سیاسی

آج سے 4 سال قبل آج کے دن عمران خان نے ایک بڑا فیصلہ کیا تھا جس نے پاکستانی سیاست کا رخ موڑدیا اور یہی فیصلہ نہ صرف عمران خان کی حکومت غیرمستحکم ہونے اور بلکہ اقتدار جانے کا بھی سبب بنا عمران خان نے بطور وزیراعظم 19 اگست 2019 کو ایک نوٹیفکیشن پر دستخط کرکے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو 3 سال کی توسیع دی تھی لیکن بعدازان سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی سے آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ کرایا گیا اور سب جماعتوں نے آرمی چیف کی توسیع کے حق میں ووٹ دیا۔ اس ایک فیصلے نے پاکستان کی سیاست کا رخ موڑ دیا تھا اور ڈھائی سال بعد عمران خان کی حکومت جانے کا سبب بنا۔ عمران خان کی حکومت شاید 2019 یا 2020 میں ختم ہوجاتی لیکن کرونا وبا عمران خان کے اقتدار کی طوالت کا سبب بن گیا۔ عمران خان کے مطابق جنرل باجوہ نے ایکسٹنشن ملتے ہی رنگ دکھانا شروع کردیا تھا اور اچانک ن لیگ اور پی ڈی ایم کے حامی بن گئے۔عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ انکی سب سے بڑی غلطی جنرل باجوہ کو ایکسٹشن دینا تھا۔ جب انکی حکومت گرائی گئی تو انہوں نے نام لئے بغیر جنرل باجوہ کو میرصادق اور میر جعفر کہا ، بعدازاں عمران خان نے کھل کر جنرل باجوہ کو میرصادق اور میر جعفر کہنا شروع کردیا جس پر اسٹیبلشمنٹ ان سے مزید ناراض ہوگئی۔ جنرل باجوہ ایکسٹشن ملنے کے بعد کس قدر سیاست میں انوالو ہوگئے اسکا اندازہ خواجہ آصف کے انٹرویو سے لگایا جاسکتا ہے خواجہ آصف نے انکشاف کیا تھا تھا کہ اپریل 2019 کے بعد وہ ان سے بیزار تھے، اس وقت حکومت تبدیلی کی آفر بھی کی گئی جس سے انکار کیا، 2019 کا میں خود گواہ ہوں، 2021 یا 2022 کا کوئی اور ساتھی گواہ ہوگا، چیئرمین پی ٹی آئی شاید اتنے ناراض نہ تھے جتنے خود اسٹیبلشمنٹ والے ناراض تھے۔ انکے مطابق ’اسٹیبلشمنٹ دیکھ رہی تھی کہ ان کا تجربہ اور 2018 کی محنت ضائع ہو رہی ہے۔ انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا ’وی ہیڈ ہیو انف آف ہم‘ ہم نے جواب میں کہا کہ ’وی آر ناٹ انٹرسٹڈ۔‘ خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ جب میں قید میں تھا تو مجھے وزیراعظم بننے کی پیشکش کی گئی جو میں نے مسترد کر دی تھی۔کہا گیا تھا کہ بطور وزیر اعظم آپ کا اور شاہد خاقان عباسی کا نام ہے ، مگر آپ کی قیادت کو ابھی انتظار کرنا پڑے گا،جس پر میں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ اگر شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن جائیں تو مجھے اعتراض نہیں ہوگا۔ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کو چیئرمین پی ٹی آئی نے نہیں اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ملک سے باہر بھیجا تھا۔
دی نیوز کے صحافی فاروق اقدس نے دعویٰ کیا ہے کہ مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اٹک جیل میں قید سابق وزیراعظم کو کو بیرون ملک بھیجنے کی پیشکش کیلئے حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ فاروق اقدس کے مطابق لیول پلینگ فیلڈ حکمت عملی پر عملدرآمد کیلئے فضا بنائی جارہی ہے جس کے تحت آنے والے انتخابات میں ملک کی بڑی جماعتوں جن میں ن لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف شامل ہیں،کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے لیکن تینوں جماعتوں کے قائدین کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ ان کے ذرائع کے مطابق ن لیگ کے رہنما مسلسل دعویٰ اور اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنیں گے اور انتخابات میں حصہ لینے کیلئے جلد ہی پاکستان واپس آکر انتخابی مہم کی قیادت کریں گے مگر انکی راہ میں راہ میں قانونی اور آئینی پیچیدگیاں موجود ہیں اگر وہ وطن واپس آنے کا ارادہ کر بھی لیتے ہیں تو انہیں وطن واپسی پر پہلے جیل جانا پڑے گا، دی نیوز کے صحافی کے دعوے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان ملک سے باہر جانے کیلئے تیار ہوجائیں گے؟ اگر وہ تیار ہوبھی جائیں تو انہیں کیسے بھیجا جائے گا؟ کیا صدر عارف علوی کے ذریعے سزا معاف کرکے؟ کیا عمران خان کو بھی ویسے ہی بھیجا جائے گا جیسے نوازشریف کو مشرف نے جدہ بھیجا۔ دوسری جانب اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ عمران خان ملک سے باہر جائیں، انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے وکیل سے کہا تھا کہ وہ اس سیل میں ہزار سال بھی پڑے رہیں تو انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ انہیں غلامی منظور نہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا جلد انتخابات کے خواہش مند ہیں اور اگر الیکشن میں اکثریت ملی تو سب کے متفقہ فیصلے سے نواز شریف وزیراعظم ہوں گے، قائد ن لیگ کے پاکستان واپس آنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن نواز شریف کب آئیں گے کوئی تاریخ فائنل نہیں ہے۔ محمد صالح ظافر کی رپورٹ کے مطابق نوازشریف اسلام آباد میں اتریں گے،وہ بذریعہ موٹروے لاہورجائیں گے،وطن واپسی پر وہ متحدہ عرب امارات میں مختصر قیام کرسکیں گے، مسلم لیگ نون لاہور میں اپنا مرکزی انتخابی دفتر بنائے گی،شہبازشریف اور مسلم لیگ نون کے متعدد رہنما عازم لندن ہو رہے ہیں،یوم آزادی پر پرچم کشائی کے بعد شہباز شریف سبکدوش ہو جائیں گے. وزیراعظم شہباز شریف آئندہ ہفتے عازم لندن ہوں گے جہاں وہ اپنی جماعت کے قائد نوازشریف سے پیش آمدہ سیاسی صورتحال کےبارے میں تفصیلی مشاورت کریں گے اوران سے ہدایات حا صل کریں گے،پاکستان مسلم لیگ نون کے بعض سرکردہ رہنما بھی لند ن سے اس سفر میں ان کے ہمرکاب ہوں گے حد درجہ قابل اعتماد سیاسی ذرائع نے بتایا ہے کہ اس دورے میں نوازشریف کی وطن واپسی کا نظام الاوقات طے کیاجائے گا . شہبازشریف جو پاکستان مسلم لیگ نون کے صدرہیں اوائل ہفتہ اعلان کرچکے ہیں کہ نوازشریف آئندہ ماہ وطن واپس آجائیں گے ہفتے کی صبح سینئر صحافیوں کے اعزاز میں ناشتے کے دورا ن بھی انہوں نے اس کا اعادہ کیا ہے برطانیہ کے اس دورے میں ان کی علیل اہلیہ بھی ان کے ساتھ سفر کرسکتی ہیں بشرطیکہ ان کے معالجین نے انہیں سفر کی اجازت دی وہ لندن میں اپنا طبی معائنہ کرائیں گی باورکیا جاتا ہے کہ شہباز شریف لندن میں زیادہ دنوں کے لئے قیام کرسکتے ہیں وہ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد آرام کرنے کے خواہاں ہیں وزیراعظم شہباز شریف رسمی طورپر وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریوں سے کل یوم پاکستان کی سہ پہر سبکدوش ہو ں گے جب ان کے جانشین سینیٹر انوارالحق کاکڑ اس منصب کا حلف اٹھائیں گے۔ شہباز شریف دو دن بہت مصروف گزاریں گے۔ وہ یوم آزادی کو پرچم کشائی کی تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے اور بعدازاں اسی دن ایوان وزیراعظم میں الوداعی گارڈ آف آنر سے سلامی لیں گے اور اسلام آباد سے رخصت ہو جائیں گے۔ نگران وزیراعظم اسی سہ پہر ایوان صدر میں اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد جب ایوان وزیراعظم آئیں گے تو انہیں خیرمقدمی گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا،معلوم ہوا ہے کہ خزانے و محصولات کے سابق وفاقی وزیر سینیٹر محمد اسحاق ڈار جو گزشتہ ستمبر سے ایوان وزیراعظم میں سکونت پذیر ہیں اب منسٹرانکلیو میں منتقل ہو جائیں گے وہ سینیٹ میں قائد ایوان ہیں اور اس حیثیت میں انہیں وفاقی وزیرکے مساوی مراعات حاصل تھیں شہبازشریف کی عدم موجودگی میں جماعت کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز شریف انتخابی مہم کی شروعات کریں گی فی الوقت ان کی تمام توجہ نواز شریف کی وطن واپسی پران کے شایان شان خیرمقدم کرنے پرمرتکز ہے ۔ ذرائع کے مطابق اس امر کا کوئی امکان نہیں نوازشریف کی وطن واپسی میں کوئی تاخیر رونما ہوسکے،اس امرکا اشارہ دیا گیاہے کہ نوازشریف وطن واپسی کے سفرمیں متحدہو عرب امارات میں مختصر قیام کرسکتے ہیں انہیں تجویز دی گئی ہے کہ وہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پراتریں گے اوریہاں سے وہ جی ٹی روڈ کے راستے لاہور کا سفر اختیار کریں گے۔
نئے نگران وزیراعظم سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے تاہم حالیہ دنوں میں وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قریب آگئے تھے۔ ان کی سابق وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال کے ساتھ مسلم لیگ ن میں شمولیت کی خبریں بھی گرم تھیں۔ گزشتہ دنوں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ سینیٹرانوارالحق کاکڑ اور جام کمال مسلم لیگ ن میں شامل ہورہے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی پہلے نوازشریف اور جون میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف سے ملاقات بھی کی تھی۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ ماضی میں مسلم لیگ ن میں تھے اور انکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہی انہوں نے 2017 میں نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت گرانے میں اپنا اہم کردار اداکیا اور انکے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے دسمبر 2017 میں اپنی ہی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں پیش کی اور عبدالقدوس بزنجو کا ساتھ دیا جس کے بعد عبدالقدوس بزنجو چھ ماہ کے لیے وزیراعلٰی رہے تو ان کی کابینہ میں انوار الحق کاکڑ مشیر برائے اطلاعات رہے- انوار الحق کاکڑ مارچ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حمایت سے آزاد حیثیت سے چھ سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے تاہم اسی مہینے وہ مسلم لیگ ن سے منحرف ہونے والے اس گروپ کا حصہ بن گئے جنہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ انوارالحق کاکڑ ماضی میں عمران خان کے بھی بہت قریب رہے اور عمران خان کی تعریفیں کرتے رہے لیکن جیسے ہی عمران خان حکومت گئی تو وہ عمران خان کے خلاف بیانات دیتے نظر آئے۔ انوارلحق کاکڑ کے اگرچہ عمران خان سے بہت اچھے تعلقات تھے لیکن حال ہی میں وہ عمران خان کے خلاف انتہائی سخت بیانات داغ چکے ہیں اور انکے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انکے آنے کے بعد تحریک انصاف پر سختیاں کم نہیں ہونگی اور وہ تحریک انصاف کو الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملے گی ۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نومئی کے واقعات کے بعد بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے پاکستانی قوم کو مایوس کیا۔ انکی ساڑے تین برس کی کارکردگی کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ انکو اگر دوبارہ موقع ملے تو یہ پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ صرف یہی نہیں انوارالحق کاکڑ نے نومئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا کیس فوجی عدالت میں بھی چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انوارالحق کاکڑ خوش اخلاق شخص ہیں لیکن قابل اعتبار نہیں جو شخص سینیٹر بنتے ہی اپنی جماعت سے منحرف ہوجائے اور اپنی ہی صوبائی حکومت گرانے میں پیش پیش ہو وہ کسی جماعت کا نمائندہ نہیں ہوسکتا کسی اور کا ہی نمائندہ ہوسکتا ہے۔
سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا ہے کہ حیرت کی بات ہے اتنے بڑے بڑے نام نگراں وزیراعظم کی دوڑ سے باہر کیسے نکلے اور راجا ریاض جیت گئے۔ سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کم از کم میرے لیے یہ غیر متوقع فیصلہ تھا، نام لیا جارہا تھا مگر لگ نہیں رہا تھا کہ ان کے نام پر اتفاق ہوجائے گا، انوار الحق کاکڑ ایک غیر متنازعہ شخصیت کے مالک ہیں اور کسی اسکینڈل میں ان کا نام نہیں آتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سامنے موجود تمام امیدواران میں یہ ایک اچھا انتخاب نظر آتا ہے، مگر حیرانگی کی بات ہے کہ اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، حفیظ شیخ، جیلانی برادران اور صادق سنجرانی اس دوڑ میں آؤٹ ہوگئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف اور ن لیگ اور اتحادیوں کے امیدوار سارے آؤٹ ہوگئے اور راجا ریاض صاحب جیت گئے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے نگراں سیٹ اپ کیلئے مشاورت نا کیےجانے کے شکوے سے متعلق سوال کےجواب میں ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ بہت اچھا ہوتا اگر پی ٹی آئی اسمبلی میں موجود ہوتی تو کس کی جرات ہوتی کہ ان سے مشاورت نا کرتا، اگر پی ٹی آئی نےیہ فیصلہ نا کیا ہوتا تو آج یہ شکوہ بھی سامنے نا آتا۔
پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے غیر ملکی ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ساؤتھ ایاسے انسٹی ٹوبٹ ولسن سنٹرو کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے پاکستان میں عام انتخابات میں ممکنہ تاخیر سے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کی 2 بڑی جماعتیں انتخابات میں تاخیر سے یہ موقع حاصل کرنا چاہتی ہیں کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر سے ان جماعتوں کو موقع ملے نا ملے حقیقت میں عوامی غصے میں اضافہ ہوگا اور موجودہ اپوزیشن مزید ابھر کر سامنے آئے گی، کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے موجودہ اپوزیشن کریک ڈاؤن کا سامنا کررہی ہے۔ مائیکل کوگل مین نے کہا کہ ایک نگران حکومت کیلئے پاکستان جیسے تقسیم شدہ ماحول میں کام کرنا بھی انتہائی مشکل ہوگا۔ دوسری جانب پاکستان انسٹی ٹومٹ آف لٹول ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرننسی نام کے تھنک ٹنکل کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بھی انتخابات میں معاشی صورتحال کو بنیاد بنا کر تاخیر کے معاملے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی فیصلے سخت اور غیر مقبول ہوتے ہیں،ایسے فیصلے کرنے کیلئے طویل دورانیے کی حکومتیں چاہیے ہوتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام انتخابات کے نتیجے میں جو بھی نئی حکومت بنے گی اس کی مدت پانچ سال ہوگی اور وہی حکومت اقتصادی بحالی کے فیصلوں کی مجاز ہوگی، لہذا عام انتخابات کی ایک خاص اہمیت ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ امریکی اخبار میں سائفر کے مندرجات درست ہیں تو یہ بہت بڑا جرم ہے۔ آن لائن ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے، اس میں دور دور تک کوئی حقیقت نہیں، توقع نہیں تھی کہ کوئی پاکستانی وزیراعظم اس طرح کا بدترین زہر ملک کے خلاف اگلے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائفر کے حوالے سے قومی سلامتی کونسل کے 2 اجلاس ان کی سربراہی میں ہوئے۔ ایک اجلاس میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اور موجودہ سیکرٹری خارجہ اسد مجید نے واضح طور پر کہا کہ ان کی امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو سے ملاقات میں سازش کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی نے بیانیہ بنایا کہ میری حکومت روس کیساتھ تعلقات بڑھنے کی وجہ سے امریکہ نے سازش کرکے گرائی۔ اگر ایسا ہی تھا تو روس سے تو سستا تیل میری حکومت نے خریدا پھر امریکی سازش ہمارے خلاف کیوں نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت کے سپہ سالار جنرل باجوہ اور سروس چیفس نے بھی تائید کی تھی کہ پاکستان کے خلاف سازش نہیں ہوئی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہمارے چین سے تعلقات بحال ہوتے جنہیں عمران نیازی نے تباہ کردیا تھا؟ تو بس یہی ایک ثبوت کافی ہے۔عمران نیازی نے بعد میں دوسرے بیان میں خود کہا تھا کہ امریکا نے کوئی سازش نہیں کی۔ اب آپ ان کے پہلے بیان کو مستند مانیں گے یا دوسرے کو؟ وزیراعظم نے مزید کہا کہ خدانخواستہ امریکی سازش سے یہ حکومت آئی ہوتی تو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں جو بگاڑ آگیا تھا ہم نے اس کو باہمی احترام اور اعتماد کی سطح پر لانے کے لیے بہت محنت کی۔
مسلم لیگ ن نے پارٹی کی انتخابی مہم کے حوالے سےا ہم ہدایات دیدی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف نے آئندہ انتخابات کی تیاریوں کیلئے منصوبہ بندی کرلی ہے، مریم نواز نے اس حوالے سے پارٹی کارکنان کو اہم ہدایات دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں پارٹی سلوگن والی اشیاء استعمال کی جائیں۔ انہوں نے ہدایات دیں کہ عام اور روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاء پر بھی پارٹی سلوگن پرنٹ کرواکے عوام میں پھیلائے جائیں، اس کیلئے موبائل فون کورز، کیپ، بیجز، نوٹ بکس استعمال کی جائیں گے اور ان پر ن لیگی سلوگنز کے ڈیزائن پرنٹ کروائے جائیں گے۔ مریم نواز نے موبائل فون کے کورز پر مسلم لیگ ن کے سلوگن کی پرنٹنگ کو پسند کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی مہم میں یہ اشیاء انتہائی اہمیت اختیار کرجاتی ہیں
