خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پشاور: سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف اور تحریکِ انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے گرینڈ الائنس میں شمولیت نہ کرنے کے باعث مولانا فضل الرحمان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ جب مولانا کی گرینڈ الائنس میں شمولیت کی باتیں ہو رہی تھیں، تو ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا، لیکن شمولیت نہ کرنے کے بعد وہ مقبولیت کم ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مولانا نے مزاحمتی سیاست نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ان کا سیاسی حق ہے، اگر وہ خود کو محدود رکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی ان کی اپنی مرضی ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے مزید کہا کہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مولانا پی ٹی آئی کے لیے کام کریں، ہم نے صرف آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ان سے تعاون کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ہمیں ہمارے قانونی حقوق نہیں دیے جا رہے، ہماری اپیلیں سنی نہیں جا رہیں۔ ملک انصاف سے ہی چلتا ہے، اگر انصاف موجود نہ ہو تو نظام نہیں چل سکتا۔ اس وقت ملک میں کچھ بھی درست سمت میں نہیں جا رہا، اور آئین و قانون کی بالادستی انتہائی ضروری ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اگر احتجاجی تحریک شروع نہ کرے تو بہتر ہوگا، کیونکہ اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ کارکنوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ فیصل آباد میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس وقت کسی عوامی تحریک کو چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کو اگر کوئی غلط فہمی ہے تو وہ جلد دور ہو جائے گی، بہتر ہے کہ تحریک انصاف ذاتی مفادات کے بجائے قومی معاملات پر سیاست کرے۔ رانا ثنا اللہ نے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر انتخابی اصلاحات پر بات کریں اور عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان اس وقت معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے، مگر اسے درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے قومی سطح پر سیاسی اتفاق رائے اور معاشی ایجنڈے پر ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ پہلے میثاقِ معیشت کرے، پھر سیاست سمیت تمام دیگر امور پر بات چیت ممکن ہو سکتی ہے۔" وزیراعظم کے مشیر نے اپیل کی کہ اپوزیشن وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے دی گئی دعوت کو قبول کرے اور ایک غیرجانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اتفاق کرے تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں اور کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "مودی جو پاکستان کو ذیلی ریاست سمجھتا تھا، آج منہ چھپا رہا ہے۔" انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو کمزور جان کر حملے کی حماقت کی لیکن پاکستانی افواج نے عوام کی تائید سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا اور اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔ انہوں نے پاک فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ "بھارت کو منہ توڑ جواب دینے پر سپاہی سے لے کر فیلڈ مارشل عاصم منیر تک سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آج پاکستان دنیا میں ایک طاقتور اور ذمہ دار ریاست کے طور پر جانا جا رہا ہے۔"
پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں اجتماعی زیادتی کے ہولناک کیس نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ واقعے کے چند روز بعد پولیس کے دو اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے رشوت لے کر مرکزی ملزم کو فرار کرایا۔ ایف آئی آر، انٹیلیجنس رپورٹس، اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کی مدد سے مزید انکشافات سامنے آئے ہیں جنہوں نے انصاف کے نظام پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ اندوہناک واقعہ 25 اپریل کی شام مانگٹ اوچا گاؤں میں پیش آیا، جب ایک شادی شدہ جوڑا موٹر سائیکل پر سفر کر رہا تھا۔ ایک مقام پر رکنے کے دوران ایک شخص نے خاتون کو تھپڑ مارا اور گالیاں دیں۔ کچھ دیر بعد متعدد مسلح افراد پہنچے، جوڑے کو اغوا کیا، سنسان مقام پر لے جا کر شوہر کے سامنے بیوی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان کی ویڈیوز بنائیں۔ تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ حمید پورہ پولیس کے اے ایس آئی کاشف محمود نے واقعے کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی مرکزی ملزم لائق مقصود کو گرفتار کر لیا تھا، لیکن اس کی گرفتاری کی اطلاع اعلیٰ حکام کو نہ دی گئی۔ دوسرے ملزم اکرام مانگٹ کے کزن انسپکٹر منیب لیاقت نے لائق کی رہائی کے لیے اے ایس آئی سے رابطہ کیا، اور ایک لاکھ 40 ہزار روپے رشوت کے عوض بغیر ریکارڈ گرفتاری کے ملزم کو چھوڑ دیا گیا۔ ملزمان کی بنائی گئی ویڈیوز 2 جون کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس کے بعد ڈی پی او حافظ آباد عاطف نذیر نے فوری کارروائی کرتے ہوئے متاثرہ جوڑے سے رابطہ کیا اور مقدمہ درج کرایا۔ اس وقت تک کئی ملزمان فرار ہو چکے تھے۔ حیرت انگیز طور پر، 5 جون کو مرکزی ملزم خاور اور اس سے قبل لائق کو مبینہ پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیا گیا۔ حکام کے مطابق لائق اس گھناؤنے جرم کا ماسٹر مائنڈ تھا جبکہ خاور پنکچر کی دکان چلاتا تھا۔ ان دونوں کی مبینہ ہلاکتیں کئی سوالات کو جنم دے رہی ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گھناؤنے جرم میں ملوث دو دیگر ملزمان، چاند اور اکرام مانگٹ، کے نام عبوری قومی شناختی فہرست (PNIL) میں شامل کر دیے تاکہ ان کے بیرون ملک فرار کو روکا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق 4 نامزد اور 4 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کاسوکی تھانے کی پولیس نے پولیس آرڈر 2002 کی دفعہ 155-C کے تحت اے ایس آئی اور انسپکٹر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پنجاب حکومت پہلے ہی انسداد زیادتی کے لیے اسپیشل سیکشوئل آفینسز انویسٹی گیشن یونٹس (SSOIUs) کے قیام پر کام کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے اس حوالے سے 150 یونٹس کے قیام کی ہدایت دی تھی۔ واقعے نے ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل کو جنم دیا ہے، سوشل میڈیا پر انصاف کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اور سماجی کارکنان مطالبہ کر رہے ہیں کہ واقعے میں ملوث تمام کرداروں، بشمول بددیانت پولیس اہلکاروں، کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
عیدالاضحیٰ کے بابرکت موقع پر پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر اگلے مورچوں کا دورہ کیا اور عید اپنے اہلکاروں کے ساتھ منائی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر ایل او سی پر پہنچے تو کور کمانڈر راولپنڈی نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے اگلے مورچوں پر تعینات افسران اور جوانوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کی، جس کے بعد وطن عزیز کی ترقی، استحکام اور شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی گئیں۔ فیلڈ مارشل نے اس موقع پر افسران اور جوانوں کو عید کی مبارکباد دی اور ان کے حوصلے، عزم اور پیشہ ورانہ مہارت کو سراہا۔ انہوں نے بلند حوصلے اور غیر معمولی آپریشنل تیاریوں پر افواج پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ فوجی ترجمان کے مطابق اپنے خطاب میں فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ "مورچوں پر اہل خانہ سے دور رہ کر عید منانا سب سے بڑا قومی فریضہ ہے، یہ مادرِ وطن کے دفاع کے عظیم مقصد کو پورا کرنے کا مظہر ہے۔" آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کے جرات مندانہ اور موثر جواب سے پاکستانی شہریوں کی قربانیوں کا بدلہ لیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل نے آپریشن "بنیان مرصوص" میں جوانوں کی مثالی کارکردگی کو سراہا اور معرکۂ حق میں شہداء اور غازیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کی جنگی تیاریوں پر انہیں مکمل اعتماد ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے کولپور میں کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کرتے ہوئے فتنہ الہندوستا سے تعلق رکھنے والے دو دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی، جس کے دوران فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جوابی کارروائی میں دونوں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گرد مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران دہشت گرد تنظیم "فتنہ الہندوستان" کے ٹھکانوں کو بھی مؤثر طور پر نشانہ بنایا گیا۔ مارے گئے دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا۔ فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے، جنہیں بھارت کی سرپرستی حاصل تھی۔ سیکیورٹی فورسز نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ بلوچستان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف کارروائیاں اسی تسلسل سے جاری رہیں گی
پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ، ان قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کا بِل بھی تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ تازہ ترین مالیاتی جائزے کے مطابق، صرف چھ سال کے عرصے میں قرضوں پر سود کی ادائیگی 2 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 8 ہزار 600 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ٹاپ لائن ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق، سود کی یہ بھاری رقم ملک کی معیشت پر گہرے اثرات ڈال رہی ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں مسلسل بڑھتے ہوئے اندرونی و بیرونی قرضے اور بلند شرح سود شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی اب پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے تقریباً 8 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو کہ گزشتہ چند برسوں میں اس تناسب کے دوگنا ہونے کا ثبوت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قرضوں کی اس بھاری قیمت نے پاکستان کی مالیاتی پالیسیوں پر منفی اثر ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت کے پاس ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم اور دیگر عوامی خدمات کے لیے مالی وسائل میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اضافے کے پیش نظر آئندہ مالی بجٹ میں کم از کم تنخواہ کے بجائے "معقول تنخواہ" کے اصول کو اپنایا جائے تاکہ محنت کش طبقہ باعزت اور محفوظ زندگی گزار سکے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایچ آر سی پی نے اپنی نئی رپورٹ ’بقا سے وقار تک: ایک معقول تنخواہ کا مقدمہ‘ میں کہا ہے کہ آج کے دور میں چھ افراد پر مشتمل خاندان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کم از کم 75 ہزار روپے ماہانہ آمدنی ضروری ہے۔ ان ضروریات میں خوراک، رہائش، سہولیات، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم شامل ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ لاکھوں محنت کش ایسے حالات میں کام کر رہے ہیں جہاں ان کی آمدنی اس حد سے بہت کم ہے، جس کے باعث انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ گھر کا چولہا جلائیں یا بچوں کی دوا خریدیں، بجلی کا بل ادا کریں یا اسکول کی فیس۔ ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ تنخواہوں میں اس اصول کی جھلک ہونی چاہیے کہ ہر فل ٹائم ملازم کو تحفظ، صحت اور امید کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں بھی معقول تنخواہ کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ معقول تنخواہ کا نفاذ اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے حصول میں بھی معاون ہوگا، بالخصوص غربت اور بھوک کے خاتمے جیسے اولین اہداف میں۔ اقوامِ متحدہ کے گلوبل کومپیکٹ کے تحت پاکستان کی 100 سے زائد کمپنیاں پہلے ہی باعزت روزگار کی حمایت کر رہی ہیں۔ ایچ آر سی پی نے کہا کہ معقول تنخواہ نہ صرف افراد اور ان کے اہل خانہ کی عزتِ نفس کی ضامن ہے بلکہ یہ آجر کے لیے بھی ایک اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (HDI) اسکور 0.540 ہے، جس کی وجہ سے ملک دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے۔ 193 ممالک میں پاکستان کا نمبر 164واں ہے، جو کہ خطے میں صرف افغانستان اور نیپال سے بہتر ہے، حالانکہ ان دونوں ممالک نے سالوں تک جنگ اور بدامنی کا سامنا کیا ہے۔ ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ نیو لبرل اقتصادی پالیسیوں، مہنگائی، سست معاشی ترقی، موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی نے پاکستان میں روزگار کی فراہمی کو ایک چیلنج بنا دیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ موجودہ کم از کم تنخواہ اور ’معقول تنخواہ‘ کے درمیان خلا کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات غربت کے خاتمے، سماجی انصاف اور معاشی مساوات کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں پارلیمانی پارٹی کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ جماعت اب کوئی بڑی یا مؤثر سیاسی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ ڈان اخبار کے مطابق ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی پہلے ہی اپنا سیاسی وقار کھو چکی ہے اور اس کی قیادت تضادات کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ جماعت کبھی انقلاب کی دعویدار بنتی ہے اور کبھی ایک متنازع خاتون، ماہ رنگ بلوچ جیسے کرداروں کے ذریعے ریاست مخالف بیانیہ آگے بڑھاتی ہے۔ اگر کل یہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ساتھ بھی کھڑی ہو جائے تو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ پی ٹی آئی کی جانب سے حالیہ احتجاج کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر بھی عوام کو متحرک نہیں کر سکے، تو اب جب کہ وہ جیل میں ہیں، ان سے کسی بڑی عوامی تحریک کی توقع رکھنا بے معنی ہے۔ انہوں نے عمران خان کے ماضی کے لانگ مارچ کی یاد دلاتے ہوئے کہا، ’’زخمی ٹانگ کے ساتھ لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاکہ سید عاصم منیر کو آرمی چیف نہ بنایا جا سکے، لیکن وہ بدترین ناکامی کا شکار ہوئے۔‘‘ عرفان صدیقی نے عمران خان سے بیک چینل مذاکرات کی خبروں کو بھی سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو کسی حکومتی نمائندے اور نہ ہی کسی اسٹیبلشمنٹ کے اہلکار نے ان سے جیل میں کوئی ملاقات کی ہے، اور نہ ہی انہیں کوئی پیشکش یا تجویز دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ایسے تمام دعوے بے بنیاد ہیں جن کا مقصد صرف پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کو گمراہ کرنا ہے۔‘‘
