سیاسی

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ملکی معیشت کو استحکام کیلئے کیے جانے والے اقدامات کے پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا پر بھی چرچے ہونے لگے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر بھارتی خبررساں ادارے کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی معاشی استحکام کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو خوب سراہا گیا ہے۔ بھارتی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے چیف جنرل عاصم منیر معاشی استحکام کیلئے کئی ممالک سے بات چیت کررہے ہیں تاکہ پاکستان کو جلد از جلد معاشی مدد مل سکے، کیونکہ پاکستان کی معاشی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے، ڈالر کےمقابلے میں روپے کی قدر گرتی جارہی ہے اور مہنگائی روز نئے ریکارڈ بنارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے پاک فوج نے مورچہ سنبھال لیا ہے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے ملک کو سب سے بڑے معاشی بحران سے نکالنے کا عزم کا اظہار کیا ہے، حالانکہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ سالوں میں پاکستان سے دوسرے ممالک منتقل ہونےو الے کاروبار اور سرمایہ کاروں کو واپس لانے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں، امید کی جارہی ہے کہ پاکستان میں جلد ہی زراعت، صنعت اور آئی ٹی کے شعبے میں یہ کاروباری شخصیات دوبارہ بڑا کارنامہ کریں گے۔
تجزیہ کار اور قانونی ماہر ریما عمر نے کہا ہے کہ صدر کے پاس صرف تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں بلکہ وہ آئینی طور پر تاریخ دینے کے پابند ہیں، یہ ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارٹ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اور قانونی ماہر ریما عمر نے صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے اعلان سے متعلق گفتگو کی اور کہاکہ آئین میں اس سے واضح پوزیشن ہو ہی نہیں سکتی کہ صدر کے پاس صرف تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے بلکہ صدرآرٹیکل 48 کے تحت پابند ہیں کہ جب وہ وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلیاں تحلیل کرتے ہیں تو انہیں 90 روز میں انتخابات کی تاریخ بھی دینی ہوتی ہے۔ ریما عمر نے کہا کہ اس میں کوئی چوائس نہیں ہے کہ چلیں میں دے دیتا ہوں یا نہیں دیتا، یہ آئین ان پر پابندی لگاتا ہے انہوں نے تاریخ دینی ہی دینی ہے، اگرصدر کے اس اختیار سے بھی مسئلہ تھا تو 18ویں ترمیم میں اس کو تبدیل کردیتے، اس وقت تو یہی بات ہے کہ قومی اسمبلی کے نئے انتخابات کی تاریخ صدر نے ہی دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل44 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ صدر نئی اسمبلی سے نئے صدر کے انتخاب تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے، آئین میں عبوری صدر، کیرٹیکر صدر جیسی کسی چیز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کو اپنی بیوقوفی قرار دے دیا ۔تحریکِ انصاف میں شامل ہونے سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ جیسے باقی بیوقوف بنے تھے ایسے ہی وہ بھی بیوقوف بن گئے تھے۔ ندیم افضل چن نے مزید کہا کہ تھا کہ اُنہوں نے 2017ء میں پی ٹی آئی جوائن کی تھی، اُن کے ذہن میں تھا کہ نئی سوچ ہے، نئے ارادے اور وعدے ہیں، ملک میں ایک اشرافیہ ہے جو ملک کو چلاتا ہے، ہو سکتا ہے یہ روایت تبدیل ہو جائے مگر اُنہیں جماعت کی اصلیت کا جَلد ہی پتہ چل گیا تھا، اسی لیے انہوں نے 2019ء میں سب سے پہلے استعفیٰ دیا تھا۔ اس موقع پر ندیم افضل چن نے کہا کہ کہ اُنہیں پی ٹی آئی جوائن کر کے جَلد سمجھ آ گئی تھی کہ وہ بھٹک گئے ہیں، انہوں نے پیپلزپارٹی کو اپنا گھر قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد سوچا کہ کیوں نہ واپس اپنے گھر چلاجاؤں۔میں نے سیاسی کیرئیر پیپلزپارٹی سے شروع کیا تھا اسلئے میں واپس اسی میں آگیا۔ واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتے ہی ندیم افضل چن پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔ 2018 کا الیکشن ہارنے کے باوجود عمران خان نے انہیں اپنا مشیر مقرر کیا لیکن وہ اکثر مواقع پر ناراض نظر آئے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ تحریک انصاف کی کابینہ اور دیگر اجلاس کی میٹنگز کی خبریں لیک کرکے صحافیوں کو پہنچایا کرتے تھے۔
