خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کراچی کی ایک عدالت نے ایک سنگین جرم میں ملوث شخص کو اپنی ہی بیٹی کے ساتھ بار بار زیادتی کرنے کے جرم میں 25 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ نہ صرف عدالتی بیانات بلکہ ڈی این اے کی ناقابلِ تردید شہادتوں کی بنیاد پر سنایا گیا، جس میں یہ ثابت ہوا کہ مجرم نہ صرف متاثرہ خاتون کا باپ ہے بلکہ اس کے پیدا ہونے والے بچے کا حیاتیاتی والد بھی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ کہانی مئی 2021 میں اس وقت منظرعام پر آئی جب کراچی کے رہائشی جنید (فرضی نام) کو فیس بک پر ایک اجنبی خاتون، فوزیہ (فرضی نام)، کا پیغام موصول ہوا۔ اس پیغام میں فوزیہ نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا ذکر کیا، جس پر ابتدا میں جنید کو لگا کہ یہ کوئی فریب ہو سکتا ہے۔ لیکن جب وہ اس خاتون سے ملے اور اس کی بات سنی تو انہیں حقیقت کا اندازہ ہوا کہ یہ ایک المناک اور لرزہ خیز سچائی ہے۔ فوزیہ کے مطابق، مئی 2020 میں جب ان کی والدہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل تھیں، ان کے والد نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دے کر متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئیں۔ جب جنوری 2021 میں ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، تو والدہ نے ڈاکٹروں کو ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت چھپی رہے۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے، فوزیہ پر مزید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خاموش رہے اور کسی کو حقیقت نہ بتائے۔ جنید نے جب اس تمام صورتحال کو سمجھا تو انہیں احساس ہوا کہ فوزیہ بے قصور ہے اور اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے فوزیہ سے نکاح کر کے اس کے حق میں آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن نکاح کے بعد بھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوزیہ کے والد نے نہ صرف ان پر دباؤ ڈالا بلکہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ تاہم، جنید اور فوزیہ نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا، جس کی تفتیش کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت ہو گیا کہ فوزیہ کے بچے کا اصل باپ اس کا اپنا والد ہی تھا۔ کراچی کی عدالت نے 20 مارچ 2025 کو اپنے فیصلے میں کہا، "اس کیس میں ملزم متاثرہ خاتون کا اصل باپ ہے اور اس نے کئی بار جرم دہرایا۔ لہٰذا یہ کسی کم سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔" عدالت نے اسے ریپ کے جرم میں 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جبکہ قتل کی دھمکی دینے پر سات سال کی مزید قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی دی گئی۔ اس مقدمے کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ فوزیہ کی والدہ کو اپنی بیٹی کی حالت کا علم تھا، مگر انہوں نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا۔ جب بچے کی پیدائش ہوئی اور ڈاکٹروں نے والد کا نام پوچھا تو انہوں نے ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت نہ کھل سکے۔ لیکن جب جنید نے فوزیہ کا ساتھ دیا، تو وہ مجبور ہو کر پولیس کے پاس گئیں اور اپنے والد کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ فوزیہ کے شوہر جنید نے کہا، "میری اہلیہ نے بہت ہمت دکھائی۔ اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کیس واپس لے لے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ جب وہ ثابت قدم رہی، تو میں نے بھی اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔" کیس کی پیروی کرنے والی سرکاری وکیل شیخ حنا ناز شمس نے کہا کہ "یہ ایک مشکل کیس تھا، کیونکہ ابتدا میں کوئی وکیل بھی مجرم کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ عدالت نے اسے دفاع کے لیے وکیل فراہم کیا، لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو اس کے وکیل نے بھی وکالت نامہ واپس لے لیا۔" اس مقدمے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا بچہ تھا، جو فوزیہ کے والد کا حیاتیاتی بیٹا تھا۔ جنید اور فوزیہ نے اس کے بہتر مستقبل کے لیے فیصلہ کیا کہ اسے کسی فلاحی ادارے کے حوالے کر دیا جائے۔ فوزیہ کے شوہر نے کہا، "ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ بچہ رشتہ داروں کی نظروں میں بڑا ہو اور اسے ہر وقت اس کے اصل کی یاد دلائی جائے۔ اس لیے ہم نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔"
ساہیوال کے نواحی علاقے اوکانوالہ بنگلہ میں ایک پالتو کتے کی غیر معمولی سرگرمی نے عمر حیات نامی زرعی مزدور کے وحشیانہ قتل کا راز فاش کر دیا۔ کتے نے جلے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو مسلسل کھودنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں انسانی باقیات برآمد ہوئیں اور گاؤں والوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پولیس تفتیش کے مطابق، مقتول عمر حیات کو اس کی بیوی شمیم اور اس کے بھائی فدا حسین نے بے دردی سے قتل کیا، چہرہ مسخ کیا اور لاش کو آگ لگا کر کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ واردات 13 اور 14 فروری کی درمیانی شب تحصیل چیچہ وطنی کے گاؤں 105/12-ایل میں پیش آئی۔ 18 فروری کو گاؤں کے رہائشیوں نے کتے کو کھدائی کرتے دیکھا، جس کے بعد زمین سے انسانی پیر برآمد ہوا۔ گاؤں کے ایک مقامی شخص سید بلال نواز نے فوراً پولیس ایمرجنسی لائن (15) پر اطلاع دی۔ اوکانوالہ بنگلہ پولیس موقع پر پہنچی اور جلے ہوئے کچرے سے ایک بری طرح جلی ہوئی، ناقابل شناخت لاش برآمد کر لی۔ مقتول کی شناخت نہ ہونے کے سبب، ڈی پی او ساہیوال رانا طاہر نے ڈی ایس پی تاثیر ریاض اور ایس ایچ او شہزاد احمد کی سربراہی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی۔ پولیس نے گاؤں والوں کی مدد سے عمر حیات کی آخری رہائش گاہ کا سراغ لگایا، جو کہ زمیندار ندیم عباس شاہ کے فارم ہاؤس پر تھا۔ عمر گزشتہ دو سال سے اپنی بیوی شمیم اور چار بچوں کے ساتھ وہاں کام کر رہا تھا۔ تاہم، لاش برآمد ہونے سے چند روز قبل زمیندار نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ عمر اور اس کے اہل خانہ ملازمت چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں جہانیاں، خانیوال چلے گئے ہیں۔ تفتیش کے دوران پولیس نے عمر کی والدہ سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اچانک لاپتا ہو گیا ہے۔ جب پولیس نے انہیں کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہونے والے پیر دکھائے، تو ابتدائی طور پر انہوں نے بیٹے کے ہونے سے انکار کر دیا۔ مقتول کی بیوی شمیم نے بھی پیر کو پہچاننے سے انکار کر دیا، جس پر پولیس کو شبہ ہوا۔ بعد ازاں مقتول کی والدہ اور عمر کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے۔ کچھ دن بعد، مقتول کی والدہ نے پولیس کو فون کرکے تصدیق کی کہ یہ پیر ان کے بیٹے عمر کے ہی ہیں۔ مزید تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ عمر اور اس کی بیوی شمیم دونوں کے مبینہ ناجائز تعلقات تھے، جس پر دونوں کے درمیان اکثر جھگڑے ہوتے تھے۔ واردات سے ایک ہفتہ قبل عمر نے شمیم سے اس معاملے پر سخت بات کی، جس کے نتیجے میں دونوں میں شدید جھگڑا ہوا۔ اس کے بعد شمیم نے اپنے بھائی فدا حسین کو قتل کی منصوبہ بندی میں شامل کر لیا۔ شمیم اور فدا حسین نے 13 فروری کی رات عمر کو قتل کیا۔ انہوں نے پہلے لوہے کی سلاخ اور اینٹوں سے اس کا چہرہ مسخ کیا، پھر لاش کو قریبی کچرے کے ڈھیر میں لے جا کر آگ لگا دی تاکہ کوئی شناخت نہ کر سکے۔ ایس ایچ او شہزاد احمد کے مطابق، مقتول کی بیوی شمیم اور فدا حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ 18 فروری کو درج کر لیا گیا تھا۔ تمام ثبوت اور اعتراف جرم مکمل ہونے کے بعد کیس ٹرائل کے لیے تیار ہے۔ یہ لرزہ خیز قتل ایک عام پالتو کتے کی غیر معمولی ذہانت کی بدولت بے نقاب ہوا، جس نے نہ صرف قاتلوں کے ناپاک ارادے ناکام بنا دیے بلکہ پولیس کو ایک پیچیدہ کیس کو حل کرنے میں بھی مدد دی۔
وانا: جنوبی وزیرستان میں ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں سابقہ امیدوار صوبائی اسمبلی اور معروف سیاسی و سماجی کارکن تاج وزیر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، یہ مقدمہ وانا سٹی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے، جس میں ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست کے خلاف گمراہ کن اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق، تاج وزیر پہلے بھی مختلف اوقات میں عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال دلاتے رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان کی سرگرمیاں قومی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، جس کے پیش نظر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ دوسری جانب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) نے عوام اور سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی ہے کہ وہ بغیر تصدیق کے خبریں پھیلانے سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈے سے نہ صرف ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ عوام میں بے چینی بھی پیدا ہوتی ہے۔
کراچی: آج سہ پہر 3 بجے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکاروں نے معروف صحافی فرحان ملک کے دفتر، رفتار، پر اچانک چھاپہ مارا اور ان کا ورک کمپیوٹر اور دفتر میں موجود تمام یو ایس بی ڈرائیوز ضبط کر لیں۔ دفتر کے عملے کو کسی قسم کی وضاحت فراہم نہیں کی گئی، جبکہ چھاپے کے دوران انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ دفتر انتظامیہ اور صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی محض ایک معمول کی تفتیش نہیں بلکہ آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے فرحان ملک کو حراست میں لیا گیا اور اب ان کے کام کے بنیادی وسائل اور محفوظ شدہ ریکارڈ کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمے کے اخراج کی درخواست، فریقین کو نوٹس جاری دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے ملک مخالف ویڈیوز بنانے کے الزام میں درج مقدمے کو خارج کرنے کی فرحان ملک کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے درخواست کی سماعت عید کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی۔ درخواست گزار کے وکیل، معیز جعفری ایڈووکیٹ، نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ فرحان ملک کے خلاف درج ایف آئی آر غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق یہ مقدمہ ایک آزاد صحافی کو ہراساں کرنے کی کوشش ہے، اور ان کی قانونی ٹیم نے اس کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی تھی، جو تاحال نہیں ملا۔ معیز جعفری نے مزید کہا کہ جب یہ انکوائری شروع ہوئی تھی، تب پیکا ترمیمی ایکٹ موجود نہیں تھا، اور اگر اس نوعیت کے مقدمات کو اجازت دی گئی تو شہریوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا، جہاں کسی بھی سرکاری افسر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ عناد کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا سکے۔ درخواست میں سندھ حکومت، ایس ایس پی ایسٹ، ڈائریکٹر ایف آئی اے، اور دیگر متعلقہ حکام کو فریق بنایا گیا ہے۔ صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آزادی صحافت کو دبانے کے بجائے اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب، رفتا‌ر کے دفتر کے ملازمین اور صحافی برادری کا کہنا ہے کہ وہ اس دباؤ کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے اور آزادی اظہار رائے کے حق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔
اسلام آباد: سیاست ڈاٹ پی کے کے نوجوان اینکر سہراب برکت کو فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے طلب کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، سہراب برکت کو چند روز قبل بھی ایک نوٹس موصول ہوا تھا، جس کے بعد ان کے وکیل ایف آئی اے میں پیش ہوئے۔ تاہم، انویسٹیگیشن آفیسر نے واضح کیا کہ وہ صرف اور صرف سہراب برکت کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایک اور نوٹس انہیں واٹس ایپ پر موصول ہوا ہے، جس میں انہیں پیر کے روز ایف آئی اے کے دفتر میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کل ان کی گرفتاری کا قوی امکان ہے۔ بے باک صحافت کی سزا؟ سہراب برکت اپنے بے باک صحافتی انداز کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں کشمیر میں ہونے والے احتجاجوں کی کھل کر رپورٹنگ کی اور اس معاملے کو پورے پاکستان میں اجاگر کیا۔ ان کی رپورٹنگ کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب چند روز قبل ہی "رفتار" پلیٹ فارم کے بانی اور صحافی فرحان ملک کو بھی ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو ڈرایا اور دبایا جا رہا ہے، جس پر صحافتی تنظیموں اور عوامی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ سیاست ڈاٹ پی کے پر مسلسل دباؤ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب سیاست ڈاٹ پی کے کو حکومتی دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اپنے آزادانہ مؤقف کے باعث گزشتہ 600 سے زائد دنوں سے پابندیوں کا شکار ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں سیاست ڈاٹ پی کے کو مکمل طور پر بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، سیاست ڈاٹ پی کے کے سی ای او عدیل حبیب کو بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے دو کروڑ روپے کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ نوٹس انہیں ہراساں کرنے کے لیے دیا گیا ہے، کیونکہ عدیل حبیب نے اب تک اپنے تمام ٹیکس ریٹرنز باقاعدگی سے فائل کیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں آزاد صحافت کا دائرہ مزید تنگ کیا جا رہا ہے؟ اور کیا سہراب برکت کا معاملہ ملک میں جاری سیاسی و صحافتی کشمکش میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا؟ کل کا دن اس حوالے سے نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ نوشکی پولیس کے سربراہ ہاشم مہمند کے مطابق واقعہ غریب آباد کے علاقے میں پیش آیا، جہاں اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ مسلح حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ چاروں اہلکاروں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے ٹیچنگ اسپتال نوشکی منتقل کر دی گئی ہیں۔ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں ایک حملے میں چار مزدوروں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی میں پولیس پر حملے اور منگیچر میں مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا نوشکی میں پولیس موبائل پر فائرنگ اور منگچر میں معصوم مزدوروں کا قتل وحشیانہ دہشت گردی ہے۔ شہداء کے خون کا حساب لیا جائے گا، ریاست دشمن عناصر کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔ بلوچستان کے امن کو خراب کرنے کی ہر سازش ناکام ہوگی! ۔
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیویڈنڈز کی مد میں پاکستان سے ڈالر کا اخراج دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کے جولائی تا فروری کے دوران منافع کا اخراج 103.94 فیصد اضافے کے ساتھ 1.55 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 76 کروڑ ڈالر تھا۔ یہ اضافہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کے اخراج پر عائد پابندیوں میں نرمی کی علامت ہے، تاہم اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ برقرار ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے ذخائر 11.14 ارب ڈالر ہیں، جو بڑھتی ہوئی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ناکافی تصور کیے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ منافع کا اخراج خوراک کے شعبے سے 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا، جبکہ توانائی کے شعبے نے 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور مالیاتی شعبے (بشمول بینکنگ) نے 19 کروڑ 10 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے۔ پاکستان کو سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوتے ہیں، جس میں 5 ارب ڈالر صرف سود کی مد میں شامل ہیں۔ حکومت بیرونی قرضوں کو رول اوور کرانے اور مزید قرضے لینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ادائیگیوں کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔ حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدات میں نمایاں اضافے کے بغیر قرضوں کے بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔
کوئٹہ کے علاقے سریاب سے حراست میں لی گئی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر چار خواتین کو ایک ماہ کے لیے کوئٹہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہیں تھری ایم پی او کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔ کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور فائرنگ کی، جس سے دو مزدور اور ایک افغان شہری ہلاک ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں بعض مظاہرین مسلح تھے اور جعفر ایکسپریس میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے جیو نیوز کے پروگرام "نیا پاکستان" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سول اسپتال کوئٹہ پر حملے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں مسلح افراد شامل تھے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مخصوص حالات میں خصوصی قوانین کا نفاذ ضروری ہوتا ہے، اور حکومت کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی ان دہشت گردوں کی لاشوں کے لیے احتجاج کر رہی تھی جو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق، حکومت پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری اور جیل منتقلی کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اعلان کیا کہ اگر ان کی رہائی عمل میں نہ آئی تو احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا۔
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے اینکر نجم ولی کے متنازع بیان نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، جس میں انہوں نے نارتھ کوریا کی طرز پر "فیملی سینٹینسنگ" جیسے سخت قوانین اپنانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق، دہشت گردوں کے ساتھ ان کے اہلِ خانہ کو بھی اجتماعی ذمہ داری کے تحت سزا دی جانی چاہیے، تاکہ وہ اپنے خاندان کے فرد کو جرم سے روکنے میں ناکامی پر جوابدہ ہوں۔ نجم ولی نے کہا ہمیں دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے North Korea سے Family Sentencing کا وہ قانون کاپی کرنا ہو گا جس میں ایک مجرم کے ساتھ اس کی فیملی کو بھی Collective Responsibility میں سزا دی جاتی ہے کہ تم نے اسے کیوں نہیں روکا۔ اس کی اچھی تربیت کیوں نہیں کی یعنی دہشت گرد کا سارا خاندان اندر۔ نجم ولی کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا۔ احمد وڑائچ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "جتنا پلید ذہن ہے، پاکستان کو نارتھ کوریا بنا کر اسے یہاں کا Kim Jong Un لگا دیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "خدائے ذوالجلال نے قرآن میں واضح فرما دیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔" (سورة النجم، آیت 38)۔ صبیح کاظمی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "جنوبی کوریا سے ترقی سیکھنے کے بجائے اب شمالی کوریا کے ماڈل کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ان دانشوروں کا حال دیکھیں!" جبکہ سجاد حسین نے سخت الفاظ میں کہا کہ "ایسے شخص پر ہزار لعنت جو چند ٹکوں کی نوکری کے لیے اپنے ملک کو نارتھ کوریا جیسی جابر ریاست بنانے کے مشورے دے رہا ہے۔ الحمدللہ پاکستان اب بھی نارتھ کوریا سے ہزار گنا بہتر ہے، اسے وہیں بھیج دیں!" معروف سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے کہا کہ "یہ ملک خود کو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے، مگر یہاں کے پڑھے لکھے افراد بھی نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں اور نہ جمہوریت کا۔ کہیں آپ کی یہ خواہش آپ کے اپنے گلے نہ پڑ جائے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "کیا کبھی اسلام، رسول اللہ (ص) کی تعلیمات اور جمہوری اصول پڑھے ہیں؟ ایک فرد کے جرم کی سزا پورے خاندان کو دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟" یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے۔ حالیہ دنوں میں معروف صحافی احمد نورانی کے بھائیوں سمیت کئی سوشل میڈیا پر متحرک نوجوانوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے اغوا کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں سرکاری ٹی وی کے اینکر کا یہ بیان نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو مزید تقویت دیتا ہے بلکہ حکومتی اداروں کی پالیسیوں پر بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور سابق صوبائی وزیر عاطف خان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، جس کا اثر حکومتی قانونی ٹیم پر بھی پڑا۔ عاطف خان کے خلاف اینٹی کرپشن نوٹس کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ میں 12 مارچ کو سماعت مقرر تھی، لیکن ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور عاطف خان کے وکیل نے "راضی نامہ" کی بنیاد پر سماعت ملتوی کروا دی۔ بعد ازاں، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کی کہ کس کی ہدایت پر کیس ملتوی کرایا گیا، کیونکہ اینٹی کرپشن کسی بھی راضی نامے کے موڈ میں نہیں تھا۔ معاملہ مزید الجھنے پر نوروز خان نے مؤقف اختیار کیا کہ "شاید" عدالت نے غلطی سے ایڈووکیٹ جنرل آفس کی جانب سے بھی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کا ذکر کر دیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد معروف قانون دان قاضی انور ایڈووکیٹ نے نوروز خان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے تو وہ مستعفی ہوں، اور اگر غلط بیانی نہیں کی تو عدالت میں تحریری حکمنامہ درست کروانے کی درخواست کیوں نہیں دی؟ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور عاطف خان کے خلاف کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے کمزور دلائل پر ناراض تھے۔ حکومت نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے عاطف خان کے کیس میں تاخیری حربے استعمال کرنے اور حکومتی مؤقف کے برعکس عدالت میں بیان دینے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق، نوروز خان نے قاضی انور ایڈووکیٹ کے استعفے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا، تاہم بالآخر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس معاملے پر ایک اور پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب قاضی انور ایڈووکیٹ کا نوروز خان کے نام ایک آڈیو پیغام لیک ہو گیا، جس میں انہوں نے کہا: "وزیراعلیٰ نے آپ کو ہٹانے کا کہا تھا، لیکن میں نے کہا کہ نہیں، اس سے لاء آفیسر کی بدنامی ہوگی، اس لیے اب آپ کو خود استعفیٰ دینے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ مستعفی ہو جائیں، پھر حالات بہتر ہوئے تو دیکھیں گے۔"
اسلام آباد:حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق، قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ جانے کو تسلیم کیا، لیکن اس طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ہے۔ اسی دوران، چینی کی گھریلو اور کمرشل صارفین کے لیے الگ الگ قیمتیں مقرر کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفی شاہ کی زیرصدارت ہوا، جہاں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر توجہ دلانے والے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے، تاہم ملکی معیشت کے حالات ایسے ہیں کہ فوری طور پر ملازمین کو ریلیف دینا ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے میں ایک ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے جا رہے ہیں اور بلوچستان میں ٹرین کی سکیورٹی کے لیے 22 سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے، جبکہ بولان اور جعفر ایکسپریس کو جلد بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شاہد عثمان نے بتایا کہ چینی کی کمرشل اور گھریلو قیمتوں کے تعین کے لیے کمیٹی 17 اپریل تک اپنا کام مکمل کر لے گی۔ وزیر مملکت شاہد عثمان نے معیشت کی بحالی کے حوالے سے کہا کہ اس عمل میں تقریباً ایک سال کا وقت لگے گا۔ قومی بچت اسکیموں میں اسلامی سرمایہ کاری نہ ہونے کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ 64 ارب روپے کی اسلامی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ بعد ازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیگر شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے جوڑنا کافی نہیں۔ یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے کیس میں سنایا گیا۔ عدالت نے چھ سال بعد عمر قید کی سزا پانے والے ملزم کو بری کر دیا۔ جسٹس طارق ندیم نے ملزم محمد عارف کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ دور میں کیسوں کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، لیکن عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں اور یہ کہ آیا ڈی این اے کے نمونے محفوظ طریقے سے فرانزک تجزیے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ جسٹس طارق ندیم نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو ماہر کی رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے، تاہم شواہد کے جائزے سے یہ ثابت ہوا کہ پراسیکیوشن کا کیس شکوک و شبہات سے بھرا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مشکوک اور غیر حقیقی شواہد کی بنیاد پر ملزم کی سزا برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ملزم پر انتہائی سنجیدہ الزامات عائد ہیں، مگر صرف اس بنیاد پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ملزم کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں سنگین قانونی نقائص ہیں۔ ملزم محمد عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پراسیکیوشن کے مطابق ملزم نے 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد اس کا گلا کاٹ کر قتل کیا اور پھر اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی۔ تاہم، کوئی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس تکنیکی شواہد پر مبنی تھا، جو عموماً کمزور شواہد سمجھے جاتے ہیں۔ پراسیکیوشن نے اس معاملے میں وقوعہ کے وقت آخری دیکھے جانے والے گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا تھا، جنہوں نے بیان دیا کہ انہوں نے لڑکی کو ملزم کے ساتھ کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ تاہم، جسٹس طارق ندیم نے ان گواہوں کو قانونی لحاظ سے کمزور گواہ قرار دیا۔ میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے، اور عدالت نے اس کی بنیاد پر ملزم کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم نے کارروائی کرتے ہوئے ریاست اور حکومتی شخصیات کی جعلی ویڈیوز بنانے میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزم کی شناخت غلام نبی کے طور پر ہوئی ہے، جسے صادق آباد میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم ریاست اور سرکاری شخصیات کو نقصان پہنچانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال کرتا تھا اور حکومتی شخصیات کی جعلی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتا تھا۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور دیگر ڈیجیٹل شواہد کو قبضے میں لے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