وفاقی وزیر داخلہ راناثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو رہائی مل سکتی ہے مگر ان کی نااہلی برقرار رہے گی، ان کی کسی اور کیس میں گرفتاری بھی ہوسکتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ راناثناء اللہ نے ہم نیوز کے پروگرام'ہم دیکھیں گے منصور کے ساتھ' میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو حکومت یا اسلام آباد پولیس نے گرفتار نہیں کیا، انہیں عدالتی حکم پر گرفتار کیا گیا، عمران خان کو رہائی مل گئی تو کسی اور کیس میں دوبارہ گرفتاری ہوسکتی ہے، ان کے خلاف نیب میں توشہ خانہ کیس چل رہا ہے ، القادر ٹرسٹ کیس بھی موجود ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جیل کے جس ماحول کا عمران خان ذکر کررہے ہیں کہ وہاں مکھیاں ہیں، کیڑے مکوڑے اور کھلا واش روم ہے تو جیلوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، ہم بھی ایسی ہی جگہوں پر رہے ہیں، میری دفعہ میں بھی بالکل ایسی ہی صورتحال تھی اسی لیے میں نے عمران خان کی بات کو رد نہیں کیا۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ میں تجربے کی بات بتارہا ہوں دو ،چار دن کے بعد فرش پر بڑی سکون کی نیند آتی ہے ، بیڈ کی کمی بھی محسوس نہیں ہوتی، جہاں تک فرش پر موجود کیڑے مکوڑوں کا تعلق ہے تو اس کیلئے کانوں میں روئی رکھ لی جائے کیونکہ کیڑے اگر کان میں گھس جائیں تو پریشانی بنتی ہے، ہوسکے تو روئی ناک میں بھی رکھ لیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے گھر میں ایک بلٹ پروف کمرہ تیار کیا ہوا تھا، اس کمرے کا دروازہ نہیں کھولا گیا تو کٹر سے اس کا لاک کھولا گیا، کمرے میں 2 بکسے موجود تھے ، عمران خان نے کہا کہ ان کو ہاتھ نہیں لگانا ، تاہم پولیس نے چیکنگ کا کہا تو انہوں نے اجازت دیدی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پولیس ٹیم یہ سمجھی کہ اس میں قرآنی نسخے ہوں گے تاہم اس باکس میں تعویذ موجود تھے۔
گزشتہ روز تحریک انصاف نے پشاور کی تحصیل متھرا کے مئیر کی سیٹ کے ضمنی الیکشن میں میدان مارلیا۔۔ یہ سیٹ 2021 میں جے یو آئی ف کے فریداللہ خان نے جیتی تھی۔ تمام 155 پولنگ اسٹیشنوں کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار انعام اللہ 20 ہزار333 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ جے یو آئی کے امیدوار رفیع اللہ 13 ہزار 564 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ چیئرمین تحصیل کونسل متھرا کی نشست جے یو آئی کے فرید اللہ خان کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی جس پر ضمنی انتخاب کیلئے کل 6 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2021 میں تحریک انصاف چوتھے نمبر پر تھی، اس وقت پشاور کے 3 ایم این ایز نورعالم خان ، ملک شوکت اور ناصرموسیٰ زئی تحریک انصاف کا حصہ تھے، اسکے باوجود تحریک انصاف چوتھے نمبر پر آئی۔۔ متھرا تحصیل بنیادی طور پر نورعالم خان کے حلقہ کا حصہ ہے جبکہ کچھ علاقے دیگر حلقوں میں بھی شامل ہیں۔ سال 2021 میں جے یو آئی ف کے فریداللہ خان نے 22000 کے قریب ووٹ لیکر یہ سیٹ جیتی تھی ، دوسرے نمبر پرجماعت اسلامی کے افتخار احمد 15844 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے، تیسرے نمبر پر پیپلزپارٹی اور چوتھے نمبر پر تحریک انصاف کے احتشام خان 9681 ووٹ لے سکے تھے لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ۔۔ خیال یہ کیا جارہا تھا کہ نورعالم خان اور دیگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے تحریک انصاف چھوڑنے اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف مزید کمزور ہوجائے گی لیکن تحریک انصاف کو فرق نہ پڑا اور تحریک انصاف 20333 ووٹ لیکر کامیاب ہوئی۔ تحریک انصاف کے ووٹوں میں 2021 کی نسبت 11 ہزار کے قریب ووٹوں کا اضافہ ہوا۔ باوجود اسکے کہ تحریک انصاف پر بدترین کریک ڈاؤن ہورہا تھا، پشاور سے آدھی قیادت تحریک انصاف چھوڑگئی تھی، تحریک انصاف نے کمپین بھی نہیں چلائی تھی ، باقی ماندہ قیادت دبک کر مختلف مقامات پر چھپی ہوئی تھی۔ دوسری اہم بات یہاں سے جے یو آئی ف کا مئیر تھا جو مولانا فضل الرحمان کا داماد اور گورنر خیبرپختونخوا کا بیٹا تھا، نورعالم خان بھی کھل کر جے یو آئی ف کی حمایت کررہے تھے، تحریک انصاف کا امیدوار عام سا کارکن تھا اور ذاتی ووٹ نہیں رکھتا تھا، ان تمام عوامل کے باوجود تحریک انصاف نے یہاں سے میدان مارا۔ یہاں سے باقی جماعتوں کا بھی ووٹ کم ہوا، جماعت اسلامی کو 2021 کے 16ہزار ووٹ کی نسبت 2021 میں 9546 ووٹ پڑے۔ اے این پی کو 2021 میں 8500 ووٹ پڑے لیکن اب 2721 ووٹ ملے۔ ن لیگ کو صرف 3351 ووٹ مل سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جن لوگوں نے نعرہ لگایا تھا کہ 9 مئی اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف ختم شد ہوگئی ہے، انہیں یہ نتائج دیکھ کر ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔نہ غلام علی جادو جگاسکا، نہ نورعالم خان کی مددکام آئی، نہ مئیرپشاور کا اثرورسوخ کام آیا اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی جانبداری کام آئی۔