کچھ روز قبل مولانا فضل الرحمان نے لاہور میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے عین آخری وقت پر تحریک عدم اعتماد لانے پر زور دیا گیا ورنہ اب تک انتخابات ہو جاتے۔پیپلزپارٹی آخری وقت میں وعدے سے پھرگئی تھی۔ اگر مولانا فضل الرحمان کے مارچ 2022 سے اب تک کے بیانات کو دیکھا جائے تو تحریک عدم اعتماد لانے میں سب سے زیادہ مولانا فضل الرحمان ہی پیش پیش تھے۔ گزشتہ سال جنوری میں مولانا فضل الرحمان زور لگاکر کہتے تھے کہ کچھ بھی کرو عمران خان کو ہٹاو۔ اسکے بعد فروری 2022 میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ، ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک وفد تشکیل دیا گیا ہے جو اتحادی جماعتوں سے رابطے کرے گا جبکہ ’وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے حکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے کیے جائیں گے۔‘ سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحادی جماعتوں سے رابطوں کا اختیار اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو دیا گیا ہے۔’پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحادیوں سے مل کر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرائیں گے۔‘ دو امارچ 2022 کو ابھی تحریک عدم اعتماد آئی بھی نہیں تھی تو مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کردیا تھا کہ وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں ۔ ان کاکہناتھا کہ امپائر بظاہر نیوٹرل نظر آ رہے ہیں، ہم نے امپائر سے کوئی سپورٹ نہیں لینی، ہم نے امپائر سے حکومت کی سپورٹ ختم کرانا تھی۔ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد 22 مارچ کو مولانا نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہے۔ایم کیوایم کو تحریک عدم اعتماد کیلئے منانے میں مولانا کا کلیدی کردار تھا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد مولانا کی جماعت نے سب سے اچھی وزارتوں پر ہاتھ صاف کئے۔ اکرم درانی کے بیٹے کو ڈپٹی اسپیکر بنوایا، اپنے بیٹے کو وزیرمواصلات، وزارت حج و مذہبی امور اور ہاؤسنگ کی وزارت اڑالی اور خیبرپختونخوا میں اپنے سمدھی کو گورنر بنوایا اس حوالے سے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سےعدم اعتماد نہیں کرنے کا بیان اور ملبہ پاکستان پیپلزپارٹی پر ڈالنے کی کوشش حقائق کے سراسر منافی ہے، درحقیقت عمران خان کے بذریعہ جنرل باجوہ بھجوانے گئے پیغام پر عدم اعتماد سے پیچھے نا ہٹنے کا موقف خود مولانا صاحب کا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے جیل میں ورزش کے لیے مشینیں مہیا کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے وکلا کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت سے استدعا کریں کہ انہیں جیل میں ورزش کے لیے بنیادی مشینری مہیا کی جائے۔ اس ضمن میں لیگل ٹیم نے قانونی مشاورت شروع کردی ہے جس کے بعد لیگل ٹیم عدالت سے ورزش کے لیے مشینری کی فراہمی کے لیے عدالت سے رجوع کرے گی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان نے خود کو ذہنی طور پر لمبے عرصے کیلئے ذہنی طور پر تیار کرلیا ہے اسی لئے وہ ورزش کی مشینری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ صحافی ثاقب بشیر کا اس پر کہنا تھا کہ بظاہر ایسے لگتا ہے جہاں عمران خان کو ایک سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے مقدمے میں گرفتار کرکے جیل میں رکھنے کی تیاری ہے وہیں عمران خان بھی جیل میں طویل عرصہ رہنے کی صورت میں ذہنی طور پر تیار ہیں انہوں نے مزید کہا کہ جیل میں وہ اپنے شیڈول کو پورا کرنے کے لئے ضروری چیزیں پوری کر رہے ہیں کتابوں کے بعد اب عمران خان نے اپنی لیگل ٹیم کے ممبر شیر افضل مروت کو کہا ہے کہ قانونی تقاضے پورے کرکے جیل میں ورزش کے لئے مجھے مشین مہیا کی جائے تاکہ میں روزانہ کی بنیاد پر ورزش کر سکوں۔
صحافی فہیم اختر ملک نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اہم دستاویز شیئر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دوہرا معیار بے نقاب کر دیا۔ فہیم اختر ملک نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں 16 دسمبر 2022ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی کو لکھا گیا خط شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: یہ تہلکہ خیز اور اہم دستاویز ہے جس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دوہرے معیار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: 16 دسمبر 2022ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے وزارت منصوبہ بندی کو خط میں لکھ کر کہا گیا ہے بروقت عام انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے اور اگر 31 مارچ 2023ء تک ڈیجیٹل مردم شماری کے حتمی نتائج فراہم نہ کیے گئے تو آئندہ عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں پر ہی کروائے جائیں گے ۔ انہوں نے لکھا کہ: پھر 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کی منظوری دی جاتی ہے اور 17 اگست کو الیکشن کمیشن اپنے آئینی موقف سے انحراف کر لیتا ہے اور عام انتخابات کے بجائے حلقہ بندیاں کروانے کا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ ملک میں قانون وآئین کی تھوڑی سی بھی بالادستی ہوتی تو آئین کی خلاف ورزی پر چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمیشن کیخلاف کارروائی شروع ہو چکی ہوتی۔ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے خبر پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ سینئر صحافی غلام نبی میمن نے خبر پر ردعمل دیتےہوئے لکھا کہ: یہاں تو 17 ماہ سے سب ہی حمام ننگے نظر آ رہے ہیں کون ہے جس نے تھوکا نا چاٹا ہو؟ ایک صارف نے لکھا کہ: چیف جسٹس آف پاکستان کے کس نے باندھ رکھے ہیں؟ وہ اپنے چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کے حکم نامے پر بھی عمل درآمد نہیں کروا سکے اور نہ ہی اس حکم نامے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو توہین عدالت کے نوٹس دیئے ہیں۔ اب ان کی مدت کے سات دن باقی ہیں، وہ کیا کرسکتے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ: ہمارے ملک کا سارا سسٹم ہی آئین پاکستان کے خلاف کام کر رہا ہے، کسی کی تھپکی سے الیکشن کمشنر آئین کو روند رہا ہے! ایک صارف نے لکھا کہ:اس وقت پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہو چکا ہے، امریکی سفیر کی پاکستانی حکام سے ملاقاتیں اسی بات کا اشارہ ہیں کہ یہ لوگ اب اسی طرزعمل پر ملک چلانے کے حامی ہیں۔ بین الاقوامی قوتوں کو پاکستان کی جمہوریت سے کوئی مطلب نہیں وہ صرف اپنے مفادات دیکھتے ہیں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 6 سینیٹرز کے اجلاس طلب کیےجانے کی ریکوزیشن پر دستخط مشکوک قرار دے دیئے گئے ہیں۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی تاریخ کا انوکھا ترین واقعہ سامنے آگیا، پی ڈی ایم اور سابقہ حکومت میں شامل جماعتوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ اجلاس طلب کیے جانے کی ایک ریکوزیشن جمع کروائی، تاہم سینیٹ اجلاس طلب کیے جانے پر اتحادی جماعتوں میں پہلے اختلافات سامنے آئے اور پھر ریکوزیشن پر کیے گئے دستخط کا معاملہ مشکوک ہوگیا۔ رپورٹ کے مطابق جمع کروائی گئی ریکوزیشن پر تمام جماعتوں کے 27 سینیٹرز کی جانب سے دستخط کیے گئے تھے تاہم اب انکشاف ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی کے 5 اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سینیٹر کے ریکوزیشن پر کیے گئے دستخط ہی جعلی ہیں۔ جن سینیٹرز کے دستخط مشکوک قرار دیئےگئے ان میں رضا ربانی، فاروق ایچ نائیک،پلوشہ ، روبینہ خالد، شمیم اختر اور نیشنل پارٹی کے محمد اکرم شامل ہیں۔ ان 6 سینیٹرز کے علاوہ تین سینیٹرز ایسے ہیں جنہوں نے خود سینیٹ سیکریٹریٹ فون کرکے کہا کہ ان کے دستخط کو ریکوزیشن میں شامل ہی نا کیا جائے، ان سینیٹرز میں باپ پارٹی کے دنیش کمار، جے یو آئی کے عطاالرحمان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے شفیق ترین شامل ہیں۔ سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے ریکوزیشن کے جواب میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق 27 میں سے 9 سینیٹرز کے ریکوزیشن سے نکل جانے کے بعد سینیٹ اجلاس طلب کرنے کیلئے جمع کروائی گئی ریکوزیشن پر مطلوبہ نمبر پورے نہیں کرتی، جس کے بعد ریکوزیشن مسترد ہوگئی اور سینیٹ اجلاس طلب نہیں کیا جارہا۔ اے آروائی نیوز کےہیڈ آف انویسٹی گیٹیو سیل نعیم اشرف بٹ کے مطابق سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے کیلئے سابقہ حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے ہی ریکوزیشن جمع کروائی تھی مگر جب انہیں خیال آیا کہ موجودہ بدترین حالات کی ذمہ داری سینیٹ اجلاس میں ان پر بھی ڈالی جاسکتی ہے تو انہوں نے اجلاس طلب نا کرنے کے بہانے ڈھونڈنے شروع کردیئے۔ نعیم اشرف بٹ نے ہی 5 ستمبر کو سینیٹ اجلاس طلب کیےجانے کے معاملے پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلافات کی بھی ایک خبر بریک کی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ن لیگ نےموجودہ حالات میں سینیٹ اجلاس طلب کرنے کی مخالفت کی، کچھ ن لیگی سینیٹرز نے موقف اپنایا کہ موجودہ سیاسی ومعاشی حالات میں پی ٹی آئی کے سینیٹرز ہمیں سینیٹ اجلاس میں کچا چبا جائیں گے تاہم پیپلزپارٹی اپنی بات پر ڈٹی رہی اور سینیٹ اجلاس طلب کرنے کی ریکوزیشن بھیجنے کا مطالبہ کیا تو ن لیگی سینیٹر ز نے ایجنڈے کو محدود کرتے ہوئے جڑانوالہ واقعہ کو ایجنڈے کا حصہ بنایا اور پیپلزپارٹی کے بجلی ، چینی ، پیٹرول اور مہنگائی سمیت متعدد مسائل کو ایجنڈے سے ہٹادیا گیا۔
