خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
بہاولنگر کے علاقے ہارون آباد میں ایک جعلی پیر پر 14 سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کا شدید نوعیت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تھانہ صدر ہارون آباد میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق ملزم نے دم کرنے کے بہانے لڑکی کے گھر میں داخل ہو کر اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ متاثرہ لڑکی کے والد نے پولیس میں درخواست دائر کرتے ہوئے بتایا کہ جعلی پیر ان کی غیر موجودگی میں گھر آیا اور ان کی بیٹی کے ساتھ درندگی کی۔ ایف آئی آر کے مطابق، ملزم لڑکی کو طبیعت بگڑنے کے بہانے اپنے گھر لے گیا جہاں اس نے رات بھر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اگرچہ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور میڈیکل رپورٹ بھی موجود ہے، لیکن ملزم اب تک فرار ہے۔ متاثرہ لڑکی نے اعلیٰ حکام سے فوری انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مار رہی ہے، لیکن اب تک کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔ اس واقعے نے مقامی برادری میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جب کسی جعلی پیر نے معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کی ہو۔ انہوں نے فوری انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے حکام سے ملزم کی گرفتاری اور سخت سزا یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔ ضلعی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ "ملزم کی تلاش جاری ہے اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے جلد از جلد گرفتار کیا جائے"۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ عدالت تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی جائے گی۔ اس واقعے نے ایک بار پھر معاشرے میں جعلی پیروں کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ سماجی کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ ایسے مجرموں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے تاکہ معصوم بچوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
لاہور پولیس نے جامعہ پنجاب میں آئس سپلائی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے ایک وردی میں ملبوس پولیس اہلکار کو رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ ترجمان پولیس کے مطابق گرفتار اہلکار اعجاز علی کچھ عرصہ قبل کلوز لائن ہو چکا تھا اور انوسٹی گیشن ونگ کے دفتر میں تعینات تھا۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ مذکورہ اہلکار نے یونیفارم کی آڑ میں پنجاب یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہو کر منشیات فراہم کرنے کی کوشش کی، تاہم مستعد پولیس ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور نے اس کارروائی پر اقبال ٹاؤن پولیس کی ٹیم کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ لاہور پولیس نے منشیات فروشوں کے خلاف انٹیلی جینس پر مبنی مضبوط نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے، اور کسی کو بھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جائے گا، چاہے وہ فورس کا حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ ترجمان فیصل کامران نے اس موقع پر کہا کہ پولیس محکمہ میں اندرونی احتساب اور مسلسل نگرانی کا مربوط نظام موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: "ایک مجرم اہلکار پوری فورس کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، وردی میں جرم کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔" انہوں نے واضح کیا کہ آئندہ بھی اس قسم کی کارروائیاں جاری رہیں گی، اور پولیس فورس کے اندر چھپے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن میں کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق اس کیس میں ملوث دیگر افراد اور ممکنہ نیٹ ورک کی تلاش جاری ہے، اور جلد ہی مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔
اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی ایک اہم سماعت کے دوران پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے نمائندے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کو بغاوت اور دیگر سنگین الزامات کے تحت آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کر کے 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم موجودہ ایئر چیف نے سزا میں نرمی کرتے ہوئے 10 سال معاف کر دیے ہیں، اور وہ اس وقت باقی ماندہ 4 سال کی سزا پی اے ایف کے آفیسرز میس میں کاٹ رہے ہیں، جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کو جنوری 2024 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ نے ان کی گمشدگی کی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں پروانہ حاضری شخص (ہیبیئس کارپس) کی درخواست دائر کی تھی۔ سماعت کے دوران پی اے ایف حکام نے عدالت کو مطلع کیا کہ جواد سعید کو باقاعدہ طور پر آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے ملٹری ٹریبونل میں مقدمہ چلایا گیا اور سزا سنائی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے یہ مؤقف تسلیم کرتے ہوئے درخواست مسترد کر دی تھی اور کہا تھا کہ جب ملزم کا مقامِ حراست معلوم ہو، تو ایسی نوعیت کی درخواست قابل سماعت نہیں ہوتی۔ عدالت نے درخواست گزار پر 25 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ گزشتہ ماہ جواد سعید کی اہلیہ نے ان کی برطرفی اور قید کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کی گرفتاری کے بعد ان کی پنشن بند کر دی گئی اور فیملی ہیلتھ سروسز بھی روک دی گئی تھیں، حالانکہ بعد ازاں ان کی اہلیہ کا علاج بحال کر دیا گیا۔ پیر کے روز اس نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران، پی اے ایف کے ایک سینیئر افسر نے عدالت کو بتایا کہ جواد سعید کو کورٹ مارشل کے بعد 14 سال قید کی سزا دی گئی، جس میں سے 10 سال کی معافی ایئر چیف کی صوابدیدی اختیار کے تحت دی گئی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ سزا یافتہ افسر کو جیل کے بجائے پی اے ایف کے آفیسرز میس میں رکھا گیا ہے، جو فوجی قوانین کے تحت سب جیل قرار دی جا چکی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ جواد سعید کو غیر قانونی طور پر پی اے ایف کی تحویل میں رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک شہری پر فوجی ٹریبونل میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، اور اگر سزا دی گئی ہے تو مجرم کو باقاعدہ جیل بھیجا جانا چاہیے، نہ کہ پی اے ایف کی زیرِ نگرانی کسی میس میں رکھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کورٹ مارشل کی مکمل کارروائی اور تفصیلات نہ تو جواد سعید کے خاندان کو فراہم کی گئیں اور نہ ہی انہیں اپیل کا موقع دیا گیا، جو کہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ انعام الرحیم نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ جواد سعید 2021 میں ایئر چیف کے عہدے کے ممکنہ امیدواروں میں شامل تھے لیکن 18 مارچ 2021 کو ترقی نہ ملنے پر انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ بعد ازاں انہیں یکم جنوری 2024 کو بغیر کسی واضح الزام کے گرفتار کیا گیا، اور مکمل قانونی طریقہ کار کو پسِ پشت ڈال کر کورٹ مارشل کیا گیا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد پی اے ایف حکام کو ہدایت کی کہ کورٹ مارشل سے متعلق تمام ضروری تفصیلات درخواست گزار کے وکیل کو فراہم کی جائیں تاکہ وہ مناسب قانونی کارروائی کر سکیں۔ عدالت نے مزید سماعت 29 اپریل 2025 تک ملتوی کر دی ہے، جس میں متوقع طور پر کورٹ مارشل کے قانونی دائرہ کار، سزا کی حیثیت، اور جواد سعید کی قید کے قانونی جواز پر مزید بحث ہوگی۔
اسلام آباد: وزیر داخلہ محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے شہریوں کو پاکستان آنے کے لیے کسی ویزا کی ضرورت نہیں، وہ جب چاہیں بلا روک ٹوک پاکستان آ سکتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں پاکستان میں تعینات سعودی سفیر سے ملاقات کے دوران کہی، جہاں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور اور تعاون کو مزید مستحکم بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں وزیر داخلہ نے پاکستان میں معاشی و سماجی شعبوں میں سعودی عرب کی جانب سے فراہم کیے گئے تعاون پر شکریہ ادا کیا اور خاص طور پر انسداد منشیات کانفرنس میں سعودی وفد کی شرکت کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب منشیات اور انسانی اسمگلنگ جیسے حساس معاملات پر مؤثر اور مشترکہ حکمت عملی کے خواہاں ہیں۔ محسن نقوی نے مزید بتایا کہ پاسپورٹ کے حصول کے عمل میں شفافیت اور بہتری کے لیے نئی شرائط متعارف کرائی جا رہی ہیں، تاکہ اس نظام کو مزید فعال اور محفوظ بنایا جا سکے۔ ساتھ ہی انہوں نے بھکاری مافیا کے خلاف جاری کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے عناصر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اور اس مافیا کو جلد انجام تک پہنچایا جائے گا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے حالیہ دنوں میں ایک بے گناہ پاکستانی خاندان کی رہائی اور ان کی وطن واپسی میں بھرپور معاونت فراہم کی، جس پر پاکستان تہہ دل سے مشکور ہے۔ اس موقع پر سعودی سفیر نے بھی پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو سراہا اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط ہیں، جنہیں مستقبل میں مزید وسعت دی جائے گی۔
لندن: مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے، جس کے باعث انہوں نے اپنا لندن میں قیام بڑھا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ حالیہ دنوں بیلاروس کے دورے پر گئے تھے، جہاں سے وہ لندن روانہ ہوئے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا لندن کا دورہ دو ہفتوں پر مشتمل تھا، تاہم طبیعت کی خرابی کے باعث انہوں نے اپنی واپسی کی پرواز بھی ری شیڈول کروا لی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف مسلسل میڈیکل چیک اپس کے مراحل سے گزر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا قیام غیر معینہ مدت تک بڑھایا گیا ہے۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ معالجین نے انہیں مکمل آرام اور علاج جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) برطانیہ کی قیادت نواز شریف کے اعزاز میں ایک ورکرز کنونشن کے انعقاد کی خواہاں ہے، تاہم اس کا حتمی فیصلہ ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
اسلام آباد: جمہوریہ روانڈا کے وزیر خارجہ اولیورجین پیٹرک ندوہنگرے اپنے پہلے سرکاری دورے پر پاکستان پہنچ گئے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے افریقی امور حسنین یوسف اور پاکستان میں روانڈا کے ہائی کمشنر نے معزز مہمان کا استقبال کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ اولیورجین پیٹرک ندوہنگرے اپنے 4 روزہ قیام کے دوران وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چیئرمین سینیٹ اور وفاقی وزرا سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے، تجارت، سرمایہ کاری اور سفارتی تعاون کو وسعت دینے سے متعلق امور زیر غور آئیں گے۔ روانڈا کے وزیر خارجہ اپنے دورے کے دوران اسلام آباد میں روانڈا کے ہائی کمیشن کا باضابطہ افتتاح بھی کریں گے، جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر خارجہ پاکستانی کاروباری برادری سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق یہ دورہ کیگالی اور اسلام آباد میں متعلقہ سفارتی مشنز کے قیام کے بعد کسی روانڈین وزیر خارجہ کا پہلا دورہ ہے، جس سے پاکستان اور روانڈا کے درمیان دوستانہ تعلقات مزید مستحکم ہونے اور نئے شعبوں میں تعاون کے دروازے کھلنے کی توقع ہے۔
