مریم نواز کی طرز حکمرانی سے نالاں لیگی ایم پی ایز کی ناراضگی بڑھنے لگی

Untitled-design-141732012115-0.jpg

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی سربراہی میں بننے والی صوبائی کابینہ اس وقت صرف 16 وزرا اور 5 معاونین خصوصی پر مشتمل ہے، جس پر مسلم لیگ (ن) کے کئی ارکان پنجاب اسمبلی (ایم پی ایز) ناراض اور مایوس نظر آ رہے ہیں۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں موجود پارٹی کے 205 ایم پی ایز میں سے تقریباً 60 سے 70 ارکان وزیراعلیٰ کے طرز حکمرانی سے مطمئن نہیں۔

وی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے پانچ ایم پی ایز بھی مریم نواز کے رویے اور گورننس سے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں عوامی نمائندوں کے مسائل کو سننے اور حل کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس سے عوامی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1923645616439378074
ابتداء میں سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ پارٹی ارکان کے مسائل سنیں گی، تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے ایم پی ایز سے ملاقات سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ نے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ذیشان ملک کو یہ کام سونپا، مگر وہ بھی بے اختیار ہونے کے سبب کسی مسئلے کو حل نہ کر سکے۔

ارکانِ اسمبلی کا کہنا ہے کہ جب حلقے کے عوام ترقیاتی کاموں، ملازمتوں یا دیگر شکایات کے حل کے لیے ایم پی ایز سے رجوع کرتے ہیں تو وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں، جبکہ حکومت صرف پراجیکٹس کے اعلانات پر زور دے رہی ہے، زمین پر کچھ نظر نہیں آتا۔

کئی لیگی ایم پی ایز نے شکوہ کیا کہ کابینہ کے بیشتر وزرا اسمبلی اجلاسوں میں شریک ہی نہیں ہوتے، اور جب وزرا کی دلچسپی نہیں تو ارکان کی بھی حاضری کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ ایوان کو اہمیت نہیں دیتیں تو دوسرے وزرا یا معاونین سے کیا توقع رکھی جائے۔

پارٹی نے رانا ارشد کو چیف وہیب مقرر کیا ہے تاکہ ایوان میں حاضری بہتر ہو، مگر ارکان نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے تحفظات پہلے دور کیے جائیں۔

چند ارکان نے بتایا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان واحد شخصیت ہیں جن کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہے، اور ان کے توسط سے کچھ مسائل کا حل ممکن ہو رہا ہے، تاہم اصل مسائل وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں رکے ہوئے ہیں جہاں سے کوئی رسپانس نہیں آتا۔

ماضی کے حوالے سے ارکان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے دور میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ عملی کردار ادا کرتے تھے اور مسائل سنتے تھے۔ اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ بھی رابطے میں رہتے تھے۔ پی ٹی آئی دور میں بھی وزیر قانون راجہ بشارت دستیاب رہتے تھے۔ موجودہ حکومت میں وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد ظفر ڈال کو متعدد بار شکایات دی گئیں لیکن انہوں نے شنوائی نہیں کی۔

اسی طرح پی ایچ اے کے چیئرمین غزالی سلیم بٹ بھی اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے بے بس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ڈی جی ان سے تعاون نہیں کرتا اور متعدد بار سینیئر وزیر اور وزیراعلیٰ کو اطلاع دینے کے باوجود کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

مزید برآں، صوبائی وزیر معدنیات شیر علی گوچانی بھی اپنے سیکریٹری سے ناخوش تھے اور شکایت کے باوجود ان کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ بعد ازاں اسپیکر ملک احمد خان نے سیکریٹری کو ہٹایا اور اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو متحرک کیا، جس کی سربراہی سمیع اللہ خان کر رہے ہیں۔

پارٹی کے سینئر ارکان، خصوصاً بزرگ ایم پی ایز نے بھی ایوان میں الگ گروپ بنا رکھا ہے جس کی قیادت سابق اسپیکر رانا محمد اقبال کر رہے ہیں۔ وہ بھی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے بجائے اسپیکر آفس سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ انہیں وہاں سے کچھ سننے کو ملتا ہے۔
 

Back
Top