عمران خان نےمعاہدہ ریوائز کرکے ڈالر148 پر فکس رکھا، یہ کریڈٹ دینا چاہیے، رؤف کلاسرا سینئر تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ اصل بگاڑ ماضی میں کیے گئے بجلی کے معاہدے ہیں جن میں ادائیگیوں کیلئے ڈالر کا انتخاب کیا گیا ہے، عمران خان نے ان معاہدوں کو ریوائز کرکے ڈالر148 روپے پر فکس کردیا تھا، انہیں یہ کریڈٹ دینا چاہیے۔ سینئر تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں 48 آئی پی پیز لگے ہوئے ہیں، 90 فیصد سے زائد بجلی اس وقت آپ فیول سے پیدا کررہے ہیں، پہلے ہم ہائیڈل، نیوکلیئر سے پیدا کرتے تھے اور اس پر کچھ پیسے خرچ آتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 1994 کے بعد یہ بجلی کیلئے ایسے ایسے معاہدہ کیے گئے کہ آج آپ بجلی جتنی کم سے کم استعمال کرلیں آپ کا بل بڑھتا ہی جائے گا، یہ ایسے معاہدے تھے کہ جن میں ادائیگیوں کیلئے ڈالر کا انتخاب کیا گیا اور ساتھ ہی کیپسٹی چارجز بھی طے کرلیے گئے کہ بجلی استعمال ہو یا نا ہو آپ کو ادائیگیاں کی جاتی رہیں گی، اس وقت آپ بجلی استعمال کریں یا نا کریں واپڈا نے ان 48 آئی پی پیز کو بجلی کے بلز دینے ہی دینے ہیں۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ اتنے آئی پی پیز لگنے کی وجہ بھی یہی ہے کیونکہ پرافٹ ایبل بزنس ہے، بجلی استعمال ہو یا نا ہو پیسے پورے ملیں گے، ڈالر میں پیسے ملیں گے تو جتنا ڈالر اوپر جاتا جائے گا اتنے ہی پیسے بڑھتے رہیں گے، اس سے بڑا پرافٹ ایبل بزنس تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا، جتنے بھی یہ پاور پلانٹس لگے ہیں ان میں سیاستدانوں، سول ملٹری، اور بیوروکریٹس کے حصے ہیں جو آرام سے بیٹھ کر ملین بلین کمارہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ہمیں اس وقت صرف 25ہزار میگاواٹ کی ضرورت ہے، مگر ہم نے معاہدے 40ہزار میگاواٹ کے کررکھے ہیں،اب استعمال کریں یا نا کریں، 40ہزار میگاواٹ کے پیسے تو دینے ہیں، کیونکہ ہماری حکومتوں نے یہ معاہدے کیے ہیں کہ ہمیں ضرورت ہو یا نا ہو ہم ان پاور پلانٹس سے بجلی خریدیں گے۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ ان معاہدوں کو ریوائز کرنے کی ایک کوشش 2021 میں کی گئی تھی جب ملٹری لیڈر شپ بھی آن بورڈ تھی اور ایک چیز اچھی ہوگئی تھی کہ معاہدوں میں ڈالر کا ریٹ 148 پر فکس کردیا گیا تھا، آج ہم ان آئی پی پیز کو فی ڈالر 148 روپے ادا کررہے ہیں، آپ اندازہ لگائیں کہ اگر یہ 300روپے کے حساب سے ادائیگیاں کرنی پڑتیں تو کیا ہوتا، یہ کریڈٹ تو عمران خان کی حکومت کو دینا چاہیے۔
ایک طرف عوام مہنگی بجلی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں تو وہیں دوسری طرف انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کی مختلف تقسیم کار کمپنیوں کے اہم عہدیداران کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں ایک طرف عوام مہنگی بجلی اور بھاری بلوں سےپریشان ہے اور وہیں یہ واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو ملنے والی مفت بجلی کی سہولت واپس لینے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں،ایسے میں ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں بڑے بڑے عہدوں پر سیاسی شخصیات یا ان کے منظور نظر افراد براجمان ہیں۔ اس حوالے سے احمد وڑائچ نے مختلف تقسیم کار کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر موجود افسران کے ن لیگ سے تعلقات کی تفصیلات شیئر کی ہیں۔ فیصل آباد الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ملک محمد تحسین اعوان ن لیگ سے وابستہ ہیں اور پی پی 52 سے مسلم لیگ ن کے سابق ٹکٹ ہولڈر رہ چکے ہیں۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بقیہ اراکین حمیر روکھڑی ن لیگ کےسابق رکن قومی اسمبلی ہیں، افتخار انصاری کاتعلق بھی ن لیگ سے ہے جبکہ راجا امیر حمزہ راجا ریاض کے بھانجے ہیں۔ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز سردار جمال لغاری ہیں جن کا تعلق ن لیگ سے ہے، بورڈ کے رکن نوازش پیرزادہ ن لیگی رکن قومی اسمبلی عبدالرحمان کانجو کے کزن ہیں۔ آئیسکو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین قمر الاسلام راجا ن لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں، جبکہ میجر(ر) طاہر اقبال بھی ن لیگ کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ن لیگ کے سابق رکن پنجاب اسمبلی حافظ نعمان کو لاہور الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ میں چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز تعینات کیا گیا ہے، بورڈ کے دیگر ارکان میں سابق ایم پی اے غیاث الدین، سائرہ افضل تارڑ کے کزن احمد بخش تارڑ بھی شامل ہیں۔ گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز شعیب بٹ ن لیگ کے سٹی صدر یوتھ ونگ ہیں۔
سائفر سیدھی سیدھی دھمکی تھی ، عمران خان کو وزیر اعظم کی کرسی سے نہ ہٹایا تو تعلقات خراب ہوں گے، سابق سفیر اشرف قاضی سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے کہا ہے کہ سائفر کوئی سازش نہیں تھی بلکہ سیدھی سیدھی دھمکی تھی کہ عمران خان کو کرسی سے نا ہٹایا گیا تو تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے ایک تہلکہ خیز انٹرویو کے دوران انکشاف کیا ہے کہ میں اپنے سفارتی تجربے سے بتارہا ہوں کہ سائفر ایک بہت بڑا معاملہ تھا اس میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائفر میں امریکہ میں واضح انداز میں پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم اس شخص سے خوش نہیں ہیں، جب تک یہ شخص حکومت میں رہے گا امریکہ اور پاکستان کے درمیان مسائل رہیں گے، بلکہ آگے جاکر پاکستان کیلئے مسائل مزید بڑھیں گے، امریکہ نے پاکستان کو وارننگ دی کہ اگر عمران خان کو ہٹایا نہیں گیا تو تعلقات پر برا اثر پڑے گا۔ اشرف جہانگیر قاضی نے کہا کہ سائفر کو سازش کہنے یا نا کہنے کی بحث ہے ہی نہیں، یہ تو سیدھی سیدھی وارننگ تھی، پاکستان کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر یہ شخص جائے تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا۔
