سیاسی

حکومتی وزراء و مشیران کےغیر ملکی دوروں کا خرچ گزشتہ حکومت سے 150 فیصد زیادہ، میڈیا رپورٹ میڈیا رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے وزراء و مشیران نے غیر ملکی دوروں پر آنے والے اخراجات گزشتہ حکومت سے 150 فیصد زیادہ ہیں۔ خبررساں ادارے ہم نیوز کے ہیڈ آف انویسٹی گیشن ٹیم زاہد گشکوری کی خصوصی رپورٹ کے مطابق 2020 سے2022 کے درمیان حکومتی وزراء و مشیران کے غیر ملکی دوروں پر قومی خزانے سے 12 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ زاہد گشکوری کے مطابق موجودہ حکومت کے وزراء و مشیران کے 25 بیرون ملک دورےہوئےہیں جن پر 8 کروڑ روپے کے اخراجات آئے ہیں، یہ اخراجات گزشتہ حکومت کے دور میں بیرون ملک دوروں پر آنے والے اخراجات سے تقریبا 150 فیصد زیادہ ہیں۔ سینئر صحافی کے مطابق کابینہ ڈویژن سے حاصل کیے گئے ریکارڈ کے مطابق سب سے مہنگا بیرون ملک دورےوفاقی وزیر صحت قادر پٹیل نے کیے جن کے بیرون ملک دوروں پر 1 کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ ہوئے، وزیر تجارت نوید قمر کے دوروں پر 65 لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوئے۔ شیری رحمان کے دوروں پر 55 لاکھ روپے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے45 لاکھ، عائشہ غوث پاشا نے41 لاکھ روپے خرچ کیے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ حکومت میں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے دوروں پر 30 لاکھ روپے خرچ ہوئے، سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے دوروں پر 25 لاکھ روپے اور سابق وزیر تجارت عبدالزاق داؤد نے اپنے بیرون ملک دوروں پر 40 لاکھ روپے کےا خراجات کیے تھے۔ زاہد گشکوری کے مطابق حکومت سے جب اس حوالے سےرابطہ کیا گیا تو حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ن لیگ چاہتی ہے پی ٹی آئی الیکشن میں ہی نہ آئے مگر پیپلزپارٹی کاایساکوئی ارادہ نہیں۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ن لیگ چاہتی ہےپی ٹی آئی الیکشن میں ہی نہ آئے لیکن ہم چاہتےہیں پی ٹی آئی بھی الیکشن عمل کاحصہ بنے، ہم چاہتےہیں الیکشن مقررہ مدت میں ہو۔ سلیم مانڈوی والا نے تحریک انصاف کی الیکشن عمل میں شمولیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی طورپرچیئرمین پی ٹی آئی اوران کی پارٹی کوالیکشن میں آنا چاہیے ، اگر انہوں نےکوئی غلط کام کیاہےتوہمیں وہ کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سزادینا عدالتوں کا کام ہے ہمارا نہیں کسی نے کوئی غلط کام کیا ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ وزیر قانون نے اپنی رائے دی ہوگی، پی ٹی آئی ہر پابندی کے سوال پر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پیپلزپارٹی کسی بھی جماعت پرپابندی کےخلاف ہیں پیپلزپارٹی واضح مؤقف رکھتی ہے، ہم توشروع سے نیب جیسےاداروں کے غلط استعمال کے خلاف ہیں۔
سابق پرنسپل سیکرٹری کے سائفر معاملےپر انکشافات کے بعد حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کو تحقیقات میں تعاون نا کرنے پر گرفتار کرنے کا عندیہ دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے اعظم خان سے منسوب کردہ بیان کے سامنے آنے کےبعد حکومت نے عمران خان کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کردیا ہے۔ اعظم خان کے مبینہ بیان میں سائفر کی کاپی عمران خان کے پاس موجود ہونے سے متعلق انکشاف کے بعد حکومت نے عمران خان پر حساس دستاویزات اپنے پاس رکھنے ، اسےپبلک کرنے اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے جیسے الزامات عائد کرکے ان کی گرفتاری عمل میں لانے کا عندیہ دیدیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے سماجی رابطےکی ویب سائٹ پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ ایف آئی اےنے25 جولائی کو سائفر معاملے کی تحقیقات کیلئے عمران خان کو طلب کیا ہے، اگر انہوں نے تحقیقات میں تعاون نا کیا تو انہیں انکوائری کے مرحلے میں ہی گرفتار کیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے تحقیقات کے بعد یہ سفارشات مرتب کرے گی کہ دستیاب شواہد اور عمران خان کےبیان کے بعد شریک جرم کون ہے اورکس کس کے خلاف جرم کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی اس معاملے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کلاسیفائیڈ دستاویز کو پبلک نہیں کیا جاسکتا، چیئرمین پی ٹی آئی نے ایسا کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم سائفر کو اپنی تحویل میں لیا، اسےایک جلسے میں لہرایا اور پھر اسےمتعلقہ ادارے کو واپس بھی نہیں کیا، ایف آئی اےآفیشل سیکرٹ ایکٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے کی انکوائری کرے گا، اس معاملے کو آئین و قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر انکوائری میں یہ ثابت ہوگیا کہ کلاسیفائیڈ دستاویز کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا گیا تو 14 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔
ایف آئی اے نے سائفر کیس میں چالان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں جمع کروا دیا، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عدالت سے چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کرکے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسد عمر کو ایف آئی اے نے ملزمان کی فہرست میں شامل نہیں کیا جب کہ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ بن گئے ہیں، ان کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک ہے۔ اعظم خان کے 164 اور 161 کے ببیان پر رؤف کلاسرا کے پروگرامز کیلئے ریسرچ کرنیوالے صحافی قسمت خان زمری نے حدیبیہ پیپرز کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ شئیر کردیا جس میں بتایا گیا کہ 164 کا بیان ریکارڈ کرنے کیلئے کیا لوازمات ہیں۔ اگر اس فیصلے کی نظیر سامنے رکھی جائے تو اعظم خان کا بیان محض ایک ردی کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوگا۔ حدیبیہ کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر لکھا تھاکہ 164کے تحت ریکارڈشدہ بیان کو کسی ملزم کیخلاف استعمال کرنے سے قبل لازم ہے کہ بیان ملزم کی موجودگی میں ریکارڈ ہوا ہو اور جسکے خلاف بیان استعمال ہواسے(اعترافی)بیان دینے والے گواہ پر جرح کا موقع بھی دیا گیا ہو۔ فیصلے کے مطابق اگر اسحاق ڈار کے بیان کو 164کے تحت بیان شدہ ریکارڈ سمجھا جائے اور شریف خاندان کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو اسے شریف خاندان کی موجودگی میں ریکارڈ کیا جانا تھا ۔ اس فیصلے میں لکھا گیا کہ شریفوں کو اسحاق ڈار پر جرح کا موقع ملنا چاہئے تھا۔چونکہ اسحاق ڈار کا بیان شریف خاندان کی موجودگی میں ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا اور نا انہیں ڈار پر جرح کا موقع دیا گیا تھا،اس لئے قانون اس بیان کو شریف خاندان کیخلاف استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔ اس پر صدیق جان نے لکھا کہ قسمت خان زمری کے ٹویٹ نے نئی بحث چھیڑ دی ہے،جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا فیصلہ سب بھول چکے تھے،ن لیگ والوں نے اگر اب تک رس گلے نہیں کھائے تو آرڈر کینسل کر دیں
ابوذرسلمان نیازی کے مطابق اسلام آباد پولیس کے آفیشل ریکارڈ جو انہوں نے عدالت میں جمع کروایا تھا اسکے مطابق اعظم خان اغواء ہیں اور ان کو ریکور کرنے کی کوشش جاری ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک انسان جو اغواء ہے اس نے ایک مجسٹریٹ جس کا کسی کو نام تک نہیں پتہ کیسے اسکے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروایا اور جو فرضی ڈاکومنٹ پڑھا جا رہا وہ 164 کے بیان کی بجائے ایسے لگ رہا جیسے کسی اور نے تیار کیا ہو۔ ایڈوکیٹ ابوذر سلمان انتظار پنجوتھہ ایڈوکیٹ نے غریدہ فاروقی کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ قانون قانون کھلینے والوں کے لیے 161 کا بیان 154 کے بعد آتا ہے ابھی 154 ضابطہ فوجداری کے تحت سائفر کے ایشو پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور جب تک ایف آئی درج نہیں ہوتی 161 کے تحت بیان بھی درج نہیں ہوسکتا ، آپ پہلے قانون کو پڑھ لیتی تو شاہد ایسا ٹویٹ نہ کرتیں لیکن آپ نے شائد وٹس ایپ سے بھی کاپی پیسٹ ہی کیا ہے اگر وٹس ایپ ہی غور سے پڑھتی تو بھی شائد یہ ٹویٹ نہ کرتی میاں علی اشفاق کے مطابق لاپتہ فرد کا 164 کا بیان- قانون بھانک منہ چڑھا رھا ھے- ایسا بیان قانون کی نظر میں رتی برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا- پروپیگنڈا کے لئے کہانیاں ضرور بن سکتی ھیں- انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ھائیکورٹ میں اعظم خان کی بازیابی کا کیس 5 جولائی کو لگا، بعدا ازاں 13 جولائی کو کیس کی لسٹ کینسل ھوئی- اب تک لاپتہ ھیں- بیان کس ادارے نے ریکارڈ کرایا؟ پولیس؟ نیب یا ایف آئی اے؟ آج تک کہیں پیش نہیں کیا؟ اسکی بالکل کوئی حیثیت نہیں، قانون برباد ھو گیا ھے پاکستان میں- شعیب شاہین نے کہا کہ اعظم خان کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اغوا ہونیوالے بندے سے تو آپ جوچاہیں لکھوالیں، جنہوں نے انہیں اغوا کرکے یہ بیان دلوایا ان سب کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔ دفعہ 164 ضابطہ فوجداری کے بیان کی کافی ریکوائرمنٹس ہوتی ہیں سب سے اہم کہ یہ بیان تب ریکارڈ ہو سکتا ہے جب کوئی FIR درج ہو اور دوسرا جس کے خلاف بیان ہو اس کو نوٹس دیا جاتا ہے تاکہ متاثرہ شخص کا وکیل بیان دینے والے پر جرح کر سکے۔کیا اعظم خان کے بیان کے ریکارڈ کے وقت عمران خان کو نوٹس ہوا؟اور نیچے والا اعظم خان کا بیان نہیں ان کے behalf پر میڈیا سٹیمنٹ لگ رہی ہے۔
