مفتی منیب الرحمان نے اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ سے انصار عباسی کی "شہزاد اکبر کا ناقابلِ فہم موقف! " کے نام سے پوسٹ شئیر کی جو 19 ملین پاؤنڈ کی برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض سے متعلق طے پاجانے سے متعلق تھی۔
مفتی منیب الرحمان کاکہنا تھا کہ انصار عباسی کے وی لاگ سے معلوم ہوا کہ شہزاداکبر نے ٹیلی فون پر اپنا موقف بیان کیا کہ 19 ملین پاؤنڈ کے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے درمیان طے پانیوالے معاہدے میں حکومت پاکستان کاکوئی لینا دینا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پھر سوال یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے باقاعدہ اجلاس میں بندلفافے میں منظوری لیکر کابینہ کے چہرے پر کالک ملنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسکی شہادت تو کابینہ کے ارکان بھی دے چکے ہیں۔
مفتی منیب الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ عباسی صاحب سے گزارش ہے کہ موصوف سے اس سوال کا جواب معلوم کرکے عوام کو مطمئن کریں۔
اس پر بیرسٹر شہزاداکبر نے مفتی منیب الرحمان کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی صاحب سے انتہائی احترام سے عرض ہے کہ ہمارا مذہب سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے پہنچانے کو انتہائی نا پسند کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ اجلاس میں کوئی بند لفافہ نہ تھا اگر ہوتا تو اسکا دستاویزی ثبوت موجود ہوتا جو کہ نہیں ہےبند لفافہ تین سال بعد وفاداریاں بدلنے والوں کا پروپینگڈہ ہے اور ان سے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ بند لفافہ حکومت جانے کے بعد یاد کیوں آیا؟
شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ ہاں تک بات کابینہ کے اپرول کی ہے تو کا بینہ کے پاس اس معاملے میں این سی اے کو ایک "نان ڈسکلوز انڈرٹیکنگ "دینے کے لیے آیا اور کابینہ نے محض اسی حد تک اپرول دی ۔
شہزاداکبر کے مطابق این سی اے پیسے دینے کا معاہدہ نومبر میں ہی کر چکا تھا اور پیسے بھی متعلقہ اکاونٹ میں نومبر میں ہی ٹرانسفر ہو گے تھے اور کابینہ نے تو "نان ڈسکلوز ایگریمنٹ " دسمبر کو پاس کیاتھا
انکا مزید کہنا تھا کہ سب سے اھم سوال یہی ہے کہ اگر این سی اے نے پیسہ حکومت پاکستان کو دیا تو اسکا ثبوت کہاں ہے؟ جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے اسی لیے کوئی ثبوت بھی نہیں ہے
اس پر مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ شہزاداکبر نے پی ٹی آئی کے کلچر کے برعکس مہذب انداز میں بات کی، میں سنی سنائی بات نہیں کررہا۔یہ بیان فیصل واوڈا، شیریں مزاری اور فوادچوہدری دے چکے ہیں۔