سیاسی

موقر جریدے روزنامہ دنیا کے مطابق جہانگیرترین نے ن لیگ سے 30 سیٹیں مانگ لی ہیں لیکن ن لیگ صرف 5 سیٹیں دینے کو تیار ہے۔ ابتدائی بات چیت میں ن لیگ نے جہانگیر ترین، علیم خان، عون چوہدری، نعمان لنگڑیال، اسحاق خاکوانی کے مقابلے میں امیدوار کھڑے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی ن لیگ کی پیشکش سے مطمئن نہیں اور پی ڈی ایم کیخلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔علیم خان کا بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں انہوں نے ن لیگ کی بیڈگورننس پر کڑی تنقید کی تھی۔ ن لیگی ذرائع کے مطابق فردوس عاشق اعوان کے حلقے میں ن لیگ اپنا امیدوار کھڑا کرے گی،خیال رہے کہ اس حلقے سے فردوس عاشق اعوان کے مقابلے میں ن لیگ کے ارمغان سبحانی الیکشن لڑتے ہیں جو ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ دوسری جانب ن لیگ نے پیپلزپارٹی اور ق لیگ سے بھی 25 سے 30 سیٹوں پرایڈجسٹمنٹ کی منصوبہ بندی کررکھی ہے۔ن لیگ نے ق لیگ کو گجرات، طارق بشیر چیمہ کے بہاولپور والے حلقے، چکوال سے امیدوار کھڑے نہ کرنیکی یقین دہانی کرارکھی ہے جس کے بعد ن لیگ کے پاس گنجائش انتہائی کم رہ جاتی ہے۔
احسن اقبال نے ٹویٹ میں لکھا ایک ٹی وی انٹرویو میں چین کے بارے میں میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، جس کی وضاحت کی ضرورت ہے، چین دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر قائم ہے۔ احسن اقبال نے ٹویٹ میں لکھا سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے کچھ سینئر تاجروں نے نجی طور پر اس رائے کا اظہار کیا کہ تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے شفاف اور آزادانہ انتخابات پاکستان کے بہترین مفاد میں ہیں۔ انہوں نے کہا جیسا کہ مارچ، اپریل 2018 تک یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی تھی اور بین الاقوامی میڈیا میں کھل کر بحث کی جا رہی تھی کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت واپس آئے اور وہ انتخابی عمل میں مداخلت کے ذریعے پی ٹی آئی کو اقتدار میں آنے میں مدد دے رہی تھی۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا چین نے گزشتہ اسٹیبلشمنٹ کو کہنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کا تجربہ نہ کیا جائے،چین نے خبردار کیا تھا کہ اس کا نقصان سی پیک اور پاکستان کو ہوگا،جواب میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے یقین دلایا تھا کہ سی پیک کو متاثر نہیں ہونے دیں گے، پی ٹی آئی نے سی پیک منصوبوں پر غیر ذمہ دارانہ الزامات لگائے اور منصوبے منجمد رکھے۔ احسن اقبال نے کہا کہ چین کے خدشات پر اس وقت کی اسٹبلشمنٹ نے کہا تھا کہ آپ تسلی رکھیں جو بھی آئے گا ہم اس کو ٹھیک رکھیں گے اور وہ سی پیک ٹھیک چلائے گا لیکن پی ٹی آئی چیئرمین نے ملک میں تباہی پھیلائی،پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سی پیک کو دانستہ نقصان پہنچایا گیا، اس سے متعلق غیر ذمے دارانہ الزامات لگائے اور منصوبے منجمد رکھے،وہ ملک جس نے اس وقت پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جب آپ کا سرمایا کار آنے کو تیار نہیں تھا اس کو آپ اسکینڈلائز کریں گے اور اس کا کیا ردعمل ہوگا؟
جنگ دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ نیب حکام کے مطابق نیب قانون کا اطلاق میرٹ پر ہو تو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری مشکل ثابت ہو سکتی ہے،نیب آرڈیننس میں کی گئی تازہ ترمیم میں چیئرمین نیب کا یہ اختیار بحال کر دیا گیا ہے کہ ملزم نوٹسز کے باوجود تحقیقات میں شامل نہیں ہو رہا یا جان بوجھ کر تعاون نہیں کر رہا تو دورانِ انکوائری ایسے ملزم کیخلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیا جا سکتا ہے۔ زیر سماعت مقدمات میں پہلے عمران خان تعاون نہیں کر رہے تھے لیکن بعد میں جب بھی تفتیش کاروں کی جانب سے انہیں طلب کیا گیا وہ پیش ہوتے رہے لہٰذا عدم پیشی کو وجہ بنا کر انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا،ذرائع کے مطابق عمران خان نہ صرف تحقیقات میں شامل ہوئے بلکہ خود کو بچانے کیلئے الزام دوسرے کے سر ڈال دیتے ہیں،دوسری اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی اس معاملے کو حق اور باطل کی جنگ قرار دیکر کہتی ہیں کہ وہ اور ان کے شریک حیات کامیاب ہوں گے۔ عمران خان سے دو مقدمات میں تفتیش ہو رہی ہے، بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کو نقائص پر جائزے کی بنیاد پر کم قیمت پر خریدنا اور کراچی کے ایک پراپرٹی ٹائیکون پر جرمانے کی مد میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے ملنے والی رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی اجازت دینا۔ دوسری جانب بشریٰ بی بی پر القادر ٹرسٹ کیس میں پراپرٹی ٹائیکون سے فائدہ لینے کا الزام ہے۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان نے نیب کے روبرو موقف اختیار کیا ہے کہ وہ بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کی مالیت کے تعین کے معاملے میں وہ شامل نہیں تھے، بلکہ یہ کام ان کے ملٹری سیکریٹری کا تھا۔ لہٰذا، عمران خان کی دلیل ہے کہ تحفے کی مالیت کا درست تعین نہ ہونے کی صورت میں جوابدہ ان کے ملٹری سیکریٹری ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں اگر ملٹری سیکریٹری یہ کہے کہ اس نے عمران خان کے دباؤ میں آ کر ایسا کیا تو اُس سے کہا جائے کہ یہ بات میرے سامنے آ کر کہے۔ برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی کے حوالے سے کیس میں انہوں نے کہا کہ این سی اے اور پراپرٹی ٹائیکون کے درمیان طے پانے والے تصفیے کی روشنی میں 190 ملین پاؤنڈز واپس بھیجے گئے۔ عمران کا اصرار ہے کہ معاہدے میں تجویز کیا گیا ہے کہ رقم ٹائیکون کے پاس جائے گی جسے وہ جرمانے کی صورت میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو کوئی اعتراض ہے تو وہ اس اکاؤنٹ سے فنڈز کو دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل کر سکتی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس بات کی منظوری کابینہ سے لینے کی کیا ضرورت تھی، تو اس پر عمران خان نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسا کرنے کی ایڈوائس دی گئی تھی تو انہوں نے ایسا کر دیا، لیکن اگر یہ اقدام غیر قانونی ہے تو یہ پوری کابینہ کا فیصلہ تھا اسلئے پوری کابینہ کو قصور وار سمجھنا چاہئے، نہ کہ صرف مجھ اکیلے کو۔ انہوں نے کہا جب نیب نے کابینہ ارکان کو طلب کیا تو آدھی تعداد کا کہنا تھا کہ انہیں یاد نہیں کہ ایسا کیسے ہوا اسلئے تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے، جبکہ آدھی کابینہ کے ارکان نے اس وقت کے احتساب چیف شہزاد اکبر کو قصور وار قرار دیا۔ شہزاد اکبر ملک سے باہر ہیں لہٰذا نیب ان تک نہیں پہنچ سکا۔ بشریٰ نے نیب کو بتایا بطور ٹرسٹی وہ بینیفشری نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بتایا گیا کہ جس علاقے میں القادر یونیورسٹی قائم ہے وہاں کے لوگ بڑے غریب ہیں، اور انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر یونیورسٹی قائم کرنے کا سوچا۔ جس نے بھی رقم عطیہ کی وہ یونیورسٹی پر خرچ ہوئی نہ کہ ان پر۔ نیب نے انہیں انگریزی میں سوالنامہ دیا اور انہوں نے اردو میں جواب دیا کہ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے لہٰذا انگریزی میں جواب نہیں دے سکتیں۔
تحریک انصاف نے انصار عباسی کی خبر کو مکمل جھوٹ اور من گھڑت قرار دیدیا۔تحریک انصاف کے ترجمان کے مطابق انصار عباسی نے غیر مصدقہ اطلاعات پر مبنی خبر شائع کی جو سراسر جھوٹ، بے بنیاد اور گمراہ کن ہے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انصار عباسی نے لکھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے، انصار عباس نے یہ خبر دینے سے پہلے پارٹی کے کسی مرکزی رہنما یا ترجمان سے تصدیق کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ کسی بھی خبر کی اشاعت سے پہلے اس کی تصدیق صحافت کا مرکزی اصول ہے۔انصار عباسی نے محض ایک سیاسی جماعت کی نفرت میں صحافتی اصولوں کو یکسر فراموش کر دیا، تحریک انصاف کی اس پریس ریلیز پر پر انصار عباسی نے پورا کالم لکھ ڈالا اور وضاحت کی کہ اس خبر کے ذرائع تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں سے تھے اس لیے جو بات مجھے بتائی گئی اُس میں پی ٹی آئی کیلئے کچھ منفی نہ تھا۔ تاہم اس خبر کے شائع ہونے کے بعد تحریک انصاف کے ایک نامعلوم ترجمان کی طرف سے ایک بڑی سخت وضاحت سامنے آئی ۔ انصار عباسی کا کہنا تھا کہ جس خبر کو بہانہ بنا پر مجھ پر اٹیک کیا گیا اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی لیڈرشب کافی پریشان ہے اور پریشانی بھی ایسی کہ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھاوہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے9 مئی کے واقعات کیسے ہوئے ساری دنیا نے دیکھا، کون کس کس کو اشتعال دلاتا رہا وہ بھی سب کے سامنے آ چکا۔ انصارعباسی نے مزید کہا کہ لیک آڈیوز میں کون کون سے رہنما کیاکیا کچھ کہتے پائے گئے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، عمران خان صاحب گزشتہ ایک سال سے فوج اور اُس کی اعلیٰ قیادت کے خلا ف جس قسم کا بیانیہ بنا ئے ہوئےتھے وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ انصار عباسی نے زیرحراست افراد کے ویڈیو پیغامات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ان واقعات میں شامل پکڑے گئے کتنے شرپسندوں نے کیاکیا کچھ وڈیو پیغامات میں تسلیم کیا اور اپنی پارٹی لیڈرشپ پر اشتعال دلائے جانے کے کیسے کیسے الزامات لگائے وہ بھی دنیا جانتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اب تو عمران خان کے اردگرد رہنے والوں، اُن کےچہیتے رہنمائوں نے بھی بولنا شروع کر دیا ہےکہ 9 مئی کا ذمہ دار کون ہے؟ فوج، کور کمانڈرز، فارمیشن کمانڈرز، فوج کی اعلیٰ قیادت، حکومت ، وزیراعظم، وزراء، صوبائی حکومتیں ، تفتیشی ادارےاور ایجنسیاں کس کو 9 مئی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اس سب کے باوجود غصہ صحافیوں پر نکالنے کا کیا جواز ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انصارعباسی نے تحریک انصاف کے خلاف ثبوت اور شواہد ان افراد کو قراردیا جو اس وقت قانونی اداروں کی حراست میں ہیں اور دوران حراست افراد پر تشدد کرکے اور تنگ کرکے ان سے کسی بھی قسم کا بیان لیا جاسکتا ہے جس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہوتی۔ یادرہے کہ انصار عباسی نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو آئندہ 10 سے 15 دنوں میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار خاور گھمن نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری استحکام پاکستان پارٹی(آئی پی پی ) کی وجہ سے شدید ناراض ہیں ، کیونکہ آئی پی پی کا حصہ بننے والے زیادہ تر سیاستدانوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنی تھی۔ اے آروائی نیوز کے پروگرام "دی رپورٹرز" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خاور گھمن نے کہا کہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری آئی پی پی کی وجہ سے شدید ناراض ہیں، کیونکہ آئی پی پی کے صدر علیم خان نے گزشتہ دنوں یہ بیان دیا ہے کہ ہم نے میدان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف الیکشن لڑنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب آئی پی پی کے رہنماؤں سے ہم بات کرتے ہیں کہ آپ کی پالیسی کیا ہے؟ الیکشن سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے لڑنا ہے یا کسی سے انتخابی اتحاد کرنا ہے تو کوئی واضح جواب نہیں ملتا، بلکہ یہ جواب ملتا ہے کہ جہانگیر ترین صاحب آئندہ کچھ اعلان کریں گے تو صورتحال واضح ہوگی۔ پروگرام میں شریک سینئر تجزیہ کار چوہدری غلام حسین نے کہا کہ اگر تو فری اینڈ فیئر الیکشن ہوتے ہیں اور کسی کو بھی الیکشن سے باہر نہیں کیا جاتا تو پھر ایک گروپ حکومت بنائے گا جسے ہم اے گروپ کہتے ہیں، تاہم اگر کسی بھی وجہ سے کچھ لوگوں یا جماعتوں کو الیکشن سے باہر کردیا گیا تو پھر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، آئی پی پی، مسلم لیگ ق اور جے یو آئی سیٹیں جیتے گی، اس میں کسی کو 50 ،کسی کو 100 یا کسی کو کم سیٹیں ملیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھر حکومت کیلئے جوڑ توڑ کیا جائے گا، وفاق میں حکومت کون بنائے گا، پھر ان تمام جماعتوں میں آپس میں لڑائی ہوگی، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جڑے رہیں اور ایک اتحادی حکومت قائم کرلیں، فی الحال کوئی حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔
گیلپ پاکستان کا نیا سروے سامنے آگیا ہے جس کے مطابق ہر 5 میں سے 4 پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک غلط سمت میں چل رہا ہے۔ گیلپ کے اس سروے کے مطابق 80 فیصد لوگوں کا خیال ہے ملک غلط سمت جا رہا ہے جبکہ 16فیصد سمجھتے ہیں کہ ملک ٹھیک سمت جارہا ہے۔ 2فیصد نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ گیلپ کے مطابق یہ سروے مرد اور خواتین سے کیا گیا جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ سروے کے مطابق 82% پاکستانیوں کا یہ ماننا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی پاکستان کے عام انتخابات میں ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔ خیال رہے کہ یہ سروے ایسے حالات میں کیا گیا ہے جب 9 مئی کا واقعہ ہوچکا تھا، تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت ختم کرنیکی کوشش ہورہی ہے، ملک میں مہنگائی کا راج ہے، معاشی حالات بدتر ہیں۔کاروبار ٹھپ پڑے ہیں، میڈیا پر آزادی اظہار پر پابندی ہے اور ایک بڑی سیاسی جماعت کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کی کوشش ہورہی ہے۔
ہماری خواہش ہے کہ اگلے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں: ہم بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم منتخب کروانے کیلئے اپنی بھرپور کوششیں کریں گے : مرکزی سیکرٹری جنرل پی پی پی مرکزی جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلزپارٹی نیئر بخاری نے نجی ٹی وی چینل اے بی این نیوز کے پروگرام میں ایک سوال کہ "آئندہ پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں اختلاف وزیراعظم کے حوالے سے ہو گا اور سٹیبلشمنٹ کے مطابق شہباز شریف اب تک کے بہترین وزیراعظم ہیں اور ملکی استحکام کی خاطر اگر انہیں ہی آئندہ بھی وزیراعظم بنایا جاتا تو ہے کیا آپ اس فیصلے کو تسلیم کریں گے" کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں دوبارہ وزیراعظم تسلیم نہیں کریں گے۔ آئندہ وزیراعظم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا اس بات پر موقف یہ ہے کہ آئندہ کے وزیراعظم کا انحصار عام انتخابات کے نتائج پر ہو گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور ہماری جماعت کے قائدین چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو آئندہ ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم منتخب کروانے کیلئے اپنی بھرپور کوششیں کریں گے اور الیکشن کمپین بھی کریں گے جس سے ہمیں امید ہے کہ عوام میں ہمیں پذیرائی ملے گی اور پیپلزپارٹی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرے گی۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ اپنے قائد کو وزیراعظم بنوانے کیلئے کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ آج تک تو ہماری جماعت میں سے بلاول بھٹو زرداری ہی بطور وزیراعظم امیدوار ہوں گے، اگر کسی اور سیاسی جماعت کو عوام قبول کرتی ہے تو یہ ان کا حق ہے۔ ہماری جماعت توقع کر رہی ہے اور ہماری خواہش بھی کہ ملک کے اگلے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں لیکن ان تمام باتوں کا انحصار انتخابات کے نتائج پر ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور صحافی مجیب الرحمان شامی نے نگراں سیٹ اپ کیلئےزیر غور ناموں سے متعلق اندر کی خبردیدی ہے۔ تفصیلات کے مطابق دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ نگراں سیٹ اپ کی باتیں ہورہی ہیں،ایسے میں محسن بیگ، نجم سیٹھی اور گوہر صاحب کے نام لیے جارہے ہیں، یہ سب نام ان لوگوں کے ہی دوست لے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ محسن نقوی صاحب کے دوست بھی ان کا نام نگراں سیٹ اپ کیلئے لے رہے ہیں کہ وہ اچھی نگراں صوبائی حکومت چلارہے ہیں۔ پروگرام کے میزبان اجمل جامی نے کہا کہ اندر کی خبر یہ ہے کہ ان تمام لوگوں میں سے کوئی بھی شخص نگراں وزیراعظم نہیں ہوگا،گوہر صاحب اور ایک دوسری شخصیت نے تو باقاعدہ معذرت کی ہے، حسن عسکری رضوی کے بارے میں میری مثبت رائے ہے، ان کے نام میں بھی عسکری ہے عسکری حلقے بھی ان پر رضامند ہوں گے، تاہم راجا ریاض صاحب اگر اڑ گئے تو مسئلہ ہوجائے گا۔ اجمل جامی نے مزید کہا کہ خبریں یہ ہیں کہ کوئی اکنامسٹ یا معیشت کا ایکسپرٹ نگراں وزیراعظم مقرر کیا جائے گا کیونکہ آنے والے مہینوں میں ہم نے آئی ایم ایف کو بھی ڈیل کرنا ہے، ہوسکتا ہے کہ انتخابات مارچ میں ہوں۔
مملکت خداداد سے15 مہینے تگنی کا ناچ اور ناک رگڑوانے کے بعدآئی ایم ایف معاہدہ ہوگیا، ایاز امیر سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ خوشی کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور مملکت خداداد سے 15 مہینے تگنی کا ناچ نچانے اور ناک رگڑوانے کے بعد آئی ایم ایف معاہدہ ہوگیا، اس سے دودھ اور شہد کی نہریں کیسے نکلیں گی بس یہ گوگل کرنا باقی رہ گیا ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ عالمی ماہر معاشیات اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچارہی ہے،رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف ہم سے ناک رگڑوارہا ہے،خوشی کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، مملکت خداداد نے 15 مہینے تگنی کا ناچ اور ناک رگڑنے کے بعد آئی ایم ایف سے معاہدہ کرلیا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ محب وطن پارٹی جسے عرف عام میں پٹواری پارٹی کہا جاتا ہے اس کے نمائندگان کہتے ہیں کہ اس حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے، انہیں یہ بتائیں کہ عوام کا کچومر تو آپ نے نکال دیا ہے اور ڈیفالٹ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے عوام کی جو چیخیں نکلوائی ہیں اس کی مثال 75 سال میں نہیں ملتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ15 ماہ جو جھک مارنی تھی، جو منی بجٹ دینا تھا، جو ٹیکسز لگانے تھے وہ پہلے کرلیتے، بڑھکیں نا مارتے، اس قوم کو امتحان میں نا ڈالتے، آئی ایم ایف سے معاہدے کو اتنا لمبا کیوں کیا؟ کون سی کارکردگی 15 ماہ میں دکھائی ؟ ایک وزیر خزانہ کو نکالا، پھر عالمی شہریت یافتہ پہلوان معیشت کو لایا گیا، کوئی یہ جواب دے کہ 15 ماہ کے اس سرکس کی قوم کو کتنی قیمت ادا کرنی پڑی ہے؟ یہ معاہدہ اتنا تاخیر کا شکار کیوں ہوا؟
ن لیگ اور پیپلز پارٹی گرینڈ چارٹر میثاق معیشت کے اکثر نکات پر متفق ہوگئے، گرینڈ چارٹرکےتحت آئندہ انتخابات کے بعد بھی اتحادی حکومت ہوگی۔ صحافی نعیم اشرف بٹ کے مطابق دوبئی میں نوازشریف ،آصف زرداری ، بلاول اور مریم نواز کے درمیان ملاقات میں گرینڈچارٹر کےتحت نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں میثاق معیشت کے اکثر نکات پر اتفاق کرلیا گیا ہے، میثاق معیشت 10 سال کیلئے ہوگا۔ فضل الرحمان، پی ڈی ایم ودیگر اتحادی جماعتوں کوبھی میثاق معیشت کاحصہ بنایاجائے گا، ذرائع کے مطابق گرینڈ چارٹرکے تحت انتخابات کے بعد بھی اتحادی حکومت ہوگی۔انتخابات کے انعقاد الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پرچھوڑ دیاگیا۔ پی پی رہنما نے کہا ہے کہ معاشی بہتری کیلئےایک دوسرے کی سیاسی حمایت کی ضرورت ہوگی، ذرائع نے کہا ہے کہ انتخابات کے انعقاد پر پیپلزپارٹی کے مؤقف کو تسلیم کرلیا گیا کہ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق انتخابی اتحاد پر فیصلہ نہ ہوسکا۔نگران پراتحادیوں سےمشاورت ہوگی جس کے بعد نگران وزیراعظم اور دیگر کابینہ کا فیصلہ ہوگا۔