وزیراعظم کو علم نہیں تھا اعظم خان کہاں ہیں، آج رانا ثناء اللہ کو اچانک سب علم ہوگیا؟ ثناء بچہ سینئر تجزیہ کار ثناء بچہ نے کہا ہے کہ ایک ہفتہ قبل وزیراعظم شہباز شریف کو اعظم خان سے متعلق کچھ علم نہیں تھا اور آج رانا ثناء اللہ کو اچانک سب کچھ علم ہوگیا۔ اے آروائی نیوز کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ثناء بچہ کا کہنا تھا کہ اعظم خان کے بیان کے معاملے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کورڈینیشن کا فقدان نظر آیا، ڈیڑھ ہفتہ قبل شہباز شریف کو اعظم خان کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا،آج رانا ثناء اللہ کے پاس ساری انفارمیشن بھی آگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعظم ایک لاپتہ شخص تھے ،انہوں نے یہ بیان زیر حراست دیا ہے یا جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیا ہے؟ حراست کے دوران تو کچھ بھی کہلوایا جاسکتا ہے، اس معاملے میں اتنی گندگی اور جھوٹ ہے کہ کوئی بھی سچ نہیں بول رہا، اعظم خان ایک ماہ کس نے رکھا ہوا تھا اور ان کی کیا خاطر مدارت ہورہی تھی سب جانتے ہیں۔ ثناء بچہ نے کہا کہ اگر یہ اعترافی بیان جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے آیا ہے تو وہاں تو صحافی بھی ہوتے ہیں اور بھی لوگ ہوتے ہیں ، اتنے بڑے کیس میں اتنے بڑے گواہ اتنا بڑا بیان دینے آئے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلا؟ میرا سوال یہ ہے کہ اعظم خان یہ سچ اب کیوں بول رہے ہیں؟ پہلے کیوں چھپاتے رہے؟ سب کو معلوم ہے کہ سائفر ایک ڈرامہ تھا، اور جب یہ ڈرامہ رچایا جارہا تھا اور جنرل باجوہ امریکہ کے خلاف پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس ہورہی تھی تب ہمارے ادارے کہاں تھے؟ اور آج جنرل باجوہ کدھر ہیں؟ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کیا کررہی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے پورے ملک کی خارجہ پالیسی کو ادھیڑ کررکھ دیا ، سازش کے نام پر ایک جھوٹ گڑھا،مگر کسی نے اس کو ہاتھ تک نہیں لگایا، ہم اتنے کمزور ہیں؟ 9 مئی کے بعد تو ہر چیز ایکٹیویٹ ہوجاتی ہے مگر جب یہ سائفر کے معاملے پر اتنا بڑا جھوٹ گڑھا جارہا تھا تو اس وقت سننے والوں کے کانوں پر پردے پڑے ہوئے تھے؟
مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کے لئے سلوگن سامنے آ گیا، پارٹی کی اعلی قیادت کی سفارشات پر سلوگن کی منظوری دے دی گئی۔ ن لیگ کے پارٹی ذرائع کے مطابق نواز شریف نے اعلی لیگی قیادت کی سفارشات پر انتخابی مہم کے ابتدائی خدوخال کی بھی منظوری دے دی۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم "وزیر اعظم نواز شریف" کے سلوگن کے ساتھ چلائی جائے گی، پارٹی کے نئے سلوگن کے ساتھ جارحانہ انتخابی مہم چلائی جائے گی، پارٹی ذرائع ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اسی نعرے کے تحت نئے پارٹی نغمے و ترانے بھی تیار کروائے جائیں گے، نئے پارٹی نغموں و ترانوں کی بھی بھرپور تشہیر کروائی جائے گی، پارٹی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے لئے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے گا، انتخابی مہم کے لئے مختلف اشتہاری فرموں کی خدمات بھی لی جائیں گی۔ پارٹی کی اعلی قیادت کی جانب سے قومی اسمبلی کی 125 نشستوں کے حصول کا ہدف بھی مقرر کر دیا گیا، پنجاب اسمبلی کی کم از کم 200 نشستیں حاصل کرنے کا بھی ہدف مقرر ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ بھرپور اور جارحانہ انتخابی مہم کے دوران نواز شریف کی وطن واپسی کا امکان ہے
اے آر وائی نیوز سے تعلق رکھنے والے باخبر صحافی نعیم اشرف بٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے پس پردہ رابطے ہو رہے ہیں اور انہیں مس کالز آرہی ہیں۔ یہ بات انہوں نے ایک سوشل میڈیا چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں کہیں نعیم اشرف بٹ نے کہا ہے کہ یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے بات کی جائے اسی لیے پس پردہ رابطوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور انہیں مِس کالز آنے لگی ہیں تاہم ابھی اس میں کامیابی نہیں ملی ہے نعیم اشرف بٹ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ دونوں جانب اعتماد کا فقدان ہے جب کہ بات کرنے والے بھی محتاط ہیں اور جو بات چیت کروانے کی کوشش کررہے ہیں وہ بھی محتاط ہیں۔