خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں خفیہ اطلاعات پر کی گئی کارروائی کے دوران کالعدم گروہ فتنہ الخوارج کے 11 دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے، جبکہ 7 دیگر زخمی ہوئے۔ آپریشن کے دوران پاک فوج کے میجر سید معیز عباس شاہ اور لانس نائیک جبران اللہ نے دشمن کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق آپریشن دہشت گردوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع پر کیا گیا، جس کا مقصد علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنا تھا۔ دورانِ آپریشن سیکیورٹی فورسز کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تاہم دہشت گردوں کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ آپریشن کے بعد علاقے میں سرچ اور کلیئرنس کا عمل تاحال جاری ہے۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ 37 سالہ میجر معیز عباس شاہ کا تعلق چکوال سے تھا، جبکہ لانس نائیک جبران اللہ کا تعلق ضلع بنوں سے تھا۔ آئی ایس پی آر نے ان کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ: "شہدا کی قربانیاں قوم کے حوصلے مزید بلند کر رہی ہیں، اور ریاست کی سلامتی کے لیے یہ لازوال قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔" پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے حالیہ مہینوں میں خوارج کے خلاف کئی اہم کارروائیاں کی ہیں، اور جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، باجوڑ و دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گرد نیٹ ورکس کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے مراکش میں منعقدہ چھٹے وائس چانسلرز فورم میں "لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ" ملنے کا دعویٰ سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی تنظیم ICESCO نے واضح تردیدی بیان جاری کر دیا ہے۔ احسن اقبال نے اپنے سوشل میڈیا بیان میں کہا: "میں انتہائی عاجزی سے 'لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ' وصول کرنے پر شکر گزار ہوں، جو مجھے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ICESCO کے تحت رباط میں منعقدہ چھٹے وائس چانسلرز فورم میں دیا گیا۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور میں یہ ایوارڈ سابق وزیراعظم نواز شریف کے نام کرتا ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور Vision 2010 اور Vision 2025 جیسے منصوبے شروع کرنے کا موقع دیا۔ ساتھ ہی وزیراعظم شہباز شریف کے تعاون پر بھی شکر گزار ہوں۔" تاہم، اسلامک ورلڈ ایجوکیشنل، سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (ICESCO) نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ: "ICESCO میڈیا میں گردش کرنے والی اُن خبروں کو غلط قرار دیتی ہے جن میں کہا گیا کہ تنظیم نے احسن اقبال کو 'لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ' سے نوازا ہے۔ ICESCO کے پاس ایسا کوئی ایوارڈ موجود نہیں ہے، نہ ہی کسی قسم کی ایسی اعزازی سند دی گئی ہے۔" بیان میں مزید وضاحت کی گئی کہ: "احسن اقبال کو جو اعزازی شیلڈ دی گئی، وہ وائس چانسلرز فورم کے منتظمین کی جانب سے دی گئی تھی، جس کی نگرانی ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) پاکستان کرتا ہے۔ یہ فورم ICESCO کے ہیڈکوارٹرز میں منعقد ہوا، تاہم ICESCO خود اس ایوارڈ کا منتظم یا میزبان نہیں تھا۔" ICESCO نے تمام میڈیا اداروں سے درخواست کی ہے کہ وہ تنظیم سے منسوب خبروں کی رپورٹنگ سے پہلے درست اور مستند ذرائع سے تصدیق کریں۔ احسن اقبال کے بیان اور ICESCO کی تردید کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا یہ محض غلط فہمی تھی یا کسی سیاسی فائدے کے لیے دعویٰ کیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی فورمز پر اعزازات کے حوالے سے شفافیت برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ قومی وقار متاثر نہ ہو۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ علی زئی نے کہا ہے کہ ان کے بھائی اویس خان علی زئی کے قتل کو تقریباً دو ماہ گزر چکے ہیں، مگر مقتول کے قاتل کو تاحال قانون کے حوالے نہیں کیا گیا۔ علی زئی کے مطابق ان کے بھائی کے قتل میں ملوث شخص پاکستان نیوی کا حاضر سروس اہلکار ہے، جس نے جرم کے بعد دوبارہ اپنی ڈیوٹی جوائن کر لی ہے۔ علی زئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس نے مکمل شواہد حاصل کر کے پاکستان نیوی کو فراہم کر دیے ہیں، مگر اس کے باوجود نیوی حکام نے اب تک ملزم کو پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بھائی فیصل امین خان اور فوکَل پرسن یار محمد نیازی سمیت دیگر صوبائی حکام نے تصدیق کی ہے کہ پولیس اور صوبائی حکومت اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کر چکے ہیں اور اب معاملہ صرف نیوی کی جانب سے رکا ہوا ہے۔ علی زئی نے پاکستان نیوی سے درخواست کی ہے کہ ملزم کو فی الفور پولیس کے حوالے کیا جائے تاکہ آزاد اور منصفانہ عدالتی کارروائی ممکن ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ملزم عدالت میں پیش ہو اور جرم کے قانونی انجام کو پہنچے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے پُرامن اور قانونی جدوجہد جاری رکھیں گے اور امید رکھتے ہیں کہ ریاستی ادارے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ڈرون اور کواڈ کاپٹر حملوں میں حالیہ اضافے کے تناظر میں پاکستانی حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں ’ناکامی‘ پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ایک سال کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں متعدد مشتبہ فضائی حملوں کی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں، جن میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ایمنسٹی کے مطابق مارچ 2025 میں مردان میں ایک مشتبہ ڈرون حملے میں کم از کم 11 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ مئی میں شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں کواڈ کاپٹر سے کی گئی بمباری میں 4 بچے ہلاک اور 5 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ پاک فوج نے ان واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی اور ان حملوں کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسوب کیا۔ گزشتہ جمعے کو جنوبی وزیرستان میں ایک اور مشتبہ ڈرون حملے میں ایک بچہ جاں بحق اور پانچ دیگر زخمی ہوئے، جس پر خیبر پختونخوا کے مختلف سیاسی و سماجی حلقوں نے شدید ردعمل دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کی ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر ایزابل لاسے نے اپنے بیان میں کہا: "پاکستانی حکام خیبر پختونخوا میں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور اب مقامی لوگ ان ڈرون حملوں کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔" بیان میں مزید کہا گیا کہ گھروں اور عوامی اجتماعات پر ہونے والے ان حملوں میں شہریوں کا مارا جانا نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق جمعہ کا ڈرون حملہ دراصل ان "تشویش ناک حملوں کے سلسلے کا حصہ ہے جو رواں سال مارچ کے بعد سے شدت اختیار کر چکے ہیں۔" تنظیم نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان حملوں کی آزاد، شفاف اور مؤثر تحقیقات کرے، اور ان واقعات میں ملوث افراد کو منصفانہ عدالتی کارروائی کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل میں مشتبہ کواڈ کاپٹر کے حملے میں 22 شہری زخمی ہوئے تھے، جن میں بچے اور نوجوان شامل تھے۔ اس واقعے کی مقامی حکام نے تصدیق کی تھی، جو وانا-اعظم ورسک روڈ کے قریب کرمزی اسٹاپ پر پیش آیا۔ اکتوبر 2024 میں بھی وادی تیراہ میں ایک کواڈ کاپٹر حملے میں 13 شہری زخمی ہوئے تھے، جب ایک بازار پر دھماکا خیز مواد گرایا گیا۔ زخمیوں کو بعدازاں پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا تھا۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں امریکا کے حوالے سے تضادات کا کھل کر اعتراف کر لیا ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام "نیا پاکستان" میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ ایک طرف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نوبیل انعام کی سفارش کرنا، اور دوسری طرف ایران پر امریکا کے حملے کی مذمت کرنا بظاہر تضاد ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ عرصے میں ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ روابط نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا تھا، کیونکہ اس وقت امریکی صدر نے پاک بھارت جنگ روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق ٹرمپ کی مداخلت نے دونوں ایٹمی ممالک کو ممکنہ ٹکراؤ سے بچایا، اور یہی وجہ ہے کہ اس کردار کو تسلیم کرتے ہوئے نوبیل انعام کی سفارش کی گئی۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکا کا کردار پاکستان کے مفاد میں تھا، اور اسی سیاق و سباق میں نوبیل انعام کی سفارش کا جواز بنتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ یہ معاملہ خارجہ پالیسی میں تضاد کی ایک شکل ضرور پیش کرتا ہے۔
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشیدگی کے پورے خطے میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر خلیجی ممالک میں سیکیورٹی اقدامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ سب سے نمایاں طور پر سعودی عرب میں ہائی الرٹ جاری کیا گیا ہے، جبکہ بحرین اور کویت نے بھی ہنگامی حفاظتی تدابیر اختیار کر لی ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سعودی عرب نے اپنی سیکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کر دیا ہے اور موجودہ صورتحال پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔ دو باخبر ذرائع نے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں کو چوکس رہنے اور کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ سعودی حکومت کے میڈیا رابطہ دفتر نے اس پیشرفت پر فی الوقت کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔ دوسری جانب بحرین، جہاں امریکی بحریہ کا پانچواں بیڑا تعینات ہے، اور کویت، جو امریکہ کو کئی اہم فوجی اڈے فراہم کرتا ہے، ان دونوں ممالک نے فوری نوعیت کے اقدامات کرتے ہوئے اپنے اندرونی نظاموں کو ہنگامی بنیادوں پر متحرک کر دیا ہے۔ بحرین کی وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صرف ضرورت کے وقت ہی مرکزی شاہراہوں کا استعمال کریں تاکہ حکام سیکیورٹی سرگرمیوں میں بہتر طور پر متحرک رہ سکیں۔ بحرین نے سرکاری دفاتر میں بھی جزوی لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے اتوار کے روز 70 فیصد ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ساتھ ہی ملک بھر کے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں، بشمول نرسریوں، اسکولوں اور جامعات کو آن لائن تدریس کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ علاقائی میڈیا رپورٹس کے مطابق بحرین میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے نیشنل سول ایمرجنسی سینٹر کو فعال کر دیا گیا ہے، اور ملک بھر میں وارننگ سائرن سسٹمز کا آزمائشی تجربہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 33 مقامات پر باضابطہ پناہ گاہیں قائم کر دی گئی ہیں تاکہ کسی ممکنہ حملے یا خطرے کی صورت میں عوام کو فوری تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ادھر کویت نے بھی وزارت انصاف، وزارت خزانہ اور دیگر اہم سرکاری دفاتر پر مشتمل مرکزی کمپلیکس میں ہنگامی پناہ گاہیں قائم کر دی ہیں، تاکہ بحران کی صورت میں عملے اور شہریوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔
ایران کی ایٹمی تنصیبات پر مبینہ امریکی فضائی حملے کے بعد پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پراپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی ہے، جس پر پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے وضاحت جاری کر دی ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود امریکی بمبار طیاروں نے استعمال نہیں کی۔ ان کے مطابق امریکی بی ٹو بمبار طیارے کسی بھی مرحلے پر پاکستانی فضا، زمین یا سمندری حدود سے نہیں گزرے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ پاکستان نہ صرف کسی فوجی بلاک کا حصہ ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے تنازع میں فریق بنے گا۔ پاکستان نے عالمی سطح پر ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے اور سفارتی، اخلاقی اور سیاسی سطح پر ایران کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران کو اپنی سالمیت کے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ وزارت خارجہ نے ایران کی پرامن جوہری توانائی کی تنصیبات پر حملے کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا۔
امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اگر ایران نے کوئی جوابی کارروائی کی تو واشنگٹن پہلے سے زیادہ سخت جواب دے گا۔ پینٹاگون نے اس خفیہ حملے کو "آپریشن مڈنائٹ ہیمر" کا نام دیا ہے، جس میں 125 سے زائد طیاروں، آبدوزوں، بی ٹو بمبار طیاروں اور ٹوم ہاک میزائلوں نے حصہ لیا۔ امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیٹھ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین نے پینٹاگون میں مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران اعلان کیا کہ: "ہم نے فردو، اصفہان اور دیگر مقامات پر موجود ایرانی ایٹمی تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے گئے ہیں۔" جنرل ڈین کین کے مطابق یہ حملہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب 2 بج کر 40 منٹ پر کیا گیا۔ آپریشن مڈنائٹ ہیمر کے دوران ایران کے مختلف حصوں میں 14 "بنکر بسٹر" بم گرائے گئے جبکہ اصفہان میں 2 درجن سے زائد ٹوم ہاک میزائل فائر کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ حملے میں 7 بی-2 اسپِرٹ بمبار طیارے، 125 سے زائد جنگی طیارے، متعدد آبدوزیں اور ٹینکر طیارے شامل تھے۔ بی ٹو طیارے وائٹ مین ایئر فورس بیس، میسوری سے 18 گھنٹے کی پرواز کے بعد ایران پہنچے، جبکہ مشن سے قبل بحرالکاہل کے اوپر سے گزر کر اصل کارروائی سے توجہ ہٹائی گئی۔ جنرل کین کا کہنا تھا کہ حملے کے دوران ایرانی دفاعی نظام امریکی طیاروں کو شناخت نہ کر سکا۔ کمیونیکیشن محدود رکھا گیا اور اسٹرائیک پیکیج مختلف کمانڈ سینٹرز سے ہم آہنگ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری عزائم اب خاک میں مل چکے ہیں اور اگر تہران نے براہ راست یا پراکسی کے ذریعے کوئی کارروائی کی تو وہ خود تباہی کو دعوت دے گا۔ وزیردفاع ہیگسیٹھ نے واضح کیا کہ اس کارروائی کا مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ جوہری خطرے کا خاتمہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر ایران نے حملہ کیا تو گزشتہ رات سے زیادہ شدید ردعمل دیا جائے گا۔" پینٹاگون حکام کے مطابق یہ مشن انتہائی خفیہ تھا، اور اس سے صرف چند اعلیٰ عہدیداران باخبر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ امن چاہتے ہیں، لیکن ایران کو اس راستے پر چلنا ہوگا۔ حملے سے قبل امریکی آبدوزوں نے ایران کے اندر اہم اہداف کو نشانہ بنایا، اور کسی امریکی طیارے پر فائرنگ کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق "آپریشن مڈنائٹ ہیمر" کے تحت 30 ہزار پاؤنڈ وزنی بم گرائے گئے، اور یہ کارروائی مکمل طور پر امریکی فضائی برتری کے تحت عمل میں لائی گئی۔ جنرل ڈین کین نے بتایا کہ اس مشن میں 30 ہزار پاؤنڈ وزنی 14 بنکر بسٹر بم اور 2 درجن سے زائد ٹوم ہاک میزائل داغے گئے۔
آبنائے ہرمز ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن چکی ہے، جہاں خلیجی کشیدگی اور امریکی حملوں کے بعد ایران کی جانب سے ممکنہ ردعمل کے طور پر اس اسٹریٹیجک آبی گزرگاہ کو بند کرنے کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ عالمی ماہرین کے مطابق اگر ایران نے ایسا قدم اٹھایا تو دنیا کو ایک بدترین توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خلیج فارس اور خلیج عمان کو ملانے والی یہ تنگ سمندری پٹی مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکا اور دنیا کے دیگر خطوں سے جوڑتی ہے۔ اس آبی راستے کے ایک طرف امریکا کے اتحادی ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین ہیں جبکہ دوسری طرف ایران واقع ہے۔ یہی تناسب اس کی اسٹریٹیجک پیچیدگی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق آبنائے ہرمز سے روزانہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل برآمد کیا جاتا ہے، جو عالمی تیل کی رسد کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ یہ تیل پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوریا، یورپی ممالک، شمالی امریکا اور دنیا کے دیگر خطوں تک پہنچتا ہے۔ اس راستے سے دنیا کی 30 فیصد مائع قدرتی گیس (LNG) بھی ترسیل کی جاتی ہے، جس میں سب سے زیادہ انحصار قطر کا ہے — جو دنیا کا سب سے بڑا ایل این جی برآمد کنندہ ملک ہے۔ یہ آبی راستہ روزانہ تقریباً 90 اور سالانہ 33 ہزار بحری جہازوں کی گزرگاہ ہے۔ 33 کلومیٹر چوڑی اس پٹی میں دو مخصوص شپنگ لینز موجود ہیں، جن کی چوڑائی تین تین کلومیٹر ہے اور ان سے بڑے آئل ٹینکرز اور کارگو جہاز گزرتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین اپنی ضرورت کا آدھا تیل خلیجی ممالک سے حاصل کرتا ہے۔ جاپان یہاں سے 95 فیصد اور جنوبی کوریا 71 فیصد خام تیل اسی راستے سے درآمد کرتے ہیں۔ یہی نہیں، انہی بحری راستوں سے جاپان، چین اور کوریا خلیجی ممالک کو گاڑیاں، مشینری اور الیکٹرانک مصنوعات بھی برآمد کرتے ہیں۔ عالمی دفاعی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر ایران نے واقعی آبنائے ہرمز کو بطور ٹرمپ کارڈ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ اس راستے میں بارودی سرنگیں بچھا سکتا ہے، جنگی کشتیاں، آبدوزیں اور اینٹی شپ میزائل تعینات کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں نہ صرف توانائی کی ترسیل رُک جائے گی بلکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں۔
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد کشیدگی میں انتہائی شدت آ چکی ہے، اور ایرانی پارلیمنٹ نے جوابی اقدام کے طور پر آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر دنیا بھر کی توانائی کی رسد پر پڑے گا۔ ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے پریس ٹی وی کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیشن کے رکن میجر جنرل اسماعیل کوثری نے کہا ہے کہ پارلیمان اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ امریکہ کی جارحیت کے جواب میں آبنائے ہرمز کو بند کر دینا چاہیے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس اقدام پر حتمی فیصلہ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کرے گی، جو ایران کی اعلیٰ ترین دفاعی و سلامتی پالیسی ساز باڈی ہے۔ آبنائے ہرمز عالمی سطح پر توانائی کی ترسیل کے لیے ایک انتہائی اہم بحری گزرگاہ ہے۔ خلیج فارس اور خلیج عمان کو ملانے والی یہ تنگ آبی پٹی صرف 33 کلومیٹر چوڑی ہے، مگر دنیا کی تقریباً 20 فیصد تیل کی رسد اسی راستے سے گزرتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی 3 فیصد خام تیل اور 5 فیصد مائع قدرتی گیس (LNG) اسی گزرگاہ سے بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچتی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور خود ایران کی تیل برآمدات بھی اسی راستے سے دنیا کو بھیجی جاتی ہیں۔ عالمی رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال آبنائے ہرمز سے روزانہ 20 ملین بیرل تیل کی ترسیل ہوئی، جو عالمی پیٹرولیم استعمال کا پانچواں حصہ ہے۔ ہر ماہ تقریباً 3 ہزار تجارتی اور تیل بردار بحری جہاز اسی آبی راستے سے گزرتے ہیں، جو اسے دنیا کی سب سے مصروف اور اسٹریٹیجک بحری گزرگاہوں میں شامل کرتا ہے۔ اگر ایران اس گزرگاہ کو بند کرنے کا عملی اقدام کرتا ہے تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھونچال آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں کئی ممالک میں مہنگائی کی نئی لہر شروع ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، آبنائے ہرمز صرف ایک بحری راستہ نہیں بلکہ عالمی توانائی کے نظام کے لیے ایک لائف لائن ہے۔ دفاعی اور معاشی تجزیہ کار متفق ہیں کہ اس کی بندش عالمی معیشت کے لیے ایک سنجیدہ دھچکا ہو گی۔ یاد رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے باعث خام تیل کی قیمتوں میں پہلے ہی 13 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، اور اگر ایران کی جانب سے مزید جوابی اقدامات کیے گئے تو بین الاقوامی توانائی بازار مزید غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ اور فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بہت جلد ایسے غیرمعمولی واقعات کا مشاہدہ کرے گی جن سے خطے میں طاقت کا توازن بدلے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت سے دہشتگردی پر بات ہوگی، اور اب وہ وقت نہیں رہا جب پاکستان پر الزامات لگا کر دنیا کو گمراہ کیا جا سکتا تھا۔ جنرل عاصم منیر نے تقریب کے شرکاء کو "آپریشن بنیان مرصوص" کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم اور مربوط دفاعی حکمت عملی تھی، جو پاکستان کی عسکری، سیاسی اور سفارتی قوتوں کے اشتراک سے سامنے آئی۔ انہوں نے اس آپریشن کے پس منظر میں بھارت کی جانب سے پہلگام حملے کا حوالہ دیا، جس میں چار حملہ آوروں کی مبینہ پاکستان سے آمد اور واپسی کا الزام لگایا گیا۔ فیلڈ مارشل نے اس بیانیے کو سراسر جھوٹ اور بھارت کی اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر واقعی پاکستان سے چار لوگ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے، تو وہاں موجود لاکھوں بھارتی فوجی، ہر چند کلومیٹر پر قائم چیک پوسٹیں، اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی سرویلنس نظام کہاں تھا؟ کیا وہ لوگ سپرمین تھے جو 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے قتل و غارت کر کے واپس چلے آئے اور کسی کو خبر نہ ہوئی؟ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر بھارتی فوج اس قدر ناکام ہے تو اسے تو برطرف کر دینا چاہیے۔ فیلڈ مارشل نے انکشاف کیا کہ پہلا حملہ ہونے کے بعد بھارت نے پاکستان سے ہاٹ لائن پر رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اپنی کارروائی مکمل کر چکا ہے، اب صبح 9 بجے بات چیت پر تیار ہے۔ اس پر پاکستان نے دوٹوک مؤقف اپنایا اور بتایا کہ پاکستان جو کرے گا، اُس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ بات کرنی ہے یا نہیں۔ اس دوران دنیا کے اہم عالمی رہنماؤں کے ٹیلیفون بھی موصول ہوئے جن میں پاکستان سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی گئی، لیکن پاکستان نے واضح کر دیا کہ وطن کی عزت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں طیارے دفاعی طور پر گرائے گئے اور دنیا کو بتا دیا گیا کہ پاکستان کی خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کے ردعمل کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ جب ان سے صورت حال کے بگڑنے اور جنگ میں شدت کے امکانات پر بات ہوئی، تو انہوں نے بلا تامل کہا: ’’آپ بسم اللہ کریں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ فیلڈ مارشل کے مطابق یہ ایک سیاسی قائد کا بہترین ردعمل تھا، جو قوم کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خطاب کے دوران انہوں نے بتایا کہ بھارت کے خلاف کارروائی کو ’’بنیان مرصوص‘‘ یعنی سیسہ پلائی دیوار کا نام اس لیے دیا گیا کہ یہ آپریشن قوم، افواج، حکومت اور اداروں کے باہم اشتراک اور اتحاد کی اعلیٰ ترین مثال تھا۔ انہوں نے کہا کہ ائیر چیف ظہیر احمد بابر سدھو کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان سے فضائیہ کے کردار پر بات ہو رہی تھی تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ قرآن کی اس آیت کو آپریشن کا نام دے دیا، جو کامل اتحاد اور مضبوطی کی علامت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت کے اہم عسکری، تکنیکی اور سائبر نظام کو ہدف بنایا گیا۔ بجلی کے نظام کو ہیک کر کے اندھیرا کر دیا گیا، ڈیموں کے اسپل وے کھول دیے گئے، بی جے پی کی ویب سائٹ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا، گجرات اور دہلی تک ڈرونز کی پروازیں ہوئیں، اور بھارت کے دفاعی میزائل نظام کو جام کر کے اہم اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ محض ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ پانچ محاذوں پر بیک وقت لڑی جانے والی جنگ تھی — روایتی جنگ، سائبر جنگ، سفارتی جنگ، معلوماتی جنگ اور اقتصادی جنگ۔ انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک سپاہی نے میزائل کی حد کچھ زیادہ کر دی، لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ بھی دشمن کے فوجی مرکز پر ہی لگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان چاہتا تو 20 بھارتی طیارے گرا سکتا تھا، مگر صرف ان چھ طیاروں کو نشانہ بنایا جنہوں نے پاکستان پر حملہ کیا تھا۔ جنگ کے دوران بھی اخلاقیات کو مدنظر رکھا گیا اور دشمن پر برتری حاصل کر کے ایک مثالی طرز عمل اپنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ دہشتگردی اور داخلی مسائل میں گھرا ہوا پاکستان شاید کچھ نہ کر سکے، مگر اسے خبر نہیں تھی کہ ہم شہادت کو معراج سمجھتے ہیں، اور اگر ایک سپاہی شہید ہو گا تو اس کا بیٹا اگلے دن محاذ پر کھڑا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سرفراز کیا اور عالمی سطح پر عزت دی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اصل طاقت عوام ہیں، جنہوں نے جنگ کے موقع پر جس اتحاد اور تنظیم کا مظاہرہ کیا، وہ ایسا محسوس ہوا جیسے یہ سب اسکرپٹڈ ہو۔ ہر طبقہ فکر، ہر علاقہ، ہر مسلک ایک پیج پر تھا اور یہی وہ طاقت ہے جو افواج پاکستان کو ناقابل شکست بناتی ہے۔ فیلڈ مارشل نے کامیابی کا کریڈٹ خود لینے سے انکار کیا اور ’’فتح مکہ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بنیان مرصوص ایک معجزہ تھا، اور اس کا سہرا اللہ، قوم، فوج اور قیادت کے باہمی اشتراک کو جاتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 13 مرتبہ کشمیر پر بات کی ہے اور جلد دنیا اس مسئلے پر بڑی پیش رفت دیکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب بھارت سے دہشتگردی پر بات ہوگی، تو 1971 کی تاریخ بھی سامنے لائی جائے گی کہ کس طرح بھارت نے مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں دہشتگردی کروائی تھی۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کرانا چاہتا ہے، مگر امریکا اس معاملے پر بھارت کے ساتھ نہیں ہے۔ پاکستان اور امریکا اس معاملے پر ایک صفحے پر نہیں، بلکہ مخالف مؤقف رکھتے ہیں۔ ملک کی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ امریکا، یوکرین سے 400 سے 500 ارب ڈالر کے معدنی وسائل کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے، جبکہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے پاس 1000 ارب ڈالر مالیت کے قدرتی ذخائر ہیں، جن میں سے ہر سال صرف 10 سے 15 ارب ڈالر کا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ امریکا سرمایہ کاری کرے اور ان دھاتوں کی پراسیسنگ پاکستان میں ہو۔ اس سے مقامی روزگار میں اضافہ ہوگا اور پاکستان خود کفیل بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ پانچ سال پاکستان کے لیے ترقی کے سال ہوں گے اور انشاء اللہ 2047 میں جب قیام پاکستان کے 100 سال مکمل ہوں گے، تو پاکستان دنیا کی 10 بڑی معیشتوں (G10) میں شامل ہوگا۔ فیلڈ مارشل نے انکشاف کیا کہ پاکستان جلد "کرپٹو کونسل" اور "امریکن کرپٹو کونسل" کے ساتھ معاہدہ کرے گا اور کرپٹو مائننگ کے شعبے میں فعال کردار ادا کرے گا۔ ساتھ ہی مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں ڈیٹا سینٹرز بھی پاکستان میں قائم کیے جائیں گے تاکہ عالمی سطح پر ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں پاکستان پیچھے نہ رہے۔ انہوں نے ماضی کے پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ وقت بھی تھا جب اہل تشیع کے جلوس پر اہل سنت سبیلیں لگایا کرتے تھے، اور وہ وقت بھی تھا جب لاہور میں ہپی ناچتے تھے۔ آج جو لوگ پرانا پاکستان مانگ رہے ہیں، اُن سے کہنا ہے کہ ہمیں نیا یا پرانا پاکستان نہیں، ہمیں ’’ہمارا پاکستان‘‘ چاہیے — ایک ایسا پاکستان جس میں اتفاق، قربانی، خدمت اور خودی زندہ ہو۔ تقریب کے دوران پاکستانی کمیونٹی کے افراد پرجوش نعرے لگاتے رہے — "پاکستان زندہ باد"، "پاک فوج زندہ باد"، "تیرا ویر میرا ویر — عاصم منیر، عاصم منیر" — اور ہال پاک فوج، حکومت اور قوم کی مشترکہ کامیابی پر تالیوں سے گونجتا رہا۔
ملک بھر میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، اور عوام ایک بار پھر مہنگائی کے شکنجے میں جکڑ گئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں چینی 195 روپے فی کلو تک فروخت کی جا رہی ہے، جبکہ دیگر بڑے شہروں میں بھی قیمتیں 190 روپے سے تجاوز کر چکی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق راولپنڈی، کراچی اور پشاور میں چینی کی قیمت 190 روپے فی کلو، کوئٹہ میں 186 روپے، خضدار اور سیالکوٹ میں 185 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ حیدرآباد، بہاولپور، ملتان اور بنوں میں چینی 180 روپے فی کلو جبکہ سکھر اور لاڑکانہ میں 175 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ مارکیٹ میں اس غیر معمولی اضافے پر عوامی حلقوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر وزارتِ فوڈ سیکیورٹی نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے بڑا قدم اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ حکام کے مطابق حکومت نے 7.5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں سے 2.5 لاکھ میٹرک ٹن خام چینی کی درآمد کی منظوری جلد کابینہ دے گی، جبکہ 5 لاکھ میٹرک ٹن ریفائنڈ چینی کی درآمد کی اصولی منظوری پہلے ہی دی جا چکی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق جولائی تا مئی کے دوران 7 لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی، جس سے 112 ارب روپے سے زائد آمدن ہوئی۔ تاہم، حکام تسلیم کرتے ہیں کہ برآمدات میں 2200 فیصد اضافے نے مقامی سطح پر قلت اور قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کو جنم دیا۔
سندھ کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ اقبال میمن کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ نیب نے انہیں 24 جون کو طلب کر لیا ہے تاکہ ان سے مبینہ اختیارات کے ناجائز استعمال پر پوچھ گچھ کی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق اقبال میمن پر الزام ہے کہ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کی اجازت کے بغیر کئی مرتبہ ایک زیر سماعت ملزم عمران احمد شیخ کو پے رول پر جیل سے رہا کرنے کی منظوری دی۔ عمران احمد محکمہ آبپاشی سندھ میں انجینیئر رہے ہیں اور مبینہ کرپشن کے مقدمات میں زیر تفتیش ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹری داخلہ کی جانب سے عمران شیخ کو بار بار غیر قانونی طور پر جیل سے رہا کیا گیا، حالانکہ وہ یو ٹی پی (Under Trial Prisoner) ہے اور قانوناً اس کی رہائی بغیر متعلقہ منظوری کے ممکن نہیں تھی۔ نیب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ملزم کی رہائی سے متعلق تمام تفصیلات جانچنے کے لیے رپورٹ بنانے کی غرض سے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کی اجازت احتساب عدالت سے حاصل کر لی گئی ہے۔ عدالت نے ڈی جی نیب حیدرآباد کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کیس سے متعلق تفصیلی رپورٹ ایک ماہ کے اندر عدالت میں جمع کروائیں۔ اس سلسلے میں سیکریٹری داخلہ اقبال میمن کو باقاعدہ مراسلہ جاری کیا گیا ہے، جس میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ منگل، 24 جون کو دوپہر 12 بجے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں۔ اس معاملے پر سندھ حکومت کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی جانب سے اساتذہ اور ریسرچرز کو دی جانے والی 25 فیصد انکم ٹیکس چھوٹ کی تجویز دو مرتبہ مسترد کر دی ہے، جس کے بعد حکومت نے یہ سہولت یکم جولائی 2025 سے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس بات کی تصدیق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پارلیمانی اجلاس کے دوران کی۔ چیئرمین ایف بی آر نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ تعلیمی اور تحقیقی شعبے سے وابستہ افراد کو یہ ریلیف برقرار رکھا جائے، تاہم عالمی مالیاتی ادارے نے اس تجویز کو دو مرتبہ مسترد کر دیا۔ ان کے بقول، "ہم نے آئی ایم ایف کو واضح طور پر بتایا کہ اس رعایت سے اساتذہ اور محققین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، لیکن ہمیں جواب دیا گیا کہ کلرک ہو یا ٹیچر، ٹیکس پالیسی میں سب کے لیے یکساں اصول ہونے چاہئیں۔" چیئرمین ایف بی آر نے اس پالیسی کو ذاتی طور پر "زیادتی" قرار دیا، تاہم کہا کہ اگر حکومت چاہے تو بجٹ سے اساتذہ کے لیے سبسڈی کا الگ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے واضح کیا ہے کہ موجودہ بجٹ میں اساتذہ یا ریسرچرز کے لیے کسی سبسڈی کی گنجائش موجود نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یکم جولائی 2025 سے لاکھوں اساتذہ اور محققین کو اپنی تنخواہوں پر مکمل انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ موجودہ ٹیکس نظام کے تحت ملک بھر کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اور ریسرچرز کو ان کی آمدن پر 25 فیصد ٹیکس چھوٹ حاصل تھی، جو ان کے لیے اہم مالی ریلیف کا ذریعہ تھی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس: فنانس بل 2025 کا شق وار جائزہ، اہم تجاویز منظور اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں فنانس بل 2025 کا شق وار جائزہ لیا گیا، جس کے دوران نان فائلرز، تنخواہ دار طبقے، پنشنرز اور کارپوریٹ سیکٹر سے متعلق اہم تجاویز پر غور کیا گیا اور متعدد سفارشات کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں نان فائلرز کے لیے کیش نکلوانے کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار روپے روزانہ کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی۔ تاہم نان فائلرز پر ودہولڈنگ ٹیکس 1 فیصد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔ یومیہ 75 ہزار روپے کیش نکلوانے پر ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کر دی گئی، جبکہ سینیٹ کمیٹی نے اسی مد میں 1 فیصد ٹیکس کی منظوری دی تھی۔ اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر نے درخواست کی کہ شرح کو 1 فیصد کیا جائے، تاہم رکن کمیٹی نوید قمر نے ریمارکس دیے کہ ’’سینیٹ ہاؤس آف لارڈز ہے اور ہم ہاؤس آف کامنز، ان کی تجاویز وہیں رہنے دیں۔‘‘ تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ 6 سے 12 لاکھ روپے آمدن پر 1 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی گئی۔ یاد رہے کہ بجٹ میں اس آمدن پر ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد تجویز کی گئی تھی، جبکہ گزشتہ مالی سال میں یہی آمدن 5 فیصد ٹیکس کی زد میں آتی تھی۔ سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن حاصل کرنے والوں پر 5 فیصد انکم ٹیکس لگانے کی تجویز بھی منظور کی گئی۔ چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت کی کہ ایک کروڑ روپے تک کی پنشن پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ کارپوریٹ سیکٹر سے متعلق سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کی تجویز منظور کی گئی۔ اس کے علاوہ کاروباری مقامات پر ایف بی آر عملے کی تعیناتی کی بھی منظوری دی گئی۔ آن لائن مارکیٹ میں غیر رجسٹرڈ افراد کی فروخت پر جرمانے کی تجویز مسترد کر دی گئی، تاہم فیصلہ کیا گیا کہ سالانہ 50 لاکھ روپے تک کی آن لائن فروخت پر ٹیکس چھوٹ دی جائے گی۔ نوید قمر نے کہا کہ کمیٹی عوام پر اضافی ٹیکس بوجھ کی حمایت نہیں کرے گی۔ کمیٹی نے ڈومیسٹک ای کامرس پر ٹیکس نہ لگانے اور تعلیمی اسٹیشنری پر زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس بحال کرنے کی سفارش کی۔ اسی طرح ہومیوپیتھک ادویات پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کرنے کی بھی تجویز دی گئی۔ علاوہ ازیں، کاربونیٹڈ مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 15 فیصد اور فارمل جوس انڈسٹری پر ایکسائز ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کرنے کی سفارش کی گئی۔ دیگر تجاویز میں درآمدی اشیاء کی بروقت کلیئرنس نہ ہونے پر جرمانہ 0.2 فیصد سے بڑھا کر 0.25 فیصد کرنے، کپاس کے دھاگے (کاؤٹن یارن) پر سیلز ٹیکس کا اطلاق ڈائز اور کیمیکلز پر بھی کرنے اور غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی شرح برابر کرنے کی سفارش شامل ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے کنسٹرکشن انڈسٹری پر ود ہولڈنگ انکم ٹیکس کی شرح 1.5 سے بڑھا کر 2 فیصد کرنے، اسٹیل سیکٹر کو ٹیرف اصلاحات اسکیم سے مستثنیٰ قرار دینے، پرنٹ میڈیا سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں رعایت دینے اور ایف بی آر ملازمین کے پرفارمنس الاؤنس کو غیر منجمد کرنے کی سفارش بھی کی۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے طویل مشاورت کے بعد درآمدی سولر پینلز کے پرزہ جات پر مجوزہ 18 فیصد سیلز ٹیکس کو کم کرکے 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ درآمدی سولرز کے پرزہ جات پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا مقصد مقامی صنعت کو فروغ دینا اور مسابقتی ماحول قائم کرنا تھا، تاہم دونوں ایوانوں میں تفصیلی غور و خوض اور ارکانِ پارلیمنٹ کی تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکس میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر کے مطابق یہ ٹیکس صرف 46 فیصد مخصوص پرزہ جات پر لاگو ہوگا، جبکہ امپورٹڈ سولر پینلز کی پلیٹوں پر صرف 4.6 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا کہ مجوزہ ٹیکس کے نفاذ سے قبل ہی بعض عناصر کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، ایسے عناصر کو سخت وارننگ دی جاتی ہے کہ ان کے خلاف جلد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت نے کوئی منی بجٹ متعارف نہیں کروایا، بلکہ مالی نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے افراط زر پر قابو پایا گیا، کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری آئی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ ان اقدامات کا مقصد ملک کو اقتصادی غیر یقینی کی کیفیت سے نکال کر پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں عوامی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی اخراجات میں محض 1.9 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ گزشتہ برسوں میں یہ اضافہ 10 سے 13 فیصد کے درمیان رہا ہے۔ کم اور متوسط آمدنی والے طبقے کو سہولت دینے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی تجویز کی گئی ہے۔ خاص طور پر سالانہ 6 سے 12 لاکھ روپے کمانے والے افراد پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے گھٹا کر ایک فیصد کر دی گئی ہے۔ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنز میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب روپے سے بڑھا کر 716 ارب روپے کر دیا گیا ہے تاکہ کمزور طبقے، بیواؤں، یتیموں اور خصوصی افراد کو بہتر مالی تحفظ فراہم کیا جا سکے، جس سے تقریباً ایک کروڑ خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ ایف بی آر کے اختیارات سے متعلق انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مزید وضاحت شامل کی گئی ہے تاکہ اختیارات کے ممکنہ ناجائز استعمال کو روکا جا سکے۔ سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کی سفارشات موصول ہو چکی ہیں اور توقع ہے کہ گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی 50 فیصد سے زائد تجاویز فنانس بل کا حصہ بنیں گی۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سے مشاورت جاری ہے اور جلد ہی فنانس بل کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ایک جامع، ہمہ گیر اور پائیدار ترقی یقینی بنائی جائے تاکہ تمام پاکستانیوں کو برابری کی بنیاد پر ترقی کے مواقع حاصل ہوں۔ احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ پہلے چینی ایکسپورٹ کی اجازت دے کر چینی والوں کو وارننگ دی، نتیجہ یہ نکلا کہ چینی 200 روپے کلو تک گئی، اب سولر پینلز والوں کو وارننگ۔ عوام استغفار پڑھ لیں
حکومت پنجاب نے نئے مالی سال کے بجٹ میں زرعی آمدنی پر ٹیکس میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق مالی سال 2024-25 میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کا ہدف ساڑھے 10 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 200 فیصد زیادہ ہے۔ دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں تجارتی بنیادوں پر کام کرنے والے کمرشل زرعی فارمز پر اب کارپوریٹ ٹیکس کے اصول لاگو ہوں گے، اور زیادہ آمدن والے افراد پر سپر ٹیکس بھی عائد کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے یا بروقت ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں جرمانے اور ڈیفالٹ سرچارج میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ تمام اقدامات زرعی آمدنی ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ 2024 کے تحت کیے گئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں امن کی ہر کوشش میں اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے، اور خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی روابط کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیراعظم شہباز شریف کو ٹیلیفون کیا، جس دوران دو طرفہ تعلقات، خطے کی سیکیورٹی صورت حال اور عالمی امن پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے، حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جنگ کا خطرہ ٹالنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ کی سفارتی کوششوں کو سراہا۔ شہباز شریف نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق مثبت بیانات جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے نہایت حوصلہ افزا ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام دیرینہ تنازعات پر بامعنی اور سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر، سندھ طاس معاہدے، تجارت اور انسداد دہشت گردی جیسے اہم امور پر جامع بات چیت ہونی چاہیے تاکہ خطے میں پائیدار امن ممکن ہو سکے۔ وزیراعظم نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے پرامن حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں امن کی ہر کوشش میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کو تجارت، توانائی، آئی ٹی، اور معدنیات جیسے شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ وزیراعظم نے دوران گفتگو اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ریاست کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی بدستور جاری رہے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے حالیہ ملاقات کو نہایت مثبت قرار دیا اور کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی اور معاشی تعاون کو فروغ ملے گا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق، دونوں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور امریکا کو اپنے تعلقات کو عملی تعاون میں ڈھالنا چاہیے۔ وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو ایک بار پھر پاکستان کے دورے کی دعوت دی، جبکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو بھی جلد دورۂ پاکستان کی دعوت دی گئی۔ مارکو روبیو نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکا ہر قسم کی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے میں پاکستان سے قریبی تعاون جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا خطے اور عالمی سطح پر امن و استحکام کے قیام کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے، اور ایران کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات خطے میں امن کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