مفتی منیب الرحمان نے اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ سے انصار عباسی کی "شہزاد اکبر کا ناقابلِ فہم موقف! " کے نام سے پوسٹ شئیر کی جو 19 ملین پاؤنڈ کی برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض سے متعلق طے پاجانے سے متعلق تھی۔ مفتی منیب الرحمان کاکہنا تھا کہ انصار عباسی کے وی لاگ سے معلوم ہوا کہ شہزاداکبر نے ٹیلی فون پر اپنا موقف بیان کیا کہ 19 ملین پاؤنڈ کے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے درمیان طے پانیوالے معاہدے میں حکومت پاکستان کاکوئی لینا دینا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پھر سوال یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے باقاعدہ اجلاس میں بندلفافے میں منظوری لیکر کابینہ کے چہرے پر کالک ملنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسکی شہادت تو کابینہ کے ارکان بھی دے چکے ہیں۔ مفتی منیب الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ عباسی صاحب سے گزارش ہے کہ موصوف سے اس سوال کا جواب معلوم کرکے عوام کو مطمئن کریں۔ اس پر بیرسٹر شہزاداکبر نے مفتی منیب الرحمان کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی صاحب سے انتہائی احترام سے عرض ہے کہ ہمارا مذہب سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے پہنچانے کو انتہائی نا پسند کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ اجلاس میں کوئی بند لفافہ نہ تھا اگر ہوتا تو اسکا دستاویزی ثبوت موجود ہوتا جو کہ نہیں ہےبند لفافہ تین سال بعد وفاداریاں بدلنے والوں کا پروپینگڈہ ہے اور ان سے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ بند لفافہ حکومت جانے کے بعد یاد کیوں آیا؟ شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ ہاں تک بات کابینہ کے اپرول کی ہے تو کا بینہ کے پاس اس معاملے میں این سی اے کو ایک "نان ڈسکلوز انڈرٹیکنگ "دینے کے لیے آیا اور کابینہ نے محض اسی حد تک اپرول دی ۔ شہزاداکبر کے مطابق این سی اے پیسے دینے کا معاہدہ نومبر میں ہی کر چکا تھا اور پیسے بھی متعلقہ اکاونٹ میں نومبر میں ہی ٹرانسفر ہو گے تھے اور کابینہ نے تو "نان ڈسکلوز ایگریمنٹ " دسمبر کو پاس کیاتھا انکا مزید کہنا تھا کہ سب سے اھم سوال یہی ہے کہ اگر این سی اے نے پیسہ حکومت پاکستان کو دیا تو اسکا ثبوت کہاں ہے؟ جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے اسی لیے کوئی ثبوت بھی نہیں ہے اس پر مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ شہزاداکبر نے پی ٹی آئی کے کلچر کے برعکس مہذب انداز میں بات کی، میں سنی سنائی بات نہیں کررہا۔یہ بیان فیصل واوڈا، شیریں مزاری اور فوادچوہدری دے چکے ہیں۔
سینئر صحافی واینکر پرسن مہر بخاری نے کہا ہے کہ کسی بھی حکومت یا وزیر خزانہ کیلئےڈیفالٹ کا اعلان کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے، یہ انتخابات کا سال ہے اور انتخابات سے قبل تو یہ حکومت ڈیفالٹ کا اعلان نہیں کرے گی اور نا ہی ایسا کوئی اشارہ دے گی۔ اے آروائی نیوز کے پروگرام "خبر مہر بخاری کے ساتھ " میں مہر بخاری نے ملک کی مجموعی معاشی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کو دیوالیہ قرار دینا اس حکومت کیلئے سیاسی موت کا پروانہ ثابت ہوگا، حکومت چاہتی ہے کہ یہ سارا ملبہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت کے سر پر پڑے۔ مہر بخاری نے کہا کہ تاہم اس تاخیر سے ملک کو مزید نقصان پہنچے گا، کیونکہ جب حکومت قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے کام شروع کرے گی، ایک فرم کو ہائر کیا جائے گا جو اس حکومت کی جانب سے تمام قرضہ دینےوالے فریقین سے مذاکرات کرے گی، اس فرم کیلئےیہ بھی ایک چیلنج ہوگا کہ تمام قرضہ دینے والے ممالک و اداروں کو ایک میز پر لایا جائے، چین، پیرس کلب، جاپان اور دیگر مالیاتی اداروں سے مذاکرات کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس دو آپشنز ہیں ایک بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کا اعلان کرنا ، دوسرا ڈیٹ ری سٹرکچرنگ، ہمیں ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کو چننا ہوگا، جیسا کے سری لنکا نے کیا، سری لنکا نے بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کا اعلان کیا اور پھر دوبارہ آئی ایم ایف سے مذاکرات شرو ع کیے گئے۔ مہر بخاری نے بتایا کہ سری لنکا نے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل کرتے ہوئے چین اور ہندوستان سے لیے گئے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ شروع کی، تمام معروف اور سینئر ماہر معاشیات یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کیلئے بھی قرضوں کی تنظیم نو ہی واحد آپشن ہے، کیونکہ ایسا کرنا اس سلو پوائزن سے کہیں بہتر ہے جو پاکستان کو اندر ہی اندر ختم کیے جارہا ہے۔
پاکستان میں نو مئی کو تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف فوجی تنصیبات پر حملوں کے مقدمات کا سامنا ہے۔ بیشتر زیر حراست بھی ہیں اور 45 افراد کو اب تک کارروائی کے لیے فوج کے حوالے کیا جا چکا ہے،آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف قانون دان اعتزاز احسن کی درخواست پر سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ انڈیینڈنٹ اردو کے مطابق قانون دانوں کی جانب سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات کی سماعت سے متعلق مختلف پہلوؤں پر بحث جاری ہے،تجزیہ کار یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا ماضی میں عام شہریوں پر دہشت گردی کے الزام کے تحت مقدمات چلائے گئے تھے لیکن نو مئی کے واقعات کی وجہ سیاسی اختلاف تھا نہ کہ دہشت گردی۔ سینیئر قانون دان حامد خان کہتے ہیں جن افراد نے فوجی علاقوں میں جلاؤ گیھراؤ کیا ان کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے سول عدالتیں موجود ہیں،فوجداری مقدمات کے سینیئر قانون دان برہان معظم کے مطابق: ’اگر فوجی تنصیبات پر حملوں کو دہشت گردی کے حملے قرار دیا جاتا ہے اور اس حوالے سے فوجی ایکٹ کے تحت ملوث ملزمان پر مقدمہ چلانا ہے تو پہلے کی طرح قانون میں پارلیمان سے ترمیم کروانا لازم ہے۔‘ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس ظفر اللہ خان کے مطابق: ’یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ لہذا عدالت دیکھے گی کہ کیا حملہ کرنے والوں کا مقصد دہشت گردی تھا، اس میں صرف سویلین ملوث ہیں اور کیا کسی سیاسی جماعت کے اگر کارکن ہیں تو ان کا مقصد احتجاج تھا جس کے دوران اشتعال پھیلا یا یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حملہ تھا؟ سابق صدر ہائی کورٹ بار لاہور مقصود بٹر نے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی آئین کے تحت تشریح کی جائے جو آئین کہتا ہے اس پر عمل کیا جائے۔‘ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی جرم میں ملوث افراد کو قانون کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران سیاسی کارکنوں کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اس وقت آئین بھی معطل تھا اور بنیادی انسانی حقوق بھی سلب تھے۔ اس کے بعد یا پہلے کسی سیاسی کارکن یا رہنما کا کورٹ مارشل نہیں ہوا نہ ہی ایسی کوئی مثال موجود ہے۔ ملک میں جیسا بھی جرم ہو اس کے لیے آئین میں ہر طرح کی سزا و جزا موجود ہے۔ عدالتیں موجود ہیں حتی کہ دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے لیے الگ سے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بنی ہوئی ہیں۔ لہذا جس کسی پر بھی دہشت گردی کا مقدمہ ہو وہ بھی انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چلایا جاسکتا ہے۔‘ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ظفر اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا معاملہ سپریم کورٹ دیکھ رہی ہے۔ عدالت اس معاملے میں یہ بھی دیکھے گی کہ اس میں کون لوگ ملوث ہیں، ان کے کیا عزائم تھے، یہ صرف احتجاج کے دوران اشتعال میں ہوا یا کوئی سازش رچائی گئی تھی؟ جسٹس ریٹائرڈ ظفر اللہ خان کے بقول ’یہ اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے جس میں عدالت عظمی تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ دے گی۔ اس فیصلہ میں طے ہوگا کہ قانونی طور پر کیا ہوسکتا ہے کیا نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ فیصلہ آئندہ کے لیے بھی مثال ہوگا۔ اگر ان واقعات کو دہشت گردی کے جرائم میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر یہ کسی تنظیم کے کارکن ہیں وہ تنظیم کالعدم ہے یا اس کا مقصد دہشت گردی ہے۔‘ حکومتی اہلکار اور تحریک انصاف کے بعض مخالفین کا موقف ہے کہ اگر نو مئی کے حملوں میں ملوث افراد عام سیاسی کارکن بھی ہوں، ان کا جرم یعنی فوجی تنصیبات پر حملہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے لہذا فوجی عدالتوں میں ان پر مقدمات چلائے جاسکتے ہیں۔ فوجداری مقدمات کے سینئر قانون دان برہان معظم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئین پاکستان کا آرٹیکل 10 اے ہر شہری کو شفاف انصاف کا حق دیتا ہے۔ نو مئی کے واقعات میں جو بھی ملوث ملزمان ہیں وہ پاکستانی شہری ہیں اور سویلین ہیں۔ لہذا پہلے تو شفاف انصاف کا حق انہیں آئین دیتا ہے،جس میں غیرجانبدار جج اور وکیل کا میسر ہونا لازمی ہے۔ اگر ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا جاتا ہے تو نہ انہیں وکیل دستیاب ہوگا نہ ہی غیر جانبدار جج کیوں کہ وہاں فوجی افسر ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ جس ادارے کی طرف سے الزام عائد کیا گیا ہے اسی کے افسران سزائیں سنائیں گے؟ برہان معظم کے مطابق اگر ان ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کارروائی ناگزیر ہے تو پھر پہلے کی طرح پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کرائی جائے۔ جس طرح کچھ عرصہ پہلے دہشت گردوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے دو سال مدت مقرر کر کے پارلیمنٹ نے قانون میں ترمیم کی تھی۔ اس ترمیم کے تحت سویلین دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی ہوئی تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔‘ انہوں نے کہا دوسرا یہ کہ فوجی تنصیبات کی تشریح ہونا بھی لازمی ہے جس طرح پولیس جیو فینسگ یا جیو گرامیٹک سے لوگوں کی موجودگی کی بنیاد پر حراست میں لے رہی ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جائے وقوعہ پر موجود شخص جرم میں بھی شریک تھا۔ کنٹونمنٹ میں سویلین بھی رہتے ہیں وہ نوگوایریاز نہیں ہیں۔‘ ان کا سوال تھا کہ اگر کہیں کوئی نمائشی جہاز یا کوئی یاد گار بنی ہے تو کیا وہ فوجی تنصیبات کی تشریح میں آتے ہیں یا نہیں اس کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے،پاکستان میں جہاں حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں نو مئی کے واقعات میں ملوث سیاسی کارکنوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حق میں ہیں وہیں چند سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت بھی کر رہی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے ہمیشہ انتقام کی سیاست کی مخالفت کی ہے اور وہ سیاسی کارکنوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے خلاف ہے،جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف بھی اس کی مخالفت کر رہی ہے جس کے کارکنان کے بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ وہ رہنماؤں کے کہنے پر جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہوئے تاہم پی ٹی آئی نے ایسے تمام افراد سے اعلان لا تعلقی کیا ہے۔