کراس نہ میاں صاحب کو لگا تھااور نہ ہی کسی اور کو لگ سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان سے زیادہ الیکشن کی جلدی پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کو ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ دیر ہوئی تو کہیں پی ٹی آئی جو اس وقت بظاہر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہ دوبارہ کھڑی نہ ہو جائے یا پھر پس پردہ مذاکرات کامیاب نہ ہو جائیں ۔ سینیئر صحافی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے چیئرمین پی ٹی آئی کو الیکشن سے قبل انہیں گرفتار کر لیا جائے ایسی منصوبہ بندی ہو رہی ہے لیکن ڈیڑھ سال میں کئی منصوبہ بندی دونوں اطراف سے ناکام ہوچکی ہیں اس لیے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن تک کیا صورتحال ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز جو لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی آ رہی ہیں میرا خیال ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کو اس سے کچھ زیادہ ہی مل گیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ ووٹر کہاں جاتا ہے کیونکہ بظاہر پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ کی مقبولیت برقرار ہے کیونکہ اس وقت جو عوامی سپورٹ چیئرمین پی ٹی آئی کو حاصل ہے وہ زرداری اور نواز شریف کو کبھی حاصل نہیں رہی۔ سینیئر صحافی نے دو نئی جماعتوں کے حوالے سے بتایا کہ استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک تو سمجھیں بالکل فارغ ہیں ان کا کوئی حال نہیں ہے۔ آئی پی پی تو عوام میں پہلے ہی نہیں تھی اب وہ دیگر کافی جگہوں سے بھی فارغ ہو چکی ہے اور سمجھنے والے بات سمجھ گئے ہوں گے۔
نجی چینل نے دعویٰ کیا کہ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے۔اعظم خان نے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف 164 کا بیان ریکارڈ کرا دیا ۔ بیان کے مطابق عمران خان نے مجھ سے سائفر 9 مارچ کو لیا اور پھر کہا سائفر گم ہو گیا ہے، ایک خفیہ سرکاری دستاویز کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور جھوٹا بیانیہ بنایا۔ اس پر فرخ حبیب نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اعظم خان کو پہلے اغوا کیا جاتا ہے پھر تمام قانون نافذ کرنے والے اور تحقیاتی ادارے ان کی حراست سے انکار کرتے ہے آج اچانک خبر آتی ہے 164 کا بیان مجسٹریٹ کو ریکارڈ کروادیا اغوا،تشدد ، دباؤ میں لیے گے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی انہوں نے مزید کہا کہ اتنا ڈراما اور جھوٹ تو افسانوں اور فلموں میں بھی نہیں ہوتا جتنا بھونڈا سکرپٹ یہاں چلایا جارہا ہے عمران خان کیخلاف کیونکہ آپ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے؟؟ عالمگیر خان نے سوال کیا کہ کیا اغواء شدہ شخص کی گواہی مانی جائے گی؟ شہباز گل نے ردعمل دیا کہ سیکورٹی کا سب سے بڑا فورم نیشنل سکیورٹی کمیٹی سائفر کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت قرار دے کر اس پر ردعمل(امریکی سفیر کی طلبی اور ڈیمارش)بھی کرچکا کس بیانئے کے ختم ہونے کا فلوک "چھڑوایا" جارہا ہے وٹس ایپ گروپ ممبران کی جانب سے؟ نیشنل سیکورٹی کونسل کے اعلامیہ کا؟
تحریک انصاف بارے اسٹیبلشمنٹ کا رویہ اب تک ناقابل معافی ہے، پی ڈی ایم کے خیال میں ایک اچھے وقت میں حکومت چھوڑی جب ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا: سینئر صحافی سینئر صحافی وتجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے ارادوں سے لگ رہا ہے کہ وہ جا رہی ہے۔ میرے خیال میں مسلم لیگ ن شائد یہ چاہتی تھی کہ ان کی حکومت کو مزید ایک سال مل جائے لیکن سٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت ختم ہونے کے بعد انتخابات کا انعقاد بھی ہو گا؟ ایسے حالات میں انتخابات کروانے کا مقصد تو یہ ہو گا کہ پاکستان تحریک انصاف کو ریلیف مل جائے ! انتخابات کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے لوگ الیکشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر اس سے کیسے نپٹا جائے گا؟ مجھے لگتا ہے کہ نگران سیٹ اپ کا عرصہ مقررہ مدت سے زائد ہو گا،یہ تو نہیں پتا کہ نگران سیٹ اپ کو ایکسٹینشن کیسے ملے گی؟ لیکن سوال یہ ہے کہ تحریک ا انصاف کے ووٹ بینک اور الیکٹیبلز کے معاملات طے ہونے تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ انتخابات کب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف بارے سٹیبلشمنٹ کا رویہ اب تک ناقابل معافی ہے، ایسے میں کیسے تحریک انصاف کو انتخابات میں بڑی جماعت بننے دیا جائے گا؟ اس پر بہت سے سوالات اور تحفظات موجود ہیں۔ پی ڈی ایم کے خیال میں اس نے ایک اچھے وقت میں حکومت چھوڑی ہے جب آئی ایم ایف سے ڈیل ہو گئی اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ پی ڈی ایم جانتی ہے کہ 6 مہینے بعد پھر سے مہنگائی، ٹیکس سمیت دیگر مسائل سامنے ہونگے۔ اقتدار چھوڑ کر پی ڈی ایم نے کوشش کی ہے کہ کچھ سیاست بچا لی جائے۔ علاوہ ازیں ان کا خیال ہے کہ نوازشریف وطن واپس آکر نیا بیانیہ بنائیں گے اور پی ٹی آئی کے خلاف محاذ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں مسلم لیگ ن کیلئے پی ٹی آئی کیخلاف اتنے وقت میں بیانیہ بنانا اور گرانا آسان نہیں ہو گا۔