پنجاب کے 3 بڑوں کی چیئرمین پی ٹی آئی سے متعلق کامیاب خفیہ حکمت عملی سامنے آگئی، حنیف خالد کے آرٹیکل کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی آئی جی ڈاکٹر عثمان انور اور چیف سیکرٹری زاہد اختر کا 007پلان، اڈیالہ میں لے جانے کی تیاریاں کی گئیں اور اٹک جیل پہنچا دیا گیا، طیارے سے لے جانے کا چکمہ دیا اور موٹر وے سے لے گئے۔ سات کنال پر محیط زمان پارک میں واقع چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی رہائشگاہ کی چند روز سے کڑی نگرانی شروع کردی گئی تھی۔ کئی روز سے سابق وزیراعظم کی اس رہائشگاہ پر خفیہ اداروں نے 24 گھنٹے مانیٹرنگ کا آغاز کردیا گیا تھا۔ لاہور میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو مسلسل چکمہ دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا حتیٰ کہ ایڈیشنل سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ہمایوں دلاور جنہوں نے اپنی پروموشن کے ٹیسٹ اور انٹرویو میں 13 کے مقابلے میں 17پوائنٹ کی شاندار کارکردگی دکھائی تھی اور جو مقدمات کی سماعت مکمل ہونے پر اپنے چیمبر میں بیٹھ کر فیصلہ لکھوانے کی بجائے انتہائی دیانتداری اور دلیری سے فریقین کے وکلاء کی موجودگی میں عدالت میں بیٹھے بیٹھے فیصلہ اپنے عدالتی سٹاف کو لکھوانے کیلئے مشہور ہیں نے ہفتے کی دوپہر جب چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا توشہ خانہ کیس میں سنائی تو اسلام آباد کی عدالت کے باہر موجود اداروں کے لوگوں نے اپنے اپنے محکمے کو موبائل پر اسکی اطلاع دی۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر کے ساتھ میٹنگ میں کئی خفیہ فیصلے کئے جس میں سب سے بڑا فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی کو زمان پارک سے اسلام آباد پہنچانے کا تھا۔ پلان کے مطابق پہلے میڈیا میں یہ اطلاع پہنچا دی گئی علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر موجود ایک خصوصی جہاز کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی کو اسلام آباد بھیجا جارہا ہے‘ اس کیلئے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر پولیس افسران بھاری نفری کے ساتھ تعینات کر دیئے گئے۔ میڈیا کی نگاہیں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر لگی رہیں اور وہ وہاں جمع ہوگئے مگر طے شدہ حکمت عملی کے تحت چیئرمین کو ایک گاڑیوں کے کانوائے کی شکل میں موٹر وے کے ذریعے اسلام آباد روانہ کر دیا گیا۔ جب کانوائے سکھیکی ریسٹ ایریا کراس کر گیا تو یہ کہا گیا کہ لاہور سے اسلام آباد کی پرواز کیلئے موسم ناسازگار ہوگیا ہے اسلئے چیئرمین کو موٹر وے کے ذریعے اڈیالہ جیل راولپنڈی پہنچایا جا رہا ہے۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی بھیجنے سے پہلے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد میں میڈیکل کیلئے لے جایا گیا ہے۔ میڈیا والوں کا رش پمز کی طرف ہوگیا۔ لاہور میں تینوں بڑوں کی خفیہ حکمت عملی کے مطابق اڈیالہ جیل میں جیمر نصب کر دیئے گئے اور اڈیالہ جیل میں چیئرمین کیلئے خصوصی سیل تیار کر لیا گیا۔ میڈیا کا رش اڈیالہ جیل کی طرف ہوا لیکن طے شدہ حکمت عملی کے تحت موٹر وے سے سزا یافتہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پنجاب پولیس اٹک جیل لے گئی۔ ابھی قافلہ بھیرہ انٹرچینج کے قریب پہنچا تھا کہ پنجاب کے تین بڑوں (وزیراعلیٰ‘ چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس) کی خفیہ حکمت عملی کے تحت راولپنڈی کے ڈویژنل کمشنر لیاقت چٹھہ‘ ریجنل پولیس آفیسر سید خرم علی‘ اٹک کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سردار غیاث گل نے خفیہ پیغام رسانی کے ذریعے اٹک جا کر خفیہ میٹنگ رکھی۔ یہ میٹنگ سہ پہر 5 بجے اٹک ڈسٹرکٹ جیل میں ہوئی جہاں پر ڈویژنل حکام لیاقت چٹھہ کمشنر‘ سید خرم علی آر پی او‘ سردار غیاث گل ڈی پی او نے اٹک جیل کا معائنہ کیا اور وہاں پر جیمر ہنگامی طور پر نصب کرادیئے۔ خفیہ حکمت عملی کے تحت ہی چیئرمین کا طبی معائنہ پمز کی بجائے اٹک جیل میں کرایا گیا جس میں بلڈ پریشر‘ شوگر‘نبض اور ظاہری جسم پر نشانات کا جائزہ لیا گیا۔ زمان پارک لاہور سے گرفتار چیئرمین پی ٹی آئی کو رات گئے اٹک جیل منتقل کردیا گیا، کلاس سی میں رکھا گیا، جہاں انہیں ضرورت کی تمام سہولتیں فراہم کردی گئیں ہیں،اسلام آباد سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے تفصیلی فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کو نا اہل قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔
پولیس ذرائع کے مطابق عمران خان کو 6 بج کر 50 منٹ پراٹک جیل منتقل کیا گیا اور جیل مینویل کے مطابق ان کا میڈیکل کیا گیا، جس میں انہیں صحت مند قرار دیا گیا۔ چئیرمین پی ٹی آئی کو جیل کی کلاس سی میں رکھا گیا ہے جہاں ضرورت کے مطابق سہولیات بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ پولیس نے اٹک جیل جانے والے تمام راستوں کو سیل کرکے پوسٹیں قائم کرلی ہیں، جیل کے اطراف پولیس ایلیٹ فورس کے دستے تعینات کردیے گئے ہیں، خفیہ اداروں نے بھی جیل کے اندر اور باہر ڈیرے جما رکھے ہیں۔ جیل تک کسی صحافی یا عام آدمی کو سرائی نہیں دی جارہی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کرنے کے بعد جیل مینوئل کے مطابق سہولیات فراہم کردی گئیں۔ جیل ذرائع کے مطابق عمران خان کو مینوئل کے مطابق کھانا فراہم کیا جائے جبکہ انہیں اپنے ساتھ بیرک میں ضروری سامان جیسے تولیہ، ٹشو پیپر، پینے کا پانی، چشمہ، تسبیح اور گھڑی رکھنے کی اجازت ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جانا تھا لیکن اٹک جیل کیوں منتقل کیاگیا؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اڈیالہ جیل میں بی کلاس اور اے کلاس کی سہولیات موجود ہیں لیکن اٹک جیل میں صرف سی کلاس کی سہولیات موجود ہیں جو عام قیدیوں کیلئے دستیاب ہوتی ہیں۔ اگر عمران خان اڈیالہ جیل میں ہوتے تو انہیں بی کلاس کی سہولیات دینا پڑتیں جو نوازشریف ، شہبازشریف اور مریم نواز کو دی گئیں۔ سی کلاس میں عام طور پر عادی مجرموں، قتل وغارت، چوری چکاری رکھنے والے ملزمان کو رکھا جاتا ہے، انہیں غیرمعیاری کھانا دیا جاتا ہے لیکن سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر عمران خان کو عام مجرمان سے الگ تھلک رکھا جائے گا صحافیوں کے مطابق اٹک جیل میں عمران خان کو رکھنا ایک سیاسی فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ کسی کی انا کو تسکین دینے کیلئے کیا گیا ہے۔12 اکتوبر 1999 کے مارشل لاء کے بعد نوازشریف کو بھی اسی جیل میں رکھا گیا تھا اور یہ جیل خفیہ ملاقاتوں کیلئے انتہائی سازگار ہے۔ جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں ہائی سکیورٹی زون کے لاک اپ میں رکھا جانا تھا۔ جیل انتظامیہ نے کہا تھا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلے کے مطابق سہولیات میسر ہوں گی۔ جیل حکام نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اے یا بی کلاس نہیں دی جائے گی، انہیں اے یا بی کلاس عدالتی احکامات پر ہی ملے گی۔ جیل کی سہولیات کو تین کیٹگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اے، بی اور سی کیٹیگری ۔ اے کلاس جیل مینوئل کے مطابق ’اے کلاس‘ والے قیدیوں کو رہائش کیلئے دو کمروں کی بیرک دی جاتی ہے۔ بیڈ، اے سی، فریج اور ٹی وی کے علاوہ کچن کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جیل کا کھانا کھانے کی بجائے اپنی پسند کا کھانا پکانے کی اجازت ہوتی ہے۔ گھر سے کھانا منگوانا چاہیں تو پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عزیز واقارب یا وکلاءکی ملاقات کا ہفتے میں ایک دن مقرر کیا جاتا ہے جس کی منظوری حکومت دیتی ہے۔اے کلاس قیدی کو 2 کام کرنے والے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ بی کلاس اس کلاس کے قیدیوں کو الگ سے ایک کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے لیکن جیل جیل سپرنٹنڈنٹ مشقتیوں کی تعداد ایک سے دو کرسکتا ہے۔بی کلاس کے حصول کیلئے متعین شرائط ہیں جن کیلئے محکمۂ داخلہ کی منظوری درکار ہوتی ہے یعنی عمران خان کو بی کلاس کی سہولیات لینے کیلئے رانا ثناء اللہ کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔ سی کلاس سی کیٹیگری عام قیدیوں کے لیے ہے جنھیں ایسی کوئی سہولیات میسر نہیں ہوتیں جن کا تعلق ان کی تعلیم یا عہدے سے ہو۔تاہم سی کیٹگری کے سیاسی قیدی کو عام قیدیوں کے بجائےالگ کوٹھری میں رکھاجاتا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ڈرگز اینڈ ویڈیو اسکینڈل میں مزید انکشافات سامنے آگئے ہیں، معاملے میں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے بیٹے کا بھی ذکر ہونے لگا۔ تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعلی محسن نقوی کی زیر صدارت اسلامیہ یونیورسٹی اسکینڈل سے متعلق اہم اجلاس ہوا،اجلاس میں وزیراعلی کو پورے معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک 21ویں گریڈ کے پروفیسر ، چیف سیکیورٹی آفیسر اور یونیورسٹی ملازم طالبات کو ہراساں کرتے۔ نگراں وزیراعلی محسن نقوی نے سوال پوچھا کہ اس معاملے میں طار ق بشیر چیمہ کے بیٹے کا کیا کردار تھا؟ وزیراعلی کو بتایا گیا کہ طارق بشیر چیمہ کی سفارش پر احسان جٹ نامی شخص کو وزارت ہاؤسنگ میں افسر تعینات کیا گیا، احسان جٹ ، طارق بشیر چیمہ کے بیٹے ولی داد چیمہ کے ساتھ گھومنے لگا اور اسے آئس کے نشے پر بھی لگادیا، طارق بشیر چیمہ کو علم ہوا تو انہوں نے ڈی پی او کواحسان جٹ کے خلاف کارروائی کی ہدایات دی۔ وزیراعلی کو بتایا گیا کہ احسان جٹ کے خلاف کارروائی ہوئی اور اس سے منشیات برآمد کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا، پولیس نے اس پورے معاملے میں اسلامیہ یونیورسٹی کا نام دبانے کی کوشش کی، تاہم احسان جٹ سے تفتیش کے دوران یونیورسٹی میں منشیات کی موجودگی اور دیگر انکشافات ہوئے۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ احسان جٹ نے طارق بشیر چیمہ ہی کو نہیں بلکہ یونیورسٹی کے طلبہ کو طالبات کو بھی منشیات کا عادی بنایا، اسی دوران چیف سیکیورٹی آفیسر نے یونیورسٹی ہاسٹلز کےباہر ناکےلگائے، دیر سےآنے یا کسی لڑکے کے ساتھ آنے والی طالبات کی تصاویر بنائی جاتیں اور ان کو بلیک میل کیا جاتا۔ دوسری جانب موجودہ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کیس میں تین ملازمین ملوث تھے جو اس وقت جیل میں ہیں، سابقہ وی سی بیرون ملک جارہے تھے، ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی ہے، معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹیاں قائم ہیں۔