نواز شریف کا انتخابی مہم کے دوران سابق اہم شخصیات کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار نا کرنے کی تجویز ماننے سے انکار تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو چند اہم شخصیات کی جانب سے سابق آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، سابق چیف جسٹس سمیت دیگر اہم شخصیات کے خلاف تنقید نا کرنے کی درخواست کی گئی ، تاہم نواز شریف نے یہ درخواست مسترد کردی۔ خبررساں ادارے ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے دبئی میں کچھ روز قبل ہونے والے اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ ن لیگ کے خلاف سازش سابق آرمی چیف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی، سابق چیف جسٹس، چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر نے مل کر کی تھی، انتخابی مہم میں ان شخصیات کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائی جائے اور ملکی تباہی کے ان ذمہ داران کو بے نقاب کیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے بعد ملک کی چند اہم شخصیات نے مشترکہ دوستوں کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ وہ انتخابی مہم میں ملک کی اہم سابق شخصیات کو تنقید کا نشانہ نا بنائیں۔ نواز شریف کو ان مشترکہ دوستوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ ماضی کو بھول کر مستقبل کی سیاست دیکھیں، سابق وزیراعظم اور نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف نے بھی مشترکہ دوستوں کی اس رائے کا ساتھ دیا اور اپنے بڑے بھائی کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی ۔ تاہم نواز شریف نے دوستوں اور بھائی کی اس درخواست کو ماننے سےانکار کیا اور اپنے موقف پر ڈٹ گئے، نواز شریف نے موقف اپنایا کہ بات میری ذات کی نہیں ہے، اس سازش کے نتیجے میں ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا جس کودرگزر نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان کو دیسی گھی میں دیسی مرغ کڑاہی اور دیسی مٹن کڑاہی دی جاتی ہے لیکن عمران خان کے وکیل نے حقیقت اس کے برعکس بتائی ہے۔ عمران خان کے وکیل کے مطابق عمران خان نے کہا کہ میں نے 7 دن دال روٹی کھائی مگر چھوڑو اس بات کو اور اسکے بعد مرغی کا پتلا سا شوربا کبھی کبھی مل جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہی جیل کا کمرہ ہے، سہولیات وہی کی وہی ہیں، صرف باتھ روم کی دیوار کو 2 فٹ اوپر کردیا گیا ہے۔ جب یہ خبر چلی تو اس وقت لوگوں کی اکثریت نے اس بات کایقین نہیں کیا اور انہوں نے اس خبر کو ہی جھوٹا قراردیا۔ اگر عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کو دیکھا جائے تو اسکے مطابق عمران خان کو ناشتے میں ہفتے کے ساتوں دن بریڈ، آملیٹ، دہی اور چائے دی جاتی ہے۔ دوپہر کو کھانا موسمی سبزی یا دال، روٹی ،سلاد اور دہی پرمشتمل ہوتا ہے۔ رات کے کھانے میں وہ دال چاول، دہی اور سلاد دیا جاتا ہے جبکہ موسمی پھل بھی انکے کھانے یں شامل ہیں۔ صحافی شاکر محموداعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں دیسی گھی، دیسی مرغ، اور دنیا کی ہر نعمت عمران خان کو دینے کا کہا گیا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے،، دال پانی والی،،، مرغی میں شوربا اتنا پتلا کہ یہ تعین کرنا مشکل ہوجائے کہ مرغی پانی میں ڈبکیاں لگا رہی ہے یا روٹی کا نوالہ،،، زبانی جمع خرچ میں حکومت عمران خان کو تمام سہولیات بلکے وی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ رکھا ہوا ہے
اس سال ہم نے مل کر آئین کو تہس نہس کیا ہے،سلمان اکرم راجہ۔۔انتخابات عوام کا بنیادی ہے حق نہ کہ کسی سیاسی جماعت کا جس سے انہیں محروم رکھا گیا: سینئر ایڈووکیٹ سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سلمان اکرم راجہ نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں نے دیدہ ودانستہ آئین پاکستان سے انحراف کیا۔ بہت سی تاوییلیں پیش کی گئیں کہ جب پارلیمنٹ نے طے کر لیا ہے تو الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے پیسے جاری نہیں کرنے، صوبائی وقومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کی تاویل بھی پیش کی گئی کہ ایسا نہ کیا گیا تو شک وشبہ پیدا ہو گا چاہے آئین میں کچھ بھی لکھا ہو۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے معاملے کو کسی عدالت میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات ہونے چاہئیں۔ آئین پاکستان کے مطابق یہ بالکل سادہ اور واضح معاملہ تھا لیکن پاکستان کی 66 فیصد عوام کو جمہوری حکومت سے محروم رکھا گیا۔ انتخابات کروا کر رائے شماری کا موقع دینا عوام کا بنیادی ہے حق نہ کہ کسی سیاسی جماعت کا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ افراد احتجاج کرتے رہے جبکہ سیاسی رہنما اور بڑے بڑے تھنک ٹینک اس کھیل میں مشغول ہو گئے اور جمہوریت کے داعی بھی یہ کہنے لگے کہ چونکہ پارلیمنٹ نے فیصلہ کر لیا ہے اس لیے آئین جو کہتا ہے کہتا رہے۔ ہم سب نے مل کر آئین کو تہس نہیں کیا ہے، 2023ء پاکستان کی آئینی تاریخ کا بدترین سال ہے۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ مارشل لاء میں سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے مثال نہیں بنایا جا سکتا لیکن اس سال ہم نے پارلیمنٹ کو آئینی پامالی کا ذریعہ بنا لیا ، یہ سب سے بڑا آئینی جرم ہے۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ ہم آئین پر عمل نہیں ہونے دیں گے اور ایسا ہی ہوا، دوسری طرف الیکشن کمیشن کا رویہ بھی درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری مئی سے موجود تھا جسے جان بوجھ کر اگست میں منظور کیا گیا، 2 غیرمنتخب وزرائے اعلیٰ کا اختیار ہی نہیں کہ وہ اس مردم شماری کی منظوری دیتے۔ میرے خیال میں نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہی نہیں تھی اس کا مقصد صرف 90 دنوں میں الیکشن نہ ہونے دینا تھا۔ انتخابات کے التوا کا اب بھی کوئی جواز نہیں ہے، ہمیں اپنی آواز بلند کرنی چاہیے اور احتجاج کرنا چاہیے۔
اعظم خان خان کے گمشدگی کے دوران اور بعد میں یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ سائفر کیس میں عمران خان کےخلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اور انہوں نے عمران خان کے خلاف بیان دیدیا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانیوالے صحافی انصارعباسی نے صورتحال واضح کردی ہے۔ انصارعباسی کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے اُس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سلطانی گواہ نہیں بنے لیکن سائفر کیس میں وہ استغاثہ کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوں گے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اعظم خان سلطانی گواہ نہیں بلکہ استغاثہ کی طرف سے ایک اہم گواہ ہیں، اور انہوں نے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 164؍ کے تحت اپنا بیان پہلے ہی ریکارڈ کرا لیا ہے۔ انصارعباسی کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں شاہ محمودقریشی اور عمران خان کو بطورملزم نامزد کیا گیا ہے لیکن اعظم خان اور اسدعمر کو نہیں کیا گیا۔ انہیں ثبوت سامنے آنے پر ہی ملوث کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اعظم خان ایک ماہ سے زائدلاپتہ تھے اور پی ٹی آئی اور دیگر حلقوں کی جانب سے الزام لگایا جاتا تھا کہ اعظم خان کو اغوا کرلیا گیا ہے جبکہ پی ڈی ایم اورانکے حمایتی کہتے تھے کہ اعظم خان خود ہی غائب ہوگئے تھے۔ اعظم خان ایک دن اچانک منظرعام پر آئے اور انہوں نے 164 کا بیان جمع کرایا جو وعدہ معاف گواہ کا بیان ہے۔ بیان کے مطابق 8؍ مارچ 2022ء کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ نے ان سے رابطہ کرکے سائفر سے آگاہ کیا، جو بعد میں اسی شام ان کے گھر پر پہنچایا گیا۔ اعظم خان نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے سائفر استعمال کرکے عوام کی توجہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک میں غیر ملکی ہاتھ کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے انہیں بتایا تھا کہ وہ عوامی اجتماع میں یہ سائفر دکھائیں گے اور بیانیہ توڑ مروڑ دیں گے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے غیر ملکی سازش تیار کی جا رہی ہے تاکہ مظلوم بن سکیں ۔ اعظم خان نے کہا کہ انہوں نے سائفر کی نقل عمران خان کو دی تھی لیکن یہ دستاویز انہوں نے واپس نہیں کی اور پھر بتایا گیا کہ یہ کھو گئی ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں جو بل آئیں گے اس میں بجلی کی قیمت 90روپے فی یونٹ تک ہوگی۔ جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹالک میں بجلی کی قیمتوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ میڈیا میں خبر ہے کہ نگراں حکومت نے کہا ہے کہ ستمبر میں آنے والے بل میں فی یونٹ بجلی کی قیمت 90روپے عائد کی جائے گی، میں آپ کے توسط سے عوام کو کہنا چاہتا ہوں کہ ڈرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ اس مہینے کے بلوں سے بھی ڈبل بل ستمبر کے مہینے میں آئیں گے۔ اس سے قبل اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے کہا کہ خدا کیلئے بس کرلو!