لاہور: پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ غزہ سے یکجہتی کے نام پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ تشدد پسند گروہ پنجاب کی ترقی پر حملہ آور ہیں اور فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کی آڑ میں مقامی کاروبار اور شہریوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ “کیا پاکستان میں ہنگاموں اور تشدد سے غزہ کے لوگوں کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے؟” ان کا کہنا تھا کہ فوڈ چینز پر حملوں میں نقصان اٹھانے والے پاکستانی شہری ہیں، اور ان اداروں میں کام کرنے والے تقریباً 25 ہزار پاکستانیوں کا روزگار داؤ پر لگا ہے۔ وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ ایسے عناصر جو فلسطین کے نام پر جلاؤ گھیراؤ اور تشدد پر اتر آئے ہیں، وہ نہ صرف پاکستان دشمن ہیں بلکہ ان کی حرکات سے پاکستان کی ساکھ، معیشت اور امن کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ عمل دراصل پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ایک منصوبہ بندی ہوسکتی ہے جس میں غیر ملکی ہاتھ بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ اسلام امن، رواداری اور بھائی چارے کا مذہب ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو، وہ بھی غزہ کے نام پر، قتل کرنے کی کوشش کرے؟” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں کام کرنے والی فوڈ چینز زیادہ تر فرنچائزز ہیں، جن کے مالکان اور ملازمین پاکستانی ہیں۔ ان اداروں کو نقصان پہنچانا دراصل ملک کے اپنے لوگوں کو بیروزگار کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ایسے کسی بھی اقدام کو برداشت نہیں کرے گی جو امن و امان کو نقصان پہنچائے، چاہے اس کے پیچھے کوئی بھی نعرہ یا مقصد ہو۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے میں اب تک 149 شرپسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور 14 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ لاہور میں 3 مقدمات کے تحت 11 افراد کو گرفتار کیا گیا، شیخوپورہ میں ایک واقعے پر درج مقدمے میں 71، گوجرانوالہ میں 8، راولپنڈی میں 33، ملتان میں 11، ساہیوال میں 6، بہاولپور میں 7، رحیم یار خان میں 2 اور فیصل آباد میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج اور ریلیاں جمہوری حق ہیں اور حکومت کو ان پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مذہب یا سیاسی نظریے کی آڑ میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ پاکستان حکومت غزہ کے مسئلے پر عملی اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعظم کی قیادت میں اب تک آٹھ قسطوں پر مشتمل امدادی سامان غزہ بھجوایا جاچکا ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان نے فلسطینی عوام کا مقدمہ مؤثر انداز میں اٹھایا ہے، خاص طور پر او آئی سی اور عرب لیگ میں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے، مگر ملک کے امن و امان اور ترقی کو نقصان پہنچا کر نہیں، بلکہ سنجیدہ، منظم اور باوقار سفارتی و انسانی ہمدردی کے ذریعے۔
قصور میں ایک ٹک ٹاکر نے وزیراعلیٰ پنجاب سے سرکاری گاڑی اور 50 لاکھ روپے انعام میں ملنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہوئے ویڈیو بنائی، جس کے بعد پولیس نے پیکا ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے دونوں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ تھانہ گنڈا سنگھ پولیس کے مطابق ویڈیو بنانے والے نوجوانوں میں ایک، حرمین شریف، محکمہ انوائرمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی میں تعینات سرکاری ڈرائیور طفیل کا بیٹا ہے۔ اس نے اپنے دوست ٹک ٹاکر خضر کے ساتھ مل کر سرکاری گاڑی کا غلط استعمال کیا اور اسے سوشل میڈیا ویڈیو کے لیے استعمال کیا۔ ٹک ٹاکر خضر نے ویڈیو میں ایک من گھڑت اسکرپٹ کے ذریعے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسے بہترین کارکردگی پر 50 لاکھ روپے نقد اور ایک سرکاری گاڑی انعام میں دی ہے۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد متعلقہ محکمے نے معاملے کا نوٹس لیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات کی مدعیت میں دونوں نوجوانوں کے خلاف سائبر کرائم (پیکا) ایکٹ اور تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں عوامی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال جیسے الزامات شامل ہیں۔
لندن — ایک وقت تھا جب گلفام حسین سابق وزیرِاعظم نواز شریف کا متوالا ہوا کرتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے نغمے گاتا، اور سوشل میڈیا پر نواز شریف کی حمایت میں وڈیوز بناتا۔ مگر اب وقت نے کروٹ لی ہے اور وہی گلفام حسین آج پی ٹی آئی کے مفلر میں ملبوس ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے باہر احتجاج کرتا نظر آتا ہے۔ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ میں پیشی کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ گلفام حسین پر نواز شریف اور ان کے نواسے ذکریا حسین کو ڈرانے، تعاقب کرنے اور سوشل میڈیا پر تشدد پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ پراسیکیوشن کے مطابق گلفام نے گزشتہ سال نواز شریف کو اور حال ہی میں ان کے نواسے کو ہراساں کیا۔ اس دوران وہ ٹک ٹاک لائیو کے ذریعے اپنے فالوورز کو بھی تشدد پر اکساتا رہا۔ گلفام کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک بار پھر ایون فیلڈ فلیٹس کے قریب پہنچ گیا، جہاں سے نواز شریف حالیہ دنوں میں لندن پہنچے تھے۔ اس بارے میں اصل شکایت مسلم لیگ (ن) برطانیہ کی یوتھ ونگ کے رہنما خرم بٹ نے پولیس کو دی تھی۔ خرم بٹ نے پولیس کو اطلاع دی کہ گلفام ایون فیلڈ کے باہر احتجاجی مجمع میں موجود ہے، جس پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے وقت گلفام کی جیب سے چھوٹے پتھر برآمد ہوئے، حالانکہ پولیس نے پہلے ہی اسے ہدایت کی تھی کہ وہ پتھر لے کر نہ آئے اور نہ ہی کسی پر پھینکے۔ گلفام پر فردِ جرم عائد ہونے کے بعد اسے £2000 کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا، شرط یہ ہے کہ وہ شریف خاندان کے کسی فرد یا ان کی رہائشگاہ کے قریب نہیں جائے گا، کسی قسم کے تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا، اور سوشل میڈیا پر دھمکیاں نہیں دے گا۔ اس سال 17 جنوری کو اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اسے پہلی بار گرفتار کیا اور بعد ازاں ضمانت پر رہا کر دیا، لیکن اسے ایون فیلڈ فلیٹس کے قریب جانے سے منع کر دیا گیا، جہاں شریف خاندان کے افراد رہائش پذیر ہیں۔ وہ ایون فیلڈ فلیٹس پر ٹک ٹاک لائیو کے دوران چھوٹے چھوٹے پتھر پھینکتے ہوئے پکڑا گیا — اسی دوران اُس نے وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شریف خاندان کے دیگر افراد کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں، یہاں تک کہ پارک لین فلیٹس کو بم سے اُڑانے کی دھمکی بھی دی۔ اس نے اپنے ٹک ٹاک فالوورز سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ شریف خاندان کے افراد کو لندن کی سڑکوں پر "گھسیٹے گا" اور اگر پاکستان میں عمران خان کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ "بدلہ" لے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلفام نے عدالت میں خود کو پی ٹی آئی کا کارکن ظاہر کیا، مگر پی ٹی آئی برطانیہ کے صدر عمران خلیل نے اس سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم پرامن احتجاج کے قائل ہیں، گلفام پہلے مسلم لیگ ن کا کارکن تھا اور اس نے خود ہی پی ٹی آئی کے نام پر مظاہرے شروع کیے۔" یاد رہے کہ گلفام پیشے کے لحاظ سے شیف ہے مگر سوشل میڈیا پر شہرت پانے کے بعد اس نے اپنی نوکری چھوڑ دی۔ شہزاد اکبر نے خبر دینے والے مرتضی سے سوال کیا کہ شاہ جی، کیا وہ نواز شریف کا ہی ناراض حمایتی نہیں ہے جو اب ان کے خلاف ہو گیا ہے؟ جس پر مرتضی نے کہا خبر میں تفصیل بتائی ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں معروف بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین "کے ایف سی" کی شاخوں پر ہونے والے پرتشدد حملوں کے الزام میں کم از کم 178 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس نے لاہور، کراچی، اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ایسے 11 واقعات کی تصدیق کی ہے جن میں مشتعل مظاہرین نے کے ایف سی ریسٹورنٹس پر حملہ کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ پولیس کے مطابق مظاہرین ڈنڈوں سے لیس تھے اور انہوں نے مختلف برانچز میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، جبکہ لاہور کے نواحی علاقے میں ایک کے ایف سی پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک ملازم جاں بحق ہو گیا۔ ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واقعے کے وقت کوئی احتجاج جاری نہیں تھا، اور تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا یہ واقعہ سیاسی بنیاد پر ہوا یا ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ یہ مظاہرے مبینہ طور پر اس بین الاقوامی مہم کے تحت کیے گئے، جس میں ان کمپنیوں اور اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی ہے جنہیں اسرائیل کی حمایت یافتہ یا غزہ جنگ سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی سطح پر جاری اس مہم کی فہرست میں کے ایف سی شامل نہیں ہے، اور دنیا بھر میں یہ مہم زیادہ تر پرامن طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں حالیہ مظاہروں میں تشدد کے عنصر کی موجودگی باعث تشویش ہے، خصوصاً جب صرف ایک ہی فاسٹ فوڈ کمپنی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق شہر میں کے ایف سی کی 27 شاخوں پر سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، جبکہ اب تک دو حملے ہو چکے ہیں اور پانچ دیگر ممکنہ حملوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب، کے ایف سی اور اس کی امریکی کمپنی "یم برانڈز" نے تاحال اس صورتحال پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے اور کاروباری اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رہیں گی۔
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ افغان شہریوں اور دیگر غیر قانونی غیرملکیوں کی ملک بدری کی آخری تاریخ 30 اپریل ہے، جس میں کسی قسم کی توسیع نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج سے اگر کوئی شخص کسی غیر قانونی فرد کو کرائے پر دکان، مکان یا کوئی اور جگہ فراہم کرے گا تو وہ بھی قانوناً ذمہ دار ہوگا۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ افغان شہری 40 سال سے پاکستان میں بطور مہمان قیام پذیر ہیں، ہم نے ان کی بھرپور خدمت کی، مگر اب جدید دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص بغیر ویزا، پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات کے کسی ملک میں رہائش اختیار کرے۔ انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک سے پاکستان کو شکایات موصول ہوئیں، جن میں کہا گیا کہ بعض افراد نے جعلی پاکستانی پاسپورٹس استعمال کیے، جو درحقیقت پاکستانی شہری نہیں تھے۔ سعودی عرب، جی سی سی ممالک اور مغربی ممالک سے ایسی شکایات کی روشنی میں ہزاروں پاسپورٹس ضبط کیے گئے، جس سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پالیسی "ون ڈاکومنٹ رجیم" پر مبنی ہے، جس کے تحت دنیا بھر سے لوگ صحت، تعلیم یا سیاحت کے لیے پاکستان آئیں تو انہیں قانونی دستاویزات کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی ویزا پالیسی آن لائن ہے، اور بیشتر ممالک کے لیے 24 گھنٹوں کے اندر ویزا جاری کیا جاتا ہے، تاہم بغیر دستاویزات کسی کے پاکستان میں داخلے یا رہائش پر زیرو ٹالرینس اختیار کی جائے گی۔
ماسکو: روس نے افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے اور ان پر عائد پابندیاں بھی فوری طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ یہ اقدام ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے افغانستان کی قیادت کے ساتھ روس کے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق روس کی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز طالبان پر 2003 سے عائد پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ طالبان کو روس نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا۔ تاحال دنیا کا کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو اگست 2021 میں امریکا کی زیر قیادت افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم روس نے گزشتہ برسوں میں بتدریج طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے طالبان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک "اتحادی" قرار دیا تھا۔ روس کا ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے شدید سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مارچ 2024 میں ماسکو کے نواح میں ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 145 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق اس حملے میں داعش خراسان – جو افغانستان میں سرگرم ہے – ملوث تھی۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ تاہم مغربی دنیا کی جانب سے طالبان کی بین الاقوامی سطح پر شناخت تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی خواتین مخالف پالیسیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کی ہائی اسکول اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغنیں ہیں۔