پرویز خٹک پیپلزپارٹی کے اہم رہنما سمجھےجاتے تھے، انہوں نے 1988سے 1997 میں پیپلزپارٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑا، پرویز خٹک نے 1988، 1993 میں کامیابی حاصل کی جبکہ 1990 اور 1997 میں ہار گئے۔ آفتاب شیرپاؤ پیپلزپارٹی سے علیحدہ ہوئے تو پرویز خٹک بھی انکے ساتھ جاملے اور نئی جماعت پیپلزپارٹی شیرپاؤ بنائی جو بعدازاں قومی وطن پارٹی بن گئی۔ پرویز خٹک نے 2002 کے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا انکی وجہ انکے بھائی لیاقت خٹک نے خیبرپختونخوا کے صوبائی حلقہ پی ایف 13 سے آفتاب شیرپاؤ کی جماعت پیپلزپارٹی شیرپاؤ سے حصہ لیا تھا جنہوں نے 18115 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ سال 2008 کے الیکشن میں پرویز خٹک نے پی ایف 13 سے آفتاب شیرپاؤ کی جماعت پیپلزپارٹی شیرپاؤ سے حصہ لیا اور 15168 ووٹ لیکر کامیابی سمیٹی پرویز خٹک نے 2011 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ پرویز خٹک اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ حکومت میں وزیر تھے،انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت تو اختیار کی لیکن اپنی سیٹ سے استعفیٰ نہ دیا۔ پرویز خٹک کی تحریک انصاف میں شمولیت پر مقامی سطح پر شدید احتجاج بھی ہوا لیکن عمران خان نے احتجاج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پرویز خٹک کو پارٹی میں شامل کرلیا۔ پرویز خٹک پر الزام یہ تھا کہ وہ شیرپاؤ گروپ سے سیٹ جیتے اور استعفیٰ دئیے بغیر ہی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور وزارت لے لی کارکنوں کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک آفتاب شیر پاؤ سے دھوکہ کرسکتےہیں تو عمران خان سے بھی کرسکتےہیں وہ کسی صورت قابل اعتماد نہیں ہیں۔ پرویز خٹک نے 2013 میں پی کے 13 سے پہلی بار تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن لڑا اور 27012 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ انکے مدمقابل امیدوار کو صرف 14 ہزار ووٹ مل سکے پرویز خٹک نے قومی اسمبلی کی سیٹ بھی بڑے مارجن سے جیتی لیکن وزیراعلیٰ کے عہدے پر نامزد ہونیکی وجہ سے قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑدی اورانکی سیٹ پر انکے داماد عمران خٹک نے حصہ لیا۔ پرویز خٹک نے 2018 میں دوبارہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن بڑا اور دونوں سیٹوں پر بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی۔انہیں دوبارہ وزارت اعلیٰ نہ مل سکی اور محمودخان انکی جگہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ پرویز خٹک نے عمران خان نے وزیر دفاع مقرر کیا لیکن پرویز خٹک خوش نہیں تھے دوبارہ وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ سابق وزیراعلیٰ نے 2023 میں اپنی نئی جماعت تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز بنالی ، 2013 اور 2018 میں بڑے مارجن سے کامیابی کے بعد پرویز خٹک سمجھتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو اوپر لانے میں انکا کردار ہےلیکن تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک کی پوزیشن عمران خان کی وجہ سے ہی تھی۔ اگر عمران خان کا ووٹ مائنس کردیا جائے تو پرویز خٹک کے پاس کچھ نہیں رہتا اورانکی پارٹی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ خیبرپختونخوا کے مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ پرویز خٹک ماضی میں شیرپاؤ گروپ سے جیتتے آرہے ہیں جو ایک لحاظ سے آزاد جیتنا ہے ، اس وقت آزاد امیدوار جیت جاتے تھے لیکن عمران خان کے خیبرپختونخوا میں قدم جمانے کے بعد وہ صورتحال نہیں رہی۔ اب صورتحال پارٹی ووٹ پرآگئی ہے۔
