
لاہور: عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر گزشتہ برس لاہور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شہر کو روشن کرنے کے لیے 34 کروڑ روپے کے بھاری اخراجات نے شفافیت اور ممکنہ فنڈز کے غلط استعمال پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مختلف محکموں، مذہبی تنظیموں اور تاجروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر روشنیوں کے انتظامات کیے اور کسی سرکاری امداد کا استعمال نہیں کیا۔
روزنامہ ڈان کے پاس موجود سرکاری دستاویزات میں ضلعی انتظامیہ کے دعووں اور زمینی حقائق میں واضح تضاد سامنے آیا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1925107339188687196
دستاویزات کے مطابق ابتدائی بجٹ کی منظوری صرف 10 کروڑ روپے کی تھی، تاہم حتمی ادائیگی 34 کروڑ روپے تک جا پہنچی، یعنی 240 فیصد اضافہ کیا گیا۔ انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ ابتدائی تخمینہ کم کیوں رکھا گیا اور بجٹ میں اس قدر اضافہ کس بنیاد پر کیا گیا۔
https://twitter.com/x/status/1925140270313521632
میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور (MCL) نے گریٹر اقبال پارک میں روشنیوں اور جنریٹرز کی تنصیب پر 1 کروڑ 25 لاکھ 80 ہزار روپے کا بل جمع کروایا، مگر تحریک منہاج القرآن نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بین الاقوامی میلاد کانفرنس کے تین روزہ ایونٹ کے تمام انتظامات خود کیے، جن میں روشنی، صفائی اور باڑ کی مرمت تک شامل تھی۔ پارک انتظامیہ نے اس دعوے کی تصدیق کی۔
اسی طرح لاہور میوزیم (43 لاکھ)، اورنج لائن/ہائی کورٹ (35 لاکھ)، سول سیکریٹریٹ (51 لاکھ) کے لیے بھی بل جمع کروائے گئے، جبکہ متعلقہ حکام نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے بلڈنگز کو خود ہی سجایا اور کسی قسم کی MCL امداد نہیں ملی۔
ٹاؤن ہال پر معمولی سجاوٹ کے باوجود 30 لاکھ کا بل جمع کروایا گیا۔ تولنٹن مارکیٹ کے تاجروں نے بتایا کہ انہوں نے خود سجاوٹ کی، لیکن 39 لاکھ 50 ہزار روپے کا بل وصول کیا گیا۔
شہر کے مختلف زونز میں روشنیوں پر مبینہ اخراجات کی تفصیل یوں ہے: نشتر زون (42 لاکھ)، شالیمار زون (45 لاکھ)، گلبرگ (42 لاکھ)، راوی (64 لاکھ)، داتا گنج بخش (87 لاکھ)، سمن آباد (64 لاکھ)، علامہ اقبال ٹاؤن (81 لاکھ)، واہگہ (69 لاکھ)، عزیز بھٹی زون (64 لاکھ)۔
شہر کی اہم شاہراہوں پر بھی بھاری رقوم خرچ کی گئیں: میکلوڈ روڈ (1 کروڑ 80 لاکھ)، استنبول چوک تا گورنر ہاؤس (2 کروڑ 14 لاکھ)، فیروزپور تا جیل روڈ (2 کروڑ 23 لاکھ) حالانکہ ان راستوں پر پہلے سے مستقل لائٹس نصب تھیں۔
جنریٹرز کے لیے 16 کروڑ 27 لاکھ روپے صرف فیول پر خرچ کیے گئے، حالانکہ 2 ستمبر 2024 کے اجلاس میں لیسکو کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کی ہدایت دی گئی تھی۔
ڈی سی اور کمشنر لاہور کی سرکاری رہائش گاہوں کے لیے بھی 100 سے 150 کے وی اے کے نئے جنریٹرز لگائے گئے، حالانکہ وہاں پہلے ہی ہائی کیپیسٹی جنریٹرز موجود تھے۔
ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لاگت میں اضافہ پہلے تخمینے کی غلطی کے باعث ہوا۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں دی کہ منظوری کے عمل میں کون سی کمیٹی شامل تھی یا زونل افسران کی سفارشات کی کیا قانونی حیثیت تھی۔ انہوں نے اس بات کا بھی جواب نہیں دیا کہ ACs کی عدم دستیابی کی صورت میں کس طرح ادائیگیاں منظور کی گئیں۔
ڈی سی کا کہنا تھا کہ تمام اخراجات محکمانہ قواعد کے تحت کیے گئے اور یہ گزشتہ دو برسوں کی نسبت کم ہیں۔ تاہم انہوں نے کوئی ثبوت یا رپورٹس فراہم نہیں کیں۔