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے سوشل میڈیا پر ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں چار افراد کو طلب کرلیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان، صنم جاوید، فلک جاوید اور آفتاب اقبال کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ این سی سی آئی اے کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ چاروں افراد 5 جون کو لاہور میں واقع این سی سی آئی اے کے دفتر میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ نوٹس کے مطابق چاروں افراد کے خلاف 27 مئی کو انکوائری کا آغاز کیا گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ملزمان نے پاک بھارت جنگ کے دوران ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کیا، جس پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ این سی سی آئی اے کی یہ کارروائی سوشل میڈیا پر جعلی اور منفی اطلاعات پھیلانے کے خلاف ریاستی سطح پر سخت اقدامات کی ایک کڑی ہے۔
بھارتی پنجاب پولیس نے ایک اور یوٹیوبر جسبیر سنگھ کو پاکستان کو انٹیلیجنس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ جسبیر سنگھ یوٹیوب چینل "جان محل" کے میزبان ہیں اور انہیں جمعرات کے روز موہالی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس گورو یادو کے مطابق جسبیر سنگھ کا تعلق روپ نگر ضلع کے گاؤں محلن سے ہے، اور ان کے روابط پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے مبینہ کارندے شاکر عرف جٹ رندھاوا سے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جسبیر سنگھ پاکستانی سفارت کار احسان الرحیم عرف دانش اور پہلے سے گرفتار یوٹیوبر جیوتی ملہوترا سے بھی مسلسل رابطے میں تھے۔ تفتیش کے مطابق جسبیر سنگھ نے دانش کی دعوت پر دہلی میں پاکستان کے قومی دن کی تقریب میں شرکت کی تھی، جہاں ان کی ملاقات پاکستانی فوج کے افسران اور بلاگرز سے بھی ہوئی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ جیوتی ملہوترا کی گرفتاری کے بعد جسبیر نے پاکستانی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر مواصلاتی شواہد کو مٹانے کی کوشش کی۔ ڈی جی پولیس گورو یادو نے کہا کہ اس سلسلے میں باضابطہ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے، اور اب اس نیٹ ورک سے جڑے دیگر افراد کی تلاش اور تحقیقات جاری ہیں۔ واضح رہے کہ اسی نوعیت کے الزامات میں یوٹیوبر جیوتی ملہوترا کو گزشتہ ماہ ہریانہ پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستانی پارلیمانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی اور بھارت کی خفیہ ایجنسی را مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کریں تو دونوں ممالک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان اب بھی کئی محاذوں پر دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بھارت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے دہشت گردی سے متعلق تحفظات کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ "اگر ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے مل کر کام کریں، تو نتائج کہیں زیادہ مؤثر ہوں گے،" بلاول کا کہنا تھا۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر آئی ایس آئی اور را اکٹھے بیٹھ کر دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کریں، تو نہ صرف دونوں ملکوں میں امن قائم ہو سکتا ہے بلکہ خطے میں دہشت گردی کی شدت بھی کم ہو سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان مذاکرات، تحقیقات اور ہر مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان نے عالمی قوانین کے تحت کسی بھی قانونی ذمہ داری کے بغیر بھی بین الاقوامی احتساب کو خوش آمدید کہا، کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ انہوں نے بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ واحد ملک جو مذاکرات، تحقیقات اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے، وہ بھارت ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق بیان نے سوشل میڈیا پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بلاول نے مودی کو اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا ’کمزور نقل‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "مودی ایک ٹیمو ورژن ہیں، اور بھارت اسرائیلی حکومت سے متاثر ضرور ہے، مگر غلط طریقے سے۔" بلاول کے اس بیان پر جہاں کچھ حلقوں نے مودی پر تنقید کو سراہا، وہیں سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے اعتراض کیا کہ "مودی پر تنقید کرتے ہوئے چین کی مشہور ای کامرس ایپ Temu کو گھسیٹنا اور اسے ’غلط نقل‘ کہنا نامناسب ہے۔" اسی حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر نے بھی اپنا ردعمل دیا۔ انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا:"بلاول بھٹو نے میڈیا ٹاک میں مودی پر درست تنقید کی اور اسے نیتن یاہو سے تشبیہ دی، مگر جو مثال انہوں نے استعمال کی وہ ٹیمو کے لیے توہین آمیز تھی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ٹیمو کوئی ناقص نقل نہیں۔ امریکہ میں یہ سب سے تیزی سے مقبول ہونے والی ایپ رہی ہے اور اس کی عالمی صارفین کی تعداد اب ایمیزون سے صرف 10 فیصد کم ہے۔ وہ جلد ہی ایمیزون کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ چینی مصنوعات کو ’نقل‘ کہنے والی مغربی سوچ اب پرانی ہو چکی ہے، اور پاکستانیوں کو چینی ٹیکنالوجی کی بالادستی کے بعد اس حقیقت کا سب سے بہتر اندازہ ہونا چاہیے۔" اسد عمر کے بیان کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکنان نے انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعض جیالوں نے الزام لگایا کہ اسد عمر بلاوجہ بلاول کی بات کا رخ بدل رہے ہیں اور اس عمل سے پاکستان اور چین کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو کا بیان کئی بڑے خبر رساں اداروں کی جانب سے رپورٹ ہو چکا تھا اور ویسے بھی چینی حکومت کے پاس دنیا کا سب سے وسیع سوشل میڈیا مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے۔ جب ایک سابق وزیر خارجہ اور ملک کی تیسری بڑی پارٹی کا سربراہ کوئی بیان دیتا ہے، تو انہیں کوئی یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بھارتی پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی تاریخ میں پہلی بار رائل چیلنجرز بنگلور (آر سی بی) کی فتح کا جشن ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں المناک حادثے میں بدل گیا، جہاں دو مختلف مقامات پر بھگدڑ مچنے سے کم از کم 11 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق واقعہ اُس وقت پیش آیا جب شائقین کی بڑی تعداد ایم چنا سوامی اسٹیڈیم کے باہر جمع ہوئی، جہاں کرناٹک اسٹیٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے آر سی بی ٹیم کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔ بھگدڑ کا دوسرا افسوسناک واقعہ ودھانا سودھا کے احاطے میں پیش آیا، جہاں ٹیم نے وزیراعلیٰ سدارامیا سے ملاقات کے لیے پہنچنا تھا۔ یہاں بھی بے قابو ہجوم، کمزور سیکیورٹی اور ناکافی انتظامات کے باعث افرا تفری کا عالم پیدا ہو گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ دو افراد اسی مقام پر جاں بحق ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق بھگدڑ کے باعث کئی افراد بے ہوش ہو گئے جبکہ کئی شدید زخمی ہو کر زمین پر گرتے رہے۔ موقع پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار زخمیوں کو اٹھا کر ایمبولینسز میں ڈال رہے ہیں جبکہ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ چنا سوامی اسٹیڈیم کے اطراف کے متعدد میٹرو اسٹیشنز پر بھی غیر معمولی ہجوم کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ شہر کے باؤرنگ اسپتال میں درجنوں زخمی لائے گئے جہاں رات بھر ایمبولینسز آتی جاتی رہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جشن منانے والے ہجوم کو منگل کی رات سے ہی کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، مگر شائقین کی تعداد توقعات سے کہیں زیادہ نکلی، جس کے باعث صورتحال قابو سے باہر ہو گئی۔ واضح رہے کہ رائل چیلنجرز بنگلور نے حالیہ آئی پی ایل میں تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلی بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا، جس کے بعد شہر بھر میں جشن کا سماں تھا۔ مگر ناقص سیکیورٹی اور بدنظمی کے باعث یہ خوشی کئی خاندانوں کے لیے سانحے میں تبدیل ہو گئی۔