پشاور : سابق وفاقی وزیر پرویزخٹک نے پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز کے نام سے پارٹی کا باقاعدہ اعلان کردیا، پی ٹی آئی کے 57 سابق ارکان اسمبلی نے پرویز خٹک کی حمایت کردی۔ پرویز خٹک کی پارٹی لانچنگ کی اس تقریب میں سابق ایم این ایز اور سابق ایم پی ایز شریک تھے جن میں سابق وزیراعلیٰ محمودخان بھی شامل تھے۔ پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر اشتیاق ارمڑ اور شوکت علی، سابق اراکین کے پی اسمبلی ضیااللہ بنگش، آغاز اکرام اللہ گنڈاپور، غزن جمال پارٹی نئی پارٹی کا حصہ ہیں۔ابراہیم خٹک، احمدحسین شاہ اور احتشام جاوید اکبر بھی اجلاس میں شریک تھے سابق ایم این اےیعقوب شیخ ،صالح محمد خان، شیراکبرخان، ملک شوکت،ندیم جمال،یعقوب شیخ بھی پرویز خٹک کیساتھ مل گئے۔ اکرام گنڈاپور، پیر مصور شاہ ارباب وسیم حیات، سید غازی غزن جمال، انورزیب خان ، فرید صلاح الدین ،محب اللہ خان ،عرفان کنڈی ،رمضان شوری ، ہزارہ ڈویژن کے اورنگزیب ،مفتی عبید ،کوہاٹ سے عتیق ہادی بھی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز میں شامل ہیں۔ مخصوص سیٹوں پر آنیوالے سابق اراکین کےپی اسمبلی ڈاکٹرآسیہ اسد،صومی فلک ناز،ولسن وزیر بھی تقریب میں شمال تھے دوسری جانب افتخارمشوانی، فریدصلاح الدین، مصورشاہ، اعظم خان، ساجدہ ذوالفقار سمیت کئی پی ٹی آئی رہنماؤں نے پرویز خٹک کی پارٹی کا حصہ بننے کی تردید کردی
سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بھانجے نے اعظم خان سے رابطوں کے حوالےسے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے دعوؤں کی تردید کردی ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں سینئر بیوروکریٹ اعظم خان کے بھانجے نے وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کے بیان پرردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اعظم خان صاحب 15 جون سےلاپتہ ہیں،16 جون کو میں نے تھانہ کوہسار میں ان کی گمشدگی سے متعلق مقدمہ بھی درج کروایا تھا، اس وقت سے آج تک نا تو خاندان میں کسی کا ان سے رابطہ ہوا ہے نا ہی کسی کو علم ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ اعظم خان کے بھانجے سعید خان نے کہا ہے کہ ہمیں کوئی علم نہیں ہے کہ وہ اغوا ہیں یا لاپتہ ہیں، ہم نے ان کو ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کے موبائل فون پر بھی ٹرائے کررہے ہیں، ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کی ہے مگر ان کا کوئی پتا نہیں چل رہا، اعظم خان کا اپنی اہلیہ اور بچوں سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس اپنے طریقے سے ان کو تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ہم ان کےساتھ پورا تعاون کررہے ہیں، لیکن پولیس نے کوئی تفصیل ہمارے ساتھ شیئر نہیں کی ہے۔ خیال رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے گزشتہ روز ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اعظم خان صاحب اپنے اہلخانہ سے رابطے میں ہیں اور ان کی فیملی کے علم میں ہے کہ وہ کہاں ہیں، اعظم خان کی فیملی مطمئن ہے۔
نجی چینل جیو نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری اور استحکام پاکستان پارٹی کی قیادت میں پس پردہ رابطے ہوئے ہیں جس کا دونوں اطراف کے قریبی حلقوں نے اعتراف کیا ہے پس پردہ رابطوں میں آئندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کی تصدیق دونوں جانب سے حلقوں نے کی ہے۔ بعض مشترکہ دوست کا کہنا ہے کہ پی پی اور استحکام پاکستان پارٹی سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولہ پر کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں میں رابطوں میں جہانگیرترین کے قریبی رشتہ دار مخدوم احمد محمود جو پیپلزپارٹی کا حصہ ہیں، کا اہم کردار ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی صف اول کی قیادت کی ہر قیمت پر کامیابی کے خواہاں ہیں تاکہ آئندہ حکومت سازی میں انکی پوزیشن بہتر ہو۔ دوسری سمت استحکام پاکستان پارٹی اپنی ملک گیر حیثیت تسلیم کرانے کیلئے سندھ اور گلگت بلتستان میں ایک دو نشستوں پر انتخاب جیتنا چاہتی ہے تاکہ اس پر صرف پنجاب کی پارٹی کا لیبل ختم ہو سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق استحکام پاکستان پارٹی اور پیپلزپارٹی کے انتخابی اتحاد کی صورت میں تحریک انصاف اور ن لیگ کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کو جنوبی پنجاب میں کچھ سیٹوں پر کامیابی ملنے کی توقع ہے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے رہنماؤں پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے کہ "پرویز خٹک کا ساتھ دو" ۔ خیبرٹی کے مقامی صحافی حسن خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سابقہ ایم پی ایز و ایم این ایز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پرویز خٹک کی کیمپ جوائن کریں۔ انکے مطابق خٹک صاحب بھی اسٹبلشمنٹ سے ناراض ھے کہ اب تک کسی کو بھی راضی نہ کرسکے اسلئے نئی پارٹی کا اعلان موخر کردیا گیا ہے۔ صحافی نے مزید بتایا کہ پرویز خٹک کو اس وقت بڑی مایوسی ھوئی جب نوشہرہ کی تحریک انصاف کی قیادت نے بھی ساتھ دینے سے انکار کیا۔ ذرائع کیمطاق خٹک کے ایماپر اسٹبلشمنٹ انکو تنگ کر رہی ھے، گھروں پر چھاپے اور گرفتارکیاجارہا ہے۔ صحافی کے مطابق تصویر میں سابقہ صوبائی وزیر شکیل احمد دیگر رہنماؤں کے ساتھ مردان جیل میں قید ہیں۔ واضح رہے کہ سابق صوبائی وزیر شکیل احمد کو آٹھویں مرتبہ، علی محمد خان کو نویں مرتبہ گرفتار کیا گیا ہے جبکہ شہریار آفریدی کو بھی متعدد بار گرفتار کیا جاچکا ہے اور انہیں اپنے بھائی اور بہن کے جنازہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ دوسری جانب صحافی اطہر کاظمی کا کہنا ہے کہ رویز خٹک کے پی کے میں پی ٹی آئی کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ اس ہفتے کچھ لوگوں کے ساتھ پریس کانفرنس کی جائے لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، پرویز خٹک جن لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے انہوں نے اپنے نمبر بند کر دیے