انصار عباسی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے اتحادیوں کے ساتھ مختلف سیاسی آپشنز پر مشاورت کر رہی ہے تاکہ پارٹی کے لیے سیاسی جگہ حاصل کی جا سکے، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی سیاست کو ختم کیا جا سکے اور جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین، عمران خان، کے لیے ریلیف حاصل کیا جا سکے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، اپوزیشن اتحاد کے بعض رہنماؤں، جن میں مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی ایم اے پی) کے چیئرمین محمود خان اچکزئی شامل ہیں، کو کہا گیا ہے کہ وہ عمران خان کو قائل کریں کہ وہ سیاسی ماحول کو بہتر کرنے میں کردار ادا کریں، سوشل میڈیا پر جارحانہ رویے سے گریز کریں اور دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن تعاون فراہم کریں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی خواہش رکھنے والے علامہ راجہ ناصر عباس کو پی ٹی آئی کے بعض اعلیٰ رہنماؤں، بشمول بیریسٹر گوہر علی خان، نے کہا کہ عمران خان کو قائل کریں کہ وہ پارٹی کی معمول کی سیاست میں واپس آنے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے میں مدد کریں۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے اس بات چیت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مختلف آپشنز پر بات چیت کر رہی ہے، لیکن انہوں نے اس بات چیت کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے سے گریز کیا۔ ایک بیرون ملک مقیم یوٹیوبر، جو پی ٹی آئی کے قریب سمجھے جاتے ہیں، نے دعویٰ کیا کہ گوہر علی خان نے حال ہی میں علامہ راجہ ناصر عباس اور محمود خان اچکزئی سے ماحول کو بہتر بنانے کی درخواست کی تھی، مگر دونوں رہنما اس بات پر راضی نہیں ہوئے۔ اگرچہ پی ٹی آئی عید کے بعد حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن کئی رہنما محاذ آرائی کی سیاست کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہتے، کیونکہ اس سیاست کا عمران خان اور پارٹی قیادت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان سخت بیانات سے گریز کریں اور پارٹی کے سوشل میڈیا کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اشتعال انگیزی سے روک دیں تو پارٹی کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ چونکہ ملک کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سامنا ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کا ماننا ہے کہ پارٹی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگ دکھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے پارٹی رہنماؤں کو پریشان کر دیا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کے سوا کوئی پارٹی کے سوشل میڈیا کو قابو نہیں پا سکتا۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے خاتون اقصیٰ پرویز کی درخواست پر سماعت کی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل محمد فرخ خان لودھی نے بتایا کہ ڈی ایس پی کی سربراہی میں سات رکنی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، اور مغوی کے ساتھ جو شخص اغوا ہوا تھا، وہ رہا ہو چکا ہے۔ اسے بھی تفتیش میں شامل کیا گیا، لیکن وہ تعاون نہیں کر رہا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دئیے کہ جب کسی کو اُٹھا لیا جاتا ہے اور اس کا پتہ چھ ماہ تک نہیں چلتا، تو اس کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات نفرتیں بڑھاتے ہیں۔ لاء افسر نے بتایا کہ یہ مسنگ پرسن کا کیس ہے اور درخواست گزار نے مسنگ پرسن کمیشن میں بھی درخواست دی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کمیشن نے اب تک کتنے افراد بازیاب کرائے ہیں؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ کمیشن نے 17 مارچ 2025 کو ملک کی تمام ایجنسیوں کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی ہے۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید نے بتایا کہ ہم نے متعلقہ جگہ پر تفتیش کی، لیکن جو شخص اغوا کے وقت ساتھ تھا، وہ کچھ نہیں بتا رہا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دئیے کہ جس ملک میں اسمبلیوں سے بھی لوگ اغوا ہوتے ہوں، وہاں آپ یہاں کہانیاں سنا رہے ہیں۔ جسٹس انوار نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ نہیں کر رہے، اور مزید 15 دن کا وقت دے رہے ہیں۔ عدالت نے سماعت 14 اپریل تک ملتوی کر دی۔
واشنگٹن/دبئی – متحدہ عرب امارات (UAE) نے اگلے دس سالوں میں امریکا میں 1.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے فریم ورک کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیش رفت اس ہفتے وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ اماراتی حکام اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، یہ سرمایہ کاری مصنوعی ذہانت (AI) انفراسٹرکچر، سیمی کنڈکٹرز، توانائی، اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں کی جائے گی اور امریکا میں متحدہ عرب امارات کی موجودہ سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کرے گی۔ تاہم، وائٹ ہاؤس نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ سرمایہ کاری کس طرح 1.4 ٹریلین ڈالر تک پہنچے گی، کیونکہ اس فریم ورک میں شامل کچھ معاہدے پہلے ہی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ بیان کے مطابق، اس فریم ورک میں شامل واحد نیا اور مکمل طور پر غیر اعلانیہ معاہدہ امارات گلوبل ایلومینیم (EGA) کی جانب سے امریکا میں ایک نیا ایلومینیم اسمیلٹر لگانے کا منصوبہ ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ پلانٹ امریکا میں گھریلو ایلومینیم کی پیداوار کو تقریباً دوگنا کر دے گا۔ ای جی اے کے ایک ترجمان کے مطابق، "امریکا میں ایک بنیادی ایلومینیم اسمیلٹر کی ترقی کئی سالوں سے ہماری ترجیحات میں شامل رہی ہے۔" متحدہ عرب امارات، جو تیل پیدا کرنے والا ملک اور امریکا کا دیرینہ سیکیورٹی پارٹنر ہے، سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، امارات مصنوعی ذہانت سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی معیشت کو توانائی پر انحصار سے آزاد کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ گزشتہ ستمبر میں، متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے سابق امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی، جس میں مصنوعی ذہانت، سرمایہ کاری اور خلائی تحقیق سمیت کئی اہم امور پر تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی تھی۔ ادھر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال جنوری میں سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکا میں چار سال کے دوران 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے، جس میں فوجی ساز و سامان کی خریداری بھی شامل ہو۔ اس ماہ ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ جلد سعودی عرب کا دورہ کریں گے تاکہ ایک بڑے سرمایہ کاری معاہدے کو حتمی شکل دے سکیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ تحنون بن زاید النہیان نے منگل کو اوول آفس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اسی دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور کئی کابینہ ارکان نے اماراتی وفد کے ساتھ عشائیہ کیا، جس میں امارات کے بڑے خودمختار دولت فنڈز اور کارپوریشنز کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اعلان کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے خودمختار دولت فنڈ ADQ نے امریکی نجی ایکویٹی فرم Energy Capital Partners کے ساتھ 25 ارب ڈالر کے ایک منصوبے کا معاہدہ کیا ہے، جو توانائی کے بنیادی ڈھانچے اور ڈیٹا سینٹرز پر مرکوز ہوگا۔ تاہم، یہ معاہدہ دو دن قبل پہلے ہی اعلان کیا جا چکا تھا۔ اس کے علاوہ، اماراتی ریاستی آئل کمپنی ADNOC کے بین الاقوامی سرمایہ کاری ونگ XRG نے امریکی قدرتی گیس کی پیداوار اور برآمدات میں سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے، خاص طور پر ٹیکساس میں NextDecade لیکویفائیڈ نیچرل گیس (LNG) ایکسپورٹ سہولت میں۔ یہ سرمایہ کاری اصل میں گزشتہ سال بائیڈن انتظامیہ کے تحت منظر عام پر آئی تھی۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب خلیجی ممالک، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، امریکا کے ساتھ اپنے معاشی اور سفارتی تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں، سعودی عرب آئندہ ہفتے امریکا اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر سفارتی مذاکرات کی میزبانی بھی کرنے والا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے دی گئی سزاؤں کے خلاف دائر تمام 29 درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال شامل تھے، نے ان درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت میں درخواست گزاروں کے وکلا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ، اور عدالتی معاون شمائل احمد بٹ پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ملٹری کورٹس نے گرفتار ملزمان کو مختلف نوعیت کی سزائیں سنائی ہیں، جن میں سے کئی اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں، مگر انہیں رہا نہیں کیا جا رہا۔ وکیل نے مزید دلیل دی کہ قانون کے مطابق دورانِ حراست گزارا گیا وقت بھی قید میں شمار کیا جانا چاہیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹس کی جانب سے دی گئی سزائیں خصوصی قانون کے تحت آتی ہیں، جن میں قیدیوں کو 382 بی کا فائدہ نہیں دیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گرفتار افراد دہشت گرد ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں جن کے تحت اسپیشل قوانین کے تحت دی گئی سزاؤں میں ملزمان کو دورانِ حراست گزارے گئے وقت کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا، اور سزائیں اسی وقت شمار ہوں گی جب ان پر دستخط کیے جائیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے خصوصی قوانین کے دائرے میں آتے ہیں اور ہائی کورٹ صرف یہ دیکھتی ہے کہ کیا سزا قانونی دفعات کے مطابق دی گئی ہے یا نہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ان تمام سزاؤں کا اطلاق آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہے اور سزا کا آغاز دستخط کے دن سے ہوگا، جبکہ 382 بی کے تحت کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد، پشاور ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے تمام 29 درخواستیں خارج کر دیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب 21 دسمبر 2024 کو فوجی عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے واقعات میں ملوث 25 افراد کو 10 سال تک کی قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔ فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات ناقابل معافی تھے، اور ان میں ملوث افراد کے خلاف ٹھوس شواہد اکٹھے کیے گئے تھے۔ بعد ازاں، 26 دسمبر 2024 کو مزید 60 افراد، بشمول سابق وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی، کو بھی 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں دی گئیں۔ آئی ایس پی آر نے ان فیصلوں کو انصاف کی فراہمی میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مزید مجرموں کو سزائیں سنائی گئیں۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں وزارت دفاع کے لیے 430 ملین روپے کی گرانٹ سمیت مختلف اہم گرانٹس کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کی۔ اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے 2 ارب روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کے واجب الادا اشتہارات کی ادائیگی کے لیے فنڈز جاری کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔ پنجاب میں ایس اے پی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص کرنے کا فیصلہ بھی اجلاس کا حصہ رہا۔ ای سی سی اجلاس میں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر کے لیے 250 ملین روپے کی منظوری دی گئی۔ مزید برآں، 1,000 بستروں پر مشتمل جدید طبی مرکز کے قیام کے لیے حکومتی سرمایہ کاری کی منظوری دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے احکامات پر آسٹریلوی کمپنی کو 24.556 ملین روپے کی ادائیگی کی بھی منظوری دی گئی۔ کمیٹی نے اسٹیٹ بینک کے لانگ ٹرم فنانسنگ فیسلٹی کے مرحلہ وار خاتمے کا بھی فیصلہ کیا جبکہ ایگزیم بینک کو 330 ارب روپے کا ایل ٹی ایف ایف پورٹ فولیو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں ایک ارب روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی بھی منظوری دی گئی۔
اسلام آباد میں بغیر اجازت احتجاج کرنے پر عورت مارچ کی قیادت کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ یہ مقدمہ پرامن اسمبلی ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت سٹی مجسٹریٹ کی مدعیت میں دونوں گروپوں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ تھانہ کوہسار میں درج ایف آئی آر کے مطابق، سماجی کارکن فرزانہ باری نے تقریباً 100 سے 150 خواتین کے ساتھ احتجاج کیا، جبکہ دوسری جانب صدر مسلم طلبہ اور اسلامی نظریاتی پارٹی کے 50 سے 60 کارکنان شہید ملت چوک پر جمع ہوئے۔ مقدمے میں کہا گیا کہ طلبہ کے گروپ نے عورت مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں دونوں گروپوں کے درمیان نعرے بازی اور چوک کی بندش کا واقعہ پیش آیا۔ مقدمے میں مزید کہا گیا کہ دونوں گروپوں نے احتجاج سے قبل این او سی حاصل نہیں کیا تھا، جبکہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باعث ہر قسم کے احتجاج پر پابندی عائد ہے۔ پولیس کے مطابق، فرزانہ باری اور بلال ربانی نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی احتجاج کیا۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اپوزیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی شاندار کارکردگی کا اعتراف ہر طبقے کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اور خیبرپختونخوا کے لوگ خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہاں بھی مریم نواز جیسی وزیراعلیٰ ہوں۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ ایک سروے رپورٹ میں 70 فیصد عوام نے وزیراعلیٰ مریم نواز کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کسانوں کو مختلف سہولتیں فراہم کی ہیں، اور اس وقت تک 54 ارب روپے کے قرضے چھوٹے کسانوں کو دیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے کسان کارڈ کے ذریعے اب تک 54 ارب روپے کی خریداری کی جا چکی ہے، اور پنجاب حکومت نے 10 ہزار گرین ٹریکٹرز کسانوں کو دیے ہیں۔ اس کے علاوہ، وزیراعلیٰ مریم نواز نے 30 ہزار بچوں کو اسکالرشپس بھی دی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز غریبوں کے لیے صحت کی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں اور بڑی بیماریوں کی ادویات مریضوں کے گھروں تک پہنچاتی ہیں۔ ڈائیلسز پروگرام کے تحت 10 لاکھ روپے تک کے کارڈ لوگوں کو دیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایئر ایمبولینس سروس اور لائیوسٹاک کارڈ جیسے جدید منصوبے بھی شروع کیے جا چکے ہیں، جس سے مویشیوں کو بیرون ملک بھیجا جا کر زرمبادلہ کمایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے "اپنا چھت، اپنا گھر" پروگرام بھی شروع کیا، جس کے تحت ہزاروں مکانات بن چکے ہیں۔ صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ آج کل وزیراعلیٰ مریم نواز کے تمام منصوبوں کا موازنہ عثمان بزدار سے کیا جا رہا ہے، مگر اگر عثمان بزدار اتنے قابل ہوتے تو وہ خود اپنا تعارف کراتے۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے روڈا کے منصوبے کو تباہ کر دیا اور اس پر صحافیوں کو گمراہ کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں کینسر کے مریضوں کی ادویات بھی بند کر دی گئی تھیں، اور ان کا دعویٰ کہ ایئر ایمبولینس سروس لائی جائے گی، جھوٹا ثابت ہوا۔ عظمیٰ بخاری نے اپوزیشن کے کچھ رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مشورہ دیا کہ جو شخص آپ کو غلط معلومات فراہم کر رہا ہے، اسے فوراً بلاک کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کسانوں سے تو پیسے لیے مگر وہ پیسے خزانے میں نہیں بلکہ اپنی جیبوں میں ڈالے۔

Back
Top