھی کہ اکثریتی فیصلہ کون سا ہے اور اقلیتی رائے کیا ہے۔ ایسا ہی واقعہ 6 مئی کو پیش آیا، جب جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی نے مسلم لیگ (ن)، الیکشن کمیشن اور پیپلز پارٹی کی نظرثانی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور عندیہ دیا کہ وہ بعد میں اپنی تفصیلی وجوہات فراہم کریں گے۔ ان دونوں ججوں کے فیصلے کے بعد 13 رکنی آئینی بنچ کی تعداد کم ہو کر 11 رہ گئی۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے 9 مئی کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو تحریری شکایت میں بتایا کہ اُن کا اختلافی نوٹ 8 مئی کو شام 3 بج کر 11 منٹ پر جاری کیا گیا تھا اور آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کو فوراً اسے اپ لوڈ کرنا چاہیے تھا۔ تاہم بار بار یاد دہانی کے باوجود یہ نوٹ جمعے کی صبح تک ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا۔ نئے ضوابط کے تحت اب ایسے تمام اختلافی نوٹس کو سینئر جج کی منظوری کے بغیر ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا جائے گا، تاکہ عدالتی کارروائی کے دوران ججوں کی رائے عام ہونے سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بچا جا سکے۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے کراچی پورٹ پر حملے کی تیاری کرتے ہوئے اپنا مغربی بحری بیڑا شمالی بحیرہ عرب میں پاکستانی ساحل کے قریب تعینات کر دیا ہے، جس سے خطے میں کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی بحری بیڑے میں ایک ایئرکرافٹ کریئر، کئی ڈسٹرائرز، فریگیٹس اور اینٹی سب میرین جنگی جہاز شامل ہیں۔ ان میں سے بعض جہازوں پر جدید براہموس سپرسونک کروز میزائل نصب ہیں، جو 500 میل تک اپنے ہدف کو انتہائی تیز رفتاری سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ برطانوی اخبار کے مطابق یہ بحری بیڑا کراچی کے ساحل سے تقریباً 300 سے 400 میل کے فاصلے پر موجود ہے، جو کسی بھی ممکنہ کارروائی کے لیے ایک اسٹریٹیجک پوزیشن سمجھی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے اس اقدام نے نہ صرف دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کی فوجی نقل و حرکت کسی بھی غلط فہمی یا اشتعال انگیز واقعے کی صورت میں کھلی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
لسبیلہ – بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے شہر اوتھل میں حمام کی ایک دکان پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے تین افراد جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہو گیا۔ واقعہ ہسپتال روڈ پر پیش آیا، جس نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) لسبیلہ، عاطف امیر نے ڈان نیوز کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ نامعلوم حملہ آوروں نے اچانک حمام پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں تین افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے، جبکہ ایک شدید زخمی کو طبی امداد کے لیے قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایس ایس پی کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد میں دو کا تعلق صوبہ پنجاب جبکہ ایک کا تعلق کوئٹہ، بلوچستان سے ہے۔ تینوں افراد پچھلے پندرہ سال سے اوتھل میں مقیم تھے اور مقامی کمیونٹی کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔ پولیس نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کر لیے ہیں جبکہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ عاطف امیر کا کہنا ہے کہ واقعے کی مکمل تفتیش جاری ہے اور جلد ہی ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ تاحال کسی گروہ یا فرد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تمام پہلوؤں سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
انڈین فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے آٹھ اور نو مئی کی درمیانی شب مغربی سرحد پر بڑے پیمانے پر فضائی دراندازی کی کوشش کی، جس میں 300 سے 400 ڈرونز استعمال کیے گئے، جن میں مبینہ طور پر ترک ساختہ ڈرونز بھی شامل تھے۔ انڈین فوج کی جانب سے جاری کی گئی ایک بریفنگ میں کرنل صوفیہ قریشی نے دعویٰ کیا کہ ان ڈرونز نے لیہ سے لے کر سرکریک تک 36 مقامات پر انڈین ایئر اسپیس کی خلاف ورزی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ڈرونز کا مقصد انڈیا کے فوجی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا اور ان کے فضائی دفاعی نظام کی جانچ کرنا تھا۔ کرنل قریشی نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول پر ہیوی اسلحے سے حملہ بھی کیا گیا۔ انڈین فوج کے مطابق متعدد ڈرونز کو مار گرایا گیا ہے اور ان کے ملبے کا فرانزک تجزیہ جاری ہے۔ بریفنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دراندازی میں ترک ساختہ "اسیسگارڈ سونگار" ڈرون استعمال کیے گئے، جبکہ ایک غیر مسلح پاکستانی گاڑی نے بھٹنڈہ فوجی سٹیشن کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، جسے بروقت نشاندہی کر کے ناکام بنا دیا گیا۔ انڈین فوج نے مزید دعویٰ کیا کہ پاکستان کے حملے کے جواب میں انڈیا نے مسلح ڈرونز کے ذریعے پاکستانی ایئر ڈیفنس سائٹس کو نشانہ بنایا، جس دوران ایک پاکستانی ایرے ریڈار کو تباہ کر دیا گیا۔ کرنل قریشی نے الزام لگایا کہ پاکستان اپنی فضائی حدود کو کھول کر اسے دفاعی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جو کہ ایک سنگین سیکورٹی خطرہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے انڈیا کی جانب سے ڈرون اور میزائل حملوں کے الزام کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ صرف لائن آف کنٹرول پر شیلنگ کے جواب میں ’انڈین فوجی چوکیوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے جوابی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘ ترک میڈیا ٹی آر ٹی سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے الزام لگایا کہ لائن آف کنٹرول پر انڈین فوج عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے جس کے جواب میں پاکستانی فوج ’گولہ باری میں ملوث صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ڈرون یا راکٹ حملوں میں ملوث نہیں۔ پاکستان لائن آف کنٹرول پر صرف چھوٹے ہتھیاروں سے انڈین فوج کی چوکیوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو سویلین آبادی پر فائرنگ کر رہی ہے۔‘ انھوں نے اِن الزامات کی تردید کی جس میں انڈیا نے پاکستان پر تین فوجی اڈوں پر حملوں کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر چیز کا الیکٹرانک سگنل ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کی طرف سے میزائل حملے کیے جاتے تو وہاں الیکٹرانک سگنل ہونا چاہیے۔ انڈین میڈیا نے پاکستانی طیارے گرانے کا دعویٰ کیا لیکن وہاں ملبہ کہاں ہے۔ اگر انڈیا نے ہمارے پائلٹ کو پکڑ لیا ہے تو وہاں کوئی لوگ ہونے چاہییں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے تاحال ایسے شواہد پیش نہیں کیے جو پہلگام حملے کو پاکستان سے جوڑتے ہوں۔ ’دو ریاستوں کے معاملے میں انڈیا کو خود ہی جیوری اور جج بن کر فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت کے ساتھ مکمل جنگ کے امکان کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ امریکی نیوز آؤٹ لیٹ 'سی این این' کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا، لیکن بھارت صورتحال کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مکمل جنگ کے لیے بھرپور طریقے سے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک-بھارت تنازع ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ بھارت نے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرکے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، اور دہلی حکومت مسلسل کشیدگی بڑھا رہی ہے۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے، لیکن بھارت مسلسل ایسے اقدامات کر رہا ہے جن سے تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مکمل جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب اندھیرے میں پاکستان کے شہری علاقوں پر حملہ کر کے جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ بھارتی حملے کے بعد پاکستان کی مسلح افواج نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے تین رافیل طیاروں سمیت پانچ جنگی طیارے گرا دیے، جب کہ ایک بریگیڈ ہیڈکوارٹر اور متعدد فوجی چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا۔ بھارتی فوج نے ایل او سی کے چورا کمپلیکس پر سفید جھنڈا لہرا کر شکست تسلیم کر لی تھی۔ اس کے علاوہ قومی سلامتی کمیٹی نے پاک فوج کو جوابی کارروائی کے لیے مکمل اختیارات دے دیے ہیں، اور پاکستان نے بھارت کے حملے کا بھرپور جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ایک اعلیٰ فرانسیسی انٹیلیجنس اہلکار نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا ہے کہ پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے زیرِ استعمال ایک رافیل جنگی طیارہ مار گرایا ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ثابت ہوتی ہے تو یہ پہلا موقع ہوگا جب جدید فرانسیسی ساختہ رافیل طیارہ کسی لڑائی میں تباہ ہوا ہو۔ پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھارتی فضائی حملوں کے جواب میں بھارتی فضائیہ کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے، جن میں تین رافیل طیارے شامل ہیں۔ بھارتی حکام کی جانب سے تاحال اس دعوے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ فرانسیسی اہلکار کے مطابق پیرس میں حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا پاکستان نے صرف ایک نہیں بلکہ ایک سے زائد رافیل طیارے مار گرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزید شواہد کی جانچ جاری ہے۔ ادھر، مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہونے والے ایک طیارے کے ملبے سے ملنے والے پرزوں کی تصاویر منظر عام پر آئی ہیں، جن پر فرانسیسی کمپنی کا لیبل نمایاں ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرزوں کی بنیاد پر حتمی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ رافیل طیارے سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری جانب، رافیل طیارے تیار کرنے والی معروف فرانسیسی کمپنی ڈاسالٹ ایوی ایشن نے سی این این کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ یاد رہے کہ رافیل طیارہ دنیا کے جدید ترین لڑاکا طیاروں میں شمار ہوتا ہے، جسے بھارت نے فرانس سے اربوں ڈالر کے معاہدے کے تحت حاصل کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس معاہدے پر بھی سوالات اٹھنے کا امکان ہے۔

Back
Top