
اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے کھلے الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے ججز کے درمیان تنازع موجود ہے، اور اس حقیقت سے انکار محض دکھاوا ہوگا۔ یہ غیر معمولی ریمارکس اُنہوں نے توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران دیے جو ان کے سنگل بینچ سے ہٹا کر ڈویژن بینچ کو منتقل کیا گیا تھا۔
توہینِ عدالت کی یہ کارروائی اُس وقت زیرِ غور آئی جب عدالت میں ڈپٹی رجسٹرار اور دیگر افسران پیش ہوئے۔ جسٹس اعجاز اسحٰق نے انکشاف کیا کہ عدالت سے انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کی حقیقت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا، حالانکہ یہ اپیل ایک عبوری حکم کے خلاف دائر کی گئی تھی، جو قانونی طور پر ناقابلِ سماعت ہے۔
جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے واضح انداز میں کہا کہ ڈویژن بینچ کا یہ فیصلہ ان کی عدالت کی اتھارٹی کے خلاف ہے اور یہ اقدام اختیار سے تجاوز کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا:
"اگر میں اس تجاوز کو قبول کرلوں تو میری عدالت پر سائلین کا اعتماد کیوں باقی رہے گا؟ کل کو کوئی میرے حکم پر عمل کیوں کرے گا، جب کہ کسی بھی وقت کوئی دوسرا بینچ میرے جاری کردہ آرڈر کو معطل کر سکتا ہے؟"
فاضل جج نے ڈپٹی اور ایڈیشنل رجسٹرار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کر کے عدالت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے پہلے ہی انہیں تسلی دی تھی کہ ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، مگر اس کے باوجود اپیل دائر کی گئی، یا شاید اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
انہوں نے برملا کہا کہ:
"یہ کورٹ نمبر 5 ہے، چاہے یہاں میں بیٹھا ہوں یا کوئی اور، جب معاملہ ڈویژن بینچ میں گیا تو اس عدالت کی نمائندگی کیوں موجود نہیں تھی؟ یکطرفہ آرڈر جاری ہوا اور پھر بعد میں اس عدالت کو بتایا گیا کہ کارروائی روک دی گئی ہے۔ عبوری آرڈر کے خلاف اپیل ویسے بھی ناقابلِ سماعت ہے، یہ بات 30 سال کی سروس والے رجسٹرارز کو کیوں نہیں معلوم؟ کیا ڈویژن بینچ بھی اس سے لاعلم تھا؟"
عدالتی معاون نے اس موقع پر رائے دی کہ ڈویژن بینچ کے حکم میں ابہام موجود ہے، اس لیے جب تک وضاحت نہ ہو، کارروائی مؤخر کر دی جائے تاکہ یہ تاثر نہ جائے کہ عدالت کے اندر اختلاف ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے صاف الفاظ میں کہا:
"ججز میں تنازع ہے، میں کیوں دکھاوا کروں کہ تنازع نہیں ہے؟"
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس توہینِ عدالت کی کارروائی کو آگے بڑھائیں گے اور تحریری فیصلہ دیں گے، جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ آیا چیف جسٹس کے پاس ایک جج سے توہینِ عدالت کی کارروائی واپس لینے کا اختیار ہے یا نہیں۔ ان کے بقول، یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ادارہ جاتی وقار اور قانونی دائرہ اختیار کی بنیاد پر ایک سنجیدہ حملے کے مترادف ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے داخلی ماحول کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ عدالتی نظام میں اختیارات کے توازن پر بھی سنگین سوالات اٹھا رہی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اگر یہ تنازع جلد حل نہ ہوا تو اس کا اثر نہ صرف ہائی کورٹ کے وقار بلکہ عوامی اعتماد پر بھی پڑ سکتا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.dawn.com/primary/2025/05/16155626dc8474c.jpg