دنیا نیوز کے معروف صحافی طارق عزیز نے دعویٰ کی اہے کہ مریم نواز کی مری اور اسلام آباد میں مقتدر حلقوں کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جس کے بعد خصوصی پیغام لیکر دبئی روانہ ہوگئیں۔ طارق عزیز کا کہنا تھا کہ عید کےبعدنتائج آنے شروع ہوجائیں گے۔ صحافی طارق عزیز کے مطابق مریم نواز نے جنوبی پنجاب اور بلوچستان کو ٹارگٹ کر لیا۔ مستقبل قریب میں الیکٹ ایبلز کی کثیر تعداد ن لیگ میں شامل ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جھنگ کا معروف لوٹا خاندان جلد ن لیگ میں شامل ہورہا ہے ۔سابق ارکان قومی اسمبلی چاچا بھتیجا جلد ن لیگ میں شمولیت اختیار کریں گے۔ طارق عزیز نے ان شخصیات کا نام تو نہیں بتایا لیکن بعض ذرائع کے مطابق یہ شخصیات صاحبزادہ محبوب سلطان اورصاحبزادہ امیر سلطان ہیں جو تحریک انصاف کے اس وقت ایم این اے ہیں۔ ایک اور ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی سابق ایم این اے غلام بی بی بھروانہ بھی ن لیگ کا حصہ بننے جارہی ہیں لیکن یہ تحریک انصاف کیلئے بڑا دھچکا ثابت نہیں ہوگا کیونکہ اسی حلقے سے انکے مدمقابل شیخ وقاص اکرم تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔
ملک مقروض، کشکول ہاتھ میں اور مشورہ دنیا کو دے رہے ہیں: آپ چائنا کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں تو بھارت امریکہ کو بھی اپنے معاملات طے کرنے کا حق ہے: حسن نثار سینئر صحافی وتجزیہ کار حسن نثار نے نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام بلیک اینڈ وائٹ میں پاک، امریکہ مشترکہ اعلامیہ کے ردعمل میں وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے بیانوں کا موازنہ کرتے ہوئے گفتگو میں کہا کہ بلاول اور خواجہ آصف میں یہی فرق ہے، بلاول نے سمجھداری سے بات کی ہے۔ بلاول بینظیر بھٹو جو دنیا بھر میں جانی جاتی تھیں کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں جو خود بھی ایک جینئس تھے اور فارن افیئرز پر ان کی کمانڈ کو آج تک کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں انہیں پڑوس میں کوئی جانتا بھی نہیں، کسی کو ابا، کسی کو تایا، کسی کو چاچا بنا لیتے ہیں، ان کی سفارتکاری کا یہ حال ہے کہ آم بانٹتے پھر رہے ہیں۔ اگر آپ نے اپنا گھر ہی ٹھیک نہیں کیا تو دنیا کو مشورے دینے والے کون ہوتے ہیں؟ مشترکہ اعلامیہ شرمناک کہنے والے آپ کون ہیں؟ امریکہ ایک سپرپاور جبکہ بھارت اس خطے کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے، ان کا معاملہ ہے وہ جانیں۔ انہوں نے خواجہ آصف کے بیان پر کہا کہ پہلے اپنے گھر کے بنیادی معاملات دیکھنے ہوتے ہیں، ہمارا تو سب کچھ دائو پر لگا ہے۔ اپنا گھر آپ سے سنبھالا نہیں جا رہا، نہ کوئی سر ہے نہ پیر، نہ کل تھا نہ آج ہے نہ کل کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ آپ چائنا کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں تو بھارت امریکہ کو بھی اپنے معاملات طے کرنے کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے، ایسی بیان بازی فضول بات ہے،پہلے اپنا گھر درست کریں۔ ایک ان کے باس ہیں کہتے ہیں عالمی میثاق معیشت ہونا چاہیے، ملک مقروض، کشکول ہاتھ میں اور مشورہ دنیا کو دے رہے ہیں، سبحان اللہ! آپ چائنہ کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھائیں لیکن آپ کو خود طاقتور بننا ہو گا۔ سپر پاور ہزاروں میل دور بیٹھی بھی وارے میں نہیں ہوتی چائنہ تو نیکسٹ ڈور ہے! آنے والے 20 سے 25 سالوں میں جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ بیان نہیں کر سکتا لیکن اس کی شروعات ہو چکی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے تایا جان کو ٹھیک مشورہ دیا ہے، شاباش بلاول! بہت اچھی بات ہے، اپنا گھر سیدھا کرو پہلے چودھری بننے چلے ہیں بلاوجہ!
پریس کانفرنس کرکے بھی جان نہ چھوٹی: تحریک انصاف کے سابق رہنما جمشید اقبال چیمہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ مسرت جمشید چیمہ کا کنا ہے کہ انکے شوہر جمشید اقبال چیمہ صاحب کو آج پھر گرفتار کر لیا گیا ہے. یہ دراصل پریس کانفرنس کرنے والوں کو پیغام ہے کہ آپ سیاست بھی چھوڑ دیں تو بھی آپ کے ساتھ مال غنیمت والا سلوک جاری رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا حق ہے کہ ہم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور ہمیں اس سے بھی محروم رکھا جارہا ہے. پہلے ہمارے ساتھ جیل میں سیاسی قیدیوں کی بجائے جنگی قیدیوں والا سلوک روا رکھا گیا.