آصف زرداری کی دورہ لاہور کےد وران وزیراعظم شہباز شریف سے اہم ترین بیٹھک۔۔ملاقات کے دوران موجودہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے کی تاریخ کے حوالے سے تفصیلی مشاورت کی گئی: ذرائع ذرائع کے مطابق وزیراعظم وصدر مسلم لیگ ن شہبازشریف اور سابق صدر وچیئرمین پی پی پی آصف علی زرداری کے درمیان لاہور میں انتہائی اہم ملاقات ہوئی ہے۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ہونے والی اس اہم ملاقات میں موجودہ سیاسی صورتحال کے علاوہ آئندہ عام انتخابات، نگران سیٹ اور آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ ملاقات میں آئندہ نگران سیٹ اپ میں وزیراعظم کیلئے کسی بیوروکریٹ کے بجائے سیاستدان کو لانے کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے ملاقات کے دوران موجودہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے کی تاریخ کے حوالے سے تفصیلی مشاورت کی گئی۔ چیئرمین پی پی پی آصف علی زرداری کی طرف سے آئندہ مہینے اگست کے دوسرے ہفتہ کے دوران ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اس حوالے سے پی ڈی ایم کے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کی یقین دہانی کرا دی۔ چیئرمین پی پی پی کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے امدادی حاصل کرنے کیلئے ان کے کلیدی کردار کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد دی، وزیراعظم شہبازشریف نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دوراقتدار میں معیشت کیلئے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کو مل کر صاف کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام تر توجہ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہم ملک میں فتنے وانتشار کی سیاست کا خاتمہ کر کے سیاسی ومعاشی استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ملک کو ڈیفالٹ کرنے والوں کے خواب صرف خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے آئندہ عام انتخابات بروقت کروانے پر اتفاق کیا اور کہا کہ عام انتخابات میں کسی صورت تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔آصف زرداری اپنے دورہ لاہور میں سربراہ استحکام پاکستان پارٹی جہانگیر ترین سے اُن کے بھائی کی وفات پر تعزیت بھی کرینگے۔ لاہور قیام کےد وران پیپلزپارٹی میں تحریک انصاف چھوڑنے والے دھڑوں کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔
فیکٹ چیک، پی ٹی آئی دور حکومت میں اسرائیل کا دورہ کرنے والا شخص یہودی تھا، مذہبی دورے پر اسرائیل گیا پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں جس شخص کو اسرائیل بھیجنے کا الزام لگایا جارہا ہے وہ درحقیقت ایک پاکستانی نژاد یہودی تھا جو 6 جون 2022 کو شہباز شریف کی حکومت میں اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کیلئے اسرائیل گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور میں ایک شخص کو ویزہ جاری کرکے اسرائیل بھیجا تھا، پاکستان سے پہلا وفد عمران خان کے دور میں اسرائیل گیا تھا جو تمام معاملات کو حل کرکے آیا تھا۔ اس الزام کی چھان بین کےدوران یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ 6جون 2022 فشیل بن خالد نامی ایک پاکستانی یہودی کئی برسوں کی کوششوں کے بعد اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کیلئے اسرائیل جانے میں کامیاب ہوا تھا، اس وقت ملک میں موجودہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت آچکی تھی اور پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوچکی تھی۔ فشیل بن خالد کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے خود کو سرکاری سطح پر ایک یہودی رجسٹرڈ بھی کروایا ہوا ہے، انہوں نے اپنی مذہبی عبادات کیلئے اسرائیل کے شہر یروشلم جانے کیلئے کئی سال کوششیں کی اور بالآخر وہ اس میں کامیاب ہوگئے اور پاکستانی پاسپورٹ پر ہی اسرائیل کا دورہ کرنے گئے تھے۔
