آج سے 4 سال قبل آج کے دن عمران خان نے ایک بڑا فیصلہ کیا تھا جس نے پاکستانی سیاست کا رخ موڑدیا اور یہی فیصلہ نہ صرف عمران خان کی حکومت غیرمستحکم ہونے اور بلکہ اقتدار جانے کا بھی سبب بنا
عمران خان نے بطور وزیراعظم 19 اگست 2019 کو ایک نوٹیفکیشن پر دستخط کرکے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو 3 سال کی توسیع دی تھی لیکن بعدازان سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی سے آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ کرایا گیا اور سب جماعتوں نے آرمی چیف کی توسیع کے حق میں ووٹ دیا۔
اس ایک فیصلے نے پاکستان کی سیاست کا رخ موڑ دیا تھا اور ڈھائی سال بعد عمران خان کی حکومت جانے کا سبب بنا۔ عمران خان کی حکومت شاید 2019 یا 2020 میں ختم ہوجاتی لیکن کرونا وبا عمران خان کے اقتدار کی طوالت کا سبب بن گیا۔
عمران خان کے مطابق جنرل باجوہ نے ایکسٹنشن ملتے ہی رنگ دکھانا شروع کردیا تھا اور اچانک ن لیگ اور پی ڈی ایم کے حامی بن گئے۔عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ انکی سب سے بڑی غلطی جنرل باجوہ کو ایکسٹشن دینا تھا۔
جب انکی حکومت گرائی گئی تو انہوں نے نام لئے بغیر جنرل باجوہ کو میرصادق اور میر جعفر کہا ، بعدازاں عمران خان نے کھل کر جنرل باجوہ کو میرصادق اور میر جعفر کہنا شروع کردیا جس پر اسٹیبلشمنٹ ان سے مزید ناراض ہوگئی۔
جنرل باجوہ ایکسٹشن ملنے کے بعد کس قدر سیاست میں انوالو ہوگئے اسکا اندازہ خواجہ آصف کے انٹرویو سے لگایا جاسکتا ہے
خواجہ آصف نے انکشاف کیا تھا تھا کہ اپریل 2019 کے بعد وہ ان سے بیزار تھے، اس وقت حکومت تبدیلی کی آفر بھی کی گئی جس سے انکار کیا، 2019 کا میں خود گواہ ہوں، 2021 یا 2022 کا کوئی اور ساتھی گواہ ہوگا، چیئرمین پی ٹی آئی شاید اتنے ناراض نہ تھے جتنے خود اسٹیبلشمنٹ والے ناراض تھے۔
انکے مطابق ’اسٹیبلشمنٹ دیکھ رہی تھی کہ ان کا تجربہ اور 2018 کی محنت ضائع ہو رہی ہے۔ انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا ’وی ہیڈ ہیو انف آف ہم‘ ہم نے جواب میں کہا کہ ’وی آر ناٹ انٹرسٹڈ۔‘
خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ جب میں قید میں تھا تو مجھے وزیراعظم بننے کی پیشکش کی گئی جو میں نے مسترد کر دی تھی۔کہا گیا تھا کہ بطور وزیر اعظم آپ کا اور شاہد خاقان عباسی کا نام ہے ، مگر آپ کی قیادت کو ابھی انتظار کرنا پڑے گا،جس پر میں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ اگر شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن جائیں تو مجھے اعتراض نہیں ہوگا۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کو چیئرمین پی ٹی آئی نے نہیں اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ملک سے باہر بھیجا تھا۔