ملک میں گدھوں سمیت دیگر مویشیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ 9 ہزار کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد مجموعی تعداد 59 لاکھ 38 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 47 ہزار ہوگئی ہے۔ اسی طرح بھینسوں کی تعداد میں 13 لاکھ 78 ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور اب بھینسوں کی مجموعی تعداد 4 کروڑ 63 لاکھ 10 ہزار سے بڑھ کر 4 کروڑ 76 لاکھ 88 ہزار ہو چکی ہے۔ بھیڑوں کی تعداد بھی 3 لاکھ 88 ہزار بڑھ کر 3 کروڑ 31 لاکھ 19 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ بکریوں کی تعداد میں 23 لاکھ 58 ہزار کا اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے بعد مجموعی تعداد 8 کروڑ 93 لاکھ 93 ہزار تک جا پہنچی ہے۔ اونٹوں کی تعداد میں بھی 14 ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور اب ان کی تعداد 11 لاکھ 63 ہزار سے بڑھ کر 11 لاکھ 77 ہزار ہوگئی ہے۔ گھوڑوں کی تعداد میں ایک ہزار اور خچروں کی تعداد میں تین ہزار کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد گھوڑوں کی تعداد 3 لاکھ 83 ہزار اور خچروں کی تعداد 2 لاکھ 27 ہزار ریکارڈ کی گئی ہے۔ مویشیوں کی مجموعی تعداد میں مجموعی طور پر 21 لاکھ 71 ہزار کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ملک میں مویشیوں کی کل تعداد 5 کروڑ 75 لاکھ 40 ہزار سے بڑھ کر 5 کروڑ 97 لاکھ 11 ہزار پر پہنچ گئی ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس (ICRC) کی سربراہ مرجانا سپلولجیرک نے غزہ کی موجودہ صورتحال کو انسانی تاریخ کا بدترین منظر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "غزہ اس وقت کرۂ ارض پر دوزخ سے بھی بدتر جگہ بن چکا ہے"۔ بی بی سی کو جینیوا میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے ہیڈکوارٹر میں دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ انسانیت مکمل طور پر شکست کھا رہی ہے۔ ان کے مطابق فلسطینی عوام شدید اذیت میں ہیں جبکہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بھی عالمی برادری کی کوششیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ مرجانا سپلولجیرک نے واضح الفاظ میں کہا کہ "فلسطینیوں سے انسانی وقار چھینا جا رہا ہے، اور بین الاقوامی قوانین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا رہا ہے۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، اس نے تمام قانونی، اخلاقی اور انسانی قدروں کو روند کر رکھ دیا ہے۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عالمی طاقتیں، جو اس تنازعے کے خاتمے میں کردار ادا کر سکتی ہیں، وہ عملاً کوئی مؤثر اقدام نہیں کر رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں بے بسی کے ساتھ صرف تماشائی بن کر رہ جانا ایک اجتماعی ناکامی ہے۔ واضح رہے کہ ریڈ کراس ایک عالمی فلاحی ادارہ ہے جو جنگ زدہ علاقوں میں طبی امداد، انسانی حقوق کا تحفظ اور متاثرین تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ غزہ میں اس وقت تنظیم کے 300 سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں، جن میں اکثریت مقامی فلسطینیوں کی ہے۔
انڈین مسلح افواج کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے دعویٰ کیا ہے کہ 7 مئی کو انڈیا کی جانب سے پاکستان میں کیے گئے مبینہ فضائی حملوں کے صرف پانچ منٹ بعد اسلام آباد کو اس کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ پونے کی ایک یونیورسٹی میں "مستقبل کی جنگیں" کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے جنرل چوہان نے کہا کہ جنگوں میں نقصانات کی نہیں، بلکہ حاصل ہونے والے نتائج کی اہمیت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق انڈین کارروائی کا مقصد دہشت گردی کے خلاف مخصوص اہداف کو نشانہ بنانا تھا، نہ کہ پاکستانی فوجی تنصیبات کو۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے اس حملے کے بعد جوابی کارروائی کے طور پر 10 مئی کو صبح ایک بجے کے قریب حملے شروع کیے اور ان کا مقصد انڈیا کو 48 گھنٹوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا تھا، لیکن صرف 8 گھنٹوں کے اندر ہی وہ پسپا ہو گئے اور مذاکرات کی درخواست کی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جنرل چوہان سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے موقع پر انڈین طیاروں کے پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں مار گرائے جانے کی بات کا بالواسطہ اعتراف کر چکے ہیں، جب انہوں نے کہا کہ "اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کیوں گرے۔" جنرل چوہان کے ان بیانات پر انڈیا میں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔ بلوم برگ اور روئٹرز کو دیے گئے انٹرویوز میں ان کے تبصروں کو بعض حلقوں نے انڈین مؤقف کے خلاف تصور کیا۔ پس منظر میں یہ واقعہ بھی اہم ہے کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں بائیسیرن کے مقام پر ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملے میں 26 افراد مارے گئے تھے، جس کا الزام انڈیا نے پاکستان پر عائد کیا، لیکن پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی اور غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انڈین دعوے کے مطابق 7 مئی کو ’آپریشن سندور‘ کے تحت دہشت گردی کے مبینہ مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ جنرل چوہان کے بقول، یہ حملے شہری آبادی کو نقصان پہنچائے بغیر کیے گئے اور پاکستان کو باقاعدہ اطلاع بھی دی گئی کہ حملوں کا ہدف صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر عوام کے ماسک پہن کر یا چہرہ ڈھانپ کر نقل و حرکت کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے، جبکہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بھی 10 جون تک ممنوع قرار دی گئی ہے۔ بی بی سی اردو کے مطابق اس حوالے سے نوشکی اور سوراب کے اسسٹنٹ کمشنرز کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشنز جاری کیے گئے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر نوشکی احمد یار بلوچ نے فون پر رابطہ کرنے پر اس اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ عوام کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے۔ ضلع سوراب کے اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حالیہ شدت پسندی کے واقعے کے پیش نظر عوام ماسک یا کسی بھی چیز سے چہرہ چھپا کر سفر نہ کریں۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شہری سیکیورٹی فورسز کے جاری آپریشن کے دوران قریب پایا گیا تو کسی بھی جانی یا مالی نقصان کی ذمہ داری اس پر عائد ہوگی۔ انتظامیہ کے مطابق عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سوراب شہر میں چند روز قبل بڑی تعداد میں نامعلوم مسلح افراد داخل ہوئے تھے، جنہوں نے دو گھنٹے سے زائد شہر پر قبضہ کیے رکھا، متعدد سرکاری دفاتر کو نذرِ آتش کیا، اور اس دوران ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت اللہ بلیدی جان کی بازی ہار گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ دوسری جانب، گزشتہ روز سیکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کے دو مختلف علاقوں، بولان (ضلع کچھی) اور قلات میں کارروائیوں کے دوران سات مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ یورپ اور امریکا میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 35 ہزار پاکستانیوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں جمع کروائی ہیں۔ اجلاس سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں وزارت اوورسیز پاکستانیز، ایف آئی اے، اور ڈی جی پاسپورٹ سمیت متعلقہ اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب نے پاکستانیوں کے ویزوں کی تعداد میں کمی کے ساتھ ویزا حاصل کرنے کے لیے کوائف مزید سخت کر دیے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق 2023 سے اب تک 52 ہزار سے زائد پاکستانی مختلف ممالک سے ڈی پورٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں سعودی عرب سے واپس آنے والے 5 ہزار بھکاری بھی شامل ہیں۔ ڈی جی پاسپورٹ نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ گزشتہ سال ایران نے 34 ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے پر واپس بھیجا، جن کے پاسپورٹس بعد ازاں بلاک کر دیے گئے۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات، اٹلی، برطانیہ اور یورپ کے چند دیگر ممالک نے پاکستانیوں کے لیے اسٹوڈنٹ ویزا بند کر دیا ہے۔ یورپ میں 1 لاکھ 25 ہزار جبکہ امریکا میں 10 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ ڈی جی پاسپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت ایک کروڑ 3 لاکھ پاکستانی پیشہ ورانہ شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد مشرق وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکا میں مقیم ہے۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پاکستانی شہریوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور ان کے پاسپورٹس بلاک کر دیے گئے ہیں۔
اسلام آباد: وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال اور ان کی ویڈیوز کو ڈارک ویب پر فروخت کرنے والے ایک بین الاقوامی گینگ کا سراغ لگایا گیا ہے، جس کا مبینہ سرغنہ ایک جرمن باشندہ ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت نے بتایا کہ مظفر گڑھ میں قائم ایک چھوٹے سے مبینہ کلب میں بچوں کو جسمانی تربیت کے بہانے جمع کیا جاتا تھا۔ وہاں جدید کیمروں کے ذریعے بچوں کی ویڈیوز بنائی جاتیں، جنہیں بعد میں ڈارک ویب پر فروخت کیا جاتا۔ طلال چوہدری کے مطابق متاثرہ بچوں کی عمریں 6 سے 10 سال کے درمیان تھیں، جنہیں ابتدا میں معمولی رقم دے کر، اور بعد میں بلیک میلنگ کے ذریعے استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ بچوں کے اہلِ خانہ بھی اس مکروہ دھندے میں ملوث پائے گئے، جن کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نیشنل کرائمز اینڈ انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) وقارالدین سید کے مطابق یہ کارروائی 22 اور 23 مئی کی درمیانی شب مظفرآباد کے علاقے دین پناہ میں کی گئی۔ خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کی گئی اس کارروائی میں 2 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 10 بچوں کو بازیاب کرایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ گینگ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی منظم کارروائی میں ملوث پایا گیا، جو نہ صرف بچوں کا استحصال کر رہا تھا بلکہ اس کا مواد عالمی سطح پر بھیج کر فروخت بھی کرتا تھا۔ وقار الدین سید کے مطابق بچوں سے جسمانی سرگرمیوں کے نام پر ویڈیوز بنائی جاتیں اور انہیں لائیو یا ریکارڈ شدہ صورت میں بیرونِ ملک جرمن سرغنہ کو بھیجا جاتا، جو اسے ڈارک ویب پر بیچتا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کے لیے قانونی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکام نے بتایا کہ بچوں سے زیادتی کے مقدمات میں حالیہ ترامیم کے بعد اب 14 سے 20 سال قید کی سزا رکھی گئی ہے، اور ایسے کیسز میں نہ ضمانت ممکن ہے نہ ہی صلح کی گنجائش۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق بچوں کے استحصال کی اطلاع نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلائیٹڈ چلڈرن (NCMEC) سے موصول ہوئی تھی، جس پر NCCIA نے بروقت کارروائی کی۔ وزیر مملکت کے مطابق پاکستان میں چائلڈ پورنوگرافی اور بچوں کے استحصال سے متعلق اب تک 178 مقدمات درج ہو چکے ہیں، جن میں سے 197 افراد کو گرفتار اور 14 کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ حکام نے اپیل کی ہے کہ والدین بچوں پر نظر رکھیں اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی فوری اطلاع قریبی تھانے یا NCCIA کو دیں تاکہ ایسے واقعات کی بروقت روک تھام ممکن ہو سکے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) جنرل ساحر شمشاد مرزا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ 96 گھنٹوں پر محیط عسکری تناؤ کے دوران پاکستان نے مکمل طور پر اندرونی عسکری صلاحیتوں پر انحصار کیا اور کسی بیرونی معاونت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جنرل شمشاد نے ان اطلاعات کو مسترد کیا کہ چین یا کسی دوست ملک نے سیٹلائٹ انٹیلیجنس یا کسی قسم کی تکنیکی مدد فراہم کی۔ ان کے مطابق، ’’جو ساز و سامان ہم نے استعمال کیا، وہ یا تو مقامی سطح پر تیار شدہ تھا یا پہلے سے موجود تھا، لیکن تنازع کے دوران جو کچھ استعمال کیا گیا، وہ مکمل طور پر پاکستان کی اپنی صلاحیت تھی۔‘‘ جنرل شمشاد کے مطابق یہ عسکری تصادم ماضی کے مقابلے میں نمایاں طور پر مختلف تھا، کیونکہ اس کے اثرات شہری علاقوں تک بھی دیکھے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئندہ تنازعات صرف مخصوص سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہیں گے، اس بار شہروں میں بھی دباؤ محسوس کیا گیا۔‘‘ سرحدی تناؤ پر حکومتی سطح کا نادر تبصرہ جنرل ساحر شمشاد کا یہ بیان پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تناؤ پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایک نادر اور براہ راست تبصرہ سمجھا جا رہا ہے، تاہم انہوں نے اس عسکری جھڑپ کی درست تاریخ یا محلِ وقوع کی وضاحت نہیں کی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگرچہ سرحدوں پر نسبتاً سکون ہے، لیکن شہری علاقوں میں تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، جو آئندہ کسی بھی ممکنہ بحران کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ رابطہ کاری کا فقدان اور انتہا پسندی کا خطرہ جنرل شمشاد نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بحران سے نمٹنے کے لیے کسی مؤثر اور منظم طریقہ کار کی عدم موجودگی پر بھی اظہارِ تشویش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم صرف ڈی جی ایم او سطح کی ہاٹ لائن پر انحصار کرتے ہیں، جو ہائی انٹینسٹی بحرانوں کے لیے ناکافی ہے۔‘‘ انہوں نے جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندانہ سوچ کو ایک سنگین چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب آپ انتہا پسند ذہنیت سے نمٹ رہے ہوں تو بین الاقوامی ثالثی کی گنجائش بھی محدود ہو جاتی ہے۔‘‘ ان کے بقول، امریکا اور چند دیگر ممالک نے حالیہ بحران کے دوران مداخلت ضرور کی، تاہم ’’یہ راہداری اب بہت محدود ہو چکی ہے‘‘۔ آبی وسائل پر مؤقف جنرل شمشاد مرزا نے بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوششوں کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ’’پاکستان کے پانی کو روکنے یا موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔‘‘ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے سنگاپور میں منعقدہ شنگریلا ڈائیلاگ میں بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے جنوبی ایشیا میں جوہری تصادم کے خدشات اور خطے کی ترقی کو درپیش خطرات پر روشنی ڈالی تھی۔

Back
Top