ماسکو: روس نے افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے اور ان پر عائد پابندیاں بھی فوری طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ یہ اقدام ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے افغانستان کی قیادت کے ساتھ روس کے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق روس کی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز طالبان پر 2003 سے عائد پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ طالبان کو روس نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا۔ تاحال دنیا کا کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو اگست 2021 میں امریکا کی زیر قیادت افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم روس نے گزشتہ برسوں میں بتدریج طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے طالبان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک "اتحادی" قرار دیا تھا۔ روس کا ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے شدید سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مارچ 2024 میں ماسکو کے نواح میں ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 145 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق اس حملے میں داعش خراسان – جو افغانستان میں سرگرم ہے – ملوث تھی۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ تاہم مغربی دنیا کی جانب سے طالبان کی بین الاقوامی سطح پر شناخت تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی خواتین مخالف پالیسیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کی ہائی اسکول اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغنیں ہیں۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا نیا اقدام، شناختی کارڈ نمبر ہی ہوگا مریض کا میڈیکل ریکارڈ نمبر وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں مریضوں کا میڈیکل ریکارڈ (ایم آر نمبر) ان کے شناختی کارڈ نمبر کے تحت ہوگا، اور اس پر کام جاری ہے۔ وفاقی وزیر نے نادرا ہیڈکواٹر کا دورہ کیا اور چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر سے ملاقات کی، جس دوران صحت کے نظام میں ایک ایم آر نمبر کے نفاذ کے حوالے سے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پاکستان کے ہیلتھ سسٹم میں مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کا جامع ڈیٹا نہیں ہے، جسے بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سسٹم کی بہتری کے لیے شناختی کارڈ نمبر کو ہی ایم آر نمبر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ ملک کے کسی بھی حصے میں، کسی بھی وقت، مریض کا مکمل میڈیکل ریکارڈ آن لائن دستیاب ہو سکے، جس سے علاج میں آسانی اور درستگی ممکن ہو گی۔
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ممکنہ ریلیف عوام تک منتقل نہ کیے جانے پر سینئر اقتصادی تجزیہ کار شہباز رانا اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی عطا تارڑ کے درمیان سوشل میڈیا پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ شہباز رانا نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں ایک سڑک اور نہر کی تعمیر کے لیے پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم لیوی میں اضافے کی منظوری دی ہے، جس کا بوجھ غریب سے امیر سب پر پڑے گا۔ انہوں نے اس فیصلے کو ایک غلط پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منی بجٹ کے مترادف ہے، جبکہ بلوچستان پہلے ہی سرپلس بجٹ رکھتا ہے اور وفاقی پی ایس ڈی پی میں بھی 1100 ارب روپے کی گنجائش موجود ہے۔ شہباز رانا نے اپنے ایکس پیغام میں کہا وزیرِاعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں ایک سڑک کی تعمیر اور نہر کی تکمیل کے لیے پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرکے پٹرول اور ڈیزل کی ہر لیٹر کھپت پر، چاہے وہ غریب استعمال کرے یا امیر، اضافی ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ ایک غلط پالیسی فیصلہ ہے اور منی بجٹ کے مترادف ہے۔ بلوچستان ایک مالیاتی سرپلس رکھنے والا صوبہ ہے، اور دسمبر 2024 تک اس کے پاس 91.4 ارب روپے کی اضافی رقم موجود تھی۔ اس کے علاوہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بھی 1100 ارب روپے موجود ہیں۔ حکومت کو پٹرولیم مصنوعات میں ریلیف روکنا نہیں چاہیے۔ ہم بلوچستان کی ترقی کی حمایت کرتے ہیں، مگر اس کے لیے وزیرِاعظم کو پارلیمنٹیرینز کے پہلے سے موجود اختیاری بجٹ اور دیگر وسائل استعمال کرنے چاہییں۔ حکومت اب عوام کا بھرپور استحصال کر رہی ہے۔ عوام پر پہلے ہی بھاری ٹیکس عائد ہیں، اور وہ پٹرول کی قیمتوں میں فی لیٹر 8 روپے تک کی کمی کے مستحق ہیں۔ اس ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے عطا تارڑ نے شہباز رانا پر "مس انفارمیشن" پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے "ٹیکس" کہنا گمراہ کن ہے اور حکومت صرف عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں سے بچت کو بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک دیرینہ انصاف ہے۔ عطا تارڑ نے جواب میں کہا اسے "ٹیکس" کہنا صرف گمراہ کن نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی سوچ کس قدر بے تعلق اور بے حس ہے۔ یہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔ حکومت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں سے ہونے والی بچت کو بلوچستان — جو ملک کے سب سے محروم علاقوں میں سے ایک ہے — کی ترقی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک دیرینہ انصاف ہے۔ وقتی طور پر پٹرول کی قیمت میں کمی جلد ختم ہو جاتی ہے، مگر اصل فائدہ سڑکوں، اسکولوں اور نوکریوں سے ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے ہمدردی اور دوراندیشی کی ضرورت ہے — وہ خصوصیات جو آپ میں واضح طور پر نظر نہیں آتیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔ تاہم، شہباز رانا نے اپنے جوابی ٹویٹ میں عطا تارڑ کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر صاحب، پٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافے کو آپ کیا نام دیں گے؟ براہ کرم وہ نام بتا دیجیے، میں وہی استعمال کر لوں گا، جناب۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ عوام کے جذبات سے کھیلنے سے گریز کریں اور کسی نیک مقصد کو عوام کو ان کا جائز ریلیف نہ دینے کا جواز نہ بنائیں۔ سماجی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، جناب۔ براہ کرم اس ذمہ داری کو گندم کی کٹائی میں ڈیزل استعمال کرنے والے کسانوں، دفاتر جانے والے موٹر سائیکل سواروں اور اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے والے والدین پر منتقل نہ کریں، جناب۔ پی ایس ڈی پی میں 1100 ارب روپے کی رقم مختص تھی۔ کیا آپ ہمیں آگاہ فرما سکتے ہیں کہ ساڑھے نو مہینوں میں اس میں سے کتنا واقعی خرچ ہوا؟ آپ کی رہنمائی اور جواب سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آپ کی حکومت واقعی عوام کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا میں ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو پاکستان میں بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنی چاہییں، اور جب یہ قیمتیں کم ہوں تو حکومت کو بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کرنی چاہیے۔ مفتاح نے کہا لیکن گزشتہ دو ماہ سے مسلسل، پی ایم ایل این/پی پی پی/ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کیا ہے۔ مارچ میں انہوں نے لیوی میں 10 روپے کا اضافہ کیا، اور اپریل میں دوبارہ 10 روپے مزید بڑھا دیا، یوں مجموعی لیوی 80 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے۔ یعنی صرف دو مہینوں میں حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے، ہر ماہ 34 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عوام پر عائد کیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ یہ رقم بلوچستان میں کسی منصوبے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پیسہ ایک قابلِ تبادلہ چیز ہے، اور یہ تمام اضافی ٹیکسز عمومی حکومتی خزانے میں جائیں گے۔ بلوچستان کے لیے کوئی نیا منصوبہ منظور نہیں ہوا ہے۔ اور جیسا کہ میں ٹی وی پر ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکا ہوں، حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پٹرول کی قیمتیں کم نہیں کرے گی بلکہ ٹیکس میں اضافہ جاری رکھے گی۔ اس لیے دراصل یہ ایک منی بجٹ ہے۔ عطا تارڑ کے بیان پرزبیر علی خان نے کہا ٹیکس کو ٹیکس کہنا بھی اس حکومت میں اب جرم ہے ۔ ٹیکس کو ٹیکس مت کہیں بلکہ اسے وہ رقم کہیں جو عوام پر خرچ ہوگی،وفاقی وزیر کی نکی منطق ۔۔۔ویسے سر ہر ملک میں ٹیکس عوام پر ہی خرچ ہوتا ہے ہمارا والا ہی نرالا ہے جہاں ٹیکس کا پیسہ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے راؤ خالد نے کہا اور عطا تارڑ برائے مہربانی یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ اگر عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتیں بڑھ گئیں، تو کیا یہ منصوبے ترک کر دیے جائیں گے؟
راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آر سی سی آئی) نے پاکستان کی پہلی خاتون تھری اسٹار جنرل، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نگار جوہر کو خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی خدمات کے اعتراف میں اپنا باضابطہ برانڈ ایمبیسیڈر مقرر کر دیا ہے۔ یہ اعلان پیر کے روز چیمبر ہاؤس میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب ’شی لیڈز - اے ٹریبیوٹ ٹو ویمن‘ کے دوران کیا گیا، جس میں پاکستان بھر کی خواتین کی لچک، ہمت اور نمایاں خدمات کو سراہا گیا۔ تقریب کی مہمان خصوصی خود لیفٹیننٹ جنرل (ر) نگار جوہر تھیں، جنہوں نے اپنی زندگی اور پیشہ ورانہ تجربات کے ذریعے کئی خواتین کے لیے راہیں ہموار کیں۔ چیمبر کے صدر عثمان شوکت نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ جنرل نگار جوہر کی خدمات حوصلے، لگن اور رکاوٹوں کو توڑنے کی علامت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی شخصیت پاکستان میں خواتین کے لیے ممکنات کی نئی تعریف ہے، اور وہ نئی نسل کے لیے امید اور آرزو کی ایک روشن مثال ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق، 2021 میں جنرل نگار جوہر آرمی میڈیکل کور (اے ایم سی) کی کرنل کمانڈنٹ بننے والی پہلی خاتون جنرل مقرر ہوئیں۔ اس سے قبل 2020 میں، وہ پاکستان کی پہلی خاتون آرمی افسر بنی تھیں جنہیں لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی دی گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت اس فائدے کو عوام تک منتقل کرنے کے بجائے بلوچستان میں موٹر وے معیار کی دو رویہ ہائی وے کی تعمیر پر خرچ کرے گی۔ انہوں نے پیر کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ قلات، خضدار، کوئٹہ، چمن اور کراچی کو ملانے والی خون آشام سڑک، این-25، کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ وہاں کے عوام کو بھی محفوظ اور معیاری سفری سہولیات میسر آ سکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور آج رات پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کم ہونے جارہی ہیں، لیکن ہم نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اس بچت کو براہ راست عوام کو منتقل کرنے کے بجائے این-25 پر خرچ کیا جائے گا، جو ایک عرصے سے حادثات کی علامت بنی ہوئی ہے۔ ان کے بقول، اس سڑک نے دو ہزار سے زائد قیمتی جانیں نگل لی ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے موت کی شاہراہ سے ترقی کی راہ میں بدلا جائے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا سے سکھر تک جدید موٹرویز بن چکی ہیں، اور سکھر سے کراچی تک بھی موٹر وے بننے جارہی ہے، لیکن بلوچستان مسلسل نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2022-23 میں این-25 پر دو طرفہ ہائی وے کی بنیاد رکھی گئی تھی مگر کسی قسم کا عملی کام نہ ہو سکا۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے دو سال میں مکمل کیا جائے گا۔ ابتدائی تخمینہ 250 ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 300 ارب ہو چکا ہے۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ یہ سڑک موٹر وے معیار کی ہوگی اور وفاقی حکومت اس کی تعمیر میں مکمل شفافیت سے کام لے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بلوچستان خوشحال ہوگا تو پاکستان بھی خوشحال ہوگا، اور اب وقت ہے کہ بلوچستان کے عوام کو یہ محسوس ہو کہ ان کے لیے بھی کوئی سوچ رہا ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ حالیہ دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں ساڑھے 7 روپے فی یونٹ کمی کی گئی ہے، جو تمام صارفین کے لیے ہے، خواہ وہ گھریلو ہوں یا کاروباری۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی طرف سے عوام کے لیے عید کا تحفہ ہے اور اس سے معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ ایرانی علاقے میں آٹھ بے گناہ پاکستانیوں کے قتل پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب سے رابطہ کیا ہے اور انہیں امید ہے کہ ایران کی حکومت قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔
کیا پاکستان کی سفارت کاری واقعی بدل رہی ہے؟ کیا اسلامی دنیا اب اسرائیل جیسے حساس معاملات پر بھی نسبتاً متوازن مؤقف اپنانے کو تیار ہے؟ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی حالیہ قرارداد اور اس میں پاکستان کے کردار نے ان سوالات کو نہ صرف جنم دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو بھی چھیڑ دیا ہے۔ یہ قرارداد، جو او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے تحت پیش کی گئی، ہمیشہ کی طرح اسرائیل کے خلاف تنقیدی لہجے میں تھی۔ مگر اس بار کچھ مختلف ہوا۔ حیرت انگیز طور پر، قرارداد میں کئی شقیں ایسی شامل ہوئیں جن میں اسرائیلی شہریوں پر 7 اکتوبر کے دہشت گرد حملوں کی مذمت کی گئی، یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا، اور راکٹ حملوں جیسے اقدامات پر نکتہ چینی کی گئی۔ اور ان تمام تبدیلیوں کا سہرا پاکستان اور او آئی سی کی سفارتی کوششوں کے سر جاتا ہے۔ امریکن جیوش کانگریس کے مطابق اگرچہ قرارداد اپنی مجموعی ساخت میں سنگین خامیوں کا شکار ہے، لیکن پاکستان اور او آئی سی کی جانب سے لائی گئی چند تعمیری تبدیلیاں ایک قابلِ ذکر پیش رفت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اگرچہ قرارداد اب بھی اسرائیل کے خلاف گہرے تعصب کی حامل ہے، امریکی یہودی کانگریس نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں منظور کی گئی قرارداد سے انتہائی سخت شقوں کو نکالنے اور اسرائیلی شہریوں پر 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ شامل کرنے میں پاکستان کے کردار کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ قرارداد سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی جانب سے پیش کی گئی، جو 57 مسلم اکثریتی ممالک کی نمائندگی کرتی ہے—اس بنا پر زبان میں تبدیلی خاص طور پر اہم اور قابلِ توجہ ہے۔ تاہم غلط فہمی میں نہ رہیں: منظور شدہ قرارداد اب بھی سنگین خامیوں کا شکار ہے، جن میں حماس اور اس کے مظالم—بزرگ اسرائیلی شہریوں کا قتل اور بچوں کو اغوا کرنا—کا کوئی ذکر شامل نہیں، نیز اس میں ایسی زبان شامل ہے جو نادانستہ طور پر دہشت گردی کو جواز دے سکتی ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان اور او آئی سی کی جانب سے کی گئی تبدیلیاں ماضی کی روش سے ایک بامعنی انحراف ہیں اور ان کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ منظور شدہ قرارداد میں چند قابلِ ذکر تبدیلیاں شامل ہیں: اسرائیلی شہریوں پر 7 اکتوبر کے دہشت گردانہ حملوں کی باضابطہ مذمت اسرائیل کے شہری آبادی والے علاقوں پر راکٹ حملوں پر واضح تنقید اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مسلح گروہوں کا بالواسطہ ذکر اسرائیلی اہلکاروں کے خلاف اقوامِ متحدہ کا مستقل عدالتی نظام قائم کرنے کی شق کو حذف کر کے جنرل اسمبلی کو محض غیر پابند مشورہ دینا قیدیوں، خواتین اسیران، اور لاشوں کی حوالگی سے متعلق بین الاقوامی معیارات کا حوالہ—جو کہ حماس پر بالواسطہ لیکن واضح تنقید ہے یہ نکات اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے پیش کی گئی کسی قرارداد میں زبان اور مؤقف میں ایک اہم تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں، اور خطے میں ممکنہ سفارتی تبدیلیوں کی علامت ہو سکتے ہیں۔ او آئی سی کے کئی رکن ممالک جیسے البانیہ، مراکش، آذربائیجان، اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کے مضبوط شراکت دار بن چکے ہیں۔ پاکستان کا کردار خاص طور پر اس وقت نمایاں ہے جب اس نے ابتدائی مسودے سے وہ سب سے زیادہ متنازع شق حذف کی، جو "تمام فریقین" کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کے لیے اقوامِ متحدہ کا مستقل نظام قائم کرنے کا مطالبہ کرتی تھی—ایسی شق جو اس قرارداد کے اسرائیل مخالف جھکاؤ کے تناظر میں اسرائیلی اہلکاروں کو نشانہ بناتی۔ حتمی ورژن میں اب صرف جنرل اسمبلی کو ایک قدم پر غور کرنے کی تجویز دی گئی ہے—جو کہ ایک اہم فرق ہے، کیونکہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں غیر پابند ہوتی ہیں۔ ہم اس تبدیلی کو پاکستان اور او آئی سی کی جانب سے ایک تعمیری اقدام کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے سفارتی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ آذربائیجان، مراکش، اور متحدہ عرب امارات جیسے مسلم اکثریتی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہے ہیں، جبکہ اطلاعات کے مطابق انڈونیشیا بھی اپنے روابط بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ یہ علاقائی تبدیلیاں ممکنہ طور پر صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے دور میں ابراہیمی معاہدوں کی دوسری لہر کے امکان سے جڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کی طرح، پاکستان نے بھی دہشت گرد گروہوں کے خلاف اپنی جنگ لڑی ہے، جن میں حماس جیسے نظریاتی طور پر ہم خیال گروہ، جیسے القاعدہ، شامل ہیں۔ اسی تجربے کی روشنی میں، پاکستان کی جانب سے اس نوعیت کی زبان کا شامل کرنا دہشت گردی کے خلاف اس کے وسیع تر مؤقف کا قدرتی تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ یہ رویہ مستقبل میں معمول کے تعلقات کی بات چیت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے، اور بالخصوص انسداد دہشت گردی اور علاقائی استحکام کے تناظر میں پاکستان–امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ اس سب کے باوجود، یہ واضح رہنا چاہیے: قرارداد اب بھی گہرے نقائص کا شکار ہے۔ یہ نہ تو حماس کا نام لیتی ہے، نہ ہی اس کے کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے، حالانکہ یہی گروہ موجودہ جنگ کا آغاز کرنے، 7 اکتوبر کو مظالم ڈھانے اور معصوم شہریوں کو یرغمال بنانے کا ذمہ دار ہے۔ یہ قرارداد اسرائیل کی سلامتی سے متعلق جائز خدشات کو نظر انداز کرتی ہے اور غزہ میں موجود پرتشدد مسلح دھڑوں کی جڑوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک وہ شق ہے، جو کسی واضح شرط کے بغیر، دہشت گرد گروہوں جیسے حماس کو دہشت گردی کا جواز فراہم کر سکتی ہے: "اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق، عوام کی آزادی، علاقائی سالمیت، قومی وحدت اور نوآبادیاتی یا غیر ملکی تسلط سے نجات کے لیے جدوجہد کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے..." ایسے گروہ کسی حوصلہ افزائی یا ابہام کے محتاج نہیں ہوتے۔ بین الاقوامی قراردادوں میں مشروع قومی تحریکوں اور شہریوں کو نشانہ بنانے والے اندھے تشدد میں واضح فرق ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی جانب سے کی گئی تبدیلیاں اور او آئی سی کی قرارداد میں ابھرتا ہوا اعتدال ایک اہم پیش رفت ہے۔ ہم ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ آئندہ قراردادوں میں حماس کی جانب سے اسرائیل اور غزہ میں کیے گئے مظالم کی مذمت کریں اور یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی شامل کریں۔ امریکی یہودی کانگریس امن، باہمی شناخت، اور قانون کی حکمرانی کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ جیوش کانگریس کے مطابق پلیٹ فارم: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) پیش کرنے والی تنظیم: او آئی سی (57 مسلم اکثریتی ممالک پر مشتمل) پیش کرنے والا ملک (lead role): سعودی عرب کی قیادت میں او آئی سی، لیکن پاکستان کا کردار نمایاں رہا قرارداد کے اصل مسودے میں سخت اسرائیل مخالف شقیں شامل تھیں پاکستان نے ان میں ترامیم کروا کر نسبتاً متوازن زبان شامل کروائی خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت، یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ، اور اسرائیلی اہلکاروں پر کارروائی کی مستقل اقوامِ متحدہ میکانزم کی شق کو نکلوایا
بنگلہ دیشی ماڈل اور سابق مس ارتھ بنگلہ دیش کی فاتح، میگھنا عالم کو "اسپیشل پاورز ایکٹ" کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک اہم غیر ملکی شخصیت، بالخصوص سعودی عرب کے ایک سفارت کار کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلائیں، جن کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچانا تھا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، گرفتاری سے قبل میگھنا عالم نے فیس بک پر متعدد بار دعویٰ کیا تھا کہ ایک غیر ملکی سفارت کار انہیں خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ 9 اپریل کو ایک فیس بک لائیو ویڈیو میں دیکھا گیا کہ چند افراد، جو خود کو قانون نافذ کرنے والے اہلکار ظاہر کر رہے تھے، ڈھاکہ میں ان کے گھر داخل ہوئے۔ ویڈیو کے دوران میگھنا عالم اہلکاروں سے بار بار کہتی رہیں کہ وہ مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔ بعد ازاں انہیں حراست میں لے کر کاشی پور جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں ایک عدالت نے ان کے 30 روزہ ریمانڈ کی منظوری دے دی۔ ماڈل کے والد بدرال عالم کے مطابق ان کی بیٹی کی گرفتاری کی اصل وجہ ایک ذاتی تعلق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میگھنا اور اس وقت کے سعودی سفیر کے درمیان قریبی تعلقات تھے، تاہم جب ان کی بیٹی نے شادی کی پیشکش مسترد کی— کیونکہ سفیر پہلے سے شادی شدہ اور بچوں والے تھے — تو بعد میں انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ سعودی عرب بنگلہ دیش کے لیے ایک اہم اقتصادی و انسانی شراکت دار ہے، جہاں 2.16 ملین بنگلہ دیشی کارکن مقیم ہیں، جو وہاں کی سب سے بڑی تارکین وطن کمیونٹی ہیں۔ اس تناظر میں میگھنا عالم کا معاملہ سفارتی سطح پر بھی حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میگھنا عالم پر کوئی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جرم عائد نہیں کیا جاتا تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ میگھنا عالم ایک 30 سالہ ماڈل، اداکارہ اور ماحولیاتی کارکن ہیں۔ وہ 2020 میں "مس ارتھ بنگلہ دیش" کا اعزاز جیتنے کے بعد شہرت میں آئیں۔ وہ "مس بنگلہ دیش فاؤنڈیشن" کی چیئرپرسن اور "مس بنگلہ دیش آرگنائزیشن" کی نیشنل ڈائریکٹر ہیں، اور 12 سال کی عمر سے سماجی سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہی ہیں۔
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے لیے دفاعی اخراجات میں 159 ارب روپے اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، جس کے بعد آئندہ سال کا مجموعی دفاعی بجٹ 2 ہزار 281 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات میں رواں مالی سال کے مقابلے میں 7.49 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ مالی سال 2024-25 کے لیے حکومت نے 2 ہزار 122 ارب روپے کا دفاعی بجٹ مختص کیا تھا، جو کہ گزشتہ مالی سال 2023-24 کے 1 ہزار 858 ارب 80 کروڑ روپے سے 14.16 فیصد زیادہ تھا۔ رواں سال کے دوران دفاعی اخراجات میں 263 ارب 20 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا تھا، جبکہ اب آئندہ مالی سال کے لیے مزید 159 ارب روپے اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز، مسلح افواج کے افسران و جوانوں کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں متوقع اضافے، اور جدید عسکری سازوسامان کی خریداری کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔

Back
Top