معروف صحافی عامرمتین کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی حالت اس بچے جیسی ہو گئی ہے جس کی چھیڑ آئی ایم ایف بن گئی ہے۔اتنی بڑھکیں مارنے کے بعد کہ مفتاح بیوقوف تھا۔میں سب ٹھیک کر دوں گا اور ڈالر 200 روپئےپر لے آؤں گا۔ اب وہ صحافیوں کو تھپڑ مارنے پر آ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ محلے میں اس طرح کے کردار دیکھے جن کو پاگل ای اوئے کہ کر بچے دوڑ جاتے تھے۔ مگر ایسا وزیر خزانہ دیکھنا نصیب نہی ہوا تھا۔ پتہ نہی میاں صاحب نے اپنے سمدھی سے انتقام لیا ہے یا ملک سے۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ اس شخص کے ہوتے ہوئے کوئ بہتری نہیں ہو سکتی۔ جس دن ڈار اچھی خبر دیتا ہے ڈالر اوپر چلا جاتا ہے اور سٹاک مارکیٹ گر جاتی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئ بہتری کی امید نہی۔ انہوں نے اپیل کی کہ خدا کے لئے اس کو واپس لندن بھجوائیں ورنہ ملک تباہ ہو جائے گا یا یہ کسی صحافی کا آئی ایم ایف کہنے پر سر پھاڑ دے گا۔ یہ مسےلے کا حل نہیں بلکہ خوراک مسئلہ ہے
نامزد چیف جسٹس نے اس معاملے کو متنازع نہیں کیا بلکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے غلط بینچ بنا کر معاملے کو متنازع کر دیا ہے: عرفان قادر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام آن دی فرنٹ میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر کیس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قانون کی پیروی کر کے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ نامزد چیف جسٹس نے اس معاملے کو متنازع نہیں کیا بلکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے غلط بینچ بنا کر معاملے کو متنازع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ ہی قانون کے مطابق نہیں ہے، اس لیے اس کیس پر جو بھی فیصلہ آیا وہ غیرقانونی تصور کیا جائے گا۔ ہم اس 7 رکنی بینچ کی طرف سے کیس پر آئے کسی بھی فیصلے کو نظرانداز کر دیں گے، مزید کہا کہ ایسا کرنے پر ہمارے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا، اپنی مرضی کے بینچز بنانے سے قانون کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 14 مئی کو فیصلے والے دن ہی میں نے کہا تھا کہ قانون کے خلاف کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو گا۔ 14 مئی والا فیصلہ درست نہیں تھا، اس بینچ کی صورتحال بھی ویسی ہی ہو گی، اس کا فیصلہ کوئی نہیں مانے گا۔ حاضر چیف جسٹس کی اس وقت کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ موجودہ چیف جسٹس ڈیفیکٹو چیزیں کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر قائم 9 رکنی لارجر بنچ نے آج کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج کاز لسٹ میں آخر میں آئی درخواست کو سب سے پہلے مقرر کر دیا گیا ہے، میں اس بنچ کو "بنچ" تصور نہیں کرتا، کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا لیکن پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا اگر 9 رکنی بنچ نے فیصلہ دے دیا تو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ 9 رکنی بنچ دونوں کے علیحدہ ہونے سے ٹوٹ گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فوجی عدالتوں کے خلاف بننے والے 9 رکنی بنچ کا حصہ ہیں جو اس سے پہلے بھی فوجی عدالتوں سے متعلق ایک مقدمےکا حصہ رہ چکےہیں۔ دلچسپ امریہ کہ سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ جو ماضی میں اس بنچ کا حصہ رہ چکے ہیں وہ درخواست گزار ہیں۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 17رکنی بنچ نے اس وقت کی حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا تھا لیکن اس فیصلے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اختلاف کیا تھا۔ اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ فوج انتظامیہ کا حصہ ہے اور وہ عدلیہ کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سویلین افراد کا ٹرائل نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا تھا کہ پاکستان آرمی ترمیمی اٹک آئین کے چیپٹر ون اور ٹو میں دیئے گئے بنیادی حقوق کیخلاف ہے مذکورہ ایکٹ کے تحت کی گئی تمام سزائیں اورٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور ان مقدمات کو دہشتگردی عدالتوں میں چلایا جائے تمام فوجی عدالتوں کے مقدمات دہشتگردی عدالتوں میں منتقل کئے جائیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندوں کو کسی طور پر یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جس طرح چاہیں آئین میں ترمیم کریں چاہے وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جسٹس خواجہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ آئین تمام ریاستی اداروں پر فوقیت رکھتا ہے اور آئین کی تخلیق کردہ پارلیمنٹ آئین سے بالاتر نہیں ہے اور اس کے اختیارات لامحدود نہیں ہیں۔
عمران خان پی ڈی ایم کیلئے ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کی مقبولیت ہے،سب ڈرے ہوئے ہیں،جنیدسلیم صحافی جنید سلیم کہتے ہیں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کی مقبولیت ہے،سب ڈرے ہوئے ہیں، یہ سب دیکھا نہیں جاتا، ہماری ترجیحات کیا ہیں، ہم صرف عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، گرفتاریاں کیسے کرنی ہیں،جوں جوں انتخابات قریب آتے جارہے ہیں دوریاں بڑھتی چلی جائیں گی، صرف عمران خان سے نفرت کے سوائے کوئی کام نہیں، عمران خان کے خوف کے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی مسئلہ کیسے حل ہوگا، اس سے پہلے یہ سوچیں سیاسی مسئلہ ہے کیا، اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کی مقبولیت ہے، اسی سے سارے ڈرے ہوئے ہیں،اصل مقصد یہ ہے عمران خان کی مقبولیت کو کم کیسے کیا جائے، پی ڈی ایم سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس عمل سے عمران خان کی مقبولیت مزید بڑھ رہی ہے،ہر جگہ عمران خان کے چرچے ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا عمران خان کو کسی ڈبے میں بند کرکے سمندر میں بھی ڈال دیں تب ہی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، عمران خان کی مقبولیت بڑھتی رہے گی،عمران خان کی مقبولیت ان جماعتوں کے لئے ڈراؤنا خواب بنی رہ گی، عمران خان کو رہنے نہ دیا جائے یا الیکشن نہ ہوں یہ دونوں کام ناممکن ہیں، الیکشن کروانے میں دن بہت کم رہ گئے ہیں، معاملات اتنی آسانی سے کنٹرول نہیں ہوسکتے۔ جنید سلیم نے کہا مشکل سے دس سے پندرہ فیصد سے زیادہ لوگوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ واپس نہیں کئے، پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنی جگہ ہے، پی ڈی ایم کا الگ الگ ہو کر سیاسی میدان میں اترنا بیکار ہے، مل کر الیکشن لڑنے کی ترغیب نہیں تو بھی جیت ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان جماعتوں کو ایک حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے، ن لیگ کی ترجیحات میں الیکشن ایک ڈیڑھ سال آگے لے جانا ہے،تاکہ نواز شریف واپس آجائیں،پیپلز پارٹی کو لگ رہا ہے وہ تیاری کے مرحلے میں ہیں، پپیپلز پارٹی دھاندلی کے حوالے سے بھرا ہوا ہے اسلیے کراچی الیکشن میں پیپلزپارٹی پر تنقید بے سود ہے،غیر جمہوری حرکتوں سے پیپلز پارٹی کی تاریخ بھری ہوئی ہے۔

Back
Top