ایک طرف نگران وزیراعظم کا بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے میٹنگز/ہدایات کاڈرامہ اور دوسری طرف اسی حکومت کےواپڈا کے یہ اعلانات۔یہ وہ بارودی سرنگیں ہیں جو گذشتہ حکومتوں نے بچھائے ہیں اور موجودہ نگران حکومتیں اس میں مزید شدت لا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت پانی و بجلی کا یہ اعلان ملک کے 24 کروڑ عوام کے لیے معاشی ڈیتھ وارنٹ ہے، یہ ناقابل قبول ہے، حکمران اور اشرافیہ نے ابھی تک اپنا پروٹوکول اور اخراجات میں ایک روپے کی معمولی سی کمی بھی نہیں کی اور مسلسل سارا بوجھ عوام کے اوپر ڈال رہے ہیں۔ بجلی کے بھاری بھرکم بل اشرافیہ/حکمرانوں کی معاشی دہشتگردی ہے عوام اس کے خلاف اپنے اتحاد کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ نگراں حکومت کم از کم 300 یونٹس تک استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے ٹیکس کم کرسکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ن لیگی رہنما مفتاح اسماعیل نے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے بل زیادہ آنے میں نگراں وزیراعظم کا قصور نہیں ہے، بجلی کے بل انتہا کو پہنچ چکے ہیں، جب میں وزیر خزانہ تھا تو ہم نے 200 یونٹ تک استعمال کرنے والے گھریلوصارفین کو ریلیف دینے کیلئے آئی ایم سے بات کی تھی جس پر آئی ایم ایف مان بھی گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب بھی 200 سے 300 یونٹس تک استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو ریلیف دیا جاسکتا ہے،تاہم یہ ریلیف دینے سے پہلے آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑے گا، اگر آئی ایم ایف سے تڑی لگائے بغیر بات کرلی جائے تو آئی ایم ایف مان جائے گا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت بجلی کے بلوں سے سیلز ٹیکس بھی ختم کرسکتی ہے، تاہم اس سے مقرر کردہ ہدف پورا نہیں ہوگا، اسے پورا کرنے کیلئے دوسرے شعبوں میں ٹیکس لگانا ہوگا، زرعی آمدنی، پراپرٹی اور سروسز سیکٹر پر سیلز ٹیکس لگانے سے گریز ہوگا تو ٹیکس غریبوں پر ہی لگے گا، جیسا کہ ابھی ہورہا ہے، امیر لوگوں سے ٹیکس اکھٹا کرنے اور غریبوں کو ریلیف دینے سے متعلق بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک کی حکمرانی ناقص ہے، یہاں کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا، گزشتہ 20 سے 30 سالوں میں ہم اصلاحات نہیں کرسکے، گردشی قرضہ بڑھاتے رہے، بجلی کی چوری نا روک سکے جس کی وجہ سے سارا کا سارا بوجھ آج کے عام صارف پر پڑرہا ہے، بجلی کا بل ادا نا کرنے والوں کا بوجھ بھی عام صارف کو اٹھانا پڑتا ہے۔
سابق اتحادی حکومت میں شامل پاکستان پیپلزپارٹی نے موجودہ مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما فیصل کریم کنڈی نے جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مہنگائی سے تنگ عوام سڑکوں پر نکل رہی ہے اور یہ ایک تشویشناک بات ہے، پیپلزپارٹی جب بھی حکومت میں آئی ہے تو ہم نے عوام کو ریلیف دیا ہے۔ پروگرام کے میزبان شہزاد اقبال نے سوال کیا کہ یہ جو حکومت ختم ہوئی ہے یہ آپ کی جماعت کی حکومت بھی تھی،اسی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 13 روپے سے 18 روپےتک بجلی کا بیس ٹیرف بڑھایا ہے، ٹیکسز الگ ہیں، یہ سارے فیصلے آپ کی جماعت کی حکومت نے کیے ہیں، اس میں کاکڑ صاحب کی حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ ہماری جماعت اس اتحادی حکومت کا حصہ تھی اور ہم یہ بالکل تسلیم بھی کرتے ہیں، تاہم 2008 سے2013 میں ہماری حکومت میں جو فیصلے ہمارے وزیراعظم نے کیے وہ خالصتا ہماری جماعت کے فیصلے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب وزیراعظم آپ کی جماعت کا ہوتا ہے تو فیصلے کرنے میں آسانی ہوتی ہے، اگر شہباز شریف کی جگہ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم ہوتے تو یقینا ایسے فیصلے نا ہوتے بلکہ عوام دوست فیصلے کرتے، کیونکہ جب بھی پیپلزپارٹی کی حکومت آتی ہے تو عوام دوست فیصلے کیے جاتے ہیں۔
گالیوں کی گونج تک عوام کے سامنے نہ جانے کا اعلان کر دینا چاہیے۔عوامی رائے جاننے کا پیمانہ انتخابات ہیں جس سے بچنے کیلئے حیلے بہانے تراشے جا رہے ہیں: سینئر صحافی ایاز امیر سینئر صحافی وتجزیہ نگار ایاز امیر نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام تھنک ٹینک میں انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر معاشرے میں عوام کی رائے جاننے کا ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے انتخابات جس سے پی ڈی ایم کو ڈر لگ رہا ہے۔ انتخابات سے بچنے کیلئے حیلے بہانے تراشے جا رہے ہیں، طرفداری کی مشق شروع کر دی جاتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے انتخابات نہیں کروانے اور حیلے بہانے کرنے ہیں یا وہ لیول پلئینگ فیلڈ جو آپ بنا چکے ہیں اور بنائی جا رہی ہے تو نوازشریف کے آنے جانے، کندھوں پر اٹھانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میاں محمد نوازشریف واپس پاکستان آ کر کون سی انتخابی مہم کریں گے؟ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ کیا عوام کی رائے آپ لوگ ویسے ہی جاننا چاہتے ہیں جیسے ضیاء الحق کے زمانے میں عوامی رائے لی گئی تھی۔ انہیں چاہیے کہ کہہ دیں کہ یہ ملک انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جب تک ہمیں بجلی، پانی ودیگر مسائل کی وجہ سے عوام سے گالیاں پڑ رہی ہیں اور جب تک گالیوں کی گونج ہے ہم عوام کے سامنے نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ انتخابات سے ڈر رہے ہیں، بھاگ رہے ہیں، جو ماحول اس وقت ملک میں بنا دیا گیا ہے اس کو بھی سامنے رکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتیں جو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں اور لیڈران جیل میں ہیں جیل میں رکھیں لیکن باقی لوگوں کو تو انتخابات کیلئے کاغذ جمع کروانے دیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کیلئے کاغذات جمع کروانے پر ان سب کی ہمت کو آزمانا چاہیے۔ اگر ایسا بھی نہیں کیا جا سکتا ہے تو میاں محمد نوازشریف پاکستان میں کون سی انتخابی مہم کو لیڈ کرنے آ رہے ہیں۔
اگرچہ حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیدیا ہے لیکن آئین کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کااختیار اب بھی صدر کے پاس ہے۔ ریسرچر اور صحافی قسمت خان کے مطابق الیکشن ایکٹ ہمیشہ آئین کی شقوں کے مطابق بنایا جاتا ہے اور حکومت چاہے جتنے مرضی ایکٹ بنالے آئین غالب رہے گا۔ قسمت خان کے مطابق آئین کے آرٹیکل48(5) اے کے تحت جب صدر قومی اسمبلی تحلیل کرے تو وہ تحلیل کی تاریخ کے 90روز کے اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرے گا۔ یعنی الیکشن چاہے نئی حلقہ بندیوں کا شیڈول دے ،صدر عارف علوی90روز کے اندرالیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے تاریخ دینے کے آئینی طور پر پابند ہیں۔ قسمت خان کا مزید کہنا تھا کہ ایکٹ میں تاریخ دینے کی ترمیم کا اطلاق قومی اسمبلی کے الیکشن پر نہیں ہوگا جس کی انہوں نے 3 وجوہات بتائیں پہلی وجہ یہ بتائی کہ کمیشن کو دیا گیا اختیار آئین سے مشروط ہے، دوسری وجہ آئین کاآرٹیکل48(5) اے صدر کیجانب سے اسمبلی تحلیل کی صورت میں صرف صدر کو تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے تیسری وجہ عام قانون اور آئین میں تصادم ہو تو آئین غالب آجاتا ہے
عمران خان کو جو مشورے دیئے جا رہے ہیں ایسے ہی بھٹو کو بھی دیئے جاتے تھے۔انہیں بتایا جا رہا ہو گا کہ آپ جتنی بڑی شخصیت ہیں یہ آپ کو ہاتھ لگانے کی ہمت ہی نہیں کر رہے: حفیظ اللہ نیازی سینئر تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی سیاسی جماعت کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی سیاسی حکمت عملی بنائیں کہ ان کی سیاست اور جان دونوں بچ جائے۔ میرے خیال میں اس کے دو ہی طریقے ہیں ، ایک یہ کہ دبائو بڑھایا جائے اور دوسرا یہ کہ مفاہمت کر لی جائے۔ میرے تجزیے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی قائدین جو عمران خان کے قریب ترین ہیں اور ان کو جیل میں بھی ملنے گئے سب کی طرف سے عمران خان کو یقین دلایا جا رہا ہو گا کہ پورے پاکستان کی عوام ہمارے ساتھ ہے جس کا متعدد بار وہ اظہار بھی کر چکے ہیں جس کے ساتھ میں متفق بھی ہوں۔ دوسرا انہیں بتایا جا رہا ہو گا کہ آپ جتنی بڑی شخصیت ہیں یہ آپ کو ہاتھ لگانے کی ہمت ہی نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا 5 جولائی 1977ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو کو بذریعہ مارشل لاء اقتدار سے ہٹایا گیا تو ان کو بھی ایک ہی بات پر یقین دلایا گیا کہ ہم نے عوامی دبائو سے ان کے چھکے چھڑا دینے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ان کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی کتاب "بھٹو کے آخری ایام" پڑھ لی جائے تو آپ کو لگے گا کہ دوبارہ وہی ریل چل رہی ہے صرف کریکٹر بدل چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب اور ذوالفقار علی بھٹو شہید میں دو چیزیں مشترک ہیں، ذوالفقار علی بھٹو ماس کمیونی کیشن میں پرفیکشن تھے، عمران خان بھی ایسے ہی ہیں۔ دوسرا ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے اتنا جارحانہ انداز سیاست ہم نے نہیں دیکھا تھا جس میں عمران خان ان سے بھی بڑھ گئے لیکن بھٹوصاحب ذہانت، فطانت زیرک سیاست میں فن رکھتے تھے جبکہ عمران خان ان کی معمولی ذہن سے نفی کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی ساری سیاسی ذہانت، فطانت کے باوجود اپنے آپ کو نہیں بچا سکے تو عمران خان سے بھی مجھے امید نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچا سکیں گے۔ پاکستان ان سارے مسائل کی وجہ سے مشکل دوراہے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

Back
Top