امریکا نے ایران کی جانب سے ممکنہ جوابی حملوں کے خدشے کے پیش نظر قطر میں واقع اپنی مرکزی فضائی تنصیب العدید ایئر بیس سے اپنے طیارے ہٹا لیے ہیں۔ یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں سامنے آئی ہے، جہاں کسی بھی لمحے صورتحال مزید بگڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، امریکی حکام نے اس اقدام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ العدید ایئر بیس پر موجود طیارے ایرانی حملوں کی زد میں آ سکتے تھے، اس لیے انہیں حفاظتی اقدامات کے تحت وہاں سے منتقل کر دیا گیا۔ رائٹرز کو بات چیت کرنے والے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "فورس پروٹیکشن" یعنی فوجی اثاثوں کی حفاظت کے پیش نظر یہ قدم اٹھایا گیا۔ دریں اثنا، سیٹلائٹ تصاویر سے بھی اس پیش رفت کی تصدیق ہوتی ہے، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند ہفتے قبل العدید بیس پر درجنوں امریکی طیارے موجود تھے، جبکہ حالیہ تصاویر میں یہ بیس تقریباً خالی دکھائی دیتا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق، جن طیاروں کو محفوظ شیلٹرز میں چھپانا ممکن نہیں تھا، انہیں متبادل مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں تعینات بعض امریکی بحری جہازوں کو بھی ممکنہ خطرات کے پیش نظر وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم حکام نے ان جہازوں کی مخصوص تعداد یا مقام ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔ ادھر قطر میں واقع امریکی سفارتخانے نے اپنے عملے کو العدید ایئر بیس تک رسائی سے عارضی طور پر روک دیا ہے، جس سے صورتحال کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ العدید ایئر بیس قطر کے دارالحکومت دوحہ کے قریب واقع ہے اور یہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی سب سے بڑی فضائی تنصیب ہے۔ یہ فوجی اڈا 1996 میں قائم کیا گیا تھا اور یہاں تقریباً 10 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ العدید ایئر بیس امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کا فارورڈ ہیڈکوارٹر بھی ہے اور ماضی میں عراق، شام اور افغانستان میں امریکی فوجی آپریشنز کی کمانڈ اسی مقام سے چلائی جاتی رہی ہے۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے ملکی طرزِ حکمرانی کو "ہائبرڈ ماڈل" قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں فوج اور سویلین قیادت باہمی اشتراک سے فیصلے کر رہی ہیں، جو بظاہر ایک کھلا راز تھا لیکن کسی حاضر سروس وفاقی وزیر کی جانب سے اس کی کھلی تصدیق غیرمعمولی اہمیت کی حامل بن گئی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے غیر روایتی طور پر اکیلے ملاقات کی۔ خواجہ آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فوجی قیادت، خاص طور پر جنرل (اب فیلڈ مارشل) عاصم منیر کی بھارت کے ساتھ حالیہ سرحدی کشیدگی کے دوران حکمت عملی کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی ہے اور اسی تناظر میں ان کی امریکی صدر سے دو گھنٹے طویل ون آن ون ملاقات نے سول اور عسکری اختیارات کے توازن پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ اگرچہ یہ ماڈل مکمل جمہوری نہیں، مگر موجودہ حالات میں یہی موزوں حل ہے۔ ان کے بقول: “یہ ہائبرڈ ماڈل ہے۔ یہ مثالی جمہوری نظام نہیں، لیکن عملی طور پر بہتر نتائج دے رہا ہے۔ جب تک پاکستان اقتصادی اور طرز حکمرانی کے بحران سے باہر نہیں آتا، یہ نظام کارآمد ہے۔” انہوں نے تسلیم کیا کہ فوجی قیادت کی مقبولیت میں حالیہ مہینوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر بھارت کے ساتھ تنازع کے بعد، جس میں پاکستان نے چھ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرانے اور متعدد عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی فوج کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے (ISPR) کے مطابق جنرل منیر اور صدر ٹرمپ کے درمیان دو گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات میں نہ صرف سکیورٹی اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال بلکہ معاشی ترقی، تجارتی تعاون، کرپٹو کرنسی، مصنوعی ذہانت، معدنیات، اور توانائی جیسے شعبے بھی زیر بحث آئے۔ یہ تمام شعبے عمومی طور پر سول حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، جس پر کئی مبصرین نے سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا فوج کا دائرہ اختیار اب معیشت اور خارجہ پالیسی تک بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم خواجہ آصف نے واضح کیا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف فیصلہ سازی میں مکمل خودمختار ہیں اور عسکری قیادت سے مشاورت باقاعدہ طریقے سے جاری ہے۔ ان کے بقول: "یہ باہمی شراکت داری ہے، کوئی بھی ادارہ دوسرے پر مسلط نہیں۔ وزیراعظم آزادانہ فیصلے کرتے ہیں اور ہر سطح پر اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کرتے ہیں۔" وزیردفاع کے مطابق موجودہ حکومتی ڈھانچے میں سویلین و عسکری قیادت ایک دوسرے کے ساتھ SIFC (اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) جیسے پلیٹ فارمز پر مل کر اقتصادی ترجیحات طے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: "ہمارے پاس مشترکہ پلیٹ فارمز ہیں جہاں فوجی اور سویلین قیادت بیٹھ کر کاروباری فیصلے کرتی ہے، اور یہ نظام بہت مؤثر انداز سے کام کر رہا ہے۔" "اگر اسی قسم کا (ہائبرڈ) نظام 90 کی دہائی میں ہی اپنا لیا جاتا، تو حالات کہیں بہتر ہوتے،" خواجہ آصف نے کہا، "کیونکہ اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان ٹکراؤ نے ہماری جمہوریت کی ترقی کو واقعی پیچھے دھکیل دیا تھا۔" جب خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ آیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ وزیراعظم اور فوجی قیادت کے درمیان فیصلوں پر اختلاف رہا ہو، تو ان کا کہنا تھا: “ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا۔ اب تک جتنے بھی اہم فیصلے ہوئے، سب مکمل اتفاق رائے سے کیے گئے۔ چیزیں بہت ہموار طریقے سے آگے بڑھ رہی ہیں، اور ان شاءاللہ ہم ایک دن ایسی جمہوریت حاصل کر لیں گے جیسی پاکستان کو درکار ہے۔” پاکستان کی تاریخ میں فوج کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ 1958، 1977 اور 1999 میں فوجی بغاوتوں کے ذریعے براہ راست اقتدار سنبھالا گیا، جبکہ جمہوری ادوار میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پالیسی سازی میں کلیدی کردار حاصل رہا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق، اگر 1990 کی دہائی میں ہی یہ "ہائبرڈ ماڈل" اختیار کر لیا جاتا تو آج پاکستان کی جمہوریت کہیں زیادہ مستحکم ہوتی۔ کل تک عمران خان کو Same Page اور Hybrid Regime کے طعنے دینے والے آج فخر سے انٹرویوز میں بتاتے پھر رہے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ ہم ایک ہائبرڈ نظام کا حصہ ہیں اور ہماری یہ حسرت ہے کہ یہ نظام تو 1990 سے ہی شروع ہو جانا چاہیے تھا۔

Back
Top