گلگت بلتستان اسمبلی میں عوام کے حق پر ڈاکےکے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں، گلگت بلتستان کے ایک رکن اسمبلی نے وفاق کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں گلگت بلتستان کے وزیرا علی کے انتخاب کیلئے بلائے گئے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ایک رکن اسمبلی نے سخت اور جارحانہ انداز میں تقریر کی اور گلگت بلتستان اسمبلی میں عوام کے حق میں ڈاکے کے خلاف آواز اٹھائی۔ مذکورہ رکن اسمبلی نے کہا کہ اسلام آباد کی مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، اس مداخلت کے بھیانک نتائج مرتب ہوسکتے ہیں، ہم اپنی جگہ پر چھوٹے لوگ ہیں اور ہم کسی بھی طرح کا بڑا گیم نہیں کھیلنا چاہتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقتدر ایوان کہہ کر اس اسمبلی میں جھوٹ بولا جارہا ہے، یہ ایک مظلوم اسمبلی ہے، میں نومنتخب وزیراعلی کو مبارکباد ینےکے ساتھ ساتھ تمام اراکین اسمبلی کو بھی امانتا مبارکباد دےرہا ہوں، یہ سب شام کو آرام سے بیٹھ کر اکیلے میں سوچیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ اس ایک مہینے کے دوران ہوا ہے وہ سب ضمیر کے مطابق ہے تو آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ رکن گلگت بلتستان اسمبلی نے مزید کہا کہ اگر یہ سب ضمیر کےمطابق نہیں ہے تو اس شرمناک اقدام کی مذمت کی جانی چاہیے۔ خیال رہے کہ آج گلگت بلتستان اسمبلی میں وزیراعلی کے انتخاب کا اجلاس ہوا، ووٹنگ کے بعد پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے حاجی گلبر خان نئے وزیراعلی منتخب ہوئے، انہوں ایوان میں موجود 20 میں سے 19 ارکان نے ووٹ دیا، حاجی گلبر خان کو پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے علاوہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ارکان کی حمایت بھی حاصل تھی۔
استحکام پاکستان پارٹی کے رہنماؤں کے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدوں سے استعفے معمہ بن گئے۔۔میڈیا پر مستعفی ہونیکی خبریں لیکن عون چوہدری کی تردید استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عون چودھری اور نعمان لنگڑیال نے اپنے استعفے پارٹی قیادت کودے دئیے جبکہ عون چوہدری نے اسکی تردید کردی عون چودھری اور نعمان لنگڑیال کے استحکام پاکستان پارٹی کے عہدوں سے مستعفی ہونے کی خبر غلط ہے۔ عون چودھری سے میری بات ہوئی اور ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ صحافی احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کی پارٹی ارکان اتنی عزت بھی نہیں کرتے، صدر کی ہدایت کو 25دن ہو گئے، عون چودھری اور نعمان لنگڑیال نے وفاقی کابینہ نہیں چھوڑی، صدر استحکام پاکستان کا حکم جوتے کی نوک پر واضح رہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان نے 25 روز پہلے عون چوہدری اور نعمان لنگڑیال کو مستعفی ہونیکی ہدایت کی تھی لیکن اسکے باوجود انکے استعفے معمہ کا شکار ہیں۔
مسرت جمشید چیمہ کی تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد بھی جان نہ چھوٹی، پہلے انکے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے پھر انکے شوہر کو گرفتار کیا گیا اور اب انکے گھر پر پولیس کا دھاوا گزشتہ روز پولیس کے گھر پر چھاپے پر مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ آج پھر 60 کے قریب پولیس اہلکار اور سادہ لباس میں موجود افراد نے ہمارے گھر پر دھاوا بولا. ہمارے گارڈ کو گرفتار کیا اور ہماری ویو اور لینڈ کروزر بھی ساتھ لے گئے۔اس کے علاوہ ہمارے گھر کے کمروں کی بھی تلاشی لی گئی اور اہلخانہ سے نہایت بدتمیزی کی گئی. مسرت جمشید چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک کی زمین محب وطن شہریوں پر تنگ کی جارہی ہے. بچوں پر نفسیاتی ٹارچر کے لیے روزانہ کی بنیاد پر اہلکار آتے ہیں لیکن آج لوٹ مار والی روایت دہرائی گئی ہے. حکومت جس کا کام شہریوں کو تحفظ دینا ہے وہ باقاعدہ ڈاکہ زنی اور چوری پر اتر آئی ہے صحافی جمال احمد کے ذرائع کے مطابق مسرت چیمہ انڈرگراؤنڈ ہیں جس پر وجہ ان پر شدید دباؤ ہیں۔انکے شوہر پہلے سے گرفتار ہیں۔ ذرائع کے مطابق مسرت جمشید چیمہ پر استحکام پاکستان پارٹی جوائن کرنیکا دباؤ ہے اور دوسرا ان پر دباؤ ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنیں ۔مسرت چیمہ نے یقین دہانی تو کرادی کہ وہ آئی پی پی کو عید کے بعد جوائن کریں گی لیکن وہ انڈرگراؤنڈ ہوگئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسرت جمشید چیمہ کسی طور پر بھی وعدہ معاف گواہ نہیں بننا چاہتیں۔ واضح رہےکہ مسرت جمشید چیمہ اور انکے شوہر کو 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ انکے کاروبار بند کرادئیے گئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے تنگ آکر تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔

Back
Top