وزیراعظم کےمعاون خصوصی عطاء تارڑ نے سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری سے متعلق بڑا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے ڈبل گیم کررہے تھے اور چیئرمین پی ٹی آئی کی چغلیاں کرتے تھے۔ تفصیلات کے مطابق عطاء تارڑ نے ہم نیوز کے پروگرام پاور پالیٹکس ود عادل عباسی میں خصوصی گفتگو کی، اس موقع پر عادل عباسی نےفواد چوہدری کا ایک کلپ چلایا جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت اور انتخابات کا ماحول ہی نہیں ہے، الیکشنز سے پہلے ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں دوریاں کم ہوں اور عمران خان و نواز شریف میں دوریاں بھی کم ہوں، اس وقت انتخابات کی طرف جانا نا جانا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ تلخیاں ہیں ۔ عادل عباسی نے عطا تارڑ سے پوچھا کہ اس رائے سے آپ اتفاق کرتے ہیں؟ عطاء تارڑ نے فواد چوہدری کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری پاکستان کے سب سے بڑے فراڈیوں میں سے ایک ہیں، یہ آج کل آئی پی پی میں ہیں، انہوں نے پچھلے 20-25 سال میں کتنی پارٹیاں تبدیل کی ہیں مجھے اس کی بھی پرواہ نہیں ہے، یہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کی بات کس حیثیت میں کررہے ہیں؟ عطاء تارڑ نے کہا کہ فواد چوہدری کے کرتوت ایسے ہیں کہ یہ باہر نکلے تو اس کو منہ چھپانا چاہیے، آئی پی پی کی ترجمان فردوس آپا ہیں، کیا فواد چوہدری نے یہ بیان فردوس آپا سے اجازت لے کردیا ہے؟ یہ ایک غیر سنجیدہ بیان ہے اور اس بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کون ہوتا ہے جو ہمیں بتائے کہ کس سے تعلقات کیسے ہونے چاہیے؟ وہ کون ہے یہ بتانے والا؟ جس طرح فواد چوہدری بھاگا ہے اللہ نا کرے یہ وقت کسی اور پر آئے، یہ وہی شخص ہے کہ جب یہ پی ٹی آئی میں تھا تو ڈبل گیم کررہا تھا۔ رہنما ن لیگ نے کہا کہ یہ وہاں بیٹھ کر عمران خان کی مخبریاں کرتا تھا، اور ساتھ ساتھ عمران خان کو پمپ بھی کرتا تھا، یہ بڑے ڈرٹی کیریکٹر والےلوگ ہیں، عمران خان نے خود گوجرانوالہ میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر خواجہ شیراز کو کہا کہ میرے پیچھے کھڑے ہوجاؤ فواد چوہدری میری مخبریاں کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فواد چوہدری نے 9 مئی کے واقعات سے پہلےپاکستان مخالف بیانیہ بنایا مگر جب وقت آیا تو یہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔
قمر زمان کائرہ نے نگراں سیٹ اپ کیلئے تحریک انصاف سے مشورے کی تجویز دے دی اور تحریک انصاف کو لیول پلینگ فیلڈ دینے کی حمایت کردی او رکہا کہ مردم شماری کی وجہ سے الکشن ملتوی نہیں ہوسکتے۔ صحافی نعیم اشرف بٹ سے گفتگو کرتے ہوئے قمرزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ نگراں سیٹ اپ کیلئے پی ٹی آئی سے مشاورت ہونی چاہیے۔آئین دو افراد کی مشاورت کا کہتا ہے تو کیا باقی جماعتیں جماعتیں نہیں۔ انہوں نے مردم شماری کی وجہ سے الیکشن التوء کی مخالفت کی اور کہا کہ مردم شماری کی وجہ سے الیکشنز میں التوا نہیں ہوسکتا۔ہر صورت الیکشنز وقت پر ہوں گے۔مردم شماری سے ایک سال تک التوا ممکن نہیں۔ قمرزمان کائرہ نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کولیول پلیینگ فیلڈ ملنی چاہیے۔لیول پلینگ ہر جماعت اور اسکے لیڈرز کا حق ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ سوائے عدالتی احکامات کے کسی حکومت،شخص یا اور ادارے کا کوئی حق نہیں کہ وہ لیول پکئنگ نہ لینے دے۔پارٹیوں کا ٹوٹنا ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے۔
جنگ کے صحافی صالح ظافر نے انکشاف کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسلام آباد کے موؤی تھیٹر میں مشہور فلم "مشن امپوسبل" دیکھی۔ صالح ظافر کے مطابق بدھ کی شام اسلام آباد کلب کے مووی تھیٹر میں مشہور فلم ’’مشن امپوسیبل ‘‘ کی نمائش کے دوران حاضرین کی خوشی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ کو اپنے درمیان فلم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تھیٹر میں موجودگی کا اظہار اس وقت ہوا جب وہ وقفے کے دوران ہال کے باہر فروخت ہونے والے گرم گرم مکئی کے بھٹّوں سے لطف اندوز ہوتاہوا دیکھاگیا۔ اس موقع پر حاضرین میں سے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان کے ساتھ احترام کے اظہار کے لئے مصافحہ کیا، جس پر ملک کے اگلے چیف جسٹس کے طور پر انہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ ان کو مسلسل خوش آمدید دیتے رہے۔ صالح ظفر نے مزید باتیاا کہ وہ اپنی خود کار پر کلب آئے تھے اور انہیں خود گاڑی چلانے کا شوق ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اپنے پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی فوری وطن واپسی کے معاملے پر تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پارٹی میں ایک گروپ ایسا ہے جو نواز شریف کی فوری وطن واپسی کے حق میں نہیں ہے جبکہ کچھ رہنما نواز شریف کو فوری طور پر وطن واپسی کے مشورے دےرہے ہیں۔ فوری واپسی کی مخالفت کرنے والے رہنما نواز شریف کو حالات کا مزید جائزہ لینے اور اس کے بعد واپسی کی تجویز دے رہے ہیں، پارٹی رہنماؤں کی رائے تقسیم ہونے پر میاں نواز شریف نے اپنی واپسی کے معاملے پر مشاورت کو نگراں سیٹ اپ کے بعد تک ٹال دیا ہے۔ یادرہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے کچھ روز قبل پارٹی عہدیداران اور کارکنان کو قائد میاں نواز شریف کی واپسی کے استقبال کی تیاریوں کی ہدایات دی گئی تھیں۔ اس ضمن میں پارٹی رہنماؤں، قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ ہولڈرز، مقامی تنظیموں کے عہدیداران کو خطوط ارسال کیے گئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ جن میں یوسی سطح پر نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ خیال رہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نواز شریف پر عائد تاحیات نااہلی کی تلوار ہٹ گئی ہے اور اب میاں نواز شریف دوبارہ سے عملی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔
بھارتی دزیردفاع راج ناتھ سنگھ کی پاکستان کو کھلی دھمکی ۔۔ضرورت پڑنے پر ہندوستانی فوج ایل او سی عبور کر نے میں دریغ نہیں کرے گی بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے کارگل وجے دیوس کے موقع پر پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا گیا تو فوج لائن آف کنٹرول کو پار کرکے گھر میں گھس کر مارے گی ، اور دشمن کو نیست و نابود کردے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری فوج فتح کے بعد 1999 میں ہی لائن آف کنٹرول کو عبور کر سکتی تھی، لیکن ہندوستان کے امن پسند ملک کے نظریہ، ہندوستانی اقدار پر یقین اور بین الاقوامی قوانین سے وابستگی کی وجہ سے اس وقت یہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اس وقت ایل او سی کو عبور نہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایل او سی کو عبور نہیں کر سکتے تھے۔ہم ایل او سی کو پار کر سکتے تھے، اور ضرورت پڑنے پر مستقبل میں ایل او سی کو پار کریں گے۔ بھارتی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جنگ صرف فوجوں کے درمیان نہیں ہوتی، ان ممالک کے عوام کے درمیان بھی جنگ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ میں صرف فوج ہی نہیں لڑتی ؛بلکہ کوئی بھی جنگ دو قوموں اور ان کے لوگوں کے درمیان ہوتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ کسی بھی جنگ میں براہ راست فوجیں حصہ لیتی ہیں، لیکن بالواسطہ طور پر آپ دیکھیں، تو اس جنگ میں کسان سے لے کر ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں اور بہت سے دوسرے پیشوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں بھارتی وزیر دفاع نے یہ دھمکی ایسے وقت میں دی جب پاکستانی وزیردفاع خواجہ آصف ایک سیاسی جماعت کی خواتین کو کوڑا کرکٹ اور کھنڈرات کہہ رہے تھے
سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے مگر وہ کسی کو بتانہیں رہے۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے پیپلزپارٹی کی جانب سے حکومت کی مخالفت سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کو لگ رہا ہے کہ اسے ایک بار پھر سندھ تک محدود کیا جارہا ہے اور سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کیلئے مشکلات کھڑی ہورہی ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے آصف علی زرداری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخابات سے قریب پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں گے، اس وعدے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے کچھ رہنما پیپلزپارٹی میں شامل ہو بھی گئے تھے ،مگر عبدالقدوس بزنجو نے چند روز قبل آصف علی زرداری کو ایک خط لکھا ہے جس کے بارے میں ابھی کسی کو بتایا نہیں جارہا۔ حامد میر نے انکشاف کیا کہ اس خط میں عبدالقدوس بزنجو نے آصف علی زرداری کو پیپلزپارٹی میں شمولیت کے امکان کو رد کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہی الیکشن لڑنے کے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ یہ پیپلزپارٹی کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا، اس کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے جن رہنماؤں کے پیپلزپارٹی میں شمولیت کی امید تھی وہ بھی سارے جہانگیر ترین کی پارٹی میں شامل ہوگئے، خیبر پختونخوا سے جن لوگوں کے پیپلزپارٹی سے تمام تر معاملات طے پاچکے تھے وہ بھی اچانک پرویز خٹک کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ حامد میر نے کہا کہ اس طرح پیپلزپارٹی جو تینوں صوبوں میں چند سیٹوں کے ملنے کی امید لگائے بیٹھی تھی وہ ختم ہوگئی ہے، بلکہ سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کے خلاف ایک اتحاد بننے جارہا ہےجس میں جی ڈی اے شامل ہے اور پیر پگارا اس اتحاد میں ایم کیو ایم اور ن لیگ کو بھی شامل کرنے کی کوشش کریں گے، اگر اس اتحاد میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی بھی شامل ہوگئی تو پیپلزپارٹی کیلئے سندھ میں بھی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی ہی جماعت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کےنگراں وزیراعظم بننے سے متعلق قیاس آرائیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اسحا ق ڈار کا شمار پارٹی لیڈر شپ کے قریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے، وہ میرے بھائی ہیں، اگر ان کی خواہش ہے تو میں دعاگو ہوں کہ انہیں وزیراعظم کا عہدہ ضرور ملے،تاہم اگر وہ وزیراعظم بنتے ہیں تو پورے نظام پر سوالیہ نشان آجائے گا۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ میرا نہیں خیال کہ ن لیگ کا جو بھی برانڈ ہوگا وہ نگراں وزیراعظم کیلئے قابل قبول ہوگا، قانون بھی کسی پارٹی سے وابستہ شخص کے ایک نیوٹرل عہدے پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دیتا، اس عمل کی سیاسی جماعتوں، میڈیا اور عوام کی طرف سے بھی مخالفت ہوگی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کیلئے ابھی مختلف ناموں پر قیاس آرائیاں جاری ہیں تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، ابھی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں بھی 15 روز باقی ہیں، ابھی اتنی جلدی بھی ہیں ہے، اس سے قبل نگراں ججز یا بیوروکریٹس کو نگراں سیٹ اپ میں لایا گیا، میرامشورہ ہے کہ کسی غیر جانبدار سیاستدان کو اس بار نگراں وزیراعظم بنایا جائے۔

Back
Top